ہندوستان سے ایک خط

0
172
Urdu Story Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’ملک کی آزادی نے صرف ملک کو تقسیم ہی نہیں کیا تھا بلکہ تباہی و بربادی بھی ساتھ لیکر آئی تھی۔ ‘ہندوستان سے ایک خط’ ایسے ہی ایک تباہ و برباد خاندان کی کہانی ہے، جو بھارت کی طرح (ہندوستان، پاکستان و بنگلہ دیش) خود بھی تین حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ اسی خاندان کا ایک فرد پاکستان میں رہنے والے اپنے ایک عزیز کو یہ خط لکھتا ہے جو فقط خط نہیں، بلکہ ایک خاندان کے ٹوٹنے اور ٹوٹ کر بکھر جانے کی داستان ہے۔‘‘

عزیز از جان سعادت و اقبال نشان برخوردار کامران طول عمرہ بعد دعا اور تمنائے دیدار کے یہ واضح ہو کہ یہ زمانہ خیریت تمہاری نہ معلوم ہونےکی وجہ سے بہت بے چینی میں گزرا۔ میں نے مختلف ذرائع سے خیریت سے خیریت بھیجنے اور خیریت منگانے کی کوشش کی مگر بے سود۔ ایک چھٹی لکھ کر ابراہیم کے بیٹے یوسف کو بھیجی اور تاکید کی کہ اسے فوراً کراچی کے پتے پر بھیجو اور ادھر سے جو چٹھی آئے مجھے بہ واپسی ڈاک روانہ کرو۔ تمھیں پتا ہوگا کہ وہ کویت میں ہے اور اچھی کمائی کر رہا ہے۔ بس اسی میں وہ اپنی اوقات کو بھول گیا اور پلٹ کر لکھا ہی نہیں کہ چٹھی بھیجی یا نہیں بھیجی، اور ادھر سے جواب آیا یا نہیں آیا۔ شیخ صدیق حسن خاں کا بیٹا لندن جارہا ہے تو اسے بھی میں نے ایک خط لکھ کر دیا تھا کہ اسے کراچی کےلیے لفافے میں بند کرکے لندن کے لیٹر بکس میں ڈال دینا۔ اس حرام خور نے بھی کچھ پتا نہ دیا کہ خط اس نے بھیجا یا نہ بھیجا۔

سب سے زیادہ تشویش عمران میاں کی طرف سے رہی کہ وہ وہاں پہنچے یا نہیں پہنچے۔ پہنچے تو کسی طور تو انھیں اپنی خیریت کا خط بھجوانا تھا۔ احوال یہ ہے کہ عمران میاں ادھر سے گزرے تھے۔ یہ جنگ کے دو سوادو ماہ بعد کی بات ہے۔ یہ سمجھ لو کہ وہ گلابی جاڑا تھا۔ میں اپنا پلنگ کمرے سے دالان میں لے آیا تھا۔ رات گئے دستک ہوئی۔ میں پریشان ہوا کہ الٰہی خیر۔ اس غیروقت میں کون آیا اور کیوں آیا۔ جاکر دروازہ کھولا۔ دستک دینے والے کو سر سے پیر تک د یکھا۔ حیران و پریشان کہ یہ کون آگیا ہے۔ خون نے خون کو پہچانا ورنہ وہاں اب پہچاننے کے لیے کچھ نہیں رہ گیا تھا۔ تب میں نے اسے گلے لگایا اور کہا کہ بیٹے ہم نے تمہیں ان حالتوں تو پاکستان نہیں بھیجا تھا، تم کیا حال بناکر آئے ہو۔ مگر میں پھر اپنے کہے پر آپ نادم ہوا۔ یہ کیا کم تھا کہ ہماری امانت ہمیں واپس مل گئی۔ بندے کو چاہیے کہ ہر حال میں شکر خدا کرے۔ حرف شکایت زبان پر نہ لائے کہ مبادا کلمۂ کفر بن جائے اور کہنے والا مستحق عذاب ٹھہرے۔ انسان ضعیف البنیان نے اس دنیا میں آنے کے بعد وہ کچھ کیا ہے کہ اس کے ساتھ جو بھی ہو اس پر شکایت کی گنجائش نہیں۔ آدمی بس چپ رہے اور جبار و قہار کے قہر سے ڈرتا رہے۔

تمہاری چچی نے عمران میاں کو دیکھا تو حق دق رہ گئیں۔ گلے لگایا اور بہت روئیں۔ میں تو چپ رہا تھا مگر وہ پوچھ بیٹھیں کہ بہو کہاں ہیں؟ بچوں کو کہاں چھوڑا؟ اس پر اس عزیز کی حالت غیر ہوگئی۔ میں اور تمہاری چچی دونوں گھبراگئے۔ پھر احتیاط برتی کہ ایسا کوئی حوالہ درمیان میں نہ آئے۔

