ساری بستی شعلوں میں لپٹی ہوئی تھی۔
آگ کی لپٹوں اور دھوئیں کی اوٹ میں سے نہ جانے کہاں سے ایک چھوٹا سا لڑکا برآمد ہوا اور سنسان سڑک پر سر پٹ دوڑ نے لگا۔ عمر کوئی دس گیارہ برس کی تھی۔ رات بھر وہ اندھیرے کو اوڑھ کر خود کو چھپاتا رہا، پھر صبح کاذب نے اس کی امیدیں جگائیں اور وہ خود کو بچانے کی کوشش کرنے لگا۔ اسے معلوم تھا کہ صبح صادق اب دور نہیں۔ وہ مرنا نہیں چاہتا تھا۔ زندگی اور موت کی اصلی ماہیت سے وہ چند ہی گھنٹے پہلے آشنا ہو چکا تھا۔ ایک حسین خواب تھا اور دوسرا ڈراونا کابوس۔۔۔!
اس کمسن لڑکے کو کہاں جانا تھا، اسے معلوم نہ تھا۔ فقط دوڑے جا رہا تھا۔ مہیب اندھیروں کو پیچھے چھوڑ کر وہ روشنی کی تلاش میں بھاگ رہا تھا۔ دل میں پہلے کی مانند ہی پھر سے سانس لینے کی آرزو لیے ہوئے ! لڑکے نے ہانپتے کانپتے قریباً ایک میل کا فاصلہ طے کر لیا۔ وہ دوڑتا، تھک جاتا، کچھ دیر دم لیتا، پھر اسے کچھ یاد آتا اور دوبارہ دوڑنا شروع کر دیتا۔ کچھ دیر بعد ایک نئی بستی شروع ہو گئی مگر وہ اسے نظر انداز کرتا ہوا صرف بھاگتا رہا۔ پھر ناگاہ نہ جانے کیا ہوا۔ وہ سڑک پر اوندھے منہ گر پڑا اور بے ہوش ہو گیا۔
ادھر نئی بستی میں رحمتی نیند سے جاگ کر اپنے مکان کی دوسری منزل کی کھڑکی کھول رہی تھی۔ اس کی اچٹتی نگاہ باہر سڑک پر پڑ گئی جو ابھی بھی کہرے میں ملفوف تھی۔ جونہی اس کی نظر لڑکھڑاتے ہوئے اس ننھے لڑکے پر پڑی اس کی ممتا نے کروٹ لی اور وہ کچن سے پانی کا لوٹا اٹھا کرکو دتی پھاندتی نیچے سڑک پر پہنچ گئی۔ اس نے لڑکے کے منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے۔ چند ثانیوں میں وہ ہوش میں آیا۔ رحمتی نے اس کو لوٹے سے پانی پلایا اور پھر سہارا دے کر اپنے گھر کی طرف لے گئی۔
لڑکے نے عورت کی گرفت سے خود کو چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ وہ ہانپ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا بہنے لگا۔
‘’مجھے چھوڑ دو، مجھے چھوڑ دو۔۔۔’‘ وہ برابر التجا کرتا رہا اور ساتھ ہی روتا بھی رہا۔ اس کے من میں نہ جانے کیسے کیسے اندیشے پیدا ہوتے رہے۔
’’گھبراؤ نہیں بیٹے، تجھے کچھ نہیں ہو گا۔ تم مجھ پر بھروسہ رکھو۔’‘ ممتا کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور وہ ترّحم اور دردمندانہ نگاہوں سے واماندہ بچے کو دیکھنے لگی۔
لڑکا چپ چاپ رحمتی کو دیکھتا رہا۔
’’تمھارا کیا نام ہے، بیٹے؟‘‘ رحمتی نے پیار بھری نظروں سے دیکھ کر سوال کیا۔
کچھ وقفے کے لیے لڑکے کی خاموشی برقرار رہی۔ وہ من ہی من میں سوچتا رہا کہ کیا نام بتاؤں؟لیکن پھر دل نے گواہی دی کہ یہ عورت تو سراپا ممتا کی مورت معلوم ہو رہی ہے، مجھے کوئی زک نہیں دے گی۔ یہ سوچ کر اس کے منہ سے ایکا ایکی نکل پڑا۔ ‘’میرا نام اقبال ریشی ہے۔’‘
