کہانی کی کہانی:’’یہ ایک کالونی کی کہانی ہے جس میں دفتر کے بابو آباد تھے۔ انھیں پوری طرح سے امیر تو نہیں کہا جا سکتا تھا مگر ظاہری طور پر وہ بہت خوشحال اور متمول ہی دکھتے تھے۔ امیروں ہی جیسے ان کے شوق تھے۔ اسی کالونی میں ایک شخص ہفتے میں ایک بار بچوں کے لیے ٹافی بیچنے آیا کرتا تھا۔ اس کا نام بامبے والا تھا۔ ایک روز کالونی کی دو لڑکیاں اپنی سنگیت ٹیچر کے ساتھ بھاگ گئیں۔ لوگ غصے سے بھرے بیٹھے تھے کہ ا ن کے سامنے بامبے والا آ نکلا اور پھر۔۔۔‘‘
یہ علاقہ سرکاری فائلوں میں تو محض ’’گورنمنٹ کوارٹرز، سی/۳۵۵‘‘ کہلاتا تھا مگر یہاں کے ساکنوں نےبڑی جدوجہد کے بعد ایک ضمنی نام بھی سرکار سے منظور کرالیا تھااور وہ تھا ’’گلستاں کالونی۔‘‘ یہ لوگ خود تو اپنےخطوں کی پیشانی پر خوش خطی سے ’’گلستاں کالونی‘‘ لکھتے ہی تھے۔ رشتہ داروں اور دوستوں کو تاکید تھی کہ وہ بھی خط لکھتے یہی پتہ تحریر کریں۔ پھر بھی کبھی کبھی کوئی تانگہ والا شرارت یا انجان پن سے اس علاقے کو ’’بابو کالونی‘‘ کے نام سے پکار کر بیٹھتا تو اس کی جہالت پر یہ لوگ جھنجھلا کر ہی رہ جاتے۔
’’گلستاں کالونی‘‘ میں صرف ان ہی سرکاری ملازموں کو کوارٹر دیے جاتےتھے جن کی تنخواہ ڈھائی سو سے ساڑھے چار سو تک ہوتی۔ اس گریڈ میں عموماً دفتروں کے سپرنٹنڈنٹ، اسسٹنٹ انچارج، اکاؤنٹنٹ، آڈیٹر، سینیر اسٹینو گرافر، اوور سیئر اور اسی قبیل کے دوسرے ملازمین آتے تھے۔ تھےتو یہ بھی کلرک ہی مگر ذرا نفیس قسم کے جیسےکلرکی کو دو آتشہ یا سہ آتشہ کردیا گیا ہو۔ ان کی حالت عام کلرکوں سے کہیں بہتر تھی اور وہ اپنی نسبتاً آسودہ حالی اور اپنے منصب کے باعث اپنے ہم چشموں میں خاصی عزت اور وقعت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔
اس علاقے کا نقشہ کچھ اس قسم کا تھا کہ کوئی نصف میل کے پھیلاؤ میں چار پانچ سڑکیں تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر شرقاً غرباً ایک دوسرے کے متوازی چلتی تھیں۔ اور چار پانچ سڑکیں تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر شمالاً جنوباً چل کر انہیں کاٹتی تھیں۔ سب کوارٹر یک منزلہ اور ایک ہی وضع کے تھے۔ نہ چھوٹے نہ بڑے۔ آگے ننھا سا باغیچہ۔ اس کے بعد دو تین سیڑھیاں، پھر برآمدہ، برآمدے کے ساتھ ملے ہوئے دو کمرے، پیچھے آنگن، باورچی خانہ، توشہ خانہ وغیرہ۔ یہ کوارٹر ایک دوسرے کے عین سامنے تھے۔ بیچ میں صرف بیس فٹ کی سڑک تھی۔ چنانچہ اگر گھر کی مالکہ اپنی آزاد خیالی کی وجہ سے حجاب کی زیادہ قائل نہ ہوتی یا اپنے پھوہڑ پن کی وجہ سے ذرا بھی غفلت برتتی تو اس کے سامنے والی بی ہمسائی بڑے مزے سے اس کے ہر قسم کے اعمال و افعال کا مشاہدہ کر سکتی تھی۔
