نہ جانے وعدے کا کیوں اعتبار اب بھی ہے
گزر گئی ہے شب اور انتظار اب بھی ہے
کہو تو کہنے کو کہہ دیں کہ شاد ہے دنیا
جو بے قرار تھا وہ بے قرار اب بھی ہے
غرض کے دوست تھے جتنے وہ اٹھ گئے لیکن
تمہارے در پہ یہی جاں نثار اب بھی ہے
خزاں ہے یا کوئی روٹھی ہوئی بہار ہے یہ
نہیں جو گل تو گلستاں میں خار اب بھی ہے
ادھر تو جامہ دری کر رہے ہیں دیوانے
ادھر وہ کہتے ہیں دامن میں تار اب بھی ہے
ہماری خاک ابھی تک ہے کوئے جاناں میں
مزار گو نہیں لیکن غبار اب بھی ہے
خزاں خزاں ہے بہاروں میں بھی سکون نہیں
جو خار تھا مرے دل میں وہ خار اب بھی ہے
بہار جاتے ہی گو سب بدل گئے نقشے
مری نظر میں وہ جان بہار اب بھی ہے
یہ کہہ رہے ہیں زمانے کے دیکھنے والے
دلوں میں جیسا تھا پہلے غبار اب بھی ہے
بدل گیا ہو زمانہ ہمیں نہیں معلوم
وہ تھا شعار جو اپنا شعار اب بھی ہے
مأخذ : نوائے ضبط
شاعر:ضبط ستپوری