جرنلسٹ

0
174
Urdu Drama Stories
- Advertisement -

(بہت سے لڑکے پہاڑے یاد کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔ ایک شور مچاہے۔۔۔۔۔۔ بیچ بیچ میں میز پر بید مارنے کی آواز بھی آتی ہے۔۔۔۔۔۔ آہستہ آہستہ یہ شور فیڈآوٹ ہو جائے۔) 

عبدالباری: ۔۔۔۔۔۔کیا واہیات پن ہے۔۔۔۔۔۔یہ سوائے۔ڈیوڑھے ڈھائے۔اونچے پونچے اور ڈھونچے کے پہاڑے کیا بکواس ہے۔۔۔۔۔۔ ایک ڈھایا ڈھایا یا دو ڈھایا پانچ۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر کسی کو یہ معلوم نہیں ہوگا تو بہت بڑی آفت آجائے گی۔۔۔۔۔۔ اور میری بیوقوفی ملاحظہ ہو کہ پانچ کم سو لڑکوں کو چھڑی کے زور سے یہ بکواس یاد کراتا رہتا ہوں۔ گویا اس کے بغیر ذہنی ترقی ہو ہی نہیں سکتی۔۔۔۔۔۔(ہنستا ہے) اسکول ماسٹر بھی عجب چیز ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ یہاں اس اسکول میں پانچ کم سو لڑکوں کا میں زبردستی باپ بنا بیٹھا ہوں۔ ان کو سکھاتا ہوں۔ دیکھو خشکی کے اس ٹکڑے کو جس کے چاروں طرف پانی ہو ٹاپو کہتے ہیں اور آبنائے، پانی کے اس ٹکڑے کو کہتے ہیں جو خشکی کے دو ٹکڑوں کو آپس میں ملا دے۔۔۔۔۔۔ اور یہ سبق دے کر میں سمجھتا ہوں ان کے مستقبل کی تمام دیواریں اٹھا کر میں نے اپنے کاندھوں پر دھر لی ہیں۔۔۔۔۔۔ سال کے تین سو پینسٹھ دن جن میں سے ڈیڑھ مہینہ گرمیوں کی چھٹیوں کا نکل جاتا ہے میں ان کی بہتری سوچتا رہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ ان بچوں کی بہتری جو سال کے بعد میری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔تختیاں۔کتابیں۔سلیٹیں۔گنڈیریوں اور مونگ پھلی کے چھلکے رہ جاتے ہیں اور وہ دنیا کی وسعت میں جانے کہاں غائب ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اوریہ حدود اربعہ(ہنستا ہے)۔۔۔۔۔۔ شمال میں بھنگوں کا تکیہ۔۔۔۔۔۔جنوب میں پہلوانوں کا اکھاڑہ۔۔۔۔۔۔ مشرق میں گندہ نالا اور مغرب میں ہیڈ ماسٹر صاحب کا گھر۔۔۔۔۔۔(ہنستا ہے) یہ حدود اربعہ بھی خوب ہے۔۔۔۔۔۔ لعنت ہے ایسے پیشے پر۔۔۔۔۔۔ اگر اپنے خیالات کا پرچار ہی کرنا ہے۔ دوسروں کو سبق ہی دینا ہے تو کیوں نہ جرنلزم اختیار کی جائے۔۔۔۔۔۔آج جو کچھ لکھا کل چھپ کر سامنے آگیا۔۔۔۔۔۔ہر شخص کے ہاتھ میں اخبار موجود ہے۔۔۔۔۔۔واللہ کتنی سنسنی پھیلانے والی چیز ہے۔۔۔۔۔۔ اور پھر رعب اور وقار الگ۔۔۔۔۔۔(وقفہ)۔۔۔۔۔۔میں اس شہر سے بھی تنگ آگیا ہوں۔۔۔۔۔۔ کسی بازار میں جاؤ سامنے گھنٹہ گھر نظر آئے گا۔ جانے اس میں کیا خوبصورتی دیکھی گئی ہے کہ ہر بازار گھنٹہ گھر کا رُخ کرئے۔۔۔۔۔۔شہر اور اسکول دونوں کو سلام۔۔۔۔۔۔ 

(ریل کی گڑگڑاہٹ۔۔۔۔۔۔ چند لمحات کے بعد یہ گڑگڑاہٹ پرنٹنگ پریس کی آواز میں تبدیل کردی جائے) 

نوٹ:پرنٹنگ پریس کی آواز عقب میں چلی جائے۔۔۔۔۔۔ یعنی بالکل دھیمی ہو جائے اس پر ذیل کا مکالمہ سپر امپوز کیا جائے) 

اخبار کا مالک: مجھے ایک عرصے سے اچھے ایڈیٹر کی تلاش تھی جو میرے اخبار’’خلق‘‘ کو کامیابی کے ساتھ چلا سکے۔۔۔۔۔۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ بیٹھے بیٹھائے مجھے آپ جیسا محنتی اور لائق آدمی مل گیا۔۔۔۔۔۔آپ کے کام سے میں بے حد مطمئن ہوں۔ 

- Advertisement -

باری: آپ کی قدر افزائی کا بہت بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔ دراصل مجھے صحافت سے بہت دلچسپی ہے۔۔۔۔۔۔(وقفہ) اب کہ آپ نے میرا کام دیکھ لیا ہے۔ تنخواہ کا فیصلہ ہو جائے تو۔۔۔ 

اخبار کامالک: آپ اس کے متعلق کچھ فکر نہ کریں۔ ہوٹل میں آپ کے کھانے پینے کا بندوبست میں نے کرادیا ہے۔۔۔۔۔۔دوسری ضروریات کے لیئے جب بھی آپ کو روپے کی ضرورت ہو آپ بِلا تکلف مجھ سے لے سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔آپ مطمئن رہیں۔ 

بار ی: جی مجھے اطمینان ہے۔ 

(پرنٹنگ پریس کی گڑگڑاہٹ عقب میں سے نکل کر اوپر آجائے اور بلند ہو جائے چند لمحات تک یہ شور جاری رہے۔اس پر ذیل کے ٹکڑے ایک ہجوم کی صورت میں سپر امپوز کیئے جائیں) 

