ہر انتخاب یہاں ماضی و عقب کا ہے
سوال میرا نہیں ہے مرے نسب کا ہے
شعور لوح و قلم سے ظہور محفل تک
ہر ایک بے ادبی پر لباس ادب کا ہے
نہ کوئی داد نہ تحسین صرف خاموشی
مرے سخن پہ تیرا تبصرہ غضب کا ہے
ہو ایک فرد تو ہو فرد جرم بھی آید
ستم گری تو یہاں کاروبار سب کا ہے
اگا نہیں کوئی سورج مرے مقدر کا
دنوں پہ جیسے مسلط عتاب شب کا ہے
تمام زحمتیں میرے گناہ کے سائے
تمام راحتیں انعام میرے رب کا ہے
ظفر غزل ہے کہ زخموں کی حاشیہ بندی
نہ خال و خط کا کوئی تذکرہ نہ لب کا ہے
مأخذ : Rooh-e-Ghazal,Pachas Sala Intekhab
شاعر:ظفر مرادآبادی