کہانی کی کہانی:’’ماضی سے کمزور ہوتے رشتوں کو اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ کہانی کا راوی اپنے وسیع و عریض سے مکان سے کچھ دن دور رہنا چاہتا ہے اور اسی غرض سے وہ اپنے افسر دوست کے یہاں عظیم آباد جاتا ہے۔ وہاں اسے رے خاندان یاد آتا ہے جن کے گھرانہ سے راوی کے اہل خانہ کے اچھے مراسم تھے۔ ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کرتا ہے تو افسر دوست کا ماتحت بڑی تلاش و جستو کے بعد انجیلا رے کا پتا معلوم کر لیتا ہے لیکن پھر راوی کو ان سے ملنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور بغیر ملے ہوئے اپنے وطن لوٹ آتا ہے.‘‘
(۱)
مجھے عظیم آباد میں پانچواں دن تھا۔ میں وہاں اپنے ایک افسر دوست کے بلاوے پر کچھ دن ان کے ساتھ رہنے کے لئے پہنچا تھا لیکن میرے اس دورے کا اصل مقصد یہ تھا کہ مجھ کو اپنے آبائی مکان سے الگ رہنے کی تھوڑی سی عادت ہو جائے اور افسر دوست کے بلاوے کا بھی اصل مقصد شاید یہی تھا۔
اپنے آبائی مکان میں آدھی صدی سے زیادہ کی مدت گزارنے کے بعد آخر میں نے فیصلہ کیا کہ کسی چھوٹے مکان کی سکونت اختیار کروں۔ اس فیصلے پر خود کو آمادہ کرنے کے لئے مجھے صرف دیر دیر تک سوچنا اور راتوں کو جاگ جاگ کر ٹہلنا پڑا۔ لیکن اس فیصلے پر عمل درآمد کا ایک مرحلہ اپنے مکان کو سامان سے خالی کرنا تھا۔ میرے مکان میں صرف تخت، پلنگ اور میز کرسی قسم کی سالم اور شکستہ چیزیں اتنی تھیں کہ اب جس مکان میں مجھے منتقل ہونا تھا، اس کے سے تین مکان بھی ان کی سمائی کے لئے کافی نہ ہوتے، اس لئے ضروری تھا کہ مکان کی فالتو چیزوں کوعلاحدہ اور بے کار چیزوں کو ضائع کر دیا جائے۔
میں پہلے بھاری سامان کی طرف متوجہ ہوا اور دماغ کو الجھانے والا یہ مرحلہ کسی طرح سر ہو گیا۔ لیکن جب چھوٹی چھوٹی چیزوں کی باری آئی تو دماغ کے ساتھ میرا دل بھی الجھ گیا۔ جس چیز کو بھی میں بے کار سمجھ کر اٹھاتا وہ اچانک بہت کام کی معلوم ہونے لگتی اور اگرچہ اس کا کوئی مصرف میری سمجھ میں نہ آتا لیکن میرا دل اسے ضائع کرنے پر آمادہ نہ ہوتا اور میں اسے وہیں چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوتا تھا۔
اسی الجھن کے زمانے میں ایک دن میں نے ایک صحنچی کی اس دیواری الماری کو کھولا، جس میں میرے بچپن کے زمانے کی فضول چیزیں بھری ہوئی تھیں۔ الماری کے پٹوں کی لکڑی گل گئی تھی اور اندر کی کچھ چیزیں باہر سے بھی نظر آ رہی تھیں۔ خانوں کے تختے نیچے کو جھک گئے تھے اور پشت کی دیوار کی مٹی پھول پھول کر ان پر ڈھیر ہو رہی تھی۔ تمام چیزوں پر گرد کی تہہ آگئی تھی اور ایک نظر دیکھتے ہی معلوم ہو جاتا تھا کہ ان میں سے کوئی بھی چیز کسی بھی کام کی نہیں ہے، پھر بھی میں تختوں پرکی مٹی کریدتا اور ایک ایک چیز کو الٹ پلٹ کر دیکھتا اور نیچے زمین پر ڈالتا رہا۔ میرے بڑے بھائی جواب پردیس میں بس گئے تھے، ان کا سامان بیچ والے والے خانے میں تھا۔ اس میں زیادہ تران کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ادھوری کہانیاں، پسندیدہ شعروں کی کاپیاں اور رسالوں سے کاٹی ہوئی تصویریں تھیں۔
ایک مکمل مگر بلاعنوان افسانہ کسی کی ناپختہ تحریر اور غلط سلط زبان میں تھا اور یہ ’’نوبہار گل ریز‘‘ یا ایسے کسی رومانی نام سے لکھا گیا تھا۔ میں نے اسے سرسری پڑھا۔ یہ ایک ہجرزدہ مفلس عاشق کی نامراد محبت کی داستان تھی جو دولت مند محبوبہ کے نام خطوں کی شکل میں لکھی گئی تھی اوراس میں میرے بچپن کے چلتے ہوئے فلمی گیتوں کے مکھڑوں سے بہت کام لیا گیا تھا۔ آخری خط میں محبوبہ کو اس کی شادی کی مبارکباد اور پھولنے پھلنے کی دعائیں دینے کے بعد ایک مکمل فلمی گیت سے کام لیتے ہوئے خودکشی کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا۔
خود میرا سامان اوپر اور نیچے والے خانوں میں تھا۔ اس میں میرے وقتی مشعلوں کے باقیات، چٹخے ہوئے قلم، چاقوؤں کے زنگ کھائے ہوئے پھل، جادوئی تماشے دکھانے کا ٹوٹا پھوٹا سامان، بچوں کے پھٹے پرانے رسالے وغیرہ تھے۔ ایک کونے میں کسی زمانے کی مشہور ولایتی خوشبو کی دو خالی شیشیاں تھیں۔ یہ خوشبو اپنے وقت میں اتنی مقبول تھی کہ افسانوں میں اس کا نام آتا تھا۔ گہرے نیلے رنگ کی ان چپٹی شیشیوں کے ڈھکن غائب تھے۔ میں نے شیشیوں کو باری باری سونگھا، خوشبو بھی غائب تھی۔
