نا قابل تسخیر پہلوان عورت

0
328
urdu-story
- Advertisement -

ہنگامہ ! اور کیوں نہ ہو؟ ایک عورت نے ایک مرد میدان کوچیلنج کیاتھا۔عورت جسے عرف عام میں صنف نازک کہاجاتاہے۔ جس میں کلیوں کی نزاکت اور پھولوں کی نرمی ہوتی ہے جوعمرخیام کی رباعی تان سین کے نغموں میں بستی ہے جس میں شعروں کی لچک اور پائل کی جھنکار ہوتی ہے۔اور آج اسی عورت نے مشہور مرد میدان بچن سنگھ پنجابی کو للکارا تھا۔ گویاشمشیر بے نیام ہوگئی تھی۔‘‘ كار لے کر گرانڈ سرکس کا پنڈال’’ تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرچکا تھا ۔کیونکہ عورت اور مرد کی کشتی دنیا کے لئے ایک حیرت انگیز تجربہ تھا۔ ہرنگاه منتظراورہر دل بے تاب تھا۔ سرکس کے تمام آئیٹم ختم ہونے کے بعد اب کشتی کی باری تھی۔اور لوگوں نے دیکھا ایک حسن بے مثال اکھاڑے میں پہلی بار غیرمتوقع حالت میں جلوہ افروز ہے سیکڑوں دل سینے میں دھڑک رہے تھے۔یہ بھی توکلی مگر آہن بھی اس کے آگے سرنگوں تھا اور پھول بھی پشیمان۔ یہ رباعی عمرخیام کی نہیں تھی بلکہ کسی ایسے شاعرکی جس نے فطرت سے بغاوت کی ہو۔ یہ جھنکارتو تھی ہی مگر پائل کی نہیں بلکہ بجلی کی۔وہ کسی شیرنی کی سی آہستہ خرامی سے اکھاڑے میں چکر لگارہی تھی۔ اس کا جسم کسی مرد پہلوان کی طرح سخت مگر سڈول تھا ۔جسم پر ایک بیش قیمت قبار اور جانگیہ تھا ۔سرپرعمامہ باندھے اس نے ایک ادائے ناز سے تماشائیوں پر نظر ڈالی اورمسکراکر دیکھا۔ گویا زمانے پر طنز کر رہی تھی۔ہر شخص اس کی شخصیت سے مرعوب ہورہا تھا۔ دوسری طرف بچن سنگھ بھی مردانہ پیکر کا ایک نادر نمونہ تھا۔ اونچا پورا پنجابی نوجوان ۔ کون جیتے گا اسکا اندازہ لگانا مشكل تها۔سلامی کے ساتھ ہی کشتی کا آغاز ہوا۔ کئی باربچن سنگھ نےاس عورت کوٹپخنے کی کوشش کی۔ مگر وہ تو ایک بجلی تھی ۔ادھر چمکی اورادھرہرائی۔آخر کار بہت دیر کے بعدتماشائیوں نے برابری کا مطالبہ شروع کیا۔مگر دیکھتے ہی دیکھتے پانسہ پلٹ گیا۔ اس برق نازنے کچھ ایسی نظروں سے بچن سنگھ کی طرف دیکھا کہ اس کا دل دہل گیا۔ اسے ایک الیکٹرک شاک لگا ، وہ کھوگیا۔ اور اس برق ناز نے اس سنہری موقعہ کا فائدہ اٹھایا۔ دوسرے ہی لمحے لوگوں نے دیکھا کہ بچن سنگھ چاروں شانے چت پڑا ہے ۔تالیوں کے شور سے زمین دہل گئی اور آسمان تھرا گیا۔ اس دوشیزہ کا نام تھا حمیدہ بانو ! ۱۹۰۲ میں ترکستان کے دیہات میں ایک معزز خاندان کے فرد انور پاشا کے یہاں اس بہادر خاتون نے جنم لیا۔ انورنواب غازی الدین خان کے فرزند تھے ۔روس ا ور ترکی کی جنگ میں غازی الدین کے کارہائے نمایاں کو مدنظر رکھتے ہوئے خلیفہ وقت نے انہیں ایک بڑی جاگیر عطا کر دی تھی۔ نواب سعداللہ خاں ، نواب غازی الدین خاں کا سوتیلا بھائی تھا۔ یہ انتہا درجے کا حاسداورلالچی شخص تھا۔ اپنی چالاکی سے اس نے خلیفہ کی خوشنودی حاصل کرلی تھی۔ غازی الدین خان کاوارث کوئی نہیں تھا۔

