ایک خاوند سے دوسرا خاوند تک

0
304
urdu-story
- Advertisement -

میری اپ بیتی کو آپ چار دیواری کی دنیا کی کہانی کہیں گے لیکن میں اسے تھانیداری کی دنیا کی کہانی کہتی ہوں۔ یہ نہ سمجھیں کہ میں پولیس کے خلاف کچھ کہوں گی۔میں تھانیداروں کے خلاف بھی کچھ نہیں کہوں گی۔ یہ میرے اپنے گھر کی کہانی ہے۔میں جگہوں کے اور افراد کےجو نام لکھوں گی وہ اصلی نہیں ہوں گے ۔مجھے معلوم ہے کہ میری آب بیتی کے دو بڑے فرداس دنیا میں نہیں ہے پھر بھی میں نہیں چاہتی کہ ان کے مردے خوار کروں۔ اب تو میری اتنی عمر ہوگئی ہے اس جگہ کی تیاریاں کررہی ہوں جہاں مردے خوار ہونے کے لئے جایاکرتے ہیں۔آب بیتی ہندوستان کے ایک علاقے سے شروع ہوئی تھی. میں اس وقت کنواری تھی۔ رشتہ مانگنے والوں نے ہمارے گھر کا محاصرہ کرلیا تھا۔ مجھ میں دو خوبیاں امیدواروں کو نظر آتی تھیں۔ ایک یہ کہ مجھے خدا نے رنگ روغن او شکل وصورت ایسی عطاکردی تھی کہ جو مجھے دیکھتا وہ رک جاتا اور جب تک میں نظروں سے او جھل نہ ہو جاتی وہ مجھے دیکھتا ہی رہتا تھا۔ دوسری خوبی میرے خاندان کی تھی۔ ہم لوگ اونچے پیمانے کے زمیندار تھے۔حو یلی اونچی تھی۔ روپے پیسے کی فراوانی تھی۔ میرا رشتہ مانگنے والوں کو پتہ چل گیا تھا کہ مجھے جہیز میں پندرہ بیس ایکڑ زمین بھی ملے گی۔ہم لوگ دیہات کے رہنے والے تھے ہمارے گاؤں سے چار میل دور ایک اور گاؤں تھا جس میں ہماری ہی ذات کا اور ہماری حیثیت سے کچھ درجے اوپر کا خاندان رہتا تھا۔اس خاندان کی حیثیت اونچی ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس کے آدمی انگریزوں کی فوج میں صوبیداری کے عہدے تک چلے گئے تھے۔ ایک بوڑھا پنشن پرآگیا تھا۔ انگریزوں نے انہیں بہت ساری زمین جسے مربعے کہتے ہیں دے دی تھی۔ یہ خاندان انگریزوں کی بہت ہاں میں ہاں ملاتے۔اس خاندان کا ایک جوان پولیس میں چھوٹا تھانیدار تھا جسے اسسٹنٹ سب انسپکٹر کہتے ہیں۔ اس کی عمر چوبیس سال تھی۔ انگریزوں نے اسے اسے عہدے پر بھرتی کیا تھا۔ اب وہ ایک تھانے میں لگا ہواتھا۔یہ تھانہ ہمارے گاؤں سے چالیس پینتالیس میل دور تھا۔ اس چوٹھے تھانیدار کو میں افضل نام دے دیتی ہوں۔وہ بھی میرے امیدواروں میں سے تھا اور میرے والدین مجھے اس کو دینا چاہتے تھے کہتے تھے کہ عزت والا اورمال و دولت والا خاندان ہے اور لڑکے کا محکمہ اور عہدہ بڑا اچھا ہے۔

میں دیہات کی لڑکی تھی لیکن مجھ میں دیہات والی سادگی نہیں تھی۔ ہم نوکر نوکرانیوں والے لوگ تھے۔گاؤں میں عزت تھی اور رعب داب بھی تھا۔ ہمارے گھر میں پردہ نہیں تھا ۔میں چلبلی لڑکی تھی۔ کسی کی روک ٹوک نہیں تھی۔ کسی کو چھیرنا اورکسی پر رعب جھاڑدینا۔ میری حالت ثہزادیوں جیسی تھی. بس اپنی عزت اورعصمت کا مجھے پورا پورا احساس تھا۔ آپ نے شادی سے پہلے کی محبت کی کہانیاں سنی ہوں گی۔ اور فلمیں بھی دیکھتے ہوں گے۔ میں آپ کو اپنی بات سناتی ہوں کہ میرے دل میں کسی کی بھی محبت پیدا نہ ہوئی۔ ایک ہی خیال رہتا تھا کہ شادی ہوگی تو خاوند سے محبت کروں گی۔ یہ خواہش تھی۔میرے والدین کو اٖفضل بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ واقعی اچھا لگنے کا قابل تھا۔ قد بہت اچھا، رنگ روپ بڑا پیارا اورنقش تو بہت ہی اچھے تھے۔ میں نے اسے کئی باردیکھا تھا۔ میں اس کے گاؤں جاتی اور وہ کئی بار میرے گاؤں آیا لیکن اس کے ساتھ میری بات چیت یا سلام دعا کبھی نہیں ہوئی تھی۔ یہ آدمی مجھے بہت پسند تھا لیکن خوبصورت جوان ہونا کوئی ضمانت نہیں کہ یہ شخص اچھا خاوندبھی ثابت ہوگا میں نے اپنے بڑے بھائی سے پوچها افضل کیسا آدمی ہے۔افضل اچھا آدمی ہے۔۔۔ میرے بھائی نے کہا۔۔۔کبھی چھٹی آتی ہے تو گاؤں والوں پر تھانیداری کا رعب جھارتا رہتا ہے۔ اپنے آپ کو سب کا حاکم سمجھتا ہے۔ ایسی حرکتیں کم ذاتوں والے کیاکرتے ہیں۔ افضل کو کیا پڑی ہے کہ وہ ایسی گھٹیا شوبازی کرتا پھرے۔ اس کے پاس کسی چیز کی کمی ہے۔ میرے بھائی نے اس کے اوچھے پن کی تین چارمثالیں دے کرکہا افضل اسے اچھا نہیں لگتا میرے ابا جان طبیعت کے سخت تھے۔ ان کے آگے کوئی بول نہیں سکتا تھا دوسرے دن افضل کی ماں اوراس کا باپ آگئے میرے اباجان نے میرا رشتہ افضل کے ساتھ پکا کردیا مجھے پتہ نہیں چلتا تھا کہ خوشی مناوں کے خوبصورت اور بڑے قد بت کا خاوند مل رہا ہے،یا افسوس کروں کہ مجھے جو خاوند مل رہا کہ وہ اوچا ہے اورکمین ذات والوں کی طرح حرکتیں کرتا ہے۔ افضل کے گاؤں میں ہمارے رشتہ دار رہتے تھے. میں انہی کے گھر جایا کرتی تھی اورافضل کو دیکھا تھا. میرے رشتے داروں میں دو جوان لڑکیاں میری سہیلیاں تھیں۔ وہ دوروز بعد مبارک دینے آئیں تو میں نے انہیں کہا کہ وہ افضل کی عادتوں کے متعلق معلوم کریں اور مجھے بتائیں۔ اب میری تحقیقات کا کوئی فائدہ نہیں تھا. بات پکی ہوگئی تھی پھر بھی میں نے اپنے ہونے والے خاوند کے متعلق جاننا ضروری سمجھا۔

کچھ دنوں بعد مجھے وہی رپورٹیں ملیں جو بھائی دے چکا تھا۔ اس گاؤں کی ایک عورت نے میری سہیلیوں کو بتایا کہ اس کا خاوند کہتا ہے کہ افضل کہہ رہا تھا۔مجھے ایسی بیوی چاہئے جو بہت خوبصورت ہو کیونکہ میری پوزیشن بہت اونچی ہے’’ مجھے خوش ہونا چاہئے تاکہ مجھے اس نے اپنے معیار اور ضرورت کے مطابق ‘‘بہت خوبصورت’’ سمجھا تھا لیکن میں خوش نہ ہوئی ۔ میں تب خوشی ہوتی کہ وہ کہتاکہ اسے ایسی بیوی چاہیے جس کے ساتھ وہ محبت کر سکے لیکن اس نے محبت کی بجائے پوزیشن کی بات کی۔ اس کے گاؤں سے مجھے ایک بھی ایسی رپورٹ نہ ملی کہ اس شخص میں فلاں خوبی ہے۔ میں کسی سے ڈرنے والی نہیں تھی مجھ میں اتنی جرات اور ہمت تھی کہ اس شخص کو قبول کرنے صاف انکارکردیتی لیکن میں اپنے باپ کی پوزیشن اورعزت کوخراب کرنے کو گناہ سمجھتی تھی۔ میرے باپ نے تو میرا بھلا سوچا تها کی بیٹی اتنے امیرگھرمیں جائے گی اور خوش رہے گی۔ باپ تو مجھے ایک تھانیدار د ے دیا تھا۔ میں پارہی اور این قسمت اپنے ندا کے حضوررکھ دی ایک مہینے بعدا فضل کی بارات آئی اور وہ مجھے ڈولیں بٹھاکر لے گیا شادی کی پہلی رات کے متعلق ہر لڑکی بڑے خوبصورت خواب دیکھاکرتی ہے میں نے بھی ایسے ہی خواب دیکھے تھے مگر پہلی رات میرا رولہاکریے میں آیا تومجھےشک ہونے لگا ہے یہ کوئی مولوی یا استادہے اور ازدواجی زندگی میں بیوی کی ذمہ داریاں پر لیکچر دے رہا ہے یہ لیکچر دے کر چلاجائے گا پھر میرا دولہا آئے گا مگر وہ کون مولوی یا استاد نہیں تھا، وہ میرا دولہا چوہدری افضل خاں اسسٹنٹ سب انسپکٹر تھا۔ وہ کمرے میں ٹہل رہا تھا۔میں وہ پورا لیکچر نہیں سناوں گی تو اس نے مجھے دیا تھا اس کا مطلب اور مدعا بلکہ حکم یہ تھا کہ آج رات سے وہ میرا حاکم ہوگا اور اس کی زرخریدلونڈی۔ اگر اس کا کوئی حکم مجھے اچھا نہیں لگے گا تو بھی مجھے اس حکم کی تعمیل کرنی پڑے گی۔ میں اس کی اجازت کے بغیرکسی رشتہ دار سے نہیں مل سکتی۔ وہ مجھے اجازت نہیں دے گاکہ میں اس سے کسی بھی قسم کی باز پرس کروں۔مجھے معلوم نہیں کہ قیدی جب جیل خانے میں جاتا ہے تو اس کا وہاں استقبال کس طرح ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ نئے قیدی کوپہلے روز بتاتے ہوں گے کہ وہ سزا کے طورپرآیا ہے اور وہ آزادی سے محروم ہوگیا ہے۔ اب وہ جیل خانے سے اپنی سزاکی میعاد پوری کر کے نکلے گا۔اسے یہ حق نہیں دیا جائے گا کہ اس کے ساتھ برا سلوک کیا جائے تو وہ کوئی اعتراض کرے۔

