لاجونتی

0
212
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

ہتھ لائیاں کملاں نی لاجونتی دے بوٹے۔۔۔۔یہ چھوٹی موئی کے پودے ہیں ری ، ہاتھ بھی لگاؤ تو کھلا جاتے ہیں۔ایک پنجابی گیت بٹوارا ہوا اور بے شمار زخمی لوگوں نے اٹھ کر اپنے بدن پر سے خون پونچھ ڈالا اور پھر سب مل کر ان کی طرف متوجہ ہو گئے جن کے بدن صحیح و سالم تھے لیکن دل زخمی۔۔۔گلی گلی محلے محلے پھر بساؤ،کمیٹیاں بن گئی تھیں اور شروع شروع میں بڑی تندہی کے ساتھ کاروبار میں بساؤ ۔ زمین پر بساؤ اور گھروں میں بساؤ ۔ پروگرام شروع کر دیا گیا تھا لیکن ایک پروگرام ایسا تھا جس کی طرف کسی نے توجہ نہ دی تھی۔ وہ پروگرام مغویہ عورتوں کے سلسلے میں تھا جس کا سلوگن تھا دل میں بساؤ۔اور پروگرام کی نارائن باوا کے مندر اور اس کے آس پاس بسنے والے قدامت پسند طبقے کی طرف سے بڑی مخالفت ہوئی تھی۔ اس پروگرام کو حرکت میں لانے کے لیے مندر کے پاس محلے۔۔ملا۔۔شکور میں ایک کمیٹی قائم ہوگئی اور گیارہ دوٹوں کی اکثریت سے سندر لال بابو کواس کا سیکریٹری چن لیا گیا۔ وکیل صاحب صدر، چوکی کلاں کا بوڑھا محرر اور محلے کے دوسرے معتبر لوگوں کا خیال تھا کہ سندر لال سے زیادہ جانفشانی کے ساتھ اس کام کو کوئی اور نہ کر سکے گا۔ شاید اس لیے کہ سندر لال کی بیوی اغوا ہو چکی تھی اور اس کا نام بھی۔لاجو۔۔۔۔لا جو نتی تھا۔چنانچہ پر بھات پھیری نکالتے ہوئے جب سندر لال بابو، اس کا ساتھی رسالو اور نیکی رام وغیرہ مل کر گاتے۔ ہتھ لائیاں کملانی لاجونتی دے ہوٹے۔۔۔۔تو سندر لال کی آواز ایک دم بند ہو جاتی اور وہ خاموشی کے ساتھ چلتے چلتے لاجونیک کی بات سوچتا، جانے وہ کہاں گئی ہوگی۔ کس حال میں ہوگی، ہماری بابت کیا سوچ رہی ہوگی، وہ کبھی آئے گی بھی یا نہیں۔۔۔۔؟ اور پھر یلے فرش پر چلتے چلتے اس کے قدم لڑکھڑانے لگتے۔ اور اب تو یہاں تک نوبت آگئی تھی کہ اس نے لاجونتی کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا تھا۔ اس کا غم اب دنیا کا غم ہو چکا تھا۔ اس نے اپنے دکھ سے بچنے کے لیے پبلک سیوا میں اپنے آپ کو غرق کر دیا۔ اس کے باوجود دوسرے ساتھیوں کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اسے یہ خیال ضرور آتا کہ انسانی دل کتنا نازک ہوتا ہے۔ ذراسی بات پر اسے ٹھیس لگ سکتی ہے۔ وہ لا جونتی کے پودے کی طرح ہے جس کی طرف ہاتھ بھی بڑھاؤ تو کھلا جاتا ہے لیکن اس نے اپنی لا جونتی کے ساتھ بدسلوکی کرنے میں کوئی بھی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔

وہ اسے جگہ بے جگہ اٹھنے، بیٹھنے، کھانے کی طرف بے توجہی برتنے اور ایسی ہی معمولی باتوں پر پیٹ دیا کرتا تھا۔ اور لاجو ایک پتلی شہوؤت کی ڈالی کی طرح نازک سی دیہاتی لڑکی تھی ۔ زیادہ دھوپ دیکھنے کی وجہ سے اس کا رنگ سنولا چکا تھا۔ طبیعت میں ایک عجیب طرح بے قراری تھی۔ اس کا اضطرار شبنم کے اس قطرے کی طرح تھا جو پارہ بن کر اس بڑے سے پتے پر کبھی ادھر اور کبھی ادھر لڑھکتا رہتا ہے۔ اس کا دبلا پن اس کی صحت کے خراب ہونے کی دلیل نہ تھی ، ایک صحت مندی کی نشانی تھی جسے دیکھ کر بھاری بھر کم سندر لال پہلے تو گھبرایا لیکن جب اس نے دیکھا کہ لاجو ہر قسم کا بوجھ، ہر قسم کا صدمہ حتی کہ مار پیٹ تک سہہ گزرتی ہے تو وہ اپنی بدسلوکی کو بتدریج بڑھا تا گیا اور اس نے حدوں کا خیال ہی نہ کیا جہاں تک پہنچ جانے کے بعد کسی بھی انسان کا صبر ٹوٹ سکتا ہے۔ اس حدوں کو دھندلا دینے میں لاجو نتی خود بھی مدن ثابت ہوئی تھی۔ چونکہ وہ دیر تک اداس نہ بیٹھ سکتی تھی اس لیے بڑی سے بڑی لڑائی کے بعد بھی سندر لال کے صرف ایک بار مسکرا دینے پر وہ اپنی ہنسی نہ روک سکتی اور لپک کر اس کے پاس چلی آتی اور گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہہ اٹھتی۔۔۔پھر مارا تو میں تم سے نہیں بولوں گی۔۔۔صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ ایک دم ساری مار پیٹ بھول چکی ہے۔ گاؤں کی دوسری لڑکیوں کی طرح وہ بھی جانتی تھی کہ مرد ایسا ہی سلوک کرتے ہیں بلکہ عورتوں میں کوئی بھی سرکشی کرتی لڑکیاں خود ہی ناک پر انگلی رکھ کے کہتیں۔۔۔لے وہ بھی کوئی مرد ہے بھلا عورت جس کے قابو میں نہیں آتی ۔ اور یہ مار پیٹ دن کے گیتوں میں چلی گئی تھی خود لا جو گایا کرتی تھی۔ میں شہر کے لڑکے سے شادی نہ کروں گی۔ وہ بوٹ پہنتا ہے اور میری کمر بڑی پتلی ہے لیکن پہلی فرصت میں لا جونے شہر ہی کی ایک لڑکے سے لولگائی اور اس کا نام تھا سندرلال، جو ایک برات کے ساتھ لاجونتی کے گاؤں میں چلا آیا تھا اور اس نے دولہا کے کان میں صرف اتنا سا کہا تھا۔تیری سالی تو بڑی نمکین ہے یار، بیوی بھی چٹ پٹی ہوگی۔لاجونتی نے سندر لال کی اس بات کو سن لیا تھا مگر وہ یہ بھول ہی گئی کہ سندر لال کتنے بڑے بڑے اور بھرے بوٹ پہنے ہوئے ہے اور اس کی اپنی کمر کتنی پتلی ! اور پر بھات پھیری کے سےے ایسی ہی باتیں سندر لال کو یاد آئیں اور وہ یہی سوچتا ایک بار، صرف ایک بار لا جو مل جائے تو اسے سچ مچ ہی دل میں بسالوں اور لوگوں کو بتادوں ان بیچاری عورتوں کے اغوا ہو جانے میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ فسادیوں کی ہوسنا کیوں کا شکار ہونے میں ان کی کوئی غلطی نہیں ۔ وہ سماج جو ان معصوم اور بے قصور عورتوں کو قبول نہیں کرتا۔ انھیں اپنا نہیں لیتا، ایک گلا سڑا سماج ہے اور اسے ختم کر دینا چاہیے۔ وہ ان عورتوں کو گھروں میں آباد کرنے کی تلقین کیا کرتا اور انھیں ایسا مرتبہ دینے کی پریرنا کرتا جوگھر میں کسی بھی عورت،کسی بھی ماں، بیٹی، بہن یا بیوی کو دیا جاتا ہے۔ پھر وہ کہتا۔۔۔ انھیں اشارے اور کنائے سے بھی ایسی باتوں کی یاد نہیں دلانی چاہیے جوان کے ساتھ ہوئیں۔ کیونکہ ان کے دل زخمی ہیں۔ وہ نازک ہیں چھوئی موئی کی طرح ہاتھ بھی لگاؤ تو کھلا جائیں گی۔۔۔دل میں بساؤ۔پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے محلہ ملاشکور کی اس کمیٹی نے کئی پر بھات پھیریاں نکالیں۔ صبح چار پانچ بجے کا وقت ان کے لیے موزوں ترین وقت ہوتا تھا۔ نہ لوگوں کا شور، نہ ٹریفک کی الجھن، رات بھر چوکیداری کر کے کتے تک بجھے ہوئے تنوروں میں سر دے کر پڑے ہوتے تھے۔ اپنے اپنے بستروں میں دبکے ہوئے لوگوں پر بھات پھیری والوں کی آواز سن کر صرف اتنا کہتے۔۔۔او! وہی منڈلی ہے؟! اور پھر کبھی صبر اور کبھی تنک مزاجی سے وہ بابوسندر لال کا اندوہ گیں پروپیگنڈا سنا کرتے۔ عورتیں جو بڑی محفوظ اس پار پہنچ گئی تھیں گوبھی کے پھولوں کی طرح پھیلی پڑی رہتیں اور ان کے خاندان کے پہلو میں ڈنٹھلوں کی طرح اکڑے پڑے پڑے پر بھات پھیری کے شور پر احتجاج کرتے دل میں بساؤ کے فریادی اور اندوہ گیس پرو پیگنڈے کو صرف ایک گانا سمجھ کر پھرسو جاتے۔ لیکن صبح کے سےل کان میں پڑا ہوا شہد بیکار نہیں جاتا۔