عمران میاں یہاں تین دن رہے مگر کیا رہے۔ نہ بولنا نہ ہنسنا، بس گم سم۔ تیسرے دن عمران میاں کو خیال آیا کہ میاں جانی کی قبر پہ چلا جائے۔ میں نے سر پہ ہاتھ پھیرا اور کہا کہ بیٹے تم پچیس برس بعد دادا کی قبر پر فاتحہ پڑھوگے۔ مگر دن میں اس طرف جانا قرین مصلحت نہیں۔ تم اسی مٹی میں پیدا ہوئے ہو۔ پہچانے جاؤگے۔ اس پر وہ عزیز زہرخندہ ہوا اور بولا کہ چچاجان! میں گھر آنے سے پہلے بستی میں گھوم پھر لیا ہوں۔ اس مٹی نے مجھے نہیں پہچانا۔ میں نے کہا کہ بیٹے اب اسی میں عافیت ہے کہ یہ مٹی تمہیں نہ پہچانے۔ خیر تو میں شام پڑے عمران میاں کو قبرستان لے گیا۔ نئی قبروں سے میں نے متعارف کرایا، پرانی قبروں کو انہوں نے خود پہچان لیا۔ اندھیرا تھا اس لیے بعض قبروں کی شناخت میں قدرے دقت پیش آئی۔ میاں جانی کی قبر پر پہنچ کر عمران کا من بھر آیا۔ میری بھی آنکھ بھیگ گئی۔ وہ قبر اب بہت کستہ ہوگئی ہے۔ سرہانے کھڑا ہوا ہار سنگھار کا پیڑ گر چکا ہے۔

- Advertisement -

تمہیں یاد ہوگا کہ میاں جانی کو ہار سنگھار کابہت شوق تھا۔ انہوں نے باغ میں بہت شوق سے کئی پیڑ لگائے تھے اور ان سے اتنے پھول اترتے تھے کہ سال بھر تک گھر کی بچیوں کے دوپٹے ان میں رنگے جاتے تھے اور ہر دعوت پر بریانی میں ڈالے جاتے تھے۔ پھر بھی بچ رہتے تھے۔ مگر ہار سنگھار توجہ چاہتا ہے۔ میں اکیلا کس کس چیز پر توجہ دوں۔ ہار سنگھار کا یہ آخری پیڑ تھا جو میاں جانی کے سرہانے کھڑا رہ گیا تھا۔ جنگ سے پہلے والی برسات میں وہ بھی گرگیا۔ اب ہمارا باغ اور ہمارا قبرستان دونوں ہار سنگھار سے خالی ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔ باغ بچارہ گیا تو یہی بہت ہے۔ قبرستان سے متصل ہونے کی بناپر قبرستان میں شمار ہوا اور ہاتھ سے جاتے جاتے بچ گیا۔ مگر ان ستائیس برسوں میں اتنے پیڑ گرے ہیں اور ان کے ساتھ اتنی یادیں دفن ہوگئی ہیں کہ اب اس باغ کو بھی قبرستان سمجھانا چاہیے۔ جو پیڑ باقی رہ گئے ہیں وہ گزرے دنوں کے کنبے نظر آتے ہیں۔ بہرحال جو باغ کا حال ہے وہ عمران میاں دیکھ گئے ہیں۔ اگر پہنچ گئے ہوں گے تو بتایا ہوگا۔ یہاں سے تو وہ اسی صبح کو چلے گئے تھے۔ رات بھر میاں جانی کی قبر کے سرہانے بیٹھ کر گزاردی، میں بھی بیٹھا رہا۔ جب جھپٹٹا ہوا اور چڑیاں بولیں تو وہ عزیز جھر جھری لے کر اٹھا اور مجھ سے رخصت چاہی۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ کیوں جارہے ہو؟ آگئے ہو تو رہو۔ پھیکے پن سے بولا کہ یہاں تو مجھے کوئی پہچانتا ہی نہیں۔ میں نے کہا کہ عزیز اب نہ پہچانے جانے ہی میں عافیت ہے۔ مگر وہ میری بات سے قائل نہیں ہوا۔ سفر اس پر سوار تھا۔ میں نے پوچھا، ’’مگر بیٹے جاؤگے کہاں؟‘‘ بولا کہ جہاں قدم لے جائیں گے۔ میں نے اس کی باتوں سے اندازہ لگایا کہ کٹھمنڈو جاکر وہاں سے کراچی جانے کی صورت نکالنے کی نیت ہے۔ دل تو بہت دکھا مگر کچھ اس کا اصرار اور کچھ میرا یہ ڈر کہ کہیں یہ خبر نکل جائے۔ سو میں نے صبر کیا۔ اپنے بازو سے دعائے نور کھول کر اس کے بازو پر باندھی اور اللہ کی حفظ و امان میں اسے رخصت کیا۔ چلتے چلتے تاکید کی تھی کہ سرحد سے نکلتے ہی جس طرح بھی ہو خیریت کی اطلاع دینا۔ مگر وہ دن ہے اور آج کا دن، خیریت کی خبر نہیں ملی۔