اس لیے سعد اللہ خاں ہی غازی الدین خاں کا قریبی حقدار تھا۔مگر الله نے چندہی دنوں بعد نواب غازی الدین خاں کو فرزند سے نوازا۔ جس کا نام انور رکھا گیا۔ اس طرح سعد اللہ خاں قدرتی طورپر وراثت سے محروم ہوگیا۔ چنانچہ اس کے دل میں حسد کی آگ بھڑکنے لگی۔انور کی عمر۱۰ سال کی تھی کہ ایک دن سعد اللہ خاں نے نواب غازی الدین خاں کو مکارانہ طور پر مدعو کیا اور دھوکےسے قتل کردیا۔ خلیفہ کی خوشنودی کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور نواب غازی الدین خاں کی جاگیرپر غاصبانہ قبضہ کرلیا۔اب انورکی جان بھی خطرے میں تھی ۔مگر دربار کے محاسب نذرالدين نے انورکو خفیہ طورپر ایک دیہات میں بھگا دیا اور اپنے رشتے داروں کے یہاں ان کی پرورش کی۔ اسی دیہات میں انور جوان ہوئےاور آہستہ آہستہ اپنی اصلیت اور حقیقت سے آگاہ ہوئے۔ انتقام کی آگ ان کے سینے میں بھڑ کنے لگی۔ آخر کار اسی جذبہ انتقام کے تحت انہوں نے کسی طرح سعداللہ خاں کو ختم کر دیا۔ اس وقت ان کی عمربیس سال کی تھی۔ جب یہ خبرخلیفہ تک پہونچی تووه غصے سے آگ بگولا ہوگیا اور انور کی گرفتاری کے احکامات جاری کئے۔ مجبورا انورفرار ہوئے اور ایران پہنچ کر شاہ ایران کی فوج میں ملازمت اختیار کر لی۔ اور وہیں ایک ایرانی لڑکی سے شادی کرلی۔ کچھ دن بعدخلیفہ کا انتقال ہو گیا۔ اور اس کا بیٹا تحت نشین ہوا۔ اس موقعہ سے فائدہ اٹھاکر انور اپنی بیوی کو لیکر پھراپنے وطن واپس آگئے۔

وطن آتے ہی خلیفہ سے ملاقات کی اور شروع سے آخر تک احوال واقعی گوش گذارکر دیئے۔ خلیہب کوبڑی حیرت ہوئی لہذا فورا ان کو ان کی جائداد لوٹادی گئی۔ اسی مبارک موقعہ پر انور کے یہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ اس کا نام حمیدہ بانو رکھا گیا۔ حمیده بانو کی پیدائش واقعی ایک نیک فال تھی۔ کیونکہ اس کے ایک ماہ بعد ہی ان کی آبائی جاگیر انہیں واپس مل گئی تھی۔ خوبصورت حمیدہ بانو بچپن سے ہی تندرست اور صحت مند تھی۔ دوراندیش انور جنہیں جاگیرکی واگذاری کے ساتھ ہی حکومت کی طرف سے پاشا کا خطاب بھی مل گیا تھا ، زمانے کی رفتار کے پیش نظر اپنی لاڈلی کو فنون جنگ کی تعلیم دی۔ نشانہ بازی شمشیرزنی وغیرہ میں حمیدہ بانوکافی ماہر ہوچکی تھی۔ لڑکی ہوتے ہوئے بھی حیرت انگیز طور پر ورزش کی دلدادہ تھی۔ اس کی روزمرہ کی خوراک بھی اورپہلوانوں سے کسی طرح کم نہ تھی۔ بارہ برس کے سن میں ہی اس کا وزن ایک سو بیس پونڈ تھا۔ اپنے ہم عمر مردوں کو ایک ہی تھپڑ میں عالم بالا کی سیرکرادیتی تھی۔بہر حال دیکھنے والے اسے ایک عجوبہ ہی تصورکرتے تھے حمیده بانوکوایک سن رسیده بزرگ سے شرف تلمذحاصل تھا جو اسے دینی تعلیم دیاکرتے تھے۔ حمیده بانو کی قسمت کا ستاره چمک اٹھا تھا۔ ایک دن اس گاوں سے ایک خدا رسیدہ بزرگ کا گذر ہوا۔ حمیده بانو کے استاد نے دوران گفتگو حمیده بانو کی بے پناہ قوتوں اور اس کے اعلی کردار کی انتہائی تعریف کی۔ جس کو سنکران بزرگ نے حمیده بانو کو دعا دی اور پاکبازی کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:‘‘ میں تجھے اپنی آنکھوں کی قوت عطا کررہا ہوں، توجس کو بھی نظر بھر کر دیکھ لے گی وہ شکست کھا جائے گا مگرقسم ہے تجھ کو اس ذات واحد کی اس کا استعمال اسی وقت کرناجب توسخت آزمائش میں مبتلا ہو۔ بیٹی توہمیشہ فاتح وکامران رہے گی۔حمیده بانونے یہ ماجرا اپنے والد سے کہہ سنایا۔انورپاشا نے خوش ہوکر اپنی بیٹی کو پہلوا نی کشتی) کی تعلیم دینی شروع کی ۔ ترکستان کے دو نامور پہلوانوں کو مقررکیاگیا، اور اس ہونہار دوشیزہ نے ایک برس کے اندر ہی اتنی مہارت حاصل کر لی کہ پورے ترکستان میں اس کی نظیرنہ تھی۔ اس کی شہرت خلیفہ تک پہونچ گئی اور خلیفہ نے آزمائش کے لئے دربار میں اعلان کرا دیا کہ جوبھی حمیده بانوکر دنگل میں پچھاڑدے گا اسے بہت بڑا انعام دیاجائے گا۔

