آج بھر دے اسی مے سے مرا جام اے ساقی
عقل جس مے کو سمجھتی ہے حرام اے ساقی
تو بدل دے یہ مری زیست کے شام اور سحر
صبح بے نور ہے بے کیف ہے شام اے ساقی
میں وہ مے کش نہیں جو بیٹھ کے تنہا پی لوں
کتنے مے خواروں کا لایا ہوں سلام اے ساقی
اپنی ہی تشنگیٔ شوق بجھانا تو نہیں
مانگتا ہوں میں تری بخشش عام اے ساقی
نام لیوا ترے بیٹھے ہیں نگوں جام کئے
بزم مے خانہ کا بدلا جو نظام اے ساقی
تشنہ کام اور تہی جام رہیں گے لیکن
غیر کے ہاتھ سے پینا ہے حرام اے ساقی
مأخذ : فکرونظر
شاعر:ظفر احمد صدیقی