لکھنو کے بانکے

0
288
urdu-story
- Advertisement -

باری النظر میں خیال ہوتا ہے کہ تمام بانکوں کی وضع ایک سی ہوگی۔ مگرایسا نہ تھا ان میں ہر فرد اپنے بانکپن کو ایک نئے عنوان اورنئی شان سے ظاہر کرتا ہے۔ پہلے عام وضع یہ تھی کے سر کو چندیا سے گدی تک منڈاتے اور دونوں طرف کے پٹوں میں سے ایک تو کانوں تک رہتا اور دوسراشانوں تک لٹکتا، بلکہ کبھی اس کی چوٹی گوندھ کر ایک طرف سینے پر ڈال لی جاتی۔اس کے بعد جد تیں ہونا شروع ہوئیں اور ہر بانکے نے اپنے لئے کوئی نئی وضع ایجاد کی کسی صاحب نے ایک طرف کی مونچھیں اس قدر پڑھائی کہ بڑھتے بڑھتے چوٹی سے مل گئی ۔کسی صاحب نے پگڑی کا شملہ بجائے پیٹھ کے ایک طرف شانے پر ڈال لیا۔کسی صاحب نے پاجامے کا ایک پائاچی اس قدرانگارکھا کہ آدھی پنڈ لی کھلی ہوئی ہے اور دوسرا پائنچا اس قدر نیچا کرلیا کہ زمین بوس ہورہا ہے کسی صاحب نے لوہے کی ایک بڑقی پاؤں میں ڈال کر اس کی زنجیر کمرمیں لٹکا ئی اور کڑز کاتے ہوئے پھرنے لگے۔ کسی صاحب نے یہ ترقی کی کہ بہت سے روپوں میں دونوں طرف کنڈے لگائے اور انھیں باہم جوڑ کے ایک نئی قطع کی زنجیر بنائی۔ پھر اس کے دونوں سروں پر چاندی کے دو حلقے لگائے، ایک حلقے کو ایک طرف کے بازو میں پہن کے شانے پر اٹکا لیا، اور نہایت غرور تمکنت کے ساتھ زنریے بجاتے ہوئے گھر سے نکل پڑے۔عرض جتنے بانکے تھے اتنی ہی دھجیں ۔ اسی قسم کی جدت طرازیاں اسلحے کے متعلق تھیں ۔کوئی صاحب دو دھار اتیغہ ہاتھ میں رکھتے جو ہر وقت برہنہ اور ہوا سے لڑتارہتا۔ کوئی صاحب رستم نریمان کے زمانے کا وزنی گرز لئے پھرتے ۔کوئی صاحب تیر کاندھے پر رکھے نظرآتے اور ساری دنیا کو اپنی نظرمیں ہیچ خیال کرتے۔ان لوگوں کے باہر نکلنے کی یہ شان تھی کہ تنجتروتخت کے ٹھاٹھ سے اپنے اوپر ناز کرتے ہوے چلتے ہر ایک پر کڑوے تیور ڈالتے اور اگر میں کہیں کسی کو دیکھ لیتے کہ ان کا ہی بانا اور شعار اس نے بھی اختیار کر لیا ہے۔ توبلا تامل ٹوک بیٹھتے اور کہتے آئے ہم سے آپ سے دو دو ہاتھ ہوجائیں۔ یہ بانایا تو ہمارا ہی ہو گا یا آپ کا۔ اس سے زیادہ قیامت یہ تھی کہ ان لوگوں کا تنجتران کا فخروناز ،ان کی چال ڈھال، ان کی وضع قطع اور ان کے مخصوص شعار سب چیزوں کی یہ حالت تھی کہ دیکھتے ہی انسان کو بے اختیار ہنسی آجائے ۔مگر کسی کی مجال تھی کہ ان کی طرف دیکھ کرمسکرابھی دے۔ انہوں نے کسی کوجھوٹوں بھی مسکراتے دیکھا اور قرابینچہ پر ہاتھ جاپڑا۔ پھر اس وقت اگر کوئی ایسے ہی بردبار بانکے ہوئے تو اسے خوشامددرآمد کر کے عفوتقصیر کا موقع بھی ملا ورنہ بلاتا مل قرا بنیچہ بھونک دیا۔ اور اپنی راہ لی۔

