ایک مکالمہ

0
176
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

الف : گرمیوں کا مہینہ جارہا ہے۔ ہم ایک قدم اور قبر کی طرف بڑھا چکے ہیں۔ دوپہر کو بگولے اڑتے ہیں۔ غریبوں کے محلوں میں لوگ دھڑا دھڑ مر رہے ہیں۔

ب : سنا ہے بڑی سخت وبا پھیلی ہے۔

الف : ہاں۔ وبا پھیلی ہے اور لوگ مرتے ہیں۔ اگر نہ مریں تو دنیا کی آبادی اور بڑھ جائے اور مزید گڑ بڑپھیلے۔

ب : پہلے ہی کیا کم گڑ بڑ ہے؟

الف : خدا سے امید ہے پچاس لاکھ تومر ہی جائیں گے۔

- Advertisement -

ب : اتنے بہت سے؟

الف : تب بھی کمی نہیں آئے گی، دنیا بھری پڑی ہے۔

ب : خصوصاً ایشیا۔

الف : زیادہ تر ان لوگوں کو مرنا چاہئے جو بالکل بے کار ہیں۔ تم نے ان کے مکان دیکھے ہیں؟

ب : نہیں۔

الف : نا قابل یقین۔ یہ لوگ گندگی میں زندہ رہتے ہیں۔ مکھّیوں اور بھنگوں کی طرح،اور مکھّیوں کی طرح مرتے ہیں۔ ان کو شرم بالکل نہیں ۔

ب : انہوں نے خدا کی حسین دنیا کو تباہ کردیا۔۔۔ اس قدر غلاظت!

الف : ہاں۔ میں نے ایک روز ان کے لیڈر سے کہا کہ شفق کی سرخی اور پھولوں کے حسن کو دیکھ کر ایمان تازہ کرے مگر وہ اسی طرح ٹرّاتا رہا۔

ب : کوئی اچھی خبر سناؤ۔

الف : اچھی خبریں بہت کم ہیں۔ تم کل کہتے تھے زلزلہ آنے والا ہے۔

ب : جو بات کی۔ منحوس ۔۔۔میں نے استعارہ استعمال کیا تھا۔

الف : ’’اولڈ آرڈر۔۔۔‘‘ابھی سالم اور محفوظ ہے؟

ب : جب تک عبدل موجود ہے اولڈ آرڈرمحفوظ رہے گا۔

الف : عبدل کا تمہیں ممنون ہونا چاہیے۔ میں اسے دیکھتا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔

ب : تم آج کل گرمیاں کہاں گزارتے ہو؟

الف : بڑا پرابلم ہے۔ پچھلے سال ویزا لے کر مسوری گیا تھا مگر وہاں جاکر اور بور ہوا۔ دنیا بدل چکی ہے۔

ب : ٹھیک کہتے ہو۔

الف : دنیا بدل گئی ہے اور ہم بھی۔ مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ دنیا کس طرح بدلی؟ کیا ہم اس کی کایا پلٹ کو نہیں روک سکتے۔۔۔؟ تم میرا مطلب سمجھتے ہو۔۔۔؟

ب : ہاں! مگر تم بہت خوف زدہ ہو۔ اتنا گھبرانے کی بات نہیں۔ اب بھی کچھ نہیں کھویا بلکہ کچھ بھی نہیں کھویا۔

الف : لڑکیاں تک بدل گئی ہیں۔ میرا مطلب سمجھتے ہو ؟

ب : ہاں! لیکن ہمیں ان کا ممنو ن ہونا چاہئے ۔

الف : میں بیگمات کا ممنون ہوں۔

ب : آہ بیگمات۔۔۔! بڑی دلآویز ہستیاں ہیں۔

الف : ان کے دم قدم سے یہ آرڈر قائم ہے۔ عبدل اور بیگمات اور ۔۔۔

ب : اورینگ جمیؔ۔۔۔

الف : اورینگ جمی۔۔۔ (رک کر) وہ کون ہے؟

ب : ینگ جمی میرا چھوٹا بھائی ہے۔ تم کو اس سے ضرورملنا چاہئے۔ اولڈ آرڈر کا نیا ورژن اس کے دم قدم سے قائم ہے۔

الف : ینگ جمی کیا کرتا ہے؟

ب : سول سروس۔ اوکسفرڈ (انڈر کولمبو پلان) ایک سال امریکہ (فل برائٹ) اسپورٹس ۔۔۔ ٹینس۔۔۔ مشغلے۔۔۔ سمفنی کے ایل۔ پی ریکارڈ جمع کرنا۔ سابق سندھ کا بڑا ہوشیار سویلین سمجھا جاتا ہے۔

الف : آہ۔۔۔ میرے مرحوم چچا بھی بالکل ایسے ہی تھے۔ اوکسفرڈ۔ اسپورٹس میں ہاکی اور ٹینس۔ سمفنی کے ایل ۔ پی ریکارڈوں کے بجائے ان کو چیتے کے شکار کا شوق تھا۔ سی پی کے بڑے ذہین سویلین سمجھے جاتے تھے۔

ب : ینگ جمی نے ان کا تذکرہ اکثر اپنے سینئر افسروں سے سنا ہے۔ ان کو وہ اپنا آئیڈیل سمجھتا ہے۔ خصوصاً وہ واقعہ جب انہوں نے۔۔۔

الف : جب انہوں نے بارہ سنگھا پور میں کانگریسیوں کے جنگلی ہجوم پر گولیاں چلوائی تھیں۔۔۔

ب : ہاں اور وہ واقعہ بھی جب انہوں نے سن بیالیس میں آدھے ضلع کو جیل بھیج دیا تھا۔

الف : آہ ! وہ زمانے خواب و خیال ہوگیے جب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ شیردل ہوتے تھے۔

ب : اب بھی وہ زمانے موجود ہیں۔ ہجوم کی ذہنیت کہاں بدلی۔ ہجوم ابدی ہے۔

الف : ہاں ! ہجوم ابدی ہے۔

ب : جس طرح جنگل اور شیر،چیتے اور شکاری ابدی ہیں۔

الف : میں ینگ جمی سے ضرور ملوں گا۔

ب : اور کوئی گپ شپ؟

الف : کیا سناؤں، سارے موضوع ختم ہوگیے۔ میرا دل اچاٹ ہوچکا ہے۔

ب : کیا تمہارے لا شعور میں کوئی پیچیدگی ہے۔۔۔؟ کیا تم کو اندھیرے اور گہرائی اور وسعت، اور سناٹے سے ڈر لگتا ہے یا مجمع اور تنگ جگہوں اور نیچی چھتوں اور اجنبیوں اور عورتوں اور بچّوں سے تمہارا دم گھبراتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو۔۔۔

