موت ان کا تعاقب کر رہی تھی

0
293
urdu-story
- Advertisement -

خلیج بنگال کو موت کی خلیج کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس خلیج سے اٹھنے والے موت کے طوفانوں میں اب تک اتنے انسان ہلاک ہوچکے ہیں کہ ان کی گنتی کرنا بھی مشکل ہے۔ اس خلیج میں دنیا کے تباہ کن ترین طوفان پرورش پاتے رہتے ہیں اورپلک جھپکتے ہی سیکڑوں میل کے رقبہ میں پھیل کر ہلاکت تباہی ، اور بربادی کے اتنے گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں کہ برسوں ان کی یاد دل ودماغ کو پریشان کئے رکھتی ہے۔ اس خلیج سے تاریخ عالم کے بھیانک ترین طوفان اٹھے ہیں۔ ان میں سے ایک بھیانک طوفان ۱۸۷۶ میں آیا تھا۔ ، جس نے بیس منٹ کے مختصر سے عرصہ میں ایک لاکھ سے زیاده انسانوں کو ہڑپ کرلیا تھا۔ ۱۹۳۴ میں خلیج بنگال سے اٹھنے والی۳۰ فٹ اونچی ایک لہرنے ۱۲۰ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بنگال کے۵۰۰۰ مربع میل سے زیادہ علاقہ کونیست و نا بود کردیا تھا۔ بیسویں صدی میں خلیج بنگال سے اٹھنے والا بھیانک ترین طوفان وہ تھاجس نے گذشتہ سال مشرقی پاکستان کے ساحلی علاقوں کو تباہ وبرباد کیا اور کم از کم ۵ لاکھ افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔اوراسی خلیج سے نومبر۱۹۷۱ کے پہلے ہفتہ میں ایک اور طوفان اٹھا موت کا طوفان جس نے نہ جانے کتنی بستیوں کو اجاڑا دیا اور نہ جانے کتنے انسانوں عورتوں، مردوں اور بچوں کو موت کے غارمیں دھکیل دیا طوفانوں میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کا صحیح اندازہ کبھی نہیں لگایا جاسکتا ۔

کچھ سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے اور کچھ اعداد وشمار کے حصول کے کافی ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے عوام کے سامنے آنیوالی نقصان کی تصویر ہمیشہ غیرواضخ ہوتی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے طوفانوں میں ہونے والانقصان سے کسی طرح کم نہیں ہوتا۔نومبرکے پہلے ہفتے میں اڑبسہ میں جو طوفان آیا وہ بھی بھیانک ترین طوفانوں میں سے ایک تھا۔ ۱۲۰ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آندھی ،موسلا دهار بارش اور۱۵ فٹ بلند سمندری لہر کی شکل میں اس طوفان نے اڑیسہ پر حملہ کیا اور سرکاری اندازوں کے مطابق ۱۲ہزار لیکن غیرسرکاری اندازوں کے مطابق ۲۵ ہزار انسانوں کو ہلاک کر دیا۔ا ور دس لاکھ افراد بے گھربار ہوگئے بلوان طوفان کے متاثرین میں ایک بڑی تعداد مشرقی بنگال سے آئے ہوئے مہاجرین کی باسئی جاتی ہے گویا ان مصیبت زدگان کونہ اپنے وطن میں زندہ رہنے کا موقع ملانہ بے وطنی کے عالم میں یہ لوگ اپنی زندگی اور اپنے مال و اسباب کی حفاظت کے لیے اپنے گھروں سے بھاگے تھے مگرموت نے ان کا تعاقب کیا اور انہیں اڑیسہ میں گھیر لیا۔ اس خوفناک طوفان کے نتیجہ میں ۰اہزار مربع میل رقبہ میں زرخیز زمین ۱۸فٹ تک گہرے پانی میں ڈوب گئی اور ساحلی علاقہ میں ، ۵امیل کی پٹی پر جیسے موت سایہ فگن ہوگئی۔ گاوں کے گاوں نیست و نابو ہوگئے۔اور دوردور تک بکھری ہوئی لعشوں اور مکانوں کےملبوں کے علاوہ انسانی آبادی کا کوئی نشان نہیں با قی بچا۔ہندوستان کی آٹھویں سب سے بڑی بندرگاہ پیرادیپ کوشدید نقصان پہونچا دریاوں میں سیلاب آگیا اور ان کے کنارے ٹوٹ گئے۔ ہزاروں درخت جڑ سے اکھڑ گئے اور لاتعدادافرادطوفانی لہر میں بہہ گئے۔

ایک شخص لہرکی زد میں اپنی بیوی اور چار بچوں کے ساتھ آگیا۔ لہرنے انہیں اچھال دیا۔بعد میں صرف وہ اکیلا بچا اور اس کی بیوی اورچار بچے لہر کی خوراک بن گئے ایک اور شخص نے بتایا کہ اس رات ایسالگتا تھا کہ پورا شہر رورہا ہوہے خوف وہراس اور مصائب کی ایک رات کے بعد طوفان کا زور کچھ کم ہوا۔ ریاستی اور مرکزی حکومتیں سرگرم عمل ہوگئیں بوائی جہازوں سے زندہ بچنےوالوں کے لیے کھانے پینے کا سامان گرانے کا سلسلہ شروع ہوا۔فوجیوں نے امداد کا کام سنبھال لیا۔ اور ہزاروں لاشوں کو جن کے سڑنے سے بھیانک قسم کے دبائی امراض پھوٹ پڑنیکا انڈیشہ تھا ۔ٹھکانے لگا دیا گیا۔ اس طوفان کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ایک امریکی موسمی ، سیارہ نے اس کی آمد کے امکانات سے پہلے ہی آگاه کردیا تھا پھربھی حکام نے کوئی احتیاطی اقدام نہیں کیا تھا۔ شاید وہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ امریکی موسمی سیارہ کی پیش گوئی غلط بھی ہوسکتی ہے۔

مصنف :صابر علی

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here