شکر اللہ کا

0
125
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’اس کہانی میں رجعت پسندی کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ممدو جو ایک حادثہ میں اپنی ایک ٹانگ گنوا بیٹھا ہے، ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتا رہتا ہے۔ ایام جوانی میں جس تحصیلدار کے یہاں وہ ملازم تھا اس کی بیٹی بانو نے اپنی سوتیلی ماں کے مظالم سے تنگ آ کر ممدو سے بھاگ چلنے کی درخواست کی تھی لیکن ممدو تحصیلدار کے خوف سے بیمار ہو کر گھر آگیا تھا۔ طویل مدت کے بعد بانو اس کو ایک کوٹھے پر ملتی ہے، وہ بانو کو وہاں سے نکال لاتا ہے اور بطور بیوی ساتھ رکھتا ہے۔ اخیر عمر میں بانو کی دماغی حالت خراب ہو جاتی ہے اور وہ ممدو کو پہچاننے سے بھی قاصر رہتی ہے۔ ممدو خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ بانو ساتھ میں ہے اور وہ کم از کم اسے دیکھ تو سکتا ہے۔‘‘

نہیں صاحب! کوئی شکوہ شکایت نہیں۔ رشتہ داروں، دوستوں، دشمنوں، تعلقات والوں، افسروں، مالکوں، کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ نہ سرکار سے کوئی گلہ ہے۔ نہ اللہ میاں سے کوئی شکوہ ہے۔ وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ قسمت کے لکھے کو کون مٹا سکتا ہے۔ سو میں اپنی قسمت پر شاکر ہوں اور صبح شام خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ کھانے کو پلاؤ قورما نہیں تو چٹنی روٹی تو بھیج دیتا ہے۔ سر کے اوپر آسمان کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں تو کیا ہوا، سونے کے لیے فٹ پاتھ کے پتھر تو ہیں۔ میری کٹی ہوئی ٹانگ کو دیکھ کر رحم نہ کھائیے۔ صاحب خدا کا شکر ہے، دوسری ٹانگ تو صحیح ہے۔

سچ پوچھئے تو صبر ہی ہم غریبوں کی سب سے بڑی دولت ہے۔ صبر ہماری عورتوں کا زیور ہے اور ہمارے بچوں کا کھلونا۔ آپ محلوں، بنگلوں میں رہنے والے صبر کے فائدے کیا جانیں۔ سوکھی روٹی کو صبر کی چٹنی سے لگاکر کھاؤ تو مرغ مسلم کا مزہ آتا ہے۔ پھر سڑک کے کنارے صبر کی مخملی گدی بچھا کر اوپر سے ریشمی چادر اوڑھ کر سو جاؤ۔ ایسی نیند آتی ہے کہ کسی راجہ نواب کو نہ آتی ہوگی اور جب مشین میں آکر میری بائیں ٹانگ کٹ گئی اور مل کے مالکوں نے ہر جانہ دینے سے انکار کر دیا اور میں ایک کباڑی کے یہاں سے دو روپے میں یہ ٹوٹی ہوئی بیساکھیاں خرید کر اچھلتا کودتا لنگڑاتا ہوا ایک ڈاکٹر کے یہاں پہنچا، جو کہ نقلی ٹانگ بنانے میں مشہور تھا اور اس نے ربڑ کی ٹانگ لگانے کے لیے ہزار روپیہ اور لکڑی کی ٹانگ کے لیے پانچ سو مانگے اور میری جیب میں صرف سات روپے نکلے تو آپ جانتے ہیں میں نے کیا کیا؟

نہ ربڑ کی ٹانگ لگوائی نہ لکڑی کی۔۔۔ صبر کی ٹانگ لگوائی۔ اس دن سےآج تک ان ہی ٹوٹی ہوئی بیساکھیوں اور صبر کی ٹانگ سے گزارہ کر رہا ہوں۔ صبر ہو تو بیساکھیوں کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے صاحب۔ اللہ نے ہاتھ دیے ہیں، کولہے دیے ہیں۔ وہ سامنے دیکھیے نا۔ لولے رولدو کی تو دونوں ٹانگیں بےکار ہیں۔ پھر بھی ہاتھوں اور کولہوں کے سہارے مزے سے گھسٹ گھسٹ کر چل لیتا ہے۔۔۔ اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ٹانگوں کے ساتھ بانہوں پر فالج نہ گرایا۔

خدا کی مہربانی تھی کہ بچپن ہی میں ماں باپ سے صبر کاسبق ملا۔ ہم ذات کے جولاہے ہیں صاحب۔۔۔ یوں تو ہم مسلمانوں میں ذات پات نہیں ہوتی۔ خدا کے بندے سب برابر ہیں۔ مگر امیری غریبی، اونچ نیچ، شرافت رذالت بھی تو اللہ کی بنائی ہوئی ہے۔ اس لیے میرے ماں باپ کا کہنا تھا کہ انسان کو کبھی اپنا درجہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے اور وہ عمل بھی ہمیشہ اسی اصول پر کرتا تھا۔ بوڑھا ہونے پر بھی وہ شریفوں کے لونڈوں تک کو جھک کر سلام کرتا۔ ہر پٹھان کو ’’خان صاحب‘‘ ہر سید کو ’’میر صاحب‘‘ ہر بنئے کو ’’لالہ جی‘‘ ہر برہمن کو ’’پنڈت جی‘‘ اور ہر چھوٹے سے چھوٹے افسر کو، یہاں تک کہ پٹواری، نمبردار تک کو ’’سرکار‘‘ کہتا تھا مگر وہ سب اسے ’’بندو جولاہا‘‘کہہ کر ہی پکارتے تھے۔

- Advertisement -

ان امیر شریفوں کے بچوں کو اجلے کپڑے پہنے، کتابیں ہاتھ میں لیے اسکول جاتے ہوئے دیکھ کر ہم بھائیوں کا بھی جی چاہتا کہ ہمارے بھی ایسے کپڑے ہوں۔ اور پڑھ لکھ کر ہم بھی افسر بنیں۔ مگر میرا باپ ہمیں سمجھاتا، ’’بیٹا! اپنی اوقات کبھی نہ بھولنی چاہیے۔ خدا نے جو درجہ دیا ہے، اسی پر صبر شکر سے صبر کرنا چاہیے۔ نہیں تو، کوا چلا ہنس کی چال۔۔۔ والی کہاوت ہو جائےگی۔۔۔‘‘ میرے باپ کو کہاوتیں بہت یاد تھیں۔۔۔ اور جیسا موقعہ ہوتا فوراً کوئی نہ کوئی کہاوت سنا دیتا۔

ایک برس کی بات ہے، جب ہم شہر کے آڑھتی بنئے کے لیے کمبل بنا کرتے تھے۔ وہ ہمیں اون اور کمبل ڈیڑھ روپیہ کتائی اور بنائی دیتا اور پھر اسی کمبل کو دس روپے، گیارہ روپے میں بازار بیچتا۔ ہاں، تو ایک برس عید کے موقع پر بابا کو آڑھتی کے یہاں سے رقم نہ ملی۔ بات یہ تھی کہ اس سال ولایت اور جاپان سے مشین کے بنے ہوئے جھاگ جیسے ملائم کمبل سستے داموں آ گئے تھے اور ہمارے مظفرنگر کے کمبلوں کی مانگ بہت کم ہو گئی تھی۔ سیکڑوں کمبل بن بکے پڑے ہوئے تھے اور خود ہمارے والے آڑھتی نے ولایتی کمبلوں کی ایجنسی لے لی تھی۔

ہاں، تو جب بابا کو پچاس ساٹھ کمبلوں کی بنائی نہ ملی تو وہ بےچارہ ہمارے لیے کپڑے کہاں سے بنواتا۔۔۔؟ وہی پچھلے سال کی عید کے کپڑے ماں نے گھر میں صابن سے دھو کر دے دیے۔ جب ہم نے اپنے پڑوس میں وکیل صاحب کے بچوں کو ریشمی اچکنوں اور نئی ترکی ٹوپیاں پہنے دیکھا تو ہمیں بڑا رونا آیا۔ پر بابا نے کہا، ’’ارے روتے کیوں ہو؟ وہ امیر اپنے مال میں مست ہیں تو ہم غریب اپنی کھال میں مست۔‘‘ یہ بات میرے دل میں بیٹھ گئی۔۔۔ وہ دن اور آج کا دن جب کبھی میں کسی امیر رئیس کو بڑھیا کپڑے پہنے اکڑفوں کرتے دیکھتا ہوں تو فوراً اپنی کھال میں مست ہو جاتا ہوں۔