الف : مجھے ہجوم سے نفرت ہے۔۔۔ باہر دیکھو ،وقت کھسکتا جارہاہے۔ وقت کے لیے ساری تشبیہیں بے کار ہیں۔ وہ لنگڑا، یا اندھا، یا بے حس نہیں۔ وہ بہت مکّار اور دغا باز اور چار سو بیس ہے۔ میں بوڑھا ہوتا جارہا ہوں۔ دیکھو ایک سال اور گزر گیا۔ یہ جون کا مہینہ ہے۔

ب : یہ جون کا مہینہ ہے۔ یہ گیت کا موضوع ہوسکتا ہے۔ تم اس کا مرثیہ بناتے ہو۔ تمہاری پریشانی کی کوئی ایک وجہ ہے۔۔۔؟

الف : مجھے لوگ ’’ ٹائپ ‘‘ سمجھتے ہیں۔ اخبار والے، مصنّف اور ڈرامانگار اور واعظ اور نقّاد۔۔۔ تم سمجھتے ہو،میں ٹائپ ہوں؟ کمزور، بزدل، ڈرپوک، ہوشیار، چالاک، سمجھ دار، کامیاب انسان۔ جس نے نوجوانی میں خواب دیکھے اور دھکے کھانے کے بعد صراط مستقیم پکڑی اور جسے اب بھی چین نہیں۔ کیونکہ اب اس کا ہاضمہ خراب ہے اور مستقل اکتاتا ہے اور عمر نکلتی جارہی ہے۔ میں کیسا واہیات ’ٹائپ‘ ہوں۔

ب : تمہارے بغیر دنیا کی گزر نہیں۔ تم دنیا کی مشین کو چلاتے ہو۔

الف : میں۔۔۔؟ میں۔۔۔؟

ب : ہاں۔۔۔!

الف : لوگ جنہوں نے مجھے ٹائپ بنایا ہے کہتے ہیں کہ میں بے حس ہوں اور انسانیت کا مذاق اڑاتا ہوں۔ اور جنگ میں میرا فائدہ ہے اور۔۔۔

ب : لوگ ٹھیک کہتے ہیں۔

الف : کارخانوں سے لوگ خالی ناشتے دانوں کی میلی پوٹلیاں باندھے چیونٹوں کی طرح لوٹ رہے ہیں۔ کلرکوں کی قطاریں سر جھکائے پیلی بار کول کے سامنے بسوں کے انتظار میں کھڑی ہیں۔ دو گھنٹے سے یہ سب اسی طرح کھڑے ہیں یہ گھر کیوں نہیں جاتے۔۔۔؟ چائے خانوں میں دھواں بھرا ہے۔ فٹ پاتھ پر سونے والے جمع ہورہے ہیں،شام ہوگئی۔

ب : اس وقت بھی لوگ مر رہے ہوں گے۔

الف : یقینا ۔ ہر لحظہ،ہر سیکنڈ لوگ مرتے ہیں۔

ب : اور خود سے نہیں۔

الف : مولانا عبد المتین ندوی نے کہا ہے کہ سب مشیت ایزدی ہے۔

ب : کہ چند انسان دوسرے انسانوں کو ماریں یا ان کی موت کا حیلہ بنیں؟

الف : سب اس نیلی چھتری والے کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس کے حکم بنا پتا نہیں ہل سکتا۔

ب : اور سناؤ ۔ کیا حال چال ہیں؟

الف : مجھے کچھ شکوک نے گھیرا ہے۔

ب : مکڑی بیٹھی جالا بن رہی ہے۔ مکڑی بیٹھی جالا بُن رہی ہے۔

الف : اس مکڑی سے بچو؟

ب : ہاں۔ حالات اتنے خراب نہیں۔ ابھی تمہارے لیے بہت کچھ باقی ہے۔

الف : شاید۔ مگر میں بہت ناخوش ہوں۔ میرے آغاز میں میرا انجام ہے وغیرہ۔۔۔

ب : بکو مت۔

الف : باغ میں دوسری آوازیں گونج رہی ہیں۔ کیا ہم ان کا تعاقب کریں؟ جلدی کرو۔۔۔ جلدی۔۔۔ چڑیا نے کہا۔

ب : بکواس مت کرو!

الف : آگے بڑھومسافرو۔ تم جو سوچتے ہو کہ سفر میں ہو۔ تم وہ نہیں جس نے بندرگاہ کو نظروں سے اوجھل ہوتے دیکھا۔ نہ تم وہ ہو جو دوسرے کنارے پر اترو گے۔ یہاں اور دوسرے کنارے کے درمیان وقت معطل ہوچکا ہے!

ب : چپ رہو، اور باہر دیکھو۔ رات ہورہی ہے۔

الف : لوگ گھروں کو جارہے ہیں۔ سر جھکائے حسب معمول، یہ سر اٹھا کر کیوں نہیں چلتے؟ تمہارا مطلب ہے ان کی قسمت میں کوئی خوشی نہیں؟ یہ یوں ہی جیے جائیں گے؟

ب : اور مرے جائیں گے۔

الف : تم نے پھر موت کا خیال دلا دیا۔ میں خود ہر گھڑی موت کو یاد کرتا ہوں، میرا دماغ چکراتا ہے۔ میں اپنی رسی کے آخری سرے پر ہوں۔ میرے آغاز میں۔۔۔

ب : مجھے تمہاری طرف سے فکر ہے۔

الف : مجھے ذرا ذرا سی بات پر غصہ آتاہے اورغصے کے لیے کیا کم باتیں ہیں۔ میرا خون کھولتا رہتا ہے۔ میں مجموعی طور پر زندگی سے بے زار ہوں!

ب: تم کیوں نہیں مانتے کہ جو ہونا ہے وہی ہوگا۔

الف : یہ بے وقوفی کی بات ہے۔ جو ہونا ہے ظاہر ہے وہی ہوگا، اور کوئی بات ہونے والی ہوگی تو ظاہر ہے وہ کوئی اور بات ہوگی۔ وہ نہ ہوگی جو ہونی ہے۔۔۔!