وہ سارا دن ایک تکرار کے ساتھ دماغ میں چکر لگا تارہتا ہے اور بعض وقت تو انسان اس کے منیھ کو بھی نہیں سمجھتا پر گنگناتا جاتا ہے۔ اسی آواز کے گھر کر جانے کی بدولت ہی تھا کہ ان ہی دنوں جب کہ مس مر دولا سارا بھائی ہند اور پاکستان کے در میان اغوا شدہ عورتیں تبادلے میں لائیں تو محلہ ملا شکور کے کچھ آدمی انھیں پھر سے بسانے کے لیے تیار ہو گئے ۔ ان کے وارث شہر سے باہر چو کی کلاں پر انھیں ملنے کے لیے گئے ۔ مغویہ عورتیں اور ان کے لواحقین کچھ دیر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور پھر سر جھکائے اپنے اپنے برباد گھروں کو پھر سے آباد کرنے کے کام پر چل دیے۔ رسالو اور نیکی رام اور سندر لال بابو کبھی مہندر سنگھ زندہ باد اور کبھی سوہن لال زندہ باد۔کے نعرے لگاتے۔۔۔اور وہ نعرے لگاتے رہے حتی کہ ان کے گلے سوکھ گئے۔ لیکن مغویہ عورتوں میں ایسی بھی تھیں۔جن کے شوہروں، جن کے ماں باپ، بہن بھائیوں نے انھیں پہچانےہ سے انکار کر دیا تھا۔ آخر وہ مرکیوں نہ گئیں؟ اپنی غفت اور عصمت کو بچانے کے لیے انھوں نے زہر کیوں نہ کھالیا ؟ کنویں میں چھلانگ کیوں نہ لگادی؟ وہ بزدل تھیں جو اس اس طرح زندگی سے چھٹی ہوئی تھیں۔ سینکڑوں ہزاروں عورتوں نے اپنی عصمت لٹ جانے سے پہلے اپنی جان دے دی لیکن انھیں کیا پتہ کہ وہ زندہ رہ کر کسی بہادری سے کام لے رہی ہیں۔ کیسے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے موت کو گھور رہی ہیں ایسی دنیا میں جہاں ان کے شوہر تک انھیں نہیں پہچانتے۔ پھر ان میں سے کوئی جی ہی جی میں اپنا نام دہراتی۔۔۔سہاگ ونتی۔۔۔سہاگ۔۔۔اور اپنے بھائی کو اس جم غفیر میں دیکھ کر آخری بار اتنا کہتی۔۔۔تو بھی مجھے نہیں پہچانتا بہادری؟ میں نے تجھے گودی کھلایا تمھارے۔۔۔اور بہادری چلا دینا چاہتا۔ پھر وہ ماں باپ کی طرف دیکھتا اور ماں باپ اپنے جگر پر ہاتھ رکھ کے نارائن بابا کی طرف دیکھتے اور نہایت بے بسی کی عالم میں نارائن بابا آسماں کی طرف دیکھتا، جو دراصل کوئی حقیقت نہیں رکھتا اور جو صرف ہماری نظر کا دھوکا ہے، جو صرف ایک حد ہے، جس کے پار ہماری نگاہیں کام نہیں کرتیں۔ لیکن فوجی ٹرک میں مس سارا بھائی تبادلے میں جو عورتیں لائیں ، ان میں لاجو نہ تھی ۔ سندر لال نے امید وبیم سے آخری لڑکی کو ٹرک سے نیچے اتر تے دیکھا اور پھر اس نے بڑے خاموشی اور بڑے عزم سے اپنی کمیٹی کی سرگرمیوں کو دو چند کر دیا۔ اب وہ صرف صبح کے سےے ہی پر بھات پھیری کے لیے نہ نکلتے تھے بلکہ شام کو بھی جلوس نکالنے لگے اور کبھی کبھی ایک آدھ چھوٹا موٹا جلسہ بھی کرنے لگے جس میں کمیٹی کا بوڑھا صدر وکیل کا لکا پر شاد صوفی کھنکاروں سے ملی جلی ایک تقریر کر دیا کرتا اور رسالو ایک پیکدان لیے ڈیوٹی پر ہمیشہ موجود رہتا۔ لاؤڈاسپیکر سے عجیب طرح کی آوازیں آتیں۔ پھر کہیں نیکی رام محرر چو کی کچھ کہنے اٹھتے لیکن وہ جتنی بھی باتیں کرتے اور یوں میدان ہاتھ سے جاتے دیکھ کر سندر لال بابو اٹھتا لیکن ایک دو فقروں کے علاوہ کچھ بھی نہ کہہ پاتا۔ اس کا گلارک جاتا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے اور روہانسا ہونے کے کارن وہ تقریر نہ کر پا تا آخر بیٹھ جاتا لیکن مجمع پر ایک عجیب طرح کی خاموشی چھا جاتی اور سندر لال بابو کی ان دو باتوں کا اثر جو اس کے دل کی گہرائیوں سے چلی آتیں، وکیل کا لکا پر شاد صوفی کی ساری ناصحانہ فصاحت پر بھاری ہوتا لیکن لوگ وہیں رودیتے ، اپنے جذبات کو آسودہ کر لیتے اور پھر خالی الذہن گھر لوٹ جاتے۔ ایک روز کمیٹی والے سانجھ کے سےک بھی پر چار کرنے چلے آئے اور ہوتے ہوتے قدامت پسندوں کے گڑھ میں پہنچ گئے۔ مندر کے باہر کے باہر پیپل کے پیڑ کے ارد گر د سیمنٹ کے تپڑے پر کئی شردھالو بیٹھے تھے اور رامائن کی کتھا ہورہی تھی۔ نارائن بابا رامائن کا وہ حصہ سنا رہے تھے جہاں ایک دھوبی نے اپنی دھوبن کو گھر سے نکال دیا تھا اور اس سے کہہ دیا۔ میں راجہ رام چندر نہیں جو اتنے سال راون کے ساتھ رہ آنے پر بھی سیتا کو بسالے گا اور رام چندر جی نے مہاستونتی سیتا کو گھر سے نکال دیا۔ ایسی حالت میں جب کہ وہ گر بھ وتی تھی۔ کیا اس سے بھی بڑھ کر رام راج کا کوئی ثبوت مل سکتا ہے؟ نارائن باوا نے کہا۔ یہ ہے رام راج! جس میں ایک دھوبی کی بات کو بھی اتنی ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔کمیٹی کا جلوس مندر کے پاس رک چکا تھا اور لوگ رامائن کی کتھا اور شلوک کا ورنن سننے کے لیے ٹھہر چکے تھے ۔ سندر لال آخری فقرے سنتے ہوئے کہہ اٹھا۔

ہمیں ایسا رام راج نہیں چاہیے بابا! چپ رہو جی۔ تم کون ہوتے ہو؟خاموش! مجمع سے آوازیں آئیں اور سندر لال نے بڑھ کر کہا ” مجھے بولنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔پھر ملی جلی آواز میں آئیں خاموش ! ہم نہیں بولنے دیں گے ۔ اور ایک کونے میں سے یہ بھی آواز آئی مار دیں گے۔نارائن بابا نے بڑی میٹھی آواز میں کہا۔تم شاستروں کی مان مریادا کو نہیں سمجھتے سندر لال!۔۔سندر لال نے کہا۔۔۔میں ایک بات سمجھتا ہوں بابا۔۔۔رام راج میں دھوبی کی آواز توسنی جاتی ہے لیکن سندر لال کی نہیں۔ان ہی لوگوں نے جو ابھی مارنے پر تلے تھے، اپنے نیچے سے پیپل کی گولریں ہٹا دیں اور پھر سے میٹھے ہوئے بول اٹھے ۔ سنو،سنو،سنو،۔۔۔۔ رسالو اور نیکی رام نے سندر لال بابوکوٹہوکا دیا اور سندر لال بولے ۔ شری رام نیتا تھے، پر یہ کیا بات ہے بابا جی، انھوں نے دھوبی کی بات کوستیہ سمجھ لیا مگر اتنی بڑی مہارانی کے ستیہ پر وشواس نہ کر پائے؟ نارائن بابا نے اپنی داڑھی کی کھچڑی پکاتے ہوئے کہا۔۔۔اس لیے کہ سیتا ان کی اپنی پتنی تھی۔ سندر لال !تم اس بات کی مہانتا کو نہیں جانتے۔ ہاں بابا۔۔۔سندر لال نے بابوجی سے کہا۔ اس سنسار میں بہت سی ایسی باتیں جو میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ میں سچارام راج اسے سمجھتا ہوں جس میں انسان اپنے آپ پر ظلم نہیں کر سکتا۔ اپنے آپ سے بے انصافی کرنا اتنا ہی بڑا پاپ ہے جتنا کسی دوسرے سے بے انصافی کرنا ۔ آج بھی بھگوان رام نے سیتا کو گھر سے نکال دیا ہے اس لیے کہ وہ راون کے پاس رہ آئی ۔ ۔۔اس میں کیا قصور تھا سیتا کا؟ کیا وہ بھی ہماری بہت سی ماؤں بہنوں کی طرح چھل اور کپٹ کی شکار نہ تھی ؟ اس سے ستیہ کے اور استیہ کی بات ہے یا را کشش راون کے وحشی پن کی جس میں دس سرانسان کے تھے لیکن ایک اور سب سے بڑا سر گدھے کا؟ آج ہماری سیتا نردوش گھر سے نکال دی گئی ہے۔۔ ۔سیتا۔۔۔ لاجونتی۔۔۔اور سندر لال بابو نے رونا شروع کر دیا۔ رسالو اور نیکی رام نے تمام وہ سرخ جھنڈے اٹھا لیے جن پر آج ہی اسکول کے چھوکروں نے بڑی صفائی سے نعرے کاٹ کر چپکا دیے تھے اور پھر وہ سب سندرلال با بوزندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے چل دیے۔ جلوس میں سے ایک نے کہا مہاستی سیتا زندہ باد۔ ایک طرف سے آواز آئی ۔ شری رام چندر۔۔۔اور پھر بہت سی آوازیں آئیں۔۔۔خاموش! خاموش! اور نارائن باوا کی مہینوں کی کتھا اکارت چلی گئی۔ بہت سے لوگ جلوس میں شامل ہو گئے جس کے آگے آگے وکیل کا لکاپر شاد حکم سنگھ محرر چوکی کلاں جا رہے تھے، اپنی بوڑھی چھڑیوں کو زمین پر مارتے اور ایک فاتحانہ سی آواز پیدا کرتے ہوئے۔۔۔