’’مسلمان ہو کیا؟’‘
‘’نہیں آنٹی، ریشی تو میری عرفیت ہے۔ پنڈتوں میں بھی ریشی ہوتے ہیں۔ پاپا اردو کے ٹیچر تھے اور علامہ اقبالؔ کو بہت پسند کرتے تھے، اس لیے انھوں نے میرا نام اقبال رکھ لیا۔’‘ لڑکے نے جونہی اپنے باپ کا ذکر کیا تو اس کے سارے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔
‘’کیوں تمھارے ابا نہیں ہیں؟’‘ رحمتی نے اس کا ہاتھ دوبارہ پکڑ لیا اور اسے گھر کے اندر لے گئی۔
اقبال تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اس کا ما تھا پسینے پسینے ہو رہا تھا۔ اندر گھستے ہی وہ پھر سے بے ہوش ہو گیا اور فرش پر دھڑام سے گر گیا۔ بدن میں کپکپاہٹ بدستور جاری تھی۔ رحمتی جلدی سے ٹھنڈے پانی کا ایک اور لوٹا لے آئی اور اس پر چھڑکنے لگی۔ چند ہی لمحوں میں وہ سنبھل گیا۔ رحمتی نے لوٹے سے گلاس میں پانی انڈیل کر اس کو اپنے ہاتھوں سے پلایا جیسے اس کی ماں کبھی کبھار پلاتی تھی۔ وہ اجنبی عورت کے چہرے کو گھورنے لگا۔ دہشت کے ماحول میں اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ اس کو اپنی ماں کی باتیں یاد آنے لگیں۔ ایک روز اس کی ماں کی رفیق کار رابعہ ان کے گھر آئی تھی جو بالکل رحمتی کی شکل و صورت کی تھی۔ گو اس کی پوشاک ماں سے کچھ مختلف تھی مگر بول چال اور رویے میں کوئی فرق نظر نہیں آ رہا تھا۔ پوچھنے پر اس کی ماں نے کہا تھا۔
’’بیٹا، رابعہ میرے ساتھ سکول میں پڑھاتی ہے۔ گو ہمارے رہن سہن میں زیادہ فرق نہیں تاہم پوشاک سے ہم پہچان سکتے ہیں کہ یہ مسلمان ہے یا ہندو؟ اب تو مغربی کلچر کے سبب وہ امتیاز بھی مٹتا جا رہا ہے۔ ہاں اتنا ہے کہ ہم مندروں میں جاتے ہیں اور یہ مسجدوں میں۔ علی الصباح ان کی عبادت گاہوں سے اذانیں گونجتی ہیں اور ہماری عبادت گاہوں سے آرتی کے میٹھے سُر سنائی دیتے ہیں۔ بیٹے، بھگوان تو ایک ہی ہے، بس پوجنے کے انیک طریقے ہیں۔’‘
لیکن کل رات جو کچھ ہوا اس سے اقبال کی فکر و سوچ بدل گئی تھی اوراس کے دل میں عجیب سا ڈر بیٹھ گیا تھا۔ اس کے دل میں انسان کے لیے نفرت پیدا ہو گئی تھی اور انسانیت ہی سے اعتبار اٹھ گیا تھا۔
‘’تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا بیٹے۔ کیا تمھارے ابا نہیں ہیں؟‘‘
اقبال یکبارگی دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ رحمتی احساس گناہ سے پشیماں ہو گئی۔ اسے احساس ہوا کہ اس کی پوچھ تاچھ کے باعث لڑکا پریشان ہو رہا ہے۔ سو اس نے مزید کریدنا بند کر دیا۔ مگر کچھ وقفے کے بعد اقبال خود ہی بول اٹھا۔