ب : بے کار میں میٹافزیکل نہ بنو!

الف : تم سمجھتے ہو، دنیا کے مسائل اور پریشانی کی بنیادی وجہ نفسیاتی نہیں اقتصادی ہے؟

ب : پریس کی مشینیں گھڑ گھڑ چل رہی ہیں۔ خبریں بھیانک ہیں، اس لنگڑے اخبار فروش کو دیکھو جو دیوانوں کی طرح چلّا رہا ہے۔

الف : یہ سمبلز کی دنیا ہے۔ مجھے ہر شے میں کوئی نہ کوئی سمبل نظر آتاہے۔ میں ہمہ وقت سطروں کے درمیان پڑھتا ہوں۔

ب : تم نے جو کچھ پڑھا ہے بھول جاؤ ۔ ہمارے ماہرین تعلیم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تعلیم بے کار ہے۔

الف : وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ ہمیں کتابوں کے بجائے بندوقوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ قوم کے نونہالوں کو کتابوں کی جگہ بندوقیں دو۔۔۔ تاکہ وہ مجاہد بنیں۔۔۔ مردِ مومن، شاہین۔

ب : تعلیم۔۔۔ یہ سب غریبوں کی افیم ہے۔ غریبوں کو افیم مت دو ! اسے کھا کر ان کا دماغ چکڑا جاتا ہے! ان کی عقل چرخ ہوجاتی ہے !!

الف : مگر یہ اتنا چلّاتے ہیں۔

ب : چلّانے دو۔ تم نے ان کتوں کو دیکھا ہے جو سرد راتوں میں چاند کے نیچے بیٹھ کر آسمان کی سمت منہ اٹھائے اٹھائے روتے ہیں؟

الف : چاند کی تمنا میں؟

ب : نہیں۔ ان کو محض سردی لگتی ہے!

الف : میرے دادا نواب بہادر جھپسٹ گڑھ کے پاس درجنوں ایک سے ایک اعلی شکاری کتے تھے۔ آہ جب مجھے اپنے محل کا خیال آتا ہے جو میں وہاں چھوڑ آیا۔

ب : بکو مت۔ اس من گھڑت محل سے چوگنے بڑے محلات تم یہاں بنوا چکے ہو۔ مگرمچھ کے آنسو مت بہاؤ۔۔۔!

الف : کیا تم مجھے تھوڑی سی جذباتی عیاشی نہ کرنے دو گے؟

ب : تم کو کسی بات کا غم نہ ہونا چاہیے۔ تم نے ایک ایسی دنیا بنائی ہے جس میں بچّے بھیک مانگتے ہیں اور نوجوان عورتوں کی عزت محفوظ نہیں، اور نوجوان لڑکے ٹی بی میں مبتلا ہیں۔۔۔ اور۔۔۔

الف : یہ دنیا ہمیشہ سے تھی۔ میں نے اس میں محض چند کلی پھندنے لگا دیے ہیں، ایسی الٹرا ماڈرن طرز تعمیر کی کوٹھیاں، ایسے کلب،ایسے جشن پہلے تم نے کبھی خواب میں بھی دیکھے تھے۔۔۔؟ اور طویل موٹروں کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر۔۔۔!

ب : بیس سال پہلے ایک اسپین تھا۔ آج چاروں طرف اسپین ہیں۔

الف : میرا ایک عزیز دوست بھی اس زمانے میں کیمبرج میں پڑھتا تھا۔ لڑنے گیا تھا۔ لیکن اب تو اسے غائب ہوئے بھی زمانہ گزر گیا۔

ب : اب ہنسی اور آنسو دونوں بے کار ہیں۔ ہر چیز کا سمے بیت چکا ہے۔

الف : سنا ہے کلچر میں بڑی طاقت ہے۔ وہ ہمیں بچا لے گی۔ آج کل اس کا بڑا چرچا ہے۔ اس میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔

ب : یورپ میں گوتھک اور بروک کیتھڈول بمباری کا نشانہ بن گیے۔

الف : اصول کیا شے ہے۔ اصول کون طے کرے گا؟

ب : یہ سوال کسی وید انیتسٹ سے کرو کہ کون کس کا فیصلہ کرے گا۔ مگر الفاظ کا ذخیرہ ختم ہوچلا ہے!

الف : میں فیصلوں سے ڈرتا ہوں۔

ب : تم اپنے سے کمزوروں کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہو۔

الف : اورمجھ سے زیادہ طاقت ور میری قسمت کا فیصلے کرتے ہیں۔

ب : ایک وقت تھا کہ زندگی آسان تھی۔ گو ایک حد تک پراونشل تھی۔

الف : ہاں، زندگی میں الجھنیں نہ تھیں اور سیاسی حد بندیاں، مجھے وہ زمانہ یاد ہے، جب ۲ ستمبر ۱۹۳۹ء تک۔۔۔ ہانگ کانگ سے ٹرین میں بیٹھو تو وہی ٹرین سیدھی لندن پہنچا دیتی تھی۔ زندگی آسان تھی۔

ب : ہاں! تب ہر شے اپنی اصلیت سے سوگنا بڑھی نہ ہوئی تھی۔۔۔ لوگ جن کا ذہن سیکڑوں سے آگے نہ پہنچ سکتا تھا، اب لاکھوں اور کروڑوں کے وارے نیارے کرتے ہیں۔ اب ہر شے انلارجڈ ہے اور آؤٹ آف فوکس، شہر جل رہے ہیں۔ کھیتوں میں آگ لگی ہے۔ مگر کسی کو نہ شعلے نظر آتے ہیں، نہ دھواں۔

الف :اب کیا ہوگا؟

ب : پانسے تیار ہیں اور پھینکے جانے والے ہیں۔

الف : بارود کے دھویں سے میرا دم گھٹا جارہا ہے۔ مجھے ہر شے میں بارودکی مہک آرہی ہے!