ادھر کی خبر ادھر کم کم پہنچتی ہےاور پہنچتی بھی ہے تو اس طرح کہ اس پر اعتبار کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ ایک روز شیخ صدیق حسن نے آکر خبر سنائی کہ پاکستان میں سب سوشلسٹ ہوگئے ہیں اور پیاز پانچ روپے سیر بکتے ہیں۔ یہ خبر سن کر دل بیٹھ گیا مگر پھر میں نے سوچا کہ شیخ صاحب پرانے کانگریسی ہیں، پاکستان کے بارے میں جو خبر سنائیں گے ایسی ہی سنائیں گے۔ ان کے بیان پر اعتبار نہ کرنا چاہیے۔ چند ہی دنوں بعد ایک ایسی خبر سن لی جس سے بری افواہوں کی تردید ہوگئی؟ خبر سنی کہ مرزائیوں کو غیرمسلم قرار دے دیا گیا۔ شیخ صاحب کو میں نے یہ خبر سنائی تو وہ اپنا سا منھ لے کر رہ گئے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان پر اپنی رحمت کرے اور اس قوم کو اس کی نیکی کی جزادے۔ ہم تو کفرستان میں ہیں۔ غیراسلامی رسوم و اطوار رکھتے ہیں اور بول نہیں سکتے۔ ہماری حویلی کے قریب ہی غیرمقلدوں نے اپنی مسجد بنالی ہے۔ وہاں وہ بلند آواز سے آمین کہتے ہیں اور ہم چپ رہتے ہیں۔

ہاں شیخ صدیق حسن بھی تمہارے متعلق بھی ایک مرتبہ خبر لائے، خبر سنائی کہ تم نے کوٹھی بنوائی ہے۔ بیٹھک میں صوفے بچھے ہوئے ہیں اور ٹیلی ویژن رکھا ہے۔ یہ خبر سن کر خوشی ہوئی۔ خدا کا شکر ادا کیا کہ یہاں کی تلافی وہاں ہوگئی ہے۔ یہاں حویلی کا حال اچھا نہیں ہے۔ پچھلی برسات میں جھکی ہوئی کڑیاں اور جھک گئیں۔ دیوان خانے کا حال یہ ہے کہ چھت کی طرف دیکھو تو آسمان نظر آتا ہے۔ ہماری بیکاری اور زیرمالی کا حال تمہیں اچھی طرح معلوم ہے۔ تم کچھ رقم بھیج سکو تو میاں جانی کی قبر کی مرمت کرا دی جائے اور دیوان خانے کی چھت پر مٹی ڈلوادی جائے۔ اس سے زیادہ فی الحال کرنا بھی نہیں چاہیے۔

حویلی کے مقدمے کا تاحال فیصلہ نہیں۔ قبلہ بھائی صاحب مرحوم ۴۷ء میں چلتے وقت مقدمے کے کاغذات میرے سپرد کرگئے تھے۔ الحمدللہ کہ اس وقت سے اب تک میں نے سب پیشیاں کامیابی میں بھگتائی ہیں اور ہمیشہ لائق وکیوں سے رجوع کیا ہے۔ خدا کی ذات سے امید ہے کہ مقدمے کا فیصلہ جلدی ہوگا اور ہمارے حق میں ہوگا۔ مگر پیک اجل کا پتا نہیں کہ کس روز سر پہ آکھڑا ہو۔ کبھی کبھی بہت فکرمند ہوتا ہوں کہ میرے بعد یہ مقدمہ کون لڑے گا۔

جس طرف نظر ڈالتا ہوں تاریکی ہی تاریکی نظر آتی ہے۔ ہمارے صاحبزادے اختر کے لچھن یہ ہیں کہ اپنا نام پریمی رکھ لیا ہے اور ریڈیو پر جاکر ڈراموں میں پارٹ ادا کرتاہے۔ چھوٹے بھیا مرحوم کی صاحبزادی خالدہ نے ایک ہندو وکیل سے شادی کرلی ہے۔ اب وہ بے حجابی کی ساڑھی باندھتی ہے اور ماتھے پہ بندی لگاتی ہے۔ پاکستان میں جو خاندان کا نقشہ ہے وہ تم پر مجھ سے زیادہ روشن ہونا چاہیے۔ سنا تھا کہ آپا جانی کی لڑکی نرگس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور جس سے کی ہے وہ وہابی ہے۔ خود آپا جانی کا احوال میں نے یہ سنا ہے کہ وہ کھلے منہ بیٹے کی موٹر میں بیٹھتی ہیں اور ہزاروں سے منہ در منہ بات کرکے کپڑا خریدتی ہیں۔