’’آنٹی، انھوں نے میرے ماں باپ کو مار ڈالا۔ کل آدھی رات کے قریب چارمسلح افراد ہمارے گھر میں گھس آئے۔ ان میں سے کوئی بھی کشمیری نہیں بولتا تھا۔ ایک آدمی نے پتاجی سے کہا کہ ہم رات بھر یہیں رہیں گے۔ میرے پتا جی، پریم ناتھ پریمؔ نے بِناکسی پس و پیش کے ایک کمرہ خالی کر وایا اور انھیں آرام سے رہنے کو کہا۔ ماتا جی نے کھانا بنا کر پروس دیا۔ خود پتاجی، ماں اور میں دوسرے کمرے میں خوف سے سمٹ کر رہ گئے اور آنکھوں آنکھوں میں رات گزاری۔ اِدھر ایک دو گھنٹوں کے بعد ہر طرف سے پولیس گاڑیوں کے چلنے کی آوازیں، سائرن اور پھر گولیوں کی آوازیں آنے لگیں۔ دوسرے کمرے میں چاروں افراد جل بن مچھلی کی طرح تڑپنے لگے۔ انھیں اندیشہ ہوا کہ پولیس نے ان کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہوگا۔ بچنے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی تھی۔ اس لیے انھوں نے اجالا ہونے سے پہلے بھاگنے کا پلان بنایا، میرے والدین کو انسانی ڈھال بنا کر اپنے آگے آگے چلنے کو کہا کیونکہ انھیں یقین تھا کہ پولیس ان پر گولی نہیں چلائےگی۔ میں پریشان حال اوپر جا کر دوچھتی میں چھپ گیا۔ باہر رات بھر گولیاں چلتی رہیں۔ کبھی رک رک کر اور کبھی مسلسل۔ دریں اثنا چاروں طرف شور مچ گیا۔’’ آگ۔۔۔ آگ۔۔۔ آگ۔۔۔! ’‘ساری بستی آگ کی نذر ہو رہی تھی۔ آگ سے بچنے کے لیے میں نیچے اتر آیا اور جا کر بھیڑ میں ملا۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ پولیس نے مجاہدوں کو باہر نکالنے کے واسطے آگ لگائی جبکہ پولیس کہہ رہی تھی کہ دہشت گردوں نے دھوئیں کی ٹٹی بنانی چاہی تاکہ پولیس سے بچ نکلیں۔ صبح تک سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا۔ پولیس نے دس لاشیں گاڑی میں بھر دیں جن میں وہ چار بندوق بردار اور میرے والدین بھی تھے۔ میں لاچار چھپتا چھپاتا دور سے خاموش دیکھتا رہا۔ جب ہلکی ہلکی روشنی ہونے لگی تو میں گھبرا گیا۔ سوچا کوئی پہچان نہ لے اس لیے وہاں سے بھاگ نکلا۔’‘
یہ سارا سانحہ معصوم اقبال کے وجود کا حصہ بن چکا تھا۔ اس کے من میں نہ صرف عسکریت پسندوں بلکہ ان کے ہم مذہبوں کے لیے عجیب سی نفرت پیدا ہو گئی تھی۔ وہ اپنے مکان سے بھاگ تو نکلا مگر یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کہاں جائے؟ بن ماں باپ کا بچہ اور وہ بھی ایسے حالات میں۔۔۔! ا س کے وجود میں عجیب سی اتھل پتھل مچ گئی۔ ماں کی کہی ہوئی ساری باتیں دماغ میں بازگشت کرتی رہیں۔ ‘’بیٹے ہم سب انسان ہیں اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کا بھگوان ایک ہے، صرف پوجا کرنے کے طریقے الگ الگ ہیں۔ ہمیں سب سے محبت کرنی چاہیے۔ حاجت مندوں کی حاجت رفع کرنی چاہیے۔ کیا معلوم کس کی صورت میں بھگوان مل جائے؟‘‘ مگر رات بھر کے واقعات نے ان سب باتوں کو جھٹلا دیا تھا۔ وہ رحمتی کو ٹکر ٹکر دیکھتا رہا۔ اب اسے ایک نئے تجربے سے گزرنا پڑ رہا تھا۔ رحمتی اس کی ماں کی رفیق کار اور سہیلی رابعہ کی کاربن کاپی لگ رہی تھی اور اس کا گھر بالکل اس کے اپنے گھر جیسا لگ رہا تھا۔ رحمتی کی ممتا نے اس کے وجود کو دوبارہ سان پر چڑھایا۔