اور ان کے درمیان کہیں سندر لال جار ہا تھا۔ اس کی آنکھ سے ابھی تک آنسو بہہ رہے تھے ۔ آج اس کے دل کو بری طرح ٹھیں لگی تھی اور لوگ بڑے جوش کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر گا ر ہے تھے۔ ہتھ لائیاں کملاں نی لاجونتی دے ہوٹے۔۔۔ابھی گیت کی آواز لوگوں کے کانوں میں گونج رہی تھی ۔ ابھی صبح بھی نہیں ہو پائی تھی اور محلہ ملا شکور کے مکان ۴۱۴ کی بدھواابھی تک اپنے بستر میں کربناک انگڑائیاں لے رہی تھی کہ سندر لال کا ‘‘گرائیں’’ لال چند جسے اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے سندر لال اور خلیفہ کا لکا پرشاد نے راشن ڈپولے دیا تھا، دوڑا دوڑا آیا اور اپنے گاڑھے کی چادر سے ہاتھ پھیلائے ہوئے بولا۔۔۔بدھائی ہوسندر لال ۔سندر لال میٹھا گڑ چلم میں رکھتے ہوئے کہا۔۔۔کس بات کی بدھائی لال چند؟میں نے لا جو بھابی کو دیکھا ہے۔سندر لال کے ہاتھ سے چلم گر گئی اور میٹھا تمبا کوفرش پر گر گیا۔ کہاں دیکھا ہے؟اس نے لال چند کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے پوچھا اور جلد جواب نہ پانے پر جھنجوڑ دیا۔وا گہہ کی سرحد پر ۔سندر لال نے لال چند کو چھوڑ دیا اور اتنا سا بولا۔ کوئی اور ہوگی۔لال چند نے یقین دلاتے ہوئے کہا۔۔۔نہیں بھیا وہ لا جو ہی تھی،لا جو۔۔۔تم اسے پہچانتے بھی ہو؟ سندر لال نے پھر سے میٹھے تمباکو کو فرش پر سے اٹھاتے اور ہتھیلی پر مسلتے ہوئے پوچھا اور ایسا کرتے ہوئے اس نے رسالو کی چلم حقے پر سے اٹھالی اور بولا۔۔۔بھلا کیا پہچان ہے اس کی؟ایک تیندولہ ٹھوڑی پر ہے، دوسرا گال پر۔۔۔ہاں ہاں ہاں ہاں ۔اور سندرلال نے خود ہی کہہ دیا۔تیسرا ماتھے پر ۔ وہ نہیں چاہتا تھا اب کوئی خدشہ رہ جائے اور ایک دم اسے لا جونتی کے جانے پہچانے جسم کے سارے تیند ولے یاد آ گئے جو اس نے بچپنے میں اپنے جسم پر بنوائے تھے جوان ہلکے ہلکے سبز دانوں کی مانند تھے جو چھوئی موئی کے پودے کے بدن پر ہوتے ہیں۔

اور جس کی طرف اشارہ کرتے ہی وہ کھلانے لگتا ہے۔بالکل اسی طرح ان تندولوں کی طرف انگلی کرتے ہی لاجونتی شرماتی تھی۔۔۔اور گم ہو جاتی تھی ، اپنے آپ میں سمٹ جاتی تھی ۔ گویا اس کے سب راز کسی کو معلوم ہو گئے ہوں اور کسی نامعلوم خزانے کے لٹ جانے سے وہ مفلس ہوگئی ہو۔۔۔سندر لال کا سارا جسم ایک انجانے خوف، ایک انجانی محبت اور اس کی مقدس آگ میں پھنکنے لگا۔ اس نے پھر سے لال چند کو پکڑ لیا اور پوچھا۔لا جو وا گہہ کیسے پہنچ گئی۔۔۔؟لال چند نے کہا۔۔۔ہند پاکستان میں عورتوں کا تبادلہ ہورہا تھا نا۔پھر کیا ہوا۔۔۔؟ سندر لال نے اکڑوں بیٹھتے ہوئے کہا۔ کیا ہوا پھر ؟رسالو بھی اپنی چار پائی پر اٹھ بیٹھا اور تمباکو نوشوں کی مخصوص کھانسی کھانستے ہوئے بولا۔۔۔سچ مچ آگئی ہے لجونتی بھابی؟لال چند نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ وا گہا پر سولہ عورتیں پاکستان نے دے دیں اور اس کے عوض سولہ عورتیں لے لیں لیکن ایک جھگڑا کھڑا ہو گیا۔ ہمارے والنٹیر اعتراض کر رہے تھے کہ تم نے جو عورتیں دی ہیں ان میں ادھیٹر بوڑھی اور بیکار عورتیں زیادہ ہیں۔ اس تنازع پر لوگ جمع ہوگئے اور ادھر کے والنٹیروں نے لاجو بھائی کو دکھاتے ہوئے کہاتم اسے بوڑھی کہتے ہو؟ دیکھو۔۔۔ دیکھو۔۔۔جتنی عورتیں تم نے دی ہیں ان میں سے ایک بھی برابری کرتی ہے اس کی؟اور ہاں لاجو بھابی سب کی نظروں کے سامنے اپنے تیندولے چھپارہی تھی ۔پھرجھگڑا بڑھ گیا۔ دونوں نے اپنا اپنا مال واپس لے لینے کے ٹھان لی۔ میں نے شور مچایا۔لاجو۔۔۔