گلستاں کالونی کسی ایک فرقے کے لیے مخصوص نہ تھی بلکہ اس میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب ہی رہتے تھے۔ پھر زبانیں بھی یہاں بھانت بھانت کی بولی جاتی تھیں۔ جن میں اردو، انگریزی، بنگالی، مدراسی اور پنجابی کو زیادہ دخل تھا۔ البتہ ایک بات اس کالونی کے سب رہنے والوں میں مشترک تھی اور وہ تھی آرٹ اور فنون لطیفہ کی سرپرستی۔ ریڈیو سے تو کوئی گھر خالی ہی نہ تھا۔ چنانچہ دن کو بارہ بجے جب فرمائشی پروگرام چل رہا ہوتا۔ ایسے میں اگر کوئی یہاں آتا تو وہ ایک پورا فلمی گانا بغیر تسلسل ٹوٹے گھوم پھر کر سن سکتا تھا۔ اس کالونی کے باشندے متمدن سمجھےجانےکے بہت متمنی تھے۔ تنگی ترشی میں گزرکرتے مگر ظاہری ٹھاٹھ میں فرق نہ آنے دیتے۔ ہر گھر میں صبح کو پابندی کے ساتھ ڈبل روٹی، مکھن اور اخبار آتا۔ اخبار کاصاحب خانہ بے چینی سے منتظر رہتا۔ جب باری باری اور سب لوگ دیکھ چکتے تو آخر میں گھر کے بڑے بوڑھے کوارٹر کے باہر کرسی یا مونڈھا ڈال بیٹھ جاتے اور اخبار کو عینک کے قریب لالاکر گھنٹوں اس کے مطالعے میں غرق رہتے۔
یوں تو اس کالونی میں مصوری اور بت تراشی کا بھی خاصا چرچا تھا مگر لوگ سب سے زیادہ گانے بجانے کے رسیا تھے۔ ریڈیو پر موسیقی کے پروگرام تو ذوق و شوق سے سنے ہی جاتے تھے۔ کبھی کبھی ان کوارٹروں میں میوزک پارٹیاں بھی منعقد ہوتیں جن میں شہر کے مشہور مشہور گانے والوں کو بلوایا جاتا۔ اس طرح ایک تو موسیقی کی سرپرستی ہوتی، دوسرے مقامی جوہر کو، ان کا کمال فن دیکھنے اور سیکھنے کا موقع ملتا۔ کئی گھروں میں لڑکیوں کی تعلیم کےلیے میوزک ماسٹر رکھے گئے تھے۔ صبح کو جیسے ہی مرد ناشتہ سےفارغ ہوکر دفتروں کی راہ لیتے، ان کے گھروں سے گھنگروؤں کی جھنک کے ساتھ ساتھ بوڑھے کتھک کی گمبھیر آواز ’’تا تھئی تھئی۔ تا تھئی تھئی‘‘ سنائی دینے لگتی۔
اس علاقے کی چہل پہل خاص طور پر شام کو دیکھنے کے قابل ہو جاتی جب مرد دفتروں سے آچکے ہوتے اور برآمدے میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینے یا کسی مہمان کی تواضع میں مصروف نظر آتے، جس کی پرانی، عموماً کالے رنگ کی، چھوٹی موٹر، گھر کے دروازے کے عین سامنے کھڑی ہوتی یا جب یہاں کی نوخیز لڑکیاں اور جوان عورتیں نئے نئے سنگار کیے نئی نئی تراش کے لباس پہنے اس نواح کی سڑکوں پر جھرمٹوں کی صورت مصروف خرام ہوتیں۔ ایسے میں اگر کوئی ناواقف آدمی ادھر آنکلتا تو وہ ان لڑکیوں کو تکتا کا تکتا ہی رہ جاتا۔