یہ سب کچھ دیکھنے کے لیے ایک میں ہی زندہ رہ گیا ہوں۔ قبلہ بھائی صاحب مرحوم اور چھوٹے بھیا دونوں اچھے دنوں میں سدھار گئے۔ جب میں قبرستان جاتا ہوں اور میاں جانی اور چھوٹے بھیا کی قبروں پر فاتحہ پڑھتا ہوں تو قبلہ بھائی صاحب بہت یاد آتے ہیں۔ کیا وقت آیا ہے کہ اب ہم میں سے کوئی جاکر ان کی قبر پر فاتحہ بھی نہیں پڑھ سکتا۔ جو خاندان ایک جگہ جیا، ایک جگہ مرا اب ان کی قبریں تین قبرستانوں میں بٹی ہوئی ہیں۔ میں نے قبلہ بھائی صاحب سے مؤدبانہ عرض کیا تھا کہ اگر آپ ہمیں چھوڑ ہی رہے ہیں تو پھر مناسب یہ ہے کہ آپ کامران میاں کے پاس کراچی جایے، مگر چھوٹے بیٹے کی محبت انھیں ڈھاکہ لے گئی۔ ان کی بے وقت موت ہم سب کے لیے بڑا صدمہ تھی۔ مگر اب میں سوچتا ہوں کہ ان کے جلدی اٹھ جانے میں بھی اللہ تعالیٰ کی مصلحت تھی۔ وہ نیک روح تھے۔ قدرت کو یہ منظور نہیں تھا کہ وہ عبرت و اذیت کے دن دیکھنے کے لیے زندہ رہیں۔ یہ دن تو مجھ گنہ گار کو دیکھنے تھے۔

اب جب کہ بڑوں کا سایہ سر سے اٹھ چکا ہے اور ہمارا خاندان ہندوستان اور پاکستان اور بنگلہ دیش میں بٹ کر بکھر گیا ہے اور میں لبِ گور بیٹھا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ میرے پاس جو امانت ہے اسے تم تک منتقل کردوں کہ اب تم ہی اس خاندان کے بڑے ہو۔ مگر اب یہ امانت حافظے کے واسطے ہی سے منتقل کی جاسکتی ہے۔ خاندان کی یادگاریں مع شجرۂ نسب کے قبلہ بھائی صاحب اپنے ہمراہ ڈھاکہ لے گئے تھے جہاں افراد خاندان کے ضائع ہوئے وہاں وہ یادگاریں بھی ضایع ہوگئیں۔ عمران میاں بالکل خالی ہاتھ آئے تھے۔ سب سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ ہمارا شجرہ نسب گم ہوگیا۔ ہمارے اجداد نے کہ سادت عظام میں سے تھے تاریخ میں بہت مصائب و آلام دیکھے ہیں مگر شجرے کے گم ہونے کا الم ہمیں سہنا تھا۔ اب ہم ایک آفت زدہ خاندان ہیں جو اپنا ٹھکانا اور شجرہ گم کرچکا ہے اور انتشار کا شکار ہے۔ کوئی ہندوستان میں کھیت ہوا، کوئی بنگلہ دیش میں گم ہوا اور کوئی پاکستان میں دربدر پھرتا ہے۔ عقیدے میں خلل پڑچکا ہے۔ غیراسلامی طور اطوار اپنالیے ہیں۔ دوسرے مذہبوں اور فرقوں میں شادیاں کر رہے ہیں۔ یہی حال رہا تو تھوڑے عرصے میں ہمارے خاندان کی اصل نسل بالکل ہی نابود ہوجائے گی اور کوئی یہ بتانے والا بھی نہ رہے گا کہ ہم کون ہیں اور کیا ہیں۔

سو اے فرزند! سُن کہ ہم نجیب الطرفین سید ہیں۔ حضرت امام موسیٰ کاظم سے ہمارا سلسلہ نسب ملتا ہے۔ مگر الحمدللہ کہ ہم راقضی نہیں ہیں۔ صحیح العقیدہ حنفی مسلمان ہیں۔ اصحاب کبار کو مانتے ہیں اور اہل بیت سے محبت رکھتے ہیں۔ میاں جانی کا طریق چلا آتا تھا کہ عاشور کے دن روزہ رکھتے اور دن بھر مصلے پہ بیٹھے رہتے۔ ہمارے گھر میں ایک تسبیح تھی کہ عاشور کے دن عصر کے ہنگام سرخ ہوجایا کرتی تھی۔ میاں جانی بتایا کرتے تھے کہ یہ خاص اس مقام کی مٹی کے دانے ہیں جہاں ہمارے جد امجد سیدنا حضرت امام حسین علیہ الصلوٰۃ والسلام گھوڑے سے فرش زمین پر آئے تھے۔ اس تسبیح کے سرخ ہونے کے ساتھ والد مرحوم کا استغراق بڑھ جاتا مگر سینہ کوبی اور گریہ سے اجتناب کرتے تھے کہ یہ بدعت ہے۔ ہاں کھچڑے کی دیگیں پکتی تھیں جو غربا و مساکین میں تقسیم ہوتی تھیں۔

تقسیم کے بعد بس ایک دیگ رہ گئی تھی۔ پچھلے برس ہم اس دیگ سے بھی گئے۔ قبولی کادیگچا پکوایا اور غربا میں بانٹ دیا۔ اگلے برس کا حال اللہ کو معلوم ہے۔ مہنگائی بڑھتی چلی جارہی ہے اور ہمارا حال خستہ ہوتا چلا جارہا ہے۔