کچھ وقفے کے بعد اس نے ہمت جٹائی اور رحمتی سے کہنے لگا۔ ‘’آنٹی، اگر میں چھپ نہ جاتا وہ مجھے بھی مار دیتے۔’‘
‘’بیٹے، بھول جاؤ ان باتوں کو۔ یہ کچھ سر پھرے ہیں جو اس بات کو نہیں سمجھتے کہ روز قیامت کے دن ان کی جواب دہی ہوگی اور اس وقت ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔ کسی دین میں معصوموں کا قتل واجب نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔ ان تخریبی کار روائیوں سے بہتر تھا کہ تعمیری کاموں میں لگ جاتے۔ اپنے قوم اور ہم وطنوں کی بہبودی کا کام کرتے۔ مگر انھیں کون سمجھائے؟ ہوا ہی کچھ الٹی چلی ہے۔ زیادہ تر لوگ سرحد پار سے آئے ہیں۔ اپنے ملک کو تو جہنم بنا ہی چکے ہیں اب یہاں بھی ویسے ہی حالات پیدا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہاں تم سوچتے ہو گے کہ لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ غلط۔۔۔! اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ جواب جاہلاں باشد خموشی۔ اس لیے وہ بےعمل ہو چکے ہیں۔’‘کچھ توقف کے بعد وہ پھر گویا ہوئی۔ ’’رہتے کہاں ہو؟‘‘
‘’آنٹی اس سڑک پر بہت آگے ایک چھوٹا سا پُل ہے اس کو پار کر کے ہماری نئی بستی بنی ہوئی تھی۔’‘
‘’تمھارا کوئی رشتے دار تو ہوگا؟‘‘رحمتی نے اقبال کو دلاسہ دیتے ہوئے اس کے رشتے داروں کے بارے میں پوچھ لیا۔
‘’ہاں آنٹی، جنرل پوسٹ آفس سرینگر میں میرا ماما کام کرتا ہے۔ وہاں سیکورٹی کا پورا انتظام ہے اس لیے وہ جگہ محفوظ ہے۔ میری ایک بڑی بہن بھی ہے جس کی شادی پانچ سال پہلے چنڈی گڑھ میں ہوئی تھی۔’‘
‘’بیٹے تم فکر مت کرو۔ میرا بیٹا تمھیں تمھارے ماما کے پاس چھوڑ دےگا۔ وہاں سے تم اپنی بہن کے پاس چلے جانا۔ نہیں تو اگر چاہو تو ہم تمھیں چنڈی گڑھ پہچانے کا انتظام کروا سکتے ہیں۔’‘
‘’نہیں آنٹی۔ بس ماما کے پاس کوئی لے جائے، کافی ہے۔’‘
‘’ٹھیک ہے میں ابھی انتظام کرتی ہوں۔ تم مطمئن رہو۔’‘
رحمتی نے اپنے بیٹے سجاد کو آواز دی اور کہا، ‘’ہیا سجادا (اوئے سجاد)!، اس بچے کے والدین کل رات مڈبھیڑ میں مارے گئے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ تم اس کو آج ہی۔۔۔ نہیں۔۔۔ ابھی۔۔۔ اسی وقت اپنے ماما کے پاس چھوڑ آؤ۔ ورنہ یہ ننھا منا معصوم بچہ سوچتے سوچتے کملا جائےگا۔ پھر ہم خدا کے پاس کیا جواب دیں گے۔’‘
’’ممی، پہلے نہا دھو لوں اور ناشتہ کر لوں، پھر اسے اپنے سکوٹر پر لے جا کر جی پی او میں چھوڑ دوں گا۔’‘
’’نار لگے تیرے نہانے اور ناشتے کو۔ دیکھ نہیں رہا کہ یہ چھوٹا سا بچہ جب سے آیا ہے، آدھا ہو کر رہ گیا ہے۔ چلو جلدی تیار ہو جاؤ اور اسے لے جاؤ۔’‘