میرے ساتھ افضل نے ایسی ہی باتیں کیں جیسے جیل خانے کا کون افسر نئے قیدی کو حکم سنا رہا ہو کہ وہ کیا کرسکتا ہے اور کیا نہیں کرسکتا۔ شب عروسی کے میرے سارے خواب تباہ ہو گئے۔ میں نے افضل کو دیکھا۔ وہ میری طرف دیکھے بغیر کمرے میں ٹہل رہا تھا۔اتنا خوبصورت جوان اس طرح لگ رہا تھا جیسے کوئی گھٹیا سا ایکٹر تھئیٹر کے اسیٹج پر ایک امیر زادے کی ایکٹنگ کررہا ہو. یہ شک بھی ہواکہ یہ شخص تھانیدارنہیں نہ یہ اونچی ذات کا آدمی ہے نہ اس کی کوئی زمین جائداد ہے۔ یہ بہروپیا ہے۔مجھے یاد نہیں کہ وہ ایک گھنٹہ بولتا رہا یا دو گھنٹہ بولتا رہا میری حالت یہ ہوگی کہ میں اس کے لئے محبت کا جو تحفہ لائی تھی اسے میں نے اپنے سینے میں ہی دفن کردیا۔ زبان پر بہت باتیں آئیں تو میں اس سے کہنا چاہتی تھی لیکن میں نے ہونٹ سی لئے اور دل پر پتھر رکھ لیا۔مجھے نیند آنے لگی اس دولہا کے ساتھ ذرا سی بھی دلچسبی نہ تھی۔ میری اس حالت میں وہ میرے قرب آیا۔ پھر بھی اس نے پیاراورمحبت کی کوئی بات نہ کی ۔ اس کے بجائے اس نے حکم کے لہجے میں مجھے لیٹ جانے کو کہا میراخون ابل گیا کہ میرے ساتھ زبردستی کی جاری رہی ہے لیکن میں کچھ نہ کرسکی۔ پرانے زمانے کی لونڈی کی طرح میں نے اس کا وہ حکم بھی مانا جسے میں آج بھی ایک انتہائی غلیظ حکم کہتی ہوں۔میں دوسرے روز میکے گئی۔ میری ماں بہت خوش تھی۔ اس نے مجھ سے پہلی رات کی بات پوچھی۔ میں نے مایوسی کے لہجے میں کہا ‘‘میری زندگی میں صرف یہ تبدیلی آئی ہے کہ میں اب کنواری نہیں رہی اوراب میں خصم والی ہوگئی ہوں۔ ماں نے کیا کہا،میں نے کیا کہا، اسے الگ یہ لمبی باتیں ہیں۔صرف یہ سن لیں کہ اپنے خاوند کے ساتھ واپس جاتے میرے دل کو بہت تکلیف ہوئی۔ دل کواس امید پر بہلایا کے خاوند کے ساتھ سے بےتکلفی پیدا نہ کی جائے جو میں چاہتی تھی۔جو ہر لڑکی چاہتی ہے۔مجھے بس یہ اعتماد تھا کہ میں اس کی پسند کی بیوی ہوں۔اس کی چھٹی ختم ہوگئی اور وہ مجھے اپنے ساتھ لے گیا۔ وہ چھوٹا سا قصبہ تھا۔افضل نے بڑا اچھا مکان کرائے پر لےلیاتها۔ہم دونوں جب اکیلے رہنے لگے تو مجھے امید پوری ہوتی نظرآنے لگی کہ افضل اپنے آپ کو میرے جذبات کے مطابق بدل دے گا مگردن گزرتے گئے اور میری امیدمرتی گئی۔ تھانے میں تو وہ چھوٹا تھانیدار تھا لیکن گھرمیں وہ بڑا تھانیداربن جاتا تھا۔ محبت اور بے تکلفی کی جائے وہ مجھے پیسے بہت دیتا تھا۔ چھٹے ساتویں روز پانچ پانچ کے اوردس دس کے پانچ نوٹ مجھے دے دیتا۔ اس نے یہ کبھی نہیں پوچھا تھا کہ میں اتنے زیادہ پیسے خرچ کرتی ہوں یا انپے ماں باپ کو بیج دیتی ہوں یا کیاکرتی ہوں۔ ایک بار میں نے پھیری والے سے اپنی پسند کا ایک کپڑا خریدا۔ افضل گھر آیا تو میں نے اسے بتایا اور کپڑا دکھایا۔ مجھے امید تھی کہ وہ میرادل رکھنے کے لئے کپڑے کی تعریف کرے گا لیکن اس نے کہامجھے مت دکھاؤمیں تم سے کبھی حساب نہیں مانگوں گا میں تمہیں پیسے خرچ کرنے کے لئے دیتاہوں اس نے جیب سے تین چار نوٹ نکالے اور میرے آگے پھینک دیے۔کبھی کبھی شام کو وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر سیر کو نکلاکرتا تھا۔ پاس سے گزرنے والے لوگ اسے جھک کرسلام کرتے تھے۔ قصبے یا دہیات کا تھانیدار چھوٹایابڑا علاقے کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔ میں اسے دیکھتی تو اس کے چہرے پر بادشاہوں والا تأثر ہوتا تھا۔ میں سمجھ گئی کہ وہ مجھے باہرلاکر دکھانا چاہتا ہے کہ دیکھو لوگ مجھے کس طرح سلام کرتے ہیں، اورلوگوں کو وہ دکھاتا تھاکہ دیکھو وہ کتنی خوبصورت بیوی کا خاوند ہوں۔اس شوبازی سے تو میری تسکین نہیں ہوسکتی تھی میں ایک خوبصورت چڑیا تھی جسے ایک آدینے پنجرے میں بند کررکھاتا۔ میں چڑیا کی طرح تڑپ رہی تھی۔اسی تھانے کا انچارج ایک دوسرا سب انسپکٹر تھا۔اس کی بیوی مجھ سے آٹھ نو سال بڑی تھی۔ زندہ دل عورت تھی۔ غیر ہونے کے باوجود وہ زندہ د ل تھی اور میرے ساتھ وہ بڑی جلدی بے تکلف ہوگئی عورتیں ایک دوسرے سے پردہ نہیں رکھا کرتیں۔وہ مجھے اپنے خاوند کی باتیں سناتی اور میں اسے اپنے خاوند کی باتیں سناتی میری اور اس عورت کی گہری دوستی ہوگئی اور ہمارے راز سانجھے میں ہو گئے۔ اس نے مجھے یہاں تک بتا دیا کے انپے میکے کے گاؤں کے ایک شخص کے ساتھ اس کی ناجائز محبت شادی سے پہلے کی چلی آرہی ہے اور وہ صرف اس کے لئے اپنے میکے گاؤں جاتی رہتی ہے۔جب بےتکلفی اتنی زیادہ بڑھ گئی تو اس عورت نے مجھے افضل کی باہر کی باتیں بتانی شروع کردیں جو اسے اس کا خاوند بتایا کرتا تھا مجھے اس عورت سے پتہ چلا کہ افضل خاں تفتیش کے معاملے میں بڑاعقل مند ہے اوراپنا دماغ استعمال کر کے ایسے سراغ پالیتا ہے جنہیں خود پولیس والے ناممکن کہا کرتے تھے۔ تھانے کے دیہاتی علاقے کے بڑے جابر قسم کے پیشہ ورچور ڈاکو افضل کے نام سے بھی ڈرتے تھے قبصے کے غنڈے بدمعاش تھانیداروں سے درا ہی نہیں کرتے ہیں لیکن افضل کہ وہ اشاروں پرناچتے تھے۔ یہ تو وہ خوبیاں تھیں ہر تھانیداریں میں ہونی چائیں۔ افضل میں خوبیاں بھری ہوئی تھیں لیکن اس میں خرابی یہ تھی کہ یہ رشوت لیتا تھا۔انگریزوں کی حکومت میں رشوت لینے کے لئے جرآت کی ضرورت تھی جو افضل نے اپنے آپ میں پیدا کر رکھی تھی۔

