بیگانگی

0
155
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’ایک ایسے بچے کی کہانی جسے گھر میں کوئی پیار نہیں کرتا ہے۔ اس سے بڑی ایک بہن اور ایک چھوٹا بھائی ہے۔ ہر کوئی چھوٹے بھائی سے محبت کرتا ہے۔ اس کی ہر فرمائش پوری کی جاتی ہے۔ مگر اس سے کوئی پیار نہیں کرتا ہے۔ جب سے وہ پیدا ہوا تبھی سے اس کی بدصورتی کو لیکر اس سے نفرت کی گئی ہے۔ اور اسی نفرت کی وجہ سے وہ اپنے ہی گھر میں خود کو بیگانا محسوس کرنے لگتا ہے۔‘‘

رشید نے اٹھ کر آنکھیں کھولیں۔ دو ایک انگڑائیاں لیں اور کھوئے ہوئے انداز میں سیڑھیوں کے قریب جا بیٹھا۔ اس نے کوٹھے پر ایک سرسری نگاہ ڈالی۔ تمام چارپائیاں خالی پڑی تھیں۔ سب لوگ نیچے جا چکے تھے۔ جہاں تک نگاہ کام کرتی تھی، سامنے اونچے اونچے مکانوں کا انبار دکھائی دیتا تھا۔ اس کے لیے دنیا ایک بے معنی پھیلاؤ تھی۔ اچھا اب تو صبح ہو چکی ہے۔ اس نے ایک اور انگڑائی لیتے ہوئے محسوس کیا۔ جیسے وہ نہ ختم ہونے والے دن کی کوفت کا بوجھ محسوس کر رہا ہو۔ اس کے لیے دن، ایک مسلسل کوفت تھی۔ آج چھٹی کا دن تھا۔ اس کے نزدیک چھٹی سے بڑھ کر کوئی عذاب نہ تھا۔ وہ محسوس کرتا تھا کہ گھر کے تمام لوگ اس کے وجود سے ہی منکر تھے۔ اس لیے انہیں اپنے وجود اور عظمت کا احساس دلانے کے لیے اس پر لازم ہو جاتا کہ وہ آپا کے چٹکی لے یا محمود کا منہ چڑائے یا محمود کے پالتو طوطے کی دم کھینچ لے اور نہیں تو چیزیں ادھر ادھر کر دے۔

رشید نے ایک اور انگڑائی لی۔ اب میں کیا کروں؟ وہ مبہم طور پر محسوس کر رہا تھا۔ تمام لوگ گھر میں اسے کوئی ایسا کونہ تک نظر نہیں آتا تھا جسے وہ اپنا سکتا یا جہاں اس کی موجودگی سے بیگانگی نہ برستی۔ اس نے اکتائے ہوئے انداز سے قمیض کے دامن سے اپنی آنکھیں پونچھیں۔ شانے جھٹکے اور دیوار سے سہارا لگا لیا۔ زندگی اس کے لیے ناقابل فہم بیگانگی سے بھری ہوئی تھی۔ وہ صرف یہ سمجھ چکا تھا کہ دنیا میں یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ کیا سے کیا ہو جائے گا۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ وہ کیوں رشید ہے اور محمود کیوں محمود ہے اور اس نے محمود کا سا برتاؤ کر کے آزما دیکھا تھا مگر اس کے باوجود گھر والے اس پر ’’رشیدیت‘‘ ٹھونس رہے تھے۔

اس کی نگاہیں اکتائے ہوئے انداز میں یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں گھوم رہی تھیں۔ سامنے محمود کا طوطا پنجرے میں پھڑپھڑا رہا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر حقارت کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ محمود کا طوطا، محمود کا طوطا، اس کے دل کا کوئی حصہ کہہ رہا تھا۔ جیسے اسے چھیڑ رہا تھا۔ پھر اس کی نظر سامنے کھڑکی پر جا پڑی جو گلی میں کھلتی تھی۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ صبح شام کی مسلسل کوفت میں صرف وہ کھڑکی ہی خوشی کی ایک امید گاہ تھی مگر وہ بوڑھا فقیر جس پر رشید اس کھڑکی سے پتھر پھینکا کرتا تھا، دو روز سے نہیں گزرا تھا۔ دو روز اس نے بوڑھے فقیر کے انتظار میں گزارے تھے۔ اس نے ایک جھرجھری لی اور لاشعوری طور پر اس نے ایک پتھر اٹھا کر زور سے کسی طرف پھینک دیا۔