لاجو بھائی۔۔۔مگر ہماری فوج کے سپاہیوں نے ہمیں ہی مار مار کے بھگا دیا۔ اور لال چند اپنی کہنی دکھانے لگا جہاں اسے لاٹھی پڑی تھی۔ رسالو اور نیکی رام چپ چاپ بیٹھے رہے اور سندر لال کہیں دور دیکھنے لگا۔ شاید سوچنے لگا۔ لا جو آئی بھی پر نہ آئی۔۔۔اور سند زلال کی شکل ہی سے جان پڑتا تھا جیسے وہ بیکا نیر کا صحرا پھاند کر آیا ہے اور اب کہیں درخت کی چھاؤں میں زبان نکالے ہانپ رہا ہے۔ منھ سے اتنا بھی نہیں نکلا۔۔۔پانی دے دو ۔ اسے یوں محسوس ہوا بٹوارے سے پہلے اور بٹوارے کے بعد کا تشدد ابھی تک کارفرما ہے۔ صرف اس کی شکل بدل گئی ہے۔ اب لوگوں میں پہلا سا دریغ بھی نہیں رہا۔ کسی سے پوچھو،سانبھر والا میں لہنا سنگھ رہا کرتا تھا اور اس کی بھابی نیتو۔۔۔تو وہ جھٹ سے کہتا‘‘مر گئے’’اور اس کے بعد موت اور اس کے مفہوم سے بالکل بےخبر، بالکل عاری آگے چلا جاتا۔ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر بڑے ٹھنڈے دل سے تاجر انسانی مال، انسانی گوشت پوست کی تجارت اور اس کا تبادلہ کرنے لگے۔ مویشی خریدنے والے کسی بھینس یا گائے کا جبڑاہٹا کر دانتوں سے اس کی عمر کا اندازہ کرتے تھے۔اب وہ جوان عورت کے روپ، اس کے نکھار، اس کے عزیز ترین رازوں، اس کے تیندولوں کے شارع عام میں نمائش کرنے لگے۔ تشد داب تاجروں کی نس نس میں بس چکا ہے۔ پہلے منڈی میں مال بکتا تھا اور بھاؤ تاؤ کرنے والے ہاتھ ملا کر اس پر ایک رومال ڈال لیتے اور یوں ‘‘گپتی’’ کر لیتے گویا رومال کے نیچے انگلیوں کے اشاروں سے سودا ہو جا تا تھا۔ اب ۔۔گپتی۔۔ کا رومال بھی ہٹ چکا تھا اور سامنے سودے ہو رہے تھے اور لوگ تجارت کے آداب بھی بھول گئے ۔ یہ سارا لین دین، یہ سارا کاروبار پرانے زمانے کی داستان معلوم ہورہا تھا جس میں عورتوں کی آزادانہ خرید و فروخت کا قصہ بیان کیا جاتا ہے۔ از بیک ان گنت عریاں عورتوں کے سامنے کھڑا ان کے جسموں کو ٹوہ ٹوہ کر دیکھ رہا ہے اور جب وہ کسی عورت کے جسم کو انگلی لگاتا ہے تو اس پر ایک گلابی سا گڑھا پڑ جاتا ہے اور اس کے ارد گرد ایک زرد سا حلقہ اور پھر زردیاں اور سرخیاں ایک دوسرے کی جگہ لینے کے لیے دوڑتی ہیں۔۔۔از بیک آگے گزر جاتا ہے اور ناقابل قبول عورت ایک اعتراف شکست، ایک انفعالیت کے عالم میں ایک ہاتھ سے ازار بند تھا مے اور دوسرے سے چہرے کو عوام کی نظروں سے چھپائے سسکیاں لیتی ہے۔۔۔سندر لال امرتسر (سرحد) جانے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ اسے لا جوکے آنے کی خبر ملی۔ ایک دم ایسی خبرمل جانے سے سندر لال گھبرا گیا۔ اس کا ایک قدم فورا دروازے کی طرف بڑھا لیکن وہ پیچھے لوٹ آیا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ روٹھ جائے اور کمیٹی کے تمام پلے کارڈوں اور جھنڈیوں کو بچھا کر بیٹھ جائے اور پھر روئے لیکن وہاں جذبات کا یوں مظاہرہ ممکن نہ تھا۔ اس نے مردانہ وار اس اندرونی کشاکش کا مقابلہ کیا اور اپنے قدموں کو ناپتے ہوئے چوکی کلاں کی طرف چل دیا کیونکہ وہی جگہ تھی جہاں مغویہ عورتوں کی ڈیلیوری دی جاتی تھی۔ اب لاجو سامنے کھڑی تھی اور ایک خوف کے جذبات سے کانپ رہی تھی۔ وہی سندر لال کو جانتی تھی، اس کے سوائے کوئی نہ جانتا تھا۔ وہ پہلے ہی اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتا تھا اور اب جب کہ وہ ایک مرد کے ساتھ زندگی کے دن بتا کر آئی تھی، نہ جانے کیا کرے گا ۔ سندر لال نے لاجو کی طرف دیکھا۔ وہ خالص اسلامی طرز کا لال دو پٹہ اوڑھے تھی اور بائیں بگل مارے ہوئے تھی۔۔۔۔