ب : ہیومینسٹ ، کویکر، ویداینتسٹ، تھیوسوفسٹ، برطانوی لبرل، لفٹ ونگ انٹلکچوئیل، امن پرست، روشن خیال مولانا جو روس میں اسلام پر مضمون لکھتے ہیں،اسکول ٹیچر، نفسیات کے ڈاکٹر ، یونی ورسٹی کے پروفیسر جو کم تنخواہیں لے کر علم اوڑھتے بچھاتے اسی طمانیت میں زندگیاں ختم کردیتے ہیں کہ وہ غالباً نوبل پروفیشن میں تھے، اور وہ جن کو (چونکہ انہوں نے ہائیڈروجن بم کے خلاف احتجاج کیا) سنکی اور ہم سفر اور دشمن کے ایجنٹ اور مفسد سمجھا گیا اور بوڑھے یہودی سائنس دان، اور بوڑھا مسلمان عالم جو قوم پرست ہے اور اعظم گڑھ میں، یا بہرائچ میں ، یا گورکھ پور میں چپ چاپ بیٹھا ہے، اور عورتیں جن کے لڑکے۔۔۔

کوریا میں، ڈین بین پھو میں، کینیا میں، ملایا میں، انڈونیشیا میں، اسرائیل اور اردن اور لبنان اور شام اور مصر اور ہندستان اور پاکستان کی سرحدوں پر، الجزائر میں، مراقش میں، سرماندی کے کنارے مارے گیے اور مارے جارہے ہیں۔ ہر لحظہ، ہر منٹ، صبح، شام اور ان سب نے نعرے لگائے تھے کہ انہیں امن چاہیے۔ کیوں کہ جب یورپ کی جنگ ختم ہوئی، جس میں آج مرنے والے لڑکوں کے باپ موت کے گھاٹ اترے تھے، اس وقت ان کی ماؤں سے کہا گیا تھا کہ تم نے دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے یہ قربانی دی ہے۔ تاکہ تمہارے بچّے امن کی دنیا میں زندہ سلامت رہیں۔

الف : تم مجھ کو یہ سب کیوں سنا رہے ہو؟

ب : اور یہ بچے بڑے نہ ہونے پائے تھے کہ کٹ بیگ کاندھوں پر لاد، مارچ کرتے نئی خندقوں کی طرف چل پڑے اور گو اس وقت آفیشیل طور پر دنیا میں کوئی جنگ جاری نہیں ہے اور خوب صورت تھائی، اور جاپانی اور فرنچ اور پاکستانی اور ہندستانی گائڈ لڑکیاں نیو یارک میں یواین کی عمارت کی سیاحوں کو سیر کرا رہی ہیں۔

الف : سڑکیں جگمگا اٹھیں۔ کاریں بد وضع ،ہیبت ناک بسیں، موٹر رکشائیں، گرمی، حبس،نئے دولت مندوں کی طمانیت، فیشن ایبل شاپنگ سنٹر کے سیکنڈ ریٹ ماحول میں دم گھٹا جارہا ہے۔ سنیماؤں پر میری لین مزوؔ کے قد آدم مجسمے سب سے بلند ترہیں۔ سیاہ فام مکرانی اور گوانی لڑکے جنیز پہنے روک اینڈ رول کی دھنیں گنگنا رہے ہیں۔ بیگمات نے خوب صورت سوتی ساڑیاں پہننا شروع کردی ہیں جو وہ ’’ انڈیا‘‘سے خرید کر لاتی ہیں۔ بالوں کے پونی ٹیل، بنائے شلواروں پر نیچی نیچی قمیصیں پہنے لڑکیاں سبزے پر بیٹھی کیا سوچتی ہیں ( اگر وہ کچھ سوچتی ہیں) میں ان کے خیالات کے لیے ایک پینی دوں گا۔۔۔!

ب : لا تعلق رہو۔ تجرید اصل شے ہے۔ تمہیں بیان میں جذباتی نہ ہونا چاہیے۔

الف : دنیا کی گاڑی اب چلائی نہیں جاتی ہے۔ دنیا چاروں طرف سے ٹوٹ ٹوٹ کر میرے اِرد گرد گر رہی ہے۔

ب : ہر وہ چیز جسے ہم بچپن سے غلط سمجھتے آئے تھے، صحیح ثابت کردی گئی ہے صحیح غلط ہے اور غلط صحیح۔۔۔ جیوہتیا مہا پاپ نہیں ہے۔ اسی کے ذریعے ملکوں کے نقشے بدلے جاتے ہیں۔ سرحدوں کی لکیریں بہت اہم ہیں۔ آدمی کی ان لکیروں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں، اور مارو۔۔۔ مزید آدمیوں کو مارو۔۔۔ مارو۔۔۔ !

الف : کیا ہوا۔ کہیں بلوہ ہوگیا۔۔۔ غنڈہ گردی۔۔۔ پولس کو فون کرو۔۔۔ یا ممکن ہے ڈاکو گھس آئے ہوں۔ یہ شہر مشرق کا سب سے کرپٹ، دار السلطنت ہے۔ اسے مشرق کا شکا گو ہونے کا فخر حاصل ہونے والا ہے۔ غیر ملکی جرنلسٹوں کو بلاؤ، تاکہ میں ایک بیان دوں!

ب : جان جبرلڈ ایمبل اسٹین فرڈ کا کھلاڑی، فلاڈلفیا میں ایریا ٹریننگ لے کر پہنچا۔ اب اس کو سب معلوم تھا۔ افغانوں کے رسم و رواج، ریاست چترال کا بجٹ، چاٹگام کی ٹریڈ یونینوں کا احوال، سندھ کے ہاریوں کی کہانی اور پیلیس پالٹیکس کی ساری تفصیلات اسے از بر تھیں۔ بہ الفاظِ دیگر وہ بڑا جید قسم کا مڈل ایسٹ ایکسپرٹ تھا۔ اس نے میرا امتحان لینا چاہا۔ اس نے سوال کیا ۔۔۔ہنگری کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ الجزائر کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے۔۔۔؟ میں نے جواباً پوچھا۔

ڈاکٹر عقاب آفاقی آٹھویں صدی کی فقہ پر ریسرچ کر کے اوکسفرڈ سے لوٹا۔۔۔ تم تم کھوکھلے انسان ہو۔۔۔ تم سب جو اکٹھے ہو کر روتے ہو۔۔۔ کیا تم کو نہیں معلوم کہ اسلام میں سارے دکھوں کا علاج موجود ہے۔۔۔؟ لہٰذا میں نے جماعت اسلامی کا ایک مصور رسالہ پڑھنا شروع کیا۔ مگر غور سے پڑھا تو معلوم ہوا کہ اسے کامریڈ صفت حسن ایڈٹ کرتے ہیں تاکہ انقلاب اسلام کے راستے داخل ہو۔ مجبوری سب کچھ کروا دیتی ہے!