رشید ابھی چھ ماہ کا نہ ہوا تھا اور اسے یہ معلوم نہ تھا کہ وہ ایک بڑی بہن کا بھائی ہے اور ماں باپ نے اسے سسک سسک کر پایا ہے۔ حتیٰ کہ وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ بذات خود کیا ہے۔ آیا وہ باپ کا نام قائم کرنے یا ماں کا سہاگ مستحکم کرنے کے لئے ہے یا ماں باپ کے کسی خاص مقصد کے لئے ہے یا ویسے ہی ہے۔ وہ صرف یہ جانتا تھا کہ اول تو وہ ہے ضرور اور دوسرے وہ کوئی بڑی اہم ہستی ہے اور وہ ماں باپ کی آنکھوں کا نور ہے۔ گو ہستی اور نور کے متعلق اس کے احساسات واضح نہ تھے۔ وہ جانتا تھا کہ بار بار ’’اگو‘‘ کہہ کر وہ اپنی ماں کو بلا سکتا ہے۔ یعنی اپنی کوئی خواہش پوری کرنے کے لئے اسے صرف ہونٹ ہلانے کی ضرورت تھی۔ جب چھ سال کی مسلسل منتوں کے بعد بیٹا پیدا ہوا تو ماں باپ کے لئے اسے نظرانداز کرنا ذرا مشکل ہو جاتا ہے۔

- Advertisement -

جب رشید کو پوری طرح اپنی قوت کا احساس ہو گیا تو اسے دودھ پیتے، سونے اور باقی وقت نکمّے پڑے رہنے یا فضول اپنا انگوٹھا تلاش کرنے یا دور پڑی ہوئی چیزوں کو پکڑنے کی کوشش میں چنداں دلچسپی نہ رہی۔ البتہ لوگوں کو نچانا ضرور باعث فرحت تھا۔ اس دلچسپ شغل میں اس نے دو سال بسر کئے۔ اس عرصے میں ہزاروں انکشافات کے علاوہ اس پر یہ بھی آشکارا ہوا کہ وہ بدصورت ہے۔ ابتدا میں تو اسے بدصورتی کی تفصیلات کے متعلق کوئی واقفیت نہ ہوئی۔ پھر رفتہ رفتہ اسے معلوم ہوتا گیا کہ اس کی ناک چپٹی ہے۔ پیشانی چھوٹی اور ہونٹ موٹے ہیں۔ مگر اس کے باوجود اسے یہ نہ معلوم ہوا کہ بدصورتی عیب سمجھی جاتی ہے یا وصف۔ وہ صرف یہ جان سکا کہ ماں باپ اسے بدصورت کہہ کر یا اس کے ناک، ہونٹ اور پیشانی کے متعلق کہہ کر فرط انبساط سے اسے گود میں اٹھا کر پیار کرتے تھے۔ اس لحاظ سے تو بدصورتی بہت پیاری خصوصیت تھی۔

اس زمانے میں دنیا یوں بے معنی نہیں تھی۔ بلکہ مخصوص اصولوں پر چلتی تھی۔ اس کا ہنسنا، رونا، روٹھنا یقینی نتائج پیدا کر سکتا تھا۔ وہ دو سال اس کی زندگی میں ایک گذشتہ مگر قابل حصول رنگینی سے سرشار تھے۔ ان دنوں زندگی اس قدر پیچیدہ اور لوگ اس قدر ضدی اور اندھے نہ تھے۔ ان دنوں اپنے وجود کا احساس دلانے کے لئے اسے کسی دقیق عمل کی ضرورت نہ تھی۔ مگر جلد ہی وہ دن آ گیا جب وہ بات نہ رہی۔ اس روز وہ اپنی بہن کی گود میں بیٹھ کر حسب معمول قواعد کروا رہا تھا کہ ان کی ملازمہ رضیہ دوڑی دوڑی آئی اور کہنے لگی، ’’بی بی تمہیں مبارک ہو۔ خدا نے تمہارے گھر ایک اور ننھا بھائی دیا ہے۔‘‘ سلیمہ نے یہ سنا تو رشید کو یوں پٹک کر بھاگ گئی جس طرح وہ خود نئے کھلونے کی آمد پر پرانے کھلونے پھینک دیا کرتا تھا۔ یہ پہلا دن تھا جب رشید کی یوں تحقیر کی گئی۔ رشید کی تحقیر۔۔۔ سلیمہ کی اتنی جرات۔ پہلے تو وہ حیران چپ چاپ زمین پر بیٹھا رہا۔ پھر ان سب باتوں کو سوچ کر اس نے یکلخت رونا شروع کر دیا۔ اس کی دانست میں رونے سے بڑھ کر کوئی قوت نہ تھی مگر خدا جانے اس روز اس کے رونے میں کیوں اثر نہ تھا۔ حتیٰ کہ آنسوؤں والا رونا بھی کام نہ آیا۔ پھر اسے تازہ دم ہو کر رونا پڑا۔