اس افسانے کی طرح ان شیشیوں کو بھی دیکھ کر مجھے کچھ یاد نہیں آیا، لیکن جب میں نے افسانے کے کاغذوں میں شیشیوں کو لپیٹ کر صحن میں پھینکنے کے لئے ہاتھ گھمایا تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ بھی کام کی چیزیں ہیں۔ میرا ہاتھ رکنے لگا اور میں نے انہیں وہیں نیچے زمین پر ڈال دیا۔ الماری کی باقی تمام چیزوں کو دیکھ کر کچھ نہ کچھ یاد آتا تھا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ میں ان میں سے ایک چیز کو بھی الگ نہیں کر سکتا اور جب میں نے انہیں پھینکنے پر خود کو آمادہ کرنے کی کمزور سی کوشش کی تو پتہ چلا کہ میں اپنا مکان چھوڑنے پر بھی خود کو آمادہ نہیں کر سکا ہوں، یہاں تک کہ صحنچی کی میلی دیواروں پر سفیدی کی ڈھلکی ہوئی بوندیں جنہیں معماری کی اصطلاح میں آنسو کہا جاتا ہے، میں انہیں بھی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوں۔
اس وقت ان ڈھلکی ہوئی بوندوں پر نظریں جما کر میں نے خود کو ایسی ایسی باتیں سوچتے ہوئے پایا جنہیں اگر لکھ لیتا تو ان پر نوبہار گل ریز کے کسی افسانے کا گمان ہوتا لیکن اس کا احساس مجھے دیر کے بعد ہوا۔ مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ الماری کو کھول کر میں نے صرف وقت ضائع کیا ہے۔ میں نے زمین پر ڈالی ہوئی سب چیزوں کو، افسانے میں بندھی ہوئی نیلی شیشیوں کی پڑیا کو بھی سمیٹ کر پھر سے الماری میں بھر دیا اور اس کے پٹ کھلے چھوڑ کر صحنچی سے باہر آ گیا۔ میں نے سفر کا مختصر سا سامان درست کیا، راستے میں پڑھنے کے لئے ایک کتاب اٹھائی اور اسی دن عظیم آباد روانہ ہو گیا۔
(۲)
دوست نے تپاک سے میرا خیرمقدم کیا۔ وہ وہاں ڈاک کے محکمے کے سربراہ تھے اور ایک بڑے رقبے کے سرکاری مکان میں رہتے تھے۔ میرے کہنے پر انہوں نے سب سے پہلے مجھ کو اس مکان کی سیر کرائی۔ میں نے اس کی کشادگی کی تعریف کی تو انہوں نے اس کی خرابیوں کا ذکرچھیڑ دیا۔ سب سے بڑی خرابی انہوں نے یہ بتائی کہ اس کے ایک درجے سے دوسرے درجے میں جانے کے لئے لمبا فاصلہ طے کرنا ہوتا تھا۔
’’اب اتنے بڑے مکانوں کا زمانہ نہیں رہا۔‘‘ انہوں نے آخر میں کہا، ’’خاص کر۔۔۔‘ پھر وہ رک گئے اور دوسری باتیں کرنے لگے۔ کئی دن تک دفتری مصروفیتوں کے باوجود اپنے مقامی دوستوں سے میری ملاقاتیں کرواتے رہے۔ وہ مجھ کو اپنے دفتر بھی ساتھ لے جاتے تھے، جہاں تھوڑی تھوڑی دیر بعد ان کے عملے کا کوئی نہ کوئی آدمی ان سے احکام لینے آتا رہتا تھا۔ بیچ بیچ میں ان کو مجھ سے باتیں کرنے کا بھی وقت مل جاتا تھا، لیکن میرا زیادہ وقت وہ کتابیں پڑھنے میں گزرتا تھا جو میں چلتے وقت دوست کے کتب خانے سے نکال لیتا تھا۔
ایک دن میں اپنے گھر سے ساتھ لائی ہوئی کتاب لے کر ان کے دفتر پہنچا۔ عملے کے آنے جانے کا سلسلہ شروع ہونے سے پہلے ہم ادھر ادھر کی باتیں کر رہے تھے۔ دوست نے اپنی سرکاری زندگی کی پیچیدگیوں کا ذکر کیا۔ سب سے زیاد ہ افسوس ان کو اس کا تھا کہ شہر بھر میں ان کے محکمے کے ملازم پھیلے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے ان کا گلی کوچوں میں بے مقصد گھومنا پھرنا ممکن نہیں رہا۔
’’کہیں بھی جاؤں۔۔‘‘ انہوں نے بیزاری کے ساتھ کہا، ’’کوئی نہ کوئی پہچاننے والا دیکھ لےگا اور سوچنے لگے گا کہ صاحب یہاں کیا کر رہے ہیں۔‘‘
’’تو سوچنے دیجئے۔‘‘ میں کہا۔
’’پھر اپنی طرف سے کچھ قیاس کرےگا۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر؟ پھر اس قیاس پر یقین کر لےگا۔ پھر دوسروں کو یقین دلائےگا۔ پھر کوئی ایسی بات مشہور ہو جائےگی جو میں نے خواب میں بھی نہ سوچی ہو۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ میں نے کہا، ’’شہرت کی کچھ قیمت تو چکانی پڑتی ہے۔‘‘
’’شہرت کی قیمت۔۔۔‘‘ انہوں نے حقارت سے کہا اور پہلے سے بھی زیادہ بیزار ہوگئے۔
’’کم سے کم آپ کے محکمے میں۔۔۔‘‘
’’میرے محکمے میں۔۔۔‘‘ وہ کہتے کہتے رکے اور اچانک ان کی بیزاری ختم ہو گئی، ’’آپ کو شاید خبر نہیں، میرے محکمے میں تو اس وقت آپ کی شہرت گونج رہی ہے۔‘‘
’’میری؟ میں نے کیا کیا ہے؟‘‘
’’سب سخت پریشان ہیں کہ یہ پر اسرار شخص کون ہے جس کو صاحب سائے کی طرح ساتھ رکھتے ہیں۔‘‘
’’یا جو سائے کی طرح صاحب کے ساتھ لگا رہتا ہے۔‘‘
’’یا صاحب جس کے ساتھ سائے کی طرح لگے رہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا اور ہنسنے لگے۔
’’تو میرا نام پتا بتا کر بےچاروں کی پریشانی ختم کیجئے۔‘‘
’’بےچاروں کی پریشانی تو ختم ہو جائےگی لیکن اس کے بعد آپ کی پریشانی جو شروع ہوگی۔۔۔‘‘
پھر انہوں نے تفصیل کے ساتھ بتایا کہ ان تک سفارش پہنچانے کے لئے لوگوں کو ان کے قریبی دوستوں کی تلاش رہتی ہے اور سب کو یقین ہو گیا ہے کہ ان کے پراسرار دوست سے زیادہ کسی کی سفارش ان پر اثر نہیں کر سکتی اور اگر ان لوگوں کو میرا نام پتا معلوم ہو گیا تو میں کبھی چین سے نہ بیٹھ سکوں گا۔
’’لیکن میں تو کچھ دن میں یہاں سے رخصت ہو جاؤں گا۔‘‘