-1 ایک نجومی کی پیشین گوئی۔ سن انیس سو چھتیس میں کئی بھونچال آئیں گے۔ 

-2 ہندوستان کی صنعتی ترقی کے امکانات۔ 

-3 لیگ آف نیشنز کے اجلاس میں گرما گرم بحثیں۔ 

-4 ہندوستان کو پروونشل اٹانومی اپریل میں مل جائے گی۔ 

-5 شہر میں صفائی کے انتظامات۔ 

-6 شمالی ہندوستان میں طوفان بادوباراں۔ 

-1 اسمبلی کے اجلاس میں’’روزنامہ خلق‘‘ کی تنقیدوں کا ذکر۔ 

-2 یورپ کے آسمانوں پر جنگ کے مہیب بادل۔ 

-3 ہندوستان کیا چاہتا ہے۔ 

-4 روس میں چھتری بازفوج تیار کی جارہی ہے۔ 

-5 جرمنی کی جنگی تیاریاں۔۔۔۔۔۔معاہدہ و ارسا کی خلاف ورزیاں۔ 

-6 سن انیس سو اڑتیس کی آمد آمد۔۔۔۔۔۔یورپ پر نئی آفتوں کا نزول۔ 

نوٹ:پرنٹنگ پریس کی آواز فوراً بند ہو جائے اور ذیل کا مکالمہ ایک دم شروع ہو۔ 

کاتب: باری صاحب یہ آپ کی سلپ تو ختم ہوگئی اور لائیے۔ 

باری: (لکھتے ہوئے)مقام تاسّف ہے کہ ابھی تک ملک کی ان ضروریات پر غور نہیں کیا گیا۔۔۔۔۔۔(کاغذ کی کھڑکھڑاہٹ) لو بھئی یہ دوسری سلپ لو۔ 

دوسرا کاتب: (آواز دُور سے آئے)۔۔۔۔۔۔ اجی مولانا پہلے صفحے کی سرخیاں تو بنا د یجیئے۔ایک گھنٹے سے بیکار بیٹھا ہوں۔ 

باری: بھئی مجھے یہ لیڈز تو مکمل کرلینے دو۔۔۔۔۔۔ اچھا تم ابھی یہ چار کا لمی سرخی لکھو۔ 

دوسرا کاتب: فرمائیے۔ 

باری: یورپ کے سیاسی اسٹیج پر جرمنی کے نا زی مداری کا حیرت انگیز کھیل(ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے) 

باری: (چونگا اُٹھانے کی آواز)۔۔۔۔۔۔فرمائیے۔۔۔۔۔۔میں ہی’’خلق‘‘کا ایڈیٹر ہوں۔۔۔۔۔۔ جی ہاں۔آپ کا مراسلہ مل گیا تھا۔۔۔۔۔۔مجھے یادہے۔آپ نے میونسپل کمیٹی کے نل کے بارے میں چند شکایات پیش کی تھیں۔۔۔۔۔۔ چھپ جائے گا۔۔۔۔۔۔ آپ مطمئن رہیں بہت جلد آپ کا یہ مراسلہ چھاپ دیا جائے گا۔۔۔۔۔۔آداب عرض۔ 

چپڑاسی: یہ لیجئے۔۔۔۔۔۔سروس آگئی۔ 

تیسرا کاتب: باری صاحب بس اب جلدی جلدی ان خبروں کا ترجمہ ہو جائے۔ 

منیجر: باری صاحب۔ابھی تک پریس میں کاپی کیوں نہیں گئی۔ 

باری: کون سی کاپی۔ 

منیجر: تیسری کاپی۔۔۔۔۔۔ چار بجے تک یہ پریس میں پہنچ جانی چاہیئے تھی۔ 

باری: بالکل تیارہے۔۔۔۔۔۔ صرف اس کو جوڑنا باقی رہ گیا ہے۔ 

منیجر: تو جلدی سے پہلے اس کو جوڑ دیجئے۔۔۔۔۔۔ آج کاپی جوڑنے والا نہیں آیا۔ 

باری: بہت اچھا۔میں ابھی جوڑے دیتا ہوں۔ 

(ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے) 

باری: (ٹیلی فون کا چونگا اٹھا کر) بھئی میں اس ٹیلی فون سے تنگ آگیا ہوں۔۔۔۔۔۔مجھے اپنا میز اندر لے جانا پڑے گا۔ 

باری: ہیلو۔۔۔۔۔۔روزنامہ خلق۔۔۔۔۔۔ جی ہاں۔۔۔۔۔۔نہیں۔نہیں۔ میں نے آپ سے نہیں کہا۔۔۔۔۔۔ میز کی بات میں دفتر میں کسی اور سے کررہا تھا۔۔۔۔۔۔فرمائیے۔ 

کاتب: باری صاحب یہ کیا لکھا ہے۔ 

باری: جہنم سے۔۔۔۔۔۔بول رہا ہوں جناب۔ 

(وقفہ) 

باری: معاف فرمائیے گا۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔میں کاتب کو مضمون بتا رہا تھا۔ یعنی کاتب سے کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ہاں بھئی علی محمد۔۔۔۔۔۔یہ جہنم سے ہے۔۔۔۔۔۔ ہاں توفرمائیے۔۔۔۔۔۔روزنامہ خلق ہی ہے۔۔۔۔۔۔ فرمائیے۔ 

(وقفہ) 

باری: آپ ملنا چاہتے ہیں تو دفتر میں تشریف لے آئیے۔۔۔۔۔۔ٹیلی فون پر کیسے ملاقات ہوسکتی ہے۔ 

(وقفہ) 

باری: بڑے شوق سے بات کیجئے۔۔۔۔۔۔ میں ہی خلق کا ایڈیٹر ہوں۔ 

(وقفہ) 

باری: تسلیمات عرض ہے۔۔۔۔۔۔فرمائیے۔ 

(وقفہ) 

باری: جی نہیں۔اس میں تکلیف کی کیا بات ہے۔۔۔۔۔۔آپ پوچھیئے کیا پوچھنا ہے۔ 

(وقفہ) 

باری: کیا کہا۔۔۔۔۔۔ 

(وقفہ) 

باری: کیا کہا۔ 

(وقفہ) 

باری: (بھنا کر) آج شام کو کلکتہ میل کب چھوٹے گا۔۔۔۔۔۔یہی پوچھتے ہیں آپ 

(وقفہ) 

باری: میں۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔ایڈیٹر ہوں ریلوے کا ٹائم ٹیبل نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔سُنا آپ نے۔۔۔۔۔۔(ٹیلی فون کا چونگا رکھنے کی آواز)۔۔۔ عجیب واہیات آدمی ہے۔۔۔۔۔۔پوچھتا ہے کلکتہ میل کب چھوٹے گا۔۔۔۔۔۔کل پوچھے گا تانگوں کا اڈہ کہاں ہے۔ 