الف : مجھ میں اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ میں دنیا کے معاملات میں کروڑوں انسانوں کی زندگیاں سنوارنے، بگاڑنے میں اخلاقی اور سماجی اورمذہبی تصورات گڑھنے میں دخل دوں۔ انتہائی آفاقی اہمیت کے مسائل میں اپنی ٹانگ اڑاؤں۔ میں نے یہ سب کس طرح کیا۔ میں صرف ذاتی نفع چاہتا تھا۔ اور نام و نمود۔ کیونکہ انسان اگر اقتدار حاصل کرنے سے خائف ہے تو اسے چاہیے کہ سرگھٹا کر سادھو بن جائے۔ اقتدار، استحکام، طاقت،ضابطہ، نظام، ضمیر، اصول۔۔۔ یہ الفاظ میرے سامنے سے ہٹاؤ۔۔۔ مجھے صرف بادل چاہئیں اور پتوں کی سر سراہٹ!

ب : مگر پانسا پھینکا جا چکا ۔ اقتدار تمہارے حصّے میں آیا ہے۔ تم طاقت ور ہواور تمہاری طاقت دوسروں کے لیے،ہر انسان کے لیے نقصان دہ ہے سوا تمہارے۔۔۔ اس وقت جو تم یہاں بیٹھے ہو اور سامنے سبزے پر لڑکیاں ہنس رہی ہیں اور بچّے کھیل رہے ہیں اور موسیقی بج رہی ہے۔ عین اسی منٹ تمہاری وجہ سے صحراؤں میں اور جنگلوں میں اور بستیوں میں بارود کے گولے پھٹ رہے ہیں اور انسانی جسموں کے پرخچے اڑ رہے ہیں۔۔۔!

الف : یہ منظر کشی کر کے مجھے دھمکانے کی کوشش مت کرو۔

ب : میرے سامنے ایک پولس افسر آتاہے جو پچھلے اتوار کو موں مارترؔ کے کیفے میں بیٹھا سارتر پڑھ رہا تھا اور آزادی کا حامی تھا۔

الف : اب میں بھی دیکھ رہا ہوں۔۔۔ وہ حکم دیتا ہے کہ اپنے کپڑے اتاردو۔۔۔

ب : اور وہ اپنے کپڑے اتار دیتی ہے۔(الجزائر میں ہر فرانسیسی فوجی یا پولس افسر الجیرین عورت کو حکم دے سکتا ہے کہ وہ اپنے سارے کپڑے اتار کر ثابت کرے کہ اس نے اسلحہ یا بم نہیں چھپائے ہیں) ابھی بیگمات دوسرا رقص کریں گی۔ سا زندوں سے کہو۔ ارتھا کٹ کا کوئی نغمہ بجائیں۔ یا سیمباؔ۔۔۔ بیگم صاحبہ کے لیے ایک شیریؔ۔

الف : عبدلؔ تم آگیے۔۔۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا۔ مجھے برے بُرے خواب دکھلائی دیتے ہیں۔ ہول آتا ہے۔۔۔ عبدل مجھے لگتا ہے تم مجھ سے چھٹنے والے ہو۔۔۔ عبدل میرے لیے ایک کافی۔۔۔ بیگم صاحبہ کے لئے ڈرامائی مارٹینی۔ عبدلؔ کیا یہ بھی روایت ہے کہ تمہارے دم سے اولڈ آرڈر قائم ہے؟ جیسے یہ روایت ہے کہ کسان آزاد اور خوش باش ہیں۔ طالب علم مفلس اور ذہین۔۔۔لڑکیاں با عصمت اور وفادار ۔ میں تمہارے چہرے پر جھریاں دیکھ رہا ہوں۔ تمہاری داڑھی بالکل سفید ہوگئی ہے۔ کیا تم کو بخشش کم ملتی ہے حالانکہ تمہارے نئے امریکن صاحب لوگ تمہارے پرانے انگریز صاحب لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ دریا دل ہیں۔۔۔ یہ بھی ایک روایت ہے۔۔۔؟

ب : سایے کی طرح چلتا ہوا عبدل بیگم صاحبہ کے لیے ڈرائی مارٹینی لینے چلا گیا۔ پینٹری میں جاکر وہ اپنے آب دار سے کہے گا کہ بڑے صاحب آج معمول سے زیادہ اداس ہیں!

الف : جب میں باتیں کرتا ہوں مجھے لگتا ہے،میں کسی مردہ زبان میں بول رہا ہوں۔ لوگ مجھے سمجھ نہیں سکتے۔ سنسکرت، یا پہلوی، یا لاطینی الفاظ کے معنی بدل گیے ہیں۔

ب : والنس بیگم صاحبہ کا پسندیدہ رقص ہے ۔ آج کل لوگ سوائے اور تھری ہنڈرڈ میں کون سا ناچ ناچ رہے ہیں؟

الف : بہت سے لوگ ہیں (اور تمہیں پتا ہے کہ کون) جن کو نہ میری طرح ڈراؤنے خواب آتے ہیں نہ جن کا دل ہولتا ہے۔ حالانکہ وہ بھی وہی سب کر رہے ہیں جو میں کرتا ہوں۔ تمہارا خیال ہے یہ محض اوور ورک کا نتیجہ ہے۔

ب : بیگم صاحبہ کو ایک اور ڈرائی مارٹینی دو۔

الف : غدار اور جاسوس اور مجرم اور قاتل اور جیلر اور پھانسی کی رسی اور کوٹھری کی سلاخیں اور بے عزتی کی زندگی ،اور بے عزتی کی موت اور جگ ہنسائی اور رسوائی اور اس طرح کے تصورات کا گویا ایک بیلے ہے جو رات کو دیوار پر میرے سامنے ہوتا ہے۔ اتنے قتل ہوئے ۔۔۔ اتنوں پر مقدمہ چلا۔ کس کو گھوس دی ۔ کس نے کون سا جال پھیلایا ۔ جج رشوت کھا گیا۔ وکیل قتل کردیا گیا۔ غلط آدمی کو جیل ہوگئی ۔ مجرم ولایت سے نئی کار خرید لایا۔ علیٰ ہذا القیاس میرے دماغ میں ہر وقت سنسنی خیز اخبار چھپتے رہتے ہیں۔ میرے ذہن کی ٹیلیکس پر عجیب عجیب خبریں آتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے حفاظت کہیں نہیں ہے۔ میں ہمہ وقت خطرے میں ہوں۔ مکانات،روپیا،شہرت، عزت، تجربے سب لا یعنی ہیں۔ خصوصاً ذاتی جائیداد یعنی پرائیوٹ پراپرٹی بالکل پانی کا بلبلا سمجھو اسے۔ نہ جانے کس وقت میں مرجاؤں اور یہ سب دھرا رہ جائے کس وقت ، میں زندہ ہی ہوں مگر میرے ہاتھوں سے یہ سب نکل جائے۔ بڑا دل دہلتا ہے۔ حفاظت نہیں ہے۔

