ایک دن یہ ہوا کہ میرے من کا طوطا پھدک کر میرے جسم سے باہر آ گیا اور میرے سامنے تپائی پر بیٹھ گیا۔یہ کیا بھائی؟باہر کیوں آگئے ؟ میں نے حیران ہوکر پوچھا۔جسم کے اندر پڑا پڑا میں بڑی گھٹن محسوس کررتھا اس لیے سوچا کہ ذرا باہر کی ہوا کھائی جائے ۔ یہ کہتے ہوئے وہ تپائی سے اڑا اور بڑی میز پر جا کر کتابوں کے اوپر بیٹھ گیا اور ایک کتاب کو چونچ مار کر اس نے کھول دیا۔ارے ارے کیا کرتے ہو؟ کتاب ہے پھٹ جائے گی ۔ اس کی ماں کو ۔پھٹ جائے تو اچھا ہے،انھیں پڑھ پڑھ کر ہی تو تم مجھے اپنی مرضی نہیں کرنے دیتے۔ اچھا ہے، یہ برا ہے، یہ ٹھیک ہے، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ٹھیک ہی تو کہتا ہوں۔ میں نے کہا۔طوطے نے میری بات ان سنی کرتے ہوئے اڑان بھری اور ایک پہاڑ کی تصویر کے چوکھٹے پر جا کر بیٹھ گیا۔ اس میں ایک پہاڑی ندی پتھروں کے بیچ بہتی ہوئی بہت بھلی لگ رہی تھی۔ کچھ دیر وہ ندی کی طرف دیکھتا رہا اور پھر بولا۔جس طرح یہ ندی کا پانی پہاڑوں کے گھیرے میں بند ہو کر نہیں رہ سکتا اسی طرح مجھ سے بھی اب تمھارے اندر نہیں رہا جاتا۔لیکن کیوں۔اس لیے کہ میں نے ایک زندگی تمھارے ساتھ گزار کر دیکھ لی۔تمھارے ساتھ رہ کر میری تو ایک بھی خواہش پوری نہیں ہوئی۔لیکن بھائی میں وہی تو کرتا ہوں جو میں اپنی عقل کے مطابق ٹھیک سمجھتا ہوں۔تمھاری عقل کی دنیا اتنی چھوٹی ہے کہ میرا اس میں دم گھٹنے لگا ہے۔ یہ کہتے ہوئے من کا طوطا تصویر سے اڑا اور باہر کی طرف کھلنے والی کھڑکی پر آ کر بیٹھ گیا۔ کھلی ہوئی کھڑکی کی روشنی میں میں نے اپنے من کے طوطے کی طرف غور سے دیکھا۔ مجھے بڑا ہی خوبصورت لگا۔ گلے میں گہری نیلے رنگ کی گانی،سرخ چونچ، ہرے ہرے پنکھ جیسے۔۔۔کیا دیکھ رہے ہو؟ من کے طوطے نے پوچھا۔
یہی کہ تم بہت خوبصورت ہو ۔اور آج میر امن دنیا کی خوبصورتی دیکھنے کے لیے مچل رہا ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اڑنے کے لیے پنکھ تو لے۔ارے ارے کہاں جاتے ہو؟میں شام تک لوٹ آؤں گا ۔ یہ کہتے ہوئے میرے من کے طوطے نے اڑان بھری اور آنکھ جھپکتے میں آسمان کی کھلی فضاؤں میں پہنچ گیا۔ یوں تو من کا طوطا کبھی بھی میرے قابو میں نہیں رہا۔ تصور ہی تصور میں یہ ان دیکھی،انجانی وادیوں میں بھٹکتا رہتا تھا۔ کبھی گھنے جنگلوں کے سائے میں بھٹکتا پھرتا تو کبھی سائبیریا کے برفیلے علاقے میں پہنچ جاتا،کبھی پیتے ہوئے ریگستان میں سے گزر کر کسی نخلستان کے ٹھنڈے میٹھے سائے میں جا کر لیٹا رہتا، تو کبھی کسی پہاڑی ندی کے کنارے بیٹھ کر پانی کی مدھر قل قل کوسنتا رہتا۔ یہاں تک کہ کبھی کبھی تو اندر بھگوان کی نگری میں پہنچ کر اروشی مینکا کی کمر میں ہاتھ ڈال کر کسی سروور کے صاف شفاف پانی میں اٹکھیلیاں کرتا رہتا لیکن یہ سب تصور ہی تصور میں ہوتا تھا۔ تصور ہی تصور میں یہ کئی قسم کے انوکھے چہرے میرے سامنے لا کر کھڑا کر دیتا۔ یہ کون ہیں؟ میں ٹوکتا۔یہ تمھارے تخیل کی ایج ہیں ۔من کا طوطا کہتا۔ میر اتخیل یا تمھارا اپنا فتور؟