(سب ہنستے ہیں) 

منیجر: باری صاحب یہ چار مراسلے پروپرائٹر صاحب نے بھیجے ہیں۔ سب آج کی اشاعت میں نکل جانے چاہئیں۔ آپ ان کی زبان وغیرہ درست کرلیجئے گا۔ 

باری: میں ان کی زبان درست کروں گا نہ ان کا وغیرہ ٹھیک کروں گا۔ آپ پروپرائٹر صاحب سے کہہ دیجئے میں ایڈیٹر ہوں مشین نہیں ہوں۔ اور پھر یہ مراسلے سب کے سب واہیات ہیں۔۔۔۔۔۔میں اپنے پرچے کو ذاتیات کا مرکز نہیں بنانا چاہتا۔ اگر پروپرائٹر صاحب کے کسی دوست کو یہ شکایت ہے کہ ان کے لڑکے کے کان ماسٹر صاحب نے بڑے زور سے اینٹھے ہیں تو میں اسے سیاسی رنگ میں پیش کرنے کے لیئے ہرگز تیار نہیں سمجھے آپ۔۔۔۔۔۔اور پھر۔۔۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔۔۔۔چار برس ہوگئے ہیں مجھے یہاں کام کرتے ہوئے۔پوری تنخواہ مجھے آج تک نصیب نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔ یہ اخبار ہے یا کیا ہے۔۔۔۔۔۔ جائیے آپ ان سے کہہ دیجئے مراسلے نہیں چھپیں گے۔ 

منیجر: بہت بہتر۔ 

باری: ہاں بھئی۔۔۔۔۔۔ تواب مجھے کیا کرنا ہے۔۔۔۔۔۔ تمہیں لیڈز کی آخری سلپ دینا ہے اور تمہیں پہلے صفحے کی سرخیاں لکھ کر دینا ہیں۔ 

تیسرا کاتب: اور مجھے خبروں کا ترجمہ دینا ہے۔ 

باری: اور پروپرائٹر صاحب کو اپنی مومیائی نکال کردینا ہے۔۔۔۔۔۔(وقفہ)۔۔۔۔۔۔ لاحول ولا۔ یہ جماّ ابھی تک کیوں نہیں آیا۔۔۔۔۔۔میں نے اسے سگریٹ لانے کے لیئے بھیجا تھا۔ 

جما: باری صاحب۔۔۔۔۔۔وہ سگریٹ نہیں دیتا۔ 

باری: کیا کہا۔۔۔۔۔۔ سگریٹ نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔سگریٹ کیوں نہیں دیتا؟ 

جما: کہتا ہے مولانا سے کہو پہلا حساب تو صاف کریں۔ 

باری: (بھنا کر)بکواس کرتا ہے۔۔۔۔۔۔(وقفہ)نہیں ٹھیک کہتا ہے۔۔۔۔۔۔ مجھے بھی ایسا ہی کہنا چاہیئے۔ابھی ابھی کہنا چاہیئے۔ 

(پریس کی گڑگڑاہٹ۔۔۔۔۔۔ چند لمحات کے بعد یہ آواز فیڈ ہو جائے) 

باری: جب تک �آپ میرا پہلا حساب صاف نہ کریں گے۔میں بالکل کام نہیں کروں گا۔ 

پروپرائٹر: (حلیمی کے ساتھ)خفگی کی وجہ؟ 

باری: چار سال ہوگئے ہیں مجھے یہاں کے اخبار میں اپنے دماغ کا تیل نکالتے ہوئے۔۔۔۔۔۔ پورے چار برس ہوگئے ہیں مجھے دن رات یہاں کام کرتے ہوئے۔۔۔۔۔۔اس کا صلہ چونکہ مجھے نہیں ملا اس لیئے میں کام سے انکار کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔ میں آپ سے خفا نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔میری خفگی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اس لیئیکہ آپ دماغ کے بجائے لوہے کی مشینوں سے سوچتے ہیں۔۔۔۔۔۔ آپ آقا ہیں اور میں غلام۔۔۔۔۔۔ بس اس احساس نے آج مجھے اس اقدام پر مجبور کیا ہے۔۔۔۔۔۔ سگریٹ والے کوجب دس دن کے پیسے نہ ملے تو اس نے مزید اُدھار دینا بند کردیا۔۔۔۔۔۔میں متواتر چار سال سے آپ کو اُدھار دیتا چلا آیا ہوں۔۔۔۔۔۔ لیکن اب مجھ سے نہیں دیا جائے گا۔ 

پروپرائٹر: باری صاحب!آپ کی شکایات بجا ہیں مگر آپ نے میری مشکلات پر غور کیا۔اس اخبار سے مجھے کیا فائدہ ہے۔۔۔۔۔۔میں تو صرف قوم کی خدمت کررہا ہوں۔ 

باری: آپ قوم کی خدمت کرتے ہیں۔میں قوم کی، اخبار کی اور آپ کی خدمت کرتا ہوں۔ لیکن اس خدمت کا معاوضہ مجھے کبھی وقت پر نہیں ملتا۔۔۔۔۔۔بلکہ یوں کہیئیکہ ملتا ہی نہیں۔۔۔۔۔۔ چار مہینے میں آپ نے مجھے صرف سولہ روپے دیئے ہیں۔۔۔۔۔۔خدا کا خوف کیجئے۔میں انسان ہوں پتھر نہیں ہوں۔مجھے بھوک بھی لگتی ہے۔۔۔۔۔۔کبھی کبھی مٹھائی کھانے کو بھی جی چاہتا ہے۔مجھے آپ نے اس اخبار کا ایڈیٹر بنایا تھا سنیاسی یا سادھو نہیں بنایا تھا۔جو میں نے دنیا تیاگ دی ہو۔ 

پروپرائٹر: روپے پیسے کی مشکلات مجھے بھی ہیں۔ 

باری: معاف کیجئے گا۔ یہ بالکل غلط ہے۔ابھی کل آپ نے اپنے بچوں کے لیئے ریڈیو خریدا ہے۔۔۔۔۔۔نئی آبادی میں آپ کی تیسری کوٹھی بن رہی ہے۔۔۔۔۔۔آپ۔۔۔۔۔۔آپ۔۔۔۔۔۔مگر میں زیادہ باتیں نہیں کرنا چاہتا۔ 