بیٹے! ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ پاکستان میں پیاز اب کس بھاؤ بک رہی ہے، مگر ایک بات سن لو قیمتیں چڑھ کر گرا نہیں کرتیں اور اخلاق گر کر سنبھلا نہیں کرتے۔ بس پناہ مانگو اس وقت سے جب چیزوں کی قیمتیں چڑھنے لگیں اور لوگوں کے اخلاق گرنے لگیں۔ جب ایسا وقت آجائے تو بندوں کو چاہیے کہ توبہ و استغفار کریں اور تلاوت کلام پاک کریں کہ عاد و ثمود کی بستیوں کے ذکر میں فہم رکھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔

خیر میں ذکر اپنےخاندان کا کر رہا تھا۔ اس خاندان کا جسے میں نے اکٹھا بھی دیکھا مگر بکھرتے ہوئے زیادہ دیکھا۔ بیان کیا ہم تینوں بھائیوں سے اپنے حضور بٹھاکر میاں جانی نے کہ خدا ان کی قبر کو ہارسنگھار کی سوگندھ سےبسائے رکھے۔ وہ فرماتے تھے کہ مجھ سے بیان کیا میرے والد بزرگوار سید حاتم علی نے اس وقت جب کہ ان کا وقت قریب آیا۔ فرمایا اس جناب نے کہ مجھ سے بیان کیا میرے باپ سید رستم علی نے اس تذکرے کے حوالے سے کہ جس میں ہمارے خاندانی حالات تمام و کمال درج تھے اور جو ضائع ہوگیا اس ہنگام جو کیے انہوں نے سنہ ستاون میں بائیس خواجہ کی چوکھٹ کو چھوڑا اور برس برس خاک بسر دربدر پھرے اور حوالے سے ان بزرگوں کے بیان کرتا ہوں میں تم سے کہ ہم اصل میں اصفہان کی مٹی ہیں۔ جب آوارہ وطن شہنشاہ ہمایوں نے اپنی سلطنت کے حصول کے لیے اس دریا میں اپنا لشکر آراستہ کیا تو ہمارے مورث اعلیٰ میر منصور محدث کہ خرما فروش تھے اور علم الحدیث کا بحر بیکراں تھے، اصفہان نصف جہاں سے اس فلک جناب کے ہم رکاب ہوئے اور ظلمت کدۂ ہند میں پہنچ کر مینارۂ نور ایمان بنے۔ اکبرآباد میں ان کا مزار آج بھی مرجع خلائق ہے۔ قبر کچی ہے۔ کنواریاں مٹی اٹھاکر مانگ میں ڈالتی ہیں جو برس کے اندر اندر مانگ کا سیندور بن جاتی ہے۔ خالی گود بیاہیاں مٹی آنچل میں باندھ کر لے جاتی ہیں اور برس بعد ہری گود کے ساتھ واپس آتی ہیں اور چادر چڑھاتی ہیں۔

شاہجہاں کے عہد میں اس بزرگ کی اولاد نے اکبر آباد سے رخت صفر باندھا اور جہان آباد پہنچی۔ پھر وہاں سے سنہ ستاون کی رستاخیز میں نکلی۔ ہمارے جدمیر رستم علی نے اپنی دولت میں سے دمڑی ساتھ نہ لی بس شجرہ نسب کو پٹکے کے ساتھ کمر پر مضبوط باندھا، کاغذات و دستاویزات کا پلند بغل میں دبایا اور نکل کھڑے ہوئے۔ اسی پلندے میں خاندان کا تذکرہ بھی تھا۔ راہ میں بٹ ماروں سے مقابلہ ہوا۔ اس افراتفری میں پلندہ بکھر گیا۔ کچھ کاغذات گر گئے، کچھ رہ گئے۔ گرجانے والے کاغذوں میں تذکرہ بھی تھا۔ مگر شکر صد شکر کہ شجرے کا حرف بھی میلا نہ ہوا۔

بہت خاک چھاننے کے بعد اس بستی سے کہ جہاں اب اکیلا تمھارا چچا خاک نشین ہے، گزر ہوا۔ یہاں کی زمین کومہر بان پاکر ڈیرا کیا۔ جاننا چاہیے کہ زمین جب مہربان ہوتی ہے تو محبوبہ کی آغوش کی طرح نرم اور ماں کی گود کے سمان کشادہ ہوجاتی ہے۔ جب نا مہربان ہوتی ہے تو جابر حاکم کی مثال سخت اور حاسد کے دل کی مانند تنگ ہوجاتی ہے۔ حق یہ ہے کہ اس زمین نے ایک مدت تک ہم پر دیا کی۔ اس نے ہمارے بڑھتے پھیلتے خاندان کو برس برس تک اس طرح اپنی آغوش میں سمیٹے رکھا جیسے تصرف پسند ماں بچوں کو سینے سے لگائے رکھتی ہے اور کسی کو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی۔