کچھ بھی سمجھو، زندگی میں تمھارا ان سب سے رشتہ ہے۔نہیں، یہ میرے کچھ نہیں لگتے۔کیا تم خدا کی کائنات سے باہر ہو؟ من کا طوطا پوچھتا۔ یاہر تو نہیں لیکن میں ان کو نہیں جانتا۔اگر کائنات کے بھید جاناا چاہتے ہوتو ان سب کو دیکھو، جو میں تمھیں دکھا رہا ہوں ۔ یہ کہتے ہوئے وہ ایک نیا چہرہ میرے سامنے لاکر کھڑا کر دیتا یا پھر آن کی آن میں کسی انجانے دیش کے انجانے شہر میں کسی پل پر کھڑا ہو کر نیچے بہتے ہوئے دریا کا نظارہ دیکھنے میں محو ہو جاتا۔ یہ سب تو اکثر ہوتا تھا، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا جیسا اس دن ہوا کہ وہ بذات خود میرے وجود سےباہر نکل آیا اور اب پتہ نہیں خدا کی کائنات میں کہاں بھٹک رہا تھا۔
اس دن میں سارا دن پریشان رہا۔ اس پریشانی کے عالم میں کہیں آنکھ لگ گئی تو کندھے کے نیچے میرے بازو پر پتہ نہیں کسی چیز نے کاٹ لیا۔ میرے گھر میں چوہے بہت ہیں، ادھر اُدھر بھی گھومتے رہتے ہیں اور پھر کوڑھ کر لیاں بھی ہیں۔ پتہ نہیں کس نے مجھے بے سدھ پا کر کاٹ لیا تھا۔ پٹی کر دینے سے لہو بہنا تو بند ہو گیا تھا مگر بازو میں درد کافی ہوتا رہا۔اس پریشانی میں کسی نہ کسی طرح شام ہوگئی۔ بازو کے درد سے زیادہ مجھے من کے طوطے کی فکر تھی۔ اسی لیے آسمان کی طرف آنکھیں جمائے بیٹھا تھا۔ تبھی میرے من کا طوطا دھیرے دھیرے اڑتا ہوا آیا اور کھڑکی کے راستے سے کمرے میں داخل ہو کر تپائی پر بیٹھ گیا۔میں نے دیکھا اس کا حلیہ بیرنگ ہو رہا تھا،پنکھ نچے ہوئے تھے، چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ کہو کیسی بیتی؟ میں نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے تپائی سے اٹھا کر ہاتھ کی ہتھیلی پر بٹھا لیا۔ کچھ دیر تک وہ اپنی سانس قابو میں کرتا رہا۔ جب اس کا دم میں دم آیا تو بولا ۔ آج میرے ساتھ بہت بری ہوئی ۔ اور پھر اس نے اپنی کہانی سنانی شروع کی۔میں یہاں سے اڑا تو بہت دور ایک بہت بڑے پیٹروں کے جھنڈ میں اترا، وہاں طرح طرح کے پکشی چہک رہے تھے۔ وہاں اپنے بھائی بندوں کے بیچ پہنچ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ جس پیٹر پر میں اترا تھا وہ بھی بڑا سندر تھا۔ جسم میں کچھ ٹھنڈک آئی تو میں نے چاروں طرف دیکھا۔ کبوتر کوے، مینا، چڑیا، بھی پھدک رہے تھے۔ تبھی میں نے ایک ٹہنی پر طوطوں کی ایک ٹولی دیکھی ۔ ان میں ایک طوطی مجھے بہت اچھی لگی۔ میرے من میں آئی کہ اس طوطی کے پاس چل کر بیٹھتا ہوں، کچھ من بہل جائے گا۔ ابھی اس کے پاس جانے کی بات سوچ ہی رہا تھا کہ ایک طوطے کی نظر مجھ پر پڑگئی۔ پہلے تو وہ کچھ دیر مجھے گھور گھور کر دیکھتا رہا، مگر پھر اس نے ایسی ٹیں ٹیں شروع کی کہ اس کے ساتھ مل کر باقی طوطے بھی ٹیں ٹیں کرنے لگے ۔ میری سمجھ میں ہی نہ آیا کہ ماجرا کیا ہے۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ کبھی طوطے ایک ساتھ وہاں سے اڑے اور میری طرف جھپٹے، ان سے گھبرا کر میں ایسا دم دبا کر اڑا ہوں کہ کچھ پوچھو نہیں۔اور ان طوطوں نے تمھارا پیچھا چھوڑ دیا۔
