گمان میں ہے یقین جیسے
اگل دے سونا زمین جیسے
ہوں قید شام و سحر میں ایسے
صدا بہ لب ہو مشین جیسے
میں آسماں کی پناہ میں ہوں
زمیں کے منظر حسین جیسے
شب تمنا کے چاند تارے
ہوں اپنے گھر میں مکین جیسے
ہیں میرے اندر کے سانپ باہر
ہے میرے ہونٹوں پہ بین جیسے
نہ کوئی سبزہ نہ بیل بوٹا
شجر ہے صحرا نشین جیسے
تو مورتوں میں بھی جان آئے
جھکا دے سر مہہ جبین جیسے
مأخذ : شب شکن
شاعر:ظفر ہاشمی