ہاں صاحب! تو جب میں بڑا ہوا تو کئی برس تو اپنے باپ کے ساتھ کمبل بننے کا کام کرتا رہا۔ مگر جب یہ دھندا مندا پڑ گیا، تو میرے باپ نے نمبردار سے سفارش کروا کر مجھے تحصیلدار صاحب کے یہاں نوکر رکھا دیا۔ تحصیلدار صاحب شہر کے باہر تحصیل کے پاس ایک بنگلے میں رہتے تھے۔ اللہ بخشے، خان قدرت اللہ خان ان کا نام تھا۔ بڑے رعب داب والے تھے۔ یہ بڑی بڑی مونچھیں اور آواز ایسی کہ کسی کو زور سے ڈانٹ دیں تو ڈر کے مارے پیشاب نکل جائے۔ شہر بھر ان سے کانپتا تھا۔ ان کے یہاں بس میں ایک ہی نوکر تھا۔ تحصیل کے دو چپراسی بھی کچہری کے وقت کے بعد اوپر کا کام کرتے تھے۔

مگر گھر کا سب کام کاج مجھے ہی دیکھنا پڑتا تھا۔ کھانا پکانے کو ایک بڑھیا دووقت آجاتی تھی۔ مگر جھاڑو دینا، روز کمرے کی میز کرسیوں کو جھاڑنا پونچھنا۔ تحصیلدار صاحب کو ہر پندرہ بیس منٹ بعد حقہ بھر کر دینا۔ برتن دھونا، بستر بچھانا، بازار سے سودا سلف لانا۔۔۔ یہ سب میرا کام تھا۔ اور ہاں، ان سب کاموں کے علاوہ ایک کام اور بھی تھا۔ وہ تھا تحصیلدار صاحب کی بیٹی بانو کی کتابیں اٹھا کر اسے اسکول چھوڑ کر آنا۔ لڑکیوں کا اسکول کوئی دور نہ تھا۔۔۔ بنگلے سے مشکل سے آدھ میل ہوگا۔۔۔ اور کھیتوں سے ہو کر جاؤ تو اس سے بھی کم۔ مگر تحصیلدار صاحب کی شان کے خلاف تھاکہ ان کی بیٹی خود کتابیں اٹھا کر لے جائے۔۔۔ اس لیے بانو کو اسکول پہنچانا اور وہاں سے واپس لانا۔۔۔ میرا فرض تھا اور سچ پوچھئے تو سارے کاموں سے یہی کام مجھے سب سے اچھا لگتا تھا۔

ان دنوں میں کوئی ۱۷، ۱۸ برس کا ہوں گا۔ صاحب! خدا کے فضل سے ناک نقشہ بھی برا نہیں تھا۔ صحت بھی ماشاء اللہ اچھی تھی۔ پھر تحصیلدار صاحب نے دوچار پرانی قمیصیں اور شلواریں دے دی تھیں، جنہیں میری ماں نے گونتھ گانتھ کر ٹھیک کر دیا تھا۔ وہ پہن کر اور سر کے بالوں میں کڑوا تیل ڈال، میں بھی اچھا خاصا جنٹل مین لگتا تھا۔ بانو اسکول تو برقع اوڑھ کر جاتی تھی مگر مجھ سے پردہ نہیں کرتی تھی۔ تحصیل دار صاحب پردے کے معاملے میں ویسے بڑے کٹر تھے مگر ان کا کہنا تھا کہ نوکروں سے کیا پردہ؟ اور یہ ایسے ہی کہتے جیسے کوئی کہے کہ گھر کے کتے سے کیا پردہ؟ یا گھوڑے سے کیا پردہ؟‘‘

ہاں تو صاحب بانو مجھ سے پردہ نہیں کرتی تھی۔ کوئی ۱۵ یا ۱۶ برس کی ہوگی۔ ساتویں کا امتحان دینے والی تھی۔ اس کا حال کیا بتاؤں۔ آپ سے ایسی باتیں کرتے شرم آتی ہے۔ پر یہ سمجھ لیجیے کہ اللہ میاں نے خاص اپنے ہاتھ سے بانو کو بنایا تھا۔ رنگت ایسی جیسے میدا اور شہد! اور کالے ریشمی برقعہ میں سے منھ نکال کر جب وہ میری طرف دیکھ کر مسکرا دیتی تو ایسا لگتا تھا جیسے بدلی میں سے چاند نکل آیا تھا۔ گھونگرالے بال۔ بڑی بڑی کٹورا جیسی آنکھیں۔ میں تو آدمی تھا سرکار! وہ بھی جوانی کا عالم! فرشتے بھی اسے دیکھ لیتے تو ایک بار اپنی پارسائی کو بھول جاتے۔ پھر بھی وہ مالک کی بیٹی تھی۔ میں نوکر تھا۔۔۔ کبھی ایسا ویسا خیال آتا بھی تو میں سوچتا،

’’ابے او بندو جولاہے کے بیٹے، کیوں پاگل ہوا ہے، اپنی اوقات مت بھول، اتنے جوتے پڑیں گے کہ سر گنجا ہو جائےگا۔۔۔‘‘ اور یہ سوچتے ہی میرا نشہ ایسا غائب ہوتا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ پر، سرکار جھوٹ کیوں بولوں۔ اگلے دن جب اس کی کتابیں اٹھائے کھیتوں میں سے ہوتا ہوا بانو کے ساتھ اسکول جاتا اور ادھر ادھر کسی کو نہ پا کر وہ برقعہ سر سے اتار دیتی اور اس کے بالوں کی بھینی بھینی خوشبو ہوا میں پھیل جاتی تو شیطان مجھے بہکانے لگتا اور کہتا، ’’ابے تو نوکر نہیں ہے۔ وہ مالک کی بیٹی نہیں ہے۔ تو بھی جوان ہے وہ بھی جوان ہے۔‘‘

ایسے تو بانو تحصیلدار کی اکلوتی بیٹی تھی اور بڑی چہیتی اور اس کے لیے دنیا کا ہر عیش و آرام موجود تھا، پر یہ تحصیلدار صاحب کی دوسری بیوی خانم جو تھی، یہ تو بڑی ظالم تھی۔ سوتیلی بیٹی کو ایک گھڑی خوش دیکھنا اس کے لیے مشکل تھا۔ پر تھی بڑی چالاک۔ جب تک تحصیلدار صاحب گھر میں رہتے، ان کے دکھانے کے لیے بانو سے میٹھی میٹھی باتیں کرتی۔ پر جیسے ہی وہ کچہری جانے کے لیے نکلے اور اس نے چولا بدلا۔۔۔ بات بات پر غریب بانو پر ڈانٹ پڑتی۔ پٹتی بھی بےچاری۔ ایک دن سویرے خانم نے اپنے گود کے بچے کو گو اور موت میں سنے ہوئے نحالچے پوتڑے دھونے کے لیے بانو کو کہا۔

وہ بیچاری اسکول کا کام کر رہی تھی، اس میں ذرا دیر ہوگئی۔ خانم گودام میں سے کھانا پکانے والی کو آٹا تول کر دے کر جب باہر نکلی تو دیکھا نحالچے ویسے ہی پڑے ہیں۔ بس آگ ہی تو لگ گئی۔ بانو کے ہاتھ سے اسکول کی کاپی چھین کر پرزے پرزے کر دی اور لڑکی کو چوٹی پکڑ گھسیٹتی ہوئی اپنے کمرے میں لے گئی اور وہیں چھپر کھٹ کا پایہ اٹھا کر، اس کے ہاتھوں کو نیچے دباکر خود چھپر کھٹ پر چڑھ بیٹھی اور کہتی رہی جب تک تو معافی نہیں مانگے گی، ناک نہیں رگڑےگی، میں تجھے نہیں چھوڑوں گی۔ پر بانو بھی ہٹ کی بڑی پکی تھی۔ دانت بھینچے رہی! نہ روئی نہ سسکی، نہ معافی مانگی۔

جب خانم کا بچہ رویا تو وہ خود ہی اٹھی۔ میں برآمدے کی چک میں سے یہ سب دیکھ رہا تھا اور بس نہیں چلتا تھا کہ جا کر خانم کو جان سے مار دوں۔ جب اس کمبخت کو کمرے کے باہر جاتے دیکھا تو جان میں جان آئی۔ پر اب بانو کے ہاتھوں میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ خود پائے اٹھا سکے۔ یہ دیکھ کر میں خانم سے ڈرتا ڈرتا کمرے میں گیا اور جلدی سے پلنگ کا پایہ اٹھایا۔ اس وقت بانو کی آنکھوں کا حال کیا بیان کروں سرکار! ایسی لگتی تھی، جیسے کوئی گھائل ہرنی۔ جیسے کسی نے کسائی کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچا لیا ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے اب ان آنکھوں میں آنسو امنڈ آئے، پھر تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ میرے کندھے پر سر رکھ کر سسکیاں بھر رہی ہے۔ آپ ہی بتائیے ایسے موقع پر کوئی کرے بھی تو کیا کرے۔۔۔؟ میرا تو سانس اوپر کا اوپر، نیچے کا نیچے رہ گیا۔