کشتی کے دن ہزاروں لوگوں کا ہجوم تھا۔ خلیفہ بذات خود مقابلہ دیکھنے آیا تھا سولہ سال کی نوخیز دوشیزه!سرخ ترکی ٹوپی پہنے اکھاڑے میں آگئی۔ اس کا سڈول خوبصورت مگرمضبوط جسم دیکھ کر لوگوں کے ہوش اڑ گئے۔ ترکستان میں اس وقت دنيا کے مانے ہوئے پہلوان موجود تھے۔ غرضکہ ہرایک نے اس سے زور آزمائی کی مگر سب اس کے آگے طفل مکتب ہی ٹھہرے جو بھی آتا حمیده بانو اس پر بھوکی شیرنی کی طرح جھپٹتی اوربجلی کی سرعت سے میدان مارلیتی۔ ہرطرف واہ واہ کے شور سے ایک سماں بندھ گیا تھا۔ ہرنفس حیرت سے انگشت بدنداں تھا۔بادشاہ خود تصویر حیرت بنا بیٹھارہا۔ مردپہلوانوں کی دنیا میں زلزلہ آ گیا ۔کھلبلی مچ گئی۔ کیونکہ یہ بات ان کے لئے باعث شرم تھی کہ ایک عورت مردوں پر سبقت لے جائے۔ لہذانہایت غور وخوض کے بعد مرد پہلوانوں نے متففہ طورپر یہ فیصلہ کرلیا پہلوان غازی یسین خاں ترکی سانڈوکو حمیده بانو کے مقابلے پر بھیجا جائے۔ غازی یسین خاں ترکستان کا ناموراور تمام دنیا کا ناقابل تسخیرمانا ہوا پہلوان تھامگر حمیدبانو کے پائے استقلال میں ذرہ برابربھی لغزش نہ ہوئی۔ اپنے بزرگ کے عطا کردہ تعویذ کو ایک بار عقیدت سے چوما اور چنگھاڑتی ہوئی غازی یسین خاں سانڈوپرپل پڑی غازی یسین خاں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اپنی تمام طاقت کو یکجا کر کے مقابلہ کیا کیونکہ تمام ترکستان کے پہلوانوں کے وقار کا سوال تھا۔ اور غازی یسیں خان ترک پہلوانوں کی ناک سمجھا جاتا تھا۔مگرحمیدہ بانوبھی پورےجوش و خروش سے مقابلہ کر رہی تھی۔تماشائی محوحیرت تھے۔صحیح اندازہ لگانے سے ہرذہن قاصر تھا۔ اور ہرلمحہ لوگوں کا تجسس بڑھا رہا تھا۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ اب حمیدہ بانو ہار جائے گی مگر واہ رے قدرت اچانک نہ جانے برق لہرائی یا تلوار چمکی کہ حمیده بانو سے غازی یسین خاں کی نظریں چار ہوتے ہی غازی یسین خاں کا جسم پسینے سے شرابور ہو گیا۔ اس کا دل زورسے دھڑکا۔ ہوش گم ہو گئے اور دوسرے ہی لمحے غازی یسین خاں زمین پرچت پڑا ہوا تھا اور حمیده بانو مردانہ اوراس کی چھاتی پر پیر رکھے کھڑی تھی۔ تالیوں کی گونج سے آسمان ٹوٹ پڑا اور زمین دہل گئی!بادشاہ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا حمیدہ بانو کو ایک قیمتی ہارعطاکیا اور غازی کے خطاب سے نوازا۔ انور پاشا کا سر فخر سے تن گیا فرط مسرت سے انہیں اپنا سینہ پھٹتاہوامحسوس ہورہا تھا مگریہ مسترت زیادہ پائدار نہ تھی! اسی زمانے میں یورپ میں جرمنی اور انگلینڈ کے مابین پہلی جنگ عظیم.۱۹۱۴۔۱۹۱۸ چھڑگئی۔ اس جنگ میں ترکوں نے جرمنی کی حمایت میں حصہ لیا تھامگر۱۹۱۸ میں جرمنی کوکامل شکست نصیب ہوئی جس کی وجہ سے ترکی کو بھی اس کا بہت بڑا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ ترکی سلطنت ختم ہوگئی۔ ملک میں زبردست انقلاب آیا۔ خلیفہ سے اقتدار چھین کراتا ترک غازی مصطفے کمال پاشا کے زیر قیادت ترکی میں جمہوری طرز حکومت برسراقتدار آئی ۔اوراسی ضمن میں خلیفہ کی عنایت کر دہ جاگیریں اورزمینین وغیرہ ، جاگیرداروں ا ور زمینداروں سے چھین لی گئیں ۔ اسلئے جاگیردار اور زمیندار ترک وطن کرنے پرمجبور ہوگئے۔ نواب انور پا شا نے بھی ترک وطن کیا۔ مگر حمیده بانونے کئی مقابلوں میں زرکثیر حاصل کیا تھا لہذا ان کوکسی خاص تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔سفر کرتے کرتے انور پاشا بھارت کی راجدھانی دہلی پہونچ گئے۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق تھا کہ اس وقت کار لے کر گرانڈ سرکس کا قیام بھی دہلی میں ہی تھا۔ اور اس وقت روسی سانڈونے دہلی میں تمام پہلوانوں کوکشتی کے لئے للکارا تھا۔ انور پاشا کو بھی پہونچ گئی اور انہوں نے چیلنج قبول کرلیا۔