سجاد مزید کسی مزاحمت کے بغیر اپنے کمرے میں کپڑے بدلنے کے لیے چلا گیا۔ اتنی دیر میں رحمتی کا شوہر مسجد سے نماز پڑھ کر آ گیا۔ اس کے ہاتھ میں دودھ کے چار لفافے اور آدھا درجن باقر خانیاں تھیں۔ رحمتی جلدی سے اٹھی، دودھ گرم کیا، اس میں کافی ساری چینی ملائی، بادام، چھوٹی الائچی اور زعفران ڈال دیے، پھر قلعی کیے بڑے سے تانبے کے گلاس میں انڈیل دیا اور اس کے بعد اقبال کے سامنے رکھ دیا۔ ساتھ میں دو باقر خانیاں بھی رکھ دیں۔ سجاد اور اس کے والد کے سامنے دو باقر خانیاں اور چائے رکھ دی۔ وہ اقبال سے مخاطب ہوئی۔
‘’چومیانہ لالہ(پیو میرے لال)، ماں کے ہاتھ کا دودھ پی کر جاؤ۔ خدا تمھیں لمبی عمر اور روشن مستقبل سے نوازے۔ میں تمھارے لیے ہر دم دعائیں کرتی رہوں گی۔’‘
اقبال آنسوملا دودھ چپ چاپ پیتا رہا حالانکہ اس کو کچھ بھی کھانے پینے کو جی نہیں کر رہا تھا۔ ناشتہ کر کے وہ رحمتی اور اس کے شوہر کے گلے ملا اور سجاد کے سکوٹر پر بیٹھ کر جی پی او پہنچ گیا۔ وہاں پر اقبال نے جونہی اپنے ماما کو دیکھ لیا، اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات شروع ہو گئی۔ کچھ دیر بعد اس نے ہچکیاں لیتے ہوئے ماما کو اپنی ساری رام کہانی سنا ئی۔ ماما نے اسے دوسرے روز جموں بھجوا دیا جہاں سے وہ چنڈی گڑھ اپنی بہن کے پاس چلا گیا۔ وہاں پر وہ بہن کے بچوں کے ساتھ ہی پلتا رہا۔
کشمیری پنڈت مہاجروں کی ایک خصوصیت یہ رہی کہ انھوں نے غیر مساعد حالات میں بھی ہمت نہ ہاری۔ یہ سچ ہے کہ ایک پوری نسل تباہ و برباد ہو گئی جیسے پکی ہوئی فصل پر ٹڈی دل نے حملہ کیا ہو۔ مگر انھوں نے آنے والی نسل کی پرورش کے لیے اپنا خون پسینہ بہایا۔ خود جھلستی گرمی میں پھٹے ٹاٹ کے خیموں میں زندگی بسر کرتے رہے، ذیابیطس اور امراض قلب سے جوجھتے رہے لیکن اپنے بچوں کو پڑھایا، لکھایا اور اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا۔ بہن نے نہ صرف اپنے بچوں بلکہ اپنے بھائی کی تعلیم میں خوب دلچسپی لی۔ اقبال نے بھی خوب محنت کرکے اس کی ریاضت کو چار چاند لگائے۔ بارہویں پاس کر کے گورنمنٹ میڈیکل کالج چنڈی گڑھ سے امتیازی نمبرات کے ساتھ ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کر لی۔ چھ سال بعد پی جی آئی ایم ای آر چنڈی گڑھ میں ایم ایس کی پڑھائی مکمل کر لی اور کچھ برس بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ چلا گیا۔ وہاں تقریباً چھ برس قیام کیا جس دوران میں اس نے سرطان کے مرض کے بارے میں سپیشلائزیشن کر لی۔ اس کے بعد وطن کی یاد ستانے لگی، اس لیے لوٹ کر دہلی کینسر سپر سپیشلٹی اسپتال میں بطور ماہر سرطان جوائن کر لیا۔