’’کہیں بھی چلے جائیے۔‘‘ وہ بولے، ’’میرے محکمے کے لئے آپ کو ڈھونڈھ نکالنا کیا مشکل ہے۔‘‘
’’پھر مجھے گمنام رہنے دیجئے۔‘‘
’’جی ہاں، میں اس کی خاص احتیاط کر رہا ہوں۔ آپ بھی احتیاط رکھئےگا۔‘‘
کچھ دیر بعد ان کی مصروفیت کا وقت آ گیا اور وہ عملے کے لوگوں کو بلوا بلوا کر ہدایتیں دینے لگے اور میں اپنے ساتھ لائی ہوئی کتاب بے توجہی سے پڑھتا رہا۔ میں نے شروع کے آٹھ دس صفحے پڑھے ہوں گے کہ دوست کی آواز سنائی د ی، ’’کیا پڑھا جا رہا ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘ میں نے کتاب ان کے ہاتھ میں دے دی، ’’گھر سے چلتے وقت اٹھا لایا تھا۔ راستے میں پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔‘‘
انہوں نے بلند آواز سے کتاب کا نام پڑھا۔
’’میں خود اس کا دیوانہ تھا۔‘ وہ بولے، ’’مجھے تو اس کے بعض حصے آج تک زبانی یاد ہیں۔‘‘
’’مجھے بھی۔‘‘ میں نے کہا۔
’’اور آپ کو معلوم ہے؟‘‘ انہوں نے کہا، ’’اس کا مصنف اسی شہر میں زندہ موجود ہے۔‘‘
’’معلوم ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’سوچتا ہوں کسی دن ملا جائے۔‘‘ وہ بولے اور کتاب کے ورق پلٹنے لگے۔ پھر انہوں نے جھک کر زمین پرسے کوئی چیز اٹھائی، کچھ دیر تک اسے دیکھتے رہے، پھر میری طرف بڑھا کر بولے، ’’آپ کی تعریف؟‘‘
یہ ایک جوان لڑکی کی تصویر تھی۔ کاغذ کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا لیکن تصویر بہت صاف آئی تھی۔ لڑکی اپنے روکھے بال کندھوں پر پھیلائے، آنکھوں میں رازوں بھری چمک اور ہونٹوں پر افسردہ سی مسکراہٹ لانے کی کوشش کرتی ہوئی میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں نے تصویر کو کچھ دیر تک دیکھنے کے بعد دوست سے کہا، ’’آپ ہی بتائیے۔‘‘
’’آپ بتائیے۔‘‘ وہ بولے، ’’یہ خاتون آپ ہی کے قبضے سے برآمد ہوئی ہیں۔‘‘
انہوں نے کھلی ہوئی کتاب مجھ کو دکھائی۔ اس کا کاغذ مٹ میلا ہو چکا تھا لیکن داہنے اور بائیں صفحے پر تصویر کی ناپ کے چوکھٹے سفید رہ گئے تھے۔ میں نے تصویر کو ہتھیلی پر رکھ کر ذرا دیر تک غور سے دیکھا۔ گردن تھوڑی آڑی کیے میری طرف دیکھتی ہوئی صورت مجھے آشناسی معلوم ہوئی۔ چند لمحوں کے لئے مجھ کو اس پر ایک پرانی فلمی اداکارہ کا گمان ہوا۔ لیکن یہ اس کی تصویر نہیں تھی۔ میں نے تصویر کو پلٹ کر دیکھا۔ پشت پربہت کچی تحریر میں صرف اتنا لکھا تھا، ’’میں وہم نہیں حقیقت ہوں۔‘‘
میں اس فقرے سے آشنا تھا۔ یہ اسی اداکارہ کا، غالباً اس کی پہلی فلم کا بولا ہوا ایک مکالمہ تھا جو بہت مقبول ہوا تھا۔ میں نے پلٹی ہوئی تصویر اپنے دوست کے ہاتھ میں دے دی۔ وہ تحریر کو دیکھ کر زور سے ہنسے، پھر اس فقرے کو مختلف ڈرامائی لہجوں میں بار بار دہرانے لگے اور مجھے محسوس ہوا کہ میرا ذہن الٹے قدموں چلتا ہوا مجھ سے دور ہو رہا ہے۔ تصویر پھر میرے ہاتھ میں تھی اور اس کے پیچھے مجھ کو طرح طرح کے منظر ابھرتے اور دھندلا کر غائب ہوتے محسوس ہو رہے تھے۔ آخر مجھے اپنے دوست کی آواز پھر سنائی دی:
’’میں وہم نہیں۔‘‘ وہ کسی زبردست راز کا انکشاف کرنے والے لہجے میں کہہ رہے تھے، ’’حقیقت ہوں!‘‘ پھر انہوں نے اسی تصویر کی سی صورت بنانے کی کوشش کرتے ہوئے میری طرف دیکھا اور میں نے کہا، ’’یہ میری بڑی بہن کی دوست تھیں، اینگلو انڈین۔‘‘
’’تو ان کی تصویر آپ کیوں لئے پھرتے ہیں؟‘‘
’’یہ میری بہن کی کتاب ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’اور آج کوئی چالیس برس کے بعد کھولی گئی ہے۔ تصویر میں نے اس وقت دیکھی تھی جب یہ تازہ تازہ کھنچی تھی۔‘‘ انہوں نے تصویر میرے ہاتھ سے لے لی۔ کچھ دیرتک سنجیدگی کے ساتھ اسے دیکھتے رہے، پھر بولے، ’’اینگلو انڈین، تو آپ لوگوں سے کہاں ٹکرا گئیں؟‘‘
’’میری بہن کے ساتھ پڑھتی تھیں، عیسائی اسکول تھا۔ کئی لڑکیاں ساتھ مل کر امتحان کی تیاری کرتی تھیں۔ ہمارے ہی گھر میں۔ اس زمانے میں ہمارے یہاں بڑی چہل پہل رہتی تھی۔‘‘
دوست نے تصویر کو پلٹ کر دیکھا۔
’’میں وہم نہیں حقیقت ہوں۔‘‘ انہوں نے پڑھا۔
’’ادب سے بھی شوق فرماتی تھیں؟‘‘
’’نہیں، فلمی فقرہ ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’لیکن ان کے بھائی افسانے لکھتے تھے، نوبہار گل ریز کے نام سے۔‘‘
’’نوبہار گل ریز؟‘‘ دوست نے برا سا منہ بنایا۔ انہیں بھی شاعرانہ قلمی ناموں سے چڑ تھی۔
’’کبھی نام نہیں سنا۔‘‘
’’وہ میرے بھائی صاحب سے افسانوں پر اصلاح لیتے تھے۔‘‘ میں نے انہیں بتایا، ’’مگر ان کے افسانے چھپنے کے قابل نہیں ہو پاتے تھے۔‘‘
’’اصلاح کے بعد بھی؟‘‘
’’ان میں افسانے کم، فلمی گانے زیادہ ہوتے تھے۔ گیتوں بھری کہانیاں سمجھئے۔‘‘