’’چھوٹی بی بی کیا کر رہی ہو؟ خانم دیکھ لے گی تو میری کھال ادھیڑ دےگی۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔۔۔ اور پھر جیسے ہی دیوار پر لٹکی ہوئی گھڑی نے ساڑھے نو کا گھنٹہ بجایا، میں نے کہا، ’’اسکول جانے کا وقت ہو گیا۔‘‘ اور اسکول کا نام سن کر بانو کی سسکیاں تھم گئیں اور میرے گیلے مونڈھے سے سر اٹھا کر اس نے کہا، ’’چل ممدو! میری کتابیں اٹھا! آج تو میرے ہاتھوں میں قلم پکڑنے کی طاقت نہیں رہی۔‘‘ اس دن بانو اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلی تو میں نے دیکھا کہ برقعے کے اندر ایک پوٹلی سی اس نے چھپا کر بغل میں داب رکھی ہے۔ اسکول کے راستے میں بانو نے ہمیشہ کی طرح نقاب الٹ دی۔ راستہ پگڈنڈی، پگڈنڈی کھیتوں میں سے جاتا تھا۔ ادھر ادھر دیکھ کر بولی، ’’ممدو! یوں تو میں مر جاؤں گی۔‘‘

میں نے کہا، ’’ہاں، چھوٹی بی بی، یہ خانم بڑی ظالم ہے۔‘‘

’’پھر۔۔۔؟‘‘ یہ کہہ کر اس نے میری طرف یوں نظر بھر کر دیکھا کہ میرا منھ گھبراہٹ سے لال ہو گیا۔

’’تحصیلدار صاحب سے کیوں نہیں شکایت کرتیں؟ وہ تمہارے باپ ہیں آخر۔‘‘

’’ابا سے شکایت کی تو یہ ڈائن مجھے جان ہی سے مار ڈالے گی اور پھر ابا میری بات کیوں ماننے لگے؟ تم نے دیکھا نہیں؟ ان کے سامنے چکنی چپڑی باتیں کرتی ہے۔‘‘

’’پھر؟‘‘ اس بار میں نے یہ سوال کیا۔ وہ بولی۔۔۔ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، ’’چل، ممدو، کہیں بھاگ چلیں۔۔۔ میرے پاس تھوڑا سا زیور، گہنا ہے۔ تیس چالیس روپے بھی میں نے بچا کر رکھ چھوڑے ہیں۔‘‘

امیر چھوکریاں اپنے نوکروں کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں،ایسے قصے میں نے سنے ضرور تھے۔ مگر میں سمجھتا تھا کہ یہ باتیں قصے کہانیوں میں ہوا کرتی ہیں۔اب بانو کی زبان سے سن کر میرا یہ حال ہوا سرکار کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں، سر سے پیر تک تھر تھر کانپنے لگا۔ جواب ہی نہ بن پڑا کوئی۔ ایسا لگا جیسے دل کے دو ٹکڑے ہو گئے ہوں۔ ایک دل کہتا تھا، ’’ابے ممدو! تیری قسمت جاگ گئی ہے۔ ایسا موقعہ پھر ہاتھ نہ آئےگا۔ ذرا لونڈیا کا جوبن تو دیکھ، اور جولاہوں کی کالی کلوٹی لڑکیوں کا مقابلہ تو کر، جن سے تیری ماں قسمت پھوڑنے والی ہے اور پھر وہ خود کہہ رہی ہے کہ زیور گہنے بھی ہیں۔ ابے عیش کرےگا عیش!‘‘ پر سرکار، دوسرے دل نے کہا، ’’اپنی اوقات مت بھول! تو ممدو ہے ممدو۔ بندو جولاہے کا لونڈا۔ تحصیلدار صاحب کا نوکر، ایسی ویسی کوئی بات کرےگا، تو اتنے جوتے پڑیں گے کہ سرپر بال نہ رہےگا۔‘‘

وہ تو خیر ہوئی سرکار کہ اتنے میں سامنے سے اسکول کا کوئی ماسٹر آتا ہوا نظر آ گیا اور بانو نے جھٹ سے نقاب گرا دی۔ پھر آہستہ سے مجھ سے بولی،’’چھٹی چار بجے ہوگی پر تو تانگہ تین بجے ہی لے کر آ جائیو۔۔۔ ساڑھے تین بجے کلکتہ میل جاتی ہے۔ بس آج میں گھر واپس نہ جاؤں گی۔‘‘ ماسٹر پاس سے گزر گیا تو میں نے چپکے سے کہا، ’’بی بی، ایسی باتیں مت کرو۔ تحصیلدار صاحب کو پتہ لگے گا تو میری کھال کھینچ دیں گے۔‘‘ وہ بولی، ’’ارے، تو مرد ہوکر ڈرتا ہے؟‘‘ اور پھر برقعے میں سے سسکی کی آواز آئی، ’’ممدو اگر تو تین بجے تانگہ لے کر نہیں آیا تو میرا خون تیری گردن پر ہوگا۔‘‘

بس یہ کہا اور وہ تو جھپ سے اسکول کے اندر چلی گئی اور میں وہیں دروازے کے سامنے کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ ایسا لگا جیسے مجھ پر بجلی گری ہو، آپ ہی بتائیے سرکار، کرتا تو کیا کرتا؟ ایک طرف تو تحصیلدار کے ہنٹر کاڈر۔ دوسری طرف بانو کی جان کا سوال۔ نہ جانے کتنی دیر تو میں وہیں اسکول کے دروازے کےسامنے کھڑا وہا۔ پھر وہاں سے واپس ہوا تو سیدھی پگڈنڈی سے بھٹک کر کتنی ہی دیر تک کھیتوں میں بھٹکتا رہا۔ جب میں واپس پہنچا تو بارہ بج رہے تھے اور خانم غصے میں آپے سے باہر ہو رہی تھیں۔ ابھی میں نے دروازے میں قدم رکھنا شروع ہی کیا تھا کہ گالیوں کوسنوں کی بوچھار شروع ہو گئی،’’کہاں تھا تو اب تک حرام زادے؟ گھر کا سارا کام یوں ہی پڑا ہے۔ اور تو یوں ہی واہی تباہی پھر رہا ہے۔ کیوں رے۔۔۔ جواب کیوں نہیں دیتا، آخر تو تھا کہاں؟‘‘

اور جب میری زبان سےایک لفظ نہ نکلا تو آنکھوں سے آگ برساتی ہوئی وہ میری طرف بڑھی، ’’ارے بولتا کیوں نہیں؟ گونگا ہوگیا ہےکیا۔۔۔؟‘‘ یہ کہہ کر اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر جھنجھوڑا۔۔۔ پر جیسے ہی اس نے میرا ہاتھ چھوا، اس کی چیخ نکل گئی، ’’ارے تجھے تو تیز بخار چڑھا ہوا ہے۔ ملیریا۔ کہیں پلیگ تو نہیں ہے تجھے؟ گھر میں آج ہی ایک مرا ہوا چوہا نکلا ہے۔۔۔‘‘ اور یہ کہہ کر اس نے میری طرف ایسا دیکھا جیسے میں ہی وہ مرا ہوا چوہا تھا۔ اور فوراً جاکر کاربولک صابن سے ہاتھ دھونے لگی کہ کہیں میری بیماری کی چھوت نہ لگ گئی ہو۔

تو سرکار، خدا جو کچھ بھی کرتا ہے بندے کی بھلائی کے لیے ہی کرتا ہے۔ مجھے پلیگ تو نہیں ہوا۔ پر ملیریا بخار جو اس دن چڑھا تو اس نے ایک مہینہ تک نہ چھوڑا۔ میں اَدھ موا ہو گیا مگر تحصیلدار صاحب کے ہنٹروں سے میری چمڑی بچ گئی۔ خانم نے اسی وقت ہی مجھے چپراسی کے ساتھ گھر بھجوا دیا تھا اور کہہ دیا تھا کہ بس، اب یہاں آنے کی ضرورت نہیں۔ مجھے ایسے نوکر نہیں چاہئیں جو روز بیمار ہوتے ہوں۔ گھر پہنچتے پہنچتے مجھے سرسام کا دورہ پڑ گیا اور وہ سردی چڑھی کہ ماں نے گھر بھر کی رضائیاں اور گدے میرے اوپر ڈال دیے پھر بھی کپکپی نہ گئی۔ پر اس بخار کی حالت میں بھی سرکار، بانو کا خیال میرے دل سے نہ نکلا اور بے ہوشی میں بھی بار بار یہی چلاتا رہا، ’’چھوٹی بی بی تم گھبرانا مت۔۔۔ میں پورے تین بجے تانگہ لے آؤں گا۔‘‘ یہاں تک کہ میرے باپ نے تنگ آکر مجھے جھنجھوڑ کر اٹھا دیا، ’’ابے، کیا تانگہ، تانگہ بڑبڑا رہا ہے۔ کہیں گرمی دماغ کو تو نہیں چڑھ گئی۔۔۔؟‘‘ مہینہ بھر کے بعد جب چلنے پھرنے کے لائق ہوا تو سنا کہ تحصیلدار قدرت اللہ خاں کی بدلی سہارنپور میں ہو گئی ہے۔