ڈاکٹر اقبال ریشی اپنے پیشے کو عبادت سمجھتا ہے۔ وہ اب بہت ہی مصروف رہتا ہے۔ اس کی چاروں جانب مریض ہی مریض نظر آتے ہیں اور وہ ان کو صحتیاب کرنے کی پوری پوری کوشش کرتا ہے۔ ماں باپ تو بچپن ہی میں چھوٹ گئے تھے مگر اس کو ہر سِن رسیدہ مریض میں اپنے والدین کی شبیہ نظر آتی ہے۔ اس کی دردمندی اور غمخواری نے اس کی شہرت چہار سوپھیلا دی۔
ایک روز ڈاکٹر اقبال کے ایک جونئیر نے اس کو ایمرجنسی وارڈ میں شتابی آنے کی درخواست کی جہاں ایک بوڑھی عورت بیڈ پر کراہ رہی تھی۔ ڈاکٹر نے جونہی مریضہ کو دیکھا تو اسے اپنی ماں یاد آ گئی۔ ماں کی دی ہوئی نصیحت اس کے کانوں میں بازگشت کرنے لگی۔
‘’بیٹے ہم سب انسان ہیں اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کا بھگوان ایک ہے، صرف پوجا کرنے کے طریقے الگ الگ ہیں۔ ہمیں سب سے محبت کرنی چاہیے۔ حاجت مندوں کی حاجت رفع کرنی چاہیے۔ کیا معلوم کس کی صورت میں بھگوان مل جائے؟‘‘
ڈاکٹر مریضہ کے قریب سٹول پر بیٹھ گیا اور اس کے نرم و ملائم ہاتھوں کے لمس سے فیض یاب ہوتا رہا۔ مریضہ کو بھی ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی مسیحا عرش سے اتر کر اس کی عیادت کے لیے آیا ہے۔ ڈاکٹر اقبال نے مریضہ کا بغور معائنہ کیا، کئی ٹیسٹ کروائے اور پھر اس کوآپریشن کروانے کی صلاح دی۔ مریضہ کے بیٹے نے ہسپتال آفس سے رجوع کر کے خرچ کا تخمینہ مانگ لیا۔ اسے بتایا گیا کہ ہسپتال میں طعام و قیام اور ادویات کا خرچہ اندازاً دو لاکھ پڑے گا اور ڈاکٹر کی فیس الگ سے تین لاکھ کے قریب ہو گی۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ بیٹے اور باپ نے آپس میں مشورہ کیا، روپئے کا انتظام کروایا اور آپریشن کروانے کے لیے راضی ہو گئے۔ انھوں نے سنا تھا کہ ڈاکٹر اقبال کے ہاتھوں کو خدا نے شفا عطا کی ہے اور اس کے آپریشن اکثر کامیاب رہتے ہیں۔
دو روز کے بعد مریضہ کو آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا اور ڈاکٹر اقبال نے تقریباً تین گھنٹے آپریشن کر کے مریضہ کے سرطان کی رسولی نکال دی۔ آپریشن کی کامیابی کے باعث مریضہ کا شوہر اور اس کا بیٹا خوشی سے پھولے نہ سمارہے تھے۔ انھوں نے کئی بار ڈاکٹر کا شکریہ ادا کیا حالانکہ دونوں کو اس بات کا احساس تھا کہ ابھی اصلی جھٹکا باقی ہے۔ وہ بل کا انتظار بےصبری سے کرتے رہے۔ گو انھیں تخمینہ مل چکا تھا مگر کیا معلوم اور کون کون سی چیزیں شامل کی گئی ہوں اور بل کی رقم کتنی بڑھ گئی ہو؟
پورے ایک ہفتے مریضہ ہسپتال کی میزبانی برداشت کرتی رہی اور صحتیابی کی اور قدم بڑھاتی رہی یہاں تک کہ وہ خود سے اب چلنے پھرنے لگی تھی۔ ادھر اس کے لواحقین کو خرچے کی فکر ستا رہی تھی اور وہ ہر روز ڈاکٹر سے اس کے ڈسچارج کے بارے میں پوچھتے رہے مگر ڈاکٹر تھا کہ مسکرا کر بنا کچھ کہے چل دیتا۔ آخر کارجس روز مریضہ کے ڈسچارج کا حکم ملا، دونوں باپ بیٹے دل تھام کے بیٹھ گئے۔
