پرانی شراب نئی بوتل

0
157
Urdu Story Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’یہ ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو ماڈرن خیالات کی ہے۔ اس کے کئی افیئر رہے ہیں۔ مگر کچھ عرصہ چلنے کے بعد سب ٹوٹ گئے ہیں، کیونکہ وہ محبت کو وعدوں، ارادوں سے زیادہ جسمانی طورپر توجہ دیتی ہے۔ ایم جی کے ساتھ اسکا افیئر بھی اسی وجہ سے ٹوٹا تھا، جس کے ساتھ بعد میں اس کی سہیلی سفو نے شادی کر لی تھی۔‘‘

بائی کی آواز سن کر نمی نے آنکھیں کھول دیں۔ سامنے ہاتھ میں سیٹو تھو سکوب لٹکائے اس کی سہیلی صفو کھڑی تھی۔

’’ہائیں اس وقت بستر میں۔‘‘ صفو نے پوچھا۔

’’بسٹ لیزنگ۔ ان بیڈ۔‘‘

’’میں تو تجھے لینے آئی ہوں۔‘‘

- Advertisement -

’’کہاں؟‘‘

’’پکچر پر۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’بڑی چارمنگ پکچر لگی ہے۔ بڑی مشکل سے چھٹی ملی ہے مجھے۔‘‘

’’مشکل سے کیوں؟‘‘

’’بھئی فائنل ایئر ہے۔ چھٹی کیسے دیں۔ چلو اٹھو۔‘‘

’’اونہوں۔ موڈ نہیں۔‘‘

’’آج آخری دن ہے پکچر اتر جائے گی۔‘‘

’’اتر جائے۔‘‘

’’پتہ ہے لی میجر ہے اس میں اونہوں آج لی میجر بھی ان نہیں۔‘‘

’’کون ان ہے آج۔ ‘‘صفو مسکرائی۔

’’آج تو صرف نمی ان ہے۔‘‘

’’ویسے لگتی تو آؤٹ ہو۔ ناکڈ آؤٹ۔‘‘

’’نانسس۔‘‘ نمی نے صفو کا ہاتھ پکڑ کر اسے بستر پر کھینچ لیا، ’’بیٹھو باتیں کرتے ہیں۔ ایوننگ شو دیکھیں گے۔ آنسٹ۔‘‘

’’گھر والے کہاں ہیں؟‘‘ صفو نے پوچھا۔

’’وہ شہزادی آئی تھی۔ پتہ نہیں کہاں لے گئی ہے۔‘‘

’’کون شہزادی؟‘‘

’’تم نہیں جانتی اسے۔‘‘

’’اونہوں۔‘‘

’’سبھی جانتے ہیں اسے۔ بڑی لاؤڈ وومن ہے۔ اتنی بھڑکیلی ہے کہ دیکھ کر جھر جھری آتی ہے۔ ست رنگا لباس پہنتی ہے جھلمل ٹائپ۔‘‘

’’وہی تو نہیں جو گٹ ٹو گیدر سینک بار پر ملی تھی ہمیں؟‘‘ جب تو میں اور انور وہاں بیف برگر کھا رہے تھے۔ یاد نہیں انور نے اسے دیکھ کر کہا تھا، ’’یہ تو نری لپس ہی لپس اور ہپس ہی ہپس ہے۔‘‘

’’ہاں وہی۔ نمی چلائی۔ وہی تو ہے۔‘‘

’’تمہارے گھر کیسے آ پہنچی؟‘‘

’’ڈیڈی ایک روز انگلی لگا کر لے آئے تھے اب خود آنے لگی۔‘‘

’’اچھا تو ڈیڈی نے انگلی لگا رکھی ہے۔‘‘

’’اونہوں اب تو وہ ڈیڈی کو انگلی لگائے پھرتی ہے۔‘‘

’’تیرے ڈیڈی بھی سمجھ نہیں آتے۔‘‘ صفو مسکرائی۔

’’خواہ مخواہ بالکل ٹرانسپیرنٹ ہیں۔ اندر جھانکے بغیر دیکھ لو۔ ان کا ایک نا ایک افئیر تو چلتا ہی رہتا ہے۔‘‘

’’انہوں افئیر نہیں۔ انہیں صرف اس بات کا شوق ہے کہ کوئی انگلی لگائے پھرے۔ آگے کچھ نہیں۔ چاہے کوئی لگائے؟‘‘