عادتا۔۔۔محض عادتا۔۔۔دوسری عورتوں میں گھل مل جانے اور بالآخر اپنے صیاد کے دام سے بھاگ نکلنے کی آسانی تھی اور سندر کے بارے میں اتنازیادہ سوچ رہی تھی کہ اسے کپڑے بدلنے یا دوپٹے کوٹھیک سے اوڑھنے کا بھی خیال نہ رہا۔ وہ ہندو مسلمان کے تہذیب کی بنیادی فرق۔۔۔دائیں بل۔ میں اور بائیں بکل میں امتیاز کرنے سے قاصر رہی تھی۔۔۔اب وہ سندر لال کے سامنے کھڑی تھی اور کانپ رہی تھی ، ایک امید اور ایک ڈر کے جذبے کے ساتھ۔ سندر لال کو دھچکا سالگا۔ اس نے دیکھا ۔ لاجونتی کا رنگ کچھ نکھر گیا تھا اور وہ پہلے کی بہ نسبت کچھ تندرست سی نظر آتی تھی۔ نہیں وہ موٹی ہوگئی تھی۔ سندر لال نے جو کچھ لاجو کے بارے میں سوچ رکھا تھا وہ سب غلط تھا۔ وہ سمجھتا تھا غم میں گھل جانے کے بعد لاجونتی بالکل مریل ہو چکی ہوگی اور آواز اس کے منھ سے نکالے نہ نکلتی ہوگی۔ اس خیال سے کہ وہ پاکستان میں بڑی خوش رہی ہے، اسے بڑا صدمہ ہوا، لیکن وہ چپ رہا کیونکہ اس نے چپ رہنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ اگر چہ وہ نہ جان پایا کہ اتنی خوش تھی تو پھر چلی کیوں آئی؟ اس نے سوچا شاید ہند سرکار کے دباؤ کی وجہ سے اسے اپنی مرضی کے خلاف یہاں آنا پڑا۔۔۔لیکن اس چیز کو وہ نہ سمجھ سکا کہ لاجونتی کا سنولا یا ہوا چہرہ زردی لیے ہوئے تھا اور غم محض غم سے اس کے بدن کے گوشت نے ہڈیوں کو چھوڑ دیا تھا۔ وہ غم کی کثرت سے موٹی ہوگئی تھی اور صحت مند نظر آتی تھی لیکن یہ ایسی صحت مندی تھی جس میں دو قدم چلنے پر آدمی کا سانس پھول جاتا ہے۔۔۔مغویہ کے چہرے پر پہلی نگاہ ڈالنے کا تاثر عجیب سا ہوا، لیکن اس نے سب خیالات کا ایک اثباتی مردانگی سے مقابلہ کیا۔ اوربھی بہت سے لوگ موجود تھے۔ کسی نے کہا۔۔۔ہم نہیں لیتے مسلمان کی جھوٹی عورت۔۔۔اور یہ آواز رسالو، نیکی رام اور چوکی کلاں کے بوڑھے محرر کے نعروں میں گم ہو کر رہ گئی۔ ان سب آوازوں سے الگ کا لکا پرشاد کی پھٹتی اور چلاتی آواز آرہی تھی ۔ وہ سانس بھی لیتا اور بولتا بھی جاتا۔ وہ اس نئی شدھی کا شدت سے قائل ہو چکا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا آج اس نے کوئی نیاوید،کوئی نیا پران اور شاستر پڑھ لیا ہے اور اپنے اس حصول میں دوسروں کو بھی حصے دار بنانا چاہتا ہے۔ان سب لوگوں اور ان آوازوں میں گھرے ہوئے لاجو اور سندر لال اپنے ڈیرے کو جارہے تھے اور ایسا جان پڑتا تھا جیسے ہزاروں سال پہلے کے رام چندر اور سیتا کسی بہت لمبے اخلاقی بن باس کے بعد اجودھیا لوٹ رہے ہیں۔ ایک طرف تو لوگ خوشی کے اظہار میں دیپ مالا کر رہے ہیں اور دوسری طرف انھیں اتنی بھی اذیت دیے جانے پر تاسف بھی۔ لاجونتی کے چلے آنے سندر لال بابو نے اس شد و مد سے ‘‘دل میں بساؤ’’ پروگرام کو جاری رکھا۔ اس نے قول اور فعل دونوں اعتبار سے اسے نبھا دیا تھا۔ اور لوگ جنھیں سندرلال کی باتوں میں خالی خوبی جذباتیت نظر آتی تھی ،قائل ہونا شروع ہوئے۔ اکثر لوگوں کے دل میں خوشی تھی اور بیشتر کے دل میں افسوس ۔ مکان نمبر ۴۱۴ کی بیوہ کے علاوہ محلہ ملا شکور کی بہت سی عورتیں سندر لال بابوسوشل ور کر کے گھر آنے سے گھبراتی تھیں۔

- Advertisement -