پروپرائٹر: آپ کیا چاہتے ہیں؟ 

باری: میں چاہتا ہوں میرا حساب چکا دیا جائے۔۔۔۔۔۔میں باز آیا ایڈیٹری سے۔ 

پروپرائٹر: آپ کسی اور اخبار میں جانا چاہتے ہیں؟ 

بار ی: جی نہیں۔۔۔۔۔۔اخباری زندگی کو میں اب دُور ہی سے سلام کہوں گا۔ 

پروپرائٹر: تو آپ کیا کریں گے؟ 

باری: میں گھاس چھیلنا شروع کردوں گا لیکن کسی اخبار میں کام نہیں کروں گا۔ 

پروپرائٹر: مگر افسوس ہے کہ میں اس وقت آپ کا حساب نہیں چکا سکتا۔ 

باری: مجھے آپ دو مہینے کی تنخوا دے د یجیئے بقایا مہینوں کی تنخواہ میں آپ سے طلب نہیں کرتا۔ 

پروپرائٹر: آپ کی بڑی نوازش ہے۔۔۔۔۔۔میرے پاس اس وقت اتنے روپے بھی نہیں ہوں گے۔ 

باری: آپ کتنے میں فیصلے کرنا چاہتے ہیں۔فرمائیے! 

پروپرائٹر: میرے پاس اس وقت اسّی روپے ہیں۔ 

باری: لائیے اسّی ہی لائیے۔ 

پروپرائٹر: کم از کم پانچ تو میرے پاس رہنے دیجئے۔ 

باری: پانچ آپ اپنے پاس ر کھیئے۔ لائیے پچھتر ہی لائیے۔ 

(پریس کی گڑگڑاہٹ شروع ہو۔۔۔۔۔۔چند لمحات کے بعد یہ آواز چارہ کاٹنے والی مشین کی آواز میں تحلیل ہو جائے۔) 

باری: السلام علیکم۔ 

چودھری: وعلیکم السلام۔۔۔۔۔۔فرمائیے۔ 

باری: ایک دو مرتبہ ادھر سے گزرا۔ آپ سے ملنے کو طبیعت چاہی۔آج آگیا۔ 

چودھری: بیٹھئے۔۔۔۔۔۔ُ حقہ پیجئے۔ 

باری: (کش لے کر) تمباکو بہت اچھا ہے۔ 

چودھری: آپ بناتا ہوں۔بازار کے تمباکو سے مجھے تسکین نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔(وقفہ)۔۔۔۔۔۔(کش لے کر) فرمائیے آپ کیا کام کرتے ہیں۔ 

باری: آج کل تو بیکار ہوں۔پہلے اخبار میں کام کیا کرتا تھا۔ 

چودھری: (ہنس کر) تو بھئی تم خطرناک آدمی ہوئے۔۔۔۔۔۔ کیوں چھوڑ کیوں دیا یہ کام۔ 

باری: پسند نہیں آیا۔۔۔۔۔۔ کام زیادہ کرنا پڑتا تھا اور پیسے کم ملتے تھے۔ 

چودھری: اماں ہمیں کیوں بناتے ہو استاد۔۔۔۔۔۔ اخبار والوں کے پاس تو دولت کے انبار لگے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ قلم ہلایا اور ہزاروں اینٹھ لیئے۔ 

باری: دوست: اخبار کا مالک میں نہیں تھا کوئی اور تھا۔۔۔۔۔۔ اچھا تم یہ تو بتاؤ تمہارا گزر کیسا ہورہا ہے؟ 

چودھری: بڑے مزے میں گزرتی ہے۔۔۔۔۔۔یہ چارہ کترنے والی مشین لگا رکھی ہے۔اکیلی جان ہے۔روز کی کوئی ڈیڑھ دو روپے کی آمدن ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔سارا دن یہاں دکان پر گزارتا ہوں۔شام کو ٹھیکے چلا جاتا ہوں۔اور گپیں ہانک کر پھر ٹہلتا ٹہلتا یہاں آجاتا ہوں۔گرمیوں میں دکان کے باہر چھڑکاؤ کرکے سو جاتا ہوں۔سردیوں میں اندر گھاس کے پاس چارپائی بچھا لیتا ہوں۔ 

باری: کتنی قابل رشک زندگی ہے۔۔۔۔۔۔واللہ چودھری بڑے خوش قسمت انسان ہو۔۔۔۔۔۔ کسی قسم کی فکر تمہیں نہیں۔ آرام سے زندگی بسر کررہے ہو۔۔۔۔۔۔ پر یہ تمہیں چارہ کاٹنے والے مشین لگانے کا خیال کیسے آیا۔۔۔۔۔۔ یعنی تم نے کوئی اور کام کیوں نہ شروع کردیا؟ 

چودھری: معلوم نہیں کیسے آیا۔۔۔۔۔۔ بس آہی گیا اور میں نے جھٹ سے ایک مشین خرید لی۔۔۔۔۔۔ اب بیٹھا مزے کررہا ہوں۔ 

باری: میں بھی یہی کام شروع کرتا ہوں۔ 

چودھری: یہ تو وہی ہوا۔پڑھیں فارسی بیچیں تیل۔ 

باری: (ہنستا ہے)۔۔۔۔۔۔عجب تیری قدرت عجب تیرے کھیل۔ 

(چارہ کترنے والی مشین کی آواز۔۔۔۔۔۔پہلے بلند بعد میں آہستہ آہستہ جب آہستہ ہو جائے تو ذیل کا ٹکڑا اس پر سپر امپوز کیا جائے) 

باری: (ہنستا ہے)۔۔۔۔۔۔ روز ڈیڑھ دو روپے کی آمدن ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ سارا دن یہاں دکان پر گزارتا ہوں۔۔۔۔۔۔ شام کو ٹھیکے چلا جاتا ہوں اور گپیں ہانک کر پھر ٹہلتا ٹہلتا یہاں آجاتا ہوں۔۔۔۔۔۔ خبریں ترجمہ کرنا پڑتی ہیں نہ کاپی جوڑنا پڑتی ہے۔۔۔۔۔۔ٹیلی فون کی بک بک نہ مراسلوں کی بکواس۔۔۔۔۔۔ کاتب نہ رائٹر کی سروس۔۔۔۔۔۔واللہ کیا گُر بتایا ہے میرے دوست نے۔۔۔۔۔۔(ہنستا ہے)گرمیوں میں دکان کے باہر چھڑکاؤ کرکے سو جاتا ہوں۔سردیاں آئیں گی تو اندر گھاس کے پاس چارپائی بچھالیا کروں گا۔۔۔۔۔۔کتنی اچھی زندگی ہے۔۔۔۔۔۔ میری تو یہ مرضی ہے کہ سب ایڈیٹروں کو جو اخباروں میں اپنی زندگی تباہ کررہے ہیں۔ یہ گُر بتا دوں۔۔۔۔۔۔اپنے اپنے شہر میں ایسی مشین لگوالیں اور مجھے دعائیں دیں۔۔۔۔۔۔(ہنستا ہے) 