تقسیم سے پہلے اس خاندان کے صرف تین فرد باہر نکلے تھے۔ بھائی اشرف علی، بھیا فاروق اور پیارے میاں۔ بھائی اشرف علی ہمارے چچا جانی کے بیٹے تھے اور عمر میں قبلہ بھائی صاحب سے ایک سال بڑے تھے۔ اس اعتبار سے تمہارے تایا ہوئے۔ ماشے اللہ سے ڈپٹی کلکٹر تھے اور باہر کے اضلاع میں تعینات رہتے تھے۔ مگر ڈالی یہیں پہنچتی تھی۔ بھیا فاروق ان کے چھوٹے بھائی تھے اور میرے ہم عمر تھے۔ محکمہ جنگلات میں تھے۔ عمر سی پی میں گزری۔ ہماری حویلی میں لکڑی کاجتنا سامان تم نے دیکھا وہ انہی کا بنوایا اور بھجوایا ہوا تھا۔ دونوں بھائی فخر خاندان تھے۔ عمر باہر گزاری مگر آخر میں آرام اپنی مٹی میں آکر کیا۔

پیارے میاں اپنی پھوپھی اماں کے لاڈلے بیٹے تھے۔ لاڈ پیار میں ایسے بگڑے کہ ساتوں عیب کرنے لگے۔ ہمارے خاندان میں وہ پہلے فرد تھے جنہوں نے بائیسکوپ دیکھا۔ ایک دفعہ میں بھی ان کے کہے میں آکر بہک گیا۔ مادھوری کو دیکھ کر دل بہت بے قابو ہوا۔ مگر میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور پھر اس طرف کا رخ نہیں کیا۔ پیارے میاں آگے ناٹک کے متوالے تھے، بائیسکوپ شہر میں آیا تو اس کے رسیا بن گئے۔

’بمبئی کی بلی‘ دیکھ کر سلوچنا پر مرمٹے۔ ایک روز پھوپھی اماں کی سونے کی بالیاں چراکر گھر سے نکل گئے اور سیدھے بمبئی پہنچے۔ میاں جانی نے کہلا بھیجا کہ صاحبزادے! اب ادھر کا رخ نہ کرنا۔ بمبئی میں ایک نٹنی نے انھیں جھانسا دیا کہ تمھیں سلوچنا سے ملاؤں گی۔ سلوچنا سے تو نہ ملایا، خود گلے پڑگئی۔ ساری جوانی بمبئی میں گزاری۔ پھوپھی اماں کے مرنے کی خبر پہنچی تو آئے۔ بڑھاپا آچکا تھا۔ لمبی سفید داڑھی، ہاتھ میں تسبیح۔ ماں کو بہت روئے۔ ہم سب نے کہا کہ اب تم یہیں رہو۔ بولے کہ میاں جانی کی اجازت کے بغیر یہاں کیسے رک سکتا ہوں۔ میاں جانی دنیا سے پہلے ہی سدھار چکے تھے، اجازت کون دیتا۔ پھر بمبئی چلے گئے۔ آگ لگ چکی تھی اور گاڑیوں میں حادثے ہو رہے تھے۔ سب نے بہت سمجھایا، نہ مانے۔ گاڑی میں سوار ہوگئے، مگر بمبئی تو پہنچے نہیں۔ جانے راستے میں ان پر کیا گزری۔

پیارے میاں ہمارے خاندان کی طرف سے ۴۷ء کے فسادات میں پہلی بھینٹ تھے۔ میں نے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ تب سے اب تک ہمارے خاندان کے اکتیس افراد اللہ کو پیارے ہوئے۔ اکیس مقتول ہوئے۔ نو طبعی موت مرے۔ سات کو ہندو نے ہندوستان میں شہید کیا۔ چودہ پاکستان جاکر برادران اسلام کے ہاتھوں اللہ کو عزیز ہوئے۔ ان چودہ میں سے ایک کو کراچی میں ایوب خاں کے آدمیوں نے الیکشن کے موقع پر محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کرنے کی پاداش میں گولی ماردی۔ باقی دس افرا دمشرقی پاکستان میں ہلاک ہوئے۔ ان افراد میں میں نے عمران میا ں کو شمار نہیں کیا ہے۔ بندے کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ میرا دل کہتا ہے کہ وہ ہمارے جگر کا ٹکڑا اگر ابھی تک کراچی نہیں پہنچا ہے، تو کھٹمنڈو میں ہے۔ کٹھمنڈو سے یاد آیا کہ بھیا فاروق کا لڑکا شرافت بھی یہاں سے گزرا تھا۔ ڈھاکہ سے بچ نکلا تھا اور کٹھمنڈو جارہا تھا کہ راستے میں یہاں رک گیا۔ وہ بنا بنایا پیارے میاں ہے۔ اس سانحے نے اس پر ذرا جو اثر کیا ہو۔ جتنے دن یہاں رہا ہے، بے دھڑک بائیسکوپ دیکھتا رہا۔ چلنے کے لیے تیار ہوا تو کٹھمنڈو کی بجائے بمبئی کے لیے بستر باندھا۔ میں نے بمبئی جانے کا سبب پوچھا تو کہا کہ وہاں راجیش کھنہ سے ملوں گا۔ میں نے کہا کہ اے بے ایمان! راجیش کھنہ کون سا ای بلموریا ڈی بلموریا ہے جو تو اس سے ملنے کے لیے بیتاب ہے۔ مگر اس نے میری ایک کان سنی اور دوسرے کان اڑائی اور بمبئی روانہ ہوگیا۔ بعد میں اس کا لنکا سے خیریت کا خط آیا۔ پتہ نہیں کن کن راستوں پر بھٹک کر وہ وہاں پہنچا۔