’’نوبہار گلریز!‘‘ دوست نے پھر برا سا منھ بنایا، ’’اور ان خاتون کا نام؟‘‘
’’وہی یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اس خوشبو کا نام تو یاد آ رہا ہے جو وہ استعمال کرتی تھیں۔ اس کی شیشیاں خالی ہو جانے پر وہ مجھے دے دیتی تھیں۔‘‘
’’خالی شیشیاں؟‘‘
’’مجھے ان کا نیلا رنگ اچھا لگتا تھا۔‘‘
’’نیلے رنگ پر یاد آیا۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’حکیم جالینوس کا نیا خواب آپ نے سنا؟ کچھ دن ہوئے ان کا خط آیا تھا کہ وہ فالج کے ایک مریض کا نیلے رنگ سے علاج کر رہے ہیں اور اس کو قریب قریب ٹھیک کر لائے ہیں۔ آپ کے پاس خط نہیں آیا؟‘‘
’’آیا تھا، مگراس میں صرف یہ لکھا ہے کہ مجھ کو کن کن رنگوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔‘‘
’’اور وہ کون کون سے مخدوش رنگ ہیں؟‘‘
’’جتنے رنگوں کے نام مجھے معلوم ہیں، وہ سب، اور ان کے علاوہ بھی کئی، جن میں سے دو کو وہ میرے مزاج کے آدمی کے لئے قاتل بتاتے ہیں۔‘‘
دفتر کا باقی وقت انہیں حکیم کے لطیفوں میں گذر گیا۔ بڑھاپے نے ان کے دماغ پر اثر کیا تھا۔ وہ مجھے اور میرے دوست کو لمبے لمبے خط لکھتے تھے جن میں ان کے طبی کارناموں کا تذکرہ زیادہ ہوتا تھا۔ ان کو یقین تھا کہ ساری دنیا میں ہم دو ہی ان کے قدردان رہ گئے ہیں۔ انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ ہم نے ان کا نام حکیم جالینوس رکھا ہے۔
(۳)
میری واپسی کا وقت قریب تھا۔ دوست کے یہاں تین دن کی چھٹیاں ہونے والی تھیں جن کے بعد میرا جانا طے تھا۔ چھٹیاں شروع ہونے سے ایک دن پہلے میں دفتر میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور وہ اپنے ڈرائیور کو کچھ ہدایتیں دے رہے تھے۔ ڈرائیور واپس جانے لگا تو انہوں نے اس کو روکا اور مجھ سے بولے، ’’اگر آپ کو یہاں کسی سے ملنے جانا ہو تو گاڑی حاضر ہے۔‘‘
’’یہاں جو آپ کے دوست ہیں انہیں میں کچھ میرے بھی دوست ہیں۔ سب سے ملاقات ہو گئی، اب آپ ہی رہ گئے ہیں۔‘‘ وہ زور زور سے ہنسے، پھر سنجیدہ ہو کر اپنی دفتری مصروفیتوں کی شکایتیں کرنے لگے۔
’’کل سے جم کر گفتگوئیں ہوں گی۔‘‘ انہوں نے ڈرائیور کو جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ڈرائیور کے جانے کے بعد مجھے یاد آیا اور میں نے کہا، ’’اس دن کتاب میں سے جن کی تصویر نکلی تھی۔۔۔‘‘
’’وہی جو وہم نہیں حقیقت تھیں؟‘‘
’’تھیں یا ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’ہاں وہی، وہ شاید یہیں رہتی ہیں۔‘‘
’’نام یاد آیا؟‘‘
’’صرف اتنا یاد آیا ہے کہ ان کا خاندانی نام رے تھا۔‘‘
’اوروہ یہاں عظیم آباد میں رہتی ہیں؟‘‘
’’برسوں پہلے، یاد نہیں کس طرح، معلوم ہوا تھا کہ وہ عظیم آباد میں ہیں۔ معلوم نہیں اب بھی ہیں یا نہیں۔‘‘
’’معلوم ہو جائےگا۔‘‘
’’مشکل ہے۔‘‘
’’ہمارے محکمے کے لئے مشکل نہیں۔ دیکھتے جائیے۔‘‘
انہوں نے گھنٹی بجاکر چپراسی کو بلایا اور کہا، ’’فرینک کو بھیج دو۔‘‘
فرینک ادھیڑعمر کے خوش پوشاک آدمی تھی۔ میں انہیں دفتر میں پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔ انہوں نے اندر آ کر ہم دونوں کو سلام کیا اور دوست کے سامنے کھڑے ہو گئے۔
’’فرینک!‘‘ دوست نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’انہیں یہاں ایک کرسچین خاتون سے ملتا ہے۔ وہ رے خاندان کی ہیں۔ نام پتا کچھ نہیں معلوم۔‘‘
’’اینجلا ان کا نام ہے۔‘‘ اچانک مجھے یاد آ گیا، ’’اینجلا رے۔‘‘
’’ان کا اتا پتا معلوم کرنا ہے، یہ تین دن بعد واپس جا رہے ہیں۔‘‘
’’معلوم ہو جائےگا سر!‘‘ فرینک مستعدی سے بولے، ’’کل، زیادہ سے زیادہ پرسوں، بتادوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، ہم گھر ہی پر رہیں گے۔‘‘
فرینک سلام کر کے واپس جاتے جاتے رکے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا، ’’سر، اگر وہ مل جائیں تو انہیں کیا بتاؤں گا؟‘‘
دوست نے جواب دیا، ’’کہنا آپ کے ایک پرانے دوست۔۔۔‘‘ وہ ذرا رکے۔
’’پرانی دوست کے بھائی۔‘‘ میں نے کہا۔
’’پرانی دوست کے بھائی یہاں آئے ہوئے ہیں۔‘‘ دوست نے کہا، ’’آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’سر، اگر وہ نام پوچھیں؟‘‘
’’نام بھی بتا دیا جائےگا۔‘‘ دوست نے کہا، ’’پہلے ان کا پتا تو لگاؤ۔‘‘
(۴)
فرینک تیسرے دن سہ پہر کو آئے۔ کچھ تھکے ہوئے اور شرمندہ سے معلوم ہو رہے تھے۔ آتے ہی کہنے لگے، ’’سر، رے فیملی کا کوئی پتا نہیں چل رہا ہے۔‘‘
دوست نے میری طرف دیکھا۔
’’چھوڑیے۔‘‘ میں نے کہا، ’’وہ لوگ کہیں اور چلے گئے ہوں گے۔‘‘
’’ہاں!‘‘ دوست نے کہا، ’’انہیں بہت پہلے معلوم ہوا تھا کہ۔۔۔‘‘