جلدہی حمیدہ بانواورروسی سانڈوکی کشتی کا اعلان ہوا۔اورمقررہ دن پرحمیدہ بانونے صرف سات ہی منٹ میں کشتی جیت لی۔ حمیدہ کی حیرت انگیز طاقت کو دیکھ کرسرکس کے مالک پروفیسرشنکرراو اور منیجررام بھاو جوشی کی حیرت کی کوئی انتہانہ رہی اور شنکرراو نے حمیدہ بانو سے اپنے سرکس میں آنے کی درخواست کی جسے حمیده بانونے منظورکرلیا۔ اور اس کے بعد ہندوستان کے عظیم سےعظیم تر پہلوانوں کوکئی بارکشتی میں پچھاڑا اوراپنی عظمت کا لوہا منوایا۔ وہ ہر جگہ فاتح رہی ، تمام عالم میں اس کی شہرت پھیل چکی تھی۔ ہندوستان کا چپہ چپہ حمیدہ بانوکا نام لیواتھا۔ ہرشخص یہ کہتا تھا کہ ایسی عورت دنیا میں نہ اب تک ہوئی ہے اورنہ ہوگی۔ اسی زمانے میں ہندوستان میں ایک مشہور پہلوان عورت تھی تارابائی۔ اس کو بھی حمیدہ بانو نے چیلنج دیا تھا مگرتارا بائی نے انکارکردیا کیونکہ حمیده با نو تارابائی جسمانی لخاظ سے بہت ہی زبردست تھی جس سے مرد پہلوان تھرتھراتے تھے اس سے ایک عورت کیا مقا بلہ کرتی مرد پہلوانوں کی دنیا میں کھلبلی مچ گئی ۔ ان کی عزت خطرے میں پڑ گئی۔ اور حمیدہ بانو کے کئی جان لیوادشمن پیدا ہو گئے۔حمیده بانونے جب سے بچن سنگھ پنجابی کو ذلت آمیزشکست دی تھی ، تب سے اس کے اور بھی زیادہ دشمن پیدا ہوگئے تھے۔سرکس کا روسی سانڈو تو حمیده بانو سے حددرجہ بغض رکھتا تھا ۔ رہ رہ کر یہ خیال اس کے جذبہ انتقام کو ہوادے رہا تھا کہ ایک عورت نے اسے شکست دی ہے پھربچن سنگھ کی شکست نے گویا آگ پر تیل کا کام کیا ۔ انجام کار لاہوری پہلوانوں نے روسی سانڈو سے مل کر ایک سازش تیار کی اور حمیده بانوکوراستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا۔ کیونکہ حمیدہ کا وجود ان کے زوال کا باعث تھا۔