آخر رضیہ آئی۔ اس نے رشید کو جھنجھوڑ کر اٹھا لیا۔ اول تو رضیہ اسے منانے کو آئی۔ رضیہ ایک ادنیٰ ملازمہ۔۔۔ کس قدر بے عزتی کی بات تھی اور پھر وہ بھی اسے جھنجھوڑ کر اٹھائے۔ اس روز اس کے خیال میں دنیا کے اصول ہی بدل رہے تھے۔

ماں کے سامنے جا کر اس نے دو تین چیخوں سے آپا، رضیہ اور دنیا بھر کے خلاف شکایت کی مگر ماں اسے گود میں اٹھانے اور جملہ لوگوں کو برا بھلا کہنے اور گھورنے کی بجائے نحیف سی آواز میں کہنے لگی، ’’یہ کیا سر کھا رہا ہے۔۔۔ اسے یہاں سے لے جا اور جو نعمت خانے میں مٹھائی پڑی ہے وہ اسے دے دے۔‘‘ یہ تھی اس کی ماں۔ اس کی اپنی ماں جس کی آنکھوں کو اس نے نور بخشا تھا۔ وہ ماں۔۔۔ اگر اس کی قوت اظہار اپنے باپ کی طرح وسیع ہوتی تو وہ یہ کہہ اٹھتا، ’’بس چودھویں صدی آ گئی ہے جب کہ ماں کو اپنے سگے بیٹے سے محبت نہیں رہی۔ ماں کا خون بھی سفید ہو گیا۔‘‘

رضیہ اسے باورچی خانے میں تن تنہا چھوڑ جائے۔۔۔ اپنے ہاتھ سے مٹھائی کھانے کے لئے۔۔۔ ماں سے دور ماں کی واری صدقے بغیر۔۔۔ سوکھی مٹھائی اور ماں اس گوشت کے لوتھڑے کے پاس لیٹی ہے۔ کیسی بے ہودہ شکل تھی۔ نہ سر نہ منہ، یقینی طور پر چودھویں صدی آچکی ہے جس کے متعلق اکثر ابا ذکر کیا کرتے تھے۔ پھر اسے یہ معلوم ہوا کہ ماں بیمار ہے اور اس نے اخذ کیا کہ بیمار اسے کہتے ہیں جس کے ارد گرد بھیڑ لگی رہتی ہے۔ جس کے لئے مٹھائیاں منگوائی جائیں اور جس کی اتنی ہی دیکھ بھال ہو، جتنی کسی زمانے میں اس کی اپنی ہوا کرتی تھی۔ یعنی بیماری میں بھی وہی تاثیر تھی جو کسی زمانے میں اس کے رونے میں تھی اور اب دن بدن ضائع ہو رہی تھی۔ بیمار بن کر اس کی حکومت شاید لوٹ آئے مگر اسے یہ نہ معلوم ہو سکا کہ کس طرح بیمار پڑ جائے۔ اس نے دو ایک مرتبہ اپنی بیمار ماں کو اس امید پر لپٹ کر چوما کہ شاید اس طرح ماں کی بیماری اسے لگ جائے مگر اس کے باوجود گھر والے اسے بیمار سمجھنے سے منکر رہے۔ بہرحال ان دنوں اپنی مٹی ہوئی انانیت حاصل کرنے کے لئے رونے، روٹھنے اور ضد کرنے کے علاوہ اس کے پاس کچھ بھی نہ تھا اور ان کے استعمال میں اس نے بڑی فراخدلی سے کام لیا۔ مگر ان کے استعمال سے مزید مشکلات پیدا ہو رہی تھیں۔