’’نہیں سر!‘‘ فرینک بولے، ’’وہ لوگ اگر کبھی بھی یہاں رہے ہوتے تو معلوم ہو جاتا۔ چھوٹی کمیونٹی ہے، سب کو ایک دوسرے کی خبر رہتی ہے۔‘‘ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوئے، ’’سر، معاف کیجئےگا، آپ کوان کا نام ٹھیک یاد ہے؟‘‘
’’ہاں بھئی۔‘‘ میں نے کہا، ’’اینجلارے ان کا نام تھا۔ ان کے بھائی۔۔۔‘‘
’’وہی گلشن ہمیشہ بہار؟‘‘ دوست نے مسکرا کر سرگوشی کی۔
’’نوبہار گل ریز۔‘‘ میں نے بھی سرگوشی میں جواب دیا، پھر فرینک سے کہا، ’’بھائی کا نام جولین رے تھا۔ ایک بہن میڈلین رے۔ ان سب سے بڑی ایک اور بہن تھیں۔‘‘ مجھے وہ بہن یاد آئیں، ’’اور ہاں۔۔۔‘‘ مجھے کچھ اور یاد آ گیا، ’’ان کی ماں کی وفات لکھنؤ میں ہوئی تھی۔ انہیں کینسر ہو گیا تھا۔‘‘ اور مجھے ایک جھرجھری آئی۔
اینجلا کی ماں کو میں نے دیکھا نہیں تھا، لیکن ان کی بیماری کا چرچا ہمارے یہاں ہوتا تھا اور میں سنتا تھا کہ ان کے بچنے کی امید نہیں ہے۔ ہم لوگ ان کے آخر وقت میں انہیں دیکھنے گئے تھے۔ وہ پہلا اور آخری موقع تھا جب میں نے اینجلا کا گھر اور اینجلا کو گھر میں دیکھا تھا۔ چھوٹا سا صاف ستھرا مکان اوراس کے آگے گھاس کا ایک چھوٹا سا قطعہ تھا، جسے پھولوں کی دو تین کیاریوں اور مورپنکھی کے ایک درخت کی وجہ سے باغیچہ کہا جا سکتا تھا۔ مکان کی پشت پر دور کسی اور جگہ لگے ہوئے یوکلپٹس کے درخت جھومتے نظر آ رہے تھے۔ ہم لوگ سورج ڈوبتے وقت وہا ں پہنچے تھے۔ باغیچے کے پھاٹک کے آگے اینجلا معمولی لباس پہنے انتظار میں کھڑی تھیں۔ انہوں نے میری بہن اور دوسری سہیلیوں کو باری باری چمٹایا۔ اسی میں ان کی نظر مجھ پرپڑی اور انہوں نے کہا، ’’تم بھی آ گئے؟‘‘
پھرانہوں نے ہم سب کو مکان کے باہر کی طرف والے کمرے میں بٹھایا اور کمرے سے نکل گئیں۔ فورا ہی واپس آئیں اور سہیلیوں سے دھیمی آواز میں باتیں کرنے لگیں۔ کمرے کا سامان معمولی مگربڑے قرینے سے سجا ہواتھا۔ معلوم ہوتا تھا ہر چیز کی ابھی ابھی جھاڑ پونچھ ہوئی ہے۔ میں نے ایک ایک چیز کو دلچسپی سے دیکھا۔ کچھ دیر بعد میڈلین کمرے میں داخل ہوئیں اور اینجلا اٹھ کر کھڑی ہو گئیں۔
’’آؤ۔‘‘ انہوں نے اپنی سہیلیوں سے کہا اور جب ہم کمرے سے باہر نکلنے لگے تو وہ مجھ سے بولیں، ’’تم چاہے یہیں بیٹھو۔‘‘
لیکن میں سب کے پیچھے پیچھے باہر نکل آیا۔ پتلے برآمدے میں داہنے ہاتھ پرایک اور دروازہ تھا اور اس سے کچھ آگے بڑھ کر ایک اور۔ ہم اس آخری دروازے میں داخل ہوئے۔ یہ چھوٹا سا کمرہ تھا۔ میری ناک میں دواؤں کی بو آئی جس سے مجھے وحشت ہوتی تھی۔ کمرے میں دواؤں کی میز کے علاوہ بچو ں والی ایک پلنگڑی اورایک بڑی مسہری تھی۔ پلنگڑی کی سفید چادر پربغیر تہہ کیا ہوا کتھئی رنگ کا ایک سوتی کمبل پڑا تھا۔ پلنگڑی سے ملی ہوئی مسہری پر بھاری بدن کی ایک خاتون بیٹھی ہوئی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انہیں آنکھیں کھلی رکھنے میں دشواری ہو رہی ہے۔ سب لڑکیوں کی نظریں انہیں پر جمی ہوئی تھیں۔ مجھ کو وہ اتنی بیمار نہیں معلوم ہوئیں کہ ان کے بارے میں مایوسی کی باتیں کی جائیں، البتہ وہ خود مایوسی کی باتیں کر رہی تھیں۔
کسی کے کچھ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ راتوں کو لگاتار جاگنے کی وجہ سے ان کا دماغ کام نہیں کر رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جولین کو تار دے دیا گیا ہے کہ آکر ماں کو دیکھ لیں اور جولین کے ابھی تک نہ پہنچنے پر تشویش ظاہر کی۔ اسی سلسلے میں انہوں نے اینجلا سے کچھ پوچھا اور اینجلا نے جواب دے کر آنکھوں پر رومال رکھ لیا۔ میں پلنگڑی کی پٹی پر گھٹنے ٹکائے کھڑا ان خاتون کو دیکھ رہا تھا کہ مجھے محسوس ہوا پلنگڑی نے ہلکی سی جھرجھری لی ہے۔ اسی وقت میری بہن نے کوئی تسلی کی بات کہی اور خاتون نے مایوسی کا جواب دے کر پلنگڑی کی طرف اشارہ کیا۔ پلنگڑی نے پھر ہلکی سی جھرجھری لی اور میں نے دیکھا کہ کتھئی کمبل ذرا سا ہلا۔
کمبل میں لپٹا سکڑا ہوا بدن مجھے نظرنہیں آیا لیکن کھلے ہوئے چہرے کو میں نے غور سے دیکھا۔ یہ میری طرف کروٹ لئے ہوئے ایک بوڑھی عورت کا جھلسا ہوا کتھئی چہرہ تھا، جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی اور بند تھیں۔ چہرے سے اذیت ظاہر تھی لیکن وہ عورت ہنس رہی تھی، اس طرح کہ سفید دانتوں کی دونوں قطاروں کی آخری ڈاڑھیں تک دکھائی دے رہی تھیں۔ کمرے کی خاموشی میں مجھے اینجلا کی تیز سسکی اور گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی، ’’ادھرنہ دیکھو!‘‘