(مشین کی آواز آہستہ آہستہ شراب خانے کے شور میں تحلیل ہو جائے) 

ایک شرابی: (لہر میں آکر)اماں ہم نے جو خرچ کر ڈالا وہ کسی کو پیدا کرنا بھی نصیب نہ ہوا ہوگا۔۔۔۔۔۔ لاکھوں کمائے کروڑوں اُڑا دیئے۔۔۔۔۔۔ کسی کے دینے میں نہ لینے میں۔ 

دوسرا: واہ بھئی استاد! کیوں نہ ہو۔۔۔۔۔۔اچھی لن ترانیاں ہیں۔ بابا تو آپ کے عمر بھر فالودہ بیچا کیئے دادا جوتے گانٹھتے بوڑھے ہوئے۔ آپ نے کمایا کیا اور لٹایا کیا۔ 

پہلا: نرے گاؤدی ہو۔۔۔۔۔۔ارے میاں گپ اڑانے سے بھی کیا ہم گزرے۔۔۔۔۔۔ بھئی خیر بیٹھو یا جاؤ مگر ازبرائے خدا ہتھے پر نہ ٹوکو۔۔۔۔۔۔ کہاں گیا لالہ چھجو مل۔۔۔۔۔۔اے لالہ۔۔۔۔۔۔ 

چھجو مل: بول تیرے پاس ہی تو کھڑا ہوں۔ 

پہلا: تو میرا داتا ہے۔۔۔۔۔۔ داتا تیری دکان پر ہُن برسے۔۔۔۔۔۔ ہاں ایسی پلا کہ خوب سُرور گھٹیں۔۔۔۔۔۔ پیتے ہی لے اڑے۔۔۔۔۔۔چلُو میں الُّو ہو جائیں۔۔۔۔۔۔ باری۔۔۔۔۔۔ارے باری۔۔۔۔۔۔آج تک تونے توہماراہی خون پیا۔۔۔۔۔۔آ۔۔۔۔۔۔اِدھر میرے پاس بیٹھ۔ 

تیسرا شرابی: ہاں رہے۔۔۔۔۔۔رہے۔۔۔۔۔۔ایک بوتل رہے۔۔۔۔۔۔تم نے سُنا نہیں۔۔۔۔۔۔شراب پی کر آگ میں پھاند پڑے تو آگ گُل ہو جائے۔۔۔۔۔۔ اور جو سمندر میں کودے تو انسان سے پُل ہو جائے۔ 

باری: اور زیادہ پی جائے تو قُل ہو جائے(ہنستا ہے)۔ 

(باری کے ہنسنے پر باقی کے شرابی بھی ہنسنا شروع کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔تھوڑی دیر کے لیئے ایک طوفان سا مچ جاتا ہے) 

پہلا شرابی: ماں قسم کیا بات کہی ہے۔۔۔۔۔۔ زیادہ پی جائے تو قل ہو جائے۔۔۔۔۔۔بھئی آدمی بڑے سمجھ دارہو۔ 

دوسرا شرابی: قر بان جاؤں میں اس لال پری کے۔ 

باری: لالہ چھجو مل۔۔۔۔۔۔اے لالہ چھجو مل۔۔۔۔۔۔ایک ادھّا بھیج دے میرے یار۔۔۔۔۔۔ آج پھر ایسے نشے آئیں کہ طبیعت صاف ہو جائے۔۔۔۔۔۔ آج کی ساری کمائی تیری صندوقچی میں چلی جائے۔ 

دوسرا شرابی: واہ میرے شیر۔ 

(ایک شرابی گانا شرو ع کرتا ہے) 

پہلا شرابی: بوائے بوائے۔ 

سارے: یس سر۔یس سر۔ 

پہلا شرابی: دے دے اعلیٰ۔بھر بھر پیالہ۔پینے والا ہومتوالا۔ 

سارے: بادل برسے کالا کالا۔پھولا آنکھوں میں گلِ لالہ۔ 

دوسرا شرابی: کیسا چھایا ہے ہریالہ۔۔۔۔۔۔ ایکشا نمرون کا بہا دے نالا۔ 

سارے: نہ رکھنا باقی ساقی ہو ترا بول بالا۔ 

باری: کھڑے ہیں تیرے در پہ لیئے پیمانہ۔ 

سارے: پلا دے میرے ساقی آباد میخانہ۔ 

دوسرا شرابی: دنیا سے کیا لے جانا۔ پینا کھانا موج اُڑانا۔ 

(اس کورس کے بعد سب خوش ہو کر ہنستے اور شور مچاتے ہیں) 

باری: (جی بھر کے ہنسنے کے بعد)۔۔۔۔۔۔ واللہ کیا دلچسپ زندگی ہے۔ سارے دُکھ اُڑن چھو ہوگئے ہیں۔۔۔۔۔۔(وقفہ)۔۔۔۔۔۔ میں خوش ہوں۔۔۔۔۔۔ میں بہت خوش ہوں۔ 

دوسرا شرابی: تو خوش ہے تو میں بھی خوش ہوں۔ میں خوش ہوں تو تو بھی خوش ہے۔ 

پہلا شرابی: اور کیا ہم خوش نہیں؟ 

دوسرا شرابی: تو بھی خوش ہے۔ 

ایک آدمی: بھئی کچھ سُنا تم نے۔۔۔۔۔۔ جنگ چھڑ گئی ہے۔ 

دوسرا آدمی: (بڑی دلچسپی لے کر) سچ مچ۔ 

پہلا آدمی: ہاں ہاں۔۔۔۔۔۔آج کے اخبار میں آگیا ہے۔۔۔۔۔۔ جرمنی نے انگریزوں پر دھاوا بول دیا ہے۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں اب کے بڑی گھمسان کی جنگ ہوگی۔ 