وہ جو نوٹ مجھ پر نچھاورکرتا رہتا تھا وہ رشوت کی دولت تھی بڑے تھانیدار کی بیوی نے مجھے یہ بھی بتایا افضل تھانیدار ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت جوان بھی ہے اس لئے دو عورتوں نے اس کے ساتھ بڑی گہری دوستی پیدا کررکھی ہے اوران کی ملاقاتیں شہر کے ایک بدمعاش کے گھر میں ہوتی ہیں۔تین سال اسی حالت میں گزر گئے۔ بڑے تھانیدار ہوکرچلاگیا۔افضل اسی تھانے میں رہا اور ایسا ہی رہا جیسا پہلے تھا۔ میں اس عرصے میں کچھ دنوں کے لیے اپنا ماں باپ کے پاس بھی رہی اورافضل کے ماں باپ کے پاس بھی میں نے اپنے جذبات کا گلا دبا دیا اور دل کو پھونک مار کر بجھادیا میرے وجود میں تلخیاں پیدا ہوکر مجھے بے چپن کرنے لگیں۔ جسمانی لخاظ سے مجھے افضل سے کوئی شکایت نہیں تھی، میرے جذبات پیاس سے مرگئے تھے لیکن میں نے اپنی تسکین کا اور کوئی ناجائز ذریعہ اختیار نہ کیا کوئی غلط روش سوچی ہی نہیں۔ میں اپنے آپ کو اتنی مری ہوئی سمجھنے لگی کے افضل سے یہ گلہ بھی نہ کیا کہ اس کی دلچسبی باہر کی عورتوں میں ہے۔ جب شادی کا دوسراسال آدھا گزرگیا تھا توسب سے پہلے میری ماں نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میں نے ابھی تک بچہ نہیں ہوا اور اس کے آثار بھی نہیں۔ میں اس کا جواب دے سکتی تھی یہی کہا کہ ہم دونوں ٹھیک ہیں۔نقص نہ افضل میں تھا نہ مجھ میں اس کے بعد ساس نے مجھ سے پوچھا اسے بھی میں یہی جواب دیا۔ دو سال گزر گئے تو خاوند نے کہا اب بچہ پیدا ہونا چاہتے ہیں نے اسے کہا کہ یہ ہم دونوں کے اختیار میں نہیں ، تین سال ہوگئے تو میری ساس نے تشویش کا اظہارکیا کہ بچہ نہیں ہوتا۔ میری ساس اچھی عورت ہے۔ اس نے کبھی اوچھی بات نہیں کی تھی۔ اس کے آنسو نکل آئے۔ کہنے لگی کہ وہ مزاروں اور خانقاہوں پرجاکر منتیں اور نذرانے مان رہی ہے۔ اس کے آنسو دیکھ کر میرے بھی آنسو نکل آئے۔ اس عمرمیں نفسیات اور فلسفے کے نام سے بھی واقفیت نہیں تھی۔ آج جب میری اولاد اس عمر کو پہونچ گئی ہے جس عمر میں میں انپی بات سنا رہی ہوں تو مجھے علم کی کچھ زریں معلوم ہوگئی ہیں۔افضل بھی ٹھیک تھا۔ میں بھی ٹھیک تھی۔ ہم دونوں بچہ پیدا کرنے کے قابل تھے لیکن میں پختہ عمر میں آکر سمجھی ہوں کہ بچہ کیوں نہیں ہوتا تھا. میرا ذہین اور میری روح قبول نہیں کرتی تھی کہ میں افضل کا بچہ پیدا کروں ۔ میرا جسم اس کے قبضے میں ہوتا تھا مگر میری روح روتی تھی۔ بھٹکتی تھی. ایسے لگتا تھا کے مجھے بدبو اور غلاظت میں پھینک دیاگیا ہے میرا دماغ پھٹنے لگتا تھا۔

- Advertisement -

ازدواجی زندگی کے چوتھے سال کےآغاز میں افضل کو ترقی دے کر سب انسپکٹر بنا دیا گیا۔ اس ترقی میں شفارش کا بھی دخل تھا۔افضل کے بزرگ انگریزوں کے خدمت گار تھے جنگ عظیم شروع ہو چکی تھی. افضل کے خاندان نے انگریزوں کو جنگی فنڈ میں دل کھول کر چندہ دیا تھا۔ اس کے صلے میں افضل کو وقت سے کچھ پہلے ہی ترقی مل گئی۔ اس کی رپوٹیں بھی اچھی تھیں۔ پولیس آفیسر کی حیثیت سے وہ قابل آدمی مانا جاتا تھا۔سب انسپکٹر بناکراسے ایسے ہی ایک قبصے کے تھانے کا انچارج بنا دیا گیا۔یہ نیا تھا نہ میرے گاؤں سے تقریبا ایک سو میل دور تھا۔ افضل مجھے ساتھ لے کر وہاں چلا گیا اور اس نے تھانے کا چارج لیا۔ پہلے قصبے کی نسبت نیا قصبہ شہر لگتا تھا۔ اس کی آبادی زیادہ تھی اوراس کے خدوخال شہروں جیسے تھے۔یہاں بھی پہلے قصبے کی طرح اردگرد کا دیہاتی علاقہ اس قصبے کے تھانے میں آتا تھا۔یہاں ہمیں زیادہ خوبصورت اور کشادہ مکان ملا،میرے خاوند کا دماغ سب انسپکٹری نے اور اونچا، بلکہ خراب کردیا۔ میں آپ کو یہ بتا دوں کے وہ مجھ پر کوئی سختی نہیں کرتا تھا. مجھے روکتا ٹوکتا نہیں تھا۔ اس نے شادی کی پہلی رات مجھے کہا تھا کہ مرد حاکم ہوتا ہے اورعورت اس کے ہرحکم کی تعمیل کرتی ہے لیکن اس نے عملی طور پرمجھ سے کبھی کوئی ایسا حکم نہیں منوایا تھا جو میں نہ ماننا چاہتی۔ میں یہ کہہ رہی ہوں اس کی طبیعت خشک اور مزاج حاکموں جیسا تھا۔ مثلا میں گھر کے متعلق یا کسی شادی یا ماتم پر جانے کےمتعلق اور وہاں کچھ دینے ڈلانے کے متعلق کوئی مشورہ دیتی تو فورا حاکم بن جاتا، کوئی فیصلہ نہ دیتا اوراس طرح کی ایکٹنگ کرتا جیسے وہ سوچ کر اور فرصت کے وقت اپنا فیصلہ سنائے گا۔میں چلبلی اورہنسوڑ لڑکی تھی. دل بیتاب ہوتا تھا کہ کبھی وہ مجھے چھیڑے میں اسے چھپڑوں اور ہنس کھیل کر کے وقت گزرے مگر اس میں ہنسی مذاق والا کل پرزہ تھا ہی نہیں۔ وہ میرے سات کھیل کر بات بھی نہیں کرتا تھا۔ میں اس کے لئے گھر کے استعمال والی دوسری چیزوں کی طرح ایک بے جان چیز تھی جسے وہ اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا اور الگ رکھ دیتا تھا۔ اگر میرا ایک بھی بچہ ہو جاتا تو میں اس سے دل بہلالیا کرتی۔ لیکن ایک روز اس نے مجھ سے کہاتم بتا سکتی ہوکہ اتنے عرصے میں تم نے بچہ کیوں نہیں پیداکیا؟میں جلی بیٹھی تھی میں نے کہا۔۔۔۔آپ بنا سکتے ہیں کہ آپ نے اتنے عرصے بچہ کیوں پیدا نہیں کیا؟