مانا کہ ماں کے دودھ کے علاوہ مٹھائی اور گوشت کے ٹکڑے بھی کھانے کا عادی تھا مگر ماں کے دودھ سے بالکل محروم کر دینا۔ کھیلنے کو بھی نہ دینا کس قدر کمینہ پن تھا۔ اس سے پہلے تو اسے بے روک ٹوک کھیلنے کی اجازت تھی۔ پہلے پہل تو اسے یہ آس رہی کہ صحت ہونے پر ماں وہی پہلی سی ماں ہو جائے گی۔ مگر ماں نے بستر چھوڑ دیا۔ چلنا پھرنا شروع کر دیا۔ مگر اسے وہ محبت نصیب نہ ہوئی۔ پیار تو وہ کرتی تھی مگر وہ پیار مقابلتاً ظاہری اور پھیکا محسوس ہوتا۔ ماں کا دھیان تو ہر وقت ننھے کی طرف لگا رہتا تھا۔ اسی کو ساتھ سلاتی اور رشید جب رات کو جاگتا تو وہ دیکھتا کہ وہ تن تنہا کھٹولے پر پڑا ہے۔ وہ بے چارہ اس اندھیر پر رو پڑتا اور چاہتا کہ ماں اسے پاس بلائے مگر ماں کس بیگانگی سے ہاتھ بڑھا کر اسے تھپک دیتی، جس طرح دور سے کتے کو روٹی کا ٹکڑا پھینکتے ہیں۔

آخر رشید لوگوں کی عدم توجہی سے تنگ آ کر احتجاجی حرکات کو جائز قرار دینے پر مجبور ہو گیا۔ اس کی حرکات سے متاثر تو کیا، ماں باپ نے انہیں سمجھنے تک کی تکلیف گوارا نہ کی۔ شاید وہ سمجھتے تھے کہ درد دل کا اظہار دو لفظوں کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ وہ سمجھتے رہے کہ رشید کو بستر پر پیشاب کرنے کی قبیح عادت پڑ گئی ہے اور وہ رات کو بلبلا اٹھتا ہے اور اسے اسہال کی شکایت ہے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ جو گالیوں، بد دعاؤں یا لفظوں سے اپنے غصے اور دنیا کے بے وفائی کا اظہار نہیں کر سکتے وہ درد دل کا اظہار مثانے اور معدے سے کر سکتے ہیں۔

ماں سے مایوس ہو کر رشید نے ابا سے از سر نو رابطہ پیدا کرنے کی کوشش کی مگر وہ تو اس معاملے میں بالکل مجبور تھے کیونکہ وہ ہر وقت سنتے تھے کہ محمود کی شکل ان پر تھی اور بدصورتی تو خیر رشید کی شکل بالکل ان پر نہ تھی۔ باپ کے لئے اس اہم تفصیل کو نظرانداز کرنا کس قدر مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ کس طرح محمود سے غداری کر سکتے تھے۔ آخر آہستہ آہستہ رشید پر انکشاف ہو گیا کہ بلی کی دم کھینچنے اور مرغی کے پر نوچنے میں بھی راحت ہوتی ہے۔ گو یہ راحت ماں باپ کا نور نظر اور گھر کا چراغ ہونے کے مقابلے میں ہیچ تھی، مگر راحت ضرور تھی۔ ماں باپ تو اسے گوشت کے لوتھڑے میں، جسے وہ محمود کہہ کر پکارتے تھے، اپنا وجود کھو چکے تھے۔ صبح سے شام تک محمود کا ذکر۔ محمود کی آنکھوں، پیشانی اور ہونٹوں کے قصے، محمود کی صحت، مسکراہٹ اور کھیل کا رونا اور محمود بھی وہ جسے رونے تک کی تمیز نہ تھی۔ کیسی بے سری الاپتا تھا۔ رشید نے کئی دفعہ محمود کا منہ تک نوچنا گوارہ نہ کیا کہ ماں کا قرب حاصل ہو یا اس کا منہ چومنے سے وہ خود محمود بن جائے۔ مگر والدین بھی پتھر کے بنے ہوتے ہیں۔ ان پر ان باتوں کا اثر ہی نہیں ہوتا۔