دوسرا آدمی: تو۔۔۔۔۔۔بھرتی تھوڑے ہی دنوں میں شروع ہو جائے گی۔ 

دوسرا شرابی: تو خوش ہے تو میں بھی خوش ہوں۔۔۔۔۔۔میں خوش ہوں تو تو بھی خوش ہے۔۔۔۔۔۔تو خوش ہے تو میں بھی خوش ہوں۔۔۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔۔۔ 

باری: ہاں ہاں تو بہت خوش ہے۔۔۔۔۔۔(اپنے آپ سے)جنگ چھڑ گئی۔ 

دوسرا شرابی: چھڑنے دے۔۔۔۔۔۔آگ لگے دنیا کو۔۔۔۔۔۔تو خوش ہے تو میں بھی خوش ہوں۔۔۔۔۔۔ میں خوش ہوں تو تو بھی خوش ہے(ہنستا ہے) 

باری: جرمنی نے لڑائی شروع کردی۔۔۔۔۔۔ مجھے پہلے ہی اس بات کا کھٹکا تھا۔ میں نے’’خلق‘‘ میں آج سے دو برس پہلے پیشین گوئی کی تھی۔ 

دوسرا شرابی: پیشین گوئی کی تھی۔۔۔۔۔۔ اماں چھوڑ۔۔۔۔۔۔ پیشین گوئی کی تھی۔۔۔۔۔۔کیا پیشین گوئی تھی۔۔۔۔۔۔ لے دیکھ میرا ہاتھ۔۔۔۔۔۔بتا کیا لکھا ہے۔ 

باری: بھئی تمہیں مذاق سوجھتا ہے۔۔۔۔۔۔ ذرا سنو تو کیا باتیں ہورہی ہیں۔۔۔۔۔۔(اپنے آپ سے)۔۔۔۔۔۔ میرا قیاس بالکل درست نکلا۔۔۔۔۔۔ جنگ اٹل تھی۔ چیمبر لین کی کوششیں آخر کو ناکام ہونا ہی تھیں۔ 

دوسرا شرابی: باری۔۔۔۔۔۔یہ تجھے آج کیا ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔ کیا بہکی بہکی باتیں کررہا ہے۔۔۔۔۔۔ کہیں زیادہ تو نہیں پی گیا۔ 

پہلا شرابی: تو ڈراتا کیا ہے۔۔۔۔۔۔ جنگ چھڑتی ہے تو چھڑے۔۔۔۔۔۔ماں قسم میدان میں وہ جلوے دکھاؤں کہ۔۔۔۔۔۔ 

پہلا شرابی: چونچ سنبھال بے۔۔۔۔۔۔بڑا آیا ہے جلوے دکھانے والا۔۔۔۔۔۔بہت بڑھ بڑھ کے باتیں نہ بنا نہیں تو مارتے مارتے اُلّو کردوں گا۔ 

دوسرا شرابی: ابے تیرے ایسے درزی میری جیب میں پڑے رہتے ہیں۔ 

پہلا شرابی: جی چاہتا ہے لکڑی ٹھونس دوں ملعون کے حلق میں۔ 

باری: ارے بھئی لڑونہیں۔۔۔۔۔۔ خاموش بیٹھے رہو۔۔۔۔۔۔ کچھ سوچو۔ یورپ میں جنگ شروع ہوگئی ہے۔۔۔۔۔۔ تم جانتے نہیں یہ ایسی جنگ ہے جو دنیا کا نقشہ بدل دے گی۔ 

پہلا شرابی: جانے کیا واہی تباہی بکتے ہو۔۔۔۔۔۔ ہم کہاں لڑتے ہیں۔۔۔۔۔۔اچھا بھئی صفدر تم ہی بتاؤ کیا ہم لڑرہے تھے؟ 

دوسرا شرابی: نہیں تو۔۔۔۔۔۔کون کہتا ہے ہم لڑرہے تھے۔۔۔۔۔۔تیری قسم آغا یہ بٹیرا بڑا ہی انمول ہے۔۔۔۔۔۔ اس نے اس دن میری سات پیڑھیوں پر احسان کیا۔۔۔۔۔۔ جو کہیں گھٹ جاتا تو بندہ جنگل کی راہ لیتا۔۔۔۔۔۔ میاں جگ میں آبرو ہی آبرو توہے۔۔۔۔۔۔ کیوں آغا۔۔۔۔۔۔ تیری قسم چونچ پکڑ کر ایسی ایسی مروڑیاں دیں کہ جان محمد کا بٹیر اٹھ ہی تو بھاگا۔۔۔۔۔۔ پالی بھر میں آواز گونجنے لگی۔۔۔۔۔۔ اہو ہو ہو۔۔۔۔۔۔وہ مارا ہے۔ واہ میرے شیر۔ خوب پھرا۔۔۔۔۔۔ ہاں بیٹے دے بڑھ کے لات۔۔۔۔۔۔ 

باری: خاموش۔۔۔۔۔۔یہ تم نے کیا بکواس شروع کردی ہے۔۔۔۔۔۔تم لوگ واقعی بالکل جاہل ہو۔۔۔۔۔۔یورپ میں ایک ایسی جنگ شر وع ہوئی ہے جو کئی ملکوں کو دنیا کے نقشے سے ہمیشہ کے لیئے مٹا دے گی۔۔۔۔۔۔لاکھوں کروڑوں آدمی ہلاک ہوجائیں گے۔۔۔۔۔۔ دنیا میں ایک طوفان مچ جائے گا اور تم لوگ بٹیروں کی لڑائی کا حال بیان کررہے ہو۔۔۔۔۔۔ آخرتمہیں کیا ہوگیا ہے۔ 

پہلا شرابی: کیا بکتا ہے یہ۔ 

دوسرا شرابی: (قہقہہ لگا کر) میں نے تو کچھ نہ سمجھا۔۔۔۔۔۔(وقفہ)باری۔۔۔۔۔۔یہ آج تو کیسی باتیں لے بیٹھا ہے؟ 

پہلا شرابی: زیادہ پی گیا ہے۔۔۔۔۔۔ دماغ کو چڑھ گئی ہے۔ 

دوسرا شرابی: بڑی نامراد چیز ہے۔ 

باری: تم بکواس کرتے ہو۔۔۔۔۔۔میں بالکل ہوش میں ہوں۔۔۔۔۔۔تم بیہوش ہو رہے ہو۔ میں جو کچھ اس وقت سوچ رہا ہوں تمہارا فلک بھی نہیں سوچ سکتا۔۔۔۔۔۔تم سب کے سب ان پڑھ بیوقوف اور جاہل ہو۔ 