مجھ سے تیز بھلا اس دنیا میں کون اڑ سکتا ہے، پیچھا نہ چھوڑتے تو کیا کرتے،مگر تم بیچ میں ٹوکو نہیں یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی روداد پھر سنانی شروع کی ۔اب میں پیڑوں کے اس جھنڈ سے اڑا تو اڑتے اڑتے ایک دریا کے کنارے پہنچا۔ وہاں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، اس لیے میں کتنی دیر تک دریا کے ساتھ ساتھ اڑتا رہا۔ بڑا مزا آیا۔ آگے گیا تو دریا کے کنارے ایک بڑا ہی خوبصورت سا پیٹر اگا ہوا دکھائی دیا۔ اس پر لگے ہوئے پھولوں سے بڑی بھینی بھینی خوشبو آرہی تھی۔ دور سے پھول ایسے لگ رہے تھے جیسے آسمان کے ستارے پیٹر پر بیٹھ کر دریا کے بہتے ہوئے پانی کو دیکھ کر من بہلا رہی ہوں۔میں جلدی جلدی پنکھ مارتا ہوا جب اس پیڑ کے قریب پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس پیڑ کے نیچے ایک بہت ہی خوبصورت عورت گہرے آسمانی رنگ کی ساڑی پہنے اپنے دھیان میں مگن دریا کی لہروں کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی میں جلدی سی زمین پر اترا اور طوطے کا جامہ چھوڑ کر انسانی جامہ پہن لیا اور اپنے ذہن میں بہت سے حسین اپنے بکتا ہوا اس پیڑ کی طرف چلنے لگا۔ ابھی میں اس سے دس پندرہ قدم کی دوری پر ہی تھا کہ اس عورت کی باندی نے میرا راستہ روک دیا۔مالکن کے پاس جانے کی کسی کو اجازت نہیں ۔کیوں کیا بات ہے؟دیکھتے نہیں، وہ اپنے محبوب کی یاد میں کس طرح ڈوبی ہوئی ہیں ۔کون ہے ان کا محبوب؟میں نے بے چین ہو کر پوچھا۔ دیکھا تو اس کو انھوں نے بھی نہیں، بس ایک بار سپنے میں آیا تھا۔ہو سکتا ہے وہ میں ہی ہوں، ہوسکتا ہے وہ میری ہی باٹ دیکھ رہی ہوں۔ میں بھی ایسے سپنے بہت دیکھتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے میں نے آگے قدم بڑھانا چاہا تو اونچے پھن لہراتے ہوئے دو سانپوں نے میرا راستہ روک دیا۔ میں نے ڈر کر جھٹ سے اپنا قدم واپس لے لیا تو وہ سانپ بھی نظروں سے اوجھل ہو گئے ۔میری مالکن کے پاس جا کر قسمت آزمانا چاہتے ہو تو پہلے تمھیں اس بستی میں جانا ہوگا۔باندی نے دریا سے تھوڑا ہٹ کر بسی ہوئی ایک بستی کی طرف اشارہ کیا۔ وہاں ہاٹ لگی ہوئی ہے، ہیرے موتی بک رہے ہیں، چمکتے دمکتے زیور بک رہے ہیں، خوبصورت مکان بک رہے ہیں۔ یہ سب خرید کر آؤ تو تمھیں چند قدم دریا کے کنارے چلتے ہوئے مالکن سے بات کرنے کا موقع مل جائے گا اور اب جو میں کہہ رہی ہوں اسے دھیان سے سنو اگر دریا کے کنارے چلتے ہوئے ریت پر بنے والے تمھارے پاؤں کے نشان پانی کی لہروں سے مئے نہیں تو مالکن سمجھ جائے گی کہ تم ہی اس کے سپنے والے محبوب ہو۔یہ پاؤں کے نشان نہ مٹنے کا کیا راز ہے؟کوئی راز نہیں، سپنے میں جو محبوب اس کے پاس آیا تھا، اس نے اپنی یہی نشانی بتائی تھی۔ یہ کہ دریا کے کنارے جب وہ مالکن کے ساتھ چلے گا تو اس کے پاؤں کے نشان مٹیں گے نہیں ؟ہاں۔