میں تم سے پوچھ رہا ہوں۔۔۔ اس نے ایسے لہجے میں کہا جیسے میں کسی واردات میں مشتبہ ہوں۔اس نے کہا مجھے فورا میرے سوال کا جواب ملنا چاہیے۔میرے اندر آگ لگی کہ بچہ بنا بناکر آپ کو دیتی چلی جاوں۔۔۔میں نے کہا۔۔میں بلکل ٹھیک ہوں۔ اپنا علاج کرائیں۔ کسی داکٹر سے چیک کرائیں۔مرد اس چوٹ کو برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کی بیوی اسے کہے کہ وہ بچہ پیداکرنے کے قابل نہیں ۔ مرد یہ نہیں سوچتا کہ ہوسکتا ہے قدرت نے اسے اس وصف سے محروم رکھا ہو۔ میرا خاوند بھی یہ چوٹ برداشت نہ کرسکا۔ اس روز اس نے مجھے یاد دلایا کہ عورت کو حق حاصل نہیں کہ وہ مرد کی توہیں کرے میں اپنے قابو سے نکل گئی، تین برسوں کا رکا ہوا غبارپھٹ پڑا۔ یہ ہماری پہلی لڑائی تھی بہت یک بک ہوئی۔ اس نے مجھے ڈانٹتے ہوئے کہا۔۔۔میں تمہیں بکواس کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ تم میری بیوی ہو۔ ‘‘بیوی نہیں میں نے چلا کر کہا’’ آپ نے مجھے داشتہ بنا کے رکھا ہوا ہے، میں بیوی بننا چاہتی ہوں میراصرف جسم نہیں، اس جسم میں روح بھی ہے، جذبات بھی ہیں۔اس کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہیں تھا کہ وہ مرد ہے اور میں عورتوں ہوں جیسے بکواس کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اگر وہ باوقار مردوں کی طرح مجھے ڈانٹ پٹ کرتا ہو وہ مجھے اچھا لگتا. یہ تو مجھے معلوم تھا کہ وہ اوچھا آدمی ہے لیکن اس روز مجھے پتہ چلا وہ اندر سے بالکل ہی کھوکھلا ہے۔ اس روز میرے دل میں اس کی جو ذرا سی عزت رہ گئی تھی وہ بھی نکل گئی اور میں نفرت سے بھر گیا۔ ایک اور سال گزر گیا۔ اس تھانے میں جو چھوٹا تھانیدار اے ایس.آئی تھا اسی کی تبدیلی کہیں ہو گئی تھی اس کی جگہ جو نیا اے ایس آئی آیا وہ جوان تھا۔ اس کی پچیس سال کے لگ بھگ تھی۔ افضل نے مجھ سے کہا کہ وہ اسے کھانے پر مدعو کرنا چاہتا ہے میں نے بڑے اچھے کھانے کا انتظام کیا اورنیا اسے ایس ائی ہمارے گھر آیا اصلی نام کے بجائے میں اسے یسییں کہوں گی۔ افضل میری نمائش کرنے کا عادی ہوگیا تھا۔ یسین آیا تو افضل نے مجھے بلایا اور یسین سے میرا تعارف کرایا۔ میں کچھ دیر ان کے پاس بیٹھی۔افضل کی کوئی بات اور اس کا کوئی کام مجھے اچھا نہیں لگتا تھا۔ میں یسین کے سامنے دو تین منٹ سے زیادہ نہیں بیٹھنا چاہتی تھی کیونکہ میں جانتی تھی کہ افضل اسے دکھا رہا ہے کہ اس کی بیوی کتنی خوبصورت ہے۔ میں اپنے آپ پر جبر کرکے بیٹھ گئی لیکن یسین کی باتیں مجھے اتنی اچھی لگیں کہ میں نے جلدی اٹھنے کا ارادہ بدل دیا. وہ ہسننے اور ہسننانے والا آدمی تھا۔میں نے اسے یسین کی باتوں پر مسکراتے دیکھا۔یسین نے تین خاوندوں اوران کی بیویوں کی اتنی دلچسپ باتیں سنائیں کہ میں ہنسی ہنسی کے دوہری ہونے لگی۔ میں نے محسوس کیاکہ میرے وجود میں زہر بھر گیا تھا۔ یہ زہر نکل گیا اور میری حالت ایسی ہوگی جیسے میں زندہ دفن ہوئی تھی اور یسین نے مجھے زمین سے نکال کر مجھ میں نئی روح پھونک دی ہے یا روح کو تازہ کردیاہے۔شکل وصورت اور رنگ روغن کے اعتبار سے وہ افضل کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا۔ اس کا رنگ گندمی تها اسکا قد افضل کی طرح اچھا تھا۔ وہ چونکہ زنده دل تها۔اس لئے اس کے چہرے پر رونق اور آنکھوں میں بڑی پیاری چمک تھی۔ گر افضل مجھے یہ نہ کہتا کہ جاؤ کھانابھیجو تو میں یسین کے سامنے جانے کب تک بیٹھی رہتی۔یسین کھانا کھا چلا گیا۔ مجھے اس کے جانے کا افسوس ہوا۔ آٹھ دس دنوں بعد ایک شام وہ پر آیا میں افضل کے کہنے کے بغیر اس کمرے میں جا بیٹھی جس میں دونوں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کی مزاحیہ باتوں نے مجھے بہت لطف دیا۔ اسے دیکھ کر مجھے افضل پہلے سے زیادہ برا لگنے لگا یسین نے یہ معمول بنالیا کہ وہ آٹھ دس دنوں بعد افضل کے ساتھ میرے گھر اتا۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ میں اس کی بالوں کو پسند کرتی ہوں۔مجھے خوش کرنے کے لئے وہ ہسنے ہنسانے والی باتیں کیا کرنا تھا۔وہ چار پانچ مرتبہ آچکا تو ایک بار افضل کو سیشن کورٹ میں گواہی کے لئے بلایا گیا سیشن والا شہر سے تیس میل دور تھا ۔ افضل کو صبح جاکر شام کو واپس آجانا تھا۔ لیکن وہ نہ ایا۔ اس کی بجائے شام کو یسین میرے گھر آیا۔ اس نے بتایا کہ افضل کاپیغام آیا ہے کہ وہ کل شام آئے گا۔ پولیس ہیڈکوارٹر وہیں تھا. وہ ہیڈ کوارٹر میں کسی کام کے لئے رک گیا تھا مجھے خوشی ہوئی کہ افضل نہیں آیا اوریسین آگیا ہے یسین نے کہا کہ وہ افضل کی غیر موجودگی میں میرے پاس نہیں بیٹھے گا لیکن میں نے اسے زبردستی بیٹھالیا۔ اس کی باتوں نے میری زندہ دلی کو جگا دیا۔افضل کے سامنے تو یسین کی باتوں کو سنتی اور ہستی تھی۔ افضل نہیں تھا تو میں نے یسین کے ساتھ بےدھڑک ہنسی اور مزاق کی باتیں کیں۔

جب وہ جانے لگا اس وقت تک میں ہلکی پھلکی ہو چکی تھی۔ میرے منہ سے نکل گیاکہ افضل انتا سنجدہ اور ایسا کھچاروٹھا سارہتا ہے کہ میرا دل مردہ ہوگیا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ وہ اتا رہا کرے۔دوسرے دن وہ شام کو آنے کی بجائے دوپھر کو ایا گیا۔ میں نے اسے کھانا کھلایا اور کچھ دیر بھائیے رکھا ہم نے اچھی باتیں کیں۔ اداسی باتیں کیں اور ایسی باتیں بھی کیں جن سے اداسیاں اورتلخیاں قہقہے بن گئے۔ میں یسین کوافضل کے مقابلے میں خوبصورت سمجھے لگی۔حقیقت میں افضل صیحیح معنوں میں خوبصورت آدمی تھا یہ بھی ذہین میں رکھیں کہ یسین کے ساتھ میری گہری بےتکلفی پیدا ہوگئی تھی۔ اسے دوستی بھی کہا جاسکتا ہے لیکن میں خداکو خاظرناظر رکھ کر کہتی تھی کہ میں نے اس کے ساتھ میاں بیوی والے تعلقات پیداکرنے کی سوچی ہی نہیں میں آپ کو بتا چکی ہوں کہ کوئی جسمانی تنگی نہیں تھی۔ اگر حیوانوں کی سطح پر اس نے مجھے ہمیشہ مطمعن رکھا تھا مگر انسان ہمیشہ حیوان نہیں رہ سکتا عورت کو اس سفلی سطح پر دیکھنے والے بہت بڑی غلطی پر ہوتے ہیں۔ عورت شفقت محبت اور زندہ دلی چاہتی ہے۔ ایک جذباتی تسکین سی تھی تو مجھے یسین سے مل گئی تھی۔ اس نے بھی کبھی بری نیت کا اظہار نہیں کیا تھا۔ شاید وہ افضل سے ڈرتا تھا۔ اس کے بعد ایسے ہوا کہ افضل چونکہ تھانے کا انچارج تھا، اس لئے اسے اکثر کورٹوں میں شہادت کے لئے جانا پڑتا تھا کبھی وہ کسی سنگین واردات کی تفتیش کے لئے دیہاتی علاقے میں جاتا تو تین تین چارچاردن وہیں رہتا۔ انگریزوں کی حکومت تھی اوران انگریز تفتیش کے معاملے میں بہت سختی کرتے تھے۔ ڈاکے اورقتل کی واردات ہوجائے اوتھانیدا کے لئے حکم تھا کہ واردات والے گاؤں میں رہے اور سراغ لگاکر وہاں سے ہلے۔یسین افضل کی موجودگی میں بھی آتا تھا اورافضل کی غیر موجودگی میں زیادہ دیر بیٹھتا رہتا تھا۔ ایک روز میں نے اس سے پوچھا کہ وہ اپنی بیوی کو کیوں نہیں لاتا۔ وہ فورا اداس ہوگیا۔ کہنے لگا کہ اس کی بیوی میری طرح خوبصورت تھی لیکن سڑیل مزاج تھی ۔ یسین نے اسے اپنی طبیعت کے مطابق بدلنے کی بہت کوشش کی اسے اتنے پیسے دیتا رہا جتنے اس نے اپنے ماں باپ کے گھر بھی نہیں دیکھے تھے. اسے قیمتی اور نئے ڈیزائنوں کے کپڑے دیتا رہا۔ اسے گھماتا پھر اتارامگروہ لڑکی انپی عادتیں نہ بدل سکی۔وہ ہر بات میں مین میخ نکالتی اور منہ لبورلیتی تھی۔