’’کوئی ہو یک رنگی ہو۔ ست رنگی ہو۔ بد رنگی ہو۔ ڈیڈی بڑے جذبے میں لت پت رہتے ہیں۔ بس ذرا چھیڑ دو اور کھل گیا۔‘‘

’’تمہاری ممی بھی ساتھ گئی ہیں کیا؟‘‘

’’ہاں وہ ہمیشہ ساتھ جاتی ہیں سپر ویزن کے لیے۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘ صفو نے پوچھا۔

’’ممی اس ڈر کے مارے ساتھ چل پڑتی ہیں کہ کچھ ہو نہ جائے۔‘‘ صفو نے قہقہہ مارا، ’’جیسے روک ہی لے گی۔ ہاں اپنی طرف سے تو پورا زور لگاتی ہیں۔ پور ممی۔‘‘

’’مطلب یہ کہ بات نہیں بنتی۔ بات کیسے بنے؟ ڈیڈی تازہ کے قائل ہیں۔ ٹنڈ کے نہیں اور ممی کو باسی ہو جانے میں کمال حاصل ہے۔ دراصل ڈیڈی سے عشق ہے۔ اپنا سب کچھ ان کے چرنوں میں ڈال رکھا ہے۔ سب کچھ چرنوں میں ڈال دو تو دوسرا بے نیاز ہو جاتا ہے پھر آہیں بھرو۔ انتظار کرو۔‘‘

’’آئی ہیٹ سچ ساب سٹف۔ یہ بات تو پرانے زمانے میں چلتی تھی۔ اب نہیں چلتی۔ اور جو انور سے بات چل رہی تھی تمہاری وہ۔‘‘

’’آئی لائیکڈ انور۔ آل رائٹ۔ بہت اچھا پینئین تھا۔ بڑا اگری ایبل لکس بھی تو تھے۔ لکس کی کون پرواہ کرتا ہے آج کل دے ڈونٹ میٹر۔ پرانے زمانے میں لوگ پری چہرہ ڈھونڈا کرتے تھے۔ سوہنی پر جان دیتے تھے۔ یوسف کی طرف دیکھ کر انگلیاں چیر لیتے تھے اب وہ باتیں گئیں۔ عظمہ تو کہتی تھی، ’’نمی از سٹرکن ود لو فار انور۔‘‘

’’گڈ لارڈ ناٹ می۔ بھئی مجھ سے یہ نہیں ہوتا کہ اپنے جذبہ کی بھٹی کو دوں دیتی جب بھانھڑ مچ جائے تو بیٹھ کر روؤں رہوں دیتی رہوں اورآئی ایم ناٹ دی سابنگ اینڈ سائنگ ٹائپ۔ میں ہر حد توڑ سکتی ہوں صفو جا سکتی ہوں لیکن اتنی دور نہیں کہ واپسی نا ممکن ہو جائے۔ لو تو لینڈ آف نوید میں لے جاتی ہے۔ ہیو گڈ ٹائم۔ بٹ لو۔۔۔ نو نو۔۔۔ نیور۔ بھئی اس لحاظ سے میں تو ماڈرن نہیں۔‘‘ صفو نے کہا۔ پھر وہ نمی کے قریب ہو گئی، ’’کچھ پتہ ہے؟‘‘ وہ آنکھیں مٹکا کر بولی، ’’تیرے پڑوس میں ڈاکٹر نجمی کے ہاں کون آیا ہوا ہے؟‘‘

’’لگتا ہے گلیکسو بے بی ہو۔ گہرے بھورے بالوں کا اتنا بڑا تاج گول بکھرا رنگ اور آنکھوں میں لال ڈورے۔‘‘ صفو نے یوں سینہ تھام کر کہا جیسے ہل چل بھی ہو، ’’ابھی کی بات کر رہی ہو؟‘‘ صفو نے پوچھا، ’’تو اسے جانتی ہے؟‘‘