لیکن میں نے دیکھا کہ اسی ہنستی ہوئی عورت کے مرجھائے ہوئے ہونٹ سختی سے بھنچے ہوئے ہیں۔ مگر اس کے دانت اب بھی اسی طرح نظر آرہے تھے۔ تب مجھے پتا چلا کہ وہ ہنس نہیں رہی ہے۔ ہونٹو ں کے کونے سے لے کر کان کی لو تک اس کے داہنے رخسار کا سارا گوشت گل کر غائب ہو چکا تھا۔
کوشش کے باوجود میری نظریں کھلے ہوئے دانتوں پر سے ہٹ نہیں پارہی تھیں اور میرے گھٹنے پلنگڑی کی پٹی سے چپک کر رہ گئے تھے۔ میری یہ کیفیت کسی کسی ڈراؤنے خواب میں ہو جاتی تھی اور اس کا علاج آنکھ کا کھل جانا ہوتا تھا۔ لیکن اس وقت، جاگتے میں، میری سمجھ میں اس کے سوا کچھ نہ آیا کہ آنکھیں بند کر لینے کی کوشش کروں۔ میں نے کوشش کی لیکن آنکھوں نے بند ہونے سے انکار کر دیا۔ میں نے پیچھے ہٹنا چاہا لیکن پلنگڑی کی پٹی نے میرے گھٹنوں کو جکڑ رکھا تھا۔ اس کشمکش میں مجھ کو اینجلا کا ہاتھ اپنے کندھے پر محسوس ہوا۔ انہوں نے مجھ کوآہستہ سے اپنی طرف کھینچا اور میرا ہاتھ پکڑ کر اس کمرے سے باہر لے آئیں۔ وہ مجھے پتلے برآمدے کے درمیانی کمرے میں لائیں جہاں کھانے کی میز پر چنے ہوئے سامان، شیشے کے گلاسوں اور گلاسوں میں پھنسے ہوئے سفید کاغذی رومالوں کو میں نے دھندلائی ہوئی نظروں سے دیکھا۔ کمرے میں تازہ پھلوں اور پیسٹری کی خوشبو تھی لیکن اس نے مجھ پرکوئی اثر نہیں کیا۔ اینجلا نے ایک طشتری میں کئی چیزیں نکال کرمیری طرف بڑھائیں لیکن میں نے کھانے سے انکار کردیا اور گھٹی ہوئی آواز میں صرف اتنا پوچھا، ’’وہاں جو مسہری پر بیٹھی ہوئی تھیں، وہ کون تھیں؟‘‘
اینجلا نے بتایا کہ وہ ان کی سب سے بڑ ی بہن ہیں جوماں کی تیمارداری کے لئے آئی ہوئی ہیں۔ پھرانہوں نے مجھ کو سمجھانا بجھانا شروع کیا۔ وہ بار بار زور دے کر کہہ رہی تھیں کہ ان کی ماں ہمیشہ سے ایسی نہیں تھیں۔ انہوں نے رومال سے میرا چہرہ پونچھا۔ مجھے رومال میں ان کے آنسوؤں کی نمی اور نیلی شیشی والی خوشبو کی ہلکی سی لپٹ محسوس ہوئی۔ اینجلا تیزی سے کمرے کے باہر گئیں اور ہاتھ میں ایک البم لئے ہوئے واپس آئیں۔ انہوں نے مجھ کو اپنی ماں کی پرانی تصویریں دکھائیں۔ ان کی شکل اینجلا سے بہت ملتی تھی اور مسکرانے میں بیٹی کی طرح ان کے بھی گال میں گڑھا پڑتا تھا۔ اینجلا بتاتی جا رہی تھیں کہ کون سی تصویر کس موقع کی ہے۔ کئی تصویروں پر مجھ کو اینجلا کا دھوکہ ہوا لیکن ان تصویروں میں اینجلا خود بھی موجود تھیں، کبھی ماں کی گود میں، کبھی ان کی انگلی پکڑے ہوئے۔ میں دلچسپی کے بغیران تصویروں کو دیکھتا رہا، یہاں تک کہ میڈلین کے ساتھ میری بہن اور دوسری سہیلیاں کمرے میں آ گئیں۔
فرینک اور میرے دوست کسی بات پر ہنسے اور مجھے محسوس ہوا کہ اینجلا کا ہاتھ ابھی ابھی میرے کندھے پر سے ہٹا ہے۔ وہ دونوں شہر کے مختلف ڈاک خانوں اور ان کے عملے کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ فرینک ایک بار پھر معافی مانگتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئے، ’’سر، ان لیڈی کی شادی ہو گئی تھی؟‘‘
’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘ میں نے جواب دیا، ’’ہو ہی گئی ہوگی۔ چالیس سال پہلے تک تو نہیں ہوئی تھی۔‘‘
’’میرا مطلب ہے شادی کے بعد ان کے نام میں رے کی جگہ۔۔۔‘‘
’’ہاں! اس کا تو ہم نے خیال ہی نہیں کیا۔‘‘ دوست نے چونک کر کہا، ’’اگران کی شادی، فرض کیجئے ہمارے فرینک کے ساتھ ہو گئی۔۔۔‘‘
’’سر۔۔۔‘‘ فرینک نے کچھ کہنا چاہا، پھر شرما کر ہنسنے لگے۔
’’تو اب وہ اینجلا فرینک ہوں گی، بلکہ صرف مسزفرینک۔۔۔ کیوں جی۔‘‘ وہ فرینک کی طرف مڑے، ’’اب کے کرسمس میں مسز فرینک سے ان کا نام پوچھ لوں؟‘‘ فرینک پھر ’’سر‘‘ کہہ کر شرما گئے۔
’’آپ کو خواہ مخواہ پریشان ہونا پڑا۔‘‘ میں نے فرینک سے کہا۔
’’ہاں، میرا خیال ہے اب ان خاتون کا خیال چھوڑ دینا چاہئے۔‘‘ دوست بولے، ’’فرینک ایسی چیز ہیں کہ اینجلا کے نام سے بھی ان کو ڈھونڈ نکالتے۔ اگر وہ انہیں بھی نہیں ملیں تو سمجھ لینا چاہئے۔۔۔‘‘
’’نہیں سر، میں اینجلا سے زیادہ رے پردھیان دے رہا تھا۔‘‘
’’پھر بھی۔‘‘ دوست نے کہا، ’’میں سمجھتا ہوں وہ عظیم آباد میں کبھی رہتی ہی نہیں تھیں۔‘‘
’’جی!‘‘ میں نے کہا، ’’شاید مجھ کو غلط یاد آیا۔‘‘ دوست نے فرینک کا شکریہ ادا کیا، میں نے معذرت کی، اور فرینک ’’کوئی بات نہیں سر‘‘ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے مجھ کو ایک بار غور سے دیکھا، کچھ پوچھتے پوچھتے رکے اور سلام کر کے چلے گئے۔
’’اور اس طرح۔۔۔‘‘ میرے دوست نے مکالمہ بولنے کے انداز میں کہا، ’’اس طرح، بی بی اینجلا رے، یا اینجلا کوئی اور! ہم آپ کی تلاش میں ناکام ہوئے۔‘‘
’’ہمیں ان کی تلاش تھی ہی نہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’پھر ناکامی اور کامیابی۔۔۔‘‘