ان کی جگہ کوئی اور تحصیلدار آیا ہے۔ پھر یہ بھی سننے میں آیا کہ خان صاحب کی ترقی ہوگئی ہے۔ اب وہ ڈپٹی کلکٹر بنادیے گئے ہیں۔ ڈپٹی کلکٹر تو بڑا حاکم ہوتا ہے۔ سرکار سے تنخواہ بھی کافی ملتی ہے، جبھی تو خان صاحب نے سہارنپور جاتے ہی موٹر لے لی اور ڈرائیور رکھ لیا۔ اب آپ پوچھیں گے کہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ انہوں نے موٹر لے لی اور ڈرائیور رکھ لیا؟ تو بات یہ ہے سرکار، اچھا ہونے کے دو چار مہینے بعد میں لالہ گردھاری مل آڑھتی کی غلہ کی دوکان پر اناج کی بوریاں ڈھونے پر نوکر ہو گیا۔ ایک دن میں نے کیا دیکھا کہ سہارنپور سےکوئی زمیندار ٹھاکر نواب علی سے ملنے آئے تو کہنے لگے، ’’لالہ سنا تم نے ،تمہارے یہاں جو تحصیلدار قدرت اللہ خاں تھے نا۔‘‘

یہ نام سن کر میرے تو کان کھڑے ہوگئے اور بوریوں کے پیچھے سے دھیان دیکر سننے لگا۔۔۔ لالہ بولے، ’’ہاں، ہاں۔ وہ تو اب تمہارے یہاں ڈپٹی کلکٹر ہو گئے ہیں۔ سنا ہے اب تو بڑے ٹھاٹھ ہیں۔ موٹر بھی رکھ لی ہے۔‘‘ ٹھاکر نواب علی بولے، ’’ارے لالہ، یہ موٹر ہی کی برکت ہے۔ موٹر کی اور نئی تعلیم کی۔‘‘ یہ بات میری سمجھ میں نہ آئی۔ لالہ بھی بولے، ’’ٹھاکر صاحب کیا کہہ رہےہیں؟‘‘ ٹھاکر صاحب نے کہا، ’’لالہ یہ کہہ رہا ہوں کہ خان صاحب قدرت اللہ خاں کی لونڈیا ان کے ڈرائیور کے ساتھ بھاگ گئی۔‘‘

میں نے اپنے دل کو لاکھ سمجھایا کہ اب تجھے خوش ہونا چاہیے کہ خان صاحب کے ہنٹر اس سالے ڈرائیور کی پیٹھ پر پڑیں گے۔ تو تو صاف بچ گیا۔ مگر جھوٹ کیوں بولوں سرکار، سچی بات یہ ہے کہ دن بھر مجھ سے ٹھیک سے کام نہ ہو سکا اور اس رات جب ماں نے روز کی طرح پھر بندی جولاہی سے میری بیاہ کی بات چھیڑی، تو میں نے بھی کہہ دیا، ’’اچھا ماں، جیسی تیری مرضی۔‘‘ صبر عجیب چیز ہے سرکار! انسان اپنی قسمت پر صبر شکر کرنا چاہے تو پھر یہی فٹ پاتھ کے پتھر بھی مخمل کے گدے بن جاتے ہیں۔

رات کے اندھیرے میں بندی شیدی جولاہی بھی بانو جیسی حسین دکھائی دیتی ہے۔ سال بھی نہیں ہوا تھا، شیدی نے ایک بچہ جن دیا۔ اگلے برس ایک بچی۔ پھر تو سرکار، نمبر لگ گیا۔ چھ برس میں پورے پانچ بچے۔ تین لڑکیاں اور دو لونڈے۔ پر خدا کی مرضی میں کس کو چارہ ہے؟ اولاد بھی اسی کی دین ہے۔ جب چاہے واپس لے لے۔ ایک بچہ تو پیدا ہوتے ہی مر گیا۔ ایک لونڈیا دو برس کی ہوکر نمونیا سے ہلاک ہو گئی۔ اب ایک لونڈا اور دو لونڈیاں رہ گئیں۔۔۔ پر اپنے سے اتنی اولاد کو پالنا بھی مشکل تھا۔ گھر کا سارا بوجھ اب مجھ پر ہی تھا۔ بابا کی کمر تو کھاٹ کو لگ گئی تھی اور ماں کو آنکھوں سے سجھائی دینا بہت کم ہو گیا تھا۔ بیچاری دن میں بھی ٹامک ٹوئیاں مارتی تھی۔ میرا بڑا بھائی ایک سال پہلے بمبئی جو گیا تھا، تو پھر لوٹا نہیں تھا۔ نہ کوئی خط ہی بھیجا نہ روپیہ۔

پہلے سنا تھا، کسی کپڑے کے کارخانے میں کام کرتا ہے۔ پھر سنا کسی فلم کمپنی میں چوکیدار ہے۔ بڑی بڑی خوب صورت ایکٹریسوں کی موٹروں کے دروازے کھولتا ہے۔۔۔ میرا بھی کئی بار جی چاہا کہ بھائی کے پاس چلا جاؤں، ذرا بمبئی کلکتہ کی سیر کروں۔۔۔ مگر گھر والوں کو کس پر چھوڑوں؟ اور پھر ریل کا کرایہ کہاں سے لاؤں؟ اسی سوچ وچار میں کئی برس گزر گئے اور ہم مظفرنگر ہی میں محنت مزدوری پر صبر کرتے رہے۔

خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اپنا بھی کلکتہ جانے کا ایک موقعہ نکل آیا۔ ہوا یہ کہ اپنے محلے میں ایک ننھے نان بائی تھا۔ اس کا لونڈا رحمت ایک برس سے دلی میں کام کے لیے گیا ہوا تھا۔ وہ جو واپس آیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ بالکل جنٹلمین بنا ہوا ہے۔ جاپانی سلک کی قمیص، گلے میں سونے کے بٹن، بال انگریزی فیشن کے بنے ہوئے۔ میرے بچپن کا یار تھا۔ میں نے کہا، ’’کیوں بےرحمت! کہاں سے گڑا خزانہ مل گیا۔۔۔؟‘‘ بولا، ’’ہم تو پانی سے سونا بناتے ہیں۔‘‘میں سمجھا سالے کو کیمیا بنانے کا نسخہ ہاتھ آگیا ہے۔ پر اس نے بتایا کہ اس نے ریل میں سوڈا لیمن بیچنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ اسی سے دو ڈھائی سو روپیہ مہینہ کی آمدنی ہو جاتی ہے۔ کہنے لگا، ’’تیس روپیہ مہینہ تو میں اپنے نوکر کو دیتا ہوں جو ہر اسٹیشن پر سوڈا لیمن کی آواز لگاتا ہے۔ اور سارے کلکتے اور بمبئی کی سیر کرتے ہیں وہ الگ۔ یہ سن کر میرے منہ میں پانی بھر آیا۔ میں نے کہا، ’’بھیا رحمت ایک بار کلکتہ مجھے بھی دکھا دے۔‘‘

سو سرکار، سوڈا لیمن بیچتے بیچتے میں بھی کلکتہ پہنچ ہی گیا۔ میں نے تو پہلے دلی بھی نہیں دیکھا تھا۔ کلکتہ دیکھ کر تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اتنی چوڑی صاف سڑکیں، یہ موٹریں، بس، ٹرامیں، میں نے پہلے کہاں دیکھی تھیں۔ میں نے سوچا رحمت کے سوڈا لیمن پر لعنت بھیجو اور یہیں رہ پڑو۔ وہ دن اور آج کا دن۔ پندرہ برس ہو گئے۔ پہلے تو کئی مہینے تک رکشا چلاتا رہا۔ دن میں کبھی کبھی دوڈھائی روپے بھی مل جاتے تھے۔ میں نے سوچا یہ کام تو بڑا اچھا ہے۔ مہینہ میں ساٹھ ستر روپے مل جاتے تھے۔

مزدوروں کے محلے میں ایک کوٹھری لے لی تھی۔ دس روپیہ اس کا کرایہ دیتا تھا۔ کبھی کبھی دس پندرہ بیوی کو بھی بھیج دیتا تھا مگر ایمان کی بات یہ ہے کہ دوسرے سال کے بعد میں نے کچھ نہیں بھیجا۔ یہ بھی پتہ نہیں کہ اس پر کیا گزری۔۔۔ جوان آدمی تھا سرکار اور پھر کلکتہ میں روپیہ دو روپیہ میں سونا گاچی میں نئی مل جاتی ہے، تو پھر ہزار میل دور بھینگی، بدصورت بیوی کو روپیہ بھیجنا تو بڑا مشکل ہوتا ہے! اور پھر دارو پینے کی عادت بھی پڑگئی تھی سرکار۔ آپ کہیں گے کہ یہ آدمی بڑا آوارہ بدمعاش ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ دن بھر گدھے کی طرح رکشا کھینچنے کے بعد شام کو غم غلط کرنے کے لیے تھوڑی سی دارو ضرور چاہیے اور پھر دارو کے بعد جانے کیسے پھر آپ ہی آپ قدم سونا گاچی کی طرف چل پڑتے ہیں۔