ہسپتال کا ایک ملازم مریضہ کے بیڈ کے پاس آیا اور اس کے شوہر کو بل تھما دیا۔ شوہر کی ایسی حالت تھی کہ وہ بِل کو دیکھنے سے گھبرا رہا تھا، اس لیے بنا پڑھے جلدی سے اپنے بیٹے کو بل پکڑا دیا۔ بیٹے نے جب بل کا معائنہ کیا تو وہاں پر صرف دو لاکھ روپے واجب الادا تھے۔ اس نے بِل کو الٹا پلٹا اور بار بار اس کو پڑھا کہ کہیں کوئی غلطی تو نہیں ہوئی ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی کلرک کی غلطی کی وجہ سے اس کی ماں کا ڈسچارج سستے میں ہو جائے اور پھر کلرک کو وہ سارا روپیہ اپنی جیب سے بھرنا پڑے۔ وہ حیراں بھی تھا اور پریشاں بھی۔ اس لیے ریسپشن پر جاکر معلوم کیا کہ کیا بات ہے؟ وہ ریسپشن کلرک سے مخاطب ہوا، ‘’میڈم، عجیب بات ہے، پوری بِل ایک ساتھ کیوں نہیں دی جا رہی ہے؟ ہمیں مریضہ کو آج ہی گھر لے جانا ہے، اب ہمارے پاس وقت نہیں ہے، شام کی فلائٹ سے ٹکٹیں بُک ہیں۔’‘
ریسپشن کلرک کو تعجب ہوا کہ عام طور پر لوگ کہتے ہیں کہ بل بہت زیادہ ہے، ہم نے فلاں چیزیں استعمال نہیں کیں یا پھر فلاں چیزیں ہسپتال کو لوٹا دیں مگر یہ پہلا صارف ہے جو کہہ رہا ہے کہ بل کم کیوں ہے؟ وہ مخمصے میں پڑ گئی اورسامنے کھڑے آدمی کو مشورہ دیا کہ اندر دفتر میں جا کر منیجر سے رجوع کر لے کیونکہ انھیں ان باتوں کا سارا علم رہتا ہے۔ مریضہ کا بیٹا جلدی سے دفتر کے اندر چلا گیا اور منیجر سے جا ملا، وہاں اس نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ منیجر نے اس کا استقبال ہلکی سی مسکراہٹ سے کیا۔ پھر مریضہ کی پوری فائل الماری سے نکالی اور اس کے سامنے رکھ دی۔ فائل میں سارے کاغذات موجود تھے اور سب سے اوپر ڈاکٹر کا تین لاکھ کا بِل نتھی کر کے رکھا ہوا تھا۔ اس بل پر ڈاکٹر نے اپنے ہاتھ سے مندرجہ ذیل عبارت رقم کی تھی۔
‘’ہسپتال اور ادویات کا جو بھی خرچہ ہو، وہ مریضہ سے وصول کر لیا جائے۔ جہاں تک ڈاکٹر کی فیس کی رقم کا تعلق ہے وہ پینتیس سال پہلے ایک دودھ کے گلاس کی شکل میں وصول ہو چکی ہے۔ میں رحمتی کی صحتیابی کی دعا کرتا ہوں۔ ڈاکٹر اقبال ریشی‘‘
رحمتی کا بیٹا سجاد ہکا بکا رہ گیا۔ وہ دم بخود منیجر اور بل کو دیکھتا رہا۔ اس کو اس صبح کا منظر یاد آیا جب وہ ایک چھوٹے سے لڑکے کو سکوٹر پر جی پی او تک چھوڑ آیا تھا۔
پھر دل نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کرنا تو فرض بنتا ہے، اس لیے منیجر سے پوچھ بیٹھا۔ ‘’ڈاکٹر صاحب کہاں ملیں گے؟‘‘
منیجر صاحب نے لاتعلقی سے جواب دیا۔ ’’ڈاکٹر صاحب کچھ گھنٹے پہلے کسی ضروری کام سے امریکہ روانہ ہو چکے ہیں۔’‘
مصنف:دیپک بدکی