پہلا: ارے واہ رے میرے مولوی۔ 

باری: تم میری باتوں کا مضحکہ نہ اُڑاؤ۔۔۔۔۔۔(ہنستا ہے) مگر یہ تمہارا قصور نہیں قصور میرا اپنا ہے۔۔۔۔۔۔میں نے اب تک اصلی اصلیت تم سے چھپا کررکھی ہے۔۔۔۔۔۔ تم نہیں جانتے میں کون ہوں اور سیاسی دنیا میں میری کس قدر اہمیت ہے۔ 

پہلا شرابی: میاں تم رستم ہو۔ لے بس اب جانے دو۔۔۔۔۔۔کوئی اور بات کرو۔ 

باری: تمہیں جب تک میری اصلی شخصیت معلوم نہیں ہوگی تم میرا مضحکہ اُڑاتے رہو گے۔ جانتے ہو میں کون ہوں۔۔۔۔۔۔میرا نام عبدالباری ہے۔۔۔۔۔۔ مولانا عبدالباری روزنامہ’’خلق‘‘ کا ایڈیٹر۔ 

(سب قہقہے بلند کرتے ہیں۔) 

پہلا شرابی: (مصنوعی سنجیدگی کے ساتھ)اچھا مولانا تو فرمائیے ہمارے لیئے کیا حکم ہے؟ 

باری: تم جانتے ہویورپ کی اس دوسری جنگ کے اسباب کیا ہیں۔۔۔۔۔۔لو سُنو مجھ سے۔ اس دوسری جنگ کا بیج پہلی جنگ عظیم نے بویا ہے جو سن چودہ سے لے کر سن اٹھارہ تک جاری رہی تھی۔۔۔۔۔۔صلح نامہ و رسائی جو سن انیس سو انیس میں لکھا گیا اس تازہ جنگ کا موجب ہے۔۔۔۔۔۔جرمنی نے اپنی پہلی شکست کے فوراً بعد ہی اپنی تلواروں کو اس تازہ جنگ کے لیئے سان پر لگانا شروع کردیا تھا۔۔۔۔۔۔یہ جنگ صرف اس لیئے لڑی جارہی ہے کہ جرمنی یورپ پر اپنا اقتدار چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔ تم نے ہٹلر کی کتاب نہیں پڑھی۔ اس میں اس نے صاف صاف لکھا ہے کہ جرمن اعلیٰ قوم کے فرد ہیں اس لیئے دوسری نسل کے آدمیوں پر انہیں حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔۔۔۔۔۔ یہ جن بہت خوفناک ہے۔۔۔۔۔۔بہت بھیانک ہے۔۔۔۔۔۔ میں جب اس کے نتائج کا تصور کرتا ہوں تو کانپ اُٹھتا ہوں۔۔۔۔۔۔ یہ جنگ یورپ میں ایک نہیں سینکڑوں زلزلے پیدا کرئے گی۔۔۔۔۔۔ہزاروں طوفان آئیں گے۔۔۔۔۔۔بڑے بڑے خوبصورت شہر ملبے کا ڈھیر بن جائیں گے۔۔۔۔۔۔ ہزاروں خاندان بے گھر اور بے در ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔ میں لکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔میں اس ہولناک جنگ کے متعلق لکھنا چاہتا ہوں۔ 

دوسرا شرابی: (اپنے ساتھی سے) دماغ کو چڑھ گئی ہے۔ 

باری: پہلی جنگ سے لے کر اس جنگ کے آغاز تک کے واقعات کو اگر ہم پیشِ نظر رکھیں تو یہ معلوم کرکے بڑا دُکھ ہوتا ہے کہ مہذب دنیا ذلّت کی دلدل میں دھنستی چلی گئی ہے۔۔۔۔۔۔سائنس کی ترقی جاری رہی ہے لیکن اخلاقی ذمہ داری کا احساس کم ہوتا چلا گیا ہے۔ نوع انسان جہاں تھی وہیں کی وہیں کھڑی ہے۔ نسلی امتیاز اور مذہبی عداوت بڑھتی گئی ہے۔۔۔۔۔۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ پہلے جنگ نما صلح پھر صلح نما جنگ۔۔۔۔۔۔میں پوچھتا ہوں آخر یہ ہماری مہذب دنیا کدھر جارہی ہے۔۔۔۔۔۔کیا ہم پھرجہالت کے زمانے میں واپس جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔کیا ایک بار پھر انسان کا خون پانی سے ارزاں بکے گا۔۔۔۔۔۔ کیا پھر ہمارا گوشت پوست دوسری اجناس کی طرح بازاروں میں بیچا جائے گا۔۔۔۔۔۔ کیا ہونے والا ہے؟۔۔۔۔۔۔ کوئی مجھے بتائے کیا ہونے والا ہے۔۔۔۔۔۔ بے اصولی نے سینکڑوں اصول اور تفرقہ پردازی نے ہزاروں جماعتیں پیدا کردی ہیں۔۔۔۔۔۔انسان انسان کے خلاف ملت ملت سے نبرد آزما۔ ملک ملک سے ستیزہ کار۔۔۔۔۔۔یہ ہے انیسویں صدی کی عبرتناک داستان۔ 

پہلا شرابی: باری میں تم سے ایک بات کہوں۔۔۔۔۔۔ فصد کھلواؤ۔۔۔۔۔۔ فصد۔ 

باری: (غصّے میں)تم۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔تم سب واہیات ہو۔۔۔۔۔۔ شرابی کبابی جاہل کہیں کے۔ 

دوسرا شرابی: میں کہتا ہوں اس کو چڑھ گئی ہے۔۔۔۔۔۔ سر پر ٹھنڈے پانی کا ایک گھڑا انڈیلو تب ہوش آئے گا اسے۔ 

باری: بھئی عجب انسان ہو تم میری بات کیوں نہیں مانتے۔۔۔۔۔۔ خدا کی قسم میں ایڈیٹر ہوں۔۔۔۔۔۔ میری عینک ابھی تک محفوظ پڑی ہے۔۔۔۔۔۔ میرے پاس وہ کپڑے بھی موجود ہیں۔۔۔۔۔۔مجھے دنیا کی تمام سیاسیات کا علم ہے۔ 