ہاں تو سال بھر رکشا چلائی، کوئی سو سواسو روپے آڑے وقت کے لیے جمع بھی کر لیے۔۔۔ پر یہ پتہ نہ تھاکہ آڑا وقت اتنی جلدی آ پہنچےگا۔ برسات کے دنوں بھیگ کر بخار چڑھا۔ بخار سے نمونہ ہو گیا۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا، ’’رکشا کھینچتے کھینچتے پھیپھڑے کمزور ہو گئے ہیں۔ یہ کام چھوڑ دو۔‘‘

پورے ڈیڑھ مہینے کھاٹ پر پڑا رہا۔ جب بخار نے پیچھا چھوڑا تو بدن میں اتنی طاقت بھی نہیں تھی کہ رکشا چلا سکوں۔ جمع جتھا جو کچھ تھا، وہ سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔ پھر بھی میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ نمونیا سے مرا نہیں۔ سوچا زندہ تو ہوں۔ لعنت بھیجو رکشا پر۔۔۔ چلو اور کوئی کام کرو۔۔۔ کلکتہ میں جہاں خدا تیس لاکھ کو روزی دیتا ہے۔ کیا مجھے ہی نہ دےگا؟ اللہ پر بھروسہ کیے بیٹھا رہا۔

میری برابر والی کوٹھری میں اپنی ہی طرح کئی مزدور رہتے تھے۔ ایک تو ہرنام تھا، بلند شہر کا۔ باپ نے ساری جائداد شراب پی پی کر اڑادی تھی۔ بیٹے کو پڑھایا لکھایا نہیں۔ سو وہ اب کارخانے میں مزدوری کرتا تھا۔ ایک بنارس کا چمار تھا منگو، ایک پیلی بھیت کا مسلمان تھا رحمت خاں۔ اور مزا یہ کہ تینوں میں گہری دوستی تھی اور تینوں ایک ہی ساتھ رہتے تھے۔ میں نے ایک بار اکیلے میں رحمت خاں سے کہا بھی کہ تم ان کافروں کے ساتھ رہتے ہو۔ ایمان دھرم کا بھی کچھ خیال نہیں؟ وہ گالی دے کر بولا، ’’ارے ایمان دھر م کی ایسی تیسی۔ ہمارا دھرم تو مزدوری ہے مزدوری۔‘‘

ان تینوں نے مجھ سے کہا، ’’چل تجھے اپنے کارخانےمیں نوکری دلائے دیتے ہیں۔ دو روپے روز ملیں گے۔‘‘ میں نے سوچا چلو اچھا ہے۔ رکشا کھینچ کھینچ کر پھیپھڑے کھوکھلے کرنے سے تو کارخانے کی مزدوری ہی اچھی رہےگی۔ اگلے دن وہ مجھے اپنے ساتھ کارخانے لے گئے جہاں پٹ سن کی بنائی ہوتی تھی۔۔۔ اور مزدوروں کے ٹھیکیدار کو جسے سب سردار، سردار کہتے تھے، میری طرف سے پانچ روپے رشوت بھی دے دیے۔ پر مجھے نوکری بھی نہ ملی۔۔۔ ویونگ ماسٹر بولا، ’’آج کل مدا ہے۔ اس لیے ہم تو پہلے سے بہت مزدوروں کو چھٹی دینے کی سوچ رہے ہیں۔ نیا آدمی کہاں سے رکھ سکتے ہیں؟‘‘ اور میری جانب اشارہ کر کے بولا، ’’پھر اسے ہمارے جیسے کام کا کوئی تجربہ بھی نہیں ہے۔ کتنے ہی دن تو اسے کام سیکھنے میں لگ جائیں گے۔‘‘

میں واپس آ گیا اور پھر رکشا والے مالک کے پاس جانے کی سوچنے لگا۔ پر خدا کا کرنا کیا ہوا، اسی دن کارخانے میں ہڑتال ہو گئی۔۔۔ ہوا یہ کہ مالکوں نے کہا، ’’بازار میں مدی ہونے کی وجہ سے ہمیں یا تو بہت سے مزدوروں کو چھٹی دینی پڑے گی یا ان کی تنحواہ کم کرنی پڑے گی۔ اس لیے ہم نے دو روپیہ سے گھٹا کر ڈیڑھ روپیہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مزدوروں نے جب یہ سنا تو ان میں کھلبلی مچ گئی۔ ہڑتال کی تیاری ہونے لگی۔ میں نے رحمت خاں اور منگو دونوں کو ہڑتال کی باتیں کرتے سنا تو بولا، ’’تم لوگ پاگل ہو گئے ہو؟ آٹھ آنےکے لالچ میں ڈیڑھ روپے کی آمدنی میں لات مار رہے ہو؟ ارے بھائی جو ملتا ہے اسی پر صبر کرو۔۔۔ خدا کی مرضی ہوگی تو مزدوری بڑھ جائےگی۔‘‘

مگر ان دونوں پر تو ہڑتال کا بھوت سوار تھا۔ رحمت خاں بولا، ’’اگر اس وقت ہم نے چپ چاپ پگار کٹوا لی، تو یہ مالک کل ہمارے سینے پر سوار ہو جائیں گے۔۔۔‘‘ اور منگو ایک موٹی سی گالی دے کر بولا، ’’اگر بازار میں مندی ہو رہی ہے تو یہ سالا مالک پانچ پانچ موٹروں میں سے دو ایک کیوں نہیں بیچ دیتا؟ سالے نے تین تین تو عورتیں رکھ چھوڑی ہیں جن میں سے ایک ولایتی میم بھی ہے۔‘‘

’’ہاں تو جب یونین والوں نے ہڑتال کا اعلان کیا تو ان دونوں نے تو کام پر جانا بند کر دیا، مگر ہرنام سویرے اٹھ کر چپ چاپ کام پر چلا گیا۔ بستی میں خبر فوراً پھیل گئی کہ ہرنام کام پر گیا ہے اور بھی پچاس ساٹھ مزدور ایسے تھے جو ہڑتال میں شامل نہیں تھے۔ مگر رحمت اور منگو کو ہرنام کے جانے پر بڑا افسوس ہوا۔۔۔ رحمت تو کہنے لگا، ’’نہیں نہیں ایسے ہی گھومنے گیا ہوگا۔۔۔‘‘ مگر شام کو جب ہرنام لوٹا تو اس کے کپڑوں پر لگے کالکھ کے دھبوں سے صاف ظاہر تھاکہ وہ کام کرکے آ رہا ہے۔ منگو تو لگا ماں بہن کی گالیاں دینے مگر رحمت نے دھیرے سے پوچھا، ’’کیوں ہرنام یہ سچ ہے؟‘‘ یہ سن کر ہرنام چلا کر بولا، ’’ہاں ہاں، گیا تھا کام پر۔ کرلے جس کا جو جی چاہے۔‘‘

رحمت اب بھی دھیرے ہی سے بولا، ’’اچھا یہ بات ہے۔۔۔؟‘‘ پھر وہ اٹھ کر کوٹھری میں گیا اور وہاں سے لوٹا تو اس کے ہاتھوں میں ہرنام کا بستر، ٹین کا ٹرنک اور دوسرا سامان تھا۔ بڑی خاموشی سے اس نے وہ سب چیزیں برآمدے کے باہر میدان میں پھینک دیں اور ایک لفظ نہ بولا۔ چپ چاپ جاکر اپنی چارپائی پر لیٹ گیا اور حقہ گڑگڑانے لگا۔ ہر نام کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ بانہیں چڑھا کر رحمت کی طرف لپکا۔ مگر بیچ میں منگو آگیا۔۔۔ کالا کلوٹا منگو تھا تو دبلا پتلا سا، مگر اس کے ہاتھوں میں بڑی طاقت تھی اور بڑا پھرتیلا بھی تھا۔ ہرنام کو روک کر اسے ایک لنگڑی جو دی تو چاروں خانے چت زمین پر آرہا۔ اتنے میں بستی بھر کے مزدور وہاں جمع ہو گئے۔

ہرنام سے سبھی جلے ہوئے تھے۔ اسے گرتا دیکھ کر سبھی کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ اب جو وہ اپنا گھٹنا سہلاتا ہوا اٹھا، تو دیکھا کہ چاروں طرف سے وہ گھرا ہوا ہے۔ اگر وہ رحمت اور منگو پر ایک بار بھی وار کرتا ہے تو سارے کے سارے اس پر جھپٹ پڑیں گے۔ اس لیے اس بیچارے نے اپنی چیزیں اکٹھی کرکے میری کوٹھری کے سامنے برآمدے میں رکھ دیں۔ پھر میرے پاس آکر بولا، ’’کیوں ممدو، تیرے یہاں آ جاؤں؟ کوٹھری کا سارا کرایہ آج سے میں دے دیا کروں گا۔‘‘