گلستاں کالونی کی ان سرگرمیوں کو عام طور پر استحسان کی نظروں سے دیکھا جاتا اور خود وہاں کے باشندے بھی اپنی روشن خیالی اور آزادہ روی پر مسرور معلوم ہوتے تھے۔ البتہ اس علاقے کا ایک طبقہ ایسا تھا جس کو کالونی والوں کی ان تمدنی ترقیوں سےکوئی دلچسپی نہ تھی۔ بلکہ وہ چپکے چپکے ان باتوں پر سخت تنقید کرتا تھا۔ یہ اس علاقے کے وہ بڑے بوڑھے جو نوکری اور ہر قسم کے کام کاج سے سبکدوش ہوکر اپنا آخری وقت اپنےبیٹوں کی کمائی کے سہارے گزار رہے تھے۔ گھر کے معاملات میں ان کا کوئی دخل نہیں رہا تھا۔ اگر وہ کوئی بات معاشرے کی اس نئی روش کی برائی میں کہتے تو گھر کے سب چھوٹے بڑے اسے دقیانوسی کہہ کر مذاق میں اڑادیتے اور ان کے لیے اس کے سوا چارہ نہ رہتا کہ جب تک گھر پر رہیں اپنی آنکھیں اور کان بند رکھیں اور کھانے پینے یا اخبار پڑھنے کےعلاوہ کسی کام سے سروکار نہ رکھیں۔
گھر پر تو ان بڈھوں کا بس نہ چلتا۔ البتہ ہر روز تیسرے پہر وہ کالونی کے ایک چوک میں بڑی شان سے اپنی منڈلی جمایا کرتے۔ گرمیوں میں اس جگہ چھڑکاو کرکے آٹھ دس مونڈھے بچھادئیے جاتے۔ جن پر یہ بڑے بوڑھے بیٹھ کر دوتین گھنٹے خوب خوب دل کی بھڑاس نکالتے۔ زمانے کی نئی روشنی کے خلاف، عورتوں کی بڑھتی ہوئی آزادی کے خلاف، اپنے بیٹوں کی بے راہ روی کے خلاف، بے پردگی کے خلاف، فنون لطیفہ کی آڑ میں جن بے حیائیوں کو روا رکھا جاتا ہے ان کے خلاف، زن و مرد کے بے محابا اختلاط کے خلاف، ناچ گانے اور خصوصاً فلمی گانوں کے خلاف۔ لطف یہ کہ جب اس طرح وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرکے گھر پہنچتے تو ان میں سے کسی کی پیاری پوتی، جس کی عمر سات سال ہوتی اپنے ماں باپ اور ان کے احباب کی پر شفقت اور پر تحسین نظروں کے سامنے کولہے مٹکا مٹکا کر گارہی ہوتی ’’ناچو ناچو پیارے من کےمور‘‘ اور یہ بڑے میاں چپکے سےاپنے کمرے میں جاکر اندر سے دروازہ بند کرلیتے۔
گلستاں کالونی کی چہل پہل میں اضافہ کرنے میں ایک اور ہستی کا بھی بڑا دخل تھا اور یہ تھا بامبے بالا۔ بامبے والا بیس بائیس برس کا ایک نوجوان تھا۔ گندمی رنگ۔ ناک نقشہ برا نہیں تھا۔ اسے دیکھ کر یہ بتانا مشکل تھا کہ وہ کس صوبے کا رہنے والا ہے۔ وہ خود کو بمبئی کا باشندہ بتلاتا تھا مگر اس کے شین قاف کی درستی کہے دیتی تھی کہ اس کا تعلق ملک کے جنوبی حصے سے نہیں، بلکہ شمالی حصے سے ہے۔ اپنی وضع قطع اور لباس سے وہ سرکس کے مسخروں سے ملتا جلتا تھا۔ کبھی سیاہ ٹیل کوٹ اور سیاہ ٹاپ ہیٹ۔ کبھی شب خوابی کا رنگ دار دھاریوں والا کرتہ پاجامہ اور سرپر تنکوں کی بنی ہوئی انگریزی ٹوپی۔ کبھی بنگالی فلم ایکٹروں کے تتبع میں کھدر کا لمبا کرتہ اور لہراتی ہوئی دھوتی۔ کبھی شکاریوں کی طرح بر جس ڈاٹے ہوئے۔ کبھی کبھی ٹاپ ہیٹ کی جگہ سرخ ترکی ٹوپی لے لیتی۔ چہرے پر ایکٹروں کی طرح گاڑھا گاڑھا میک اپ کیا ہوا۔ آنکھوں میں کاجل، ہونٹوں پر لپ اسٹک، اس کے ساتھ باریک باریک مونچھیں، وہ جو لباس بھی پہنتا ایسا بے ہنگم ہوتا کہ دیکھ کر بے اختیار ہنسی آجاتی۔
اس نےاپنی سائیکل کا حلیہ بھی بگاڑ رکھا تھا اور اس کے ہینڈل اور مڈگارڈوں پر رنگدار کاغذ کی بنی ہوئی بھنبھیریاں لگا رکھی تھیں جو ہوا سے آپ ہی آپ گھومتی رہتیں۔ گلے میں ایک چھوٹا سا بکس ڈال رکھا تھا جس میں طرح طرح کی ٹافیاں، چوسنے والی گولیاں، رنگترے کی پھانکیں اور میٹھی سونف کی پڑیاں ہوتیں۔ علاوہ ازیں وہ فلمی ایکٹروں کے فوٹو اور فلمی گانے کی کتابیں بھی بیچا کرتا تھا۔ ایک ہاتھ ہینڈل پر دوسرے ہاتھ میں ایک بڑا سا کالے رنگ کا بھونپو۔ اس کو منہ سے لگاکر جس وقت وہ ’’بامبے والا بامبے والا‘‘ کی آواز لگاتا، تو گھروں میں ہلچل سی مچ جاتی۔ بچے پیسوں کے لیے مچلنا شروع کردیتے اور وہ تیر کی طرح بامبے والا کے پاس پہنچ جاتے۔
’’بامبے والا‘‘ کے الفاظ وہ اس طرح لہک لہک کر ادا کرتا کہ وہ ایک نغمے کی طرح معلوم ہوتے جس میں کئی اترے چڑھے سرلگتے۔ اس کا یہ گانا اس کی آمد کااعلان ہوتا۔ دل کانیک تھا۔ بچوں کو ان کے دام سے کچھ زیادہ ہی مٹھائیاں دے دیا کرتا۔ کبھی کسی بچے کے پاس پیسہ نہ ہوتا تو مفت ہی ایک آدھ چوسنے والی گولی دے دیتا۔ وہ ’’بامبے والا‘‘ کی الاپ کے علاوہ اور بھی بہت سے گانے گایا کرتا۔ یہ فلموں کے چلنتر گانے ہوتے، جن میں پریم اور پریمی، بھونرے اور پپیہے کا ذکر ایسے پرسوز طریقے پر ہوتا کہ انہیں سن کر بلوغت کو پہنچنے والی لڑکیوں کے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی۔ اور وہ اپنے چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کو آنہ یا ٹکادے کر میٹھی سونف منگوایا کرتیں۔
اس کی آواز ایسی مدھر تھی کہ جب وہ کوئی فلمی گانا گاتا تو لوگ اس کے مسخرے پن کو بھول کر گانےپرجھوم سے اٹھتے۔ اس کی یہ آواز اس کے کاروبار کی کامیابی کا سب سے بڑا ذریعہ تھی۔ عورتوں کو گھورنا یا ان پر آوازے کسنا اس کی عادت نہ تھی۔ یہ اور بات ہے کہ آواز گانے کے پردے میں بہت کچھ کہہ جاتی۔