ب : آبادیوں کی آبادیاں،ملک کے ملک کنسنٹریشن کیمپوں میں تبدیل کردیے گئے۔ پہلے ایک بیلسن تھا اب ہر طرف بیلسن ہیں۔

الف : میں تو صرف اتنا چاہتا تھا کہ جب میں جانے لگوں تو طمانیت کے ساتھ اتنا کہہ سکوں کہ شکریہ دنیا والو،میں ایک اچھی دعوت میں آیا تھا۔ شکریہ۔۔۔!

ب : ان لوگوں سے کہو جو سال کے سال ، سالِ نو کی مبارک باد کے کارڈ تیار کرتے ہیں کہ ایک بڑا الاؤ بناؤ اور ساری تہنیتیں ، ریاکاری کی ساری بہترین خواہشوںسمیت اس الاؤ میں جھونک دو۔

الف : اس کھڑکی میں سے جھانکتا میں اپنے آپ کو دیکھ رہا ہوں، آج کی رات میں یہ ہوں۔

ب : بہت سے لوگ تاریخ کی باتیں کرتے ہیں اور فلسفے کی اور اخلاقیات اور مذہب کی اور میں ان کو حیرت سے دیکھتا ہوں۔

الف : عمر، خالد،طارق، اورنگ زیب،ٹیپو، سراج الدولہ، سید احمد، جمال الدین، سرسید، شہزادہ علی خاں،بادشاہی مسجد، شالیمار باغ، ملتان کے مقبرے، مغل شہنشاہ، مزید مسجدیں، اسلام اسلام اسلام۔

ب : بیگم صاحبہ فرانس سے انٹیرئیرڈیکوریشن میں ڈگری لے کر آئی ہیں۔ پھولوں کی آرایش کے فن پر ان کا مطالعہ وسیع ہے۔

الف : اپنی حماقتوں کو اپنی ڈھال، اپنا علم، اپنا نقارہ بنا کر میں (اور ہم سب، تم جانتے ہو کہ کون) مارچ کر رہا ہوں۔ لفٹ رائٹ یہاں تک کہ مجھے خود یقین ہو چلا ہے کہ میں دنیا کا اہم ترین ، عقل مند ترین انسان ہوں۔ میں باقی دنیا پر فیصلے صادر کرتا ہوں۔ میری رائے حرف آخر ہے۔ کون ہے جو میرے منہ آئے۔ تاریخ کے اہم فیصلے ہمیشہ احمقوں نے کیے ہیں۔

ب : بیگم صاحبہ آپ کو شاعری سے دلچسپی ہے؟ خوب۔ آئیے میں آپ کو چند اشعار سناؤں۔ پسند نہ آئیں تو تکلفاً تعریف نہ کیجئے گا۔ کیونکہ اشعار میرے نہیں۔ بیگم صاحبہ! جہاں الفاظ پھنکارتے ہوئے ناگ ہیں یا مکھیاں جو مسجد مندر اور مردہ گھروں میں بھنبھناتے ہوئے، انسانوں کی غلطی سے دیوانہ وار اپنا پیٹ بھرتی ہیں لیکن پھر بھی ہرلاش ابدی ہے جہاں بڑکا درخت اپنے بچوں کی قسمت پر رو رہا ہے۔۔۔ اور فٹ پاتھوں پر خون اور زخموں کے پھول کھلتے ہیں۔

چنانچہ بدھ ستو پوں اور مغل مقبروں اور مدراؤں، اور ساریوں اور مقدس صحیفوں کے منتروں میں چھپے ہوئے سارے حسن کے باوجود جو روح کی تاریک رات کو روشن کرتا ہے۔ ابخرات کے اس مہلک بھنور میں ہماری مختصر سی رات کو جگہ نہ مل سکی۔ یہ بھنور جہاں جیتے ہوئے ، مسکراتے ہوئے، مارتے اور مرتے ہوئے، ان کی زندگی کی تمنا موت کی تمنا سے تقریباً ہم کنار رہتی ہے۔ اور یہ سارا رنگ دبو ایک مسلسل بے کیفی میں تبدیل ہو جاتا ہے جہاں نہ عود سلگتا ہے۔ نہ کنول کھلتے ہیں۔ یہ حقیقت تھی جسے اب ہم نے دیکھا۔ یہ قیامت تھی۔ اس تاریک غار میں جو کیڑے رینگ رہے ہیں وہ ہم ہیں۔ ہم ہمیشہ تھے۔ اور ہم نے ہمیشہ آلتی پالتی مار کر صرف ماورا پر دھیان کیا۔ لیکن اب یہ منظر ہمارے بہت قریب ہے۔ ہمارے سامنے ہے۔

الف : تم نے بیگم صاحبہ کی طبعیت مکدر کر دی۔ تم ایسی باتیں کیوں کرتے ہو؟ کیا تمہیں خوف ِ خدا نہیں، کیا تم یہ نہیں جانتے کہ تم اپنے حق میں کانٹے بورہے ہواور سب دروازے تم پر بند ہوجائیں گے؟ تم جو اس ڈرامے میں حصہ لینے سے انکار کرتے ہوجو ہم زرتار شامیانوں کے نیچے ایک بہت بڑی بھیڑیا دھسان خلقت کی خاطر اسٹیج کر رہے ہیں۔ اتنے سارے اسٹیج ہم نے بنائے ہیں۔ یہ پارلیمنٹ ہے۔ یہ یونی ورسٹیاں ہیں۔ یہ کابینہ ہے۔ یہ عدالتیں ہیں۔ہم نے اگر یہ ڈراما کامیابی سے نہ کھیلا تو ہماری بھیڑیا دھسان خلقت کا دل ٹوٹ جائے گا اور وہ چونّی واپس کرنے کا مطالبہ کرے گی۔ ابھی سے وہ اکثر وقتاً فوقتاً ہوٹنگ کرنے لگی ہے۔ تم اگر ہمارے ساتھ شامل ہو گے تو تم پہ چوکسی سے نگرانی کی جائے گی۔شاید تم کو معلوم نہیں کہ میں ہی تمہارا جج ہوں، میں ہی گواہ ۔ میں تم کوکسی لمحے بھی مجرم ثابت کرسکتا ہوں۔ اب دودھ کا دودھ ،پانی کا پانی الگ ہوچکا ہے۔ میرے ہاتھ میں ترازو ہے۔ میں ہمہ وقت فیصلے صادر کر رہا ہوں۔ منتظر رہو،نہ جانے کس وقت جلاد آکر تمہارا دروازہ کھٹکھٹائے۔ وقت بہت کم ہے۔ جو کچھ کہنا ہے کہہ لو، تم دنیا کے نام کوئی پیغام کوئی وصیت چھوڑنا چاہتے ہو؟ عنقریب تمہارا، ہم سب کا خاتمہ ہے۔