ایک روز جب رشید ابا کی چھڑی کا گھوڑا بنا کر سواری کر رہا تھا اور ان کے کاغذات کو پاؤں تلے روند رہا تھا تو انہوں نے بہت ڈانٹ ڈپٹ کی۔ جب رشید نے جواب میں چیخوں سے درد دِل کا اظہار کیا تو انہوں نے ایک دو تھپڑ جڑ دیئے اور جلال میں کہنے لگے، ’’بہت بدمعاش ہوا جا رہا ہے۔ کبھی آپا کو مار، کبھی ماں سے لڑ، گھر میں کہرام مچا رکھا ہے۔۔۔ پاجی۔‘‘ اس سرزنش کے دوران میں ماں محمود کا پوتڑا ٹھیک کرنے میں شدت سے مصروف رہی۔ گو ادھر سے پیار کی کوئی امید نظر نہ آتی۔ پھر بھی اسے مجبوراً فریاد لے کر ماں کے پاس جانا ہی پڑا لیکن ماں نے بھی ’’ہر وقت سر کھپاتا رہتا ہے۔‘‘ کہہ کر ایک تھپڑ مار دیا۔ اتنا ضرور ہوا کہ ماں نے ’’یہاں مر۔‘‘ کہہ کر جھنجھوڑ کر اسے اٹھا لیا اور اپنے پاس لٹا لیا۔ یہی تو اس کی خواہش تھی کہ وہاں مرے۔ کسی سے تھپڑ کھا کر اسے وہاں مرنا نصیب تو ہوا۔ اس کی معلومات میں یہ ایک اضافہ تھا۔

اب رشید تیسری جماعت میں تھا۔ چونکہ پچھلے سال وہ فیل ہو گیا تھا۔ رشید کے والد کو یقین تھا کہ رشید فطری طور پر کند ذہن ہے بلکہ ان کا خیال تھا کہ اس کے دماغ میں عقل سلیم کا خانہ خالی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ تیسری جماعت میں فیل ہو گیا تھا۔ گھر میں وہ اپنے اس خیال کے متعلق اکثر بات کرنے کے عادی تھے یا وہ محمود کی ایسے انداز میں تعریف کرتے جس سے رشید کی نا اہلیت اخذ ہو۔

’’محمود سوالوں میں طاق ہے۔ اگر رشید کا ذہن بھی اچھا ہوتا تو کیسی اچھی بات تھی۔ مگر یہ رشید کا قصور نہیں۔۔۔ اس کی یادداشت ٹھیک نہیں۔۔۔ بے چارے کو باتیں یاد نہیں رہتیں۔۔۔ اور۔۔۔ محمود کی ماں۔۔۔ تم نے سنا۔۔۔ ادھر آنا۔۔۔ باہر محمود کا استاد آیا ہوا تھا۔ کہتا تھا، محمود فرفر سبق سنا دیتا ہے۔‘‘

کسی وقت جب دونوں بچوں کے مستقبل کا ذکر چھڑ جاتا تو وہ اکثر کہا کرتے، ’’محمود۔۔۔ محمود۔۔۔ کو تو انجینئر بنائیں گے۔ اسے رڑکی بھیجیں گے۔۔۔ رڑکی۔ رڑکی سے بڑھ کر ہندوستان میں کوئی انجینئرنگ کالج نہیں۔ سنا تم نے محمود کی ماں۔ رڑکی میں بہت بڑا کالج ہے۔۔۔ شاندار۔‘‘

اس دوران میں وہ محمود کی طرف اس زاویے سے دیکھتے جیسے کوئی مصور اپنے شاہکار کی طرف دیکھتا ہے۔ پھر وہ چونک کر ایک موہوم سی آہ بھر کر رشید کی طرف دیکھتے۔ ’’رشید محمود کے طوطے کو دق نہ کر۔ تمہیں تو ہر وقت شرارت سوجھتی ہے۔ محمود کی ماں۔۔۔ دیکھا تم نے پنجرے کو بل دے رہا تھا شیطان۔ محمود کی ماں۔۔۔ اگر رشید بھی ذہین ہوتا تو اسے بھی رڑکی بھیجتے۔ مگر کوئی بات نہیں۔۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔ یہ تو قدرتی باتیں ہیں۔ انسان کو ان باتوں میں دخل نہیں۔ ہر حالت میں خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ کیوں محمود کی ماں۔۔۔ یہ تم کیا دھو رہی ہو۔ تمہیں تو ہر وقت کام ہی رہتا ہے۔ ہاں رضیہ کہاں ہے۔ رشید میں کہتا ہوں، اس پنجرے کو نہ چھیڑ۔۔۔ سنتا نہیں۔‘‘

