لی ہاروے اوسوالڈ کو امریکہ کے صدر جون کینڈی کا قاتل کہا جاتاہے مگر وہ خود بھی گولی کا نشانہ بنا یا گیا اور اس کے بعد بارہ دوسرے ایسے اشخاص جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کینڈی کے قتل کے بارے میں کچھ نہ کچھ معلومات رکھتے ہیں یا تو قتل کر دیئے گئے یا حادثات کا شکار ہو گئے یاخود کشی کرلی یا پر اسرار طریقہ پر ان کی موت واقع ہو گئی ۔ اگر کسی کے بارے میں یہ معلوم ہو جائے کہ وہ کنڈی کے قتل کے بارے میں کچھ جانات ہے یا امریکہ کی پولیس اسکے قتل کے سلسلہ میں کسی سے کچھ تحقیقات کر رہی ہے تو آپ کو یقین کر لینا چائیے کہ وہ شخص اس دنیا میں چند دن کا مہمان ہے۔ اب تک بارہ اشخاص کا اسی طرح کا بھیانک انجام ہو چکا ہے ۔ اس وجہ سے امریکی لوگ کینڈی کے قتل کر منحوس اور ایک لعنت خیال کرنے لگے ہیں۔ اس قتل کے حلقہ میں جو بھی داخل ہوتا ہے وہی موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایک تاریک رات میں ایک شخص ننگا اپنے آرام دہ بستر میں چادر سے لپٹا ہوا مردہ پڑا تھا۔ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی اور باہر نکلی ہوئی تھیں۔ اور اس کے چاروں طرف نیند لانے والی گولیوں کی شیشیاں رکھی تھیں ۔ وہ ایک کمرشیل ہواباز ڈیوڈ فیری تھا۔ اس نے موت سے چار دن پہلے اقرار کیا تھا کہ اس سے صدر کنیڈی کے قتل کے سلسلہ میں نیو اور لینو کی پولیس پوچھ تاچھ کر رہی ہے۔ اس نے اپنے دوستوں سے یہ بھی کہا تھا۔ کہ اس کے بارے میں کنیڈی کے قتل کی سازش کے سلسلہ میں شبہ کیا جارہا ہے۔ اس کے کمرہ سے اس کے ہاتھ کی یہ تحریر بھی برآمد کی گئی: میرے لئے اس زندگی کو چھوڑنا ہی ایک خوشگوار حقیقت بن گیا ہے ۔ زندہ رہنے کیلئے اب کچھ باقی نہیں رہ گیا ہے۔ چاروں طرف نفرت و ذلت ہے۔ اس لئے میں پنی زندگی ختم کر رہا ہوں۔ابتدا میں یہ خیال کیا گیا کہ یہ موت ایک خود کشی ہے مگر بعد میں تحقیقات سے پتہ چلا کہ فیری کی موت دماغ کی رگیں پھٹنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔جو کسی چوٹ کا نتیجہ تھی۔ پولیس افسر کا خیال ہے کہ فیری صدر کینیڈی کے قتل کی تفتیش میں ایک اہم شخص تھا۔ ریاست ٹیکساس کے ایک چھوٹے سے اخبار کے ایڈ ٹیر پین جو نس نے کنیڈی کے قتل کے سلسلہ میں ہزاروں لوگوں سے بات چیت کی۔ اس نے ہزاروں گھنٹے لوگوں کے دروازے کٹای تے گذارے۔ ہزار ہا سوالات لوگوں سے پوچھے کنیڈی کے قتل کی سرکاری وارن رپورٹ کا جو نس نے گہرا مطالعہ کیا ہے۔اور وہ اس معاملہ پر چلتی پھرتی انسائیکلو پیڈ یا سمجھا جاتا ہے ۔ پین جو نس نے چند سنسنی خیز انکشافات کئے ہیں۔ اس کا خیال ہے کہ آجتک جتنے لوگوں کے بارے میں یقین ہوا کہ وہ کنیڈی کے قتل سے متعلق کچھ معلومات رکھتے ہیں کیسی نہ کسی صورت ان کی زندگی کا خاتمہ ہوگیا۔ چین جونس نے ایک میٹنگ کے بارے میں بڑا ہی عجیب و غریب انکشاف کیا ہے ۔ ۲۴ نومبر ۱۹۶۳ء بروز اتوار شام کے وقت جیک روبی کے مکان پر ایک میٹنگ ہوئی۔ اسی روز شام کو روبی نے کنیڈی کے قاتل اوسوالڈ کو جو پولیس حوالات میں تھا گولی کا نشاخ بنا دیا۔ عجیب و غریب بات یہ ہوئی کہ اس میٹنگ میں شریک لوگوں میں سے تین افراد پر اسرار حالات میں مارے گئے۔ ان میں سے ایک جم کوئتھے تھا ۔ وہ اپنے مکان کی بالائی منزل کے کمرہ میں مردہ پایا گیا ۔ اسکی گردن کی رگیں مسلی ہوئی تھیں۔ وہ گلا گھونٹ کر مارا گیا تھا۔کوئتھے کے مکان کو پولیس نے نگرانی میں لے لیا اور اسکی تلاشی لی ۔ تلاشی پر پتہ چلا کہ اس کے مکان سے صرف ایک کتاب کا نا مکمل مسودہ غائب ہے۔ کوئتھے جون کنیڈی کے سلسلہ میں ایک کتاب لکھ رہا تھا۔ اس مینگک میں شریک ایک وکیل ہنٹر تھا۔ وہ پریس ٹیلیگرام کانمائندہ تھا۔وہ اپنے پریس روم میں بیٹھا تھا کہ دوپولیس مین آئے۔ ان میں سے ایک نے ہنٹر کو گولی ماری جو اس کے سینہ پر لگی اور وہ وہیں مرگیا۔ اس سیاہی کو گرفتار کر دیا گیا۔ اس نے عدالت میں بیان دیا کہ اسکی بھری ہوئی بندوق اتفاق سے نیچے گر گئی اور اس میں سے گولی چل گئی جو ہنٹر کے سینہ پر لگی۔ روبی کے مکان والی میٹنگ میں شریک تیسرا شخص جو قتل کیا گیا وہ ایک سرکاری وکیل ٹوم ہاورڈ تھا۔ وہ جیک روبی کا گہرا دوست تھا اور ڈلاس کے امیر طبقہ سے تعلق رکھا تھا۔ جب جیک اوسولڈ کے قتل کے سلسلہ میں گرفتار ہوا تو وہی اسکی مدد کر رہا تھا۔ ہاورڈ اچانک اسپتال لےگیا۔ وہاں جاتے ہی اسکی موت واقع ہو گئی اسکی لاش کا پوسٹ مارٹم بھی نہیں ہونے دیا گیا اور کوئی نہ جان سکا کہ ٹوم ہارور کی موت کس طرح واقع ہوئی ۔ ارلین رو برٹس ایک بیوہ خاتون تھی۔ ارلین وارن کمیشن کے سامنے ایک اہم گواہ کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس نے بیان دیا کہ۲۲ نومبر کوایک بجے دوپہراوسوالڈ واپس لوٹا۔ اس نے چست جیکٹ پہنی اور ایک قریبی بس اڈہ پر چلا گیا۔ بیوہ نے یہ بھی بتلایا کہ جب تک اوسوالڈ ہوسٹل میں رہا ہوسٹل کے باہر ایک پولیس کا رجس میں دو سپاہی بیٹھے تھے کھڑی رہی کار سے ہارن بجا اور وہ کار چلی گئی اور چند منٹ بعد ہی اسوالڈ بھی چلا گیا۔ اس کے بعد سے بیوہ کو پریشان کیا جاتا رہا ۔ پولیس کے بہت سے افسران اس کے گھر پر آئے اس نے ایکد فعہ کہا کہ وہ اب زندہ نہیں رہے گی۔ چنانچہ وہی ہوا۔ وہ ایک دن اس جہان فانی سے رخصت ہو گئی۔ موت کا سبب حرکت قلب بند ہونا بتلایا گیا۔ ہینک کلم فلوریڈا میں ایک دکان کے سامنے مردہ پایا گیا۔ اسکی گردن کٹی ہوئی تھی۔ وہ مرنے سے دو دن پہلے سے کچھ پریشان حال نظر آتا تھا۔ اسنے اپنے بھائی سے کہا تھا کہ اب میں بچ نہیں سکوں گا۔ اسکی خوبصورت بیوی وادیا جیک روبی کے ایک کلب میں ملازمہ تھی ۔ اس کا کنڈای کے قتل سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ البتہ اس کا ایک دوست جون کارٹر تھا۔ وہ اسی مکان میں رہتا تھا جس میں کبھی اوسوالڈ رہا تھا۔ وہ دونوں ایک ساتھ رہے تھے پولیس کو شبہ تھا کہ کلم صدر کے قتل کی سازش سے متعلق کچھ اہم باتیں جانتا ہے۔ اور نتیجہ میں اسکی موت واقع ہو گئی اسی سلسلہ میں ایک خود کشی کا واقعہ اور سنتے۔ پولیس کی ایک خاتون جیلر نے ایک مسز نینسی جین مونی کو اپنی جیل کی کوٹھری میں گردن سے لٹکا ہوا پایا۔ اس نے اپنی پتلون کا ایک پائنچا اپنی گردن سے باندھا اور دوسرا کوٹھری کی چھت سے اور خود کشی کر لی۔مسزجین ایک کلب کی رقاصہ تھی۔ اسکو پولیس نے ایک لڑکی کو پیٹنے کے جرم میں گرفتار کیا تھا۔ اس کا ایک لڑکے کے اوپر جھگڑا ہو گیا تھا۔ کہا جاتا ہے۔ کہ پولیس نے اسکو پکڑنے کا یہ بہا نہ بنایا تھا۔ ورنہ گر فتاری کسی زیادہ اہم حرم کے سبب ہوئی تھی۔ اپنی گرفتاری کے دو گھنٹہ بعد ہی جین نے خود کشی کرلی۔ اتفاق سے کنیڈی کے قتل کے بارے میں وہ بھی کچھ اہم اسرار سے واقف تھی۔ اور اس کو اسکی سزا دیدی گئی۔ٹیکسی اسٹینڈ کا ایک ڈرائیور ولیم وھیلی بھی قتل کر دیا گیا۔ اس کا گناہ کیا تھا ؟ وہ کنڈی کے قتل کے بعد اوسوالڈ کو کو اپنی ٹیکسی میں بٹھا کر لے گیا تھا۔ اور وہ بھی اس کیس میں ایک گواہ تھا۔ ایک اور قتل ایڈی بنا وڈ کا ہوا۔ وہ اپنے بھائی سے بہت مشابہت رکھتا تھا۔ اور اس کا قتل محض دھوکہ میں ہوا تھا۔ ایڈی کا بڑا بھائی اس شخص کو جانتا تھا جس نے افسر ٹپٹ کا خون کیا تھا۔ افسر ٹپٹ بھی اس کیس کا ایک اہم رکن تھا۔ ایڈی کے قتل کی تحقیقات نہ ہوسکی اور پولیس نے کیس کو بند کر کے داخل دفتر کر دیا۔ مگرا یڈی کے خسر کا خیال تھا کہ پولیس نے کںٹا بند کرنے میں جلد بازی سے کام لیا۔ چنانچہ اس نے خود ذاتی طور پر اس معاملہ کی تحقیقات کرنی شروع کر دی ۔ مگر چند روز کے بعد ہی اسکو بھی گولی کا نشانہ بنا دیا گیا ۔ ایک شخص کار میں بیٹھ کر اسکے گھر کے سامنے آیا۔گھنٹی بجائی۔ اور ایڈی کے خسر کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔ بڑے اطمینان سے اس نے پستول نکالا گولی چلائی۔ مقتول ڈرائنگ روم کے فرش پر تڑپنے لگا۔ ایک گوئی اور چلائی اور جب اس کا جسم ساکن ہو گیا تودہ خاموشی سے کمرہ سے باہر آیا اور کار میں بیٹھ کر روانہ ہو گیا۔ آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کون تھا۔ اس سلسلہ میں خوبصورت اور نوجوان پریس رپورٹر ڈورروتھی کی موت بھی قابل ذکر ہے۔ وہ ایک اخبار کی نمائیندہ تھی۔ وہ پہلی نامہ نگار خاتون تھی جس نے جیک روبی سے اوسوالڈ کے قتل کے فورا بعد انٹرویو لیا تھا۔ وہ بارہا اپنے دوستوں سے کہد چکی تھی کہ وہ کنڈصی کے قتل پر سے پردہ اٹھا کر رہے گی چاہے اسے اپنی تمام عمر صرف کردنیی پڑے۔مگر چند روز بعد ہی وہ پراسرار حالات میں مردہ پائی گئی۔ سرکاری رپورٹ میں موت کا سبب حد سے زیادہ شراب نوشی بتلایا گیا۔وارن کمیشن کا ایک اہم ترین اور پریشان کن گواہ لی باورس تھا۔ وہ ٹیکساس کی چونگی کے ۱۴ فٹ بلند میاہرکاپہرہ دار تھا۔ اور کنیڈی کے قتل کے وقت اپنی ڈیوٹی پر موجود تھا۔ چونکی کا یہ مینارہ ٹیکساس اسکول کی اس بلڈنگ کے بالکل سامنے ہے جہاں سے کہا جاتا ہے کہ اوسوالڈ نے فائر کئے تھے۔ اور اسکول کی عمارت کے مغرب میں ایک چھوٹی سی سرسبز پہاڑی ہے ۔ پہاڑی کا نظارہ بھی باورس کے مینارہ سے کیا جا سکتا تھا۔ اس مینارہ کے سامنے پارکنگ کا میدان تھا۔ اس کے پیچھے درختوں کی لائن چلی گئی تھی اور اس سے پرے پہاڑی تھی ۔ باورس کا کہنا تھا کہ اس مینارہ سے سب طرف کا منتظ دکھا ئی دیار تھا۔ قتل سے پہلے تین کاریں پر اسرار ڈھنگ سے پارکنگ میدان میں آئیں دو کاریں قتل کے فورا بعد چلی گئیں۔ باورس نے ایک ایسی کار بھی دیکھی جسپر مٹی اور کیچڑ پڑی ہوئی تھی۔ اس کا کار ڈارئیوڑ ایک ہاتھ میں ایک مائک یا ٹیلیفون لئے ہوئے تھا۔جس میں کچھ کہہ رہا تھا دوسرے ہاتھ سے وہ کار چلا رہا تھا۔ اس نے دو آدمیوں کو پہاڑی کی چوٹی پر بھی کھڑے ہوئے دیکھا اس کے بیان کا اہم ترین پہلو یہ تھا اس نے دارن کمیشن کے سامنے کہا کہ فائر اس پہاڑی کی طرف سے کئے گئے تھے اور ٹیکساس اسکول کی عمارت سے نہیں۔ جیسا کہ عام خیال ہے، مگر با ورس یہ بیان دینے کے چند دن بعد ایک کار کے حادثہ کا شکار ہو گیا اور اس نے اسپتال میں دم توڑ دیا۔ اوسوالڈ کا قاتل جیک روبی بھی جیل کی کوٹھری میں مرگیا کہا جاتا ہے وہ مرض سرطان سے مرا تھا۔ ایک دوسرا شخص جمیس وویل جسں نے اوسوالڈ کو ٹیکساس اسکول کی عمارت سے بھاگتے ہوئے دیکھا تھا وہ بھی ایک حادثہ میں مارا گیا ۔اوراب یہ اموات و قتل امریکہ کے عوام کیلئے ایک معمہ بن گئے ۔ وہ کنیڈی کےقتل کے سلسلہ میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرنے لگے ہیں ۔ امریکہ کے صدر چون گنٹبدی کا قتل فرعونِ مصر کے توت خامون کے اہرام کی طرح پر اسرار بن گیا ہے ۔ اس اہرام کے بارے میں مشہور ہو گیا تھا کہ جو بھی اسکو کھولتا تھا ضرور کسی نہ کسی حادثہ کا شکار ہو جاتاتھا۔اسی طرح کینیڈی کے قتل کا معاملہ بھی ایک طلسم بن گیا ہے۔ جو بھی اس پر سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے وہی موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور ابھی نہ معلوم امریکہ کی کتنی جائیں کینیڈی کے بھوت کی نذر ہوں گی۔