سرکار، اندھے کو کیا چاہئے۔ دو آنکھیں۔ میں ٹھہرا بیکار۔ مجھے تو پہلے ہی فکر تھی کہ ہر مہینے کرایہ کیسے دوں گا؟ سو میں نے کہا، ’’تو بے کھٹکے یہاں آجا۔۔۔ ہرنام میں نہیں ڈرتا کسی سے۔‘‘ وہ جو کہتے ہیں کہ کر بھلا تو ہوگا بھلا، سو وہی ہوا۔ میں نے ہرنام کو رہنے کے لیے جگہ دے دی اور اس نے اگلے ہی دن مجھے کارخانے میں نوکر رکھا دیا۔

ہڑتال کی وجہ سے مالک ہر کسی کو رکھنے کے لیے تیار تھے چاہے اسے کام آتا ہو یا نہیں۔ بس دو ہاتھ دو ٹانگیں ہونی چاہئیں۔ سو میں بھی ڈیڑھ روپے روز پر نوکر رکھ لیا گیا۔۔۔ اوپر سے روپیہ روز ’’اسٹرائک الاؤنس‘‘ ملتا تھا۔ اور ملنا بھی چاہئے تھا۔ ہم پچاس ساٹھ آدمی جان پر کھیل کر کارخانہ چلا رہے تھے۔ روز ہمیں گالیاں اور دھمکیاں سہنی پڑتی تھیں۔۔۔ بستی کے دوسرے مزدوروں نے ہمارا حقہ پانی بند کر دیا تھا۔ دو ایک بار پتھر بھی ہم پر پھینکے گئے! پر میں نے کہا،’’جو بھی ہو، ہڑتال کر کے بھوکا مرنے سے بہتر ہوگا۔‘‘

ہاں، تو میں کارخانے میں ہونے کو تو ہو گیا مگر مجھے کام آتا ہی نہیں تھا۔ ایمان کی بات یہ ہے کہ ہرنام نے ’’ویونگ ماسٹر‘‘ سے جھوٹ کہہ دیا تھا کہ میں نےاسے کام سکھا دیا ہے۔ اب یہ ایک مشین سنبھال سکتا ہے۔ کارخانے والوں کو ان دنوں اس بات کی بڑی فکر تھی کہ زیادہ سے زیادہ مشینوں کو کسی نہ کسی طرح چالو رکھیں، تاکہ اخباروں میں یہ اعلان کر سکیں کہ ہڑتال فیل ہوگئی اور کارخانے میں کام ویسے کا ویسا ہی ہو رہا ہے۔ ہرنام نے مجھ سے کہہ رکھا تھا کہ کچھ بھی ہو تو یہی ظاہر کیجیو کہ میں سب کچھ جانتا ہوں۔ ویسے میری مشین اس کے پاس ہی تھی۔ میں برابر اس کو دیکھتا رہتا اور جو کچھ وہ کرتا وہی میں کرنے لگتا۔ اس نے بٹن دبایا میں نے بھی دبا دیا۔ اس نے تیل کی کپی لےکر پرزے میں تیل دیا۔ میں نے بھی یہی کیا۔ اس نے مشین تیز کی، میں نے بھی کی۔ تین دن تو میں نے ایسے ہی گزار دیے۔ پگار تو ہفتہ کے ہفتہ ملنے والی تھی مگر ’’اسٹرائک الاؤنس‘‘ کا روپیہ روز مل جاتا تھا۔ میں نے سوچا، اپنی بلا سے۔ اسٹرائک عمر بھر چلے۔

اتنے میں مجھے مشین کے کام کا تھوڑا بہت اندازہ بھی ہو گیا تھا۔۔۔ کوئی خاص مشکل کام نہیں تھا۔ کام تو سارا مشین کرتی تھی۔ ہمیں تو صرف بٹن دبا کر مشین چالو کرنا اور اس کی دیکھ بھال کرنی ہوتی تھی۔ چوتھے دن ہرنام کی مشین کا پرزہ بگڑ گیا اور اسے کہیں دوسری مشین پر لگا دیا گیا۔۔۔

’’کیوں ممدو سنبھال لےگا نا؟‘‘ میں نے کہا، ’’تو فکر نہ کر اس میں کون سے ہاتھی گھوڑے لگے ہیں۔‘‘ پھر بھی وہ جاتے جاتے لوٹ کر آیا اور کہنے لگا، ’’ذرا ہاتھ پاؤں بچا کر کیجیو۔‘‘

’’ہاں تو وہ دوسری مشین پر چلا گیا۔ اب اس کی مشین اور کتنی مشینوں کی طرح بیکار کھڑی تھی۔ مگر میری مشین کھٹاکھٹ کام کر رہی تھی۔ کھٹاکھٹ کھٹاکھٹ، مشین چل رہی تھی اور میں خدا کی قدرت پر عش عش کر رہا تھا کہ واہ واہ! ان ولایت والوں کو کیا عقل دی ہے۔ انسانوں کا کام مشینوں سے لیتے ہیں۔ جب ہم کمبل بنتے تھے تو میرا باپ اون کو دھو کر اور دھن کراس میں سے میل نکالتا تھا۔ پھر میری ماں چرخے پر اون کاتتی تھی۔ پھر ہم سب بھائی تانا تیار کرتے تھے۔ پھر کرگھے پر میرا باپ کمبل بنتا تھا اور اس طرح سب کی کئی دنوں کی محنت کے بعد نوگز لمبا کمبل تیار ہوتا تھا۔ تانا بانا ہو رہا تھا، کپڑا بنا جا رہا تھا، لپیٹا جارہا تھا اور کتنی تیزی کے ساتھ ۔میرا باپ اور ماں اور سب بھائی اور پڑوسی، بلکہ مظفر نگر کے سارے جولاہے مل کر ایک مہینے میں اتنا کپڑا نہیں بن سکتے تھے جتنا یہ مشین ایک گھنٹے میں بن رہی تھی۔۔۔ واہ واہ! سبحان تیری قدرت۔۔۔ اب اس کپڑے کی بوریاں بنیں گی۔ ان بوریوں میں دھان اور گیہوں اور دالیں اور نمک مرچ بھر کر دوسرے ملکوں کو بھیجا جائےگا۔

کھٹاکھٹ کھٹاکھٹ مشین چلی جارہی تھی، میں نے بجلی کی فرکی دباکر، گھماکر مشین کی رفتار اور تیزی کر دی۔ اس تیز رفتار میں مجھے مزہ آ رہا تھا۔ کپڑا اب اور تیزی سے بنا جا رہا تھا اور اسی تیزی سے میرا دماغ کام کر رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا۔ یہ سن کس کس دیش کی سیر کرےگا؟ کتنا اچھا ہوتا کہ اسی کپڑے میں لپیٹ کر میں بھی۔۔۔

کھٹاکھٹ، کھٹاکھٹ۔۔۔ مشین کے گیت میں مجھے ایک بے سری سی آواز سنائی دی۔ سامنے دیکھا تو تانے کا تار ایک جگہ سے ٹوٹ گیا تھا۔ دھاگے کی نلی ادھر سے ادھر بیکار گھوم رہی تھی مگر بنائی نہیں ہو رہی تھی۔۔۔ ہمارے کرگھے پر جب کبھی اون کا دھاگا ٹوٹ جایا کرتا تھا تو میرا باپ دوسرے کے ساتھ ملا کر ایک مروڑی دے دیتا تھا۔ بس وہ پھر جڑ جاتے اور تانے بانے کا سلسلہ پھر جاری ہو جاتا۔۔۔ ایک دم میرے دماغ میں بھی یہی آیا کہ ممدو، تو بھی یہی کر اور یہ ذرا بھی نہیں سوچا کہ یہ بجلی سے چلنے والی مشین ہے۔۔۔ بندو جولاہے کا کرگھا نہیں ہے۔

بنا مشین بند کیے میں نے ہاتھ بڑھا کر ٹوٹے ہوئے سرے پکڑنے چاہے مگر میری بانہیں چھوٹی تھیں اور مشین لمبی تھی۔۔۔ ایڑیاں اٹھا کر مجھے کافی آگے کو جھکنا پڑا۔ کھٹاکھٹ کھٹاکھٹ مشین چلی جا رہی تھی۔ جیسے ہی دھاگے کا ٹوٹا ہوا سرا میرے ہاتھ میں آیا، میرے پاؤں زمین سے اٹھ گئے اور میں منھ کے بل مشین کے تنے ہوئے کپڑے پر آ رہا۔ کھٹاکھٹ کھٹ۔ مشین چل رہی تھی اور اس کے ساتھ مجھے اندر گھسیٹ رہی تھی۔ کپڑا لوہے کے رولر پر لپٹا جا رہا تھا، اور میں مشین کے فولادی جبڑے کی طرف کھنچا جا رہا تھا۔ اس وقت تو سرکار، مجھے اپنی موت سامنے کھڑی نظر آ گئی۔۔۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ ہاتھ پاؤں مارے مگر کپڑے کے جھول میں اتنا الجھ گیا تھا کہ کسی طرح نکلنے کی صورت نہ نکلی اور ایک بار جو میں نے ٹانگوں کو زور سے جھٹکا دیا تو بایاں پاؤں اس کمبخت مشین کے نہ جانے کس پرزے میں پھنس گیا۔ اب میں لاکھ چھڑانا چاہتا ہوں مگر پاؤں نہیں نکلتا۔۔۔ بلکہ میں گھسٹتا چلا جا رہا ہوں۔ میرے منہ سے چیخ نکل گئی اور کتنے ہی مزدور میری طرف دوڑے۔۔۔ ویونگ ماسٹر کی آواز سنائی دی،’’بجلی بند کرو۔۔۔ بجلی بند کرو۔۔۔ بجلی بند کرو۔۔۔‘‘