رشید باپ کی ان پیچیدہ باتوں کے دوران جمائیاں لے لے کر تھک جاتا۔ پھر دفعتاً اس کا جی چاہتا کہ زور سے مرغی کی دم کھینچے یا آپا کی ٹانگ میں چٹکی لے یا کسی رینگتی ہوئی چیونٹی کو پاؤں سے مل دے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بدنما چیز اس کے نزدیک محمود کا طوطا تھا۔ رشید اپنی جگہ سے اٹھا۔ ایک اور انگڑائی لی، ’’۔۔۔ اچھا تو اب کیا کروں۔‘‘ اس نے چاروں طرف نگاہ ڈالی مگر کوئی چیز اس کے لئے باعث دلچسپی نہ تھی۔ سیڑھیوں سے نیچے اتر کر اس نے دیکھا کہ ماں، آپا اور رضیہ باورچی خانے میں ہیں۔۔۔ ابا اور محمود کی آوازیں بیٹھک میں سے آ رہی تھیں۔ وہ باورچی خانے میں داخل ہوا، ’’اماں!‘‘ اس نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا، ’’بھوک لگ رہی ہے۔‘‘

اماں بولی، ’’آ گیے۔ آنکھ کھل گئی۔ ہزار دفعہ کہا ہے کہ صبح اٹھ کر سکول کا کام کیا کرو۔‘‘

آپا کہنے لگی، ’’اماں!محمود نے آج صبح ہی صبح دس سوال نکال لیے ہیں۔۔۔‘‘

رشید نے ان باتوں پر دھیان نہ دیا۔ اس نے چاروں طرف سرسری نگاہ ڈالی اور پھر ماں سے لسی کا گلاس لے لیا۔

ماں نے کہا، ’’منہ ہاتھ تو دھو لیا کر۔ کتنا گندا ہے۔‘‘

مگر رشید لسی پی چکا تھا۔ وہ اپنی قمیض سے منہ پونچھ کر گلاس صندوق پر رکھ کر باہر نکل آیا۔ کمرے میں سامنے چاقو پڑا تھا۔ اس نے چاقو اٹھا لیا اور سرسری طور پر میز کا کونہ کھرچنا شروع کر دیا۔ باہر بیٹھک سے ابا اور کسی مہمان کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔

’’یہ بھی کیا عمر ہے۔۔۔ بادشاہی عمر۔۔۔ بچپن سے بڑھ کر زندگی میں کوئی خوشی نہیں۔‘‘

رشید سوچ رہا تھا۔ بچپن سے بڑھ کر کوئی عمر نہیں۔ یہی بچپن۔۔۔ آخر وہ کیا بات ہے جس کی بنا پر لوگ بچپن کو اس قدر سراہتے ہیں۔ کیا باقی، بچپن سے بھی زیادہ اکتا دینے والی ہے۔ اس نے ایک جھرجھری لی۔۔۔ باہر ابا کہہ رہے تھے۔

’’محمود۔۔۔ محمود تو سوالوں میں بے حد طاق ہے۔ رڑکی۔۔۔! رڑکی سے بڑھ کر کوئی درسگاہ نہیں۔ سو روپیہ ماہوار خرچ۔ نصیب کی باتیں ہیں۔ وہ ہمارا رشید۔۔۔ وہ سال اس سے بڑا ہے۔ بالکل کند ذہن، کام چور، نکما۔۔۔ اللہ کا ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہئے۔‘‘

رشید اٹھ بیٹھا اور برابر والے کمرے میں چلا گیا۔ شاید اس کے لئے وہاں ابا کی آواز نہیں پہنچتی تھی۔ یا اس لئے کہ سامنے پڑی ہوئی چٹائی سے تنکے کھینچنے کی خواہش اسے مجبور کر رہی تھی۔

باورچی خانے میں ماں کہہ رہی تھی کہ، ’’رضیہ وہ کہاں غائب ہو گیا ہے۔ جا دیکھ تو کہیں صندوق میں سے کپڑے نکال کر پھاڑ تو نہیں رہا۔ میں بھی کتنی بھول کرتی ہوں۔ صبح صندوق کو کھولا تھا تو اسے بند نہیں کیا۔ جا دیکھ تو۔۔۔ توبہ میں تو اس لڑکے سے عاجز آ چکی ہوں۔‘‘