- Advertisement -

بد قسمتی کہ انور پاشا شراب جیسی لعنت کے متوالے تھے۔جس کا فائدہ دشمنوں نے اٹھایا۔ ان سے دوستانہ تعلقات پیداکئے۔اب دشمن ہم مشرو ب وہم پیالہ بن گئے ۔انور پاشا بے انتہا پیتے اور اتنی پیتے کہ کسی بات کا ہوش نہ رہتا ۔حمیده بانو فکرمندرہنے لگی ۔کیونکہ انور پاشاکوصرف نوشی کی دھن سوار تھی۔ نشے میں دھت ہوکر کہیں بھی پڑے رہتے اور حمیدہ بانو تنہارہ جاتی۔
اس تنہائی میں ایک نوجوان لڑکی ملازمت کی طلبگار بن کر حمیدہ بانو کے پاس آئی جسے بخوشی حمیدہ نے اپنےیہاں نوکر رکھ لیا۔ وہ اس غریب الوطنی میں اپنی اداس تنہائی کو رفع کرنا چاہتی تھی مگر ہائے قسمت! یہ لڑکی ان ہی پہلوانوں کامہرہ تھی جنہوں نے حمیدہ کے خلاف سازش کر رکھی تھی حمیدہ کواس سازش کا ذرہ برابر بھی علم نہ ہوسکا تھا بلکہ وہ خوش تھی کہ چلو ایک ساتھی مل گیا۔ اسے یہ پتا نہیں تھا کہ وہ ایک ناگن کو پناه دے رہی ہے۔

ایک دن حمیده اوروہ لڑکی خیمے میں گہری نیندسورہے تھے۔ انور پاشانشے میں دھت نہ جانے کہاں تھے۔تقریبا نصف شب گذرنے کے بعد وہ لڑ کی اٹھ گئی اور کمر سے ایک بوتل نکالی جس میں بہت ہی خطرناک قسم کا مہلک تیزاب تھا۔ وہ تیزاب اس نے حمیدہ بانو کی آنکھوں میں جھونک دیا۔ ایک دلدوز چیخ مارکر حمیدہ بانوبیہوش ہوگی۔ اور وہ لڑکی فرار ہوگئی حمیدہ بانوکی دونوں آنکھیں بیکار ہوچکی تھیں۔ آنکھوں کی جگہ دوگہرے غار نظر آرہے تھے۔ دشمنوں نے ان آنکھوں کی قوت کو جان لیا تھا۔ شاید اسی لئے یہ سازش تیار کی گئی تھی۔دوسرے ہی دن یہ خبرآگ کی طرح پھیل گئی۔ قدردانوں کی محفل میں صف ماتم بچھ گئی۔ انور پاشا غم سے نڈھال ہوگئے۔ اپنی غفلت پرآنسوبہاتے رہے۔ پروفیشر شنکرکو بہت افسوس ہوا انہوں نے دونوں باپ بیٹی کو ترکی روانہ کردیا۔اس طرح یہ بہادر دوشیزہ شہرت کے بام عروج پرسونچ کرپردہ گمنامی میں چلی گئی لیکن پہلوانوں کی تاریخ میں سنہری خرفوں میں زندہ جاوید بن گئی۔ اور ثابت کر گئی۔ اورثابت کرگئی کہ عورت کو کمزورسمجھنے والا مرد خودہی کتنا کمزور ہو تا ہے۔

مصنف :عبدالوہاب

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here