مگر ابھی کوئی بٹن نہ دبا پایا تھا کہ کھٹاک سے آواز آئی اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کسی بھیانک ہاتھ نے میری ٹانگ کے دوٹکڑے کر دیے ہیں اور پھر میری آنکھوں میں دنیا اندھیر ہو گئی۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں ایک مفت ہسپتال میں پڑا تھا اور میری داہنی ٹانگ کٹ چکی تھی۔ یہ دیکھ کر پہلے مجھے دکھ ہوا، مگر پھر میں نے سوچا خدا کا شکر ہے۔ ٹانگ ہی گئی، جان تو بچ گئی اور اگر دونوں ٹانگیں چلی جاتیں، تو کیا ہو سکتا تھا۔ آج میں بھی اسی لنجے رولدو کی طرح بانہوں اور کولہوں کے سہارے گھسٹ گھسٹ کر چلتا۔۔۔

ہاں تو سرکار، پندرہ دن کے بعد جب میں اس ہسپتال سے نکلا تو میں لنگڑا ہو چکا تھا۔ میری جیب میں صرف سات روپے تھے۔ چھ روپے تو ہرنام نے چاردن کی مزدوری کے لے کر دیے تھے اور ایک روپیہ میرے پاس پہلے کا بچا ہوا تھا۔ ہرنام نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس نے ویونگ ماسٹر سے بات چیت کی تھی کہ کارخانے کی طرف سے میری کچھ مدد کی جائے مگر اس نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا تھا کہ اناڑی مزدور اگر اپنی بھول سے اپنی ٹانگ اور ہماری مشین توڑ ڈالے، تو ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ مل مالکوں کی طرف سے ہرجانہ ملنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ خیر میں نے دل کو سمجھایا کہ خدا تیرے صبر کا امتحان لے رہا ہے۔ گھبرا مت۔ جب میں بستی آیا اور گاڑی سے اتر کر دیوار کا سہارا لیتا ہوا اپنی کوٹھری تک پہنچا تو رحمت، منگو اور بہت سے مزدور مجھے دیکھنے آئے۔

تھوڑی دیر تو سب چپ چاپ کھڑے میری ٹوٹی ہوئی ٹانگ کو دیکھتے رہے، اور ان کو اس طرح سے گھورتے دیکھ کر نہ جانے کیوں میرے غصے کا پارہ ایک دم تیز ہو گیا اور میں چلایا، ’’یہاں کھڑے کھڑے کیا گھورتے ہو! کیا پہلے کبھی ایک ٹانگ کا آدمی نہیں دیکھا؟ نکلو یہاں سے۔۔۔‘‘ اس پر وہ سب ایک ایک کر کے چلے گئے۔ پر رحمت وہیں کھڑا رہا۔ پھر دھیرے سے بولا، ’’ممدو! یہ خدا نے تجھے ہڑتال توڑنے کی سزا دی ہے۔‘‘ بس یہ کہا اور وہاں سے چلا گیا۔ یہ سن کر مجھے ذرا بھی غصہ نہ آیا۔ صرف میں نے سوچا۔۔۔ کتنا بدقسمت ہے یہ رحمت۔ اسے صبر کی قدر ہی نہیں معلوم! اور پھر کون جانتا ہے؟ شاید خدا ہڑتال توڑنے والوں ہی سے خوش ہو اور اس لیے اتنے سخت حادثہ کے باوجود میری جان بچ گئی۔ ورنہ ہڑتال توڑنے والوں کی ٹانگیں ٹوٹنی چاہئے تھیں۔

’’ہاں تو سرکار، صبر کے امتحان میں میں پورا اترا۔ جب ربڑ یا لکڑی کی ٹانگ نہ ملی تو میں نے صبر کی ٹانگ لگوالی اور کباڑی کے یہاں سے دو بیساکھیاں لے لیں اور اس دن سے ان کے ہی سہارے کود پھاند کر چل لیتا ہوں۔ جب محنت مزدوری ممکن نہ ہوئی تو بھیک مانگنا شروع کر دیا۔ روزی دینے والا تو خدا ہے۔ انسان تو اس کا ذریعہ ہے۔ پھر کسی کےآگے ہاتھ پھیلانے میں کہاں شرم؟ اصل میں تو ہم خدا کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے سرکار کہ بھیک میں ڈیڑھ دو روپے روز سے زیادہ کما لیتا ہوں۔ پھر کارخانے میں جان کھپانے سے حاصل۔۔۔؟ اور ہاں، جب ہرنام بیوی بیاہ کر لے آیا اور اس نے مجھے میری ہی کوٹھری سے نکال دیا، تب سے میں نے یہاں سڑک کی پٹری پر اپنا گھر بنا لیا ہے۔ چھتیں اور فرش، بنگلے اور کوٹھیاں اور پلنگ کرسیاں۔۔۔ یہ سب تو بےکار کے چونچلے ہیں۔ صبر کی چھت اور صبر کا فرش ہو تو سڑک کا کنارہ بھی محل بن جاتا ہے۔

کتنے ہی مہینے میں نے صبر سے بھیک مانگ کر بتا دیے ہیں۔ مجھے اس فقیری کی زندگی میں مزہ آنے لگا۔ نہ محنت، نہ مزدوری، نہ مالک مکان کو کرایہ دینا، نہ چولہے چکی کا بکھیڑا، فقیر کی زندگی ہی اصل میں آزاد زندگی ہے اور میں تمام بندھنوں، ضرورتوں اور جھگڑوں سے تو آزاد ہوگیا، پر کٹی ہوئی ٹانگ ہونے پر بھی ایک شیطانی ضرورت اب بھی جاڑے کی راتوں میں تنگ کرتی ہے۔ جب میرے پاس پانچ دس روپے جمع ہو جاتے تھے، میں رات کو چپکے سے سوناگاچی پہنچ جاتا تھا۔۔۔ آپ جانتے ہی ہیں سرکار۔۔۔ اس بازار میں امیر غریب، نواب فقیر سب برابرہیں جس کی جیب میں دام ہوں، وہ جو مال چاہے خرید سکتا ہے۔ چاہے وہ لولا لنگڑا فقیر ہی کیوں نہ ہو۔

جاڑے کی ایک رات کا ذکر ہے۔ میں بیساکھیوں کا سہارا لیتا ہوا سونا گاچی میں ایک کوٹھے پر چڑھ گیا۔ یہ جگہ میرے لیے نئی نہیں تھی۔ اکثر میں وہیں آیا کرتا تا۔ دو روپیہ میں سودا ہو جاتا تھا۔ مگر اس رات کو بوڑھی نائکہ مجھے دیکھتے ہی ہنس کر بولی، ’’کیوں رے لنگڑے پھر آ گیا تو؟ پر آج دو روپے سے کام نہیں چلےگا۔۔۔! گدڑی میں پانچ روپے ہیں تو ٹھیک ہے نہیں تو راستہ پکڑو۔۔۔‘‘ ان دنوں مجھے بھیک میں اچھی رقم مل رہی تھی، چالیس کے نوٹ تو میں نے گدڑی کے اندر سیے ہوئے تھے اور سات آٹھ روپے اور پیسے اس وقت بھی میرے پاس تھے۔ میں نے کہا، ’’لنگڑا ہوں تو کیا؟ پیسہ میرا بھی دو ٹانگ سے چلتا ہے۔ مال دکھاؤ۔ پانچ روپے بھی مل جائیں گے۔‘‘

پر وہ بڑی گھاگ تھی۔ لونڈیا نہیں دکھائی۔ مجھ سے پانچ روپے لے کر مجھے اندر کمرے میں ڈھکیل دیا۔ اندر جا کر میں نے بیساکھیاں تو پھینک دیں اور پلنگ پر بیٹھ گیا۔ لونڈیا کوئی سچ مچ نئی معلوم ہوتی تھی۔ سرجھکائے بیٹھی تھی۔۔۔ میں نے کہا، ’’میری جان صورت تو دکھاؤ۔۔۔ میں لنگڑا ہوں پر تمہیں خوش کر دوں گا۔‘‘ مگر اس نے جو گھونگھٹ اٹھایا تو یقین مانئے سرکار، میرے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔ وہ چلائی،’’ممدو۔‘‘ اور میں نے کہا، ’’چھوٹی بی بی۔۔۔ تم کہاں؟‘‘ وہ بولی، ’’ہاں ممدو، یہ میری قسمت کا پھیر ہے۔ تمہاری ٹانگ کیا ہوئی؟‘‘ میں نے کہا، ’’اور یہ میری قسمت کا پھیر ہے۔‘‘