’’ہاں وہ ایک مہینے ہو گیے اسے آئے ہوئے۔‘‘

’’ملنے ملانے کے لیے آیا ہے کیا؟‘‘

’’انہوں پوسٹنگ ہوئی ہے یہاں۔ الاٹ منٹ کی انتظار میں بیٹھا ہے ادھر۔‘‘

’’کوئی ریلیٹو ہے ڈاکٹر نجمی کا؟‘‘

’’کیسا لگتا ہے تمہیں؟‘‘ صفو نے پھر سینہ سنبھالا۔

’’ اچھا خاصا ہے۔‘‘ نمی نے بے پروائی سے کہا۔

’’ اب بنو نہیں نمی۔‘‘

’’میں تو نہیں بنتی۔ وہ بنتا ہے پتہ نہیں خود کو کیا سمجھتا ہے نمی۔‘‘ صفو نے پھر سینہ سنبھالا۔ پٹ چک شرٹ۔ اورنج سڑا اکیڈ کوٹ اور شاکنگ۔ گرین ٹائی۔ میں تو دیکھ کر بھونچکی رہ گئی اسٹینڈ۔ ہاں چارمنگ تو ہے۔ نمی نے کہا۔ مسلی۔ چارمنگ از نو ورڈ فار اٹ۔ کبھی ملی ہو اس سے؟ روز آ جاتا ہے۔ نمی نے سر چڑ ھا رکھا ہے۔ اور تم نے؟ انہوں؟ تم سے بھی ملتا ہے کیا؟ ہاں۔ پھر صفو کا تنفس تیز ہو گیا۔ پھر نمی آنکھیں بند کر کے پڑ گئی۔ سارا جھگڑا اس پھر کا تھا۔ اسی پھر کی وجہ سے نمی اس روز بستر میں پڑی لیز کر رہی تھی۔ لیز تو خیر بہانہ تھا۔ لیز تو اس وقت ہوتا ہے جب امن ہو۔ اندر جھگڑے کی ہنڈیا پک رہی ہو تو امن کیسا۔ اور امن نہ ہو تو لیز کیسا۔ مانا کہ جھگڑا دل کی اتھاہ گہرائیوں میں تھا جہاں کے شور غوغا کی آواز ذہن تک نہیں پہنچتی۔

مشکل یہ ہے کہ ذہن تک آواز نہ پہنچے تو بات او ر الجھ جاتی ہے خود کو تسلیاں دینا بھی ممکن نہیں رہتا۔ بہر حال سارا جھگڑا اس پھر کا تھا۔ نمی کا دل پوچھ رہا تھا۔ پھر۔ اس کی نحیف آواز سن کر ذہن کہہ رہا تھا پھر۔ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جب سرے سے کوئی بات ہی نہیں تو پھر کیسا؟

نمی ایک ماڈرن لڑکی تھی۔ ماڈرن گھر میں پرورش پائی تھی۔ ماڈرن ماحول میں جوان ہوئی تھی۔ اسے اپنے ماڈرن ازم سے عشق تھا عشق۔ چاہے کچھ ہو جائے ماڈرن ازم ہاتھ سے نہ جائے۔ اس کا دل پھر پھر کر رہا تھا۔ کراہ رہا تھا۔ سسکیاں بھر رہا تھا۔ اس وقت نمی کی زندگی کی ایک واحد پرابلم تھی کہ دل کی آواز نہ سنے، سنائی دے تو ان سنی کر دے۔ اس کاصرف ایک حل تھا کہ ذہن سے چپٹ جائے اور قریب اور قریب جس طرح جونک خون کی رگ سے چمٹ جاتی ہے۔ نمی میں ذہن اور دل کی کشمکش پہلے کبھی اس شدت سے نہیں ابھری تھی۔ نمی نے زندگی میں چند ایک افیر چلائے تھے۔

سب سے پہلے سعید تھا۔ ان دنوں وہ بی اے میں پڑھتی تھی۔ وہ ایک دبلا پتلا منحنی لڑکا تھا۔ جب بھی کالج میں نمی اس کے سامنے آتی تو اس کی آنکھیں پھٹ جاتیں، منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا۔ اور وہ گویا پتھر کا بن جاتا۔ پھر حواس گم قیاس گم وہ بٹر بٹر نمی کو دیکھتا رہتا۔ حتی کہ سب کو پتہ چل جاتا کہ وہ دیکھ رہا ہے۔ لڑکے پھبتیاں کستے، مذاق اڑاتے لیکن اسے خبر ہی نہ ہوتی۔ پہلے تو نمی کو سعید پر بڑا طیش آتا رہا کہ یہ کیا ڈرامہ لگا کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ پھر اسے اس پرترس آنے لگا۔ نمی کو پوپ دیکھنے کا سلیقہ بھی نہیں آتا۔ بے شک دیکھے، کون منع کرتا ہے لیکن دیکھنے کا انداز تو سیکھے۔