لیکن سندر لال کو کسی کی اعتنا یا بے اعتنائی کی پروا نہ تھی۔ اس کے دل کی رانی آچکی تھی اور اس کے دل کا خلا پٹ چکا تھا۔ سندر لال نے لا جو کی سورج مورتی کو اپنے دل میں استھاپت کر لیا تھا اور خود دروازے پر بیٹھا اس کی حفاظت کرنے لگا تھا۔ لا جو جو پہلے خوف سے سمیت رہتی تھی سندر لال کے غیر متوقع نرم سلوک کو دیکھ آہستہ آہستہ کھلنے لگی۔ سندر لال لاجونتی کو اب لا جو کے نام سے نہیں پکارتا تھا، وہ اسے کہتا تھا ‘‘دیوی!’’ اورلاجو ایک انجانی خوشی سے پاگل ہو جاتی تھی۔ وہ کتنا چاہتی تھی سندر لال کو اپنی واردات کہہ سنائے اور سناتے سناتے اس قدر روئے کہ اس کے سب گناہ دھل جائیں، لیکن سندر لال لاجو کی وہ باتیں سننے سے گریز کرتا تھا اور لاجو اپنے کھل جانے میں بھی ایک طرح سے سمٹی رہتی ۔ البتہ جب سندرلال سوجاتا تو اسے دیکھا کرتی اور اپنی اس چوری میں پکڑی جاتی۔ جب سندر لال اس کی وجہ پوچھا تو وہ ‘‘نہیں’’‘‘یونہی’’‘‘اونہوں’’کے سوا اور کچھ نہ کہتی اور سارے دن کا تھکاہارا سندر لال پھر اونگھ جاتا۔۔۔البتہ شروع شروع میں ایک دفعہ سندر لال نے لاجونتی کے۔۔سیاہ دنوں۔۔کے بارے میں صرف اتنا سا پوچھا تھا۔۔کون تھا وہ؟۔۔لاجونتی نے نگاہ نیچی کرتے ہوئے کہا۔۔۔جما۔ پھر وہ اپنی نگاہیں سندر لال کے چہرے پر جا؟ئے کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن سندر لال ایک عجیب سی نظروں سے لاجونتی کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کے بالوں کو سہلا رہا تھا۔ لاجونتی نے پھر آنکھیں نیچی کر لیں اور سندر لال نے پوچھا۔اچھا سلوک کرتا تھا وہ؟ہاں۔مارتا تو نہیں تھا۔لاجونتی نے اپنا سرسندر لال کی چھاتی پر سرکاتے ہوئے کہا۔۔۔نہیں۔۔۔اور پھر بولی۔ وہ مارتا نہیں تھا۔ پر مجھے اس سے زیادہ ڈر آتا تھا۔ تم مجھے مارتے بھی تھے پر میں تم سے ڈرتی نہیں تھی اب تو نہ مارو گے؟ سندر لال کی آنکھوں میں آنسوامڈآئے اور اس نے بڑی ندامت اور بڑے تاسف سے کہا۔نہیں دیوی! اب نہیں۔۔۔نہیں ماروں گا۔دیوی! لا جونتی نے سوچا اور وہ بھی آنسو بہانے لگی۔ اور اس کے بعد لاجونتی سب کچھ کہو دینا چاہتی تھی لیکن سندر لال نے کہا۔جانے دو بیتی باتیں! اس میں تمھارا کیا قصور ہے۔ اس میں قصور ہے ہمارے سماج کا جو تجھ ایسی دیویوں کو اپنے ہاں عزت کی جگہ نہیں دیتا۔ وہ تمھاری ہانی نہیں کرتا اپنی کرتا ہے۔اور لاجونتی کی من کی بات من ہی میں رہی ۔ وہ کہہ نہ سکی ساری بات اور چپکی دبکی پڑی رہی اور اپنے بدن کی طرف دیکھتی رہی جو کہ بٹوارے کے بعد اب ‘‘دیوی’’ کا بدن ہو چکا تھا،لا جونتی کا نہ تھا۔ وہ خوش تھی، بہت خوش ، لیکن ایک ایسی خوشی میں سرشار جس میں ایک شک تھا اور وسوسے ۔ لیٹی لیٹی بیٹھ جاتی جیسے انتہائی خوشی کے لمحوں میں کوئی آہٹ پاکر ایکا یکی اس کی طرف متوجہ جائے۔۔۔جب بہت سے دن بیت گئے تو خوشی کی جگہ پورے شک نے لے لی۔ اس لیے نہیں کہ سندرلال بابو نے پھر وہی پرانی بد سلوکی شروع کر دی تھی بلکہ اس لیے کہ وہ لاجونتی سے لاجوکی وہی پرانی لاجو ہونا چاہتی تھی جو گاجر سے لڑ پڑتی اور مولی سے مان جاتی لیکن اب لڑائی کا سوال ہی نہ تھا۔ سندر لال نے اسے یہ محسوس کرا دیا جیسے وہ۔۔۔لاجونتی کوئی کانچ کی چیز ہے جو چھوتے ہی ٹوٹ جائے گی اور لا جو آئینے میں اپنے سراپا کی طرف دیکھتی اور آخراس نتیجے پرپہنچتی کہ وہ اور تو سب کچھ ہو سکتی ہے پر لاجونتی نہیں ہو سکتی۔ وہ بس گئی، پر اجڑ گئ۔۔۔سندر لال کے پاس اس کے آنسو د یکھنے کے لیے آنکھیں تھی اور نہ آہیں سننے کے لیے کان! پر بھات پھیریاں نکلتی رہیں اور محلہ ملاشکور کا سدھارک رسالو اور نیکی رام کے ساتھ مل کر اسی آواز میں گاتا رہا۔ہتھ لائیاں کملانی لاجونتی دے بوٹے۔۔۔

مصنف:راجندر سنگھ بیدی

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here