یسین کو یہ لڑی اتنی اچھی لگتی تھی کہ اسے چھوڑنا اس کے لئے موت تھی لیکن اس لڑکی نے یسین جیسے زندہ دل آدی کی زندگی کو جہنم بنادیا۔ یسین نے بتایا کہ اس کی ساس بھی ایسی ہی تھی۔ بیٹی پر اس کا اثر تھا۔ آخر تنگ اکر اس نے ساس سے کیاکہ وہ اپنی بیٹی کو سمجھائے کہ اسے کسی قسم کی تنگی نہیں پھر وہ کیوں لڑے مرنے پر تیار رہتی ہے۔ ساس نے یسین کی دلجوتی کرنے کی بجائے اس کے ساتھ وہی سلوک کیاتو بیوی اس ساتھ کر رہی تھی یسین نے دیکھا کہ اس کی بیوی کو بہتر نے کی بجائے اس کی ماں اسے بدتر کررہی ہے تو اس نے اسے طلاق دے دی اور مہر کے علاوہ بھی کچھ رقم دی۔دوسری شادی کب کر رہے ہو۔۔؟ میں نے پوچھا.دل اکھڑگیا ہے۔اس نے مایوسی کے لہجے میں کہاجو اپنے دل کو اچھی لگتی تھی وہ اپنی نہ بنی تو مجھے وہم ہوگیا ہے کوی بھی میری نہیں نہ بن سکے گی؟میرے ذہن میں اپنی برادری کی دو لڑکیاں آگئیں ۔ دونوں خوبصورت اور میری طبیعت کی تھیں میں نے ان سے کہاکہ وہ شادی کرنا چا ہے تو میں اس کی پسند کی شادی کروا سکتی ہوں۔ اس نے کہا کہ اس کی اپنی برادری میں لڑکیوں کی کمی نہیں ہے لیکن پہلا زہم ہٹ جائے تو وہ دوسرا کھانے کا سوچے گا۔اس کی ازدواجی زندگی کا یہ انجام سن کر میرے دل میں اب اس ہمدردی پیدا ہوگئی۔ اس کی جذباتی حالت میرے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔ میرے اپنے جذبات کا ہی شر اور کام میں ہورہا تھا۔ وہ تو مردتھا اس لئے زنجیر توڑ کر آزاد ہوگیا تھا۔یہ عورت کے لئے ہوتی ہے جو گل سڑ جاتی ہے۔ آزاد نہیں جلتے ہوئے تنور سے نکل نہیں سکتی۔یسین کا اور میرا دردایک جیسا تھا۔ اس کا بعد ہمیں مل بیٹھنے کا موقع ملتا تو ہم اس درد کی باتیں کرتے اور وہ مجھے ساکر میرا در کم بھی کر دیتا۔ پھرمیں نے اسے بتادیاکہ میرے ساتھ تو بھی وہی بت رہی ہے اس کے بیتی ہے۔ میں اس سے پہلے اس کے ساتھ کبھی افضل کے خلاف کبھی بات نہیں کی تھی۔ اب کی تو اس نے مجھے بتانا شروع کردیا کہ افضل کو اس کے عملے کا بھی کوئی آدمی پسند نہیں کرتا۔اس کا حکم ماننا پڑتا ہے یسین نے بتایا وہ کہیں نہ کہیں سے رشوت لیتا ہے تواس کے سات توہیڈکانسٹیبل اور کانسٹیبل ہوتے ہیں انہیں بھی دلادیتا ہے بس ایک وجہ ہے ا سے عملہ پسند کرتا ہے۔ میں نے اس کے ساتھ دوستی اس لیے رکھی ہے کہ مجھے آئندہ ترقی کے لئے اس کی اچھی رپوٹ کی ضرورت ہے میں اسے ناراض نہیں کرسکتا۔سنا ہے باہر کی عورتوں میں دلچسپی لیتا ہے ۔ میں نے کہا۔اس کی دلچسپی ہے ہی باہر کی عورتوں کے ساتھ یسین نے کہا اگر کوئی شریف آدمی کسی طرح پولیس کے چکر میں آجائے تواس کے گھر کی شریف عورتوں پر بھی بری نظر رکھ لیتا ہے۔یسین نے مجھے افضل کی بہت سی باتیں سنائیں ہیں تو یہ سمجھنے لگی کہ افضل کو صرف میرے ساتھ دلچسچی نہیں اور اس کی ساری دلچسچیاں باہر کی عورتوں کے ساتھ ہیں. میں نے افضل سے کچھ بھی نہ کہا۔ بے فائده تها۔ چارسال گزر گئے تھے۔ اگر اسے میرا خیال ہوتا تواس عرصے میں کچھ تو بدلتا۔اسے بدلنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ میں اس کی قیدی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ بھاگ نہیں سکتی۔اس میں تو کوئی تبدیلی نہ آئی ، میری سوچوں میں انقلاب آنے لگا۔ نفرت اتنی زیادہ ہوگئی کہ افضل گھر اتا تو میری سانسیں اکھڑ جاتیں اور میراجسم تپ جاتا تھا۔ پہلے اس طرح نہیں ہوتا تھا۔ایک خیال میرے دل پر بیٹھ گیا جو مجھے غصہ دلاتا تھا خیال یہ آنے لگا یہ شخص قابل نفرت ہے اور میں اتنی مجبور ہوں کہ میر میری عصمت دری کرتا ہے اور میں کچھ نہیں کرسکتی۔ میں نے ذہین سے اتار دیا کہ میرا خاوند ہے۔ اس پر ہماری دو مرتبہ لڑائی ہوئی۔ میں طبعیت کی خرابی کا بہانہ کر کے اس سے الگ ہوئی اوراس کے حکم کو میں نے دھتکاردیا۔ اب تو میری اوراس کی دشمنی ہوگئی تھی۔ مجھے ڈر یہ تھاکہ وہ بھی مجھ پر یہ الزام عائد کر دے گا میری یسین کے ساتھ دوستی ہے۔ مرد کو اپنی بیوی کے خلاف کوئی شکایت نہ ملے تو وہ بیوی پرید چلنی کا الزام تھوپ دیتا ہے لیکن اس نے ایسی کوئی بات نہ کی۔ اور اشاره تک نہ کیا۔میں نے شادی سے پہلے بھی کوئی گناہ نہیں کیا تھا۔ شادی کے بعد بھی میں پاک صاف رہی، پھر بھی خدا نے مجھے ایسی سزا دی جیسے میں نے کوئی ایسا گناہ کیا ہو جیسے خدا بھی برداشت نہ کرسکا۔ ایک تو یہ خاوند مجھے سزا کے طور پرملا۔ خدا نے سوچا ہو گا یہ کافی نہیں۔ اس کی ذات باری نے مجھے ایسی سزا دی کہ میں پاگل ہوگی. ہوا یہ کہ میرے ابا جان اور میرا بڑا بھائی قتل ہو گئے۔ کھیتوں کو پانی لگانے پر جھگڑا ہوا کہ لڑائی تک نوبت آگئی۔ دوسرے فریق کے آدمی زیادہ تھے۔ میرا باپ بھی ماراگیا بھائی بھی ماراگیا اب میرا چھوٹا بھائی رہ گیا اور میری ماں رہ گئی۔