ب : مائی لارڈ۔ آپ کو جج کس نے مقرر کیا ہے اور آخری فیصلہ کس کی عدالت سے ہوگا؟

الف : خود میں نے ۔ اور آخری عدالت بھی میں ہی ہوں گا۔ خود کو زہ و خود کوزہ گرد خود گلِ کوزہ۔۔۔ میں سب کچھ ہوں اور ارجن میرے مظاہر بے کراں ہیں۔۔۔ میں ایمان دار ہوں۔ تمہارے ایمان میں فتور ہے۔ میں محب وطن ہوں۔ ملک کے لیے کٹ مروں گا۔ خون کا آخری قطرہ سب سے پہلے میں ہی بہاؤں گا۔ تم غدار ہو۔ میرے آدرش بلند ہیں۔ تم کمینے ہو۔ مجھے حق ہے کہ میں آرام و آسائش سے رہوں۔ کیوں کہ میرے کاندھوں پر بڑی عظیم ذمہ داریاں ہیں۔ یہ زمینیں،یہ دریا، یہ وادیاں یہ پہاڑ، یہ کھیت، یہ باغات،یہ شاہراہیں، یہ کارخانے، یہ بازار، یہ کھلیان، یہ کوٹھیاں، یہ بنکوں کی عمارات،یہ سب میری ہیں۔ میں ان کا اصل مالک اور حق دار ہوں۔ مجھے غصہ نہ دلاؤ ورنہ میں تم کو۔۔۔ میں تم کو ۔۔۔ اوہ ۔۔۔ میں کہتا ہوں تم اپنی اوقات کیوں بھول گیے۔ واپس جاؤ ۔۔۔ نیچے اترو۔۔۔ اور نیچے۔۔۔ وہی جگہ تمہاری ہے ۔ یہ محلے، یہ کوٹھریوں کی قطاریں، یہ بستیاں، یہ ٹاٹ اور چٹائیوں اور بانسوں اور ٹوٹی کھٹیوں کے انبار۔۔۔ کیا یہ سب تمہارے لیے کافی نہیں۔۔۔؟ اور تم کیا چاہتے ہو گورنمنٹ ہاؤس میں رہو گے؟ کیا گورنمنٹ ہاؤس تمہارے باپ کا ہے؟ گورنمنٹ ہاؤس میرے باپ کا ہے۔۔۔!

ب : میں ایک شخص کو جانتا ہوں جو فوج میں لفٹیننٹ کرنل ہے لیکن ولی اللہ ہوگیا ہے۔۔۔!

الف : اچھا۔۔۔؟

ب : ہاں۔۔۔! اور وہ کہتا ہے کہ تصوّف کی، یاجو کچھ بھی وہ ہوتا ہے، اس کی ساری منازل طے کر چکا ہوں۔ اس کا قول ہے کہ وہ پچھلے پندرہ سال سے رات کو نہیں سویا اور رات بھر جاگتا ہے۔ یعنی عابد شب زندہ دار ہے۔ پورا پرم ہنس سمجھو اسے۔۔۔ اور اب اس میں اتنی طاقت ہے کہ اپنی چشم باطن کے ذریعے انسانوں کی جواصلیت ہے اسے دیکھ لیتا ہے یعنی کسی میس کی بار میں جاتا ہے تو اسے اسٹولوں پر سور اور گھوڑے اور خچر اور چوہے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ ڈرائنگ روم کے صوفوں پر اسے بکریاں اور بلّیاں اور گدّھیاں اور ہتھنیاں اور سیار دکھلائی دیتے ہیں۔

الف : اللہ اکبر۔۔۔ کیسا قیامت خیز تصور ہے !

ب : جب وہ مجھ سے بات کرتا ہے تو اسے میری ظاہری انسانی شکل کے بجائے میری اصل صورت نظر آتی ہے۔ گو اس نے مجھے آج تک بتایا نہیں کہ یہ کیسی صورت ہے۔

الف : حد ہے۔ ہماری فوج کی یہ حالت ہوگئی۔۔۔ ؟

ب : ہاں۔ صوفی اور ولی اللہ تو ہر جگہ پیدا ہوتے آئے ہیں۔

الف : میں اپنے آپ کو گیدڑ سمجھتا ہوں۔

ب : میں تم کو گدھ کہوں گا جو ڈریس سوٹ پہنے ایک لمبی سی شاہ بلوط کی ڈائننگ ٹیبل کے سرے پربیٹھا اونگھ رہا ہے اور منتظر ہے اور اس کے پنجوں میں۔۔۔

الف : تشبیہ کو آگے نہ لے جاؤ۔ ورنہ میرے وحشت ناک خوابوں میں اضافہ ہوگا۔

ب : سارا ملک پارسیوں کا ایک عظیم الشان ،وسیع، لق و دق برج خموشاں ہے ۔نیچے چونے اور تیزاب کاکھڈ ہے اور ہماری لاشیں پٹاپٹ اس میں گر رہی ہیں اور ہم اس کھاد میں تبدیل ہو رہے ہیں جس سے تمہارے لان کی مٹّی کو زر خیز کیا جائے گا۔ تم مجھے اس آتش پرست پروہت کی مانند نظر آتے ہو جو سر تا پا سفید کپڑوں میں ملبوس میری لاش پر وہی لگا رہا ہے۔ میری لاش تو ایسی ہے کہ کتّا بھی اسے سونگھ کر چھوڑ دے۔