شرافت کو زندہ دیکھ کر خدا کا شکریہ ادا کیا۔ مگر اس کے لچھن دیکھ کر دل خوش نہیں ہوا۔ ویسے میں نے جو کچھ سنا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں جاکر ہمارے خاندان کی لڑکیاں زیادہ آزاد ہوئی ہیں۔ میں تو جس لڑکی کے متعلق سنتا ہوں، یہی سنتا ہوں کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کرلی ہے۔ ہمارے خاندان میں تقسیم سے پہلے بس ایک واقعہ ایسا ہوا تھا جو خاندان کو بدنام کرسکتا تھا مگر اسے بھی خوش اسلوبی سے دبادیا گیا۔ چھوٹی پھوپھی کی چھت پر ایک روز کنکوا آکے گرا۔ اور تم جانو کہ جس گھر میں کوئی لڑکی جوان ہو رہی ہو اس گھر کی انگنائی میں روڑے کا گرنا اور چھت پر کنکوے کا خم کھانا کچھ اچھی علامت نہیں ہے۔ ان دونوں چھوٹی پھوپھی کی بڑی لڑکی خدیجہ قد نکال رہی تھی۔ چھوٹی پھوپھی نے اس واقعے کا ذکر میاں جانی سے آکر کیا۔ کنکوے کے ساتھ جو رقعہ چھت پر گرا تھا وہ بھی سامنے رکھ دیا۔ میاں جانی آگ بگولا ہوگئے۔ بہت گرجے برسے کہ رضا علی کے بیٹے کی یہ مجال کہ ہماری چھت پہ کنکوا گراتا ہے۔ مگر جب چھوٹی پھوپھی نے اونچ نیچ سمجھائی تو نیچے پڑے۔ اب اس کے سوا چارہ ہی کیا تھا کہ اس اوباش کے ساتھ دوبول پڑھائے جائیں اور لڑکی کو رخصت کردیاجائے۔ رضا علی صاحب تو خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے کہ اس گھر کی بیٹی ان کی بہو بنے گی۔ ترنت نکاح پہ رضامند ہوگئے۔ مگر عین وقت پر سوال اٹھایا کہ صبغہ پڑھایا جائے گا۔ میاں جانی خون کا سا گھونٹ پی کر رہ گئے مگر کیا کرتے، ہاں کردی۔ مگر اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ یہی کہ خدیجہ کی اولاد آدھی تیتر آدھی بٹیر ہے۔ ایک گیارہویں شریف کی نیاز دلاتا ہے تو دوسرا محرم میں عزاداری کرتا ہے۔ مگر خیر اب تو ہمارا پورا خاندان ہی آدھا تیتر آدھا بٹیر ہے اور ہم سب عزادار ہیں کہ شجرہ ہمارا کھویا گیا اور اصل نسل کا اتا پتا غارت ہوا۔ خاندانوں میں یہ خاندان آگے کیسے پہچانا جائے گا۔ اب یہ خاندان کا ہے کو ہے، درخت سے جھڑے ہوئے پتے ہیں کہ ہوا میں اڑتے پھرتے ہیں اور خاک میں رلتے پلتے ہیں۔