وہ اس کالونی میں ہفتے میں ایک آدھ بار ہی آیا کرتا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے آتے ہی بچے بڑے جوش و خروش سے اس کے خیرمقدم کے لیے دوڑتے۔ بچے جس قدر اس سےخوش تھے، ان کے ماں باپ اتنا ہی اس سے بیزار۔ کیونکہ اس کے آنے پر انہیں بچوں کی ضد پوری کرنی پڑتی تھی۔ خواہ جیب میں پیسہ ہو یا نہ ہو، اور ان بڑے بوڑھوں کی ناراضگی کا تو پوچھنا ہی کیا۔ انہیں اس کے مسخروں کے سے لباس اور عاشقانہ گیتوں سے سخت چڑتھی۔ کیونکہ ان کے خیال کے مطابق ان گانوں سے شرفا کی بہو بیٹیوں کا اخلاق بگڑتا تھا۔ اگر ان بڈھوں کا بس چلتا تو وہ اسے پولیس کے حوالے کرکے حوالات میں بند کرا دیتے مگر جب تک اس سے کوئی مجرمانہ حرکت سرزد نہ ہو ایسا ممکن نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان بڑے بوڑھوں کو گھر کی طرح اس معاملے میں بھی صبر ہی سے کام لینا پڑتا تھا۔
آخر ایک دن ایسا آیا جب ان کے صبر کا پیمانہ سچ مچ لبریز ہوگیا۔ اور ادھر وہ لوگ بھی جو عورتوں کی آزادی کے بڑے حامی تھے، سوچ میں پڑگئے کہ کہیں ہمیں تو غلطی پر نہیں ہیں۔
ہوا کہ یہ اس کالونی میں ایک بنگالی بابو رہتا تھا۔ بڑا خوش خلق اور شریف طبع۔ کالونی میں اس کا بڑا مان تھا۔ وہ کسی دفتر میں سپرنٹنڈنٹ تھا۔ اس کی دو بیٹیاں تھیں۔ میرا او رسبیتا۔ میرا کی عمر تیس برس اور سبیتا کی چودہ برس۔ وہ کاٹھیاواڑ کے ایک کتھک سے سے ناچ سیکھا کرتی تھیں۔ اس کتھک کی عمر کوئی تیس بتیس سال کی تھی۔ حد درجہ کا چرب زبان، اس جواں عمری ہی میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکا تھا۔ ایک دن دوپہر کو وہ کسی تماشے کے پاس لے کر آیا اور ان لڑکیوں کو تماشہ دیکھنے پر اکسایا۔ بنگالی بابو دفتر میں تھا۔ لڑکیوں نے ماں سے اصرار کرکے اجازت لے لی۔ اس کے بعد وہ دونوں لڑکیاں اور کاٹھیا واری کتھک ایسے غائب ہوئے کہ نہ جانے زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔
بعض لوگ کہتے کہ دونوں بہنیں ایکٹرس بننے کے شوق میں بمبئی بھاگ گئیں۔ بعض کہتے، نہیں اسی شہر کے ایک سیٹھ کے قبضے میں ہیں جس نے انہیں تالوں میں بند کر رکھا ہے۔ یہ کتھک بھی اسی سیٹھ کا سکھایا پڑھایا تھا۔ غرض جتنے منہ اتنی ہی باتیں۔ تھانے میں رپٹ لکھوادی گئی تھی۔ مگر ابھی تک کسی کا کھوج نہیں ملاتھا۔