لڑکی کے لئے ماں باپ اور بھائی جذباتی سہارا ہوتے ہیں۔ لڑکی انہی کے ساتھ دکھ درد کی باتیں کرسکتی ہے ۔ جسے افضل جیسا خاوند مل جائے اس کے لئے تو ماں باپ ہی پناہ ہوتے ہیں۔ میرا یہ سہارا مجھ سے چھین گیا۔ قاتلوں کو عمر قید کی سنرا ہوگئی ۔ اگر انہیں پھانسی دے دی جاتی تو بھی مجھے میرا باپ اور بھائی تو نہیں مل سکتا تھا۔ اس اتنے ظالم حادشے کے بعد مجھے ہر طرف اندھیرا اور مایوسی کی گھٹائیں نظر آنے لگیں۔ اگر افضل میرے سر پر ہاتھ رکھ دیتا اور مجھے غم زدہ سمجھ کر میرا غم ہلکا کرنے کی کوشش گرتا۔ تو میں اپنے دل سے نفرت نکال کر محبت پیداکردیتی مگراس کا رویہ اور سلوک پہلےسے زیادہ خراب ہو گیا۔ میں اب یسین کی ضرورت پہلے سے زیاده محسوس کرنے لگی۔چھ سات مہینے گزر گئے۔ قصبے میں ایک شخص کے گھر میں نقب لگی۔ ریورات، نقدی اور کچھ اور قیمتی سامان نکال لیا گیا. نقب زنی سنگین واردات سمجھی جاتی تھی۔ افضل اس تفتش میں مصروف ہوگیا۔ اس نے مجھے کبھی نہیں بتایا تھا وہ کیا کر رہا ہے اور تفتیش کہاں تک پہونچی ہے۔ اس کی غیر حاضری میں یسین مجھے بتا تھاکہ کیاواردات ہوتی ہے تفتیش کیا ہورہی ہے۔ایک روزا فضل کسی کیس کی شہادت میں سیشن کورٹ میں چلاگیا۔ اسے شام کو واپس آنا تھا۔یسین آگیا۔ اس نے بتایا کہ افضل نقب زنی کی تفتیش میں بڑا ظلم کر رہا ہے جس کے گھر نقب لگی تھی وہ روپے والا آدمی تھا۔ اس نے شک میں تین آدمیوں کے نام لکھواریئے۔ یہ سب اسکے رشتہ دار تھے۔ وہ کہتا تھا کہ ان رشتہ داروں نے دشمنی کی وجہ سے اس کے گھر نقب لگوائی ہے اور گھر بھیدی کا کام کیا۔ افضل نے ان سب کو تھانے بلا لیا اوران کی پٹائی کر دہا تھا۔یہ تھانے کے معاملے تھے۔ ان کے ساتھ میری کوئی دلچسپی نہیں تھی. وہ انہوں کو مارتا پیٹتا اور مجرموں کو پکڑتا تھا جو اس کی ڈیوٹی تھی ۔ وہ فرشتہ نہیں تھا۔کسی کو دیکھ کریقین سے کہہ دیتاکہ یہ ہے وہ شخص جس نے یہ واردات کی ہے، مجھے افسوس اور غصہ ایک اور بات پر آرہا تھا۔جو یسین نے مجھے بتائی تھی۔مشبہتوں میں ایک آدمی کچھ غریب تھا۔ تیس کے لگ بگ اس کی عمر تھی۔اس کی بیوی جس کی عمر چھبیس سال تھی۔ وہ خوبصورت تھی۔یسین کہتا تھا کہ افضل ان مشتبہ آدمیوں سے نقد رشوت کا سودا کررہا تھا۔ یہ سب غریب تھے۔ اور اتنی رقم نہیں دے سکتا تھا۔ افضل نے رات کو بھی انہیں بٹھائے رکھا۔رات کو ایک خوبصورت عورت تھانے میں آئی. اسے افضل نے اپنے دفتر بٹھالیا۔ وہ ایک مشتبہ کی بیوی تھی۔ عورت غریب تھی لیکن چہرے کے رنگ اور نقش و نگار سے جسم کی بناوٹ اور لچک سے امیرگھرانے کی معلوم ہوتی تھی۔موجودگی میں اس عورت نے روردکرافضل کو بتایا میرا خاوند ایسا نہیں کہ کسی کے گھر نقب لگائے۔ وہ بہت شریف آدمی ہے۔ اس عورت نے بتایاکہ جب آدمی کے گھرنقب ہوا وہ ان کا رشتہ دار ہے اور امیر آدمی ہے۔ اس کی عادتیں گندی ہیں گاؤں والوں کے ساتھ بیٹھ کر شراب پیتا ہے. ادراری میں سب پررعب گانٹھتا ہے، جیسے سب اس کی حکومت ہوں۔ اس وجہ سے رشتہ دار میں کوئی بھی اسے منہ نہیں لگاتا۔ دو مرتبہ ایسا ہوا کہ اس نے اپنے کسی رشتہ دار پر رعب جھاڑتا بلکہ اس کے منہ پر تھپڑ مارے۔ تمام رشتہ دار اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کی بے عزتی کی۔ وہ سب رشتے دار اس سے جلتے ہیں۔ اب کہتا ہے کہ وہ سب نے ارادے کیا نقب سب نے مل جل کر لگوانی ہے۔ یسین نے مجھے بتایاکہ افضل کے چہرے کا رنگ بدل گیا اس نے اس عورت سے کہاکہ تمہارے خاوند پرتو پکا ہے۔ اسے اتنی جلدی نہیں چھوڑا جاسکتا۔یہ سن کر عورت اور منتیں کرنے لگی ہے جیسے اس کے خاوند کی زندگی نے افضل کے ہاتھ میں ہو۔تم خود جانتی ہو کسی کے بھی گھر کے حالات پولیس سے نہیں ہوتے۔یسین نے مجھے کہا ہر جگہ ہماری ہمارے معلوم میں ہوتے ہیں مجھے معلوم ہے کہ افضل جانتا کا نقب ا س کی وجہ نہیں ہوئی اور جس کے گھر نقب لگی ہے رشتہ داروں کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں مجھے اچھی طرح پتہ ہے جو آدمی اپنے رشتہ داروں کو ذلیل کررہا ہےآچھا آدمی نہیں ہے۔ یہ بھی شک ہے کہ اس نے اپنے رشتہ داروں کو ذلیل کرنے کے لیے افضل کو رشوت دی ہوں۔یہ کام کر کے افضل اصل مجرموں کا پتہ لگائے گا۔اب وہ ان مشتبہوں سے رشوت مانگے گا۔

دو روز بعد افضل رات کو ذرا دیر سے گھر آیا۔ اس کے ایک کیس کے سلسلے میں دوتین آدمی ہمارے گھر آرہے ہیں۔اس نے آتے ہی بتا دیا۔اس پاس آدی تو آتے ہی رہتے تھے کیس کے سلسلے میں نہ آئیں تو شہر کے معزز خو شامدی اوربڑی اچھی حیثیت کے معزز آتے تھے۔ افضل کی نوکری ہی ایسی تھی لیکن اس نے مجھے کبھی نہیں کہا تھا کہ کوئی آدی آرہے ہیں،تم ا د ھر نہ آنا میں باہر کے آدمیوں میں کبھی بھی نہیں بیٹھی تھی. صرف یسین تھا جس کے سامنے خود افضل نے بھٹایا تھا۔ مجھے شک ہوا کہ کوئی خاص آدمی آرہا ہے میں نے ارادہ کرلیا میں اسے ضرور دیکھوں گی۔افضل نے کھانا جلدی کھا لیا.رات اندھیری ہو گئی۔ ہمارا مکان بہت بڑا تھا۔ سامنے کے علاوہ ایک دروازه اس کے پیچھےبھی تھا۔ اس دروازے پرآہستہ سے دستک ہوئی۔ افضل اسی کمرے میں تھا۔جس میں وہ ملاقاتیوں کوبٹھایا کرتے۔ جو کوئی آیا تھا اسے افضل کمرے میں لے آیا اور اس نے اندر کی چٹنخنی چڑھا دی۔ میں ایک کمرے میں چلی گئی۔ اس میں بھی اس کمرے کا ایک دروازہ کھلتا تھا۔ اس کے کواڑوں میں دوتین درزیں ذرا کھل گئی تھیں۔ میں نے ایک درز کے ساتھ آنکھ لگائی تو افضل کے ملاقاتی کمرے کا سارا منظر نظر آگیا۔ ایک عورت تھی جو مجھے وہی لگی جس کے متعلق یسین نے مجھے بتايا تھا کہ اس کے خاوند کو افضل نے مشتبہ بٹھا رکھا ہے۔ وہ کمرے میں کھڑی تھی اور کرسی پر بیٹھنے لگی عورت شرما نہیں رہی تھی۔ بلکہ رو رہی تھی۔ اس نے روتے روتے افضل سے کہا وہ پررہ دارہے اوراس کا خاوند شریف آدمی ہے۔ خدا معلوم انہیں کون سے گناہ کی سزا دے رہا ہے کہ خاوندنقب زنی کے شک میں پکڑا ہوا ہے اور میری عزت آبرو بھی انپی نہیں رہی۔تمہارے خاوند کوچھوڑنے کے لئے مجھے اپنی نوکری اور تھانیداری خطرے میں ڈالنی پڑے گی۔ یہ میں تمہاری جوان پر رحم کررہا ہوں۔افضل نے کہا اس کے خلاف شہادت مل گئی ہے۔ اگر تم اس کے لئے معمولی سی قربانی نہیں دے سکتیں تو وہ دس گیارہ برسوں کے لئے جیل چلا جائے گا۔عورت روتی رہی۔ افضل اس کے پیچھے پڑارہا۔ عورت برقعے میں تھی۔ افضل نے اسے اتنارڈرایا کہ اس کا سر جھک گیا۔ اس نے سر اٹھا کرافضل سے پوچھا۔کل صبح آپ میرے خاوند کو نہیں چھوڑ سکتے۔نہیں افضل نے کہا۔۔۔ پندرہ بیس دن لگیں گے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارے خاوند کے خلاف مقدمہ نہیں بنے گا۔ ایسے میں تھانے سے باہر بھیج دوں گا لیکن شرط یہ ہے کہ تم میرا کہا مانو۔پردہ دار عورت نے اپنے غریب خاوند کو اس جال سے نکالنے کے لئے روتے ہوئے سرقدموں میں رکھا۔ میں نے درزسے آنکھ ہٹالی. کچھ وقت بعد میری آنکھ پھر درز سے جا لگی۔عورت سسک رہی تھی۔ وہ پلپنگ سے اٹھی تو پتہ چلتا تھا۔کہ غش کھا کرگر پڑےگی۔مجھے ایسا کوئی افسوس نہ ہوا کہ میں نے اپنے خاوند کو ایک عورت کے ساتھ دیکھا ہے ۔ افضل سے میں دل کارشتہ کبھی کا توڑ چکی تھی۔ میرا دماغ اب کچھ اورسوچ رہا تھا۔میں بڑی سنجیدگی سے اس سوچ میں کھوتی رہی۔ آگر میں کردار کی کچی ہوتی تو یسین میرے ہاتھ میں تھا۔ میں اس کے ساتھ گندا تعلق کرکے افضل سے انتقام لیتی لیکن لیکن ادھر میرا دھیان ہی نہیں گناہ کر کے گناہگار سے انتقام لینا کوئی کمال تونہیں۔ میں نے چونکہ گناہ کی نہیں سوچی تھی۔ایک ہی دن گزرا تھا کہ افضل کوڈی ایسں۔ پی آگیا. وہ فورا روانہ ہوگیا۔ میں نے یسین کو گھر بلوالیا میں نے اسے رات کا سارہ واقع سنایا۔ اور میں نے یسین سے کہا کہ میں اٖفضل کو موقع پر پکڑوانے کا پکا ارادہ کر چکی ہوں۔ ڈی ایسں۔ پی انگریز تھا۔ اس تک خبر پہونچ جاتی تو وہ افضل کو پکڑ لے گا۔ یہ خبر یسین پہونچا سکتا تھا لیکن وہ ڈرگیا۔