دوسرا جے اے اویس تھا۔ ادھیڑ عمر۔ ڈیڈی کا ہم کار۔ اسے دیکھنے کا سلیقہ تھا اتنا سلیقہ کہ نظر بھر کر دیکھتا ہی نہ تھا۔ بات ہوئی نا۔ بھلا دیکھنا مقصود ہوتا ہے کیا۔ لورز بھی کتنے احمق ہوتے ہیں۔ بٹر بٹر دیکھنے لگتے ہیں۔ جیسے دیکھنا مقصود ہو۔ یا شاید اتنا دیکھتے ہیں کہ بھول جاتے ہیں کہ مقصد کیا تھا۔ دیکھنا خود راستے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ چلو مان لیا کہ دیکھنا تعارف کے لئے ضروری ہے لیکن انٹی میسی مقصود ہو تو۔

پھر وہ انور تھا۔ کتنا اچھا کمپینین تھا۔ لیکن اکیلے میں کبوتر کی سی آنکھیں بنا کر بیٹھ جاتا۔ بھئی کوئی بات کرو جو چھیڑدے کوئی جوک جو گد گدا دے ہنسا دے۔ کوئی منتر پھونکو کہ کلی کھل کر گلاب بن جائے۔ بھلا گھٹنے ٹیکنے سے کیا ہوتا ہے۔ خواہ مخواہ کا اسکینڈل۔ محبت میں یہی تو عیب ہے شور غوغا مچا دیتی ہے۔

نمی کے افیرز تو بہت تھے۔ اب انہیں گنوانے کا فائدہ۔ بس تھے ۔دو ایک تو خاصی دور لے گیے تھے۔ ان تتلیوں نے نمی کوکلی سے پھول بنا دیا تھا۔ ایسا پھول جو بھنوروں کو بیٹھنے نہیں دیتا۔ لیکن اڑاتا بھی نہیں۔ تیتریوں کی اور بات تھی۔ وہ بھن بھن کر شور نہیں مچاتی تھی دھول نہیں اڑاتی تھیں۔ لیکن اس گلیکسو بے بی امجی نے آ کر مشکل پیدا کر دی تھی۔

پہلے دن تو باؤنڈری وال سے ہیلو ہیلو ہو گیا۔ امجی نے اپنا تعارف کرا دیا۔ دوسرے دن وہ بڑی بے تکلفی سے گھر آ گیا۔ اور نمی کے چھوٹے بھائی عمران سے جڑی کھیلنے لگا۔ ممی آ گئیں تو ان سے گپیں ہانکنے لگا۔ ممی کو وہ لفٹ دی وہ لفٹ کہ انہیں کبھی ملی نہ تھی۔ وہ بوکھلا گئیں پھر نمی کے پاس آ بیٹھا۔ بات چیت چھیڑ دی۔ باتیں تو خیر کلچرڈ تھیں۔ لیکن نگاہیں بالکل ہی کروڈ چونکا دینے والی۔ چبھنے والی۔ بڑی ان یو یووال۔ بھلا پاس بیٹھ کر کبوتر سی آنکھیں بنانے کا مطلب ایڈٹ۔

گلیڈ آئی تو خیر ہوا ہی کرتی ہے۔ وہ تو یوں ہے کہ دور بیٹھ کر روٹین ٹاک کرتے کرتے ایک دم گلیڈ آئی کے زور پر جمپ لگایا اور گود میں آ بیٹھے ذرا سی گد گدی اور پھر واپس اپنی سیٹ پر دور جا بیٹھے یہ تو جدید انداز ہے نا۔ اپنی توجہ جتائی۔ گڈ ٹائم کی خواہش کو آنکھوں میں سجایا اور پھر ایز پودر ہو کر ایٹ ایز بیٹھ گیے۔ لیکن مسلسل آڑی ترچھی آنکھیں بنا کر بیٹھے رہنا۔ نان سنس۔ گلیڈ آئی تو گڈ ٹائم کی دعوت ہوتی ہے نا۔ اور آنکھیں بنا کر بیٹھے رہنا تو گویا اس بات کی رٹ لگائے رکھنا ہوا کہ دیکھ میں تیرے بنا کتنا دکھی ہوں۔ وہ مثبت بات اور خاص نیگیٹو۔