رضیہ کی آہٹ سن کر رشید چٹائی کو چھوڑ کر پرے جا بیٹھا اور ایک لوہے کے ٹکڑے سے ناخن کریدنے میں مشغول ہو گیا۔ رضیہ اندر آئی۔ اس نے نفرت سے کھولتی ہوئی نگاہ رشید پر ڈالی۔ مگر رشید بظاہر اپنے کام میں ہمہ تن مشغول تھا۔ پھر جب رضیہ صندوق کو تالا لگا رہی تھی تو نہ جانے رشید کو کیا ہوا۔ اس نے اپنے بازو میں شدید اکڑ سی محسوس کی۔ اس کا ہاتھ غیر ارادی طور پر لپکا اور انگلیوں نے بڑھ کر رضیہ کی کمر میں چٹکی لے لی۔ اس نے بھاگتے ہوئے ’’اوئی‘‘ سنا اور پھر رضیہ جانے کیا کیا کہہ رہی تھی۔ مگر وہ غسل خانے پہنچ کر بالٹی میں ہاتھ ڈبو رہا تھا اور گرتے ہوئے قطروں کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ قطروں کو گرتے ہوئے دیکھ کر اسے وہ بوڑھا فقیر یاد آ گیا جس پر وہ چوبارے کی کھڑکی میں سے پتھر پھینکا کرتا تھا۔

بوڑھے کی عاجزانہ نگاہ۔۔۔ بے بسی۔۔۔ اور بے چارگی۔۔۔ اس روز جب اس کی آنکھوں سے پانی قطروں میں گر رہا تھا کس قدر مضحکہ خیز شکل تھی۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی اور وہ اطمینان سے بیٹھ گیا۔ باہر ماں غصے سے پوچھ رہی تھی۔

’’رضیہ محمود کے طوطے کا پنجرہ یہاں دھوپ میں کس نے رکھا ہے؟‘‘

رضیہ بولی، ’’توبہ بی بی۔ میں نے تو ابھی اسے چوبارے میں رکھا دیکھا تھا۔ میں تو کسی چیز کو بھی ہاتھ تک نہیں لگاتی۔ میری تو بی بی یہ عادت ہی نہیں۔‘‘

ماں نے ہاتھ ہلا کر کہا، ’’بس یہ اسی شیطان کی کارستانی ہے۔ نہ جانے محمود کے طوطے سے اسے کیا بیر ہے۔ اور بھائی ہوتے ہیں۔ آپس میں پیار اور محبت سے رہتے ہیں۔ اس لڑکے پر تو محمود کو دیکھ کر بھوت سوار ہو جاتا ہے۔ رضیہ۔۔۔! لے۔ اسے چوبارے میں رکھ اور اس کی کٹوری میں پانی ڈال دے۔‘‘

رشید دروازے سے جھانک رہا تھا، ’’محمود کا طوطا‘‘ اس کے دل کا کوئی حصہ کہہ رہا تھا۔ ’’کیا ہوا۔ کیا ہوا۔ محمود کے طوطے کو؟‘‘ ابا اندر آ کر کہہ رہے تھے۔ ’’ہاں بس ایسا کون کام کرے گا۔ اس لڑکے میں تو ذرہ بھر رحم نہیں۔ قصائی ہے قصائی۔ صبح شام چیزیں الٹ پلٹ کرنے کے علاوہ اسے کوئی کام نہیں۔ کل میرے دفتر کے کاغذات کی بیڑیاں بنا رہا تھا۔ نامعقول۔۔۔! لے رضیہ اسے چوبارے میں لے جا۔ محمود تو طوطے پر جان چھڑکتا ہے۔ جب تک اسے کھِلا نہ لے، خود نہیں کھاتا۔ اسے جانوروں سے کس قدر محبت ہے۔۔۔ محمود کی ماں۔۔! محمود کی ماں!‘‘

’’کیوں ابا جی!‘‘ محمود نے اندر آتے ہوئے کہا۔

’’کچھ نہیں بیٹا۔‘‘ باپ نے جواب دیا۔ ’’رشید نے تمہارا طوطا دھوپ میں رکھ دیا تھا۔ بے چارے کا گرمی کے مارے برا حال ہو رہا تھا۔ تم کہاں چلے گئے تھے۔‘‘ اس پر محمود بولا، ’’نہیں ابا جی! میں نے خود طوطے کو دھوپ میں رکھا تھا۔ اس نے پانی کی کٹوری الٹ دی تھی اور پانی میں تربتر ہو رہا تھا۔ میں نے اسے سکھانے کے لیے دھوپ میں رکھا تھا۔ پھر اسے اٹھانا مجھے یاد نہیں رہا۔‘‘