میں نے اس کا حوصلہ بڑھایا لیکن وہ ڈرتا ہی رہا۔میری بات غور سے سنو یسین۔۔!میں جانتی ہوں کہ تمہارے دل میں میرے لیے بہت محبت ہے۔تم افضل کے ڈرسے چھپارہے ہو کہ تم مجھے چاہتے ہو۔میں تمہیں چاہتی ہوں۔ یہ میرا وعدہ ہے کہ میرا وعدہ ہے افضل کو پکڑوا کرمیں افضل سے طلاق لے لوں گی۔ میں اپنے گھر نہیں جاؤں گی۔ تمہارے گھر جاؤں گی اور میرے ساتھ نکاح پڑھالینا وہ بڑی مشکل سے راضی ہوا کہ یہ پہلا موقع تھا اسے بازوں میں لے کر گلے لگالیا۔اس کا دماغ میری سکیم پر چل پڑا۔ اس نے کہا کہ ایسں۔ پی تیس میل دوررہتا ہے۔اور اسے ہم کس طرح اطلاع دے سکتے ہیں کہ اس وقت وہ عورت افضل کے پاس تھی ۔میرے دماغ میں ایک ترکیب آگئی میں نے یسین کو کہا کہ اس عورت کو کسی طرح بلواکر مجھ تک پہنچادو۔کیونکہ شام تک افضل آجائے گا یسین نے کہا یہ مشکل کام نہیں۔ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ عورت میرے گھر میں اگئی۔وہ ڈر رہی تھی کیونکہ میں تھانیدارنی تھی۔ میں نے اسے بڑے احترام اورعزت سے بھٹایا اور اسے کہا کہ افضل جوسلوک اس دن ہوا وہ میں سب جانتی ہوں اورمیں یہ بھی جانتی ہوں کہ تم نیک اور پردہ دار عورت ہو۔ میں تمہیں اس جال سے نکالنا چاہتی ہوں۔اسے مجھ پر یقین نہیں آرہا تھا کہ میں اس کی نجات کے لئے وہ مجھے غلط سمجھ رہی تھی، وہ میری ہمدردی کو دھوکہ سمجھ رہی تھی۔ اس کے ساتھ مجھے بہت سرکھپانا پڑا۔میں نے اسے یہ بھی بتایاکہ اس وردات کے ساتھ اس کے خاوند کا تعلق نہیں۔ تم مجھ پر اعتبار کرو۔ میں نے اسے دوروز بعد کی رات وہیں وہ گذشتہ رات جس وقت ائی تھی اسی وقت افضل بھی کمرے میں آجائے۔ دن کو وہ تھانے میں اکرافضل کو کہے کہ وہ رات کو آئے گی وہ مان گئی اور چلی گئی۔ اس کے جانے بعد یسین آیا۔ میں نے اسے بتایاکہ اس عورت کو میں نے فلاں رات افضل کے لئے تیار کیا ہے یسین نے کہا کہ ڈی۔ ایس۔پی کو لانا میرا کام ہے۔یسین نے بتادیا کہ دی ۔ ایس۔ پی تک میں نہیں جاوں گا شہر سے ایک آدمی جائے گا۔مجھے احساس تھا کہ میری سکیم ناکام ہوئی تو افضل مجھے مار دے گا اوریسین کو پریشان کرے گا۔ اس خطرے وجود میں میں نے سکیم پرعمل شروع کردیا تھا،مجھے یہ لگ رہا تھا۔کہ یسین مجھے دھوکہ نہ دے دے اور اس نے ساری بات افضل کو نہ بتادی ہو۔

وہ رات آگئی عورت آگئی۔ میں نے درا ئیں سے وہی دیکھا۔جو تین رات پہلے دیکھا تھا۔میں نے باہر کا دروازه کھول دیا تھا۔یسین کا پیغام مجھے دن کو مل گیا تھا۔ اس نے ایس پی کو اطلاع دے دی ہے۔ دیکھئے انگریزوری میں خوبیاں تھیں۔ مجھے اپنے صحن میں قدموں کی آہٹ سنائی دی میں باہر نکلی۔ یسین کے ساتھ ڈی۔ایس۔پی کی بجائے انگریز انسپکٹر اور دو کایسٹیبل تھے۔میں نے یسین کو کہا کہ کام تیار ہے۔ انگریز انسپکٹر نے افضل کے ملاقاتی کمرے کے پر دستک دی اندر سے افضل کی غصیلی اوربڑی آواز آئی کیا کہتی ہو ٹھہرذرا۔میں آتا ہوں۔انگریز انسپکٹر نے اردو زبان میں کہا دروازہ فورا کھولو اورجس حالت میں ہو باہر آجائو۔وہ دروازے پر ہاتھ مارتا رہا۔دروازو ایک دو منٹ بعد کھولا اور عورت دوسرے دروازے سے نکل رہی تھی۔ انگریز افسر نے اسے دوڑ کر پکڑلیا. وه اونچی آواز سے رونے لگی۔ انگریز انسپکٹر نے اسے اورافضل کو اپنے ساتھ لے گیا۔ آدھی رات کے وقت یسین آیا۔ اس نے بتایا افضل اور اس عورت کو انگریز انسپکٹر ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا۔ ڈاکٹر نے دونوں کا معائنہ کر کے تصدیق کر دی کہ انہوں نے نازبیافعل کیا ہے۔ انگریز انسپکٹر نے عورت کا بیان لیا تو اس نے انسپکٹر کو بتادیا کہ نے اسے کس طرح دھمکیاں اور خاوند کی رہائی کی لالچ دے کر اپنے گھر بلایا تھا۔انگریز انسپکٹر نے نقب زنی کے مستہبوں کے بیان لئے انہوں نے بتایاکہ افضل ان سے زشوت مانگتا تھا۔یسین نے انگریز انسپکٹر کو بتایاکہ وہ اس واردات کی تفتیش کر سکتا ہے لیکن روسرے دن تھانے میں ایک دوسرا انسپکٹر اگیا، انگریز انسپکٹر نے رات تھانے میں بیان لیے گزار دی۔یسین نے اسے بتادیا کہ افضل کو میں نے پکڑوایا دیا۔ دوسرے دن انسپکٹر میرے گھر آیا اوراس نے مجھ سے پوچھا کہ اپنے خاوند کے ساتھ مجھے کیا دشمنی تھی۔میں نے اس سے کچھ بھی نہ چھپایا۔افضل کے ساتھ میرا ایک ایک منٹ جس طرح گذرا تھا اسی طرح سنایا۔ انسپکٹر نے بڑی دلچسبی اورتوجہ سے میری اتنی لمبی کہانی سنی۔ میں نے جب یسین کاذکر کیا تو وہ مسکرانے لگا میں سمجھ گئی۔ کہ وہ کیوں مسکرایا ہے۔ اسے میرے اوریسین کے تعلقات پر شک ہوا تھا۔ میں نے اس کا شک رفع کردیا۔افعل کو انگریز انسپکٹر اپنے ساتھ لے گیا اوراس کے بعدتفتیش کا اور بیان کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میں اسی مکان میں رہی۔یسین میرے پاس آتا رہا۔چونکہ یہ کیس انگریز انسپکٹر ڈی ایس پی کے حکم سے ایک انگریز انسپکٹر نے پکڑا تھا اس لیے شہادتیں بڑی مضبوط اور بڑی جلدی فراہم ہوگئیں۔ متقدم سی آئی اے نے تیار کیا مجھے ڈر تھاکے افضل کو یہ پتا چل ہی جائے گا کہ اسے میں نےپکڑوایا ہے اس لئے وہ یہ انتقامی کارروائی کرے گا کہ مجھے طلاق نہیں دیگا۔ میں نے یسین کے ساتھ بات کی تو اس نے کہا کہ وہ انگریز انسپکٹر کے ساتھ بات کرے گا۔