وہ رو رہی تھی۔۔۔ میں نے دلاسہ دینے کی کوشش کی تو بانو مجھ سے لپٹ کر سسکیاں بھرنے لگی۔ میں نے دھیان سے دیکھا۔۔۔ ان تین برسوں میں اس کا وہ رنگ روپ نہ رہا تھا۔ بیس اکیس برس کی عمر میں تیس پینتیس برس کی لگتی تھی۔ آنکھوں کے گرد گڑھے پڑ گئے تھے، پاؤڈر سرخی کے ہوتے ہوئے بھی رنگت پیلی تھی۔ آدھی اتنی ہوگئی تھی کہ باہوں کی ہڈیاں ہی ہڈیاں رہ گئی تھیں۔ منھ پر کئی جگہ عجیب سی پھنسیاں نکلی ہوئی تھیں۔ جب آنسو کچھ دیر کو تھمے، تو اس نے مجھے اپنا حال بتایا۔

جس ڈرائیور کے ساتھ وہ بھاگی تھی وہ بڑا بدمعاش نکلا۔۔۔ کلکتہ لا کر دوتین مہینے تو بانو کا زیور بیچ بیچ کر خوب عیش کیا۔ پھر جب گزارے کی کوئی صورت نہ رہی تو اس نے کرم پر مجبور کیا اور ایک رات کو اسے ایک سیٹھ کے ہاتھ بیچ کر غائب ہو گیا۔ میں نے کہا، ’’پر چھوٹی بی بی تم نے پولیس میں کیوں نہ رپٹ لکھوائی؟ تم تو پڑھی لکھی ہو، تحصیلدار صاحب کو لکھا ہوتا، وہ آکر تمہیں لے جاتے اور اس سور کی چمڑی ادھیڑ دیتے۔‘‘ وہ بولی، ’’پولیس میں رپٹ لکھواتی تو اس کے سوا اور کیا ہوتا کہ مجھے زبردستی گھر واپس بھیج دیا جاتا۔۔۔ جو کچھ مجھ پر گزر چکا تھا، اس کے بعد میں کیا منہ لے کر ابا کے سامنے جاتی؟‘‘

مطلب یہ کہ بانو بیچاری ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ ہوتی ہوئی آخر میں گھٹیا رنڈی خانے میں پہنچی تھی۔ جہاں قسمت اسی رات مجھے لے آئی تھی۔ میں نے کہا، ’’اب تم کوئی فکر نہ کرو۔ جب تک ممدو کے دم میں دم ہے، تمہیں کوئی تکلیف نہ ہونے دوں گا۔ اب میں تمہیں ایک منٹ بھی اس پاپ کے نرک میں نہ رہنے دوں گا۔‘‘ وہ آنکھیں نیچی کر کے بولی، ’’پر ممدو، میں بیمار ہوں۔ بہت بری بیماری ہے۔‘‘

اب مجھے ان پھنسیوں کی وجہ سمجھ میں آئی جو بانو کے چاند جیسے مکھڑے کو داغدار بنائے ہوئے تھیں۔ مگر میں نے کہا، ’’کوئی پروا نہیں ہے۔ میں ہی کون سا چھیلا جوان ہوں؟ لنگڑا فقیر ہی تو ہوں۔۔۔ میں تمہارا علاج کراؤں گا۔ تم اچھی ہو جاؤگی۔ میں نے سنا ہے اب ہر بیماری کا علاج ہو جاتا ہے۔ چلو میرے ساتھ اسی وقت۔‘‘ ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ دروازے پر کھٹ کھٹ ہوئی۔ میں نے کہا، ’’آ جاؤ۔‘‘ بوڑھی نائکہ بولی، ’’ابے او لنگڑے! پانچ روپے دیے ہیں۔ کوئی رات بھر کا ٹھیکہ نہیں لیا۔ دوسرا گاہک انتظار کر رہا ہے۔‘‘

پیچھے ایک بھیانک، کالا سا، موٹا تگڑا آدمی نشے میں جھوم رہا تھا۔ میں نے ایک ہاتھ سے بانو کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اور دوسرے سے بیساکھیاں اٹھاتے ہوے کہا، ’’یہ لڑکی میرے ساتھ جا رہی ہے۔ اب یہ یہاں نہ رہےگی۔‘‘

اس کے بعد نہ جانے کیا کچھ ہوا۔ ٹھیک یاد نہیں۔ شائد نائکہ نے اس آدمی کو اشارہ کیا۔۔۔ وہ بانو کو دبوچنے کے لیے بڑھا۔۔۔ بانو کی چیخ ضرور یاد ہے۔ ایسی چیخ جو پتھر دل کو موم کردے۔۔۔ نہ جانے کب اور کیسے میری بیساکھی ہوا میں اٹھی۔۔۔ اور اس شرابی کی کھوپڑی پر گری۔ اگلے پل میں وہ زمین پر بے ہوش پڑا تھا اور اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا اور نائکہ چلا رہی تھی، ’’خون! کوئی آؤ۔ دوڑو۔ اس خونی کو پکڑو۔‘‘ اور بانو ڈری ڈری آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔

’’ممدو! یہ تونے کیا کیا؟‘‘

اور میں کہہ رہا تھا۔

’’چھوٹی بی بی، تم فکر نہ کرو، اس دن میں تانگہ وقت پر نہ لایا تھا۔ یہ اس کی سزا ہے۔‘‘

اور سو، وہ دن اور آج کا دن، دس برس قید کاٹی۔ پرسوں ہی چھوٹا ہوں۔ اب پھر وہی سڑک کا کنارا ہے۔ وہی صبر کا فرش اور صبر کی چھت، سنتا ہوں، ان دس سالوں میں ایک بہت بڑی لڑائی ہو چکی ہے۔۔۔ ہوئی ہوگی۔۔۔ سنتا ہوں لاکھوں ہندو مسلمان ایک دوسرے کے ہاتھ مارے گئے اور اس کلکتہ کی سڑکوں پر خون کے دریا بہے۔ بہے ہوں گے۔۔۔ یہ بھی سنتا ہوں کہ دیش آزاد ہو گیا۔۔۔ ہوا ہوگا۔ مجھے تو پتہ نہیں، میں تو اتنا جانتا ہوں کہ بھیک پہلے سے کم ملتی ہے اور بہت سے رحم دل بابو بھی جب پاس سے گزرتے ہیں اور پیسے دینے کے لیے جیب کی طرف ہاتھ لےجاتے ہیں تو جیب کو خالی پاتے ہیں۔

پھر بھی خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ کم سے کم ایک ٹانگ تو ہے۔ رولدو کی طرح بالکل اپاہج نہیں ہوں۔۔۔ شکر ادا کرتا ہوں کہ بانو اب تک زندہ ہے اور میرے پاس ہے۔۔ وہ بڑھیا آپ دیکھتے ہیں نا؟ سامنے بیٹھی اپنے سفید بالوں میں سے جوئیں نکال کر مار رہی ہے۔ وہی بانو ہے۔۔۔ بانو۔۔۔ جس کی رنگت کبھی ایسی تھی جیسے میدا اور شہد اور جو کبھی کالے ریشمی برقعے میں سے منہ نکال کر میری طرف دیکھ کر مسکرا دیتی تھی تو ایسا لگتا تھا جیسے بدلی میں سے چاند نکل کر مسکرا رہا ہو۔ جس کی بڑی بڑی کٹورا جیسی آنکھیں اور جس کے بالوں کی بھینی بھینی خوشبو مست کرنے کو کافی تھی۔۔۔ اب اس کے چہرے پر جھریاں پڑ چکی ہیں اور سارا بدن پیپ رستے ہوئے پھوڑے پھنسیوں سے پٹا پڑا ہے اور بہت دن ہوئے اس کا دماغ جواب دے چکا ہے۔ اب اسے نہ بچپن کے سکھ یاد ہیں اور نہ جوانی کے دکھ۔ نہ تحصیلدار صاحب، نہ خانم، نہ ممدو۔ دن بھر وہ بیٹھی بیٹھی جوئیں مارا کرتی ہے اور آپ ہی آپ نہ جانے کیا بڑبڑاتی ہے۔

’’مگر شکر اللہ کا۔۔۔ بانو زندہ ہے اور میرے پاس ہے اور میں اسے دیکھ سکتا ہوں۔‘‘

مأخذ : خواجہ احمد عباس کے منتخب افسانے

مصنف:خواجہ احمد عباس

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here