ہاں تو امجی ویسے تو بڑا آدمی کہاں آدمی نما لڑکا۔ اٹھنا بیٹھنا پھرنا بولنا سب کلچرڈ تھے بس اک ذرا آنکھیں بنائے لگی ہوتی تھیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ نمی پہلے روز ہی امجی کو دیکھ کر بھونچکی سی رہ گئی۔ اسے یوں لگا جیسے اس کا آئیڈیل کپڑے پہن کر سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ اب اس اچنبھے کا اظہار خود کیسے کرتی جو دھرتی سے چاہت رکھتی تو محبت کی راہ پر گامزن ہو جاتی۔ اس کا انتظار کرتی۔ آہیں گنتی۔ اولڈ مینشن، غیر مہذب دقیانوسی باتیں۔

ایک پیاری اسمارٹ سی خوب صورت ماڈلز کی ماڈرن ہو کر دقیانوسی کیوں بنے۔ اس لیے نمی سب کچھ پی گئی اور یوں تن کر بیٹھ گئی، کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ بہر طور امجی اپنا چکر چلا گیا تھا۔ اگر اس میں آنکھیں بنانے کی بوت ہوتی تو یقیناً افیر چل جاتا۔ افیر تو خیر اب بھی چل پڑا تھا۔ لیکن وہ خالصتا تفریحی نہ تھی۔ اگر خالص تفریحی نہ ہو تو افیر کیسا۔ اس کے بعد امجی نے ایک اور قیامت ڈھائی۔ فرسٹ فلور پر نمی کی کھڑکی کے عین سامنے کم بخت اپنی کرسی دروازے میں بچھا کر نمی کی کھڑکی پر نگاہوں کی چاند ماری شروع کر دی۔ اس پر نمی اور بھی چڑ گئی۔ لو بھلا نگاہوں کی چاند ماری کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اور کیا۔ بھئی جو ناک کو ہاتھ لگانا ہو تو سیدھا ہاتھ لگاؤ۔ ہاتھ کو سرکے پیچھے سے گھما کر لانے کی کیا ضرورت ہے۔

دو ایک مرتبہ اس نے کھڑکی سے جھانکا اور ان جانے میں جھینپ گئی تو اسے غصہ آیا۔ بھلا جھیپنے کی کیا ضرورت۔ اس کو اتنا نہیں پتہ کہ یوں دیکھنے سے بات بنتی نہیں بگڑتی ہے۔ وہ اطمینان سے ٹیک لگا کر کتاب پڑھنے لگی۔ لیکن چند لمحوں کے بعد کتاب کے صفحے سے دو آنکھیں ابھریں۔ پھر۔۔۔ پھر۔۔۔ کرنے لگتا اور وہ پھر سے جھینپ جاتی۔

پھر ایک روز امجی اسے فلم پر لے گیا۔ شاید وہ انکار کر دیتی لیکن نمی کا چھوٹا بھائی عمران ضد کرنے لگا۔ ممی ان کی طرف دار ہو گئی۔ آخر کیا حرج ہے۔ فلم دیکھنے میں واقعی کوئی حرج نہ تھا۔ سارا فساد تو نگاہوں کا تھا نا۔ سنیما ہال کے اندھیرے میں نگاہیں تو چلتی ہیں نہیں۔ رہا قرب کا سوال تو قرب پر تو اسے کوئی اعتراض نہ تھا۔ جب امجی نے اندھیرے میں اس کا ہاتھ پکڑا تو نمی ذرا نہ جھینپی۔ یہ تو یو یووال بات تھی۔ بار بار وہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ فلم دیکھنے گئی تھی۔ وہ اس خوشبودار اندھیرے سے واقف تھی۔ اور اندھیرا اگر خوشبودار ہو تو ہاتھ پکڑنا تو ہوتا ہی ہے۔ امجی نے پکڑا تو نمی نے حسب دستور بازو ڈھیلا کر دیا۔

جلدی اس نے محسوس کیا کہ امجی کا دباؤ یو یووال نہیں ہے یو یوال دباؤ تو موقعہ کی مناسبت پر عمل میں آتا ہے نا۔ فلم میں اظہار محبت ہو تو گڈ ٹائم کا اشارہ ہو تو۔ لیکن یہ دباؤ تو مسلسل تھا۔ دباؤ ختم ہو تا تو امجی کی ہتھیلی نمی کے ہاتھ پر چلنے لگتی جیسے ہاتھ بند بند کا جائزہ لے رہی ہو۔ جیسے ہاتھ پر کوئی امریکہ دریافت کرنے میں لگا ہو۔ نمی کی ہتھیلی پر پسینہ آ گیا۔۔۔ ہاتھ کے اس لمس نے پتہ نہیں کیا کر دیا۔ اک ان یو یوال رابطہ قائم ہو گیا۔ دل سے رابطہ۔ دل پھر۔ کرنے لگا۔ یہ کیا مصیبت ہے اس نے ہاتھ چھڑا لیا۔ جب بھی دل پھر پھر کرنے لگتا وہ چھڑا لیتی لیکن کچھ دیر کے بعد انجانے میں اس کا بازو پھر ادھر ہو جاتا۔ ہاتھ کرسی کے بائیں ہتھے پر ٹک جاتا۔ اور پھر وہی دباؤ۔