جس دن یہ واقعہ پیش آیا، کالونی میں ایک تہلکہ سا مچ گیا۔ کالونی والوں کے چہرے اتر سے گئے جیسے کوئی موت واقع ہوگئی ہو، ریڈیو پر فلمی گانے سننے بند کردیے گئے۔ اور ایک سوگ کا سا سماں بندھ گیا۔ کالونی کے ایک کایستھ کی بیٹی ایک ستارئیے سے ستار سیکھاکرتی تھی۔ کایستھ نے اسی دن اسے برطرف کردیا۔ یہ واقعہ تھا تو بہت افسوس ناک مگر ان بڑے بوڑھوں کے حق میں تائید غیبی ثابت ہوا۔ کالونی میں یک لخت ان کا وقار بڑھ گیا۔ یہ بڈھے جو پہلے سر ڈالے سائے کی طرح چپکے سے گلی کوچوں سے گزر جاتے تھے، اب انہیں راستوں پر کھنکارتے، زور زور سے لاٹھی ٹیکتے، سر اٹھا اٹھاکر چلنے لگے۔ وہ اپنے بیٹوں کو کھری کھری سناتے اور اس نئی تہذیب کی خوب خوب دھجیاں اڑاتے۔ برسوں سے اس کے خلاف دلوں میں جو نفرت کاطوفان امنڈ رہاتھا وہ ایک دم پھوٹ پرا۔ اب ان کے خود سر بیٹوں کے لیے اس کے سوا چارہ نہ تا کہ خاموشی سے سنتے رہیں اور سرجھکالیں۔
جس دن یہ واقعہ پیش آیا تھا، اس دن سے بڈھوں کی اس منڈلی میں بڑا جوش وخروش نظر آنےلگا تھا، یہ لوگ بلند آواز سےاس پر حاشیہ آرائی کرتے اور جلے دل کے پھپھولے پھوڑتے۔ ان کے لیے یہ ماجرا روز کا ایک مستقل موضوع بن گیا تھا۔
’’ویدجی!‘‘ مونڈھے پر بیٹھے ہوئے ایک بڑے میاں نے اپنے ساتھ والے بڈھے سے خطاب کیا، ’’اگر ایسا ہی ایک واقعہ اور ہوجائے تو میں مسلمان لڑکیوں کی طرح اپنی پوتیوں کو برقع پہنانا شروع کردوں۔‘‘
اس پر منڈلی میں ایک فرمائشی قہقہہ پڑا۔
’’گپتاجی بھی کمال کرتے ہیں۔‘‘ ایک سفید ریش مقطع صورت بزرگ گویا ہوئے۔ ’’شرافت کوئی برقع ہی میں تھوڑی ہے۔ یہ تو دل میں ہونی چاہیے۔‘‘
’’سچ کہتے ہو خان صاحب۔‘‘ ایک اور پیر مرد نے تائید کی اور خان صاحب نےآنکھوں ہی آنکھوں میں ان بزرگ کا شکریہ ادا کیا۔ خان صاحب کی بہو پردہ نہیں کرتی تھی اور جوان بیٹیاں بھی بے نقاب ہی کالج جاتی تھیں۔ منڈلی میں یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ اچانک ’’بامبے والا‘‘ کی آواز سنائی دی۔ کالونی کی اس اداس اور سوگ بھری خاموشی میں یہ آواز ایسی معلوم ہوئی جیسے قبرستان میں کوئی بدمست شرابی آگھسے اور ہنکارنا شروع کردے۔ بڈھوں نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر بخشی جی، جو تھے تو ساٹھ کے پیٹے میں مگر جوانوں کا سادم خم رکھتے تھے، مونڈھے سے اٹھے اور بامبے والا کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔
’’کیا بیچتے ہو تم؟‘‘ بخشی جی نے غصہ بھری آواز میں پوچھا۔
بامبے والا متعجب سا ہوکر مسکرانے کی کوشش کرنے لگا۔
’’میں پوچھتا ہوں کیا بیچتے ہو تم؟‘‘ بخشی جی نے پہلے سے زیادہ غصے میں کہا۔
’’ٹافی۔ چوسنے والی گولیاں۔ میٹھی سونف۔‘‘ بامبے والا نے بدستور مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’لاؤ۔ دکھاؤ۔‘‘
اس نےبائیسکل کو اسٹینڈ پر کھڑا کردیا اور گلے میں پڑا ہوا بکس کھول کر سب چیزوں کاایک ایک نمونہ دکھانے لگا۔
