میں سوچتا تھا کہ دے گا مجھے اجالے کون
یہ کر گیا مہ و انجم مرے حوالے کون
نیا جریدۂ شعر و ادب نکالے کون
یہاں خرید کے پڑھتا ہے خود رسالے کون
چہار سمت منڈیروں پہ زاغ بیٹھے ہیں
نہ جانے چھین لے معصوم کے نوالے کون
پلا کے خون جگر دوستوں کو دیکھ لیا
اب اور دشمن جاں آستیں میں پالے کون
پسینہ بیچ رہا ہوں لہو بھی ارزاں ہے
خریدتا ہے کف خونفشاں کے چھالے کون
ہزار طرح کی ذہنی اذیتیں دے کر
پلا رہا ہے مجھے زہر کے پیالے کون
لگی ہو نیند تو یاروں کو ہوشیار کریں
یہ مردہ لوگ ہیں مردوں میں جان ڈالے کون
یہ رنگ و نسل کی تفریق ہم نے خود کی ہے
وگرنہ ایک ہیں سب گورے کون کالے کون
کسی پرانے کھنڈر میں یہ لاشیں دفنا دو
ہوا خلاف ہے نیزوں پہ سر اچھالے کون
مأخذ : ٹک ٹک دیدم
شاعر:ظفر نسیمی