عزیز! اب میں اڑتے پتوں کا ماتم دار ہوں۔ ان دنوں کو جب یہ خاندان برگ و ثمر سے لدا پھندادرخت تھا، یاد کرتا ہوں اور آوارہ پتوں کاشمار کرتا ہوں۔ میں نے مرنے والوں ہی کے اعداد و شمار جمع نہیں کیے ہیں جن کا زندوں میں شمار ہے ان کو بھی شمار کیا ہے۔ سب کے نام پتے اور کوائف قلم بند کیے ہیں۔ تحقیق کی ہے کہ اس وقت کون اہل خاندان کس ملک میں آوارہ ہے اور کس نگر میں خاک بسر ہے۔ یہ عبرت بھرا چٹھا میں تمھیں بھیج دوں گا۔ اپنا کیا اعتبار کہ چراغ سحری ہوں۔ چراغ بجھا چاہتا ہے۔ اور آنکھ بند ہوا چاہتی ہے۔ تم اس سیسہ بخت خاندان کے نئے چشم و چراغ ہو۔ اندھیرے میں بھٹکتے ہوؤں کو اگر تم اجالے میں لانے کی سعی کرو تو یہ تمہاری سعادت مندی ہوگی۔ ویسے تو مشاہدے میں یہی آیا ہے کہ تنکے بکھر گئے سو بکھر گئے۔ تتر بتر خاندان کبھی سمٹتے نہیں دیکھے گئے۔ مگر کوشش کرنا انسان کا فرض ہے۔ اس درماندہ خاندان کے سرو ہرے بنو۔ آواروں کی خیر خبر رکھو۔ اب کہ رستے کھلنے لگے ہیں، ادھر کا بھی ایک پھیرا لگاجاؤ۔ اپنی صورت دکھاجاؤ، ہماری صورت دیکھ جاؤ۔ تمہاری چچی کا تقاضا ہے کہ دلہن کو ساتھ لے کرآؤ۔ ہاں میاں اکیلے مت چلے آنا۔ اس بہانے تمہارے بچوں کو بھی دیکھ لیں گے کہ کس کی کیا شکل و صورت ہے؟ کون گورا ہے، کون کالا ہے؟ ایک بات اور، پاکستان جاکر اس خاندان میں جو اضافہ ہوا ہے، اس کی تفصیل میں نے ناموں کی حدتک قلم بند کی ہے۔ شکل و صورت کے کوائف درج نہیں کیے جاسکتے۔

یہ خانہ تم خود پر کرلینا۔ اس ڈھائی پونے تین سال کے عرصےمیں جو خاندان میں کمی بیشی ہوئی اس کا اندراج بھی ضروری ہے۔ تم ایسا کرو کہ اس عرصے میں ادھر جو گزرگئے اور جو تازہ وارد ہوئے ان کی تفصیل معلوم کرکے مجھے لکھو۔ میں الگ الگ کہاں خط لکھوں۔ ڈاک کھلی تو ہے مگر اتنی مہنگی کہ اب حقیر سا پوسٹ کارڈ لکھتے ہوئے بھی یہ لگتا ہے کہ تار برقی بھیج رہے ہیں۔

یہ کیا سن رہا ہوں کہ خدیجہ کی چھوٹی بیٹی نے شوہر سے خلع لے لیا ہے اور خاندانی منصوبہ بندی کے دفتر میں بھرتی ہوگئی ہے۔ خود تو کام سے گئی، دوسروں کے وظیفہ زوجیت میں کھنڈت ڈالتی پھرتی ہے۔

ہاں میاں! شجرہ تو کھویا گیا، اب یہ خاندان جو بھی کرے تھوڑا ہے۔ مگر سنتا ہوں دوسرے خاندانوں والے اس سے بڑھ کر کر رہے ہیں۔ کوئی بتا رہا تھا کہ ابراہیم نے آٹے میں چوری اور چری پیس پیس کر ایک اور مل بنالی ہے۔ اور میاں فیض الدین کہ یہاں پھٹے حالوں پھرتے تھے کالے پیسوں سے کوٹھیاں کھڑی کرلی ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا پاکستان میں سب ہی خاندانوں کے شجرے کھوگئے؟ عجب ثم العجب کہ ہم نے دیارِ ہند میں صدیاں بسر کیں، عیش کا زمانہ بھی گزرا، ادیار کے دن بھی دیکھے۔ اس کی شان کے قربان، حکومتیں بھی کیں، محکوم بھی رہے مگر شجرہ ہر حال میں حرزجان رہا۔ پھر ادھر لوگوں نے پاؤ صدی میں اپنے شجرے گم کردیے۔ خیرخوش رہیں۔

کیا کیا لکھوں، لکھنے کو بہت ہے، مگر تم اس کم لکھے کو بہت جانو، اپنی خیریت بھیجو۔ آنے کی اطلاع دو۔ رقعہ تمام کرتا ہوں کہ اب نماز کا وقت ہو رہا ہے اور اس کے بعد مقدمے کےکاغذات ترتیب دینے ہیں۔ کل پھر پیشی ہے۔ یہ چار سو ستائیسیویں پیشی ہے۔ انشاء اللہ العزیز یہ بھی خوش اسلوبی سے بھگتائی جائے گی۔ شاید میں انہی پیشیوں کے لیے زندہ ہوں ورنہ اب تمہارے بوڑھے چچا میں کچھ باقی نہیں رہ گیا ہے حتی کہ جینے کی خواہش بھی باقی نہیں۔ دنیا میں آکر بہت کچھ دیکھا۔ جو نہ دیکھنا تھا وہ بھی دیکھا۔ کہیں جلدی آنکھ بند ہوکر وہ دیکھیں جو دیکھنے کی مدت العمر سے آرزو ہے۔

تمہارا دورافتادہ چچا

گمنام قربان علی

مورخہ ۲۸ رمضان المبارک ۱۳۹۴ھ

مطابق ۱۵اکتوبر ۱۹۷۴ء

مصنف:انتظار حسین

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here