’’اور اس طرح بی بی اینجلا رے، یا اینجلا کوئی اور!‘‘ دوست اسی اندازمیں بولے، ’’اس طرح ثابت ہوا کہ آپ حقیقت نہیں، وہم ہیں۔‘‘
’’لیکن چالیس سال۔۔۔‘‘
’’اگرچہ چالیس سال پہلے، بی بی اینجلا، آپ وہم نہیں، حقیقت تھیں۔‘‘
’’اور اگر آپ اسی رنگ میں بولتے رہے تو آپ کوبی بی اینجلا کی بددعا لگ جائےگی، پھر آپ اسی رنگ میں بولنے۔۔۔ بولنے ہی نہیں لکھنے بھی لگیں گے۔‘‘
’’بی بی اینجلا، اگر مجھ کو آپ کی بددعا لگ گئی تو میں حکیم جالینوس کے کسی قاتل رنگ سے خودکشی کر لوں گا۔‘‘ انہوں نے بڑے عزم کے ساتھ کہا۔ اسی رات ہم حکیم جالینوس کے نام اپنے مشترکہ خط کا مسودہ تیار کر رہے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ دوست نے ریسیور اٹھایا۔ کچھ دیر تک کچھ سنتے رہے، پھر ’’ایک منٹ‘‘ کہہ کر میری طرف مڑے۔ ماؤتھ پیس پر ہاتھ رکھ کر انہوں نے کہا، ’’عظیم افسانہ نگار، گلزار پر بہار، غالباً دریافت ہو گئے ہیں۔‘‘
’’جولین رے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جی!‘‘ وہ ریسیور میری طرف بڑھا کر بولے، ’’بات کر لیجئے۔‘‘
’’کیا وہ خود ہیں؟‘‘ میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’نہیں فرینک ہیں۔‘‘
’’تو آپ ہی بات کر لیجئے۔‘‘ میں نے کہا اور بیٹھ گیا۔
’’ہاں بھئی، فرینک۔۔۔‘‘ دوست نے فون میں کہا اور دیر تک خاموشی کے ساتھ دوسری طرف کی آواز سنتے رہے، پھر بولے، ’’کہاں۔۔۔؟ اور یہ کب کی بات ہے۔۔۔؟ ظاہر ہے۔۔۔ نہیں، ڈینیل کو میں جانتا ہوں، خبطی ہو گئے ہیں، ہر سال تو اپنی عمر میں دس پانچ سال گھٹا بڑھا دیتے ہیں۔۔۔ ہاں، کچھ بھی نہیں۔۔۔ خیر، دیکھ لو۔‘‘
انہوں نے ریسیور رکھ دیا اور کہنے لگے، ’’فرینک نے ایک صاحب کو ڈھونڈ نکالا ہے جن سے کسی زمانے میں رے خاندان کا ایک نوجوان گٹار بجانا سیکھتا تھا۔ انہیں اس کا پہلا نام یاد نہیں، ہو سکتا ہے پوچھا ہی نہ ہو۔‘‘
’’یہ کون صاحب ہیں؟‘‘
’’ڈینیل بار۔ یہ شہر شہر گھوم کر گٹار سکھانے کے عارضی اسکول کھولتے تھے۔ گٹار فروخت بھی کرتے تھے۔ خریدار، ظاہر ہے، زیادہ تر ان کے شاگرد ہوا کرتے تھے۔‘‘
’’جولین۔۔۔ اس نوجوان رے سے ان کی ملاقات کہاں ہوئی تھی؟‘‘
’’یہی تو مصیبت ہے۔‘‘ دوست نے کہا، ’’ڈینیل ہمارے حکیم جالینوس سے بھی زیادہ بوڑھے ہیں اور ان کے زمان ومکان کچھ اور ہوگئے ہیں۔ بتاتے ہیں رے سے ان کی ملاقات بیس سال پہلے ہوئی تھی لیکن ان کے بیس سال کا مطلب دو سال بھی ہو سکتا ہے اور دو سو سال بھی۔‘‘
’’ملاقات کہاں ہوئی تھی؟‘‘ میں نے پھر پوچھا۔ دوست نے کسی پوپلے بوڑھے کی سی تھرتھراتی اور اٹکتی ہوئی آواز بنا کر کہا، ’’ساؤتھ کے کسی شہر میں، نہیں تو نارتھ کے۔۔۔‘‘ پھر دانت پیس کر بولے، ’’پاگل کر دینے والا آدمی ہے۔ مگر اپنے فن کا استاد تھا۔‘‘
’’غرض کچھ بھی معلوم نہیں ہوا۔‘‘
’’نہیں۔ بہرحال تھوڑ امکان ہے کہ ڈینیل والے رے آپ کے جولین ہی ہوں۔‘‘ دوست نے کہا اور عجیب طرح سے مسکرائے، ’’اور فرینک دعا کر رہے ہیں کہ وہی ہوں۔‘‘
’’اس سے کیا حاصل ہوگا؟‘‘
’’حاصل؟‘‘ انہو ں نے کہا، ’’آگے سنئے۔ ڈینیل کو وہ نوجوان رے اس لئے یاد رہ گیا کہ گٹار کے سبق شروع ہونے کے تھوڑے ہی دن بعد اس نے خود کشی کر لی۔ ڈاکٹروں نے اسے کینسر بتا دیا تھا۔‘‘ کچھ دیرتک ہم دونوں خاموش بیٹھے رہے۔
’’اس سے بھی کیا حاصل؟‘‘ آخر میں نے پوچھا۔
’’حاصل یہ کہ ڈینیل کا وہ شاگرد اگر نوبہار۔۔۔ اگر جولین رے تھا تو فرینک کو امید ہے اس کے حوالے سے اینجلا کا سراغ مل جائےگا۔‘‘ وہ پھراسی طرح مسکرائے، ’’کسی بےنشان اینگلوانڈین عورت کے مقابلے میں ایسی اینگلو انڈین عورت کا پتا چلانا آسان ہے جس کے بھائی نے خودکشی کر لی ہو۔‘‘
افسر دوست کی اپنی بھی کچھ پریشانیاں تھیں۔ اس رات سونے سے پہلے بہت دیر تک ہم انہیں کے بارے میں گفتگو کرتے رہے اور دوسرے دن میں دیر تک سوتا رہا۔ میری آنکھ ناشتے کے برتنوں کی آواز سے کھلی، پھر مجھے اپنے سرہانے دوست کی اونچی آواز سنائی دی، ’’بھیانک سازش کا پراسرار سرغنہ کب تک سوتا رہےگا؟‘‘ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’اگر خطاب مجھ سے ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’تو میں جاگ رہا ہوں۔‘‘
’’خطاب آپ سے ہے اور آپ کے سوا کسی سے نہیں ہے۔‘‘ پھر انہوں نے دو ورق کا میلے کاغذ پر بہت برا چھپا ہوا ایک اخبار میری گود میں ڈال دیا اور بولے، ’’ملاحظہ کیجئے۔‘‘
یہ آئے دن جاری ہونے اور بند ہو جانے والے ان اخباروں میں سے معلوم ہوتا تھا جن میں خبریں کم، سرخیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ پہلے صفحے پر کئی سرخیوں میں کسی انتخابی امیدوار کی ایک تقریر کی خبر تھی جس میں فرقہ وارانہ فسادات کو ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بتایا گیا تھا۔ میں سرخیوں کے بیچ میں خبر تلاش کر رہا تھا کہ دوست نے کہا، ’’اسے چھوڑیے، تیسرا صفحہ دیکھئے۔ اصل مال وہاں ہے۔‘‘