یہ مجال نہ تھی کہ کوئی بانکے صاحب کسی صحبت میں ہوں اور کوئی بات دلکے یا ان پر اعتراض کرے نتیجہ یہ تھا کہ بڑھ چڑھ کے باتیں بناتے ، لاف زنی کرتے، زٹلیں اڑاتے اورجھوٹ کے پل باندھتے ۔مگر کسی کو جرات نہ ہوسکتی کہ چوں کرے یا مسکرائے۔ مشہور ہے کہ ایک بانکے صاحب چند مہذب لوگوں کی محفل میں کہنے لگے جی فلاں راجا کی گڑھی پر جب ہم نے سو آدمیوں سے دھاوا کیا ہے، توہر سپاہی کے گلے میں پانچ پانچ ڈھولیں تھیں اور ہمارے سوآدمی پانچسوڈھولیں بجاتے ہوئے جاپڑے ،اور توکس کی مجال تھی کہ ایک بانکے کی زبان پکڑے سب خاموش بیٹھے رہے مگرایک نوجوان کے منہ سے نکل گیا۔۔خیرپانچ ڈھولیں توگلے میں ڈال کے شایدراون کے سر کی طرح پھیلالی ہوں گی مگرہر آدمی پانچ پانچ ڈھولیں کن ہاتھوں سے بجاتا ہوگا۔۔یہ سنتے ہی بانکے حضرت آگ بگولا ہو گئے۔ تلوار سیدھی کی اور ڈانٹ کر کہا:ایں،یہ ہم پراعتراض کرتے ہو، توہم جھوٹے ہوئے؟سب نے کہا۔جو آپ کو جھوٹا کہے وہ خود جھوٹا۔یہ لڑکا بزرگوں کی قدر کیا جانے آپ اپنی طرف دیکھیں۔نواب سعادت علی خاں کے زمانے میں ایک بانکے مرزا جہاں گیر بیگ تھے ، ان کی نوعمری کا زمانہ تھا۔ باپ نواب صاحب کے درباریوں میں تھے ۔جہاں گیر بیگ کی شورہ پشتی کی خبر کئی بار سن کر نواب صاحب خاموش ہورہے مگر آخر کار ایک دن بہت برہم ہوئے اور ان کے والد سے کہا۔۔آپ کے صاحبزادے کی شورہ پشتیاں حد سے گذرتی جاتی ہیں۔ انہوں نے سارے شہر میں ادھم مچارکھا ہے ان سے کہہ دیجئے کہ اپنے اس بانکپن پرنہ پھولیں۔ ناک نہ کٹوالی ہوتوسعاوت علی خاں نام نہیں۔

باپ خودہی بیٹے کی حرکتوں سے عاجز تھے، عرض کیا :اس کی شرارتوں سے غلام کا ناک میں دم ہے۔ ہزار سمجھتاہوں نہیں مانتا، شاید حضور کی یہ دھمکی سنکر سیدھا ہوجائے۔یہ کہج کر گھر آئے اور بی بی سے کہا تمہارے صاحبزادے کے ہاتھوں زندگی سے عاجز آگیا ہوں۔دیکھو اس نالائق کیا حرکتوں سے ہماری کیاگت بنتی ہے ۔جی چاہتا ہے نوکری چھوڑوں اور کسی طرف منہ چھپا کر نکل جاؤں۔اتنے میں میرزا جہاں گربیگ جو کہیں باہر گئے ہوئے تھے ،آگئے۔ ماں نے کہا بیٹا، خدا کے لئے اپنی حرکتیں چھوڑ دے، تیرے ابا بہت پریشان ہیں۔مرزا صاحب نے کہا: میرا کچھ قصورتو بتائیے گا یا خالی الزام ہی دیجئے گا۔باپ نے کہا:کوئی ایک قصور ہوتو بتایا جائے تونے وہ سر اٹھا رکھا ہے کہ سارے شہر میں آفت مچ گئی۔ آج نواب صاحب کہتے تھے کہ اپنے صاحبزادے سے کہہ دینا میں سعادت علی خاں نہیں جو ناک نہ کٹوالی ہو۔باپ کی زبان سے اتنا سنتے ہی میرزا صاحب کوجوطیش آیا توکمر سےپیش قبض نکال لی اور خودہی اپنی ناک کاٹ کے باپ کی طرف پھینک دی اور بولے:بس، اسی ناک کاٹنے کی نواب صاحب دھمکی دیتے ہیں۔لیجئے یہ ناک لے جاکے انھیں دے دیجئے۔یہ دیکھتے ہی ماں باپ دونوں سناٹے میں آگئے اور جب باپ نے بیٹے کی ناک نذر کے طریقے سے نواب صاحب کے سامنے پیش کی اور واقعہ بیان کیا تووه دم بخودرہ گئے اور معذرت کرنے لگے کہ بھئی میرا منشایہ نہ تھا میں تویہ سمجتا تھا کہ اس دھمکی سے تنبیہہ ہو جائے گی۔ باپ نے کہا:ایسا نالائق اور دھن کا پکا ہے کہ زور نہیں چلتا۔ جسے نہ جان کا خیال ہونہ عزت و آبرو کا۔ اس کے منہ کون لگے۔ اس واقعہ کے بعد میرزاجہاں گیر بیگ نک کٹے مشهور ہوگئے اور اب اتنے بڑے زبردست اور سند یافتہ بانکے تھے۔ کہ شہر کے سارے بانکے ان سے دیتے تھے سیکڑوں بانکے ان کے شاگرد بے عذر فرمانبردار ان کے جتھے میں شریک تھے جن سے سارا شہرکا پنتا تھا ۔یہاں تک کہ ایک مشہور بھانڈنے نواب سعادت علی خاں کے سامنے کوئی گستاخانہ نقل کی تو انہوں نے ہنس کرکہا:میرے سامنے توجوچاہتا کہہ جاتا ہے جب میں جانوں کہ تو میرزا جہانگیربیگ نک کٹے پر کوئی فقرہ تیز کرے۔