بے چاری عجیب مشکل میں تھی۔ دباؤ ہوتا تو بھی چاہتا کہ یو یوال ہو جائے۔ نہ ہوتا تو جی چاہتا کہ ہو۔گھر میں وہ روز ہی ملتے تھے۔ وہ روز آ جاتا تھا۔ نہ آتا تو عمران پکڑنے آتا۔ ممی آواز دے کر بلا لیتی۔ ممی کے لئے تو وہ گھر کا فرد بن چکا تھا۔ ممی پہلے روز ہی سمجھ گئی تھی کہ وہ نمی میں انٹرسٹڈ تھا۔ نرا گڈ ٹائمز نہیں۔ وہ تو خوش تھی پڑھا لکھا لڑکا اور چھوٹتے ہی افسر، کیرئر بہت بالکل جدید طرز کی۔ اور پھر انڈر یپینڈنٹ۔ چچا کے گھر میں صرف الاٹ منٹ کے انتظار میں بیٹھا ہے پتہ نہیں کس روز مل جائے۔ آخر نمی کی شادی تو ہونی ہی تھی۔ ایم اے کر چکی تھی۔ رشتے تو آئے تھے لیکن وہ سبھی سوشل قسم کے تھے یہ تو جوڑ کا تھا۔

ڈیڈی بھی خوش تھے۔ انہوں نے پہلے روز ہی بھانپ لیا تھا کہ لڑکا سیریس ہے بیماری لگا بیٹھا ہے ان کی ساری ہمدردیاں امجی کے ساتھ تھیں۔ کیسے نہ ہوتیں۔ وہ خود سیریس کی بیماری میں مبتلا تھا۔ بہر طور وہ بے نیاز قسم کا آدمی تھا بات بن گئی تو اوکے نہیں تو کے۔ جی او یس تو ہے ہی، بڑ ا افسر ہے پیچھے مربعے ہیں۔ صرف یہی نا کہ ادھیڑ عمر کا ہے، بال جھڑ چکے ہیں لیکن نمی کو اپنانے کے لئے کتنا بے تاب ہے۔ حکومت کرے گی عیش کرے گی۔ بیاہ ا س لئے تو کیا جاتا ہے۔

اس کے بعد امجی اور نمی کی بہت سی ملاقاتیں ہوئیں۔ ہوٹلوں میں پارکوں میں سنیما گھروں میں، انہوں نے شاپنگ کی، ڈرائیونگ پر گئے۔ پک نک اسپاٹ دیکھے ان ملاقاتوں میں امجی نے طرح طرح کے حربے آزمائے کہ نمی اس سے اظہار محبت کرے۔ نمی اس ضد پر اڑی رہی کہ امجی کے سر سے عشق کا بھوت اتر جائے۔ اور وہ سیدھا بوائے فرینڈ بن جائے۔

جب بھی وہ شاپنگ پر جاتے امجی کوئی نہ کوئی تحفہ نمی کے لئے خرید لیتا۔ ایک دن اس کی ممی نے کہا نمی تو نے اسے کوئی تحفہ نہیں دیا یہ کیا بات ہوئی بھلا۔ نمی نے سوچا کوئی ایسا تحفہ دوں کہ جل کر راکھ ہو جائے۔ مطلب جلانا نہیں تھا۔ بلکہ اشارتاً سمجھا نا تھا کہ مرد بنو آہیں بھرنا چھوڑ دو۔ آنکھیں بنانا بے کار ہے۔ بھکاری نہ بنو۔ چھین کر لینا سیکھو۔ اس نے سوچ سوچ کر ایک چارم خریدا، ایک روپیلا برسٹ جو کلائی پر چوڑی کی طرح پہنا جاتا ہے۔ امجی اس چارم کو دیکھ کر بہت خوش ہوا سمجھا شاید نمی کے دل میں اس کے لئے جذبہ پیدا ہو گیا ہے۔ اسے قطعاً خیال نہ آیا کہ کیپ سیک کے پردے میں نمی اسے چوڑی پہنا رہی تھی۔ بہر حال اس نے بڑی خوشی سے وہ چوڑی پہن لی۔