دوتین روز بعد انگریز انسپکٹر خود ہی آگیا وہ میرے گھر آیا۔ اس کے ساتھ یسین تھا۔ اس نے اس عورت کو جس کےساتھ افضل پکڑا گیا تھا اوراس کے خاوند کو میرے گھربلا لیا ۔ مقدمے میں کچھ کسررہ گئی تھی۔ اس کے لئے وہ ہم سے کچھ اور پوچھنے اور ہمیں کچھ بتانے آیا تھا۔اس نے اپنا کام مکمل کرلیا تو میں نے اس کے سامنے میں نے اپنا مسئلہ رکھ دیا اس سے کہا کہ مجھے افضل سے نفرت تھی۔ اب وہ نہ جانے کتنے عرصے کے لئے جیل جارہا ہے۔ اس لئے میں چاہتی ہوں کہ میں اس سے طلاق مل جائے جو یہ مجھے نہیں دے گا۔ یسین نے اسے بتایا کہ ہمارے ملک میں عورت طلاق نہیں لے سکتی۔ ایک بد کردار خاوند بیوی کو پریشان کرنا چاہیے تو اسے اس کے ماں باپ کے گھر بھیج دیتا ہے اوراسے مزید یہ سزا دیتا ہے کہ طلاق نہیں دیتا۔ بیوی عدالت میں طلاق کے لئے جاسکتی ہے لیکن دیوانی مقدموں کے لیے کئی کئی سال فیصلے نہیں ہوتے۔انگریز انسپکٹر کو میں نے بڑا موٹا شکار پھانس دیا تھا۔ وہ مجھ سے جوش تھا۔ اس نے کہا کہ اسے کسی سے طلاق کے اختیارات حاصل نہیں لیکن وہ کسی نہ کسی طریقے افضل سے طلاق لکھوائے گا…. ایک ہفتے ہی اس نے طلاق لکھوالایا ۔اس نے مجھے نہ بتایا کہ افضل سے طلاق نامہ کس طرح لکھوایا۔ بعدمیں مقدمے کی سماعت دوران اس نے یسین کو بتایا تھا کہ اس نے افضل کے ساتھ جھوٹا وعدہ کیا تھاکہ اس کا مقدمہ کمزور رکھا جائے گا۔ کوئی بڑا تجربہ کار وکیل کرے جو مقدمے کی کمزوری سے اٹھا سکے۔ اس نے کوئی سا بھی طریقہ اختیار کیا ہو۔مجھے طلاق مل گئی۔ لیکن مجھ پر ایک اور حملہ ہوگیا۔افضل کے لواحقین کو خبر مل گئی کہ وہ گرفتار ہوگیا ہے۔ اس کی ماں اس کا باپ میرے پاس آ گئے۔ اس وقت افضل جیل کی حوالات اس کے لواحقین اس سے ملنے گئے ، واپس آئے تو وہ اس پر غصے میں تھے جیسے مجھے قتل کردیں گے ۔ افضل نے بتایا تھا کہ اسے میں نے پکڑوایا ہے۔میں نے جھوٹ بولنے کی بجائے انہیں بتا دیا افضل باہر کیا کرتارہا ہے اوراس نے وہی بدکاری گھرمیں شروع کردی تھی۔ میں نے انہیں افضل کی ساری باتیں سنا دی۔ وہ پھر بھی ٹھنڈے نہ ہوئے۔ میں نے آخر تنگ آکر انہیں کہا میرے گھر سے نکل جائیں۔ میں اب ان کی کچھ نہیں لگتی انہوں نے مجھے طلاق دے دی ہے۔ انہوں نے مجھے انتقام دیں جس کی میں نے پرواہ نہ کی۔وہ سب سخت غصے میں چلے گئے۔

مقدمہ چلا۔ میں نے عدالت میں افضل کے خلاف سارا غبار نکالا جو میرے سینے میں رکا ہوا تھا۔ اس کے خلاف مجھ پر دودن جرح کی۔ مجھے ایک بارغشی بی آئی لیکن میری زبان سے کوئی ایسی بات نہ نکلی جو افضل کو شک دے سکتی۔دوسرے گواہ بھی آئے پچیس روز مقدمہ افضل کو تین دفعات میں مجموعی طور نوسال سزائے قیدیلی کی سزا ملی ۔ میں اس دوران اسی مکان میں رہی۔ میری ماں آئی۔چھوٹا بھائی بھی آیا۔ میں نے انہیں زیادہ دن رکنے نہ دیا۔کیونکہ افضل کو سزا سنائی گئی تو مجھے افضل کے باپ کی طرف سے دھمکی کا پیغام ملا کہ وہ مجھے قتل کرا دے گا۔ اب مسئلہ یہ رہ گیا تھا یسین کے ساتھ شادی کس طرح کی جائے۔یسین میرے گاؤں آئے یا یہیں خاموشی سے نکاح کرليا جائے۔ لیکن یسین کا چچا اسے اپنی بیٹی دینا چاہتا ہے اوریسین کے والدین بات پکی کر چکے تھے۔ میں اس مکان میں اکیلی رہتی تھی۔ یسین اس لئے میرے ساتھ نہیں رہتا تھا۔لوگ مجھے بدنام کریں گے۔ اس کاخیاں یہی تھا کہ میں اپنی ماں کے پاس چلی جاؤں۔میں نے اپنا سامان باندھا اور انپی ماں کے پاس چلی گئی۔ میں آپ بتا چکی ہوں کہ دیہات میں ہماری حیثیت معمولی نہیں تھی۔ میں نے ماں کو بتا دیا کہ یسین کے ساتھ شادی کررہی ہوں۔ اس نے کوئی اعتراض نہ کیا۔سات آٹھ روزگذرے ہوں گے کریسین ہمارے گھر آیا۔اس نے بتایاکہ اس کا چچا اسے دھمکیاں دے رہا ہے کہ نے اس کی بیٹی کے سات شادی نہ کی توا سے وہ اپنی بے عزتی سمجھے گا اور وہ انپی بےعزتی کا انتقام لے گا۔ د یہات کے لوگوں کی سوچیں ایسی ہی ہوتی ہیں اس کے باوجود یسین نے چچا کی بیٹی کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے یسین تین دفعہ ہمارے گھر آیا۔ اس نے میرے ساتھ شادی کرنے کے لئے حالات موافق کر لیئے تھے۔ وہ چوتھی بار ہمارے گھر اس حالت میں آیا کہ اسے دو آدمیوں سے اٹھا رکھا تھا۔ ایک گولی اس کے بائیں گھٹنے میں اور دوسری اس کی ٹانگ کی پنڈلی میں سے گزرگئی تھی۔ اس پر کسی نے دن دہاڑے گولی چلائی تھی۔وہ وہیں گر پڑا تھا۔

وہ گندے نالوں کی جگہ تھی۔ اتفاق سے دو آدمی ادھر سے گزرے۔انہوں نے دیکھا کہ یسین کی بائیں ٹانگ گھیٹ رہا تھا وہ اسے اس حالت میں دیکھ کر رک گئے۔ اس نے ان میرا گاوں بتایا۔اور کہا کہ وہ اسے میرے گھر پہونچا دیں وہ اسے اٹھائے۔ ظاہر ہے اس پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔یسین کو ہسپتال پہونچایا اور تھانے رپوٹ درج کرائی۔ میں نے شک میں افضل کے باپ اور بھائیوں کے بیان لکھوادئیے۔ تفتیش شروع ہوگئی۔ تھانیدار اچھا تھا۔ یہ تفتیش ایک اور کہانی ہے لیکن میں آپ کو صرف اپنی کہانی سناؤں گی۔ اس سب انسپکٹر نے تیسرے دن سراغ لگایا اور فضل کے دو بھائیوں کو گرفتار کرلیا ۔ یہ سراغ ہمارے گاؤں کے ایک آدمی سے ملا۔جوافضل کا رشتہ دار تھا۔ اس نے افضل کے بھائیوں کو بتایا تھا کہ افضل میرے گھر کبھی کبھی آتا ہے۔یسین بس سے اتر کر میرے گاؤں کو پیدل آرہا تھا۔ اسے دومیل پیدل چلنا تھا۔ افضل کا گائوں قریہب ہی تھا۔ اس کے میرے گاوں والے رشتہ دار نے دیکھ کر افضل کے بھائیوں کو اطلاع دے دی. وہ گھوڑیوں پر آتے۔ ان کے پاس ریوالور تھا. وہ گھات میں بیٹھ گئے اورجب یسین قریب آیا تو ایک بھائی نے یسین پر ریوالور کی دوگولياں چلائیں۔ یسین گڑ پڑا۔ بھائی جان بچا بھاگ گئے لیکن پکڑے گئے انہوں نے افضل کا انتقام لیا تھا۔یسین ہسپتال میں تھا۔ ساتویں دن ڈاکٹر نے پر کہا کہ اس کی ٹانگ گھٹنے سے کاٹنی پڑے گی اس نےٹانگ کاٹ دی۔یسین ہمیشہ کے لئے معذور ہوگیا۔ وہ نوکری کے قابل نہیں رہ گیا تھا۔ اب اسے کس نے اپنی بیٹی دینی تھی۔ اس کی کٹی ہوئی ٹانگ ٹھیک ہوئی تو میں اسے اپنے گھرلے آئی۔افضل کے جس بھائی نے فائر کیا تھا اسے سات سزائے قید ہوئی اور دوسرے کو تین سال۔ میں نے یسین کے ساتھ شادی کرلی اور اسے اپنے پاس ہی رکھ لیا۔ زمین بہت تھی۔یسین کو کہیں نوکری کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔اب افضل بھی اس دنیا میں نہیں ہیں،یسین اڑھائی برس گذرے سے۴۳ برس کی عمر میں فوت ہوگیا ہے۔ میں اس کی یادوں کے سہارے زندگی کے باقی دن پورے کررہی ہوں۔

مصنف :شاہدہ پروین

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here