’’بے ایمان کہیں کا۔‘‘ بخشی جی اچانک ہی برس پڑے، ’’یہ ٹافی تو گڑکی ہے۔ بچوں کو ٹھگنےکے لیے یہ چار سو بیس!‘‘
بامبے والا کچھ پریشان سانظر آیا۔ مسکراتے ہوئے ادب سے بولا، ’’حضور اول تو یہ درست نہیں کہ یہ ٹافی گڑکی ہے۔ دوسرے یہ چیزیں میں خود تھوڑا ہی بناتا ہوں۔ یہ تو کمپنی کا مال ہے۔ میں بنا بنایا مال لاتا ہوں۔‘‘
اس اثنا میں تین چار بوڑھے اور منڈلی سے اٹھ کر بامبے والا کے پاس پہنچ گئے اور اس کو گھیر کر کھڑے ہوگئے۔
’’کیا ٹر ٹر لگائی ہے۔‘‘ یہ کہتے ہی گپتا جی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، زور کا ایک چانٹا بامبے والے کے منہ پر جڑ دیا۔ ’’ایک تو چورا اوپر سے کمپنی کارعب جماتا ہے لے اور لے۔‘‘
گپتا جی پہل کرچکے تھے۔ پھر کیا تھا۔ چاروں طرف سے بامبے والا پر بے بھاؤ کی پڑنے لگیں۔ ادھر اس کا یہ حال کہ ہر تھپڑ یا چانٹے پر وہ پہلے سے زیادہ ہکابکا ہوکر اپنے مارنے والے کامنہ تکنےلگتا۔ اس کی ٹاپ ہیٹ اچھل کر زمین پر آرہی تھی۔ اس کے گالوں پر انگلیوں کے نشان پڑگئے تھے۔ گالوں اور ہونٹوں کی سرخی میں کاجل کی سیاہی مل گئی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹ گئے تھے۔ ایک بزرگ نے اس کے ٹیل کوٹ کی ٹیل نوچ ڈالی تھی، اس کا مٹھائیوں والا بکس کھل گیا تھا اور ٹافیاں، چاکیٹ، رنگترے کی پھانکیں، میٹھی سونف کی پڑیاں زمین پر آرہی تھیں۔ فلمی ایکٹروں کی تصویریں، گانوں کی کتابیں، فلمی پریوں کی داستانیں زمین پر بکھری پڑی تھیں۔
’’حرام زادہ۔ سور کابچہ بڑا ایکٹر بنا پھرتا ہے۔ بدمعاش۔۔۔ جااب تو چھوڑ دیا۔ پھر کبھی ادھر رخ نہ کیجیو۔‘‘ اور بڑے بوڑھوں نے خود ہی تھک کر اس کا پیچھا چھوڑ دیا۔ اور ہانپتے ہوئے آکر پھر اپنی منڈلی میں آبراجے۔
بامبے والا مظلومی کی تصویر بنا دیر تک زمین پر بیٹھا مٹھائیاں، تصویریں اور کتابیں اٹھاتا اور جھاڑ جھاڑ کر اپنےبکس میں رکھتا رہا۔ کبھی کبھی وہ ان بوڑھے بابوؤں پر بھی ایک نظر ڈال لیتا۔ آخر وہ زمین سے اٹھا۔ گلے میں مٹھائیوں کا بکس ڈالا، اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس طرف گیا جہاں سائیکل کھڑی تھی۔ پھر سائیکل پر بیٹھ خاموشی سے اس نواح سے رخصت ہوگیا۔ اس مارپیٹ سےاس کا جسم درد کرتا تھا۔ اسے بےعزتی کا بھی بہت غم تھا مگر اس کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی تھی کہ کس جرم کی پاداش میں یہ سزا دی گئی ہے۔
اس کے بعد گلستان کالونی میں بامبے والا کی آواز پھر کبھی نہ سنائی دی۔
مأخذ : کلیات غلام عباس
مصنف:غلام عباس