اسی شام وہ دونوں ڈرائیونگ کے لئے جا رہے تھے دفعتاً ایک ویران جگہ پر امجی نے گاڑی روک لی۔ نمی کا دل خوشی سے اچھلا۔ اس سے پہلے ڈرائیونگ کے دوران کئی بار اسے خیال آتا تھا کہ امجی گاڑی روک لے گا۔ ویران جگہ گاڑی روکنے کی بات تو فیشن تھی۔ کریز تھا۔ یو یوال تھا۔ اس یو وال سے وہ اچھی طرح واقف تھی۔ لیکن امجی نے کبھی گاڑی نہ روکی تھی۔ اس کی ساری توجہ نمی کے چہرے پر مرکوز رہتی یا وہ نمی کے ہاتھ کو تھامے رکھتا یوں جیسے بلور کا بنا ہو۔

اس روز گاڑی رکی تو نمی خوشی سے اچھل پڑی پھر آنکھیں بند کر کے خواب دیکھنے لگی۔ گہرے بھورے بال اس کی طرف لپکے اس کے منہ سے ٹکرائے پھر سارے چہرے کو ڈھانپ لیا۔ برسلیٹ والا بازو اس کی کمر میں حمائل ہو گیا۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا آج سب نارمل ہو جائے گا۔ کبوتر سی آنکھیں بنائے اور خالی خولی ہاتھ تھامنے کی بیماری ختم ہو جائے گی۔ اور پھر وہی یو یوال گولڈن یو یووال۔

دیر تک آنکھیں بند کر کے پڑی رہی۔ لیکن کچھ بھی نہ ہو ا ۔اس نے آنکھیں کھول دیں ساتھ والی سیٹ پر امجی بیٹھا دیوانہ وار اس کا ہاتھ چوم رہا تھا۔ ایڈیٹ۔ وہ ملائی کی برف کی کلفی کی طرح جم کر رہ گئی۔ آخر امجی سیدھا ہو کر بولا، ’’نمی آج مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنا ہے۔‘‘ اچھا تو یہ بات کرنے کے لئے گاڑی روکی ہے۔ اسے غصہ آ گیا۔ ان حالات میں بھلا منہ زبانی بات کی کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ باتوں کی جلیبیاں تلنا سلی فول۔

’’نمی!‘‘ امجی بولا، ’’کیا تمہارے دل میں میرے لئے کوئی محبت نہیں۔‘‘

محبت۔ محبت۔ محبت وہ چڑ کر بولی، ’’ڈونٹ ٹاک لایک ان انکل امجی۔ بھئی ہم ریشنل دور میں رہتے ہیں بی ریزن ایبل۔ ذرا سوچو۔ لو کیا ہے ایک متھ۔ ویسے آئی لایک یو آل رائٹ۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ لیکن میں اپنے سوال کا ڈائرکٹ جواب مانگتا ہوں، ’’ڈو یو لو می۔‘‘

’’وہاٹ از لو؟‘‘ وہ بولی، ’’ایک خود فریبی ایک خود پیدا کی ہوئی فرنزی، ہے نا۔ کیا تم لو کے جھوٹے سنہرے جال سے آزاد نہیں ہو سکتے۔ نہیں مجھے تم سے محبت ہے۔ آئی لو یو میڈ۔ اوہ اٹ از اے پٹی، نمی کے منہ سے نکل گیا۔‘‘ دیر تک وہ خاموش رہے پھر امجی بولا، ’’نمی میں ایک ایسا جیون ساتھی تلاش کرنا چاہتا ہوں جو مجھ سے محبت کرتا ہو۔‘‘ وہ ہنسی، ’’پھر تم اولڈ سٹی کا رخ کرو۔ یہاں کلچرڈ ماحول میں تمہیں کوئی سوہنی نہ ملے گی۔‘‘ یہ ان کی آخری گفتگو تھی۔

