بولتا ہوا قلم

0
302
urdu-story
- Advertisement -

قلمکی آفرینش سے آج تک ایک سے ایک اعلی قلم بنائے گئے ہیں جن کی قیمت ایک پیسے سے ایک ہزار روپیہ تک معین ہے ۔لیکن جتنے بھی قلم جس قیمت کے بھی تیار کئے گئے ان سے محض انسانی خیالات اور جذبات کی ترجمانی کا کام لیا گیا ہے سستا ہویا مہنگا قلم صرف لکھ سکتا ہے۔ دائرے بناسکتا ہے، لکیریں کھنچ سکتاہے اوران میں نقطوں کے ذریعہ مفہوم پیدا کرسکتا ہے تاکہ لکھنے والے کے جذبات سے آگاہ ہوسکے۔ لیکن یہ قلم جس کا ہم تذکرہ کررہے ہیں اور جسے حال ہی میں یونیورسٹی آف واشنگٹن کے شعبہ سائنس نے ایجاد کیا ہے دنیا کا واحد قلم ہے جولکھنے کی بجائے ہولتا ہے۔اس ایجاد کوجنم دینے والے سائنس کے لیکچرر ڈاکڑ سام اسپارک ہیں جو اس منصوبے کوعملی جامہ پہنانے کی مدت مرید سے سعی کر رہے تھے۔ایک باروہ کسی گہری فکر میں مستطرق ،محض دکھاوے کی خاطردیکھ رہے تھے۔اصل فلم سے پہلے ایک ڈاکو منیڑی فلم کسی گونگے کے بارے میں بھی دکھائی جانے لگی جو کسی عصرجدیدکے ڈاکٹر کےعلاج سے ایک دم گفتگو کرنے لگا تھا۔ پیدائیشی گونگا جس کے لب وزبان الفاظ و تلفظ سے ناآشنا تھے ایک دم خستہ زبان میں تقریر کرنے لگایہ قلم دراصل جو ڈاکٹر کے کلنیک میں لی گئی تھی ۔اس حقیقی داستان میں کذب دوروغ کی کوئی بھی رمق نہ تھی۔یہ بات آج سے دس سال پہلے کی ہے جب انسان چاند پر جانے کے منصوبے بنا بناکر انہیں ردی کی ٹوکری میں ڈال رہا تھا۔ اچانک گونگے شخص کو بولتا ہوا دیکھ کر ان کے دماغ کے تمام تارجھنجھناا ٹھے اور انہیں ایسا محسوس ہوا کہ ہر پردے سے یہی آواز آرہی ہے کہ آج کی سائنس فضا پر قادر ہوچکی ہے ہزاروں میل ڈورکی آواز آن واحد میں فون، ریڈیو ٹیلی پرنٹر ٹیلی گرام وغیرہ کے ذریعہ دوسرے آدمی تک پہنچائی جاسکتی ہے ٹیلی ویثرن کے ذریعہ درجنوں میل دور تک کی تصاویر پردہ پر ابھرسکتی ہیں اورجب یہ تصاوير بول سکتی ہیں تو قلم کیوں نہیں بول سکتا۔؟

ڈاکڑ اسپارک اس ذہنی پراگندگی سے اتنے متاثر ہو ئے قلم ادھوری چھوڑ کر چلے آئے اور تب سے ہی وہ ایسے قلم کی ایجااد میں مصروف اورمنہمک ہو گئے جو لکھنے کی بجائے قوت گفتار کا مالک ہو۔آخرکاروہ دن آیا جب انہوں نے فوٹو الیکٹرک سیل کے ذریعہ قلم کوگفتار کی طاقت عطا کردی۔ صفحات پرابھرے ہوئے الفاظ کومس کرتے ہوئے اس قلم میں الفاظ کی نوعیت سے مختلف آوازیں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ الف کی آواز واضح طورپر کچھ اور ہے اب کی آواز کچھ اور اس طرح قلم کو پکڑنے والا شخص ان آوازوں سے نتیجہ اخذ کرلیتا ہے کہ یہ کونسا لفظ ہے۔اس کے علاوہ اس قلم میں یہ بھی صفت ہے کہ وہ پورے لفظ کے خاتمہ کے بعد اس کی ہیئت بھی بتا دیتا ہے مثال کے طور پراگر صندوق، فریم ، دروازہ کھڑکی یا ایسے ہی دوسرے لفظ جن سےملوسی چیزوں کے معنی مراد ہوتے ہیں اس قلم سے مس ہوئے تووہ قاری کوان کی اہمیت کے بارے میں بھی اپنی اندرونی آوازوں سے آگاہ کردیتا ہے۔اس قلم کی ایجاد سے جنم کے اندھے اور پیدائشی نابینا اشخاص ہی فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔ بلکہ ان دانا اور نابینا اشخاص کے لیے بھی یہ سود مند ثابت ہوسکتا ہے جو بعض چیزوں کی شکل وصورت تک سے ناواقف ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ نے درجنوں ایسی مشینیں ایجاد کی ہیں جنہیں ہندوستان کے کوچہ و بازار میں عام ہونے کے لئے ابھی عرصہ درازدرکار ہے۔ ان چیزوں کے نام کو جب یہ فلم مس کرے گا تو استعمال کرنے والوں کواس چیز کی سرسری معلومات ہوجائےگی۔اس قلم کو بازارمیں لانے سے پہلے ڈاکٹرسام اسپارک نے دوایسی پیدائشی اندھی لڑکیوں کو اپنا شاگرد بنالیا ہے جو اس فلم کی تکنیک سے واقفیت پیدا کر رہی ہیں تاکہ مکمل تربیت کے بعد وه مزید لڑکیوں کو تربیت دے سکیں اور اس طرح آہستہ آہستہ ہزاروں اندھے اس قلم کے ذریعہ محروم بصارت ہونے کے باوجود سب کچھ دیکھ سکیں گے۔

ڈاکٹر سامرواشنگٹن یونیورسٹی سے ملحقہ ایک بابو انجینرنگ مرکز میں انسٹرکٹر بھی ہیں اور اگر وہ اس قلم کے موجد نہ ہوتے تو شاید موجودہ اور آنے والی نسلیں ان کے نام سے بھی واقف نہ ہوتیں۔

مصنف :پروفیسر جے ایف رچڑڈ

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here