’’محمود کی ماں۔۔۔ محمود کی ماں۔۔۔‘‘ باپ کہہ رہا تھا، ’’تم نے سنا؟ محمود نے خود طوطے کو دھوپ میں رکھا تھا۔ محمود کی یہ بات اچھی عادت ہے۔ دیکھو نا سچ سچ کہہ دینے سے بالکل نہیں گھبراتا۔ لو اگر رشید طوطے کو دھوپ میں رکھتا تو چاہے کچھ ہی ہو جاتا، وہ کبھی اقرار نہ کرتا۔۔۔ رضیہ۔۔۔ رضیہ کہاں ہے رشید؟ رضیہ!‘‘

’’ابھی یہیں تھا۔‘‘ ماں نے کہا، ’’جانے کہاں چلا گیا ہے؟ گلی میں ہو گا۔ میں تو اس لڑکے سے تنگ آ چکی ہوں۔‘‘

’’خیر کوئی بات نہیں۔ تم تو گھبرا جاتی ہو۔ یہیں کہیں ہو گا۔‘‘ باپ نے اسے تسلی دی۔

رشید دبے پاؤں غسل خانے سے نکل کر چوبارے میں چلا گیا۔ بوڑھے فقیر کے آنے کا وقت ہو رہا تھا مگر وہ بوڑھا دو دن سے نہیں آیا تھا۔

رشید کے بدن میں نا امیدی سے سستی سی محسوس ہو رہی تھی اس واحد عشرت سے وہ گذشتہ دو دنوں سے محروم تھا۔ اس نے چھ سات موٹے موٹے پتھر چن لئے اور کھڑکی میں بیٹھ گیا۔ سامنے مکانوں کا ڈھیر نظر آ رہا تھا۔ گلی میں خاک اڑ رہی تھی۔ دھوپ سے آنکھیں چندھیائے جاتی تھیں۔ مکانوں سے پرے ریت کے ٹیلے کھڑے تھے۔ کہیں کہیں بگولے ناچ رہے تھے۔ وہ ان بگولوں کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔

آخر وہ فقیر کا انتظار کرتے کرتے تھک گیا۔ اس نے جھرجھری لی۔ دونوں ہاتھوں کا پیالہ بنا کر اپنی ٹھوڑی اس پر ٹکا دی اور معصومیت بھرے انداز میں بیٹھ گیا۔ اسے دیکھ کر یہ محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کسی مظلوم کے دکھ کو دیکھ کر وہ خدا سے اس کی نجات کے لئے دعا کر رہا ہو۔

انتظار سے مایوس ہو کر وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اس کی نگاہ سامنے والے مکان کے روشن دان پر پڑی۔ روشن دان میں سرخ شیشے کو دیکھ کر ایک بیگانہ سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آ گئی۔ اس نے ایک پتھر اٹھا لیا اور اس سے کھیلنے لگا۔ پھر نہ جانے کیا سوجھی۔ اس کے بازو نے زور سے جھٹکا کھایا۔ پتھر سے سرخ شیشہ ٹوٹنے کی آواز آئی پھر وہ کھڑکی سے ہٹ کر چوکی پر آ بیٹھا۔ سامنے محمود کا طوطا پھڑپھڑا رہا تھا۔ محمود کا طوطا۔۔۔ اس کے دل سے آواز آئی۔ جیسے کوئی اسے چھیڑ رہا ہو۔ محمود کا طوطا۔۔۔ محمود کا طوطا۔۔۔ تمام فضا آوازوں سے بھری ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے لپک کر پنجرہ اتار لیا اور اسے دھوپ میں رکھ دیا۔ اس کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ چوکی پر ابا کا استرا دیکھ کر رشید ٹھٹھک گیا۔ اس نے استرا اٹھا لیا۔ پتہ نہیں اس کے دل میں کیا خیال آیا۔ منہ سرخ ہو گیا۔ آنکھیں مسرت سے چمک اٹھیں، ’’محمود کا طوطا۔‘‘ اس نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ وہ پنجرے کے قریب ہو بیٹھا۔ پنجرے کا دروازہ کھل گیا۔ دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ حتیٰ کہ اسے بوڑھا فقیر بھی یاد نہ رہا۔ خچ خچ خچ۔۔۔ لہو کی بوندیں اس کے ہاتھوں پر گر رہی تھیں۔۔۔ سرخ رنگین مخمل سا لہو۔ کھڑکی سے باہر رنگین سنہری سرخی ناچ رہی تھی۔ دو بگولے آسمان پر مخملی قوس بن کر جھوم رہے تھے۔

’’محمود کا طوطا۔‘‘ اس کے دل کا کوئی کونہ تمسخر سے کہہ رہا تھا، ’’محمود!‘‘

مصنف:ممتاز مفتی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here