اگلے روز نمی کو پتہ چلا کہ امجی شفٹ کر گیا ہے ، گھر مل گیا ہے یہ جان کر نمی کا دل ڈوب گیا۔ لیکن خود کو سنبھالا، ’’اچھا چلا گیا ہے۔ سو واٹ از آل رائیٹ۔‘‘ دل کو سمجھانے کے باوجود کئی ایک مہینے بار بار سوتے جاگتے ان جانے میں گہرے بھورے بال اڑتے اس کے چہرے پر ڈھیر ہو جاتے۔ پھر بریسلٹ والا ہاتھ بڑھ کر اسے تھام لیتا۔ بار بار وہ خود کو جھنجھوڑتی۔ ’’چلا گیا ہے تو گیا۔ سو وہاٹ اٹ از آل رائٹ۔‘‘

ایک سال بعد نمی کی کے جی اویس سے شادی ہو گئی۔ اور اسے سب کچھ مل گیا۔ سجا سجایا گھر نوکر چاکر۔ ساز و سامان۔ کاریں۔ سب کچھ۔ اس کا خاوند اویس بڑا کلچرڈ آدمی تھا۔ اور چونکہ ادھیڑ عمر کا تھا اس کی زندگی کا تمام تر مقصد نوجوان بیوی کو خوش رکھنا تھا۔ بلکہ اسپایل کرنا تھا۔ اویس میں بڑی خوبیاں تھیں صرف عمر ڈھلی ہوئی تھی۔ بال گر چکے تھے۔ ٹانٹ نکل آئی تھی۔ بہر حال نمی خوش تھی بہت خوش۔ شادی کے دو سال بعد ایک روز اویس بر سبیل تذکرہ کہنے لگا، ’’ڈارلنگ وہ تیری ایک ڈاکٹر سہیلی تھی کیا نام تھا اس کا؟‘‘

’’صفو کی بات کر رہے ہو؟‘‘

’’کہاں ہوتی ہے وہ آج کل؟‘‘

’’پہلے تو پنڈی میں اس کا کلینک تھا اب پتہ نہیں دو سال سے نہیں ملی وہ۔‘‘

’’پنڈی میں کس جگہ کلینک تھا؟‘‘

’’شاید لال کرتی کے چوک میں۔ کیوں کوئی کام ہے صفو سے؟‘‘

’’نہیں تو۔‘‘ اویس بولا، ’’ویسے ہی پوچھ رہا تھا۔‘‘

دس پندرہ روز کے بعد اچانک صفو آ گئی۔

’’ارے تو صفو۔‘‘ نمی خوشی سے چلائی۔

’’کیسی ہے تو؟‘‘ صفو نے پوچھا۔

’’فرسٹ ریٹ۔‘‘

’’آر یو یپی۔‘‘

’’ہیپی از نو ورڈ فار اٹ ان۔‘‘ نمی آنکھیں چمکا کر بولی۔ اچھا صفو سوچ میں پڑ گئی۔ بات کیا ہے؟نمی نے پوچھا، ’’کیا اویس ملا تھا تجھے؟‘‘

’’ہاں ملا تھا۔‘‘ صفو نے تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد کہا۔

’’مذاق نہ کرو صفو۔‘‘

’’آئی ایم ڈیڈ سیریس۔ اویس کہتا ہے تمہیں ہیلو سی نیشن ہوتے ہیں۔‘‘

’’مجھے؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’مثلاً۔‘‘

’’کہتا تھا جب اکیلے میں میرے ساتھ ہوتی ہے تو کہتی ہے ڈارلنگ تم بال کیوں نہیں سنبھالتے میرے منہ پر پڑتے ہیں۔‘‘ اور صفو رک گئی۔

نمی چپ ہو گئی۔

’’اور جانو تم بریسلیٹ تو اتار دیا کرو۔ ‘‘

’’نانسنس۔‘‘ نمی چیخی، ’’ایسی بے معنی باتیں میں کرتی ہوں کیا؟‘‘

’’کیا۔۔۔؟‘‘

’’کہ بال سنبھال لیا کرو میرے منہ پر پڑتے ہیں۔ اور۔۔۔‘‘

’’اور۔۔۔ اپنا بریسلیٹ تو اتار دیا کرو۔۔۔‘‘

’’مذاق نہ کر۔‘‘ نمی چلائی۔۔۔

’’تمہیں پتہ نہیں کیا۔۔۔‘‘ صفو سنجیدگی سے بولی، ’’میری شادی ہو چکی ہے امجی سے۔‘‘

مصنف:ممتاز مفتی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here