الف : بڑا زبردست جھکڑ چل رہا ہے ۔ زرد اور سرخ اور سیاہ ریت میری آنکھوں میں جا گھسی ہے۔ میرا دماغ اب کام نہیں کرتا ۔۔۔ کوئی ہے جو آکر مجھے بچائے۔

ب : ہم ایک ایسی دنیا میں زندہ ہیں جس میں ہر شخص ایک دوسرے پر جاسوسی کر رہا ہے۔ دوست دوست پر،افسر ماتحت پر، بھائی بھائی پر،تم کس کو مدد کے لیے پکارو گے؟

الف : جہاں ہم اور تم وقت میں خیمہ زن ہیں اور بڑی بھاری سیاہ آندھی اٹھی ہے اور بگولے چکر کاٹ رہے ہیں۔۔۔ تمہیں پتا ہے میں نے ایک زمانے میں خواب دیکھے تھے۔ مدّتوں چپکے چپکے دیکھا کیا۔

ب : پتا ہے ۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں نے اپنے خوابوں کو یوں ہی کھو جانے دیا ہے۔

الف : جنگل کی طرف ایک پہاڑی راستہ جاتا ہے۔ دونوں طرف دیواروں کی گھاٹیاں ہیں جن پر نیلا کہرا منڈلا رہا ہے اور سرخ مکانوں کی چھتیں اور بارش سے بھیگے ہوئے پتھر پر ایک بڑھیا بیٹھی ہے۔ وہ راہ گیروں کو خاموشی سے دیکھتی ہے۔ ایک اسکول کا لڑکا نیلے موزے پہنے بھاری بستہ پیٹھ پر لادے سیٹی بجاتا،سیب کھاتا چڑھائی پر چڑھ رہا ہے۔۔۔ معصوم۔۔۔ بھولا بھالا۔۔۔ بارہ سالہ لڑکا۔۔۔ میں اکثر جاگتے میں وہاں واپس جانا چاہتا ہوں۔

ب : دیواروں کے پیچھے تارا ہال ہے۔ چاروں طرف کوہستانی گلاب مہک رہے ہیں۔ رات گیے میں انجانی موسیقی سننے کے لیے پچھلے برآمدے کی سیڑھیوں پر کھڑا ہوں۔ جو بٹاویاؔ کے ریڈیواسٹیشن سے آرہی ہے۔ یہ ۳۷ ء ہے۔ میں متحیر ہوں،آسمان پر تارے کھلے ہیں۔ ہوا میں پہاڑی صندل کی مہک ہے۔ مجھے بھی نہیں معلوم کہ ابھی مجھے دنیا میں کیا کیا جھیلنا ہے۔۔۔ میں وشوا بھارتی جانا چاہتا ہوں۔ میں صرف وشوا بھارتی جانا چاہتا ہوں۔

الف : اب میرا خواب سنو۔۔۔ ! مگر رہنے دو، سب بے کار ہے۔

الف اور ب: (اکٹھے ) ہم مجرم ہیں۔ کیونکہ ہم نے اپنے خواب کھو جانے دیے۔

الف : تم کو یہ حق کس طرح پہنچتا تھا کہ تم دوسروں سے کہو کہ اس طرح کے خواب دیکھو، اس طرح کے نہیں!

ب : اب میری مدد کے لیے کون آئے گا؟

ب : مجھے معلوم نہیں۔

الف : میں اور تم دونوں ایک دوسرے کے جاسوس ہیں۔ ہم دو سانپ ہیں۔ ہم دو بچھو ہیں۔ ہم دونوں دو قسم کے کتےہیں۔ ایک کوکر اسپنیل رونٹیک ، اداس آنکھیں نیم واکیے صوفے پر بیٹھا ہے۔ دوسرا گلی کا کتا سڑک کے کنارے بھوک سے بلبلا رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وقت مقررہ پر ہڈیاں ایک کے آگے ڈال دی جاتی ہیں۔ دوسرا اسی طرح بلبلاتا رہتا ہے۔

ب : بیگم صاحبہ آپ کو ارتھا کٹؔ کی آواز پسند آئی؟

الف : جھکّڑ تیز ہوگیا ہے۔ اب تو کان پڑے آواز نہیں سنائی دیتی۔ عجیب عجیب شکلوں کے لوگ جن کے منہ کالے ٹوپ میں چھپے ہیں اور مجھے اچھی طرح نظر نہیں آتے ہیں، بگولوں پر چڑیلوں کی طرح سوار چکر کاٹ رہے ہیں۔

ب : میں ان کو پہنچانتا ہوں۔۔۔ تمہیں بھی ان کو پہچاننا چاہیے۔

الف : ہاں! میرے سامنے حسین فاطمی اور ہنگری والے اور اخوان المسلمین والے اور بے شمار چینی، اور روسی اور جاپانی اور حبشی اور کورین اور ملایائی اور جانے کون کون ایک قطار میں رسیوں سے لٹک رہے ہیں اور جھکڑ میں ان کی ٹانگیں ہل رہی ہیں۔

ب :حُسین فاطمی بڑا وجیہہ نوجوان تھا۔

الف : ہاں! مجھے وہ نظر آرہاہے۔ وہ تو مسکراتا ہے۔ مجھے اس کی مسکراہٹ سے ڈر لگ رہا ہے۔

ب : کیا ہنگری والا بھی مسکرا رہا ہے؟

الف :ہاں!اور باقی سب قہقہے لگا رہے ہیں۔ یہ لوگ مارے جانے پر اس قدر خوش کیوں ہیں؟

ب : یہ تم نہیں سمجھ سکتے ۔ کیوں کہ انہوں نے اپنے خوابوں کو کھونے نہیں دیا۔

الف : میں جانتا ہوں۔ اب میں کسے بلاؤں گا جو مجھے ان ہولناک تصورات سے نجات دلائے گا۔۔۔؟ عبدل۔۔۔ عبدل۔۔۔ عبدل۔۔۔!

ب : ینگ جمی بھی ٹینس کورٹ سے واپس آگیا ہے۔

الف : ہائی۔۔۔ جمیؔ۔۔۔ عبد لؔ۔ صاحب کے لیے ایک ڈرائی مارٹینی ہے۔

(پردہ)

مأخذ : پت جھڑ کی آواز

مصنف:قرۃ العین حیدر

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here