پہلاشرابی: تم گھن چکر ہو جی۔۔۔۔۔۔ جانے کیا واہی تباہی بک رہے ہو۔ 

باری: لعنت ہو تم پر۔۔۔۔۔۔(وقفہ)۔۔۔۔۔۔لالہ چھجو مل ایک ادھا اوربھیج دو میں۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔ 

پہلا شرابی: بولو۔بولو رک کیوں گئے۔ 

باری: کچھ نہیں میں بے وقوف ہوں۔ 

دوسرا شرابی: عمرمیں آج تم نے پہلی مرتبہ سچ بولا۔۔۔۔۔۔لے اب گھر چلے جاؤ اور سو جاؤ۔۔۔۔۔۔اور نہ پیو۔۔۔۔۔۔آغا۔۔۔۔۔۔چلو اس کو گھر چھوڑ آئیں۔ 

باری: میں نہیں جاؤں گا۔ 

پہلا شرابی: تیرا باپ بھی جائے گا۔۔۔۔۔۔چلو آغا۔۔۔۔۔۔ 

باری: خبردار جومجھے کسی نے ہاتھ لگایا۔۔۔۔۔۔بدتمیز کہیں کے۔ 

تین چار اکٹھے: زیادہ گڑ بڑ نہ کرو ورنہ کوئی ہڈی پسلی تڑوا لو گے۔ 

(کھینچ گھسیٹ کی آواز) 

(وقفہ) 

پہلا شرابی: دکان کے اندر سوئے گا یا باہر۔ 

دوسرا شرابی: ارے تم اس سے کیا پوچھتے ہو۔۔۔۔۔۔چلو جیب میں سے چابی نکال کر تالا کھولو اور اس کو بند کرو۔ 

باری: یہ لو چابی۔۔۔۔۔۔ تم خدا کے لیئے میری جاں بخشی کرو۔ 

(دروازہ کھولنے کی آواز۔۔۔۔۔۔ کھڑکھڑاہٹ۔۔۔۔۔۔) 

پہلاشرابی: لے اب آرام سے سو جاؤ۔۔۔۔۔۔ خبردار جو پھر تقریر شروع کی۔۔۔۔۔۔یہ تھوڑا سا اچار تمہارے پاس رکھ دیتا ہوں۔ زیادہ طبیعت خراب ہوئی تو کھا لیجیؤ۔ 

دوسرا شرابی: چلو بھئی چلیں۔ 

(دروازہ بند کرنے کی آواز۔۔۔۔۔۔لمبا وقفہ) 

باری: (ہولے ہولے) چلے گئے۔۔۔۔۔۔ نابکار کہیں کے۔۔۔۔۔۔(وقفہ)میری عینک کہاں ہے۔۔۔۔۔۔مل گئی۔۔۔۔۔۔مل گئی۔۔۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔۔۔میں اب پھر مولانا عبدالباری ہوں دنیا اس وقت بہت نازک اور خطرناک حالت میں ہے۔ ہر طرف تشّدد کا بول بالا ہے۔ ہمیں جلد کچھ کرنا چاہیئے۔ لاکھوں نوجوان بے مقصد ادھر ادھر مار ے مارے پھرتے ہیں۔ اس فضول اور زائد توانائی کا نتیجہ تشدد اور انقلاب ہے۔۔۔۔۔۔آج سوسائٹی کی بڑی ضرورت طبقوں اور جماعتوں کی از سر نو ترتیب ہے۔۔۔۔۔۔تہذیب اگر اپنے آپ کو نئے حالات کے مطابق نہ بنائے گی تو تباہ ہو جائے گی۔ لوگوں پر غفلت اور سستی طاری ہے۔ وقت نازک ہے۔۔۔۔۔۔صاحبان! وقت بہت نازک ہے اور ایک نئی انسانی سوسائٹی کا قیام قطعاً لاابدی ہو چکا ہے۔۔۔۔۔۔ کروٹ بدلو یا مٹ جاؤ۔۔۔۔۔۔میرا پریس کہاں ہے۔۔۔۔۔۔ میرا پریس کہاں ہے۔۔۔۔۔۔میں اپنے خیالات نشر کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔(وقفہ۔۔۔۔۔۔ گھاس اور چارہ کترنے والی مشین کی آواز)۔۔۔میرا پریس چل رہا ہے۔۔۔۔۔۔ میرا پریس چل رہا ہے۔۔۔۔۔۔اخباردھڑا دھڑ چھپ کرباہر نکل رہے ہیں۔ صاحبان دنیا کی حالت اس وقت بہت نازک اور خطرناک ہے۔۔۔۔۔۔ایک نئی انسانی سوسائٹی جب تک جنم نہیں لے گی تباہی اور بربادی جاری رہے گی۔۔۔۔۔۔اٹھو کروٹ بدلو ورنہ یاد رکھو مٹ جاؤ گے۔۔۔۔۔۔ نازیت کا بھیانک دیوڈکار رہا ہے۔۔۔۔۔۔کہیں تمہیں اس کی آواز سُنائی نہیں دیتی۔۔۔۔۔۔ کیا آنے والے واقعات تمہیں تاریک سایوں کی طرح پھیلتے نظر نہیں آتے۔۔۔۔۔۔(ہنستا ہے) میرا اخبار چھپ رہا ہے۔ 

(چارہ کترنے والی مشین کی آواز پریس کی گڑگڑاہٹ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔) 

باری: دنیا تباہی کے غار سے بچ جائے گی۔۔۔۔۔۔دنیا میں امن و امان قائم ہو جائے گا میرا اخبار دھڑادھڑ چھپ رہا ہے۔۔۔۔۔۔میرے خیالات پھیل رہے ہیں(پریس کی آواز بہت بلندہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔اور پھر آہستہ آہستہ فیڈآوٹ ہو جاتی ہے۔ یہ آواز پہاڑے یاد کرنے کے شور میں تحلیل کردی جائے۔۔۔۔۔۔اس شور کے بیچ بیچ میں چھڑی مارنے کی آواز بھی آئے) 

باری: (میز پر چھڑی مار کر) شاباش۔شاباش۔۔۔۔۔۔خوب یاد کرو۔۔۔۔۔۔کل تک سارے پہاڑے یاد نہ ہوئے تو سن لو کھال ادھیڑ دوں گا۔ 

(پہاڑے یاد کرنے کا شور۔۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر کے بعد فیڈ آؤٹ) 

مأخذ : کتاب : منٹو کے ڈرامے اشاعت : 1942

مصنف:سعادت حسن منٹو

مزید ڈرامے پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here