تیسرے صفحے کی سرخیوں میں بتایا گیا تھا کہ تین چار دن سے کچھ نامعلوم لوگ خود کو ڈاک کے محکمے کا آدمی ظاہر کر کے ایک موہوم عورت کا پتا معلوم کرنے کے بہانے شہر کے عیسائی گھرانوں کے بار ے میں خفیہ معلومات اکٹھا کرتے پھرتے رہے ہیں۔ یہ ایک امن پسند اقلیت کے خلاف کوئی بہت گہری سازش ہے جس کے سرغنہ کا پتا لگانے میں اخبار کے نمائندے سرگرم ہیں۔ اقلیت کو اطمینان بھی دلایا گیا تھا کہ اس تازہ فتنے کو ابھرنے سے پہلے ہی کچل دیا جائےگا۔ میں نے اخبار تہہ کر کے بستر پر رکھ دیا اور پوچھا، ’’اسے کون صاحب نکالتے ہیں؟‘‘
دوست نے پہلے صفحے والے امیدوار کے نام پر انگلی رکھ دی اور بولے، ’’ان کے انتخابی حلقے میں عیسائی گھرانے بھی ہیں۔‘‘
’’یہ خبر کوئی فتنہ تو نہیں کھڑا کر دےگی؟‘‘
’’نہیں۔ کسی خبر کا اس اخبارمیں چھپ جانا اس خبر کی تردید کا کام کرتا ہے۔‘‘
’’پھر بھی، فرینک کو احتیاط کرنا چاہئے، بلکہ ان کو روک ہی دیجئے۔‘‘
’’انہیں تو پہلے ہی روک دیا گیا تھا، لیکن۔۔۔‘‘ وہ رک گئے، ’’موہوم عورت!‘‘ انہوں نے منھ بنا کرکہا، ’’لیکن اب فرینک کے پاس اس نوجوان رے کا حوالہ ہے جس کے وجود کا کم سے کم ایک گواہ موجود ہے، وہ ڈینیل ہی سہی۔‘‘
’’ڈینیل اس کے وجود سے زیادہ اس کے عدم کے گواہ ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’خیر۔ آپ فرینک کو روک دیجئے۔‘‘
’’وہ نہیں رکیں گے۔‘‘
’’انہیں بتا دیجئے کہ میں آج واپس جا رہا ہوں۔‘‘
’’وہ جانتے ہیں۔ آپ فرینک کو نہیں جانتے۔ وہ آپ کے جانے سے پہلے ہی پہلے کوئی خبر لائیں گے۔‘‘
رات کو میں ٹھیک سے سویا نہیں تھا۔ سفر میں بھی نیند آنے کی امید نہیں تھی، اس لئے دوپہر کو پھر سو گیا۔ شام کے قریب آنکھ کھلی۔ دوست نے میرے انتظار میں چائے نہیں پی تھی۔ میرے جاگتے ہی انہوں نے ملازم کو چائے کے لئے آواز دی۔ ہم نے خاموشی کے ساتھ چائے پی اور ملازم آکر برتن اٹھالے گیا۔
’’مسز مور۔‘‘ دوست نے دیر تک سوچنے کے بعد کہا، ’’اب وہ مسز مور ہیں۔‘‘ میں نے ان کی طرف دیکھا۔
’’فرینک آئے تھے۔‘‘ وہ بولے، ’’آپ اس طرح سو رہے تھے کہ جگانا مناسب نہیں معلوم ہوا۔‘‘ میں خاموشی کے ساتھ ان کی طرف دیکھتا رہا۔
’’ڈینیل والے نوجوان رے کا حوالہ کام آ گیا۔‘‘ انہوں نے بتایا، ’’سباستین اس کا نام تھا۔‘‘
’’سباستین؟‘‘
’’وہ اینجلا کا بھائی نہیں، بھتیجا تھا۔ اینجلا نے اسے گود لے لیا تھا۔ بچپن ہی میں یتیم ہو گیا تھا۔‘‘
مجھے جولین رے یاد آئے۔ دوست نے کچھ دیرتک شاید میرے بولنے کا انتظار کیا، پھر بولے، ’’اینجلا یہیں ہیں، لیکن۔۔۔‘‘ وہ کہتے کہتے رکے۔ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ وہ معلومات کو اپنے ذہن میں ترتیب دے رہے ہیں۔ ’’وہ بیوہ ہو چکی ہیں۔ ذاتی مکان فروخت ہوگیا۔ اب اپنے شوہر کے کچھ سوتیلے رشتہ داروں کے ساتھ رہتی ہیں۔ لاولد ہیں اور۔۔۔‘‘ انہوں نے ذہن میں پھر کوئی ترتیب درست کی، ’’رے خاندان میں اب صرف وہی رہ گئی ہیں۔‘‘ مجھے میڈلین اور ان کی سب سے بڑی بہن یاد آئیں۔ دوست شاید پھر میرے بولنے کا انتظار کر رہے تھے۔ میں نے پوچھا، ’’آپ نے کہا تھا وہ یہیں ہیں۔‘‘
’’ہاں۔ فرینک نے معلوم کر لیا ہے۔‘‘
’’فرینک ان سے ملے تھے؟‘‘
’’مل کے کیا کرتے؟‘‘
میں نے دوست کی طرف دیکھا۔
’’وہ مفلوج ہیں، کئی برس سے۔ قریب قریب سب حواس جواب دے گئے ہیں۔ کچھ دن سے بالکل غافل ہیں۔ خیال ہے کہ کوما میں چلی گئی ہیں۔‘‘
’’گھر ہی پر ہیں؟ یا۔۔۔‘‘
’’ابھی گھر ہی پر ہیں۔ اگر آپ ان سے ملنا۔۔۔ ان کو دیکھنا چاہیں تو فرینک انتظام کر سکتے ہیں۔‘‘
’’نہیں، اب وقت نہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’سفر کا سامان کرنا ہے۔‘‘
مجھے گاڑی میں بٹھانے کے بعد دوست کچھ دیر تک میرے ساتھ بیٹھے رہے۔ گاڑی چھوٹنے کی سیٹی بجی تو اٹھ کھڑے ہوئے، ’’فرینک نے سب کچھ بہت تفصیل کے ساتھ معلوم کر لیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’آپ چاہیں تو لکھ کر بھیج سکتا ہوں۔‘‘
’’نہیں، سب کچھ تو آپ نے بتا ہی دیا۔‘‘ میں نے کہا، ’’البتہ فرینک کوئی نئی بات بتائیں تو لکھ دیجئےگا۔‘‘
’لکھ دوں گا۔‘‘ انہوں نے کہا۔
گاڑی رینگ چلی۔ انہوں نے مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا، ’’اپنا نیا پتا لکھ دیجئےگا۔‘‘
’’لکھ دوں گا۔‘‘ میں نے بھی کہا۔ دوست نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور پلیٹ فارم پر اتر گئے۔
مصنف:نیر مسعود