میں نے ایک نظر بھر کر مالکن کی طرف دیکھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے مینکا اور اروشی اندر کا دربار چھوڑ کر اس دھرتی پر آگئی ہوں، یا پھر وہ اس دھرتی کا سب سے خوبصورت پھول تھی، سب سےخوبصورت عورت۔ مجھے اس کی خوبصورتی میں گم ہو کر بت بنتے دیکھ کر اس کی باندی نے جھنجھوڑا ۔ اگر تمھیں کوشش کرنی ہے تو جلد جاؤ تم سے پہلے بھی کئی لوگ جاچکے ہیں۔ اگر وہ سب کچھ حاصل کر کے پہلے لوٹ آئے تو تم ہاتھ ملتے رہ جاؤ گے۔میں نے سوچا قسمت آزمانے میں کوئی حرج نہیں، اور فورا چل دیا۔جب میں اس بستی میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بازار میں بڑی گہما گہمی ہے۔ پہلی ہی ہاٹ پر ہیرے موتیوں اور سونے کے سکوں کا بہت بڑا ڈھیر لگا ہوا تھا اور اس کا مالک ایک ایسا آدمی تھا جس کی گردن کے اوپر آدمی کے سر کے بجائے سانپ کا پھن لہرارہا تھا۔
یہ دھن دولت کا ڈھیر کتنے کا ہے؟ میں نے پوچھا۔ دهن دولت کی قیمت دھن تو ہوہی نہیں سکتا ۔ دکاندار نے اپنی دو پھاڑ زبان کو لہراتے ہوئے کہا۔تو پھر یہ کیسے مل سکتا ہے؟مل سکتا ہے، بڑی آسانی سے مل سکتا ہے۔بتاؤ تو کیسے؟صرف ایک بار اپنے بازو پر مجھے کاٹ لینے دو، یہ ساری دولت تمھاری ہو جائے گی۔سانپ کے کاٹنے سے مجھے دردتو بہت ہوا لیکن میں نے وہ دولت کا ڈھیر حاصل کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک آدمی کہ جس کا چہرہ جونک جیسا تھا، زیور بیچ رہا تھا۔ اس کی شرط یہ تھی کہ جو بھی اسے ایک بار پیٹ بھر خون چوس لینے دے گا، اسے وہ سارے زیور دے دے گا۔ میں نے جلدی سے جونک سے اسی جگہ سے خون چسوا لیا جہاں سانپ نے کاٹا تھا اور اس طرح میں نے سارے زیور حاصل کر لیے۔ اب مکان کی کسررہ گئی تھی۔ اتفاق سے اگلا دُکاندار مکان ہی بیچ رہا تھا۔ جب وہ مجھے اپنا مکان دکھا رہا تھا تو اس کے چہرے پر کوئل کا چہرہ تھا اور اس کی آواز بڑی سریلی اور میٹھی تھی لیکن جب مکان مجھے ہر لحاظ سے پسند آ گیا اور دام طے کرنے کی نوبت آئی تو اس دُکاندار نے اپنی گردن سے کوئل کا چہرہ اتار کر اس پر عقاب کا چہرہ لگایا۔ اف کتنی بھیا نک تھی اس کی وہ شکل ،اس کی گول گول آنکھوں میں تو جیسے خون اتر آیا تھا۔ وہ بولا۔ یہ دھن دولت اور زیور سب کچھ ایک طرف رکھ دو اور آسمان پر اڑتے ہوئے ان پکشیوں کو گنو ۔ اگر تم نے صحیح گن دیا تو مکان کے ساتھ ساتھ روپیہ پیسہ اور زیور سب کچھ تمھارا ہو جائے گا۔ لیکن اگر گفتی غلط ہوگئی تو مکان تو ملے گا نہیں، اپنے دھن دولت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔میں نے اس کی شرط مان لی اور پکشی گن کر کہا۔ بیس۔نہیں ، اکیس ۔ اور اس نے مجھے اکیس پیشی گنوا کر میرا سارا دھن دولت سمیٹ لیا۔ اس طرح میں نے پانچ بار سانپ کو کٹوایا۔ پانچ بار جونک سے لہو چسوایا لیکن ہر بار یہ ہوتا کہ پکشی گنتے وقت مجھ سے غلطی ہو جاتی۔ میں گنتا اکیس تو پکشی بائیس نکلتے۔ میں کہتا تیئسں تو پکشی چوبیس نکلتے۔ آخر چھٹی بار کان کے مالک کو مجھ پر ترس آ گیا، ویسے بھی وہ اپنے مکان کے پانچ گنا دام تو مجھ سے وصول کر ہی چکا تھا، اس لیے اس نے کہا ۔ تیر اعشق سچا ہے، تیری ضرورت بھی بڑی ہے اس لیے پکشی گنے بغیر ہی میں مکان تم کو دیتا ہوں۔ بس پھر کیا تھا، میں اپنا دھن دولت اور زیور اس مکان میں رکھ کر الٹے پاؤں دریا کے کنارے پہنچاتو نہ تو وہ پھولوں سے لدا پیڑ ہی مجھے دکھائی دیا اور نہ ہی وہ پھول سی عورت ہی وہاں موجود تھی ۔ جہاں تک میری نظر جاتی تھی صرف دریا کا پانی تھا جو قل قل کرتا ہواحد نظر تک بہتا چلا جارہا تھا۔میں بہت دیر تک وہاں مایوس سا کھڑا رہا۔آخر سوچا واپس ہی چلوں۔تبھی دریا کے کنارے پر میری نظر گئی۔ کسی کے پاؤں کے گہرے نشان بستی کی طرف جاتےہوئے دکھائی دے رہے تھے۔تو اس عورت کو اس کا محبوب مل گیا ۔ میں نے سوچا۔میری نظر ان قدموں کے نشانوں کا پیچھا کرتی ہوئی بستی کی طرف اٹھی تو مجھے لگا جیسے میرے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکتی جارہی ہو ۔ دور دور تک کسی بستی کے کوئی آثار نہیں تھے ۔ بس ایک چٹیل میدان تھا جو افق تا افق پھیلتا چلا گیا تھا۔ اب حیران ہو کر یہ دیکھتا ہوں کہ میرے پاؤں کے نیچے زمین بھی ہے یا نہیں، تو پایا کہ زمین تو ہے مگر وہ دریا اور اس کا قل قل کرتا پانی غائب ہے۔ میں کسی جادو نگری میں پہنچ گیا ہوں۔ میں نے سوچا اورگھبرا کر جلدی سے اپنے انسانی جامے کو وہیں چھوڑا اور پھر وہی من کا طوطا بن کر اڑان بھری ، اب تمھارے پاس آ گیا ہوں۔میرے من کے طوطے کی کہانی ختم ہو گئی تو اس نے اپنی گردن یوں نیچے ڈال دی جیسے بہت تھک گیا ہو۔ ایک ہی ہتھیلی پر اسے بٹھائے ہوئے میرا بازو بھی تھک گیا تھا۔ اس لیے میں اسے دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر بٹھانے لگا تو بازو میں درد کے مارے میری چیخ نکل گئی۔ کیوں کیا ہوا؟ اس نے گھبرا کر پوچھا۔ جہاں تم نے سانپ سے کٹوایا تھا وہاں درد ہو رہا ہے۔
تب تو بہت سا خون بھی شریر سے نکل گیا ہوگا۔ہاں، جونک چھ چھ بار چوسے گی تو وہ کچھ تو ہوگا ہی۔مجھے واقعی بڑی شرمندگی ہے ۔من کے طوطے نے کہا اور اس نے ایک مرتبہ پھر گردن نیچے ڈال دی۔ تمھیں آرام کی ضرورت ہے۔ میں نے اسے ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا۔ہاں ہے تو ۔ یہ کہتے ہوئے من کا طوطا فورا جسم میں داخل ہو گیا۔اگلے دن صبح ہوئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ پھر پہلے کی طرح نوبہ نو، تازہ بہ تازہ میرے جسم سے نکل کر میرے سامنے تپائی پر بیٹھ گیا۔ پھر اسی طرح پھدکتا ہوا پہاڑ کی تصویر کے پاس گیا اور پھر وہاں سے مجھے کچھ کہے بغیر کھڑکی کے راستے باہر نکل گیا۔تب سے میرے من کے طوطے کا یہ حال ہے۔ پتہ نہیں زندگی کی کون کون سی کششیں ہیں جو میرے من کے طوطے کو اپنی طرف بلاتی ہیں، پتہ نہیں کیسے کیسے میٹھے سپنے اپنے دل میں سموئے ہشاش بشاش وہ گھر سے روز نکلتا ہے اور ہر شام تھکا ہارا، مایوس اور اداس واپس لوٹ آتا ہے۔ اپنے من کے طوطے کی نئی درد بھری داستان سننے کے لیے میں ہر شام تیار رہتا ہوں۔
مصنف:رتن سنگھ