اس نے عرض کی:کہہ تو جاوں، مگرحضور بچالینے کا اقرار کریں۔نواب نے وعدہ کر لیا۔ اس کے دو چار روز بعد ایک دن مرزا جہاں گیربیگ پورا اسلحہ لگائے اپنی نشست پر مونڈھے پر بیٹھے تھے ۔پچاس ساٹھ شاگردوں اور بانکوں کاگرد مجمع تھا کہ وہ ایک لنگ باندھے دریا سے نکل آیا۔ اس کی صورت دیکھتے ہی مرزا جہاں گیر بیگ نے کہا۔اخاہ تم ہو؟ اچھے توہو؟یہ سنتے ہی وہ آداب بجالایا۔ سامنے زمین پر آکر بیٹھ گیا۔ اور ان کے چہرے کی طرف انگلی اٹھا کے کہنے لگا ، اتنی ناک کٹ گئی اور یہ جورہی ہے یہ بھی کٹ جائے گی۔ایک بھانڈ کی زبان سے یہ جملہ سنتے ہی میرزا کو اتنا طیش آیا کہ کا نپنے لگے۔ تلوار ہاتھ سے چھٹ پڑی اوروہ بے تحاشا بھاگ کے پانی میں کود پڑا، دوچار غوطے لگائے اور پانی ہی پانی میں کسی طرف نکل گیا ، اب میرا صاحب کے لوگ ڈھونڈتے پھرتے تھے کہ کہیں ملے تو مارڈالیں، آخرایک دن نواب صاحب نے میرزا کے قدموں پر گروا کے کہا: بھئی اس کا برا ماننا ہی کیا ؟ یہ تو مجھ کو بھی کہہ جاتا ہے اور اس کا قصور معاف کروادیا۔ اکثر بانکوں کی یہ وضع تھی کہ شربتی کے باریک انگرکھے کے سواکوئی کپڑا نہ پہنتے ، لڑائی میں زرہ پہننا یا ڈھال سے کام لینا بزدلی خیال کرتے۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ حریف کا سامنا ہوتا تو اسکی تلوار کوگویا ننگے سینے پر لیتے ۔چرکے پرچرکے کھاتے اور اف نہ کرتے۔ اس طرح چلوں کا جاڑا اسی شربتی کے انگرکھے پر گزرتا اور کیا مجال کہ کا نپیں تھرتھرائیں یا زبان سے سوسو کی آواز نکلے بعض اس پر یہ قیامت کرتے کہ اس باریک لباس پر باسی پانی چھڑ کو اتے او جوں جوں سردی معلوم ہوتی اوراکڑتے جاتے۔

مصنف :عبدالحکیم

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -
- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here