لمحے جو بیت گئے

0
315
urdu-story
- Advertisement -

ابھی مدرستہ العلوم (علی گڑھ)ترقی کے منازل طے کرکے یونیورسٹی کے بلند مقام پر نہیں پہنچا تھا، اورمیں بھی ہنوز لیکچراری کے مدارج پر گامزن تھا کہ علیاحضرت سلطان جہاں بیگم خلد آشیاں وائی دولت بھوپال اپنے محبوب ترین صاحبزادے محمد حمید اللہ خاں مرحوم کو کالج کے پہلے سال میں داخل کرنے کے لئے علی گڑھ تشریف لائیں۔ نواب زاره مرحوم نے انٹر میڈیٹ سائنس میں داخلہ لیا۔ ریاضی کا مضمون اس درجے کے طلبا کومیں پڑھاتا تھا۔نواب زاده مرحوم کو اس میں کسی قدر سہارے کی ضرورت تھی۔ علیاحضرت جنت آشیاں نے پرنسپل صاحب سے یہ خواہش ظاہر کی کہ نواب زادہ کے لئے خانگی خواندگی کا انتظام کر دیا جائے ۔مسٹر ٹول (پرنسپل) نے میرا نام تجویز کیا اور بغیرمجھ سے استفارر کے علیا حضرت کو اطلاع بھیج دی۔ فرمانروائے بھوپال سالانہ زرعطیہ کے علاوه دوسری ضرورتوں میں بھی مدرستہ العلوم کو نوازتی رہتی تھیں۔ ان کی کسی خواہش کی پذیرائی میں سرتسلیم خم نہ کرنا ایک بہت بڑی کوتاہی تھی جب پرنسپل نے مجھے اپنے فیصلے کی اطلاع دی۔ تو میں سٹ پٹاگیا۔ بوجوه میرے لئے اجرتا اس خدمت کو قبول کرنا ممکن نہ تھا چنانچہ میں نے جوابا جوخط پرنسپل صاحب کو لکھا تھا اس میں مندرجہ زیل اصولی باتوں کی طرف ان کی توجہ مبذول کی۔کسی استاد کا اجرت لے کر اپنے ہی شاگرد کے گھر پر جا کر انفرادی تعلیم دینا۔

میرے نزدیک یہ علم کی توہین ہے۔ اور استاد کی شایان شان نہیں۔مدرستہ العلوم جیسے ادارے میں جہاں ہم طلبا میں عزت نفس کا احساس پیداکرنے کے خواہش مند ہیں اورطلباکے باہمی میل جول اور تعلقات میں جاہ و ثروت کے فرقوں کو نظرانداز کر کے ان میں انسانی برابری اور یکسانیت کا جذبہ پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہاں خود معلم کا روپے کی خاطراپنے درجے سے گر کر ایک بڑی مثال قائم کرنا اوربھی مذموم ہے اس کا ایسا فعل طلبا میں کمتری کارکیک احساس پیدا کرنے کا موجب ہو گاکسی متمول خاندان کا طالب علم مجھ سے خانگی خواندگی کاطالب ہوتا ہے تومیں اسے ہمیشہ ترغیب دیتا ہوں کہ وہ میری جائے رہائش پرآکر اپنی مشکلات رفع کر لیا کرے، وہ اس پر بھی اگر اپنے خاندانی تفوق کا شکار بنا رہے تومیں اس کےمال و دولت اورعزم وہمت کا اندازہ لے کر ایسی اجرت بتا دیتا ہوں جسے وہ ادا نہیں کر سکتا اور ناچار اسے میرے یہاں حاضر ہوکراپنی مشکلات کا حل تلاش کرنا پڑتا ہے۔میں نے طلبا کے لئے بلاامتیاز اپنے یہاں آنے کے اوقات مقرر کر دیئے ہیں جن میں وہ آکر بہ اطمینان اپنی مشکلات میں مدد لے سکتے ہیں ۔میری خواہش ہے کہ نواب زادہ بھی میرے اصولوں کی قدر کریں۔ اور میرے یہاں آکر مقررہ اوقات میں اپنی مشکلات حل کریں۔ میں آپ کو اور علیاحضرت کویقین ولاتا ہوں کہ جس خلوص یک جہتی اور یکسوئی کے ساتھ میں انھیں اپنے یہاں درس دوں گا اتنا میں اجرت لے کر اور ان کے در دولت پر حاضر ہو کر نہ کر سکوں گا۔

میرا عریضہ پرنسپل صاحب نے بجنسہ علیاحضرت کے پاس بھیج دیا اور مجھے یہ معلوم ہوکر دلی مسرت ہوئی کہ انہوں نے میرے خیالات کی قد رافزائی فرمائی اور نواب زادہ کو حکم دیا کہ وہ میرے گھرآکر پنی درسی ضروریات پوری کریں مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ طلبا کو جانے کیسے اس خط کتابت کی اطلاع ہوگئی توسب نے میرے فعل کو سراہا۔ نواب زادہ مرحوم کئی ماہ تک میرے یہاں آتے رہے یہاں تک کہ وہ جماعتی درس سے مستفید ہونے کے قابل ہو گئے۔

میں نے اپنے خط میں تو اس کا ذکر نہیں کیا تھا، لیکن جب میں پرنسیل صاحب کو خط لکھ رہا تھا تومیرے پیش نظر رحمتہ اللعالمینﷺ کا ارشاد اچھا صاحب ثروت وہ ہے جوفقیر کے دروازے پر حاضری دے، اور برا فقيروہ ہے جو صاحب مال کے دروازے پرکھڑا نظرآئے بھی تھا۔اس ارشاد عالی میں فقیر کا مفہوم وہ نہیں جوفی زمانہ گداگرکا مترادف ہے بلکہ وہ فقیر ہےجس پر حضور پرنورصلی اللہ علیہ الصلوة والسلام کوفخر تھا اور جو اعلی عزیمانہ توکل کا ثمرہ ہوتاہے۔

مصنف :عبدالمجید قریشی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -
- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here