کہانی کی کہانی:’’اپنی رنگین طبیعت اور خوش مزاجی کے لیے گاؤں بھر میں مشہور شخص کی کہانی۔ وہ جہاں سے نکل جاتا ہے وہاں کی محفل کا رنگ ہی بدل جاتا ہے۔ بچوں کے ساتھ بچہ ہو جاتا ہے اور بوڑھوں کے پوپلے منھ پر مسکراہٹ بکھیر دیتا ہے۔ عورتوں کے بیچ بیٹھ جائے تو قہقہے چھوٹنے لگتے ہیں۔ ایک روز جب اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کے بیٹے نے اس سے پوچھے بغیر اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کر لی ہے تو اس کی پوری زندگی ہی بدل جاتی ہے۔‘‘
کیسی رنگیلی طبعیت تھی احسان علی کی، محلے میں کون تھا جو ان کی باتوں سے محظوظ نہ ہوتا تھا، اگر وہ محلے کی ڈیوڑھی میں جا پہنچتے، جہاں بوڑھوں کی محفل لگی ہوتی تو کھانسی کے بجائے قہقہے گونجنے لگتے، چوگان میں بیٹھی عورتوں کے پاس سے گزرتے تو دبی دبی کھی کھی کا شور بلند ہوتا، محلے کے کنویں کے پاس جا کر کھڑے ہوتے تو لڑکوں کے کھیل میں نئی روح دوڑ جاتی۔
جوان لڑکیاں انہیں دیکھ کر گھونگھٹ تلے آنکھوں ہی آنکھوں میں مسکراتیں، اور پھر ایک طرف سے نکل جانے کی کوشش کرتیں، مٹیار عورتیں دیکھ پاتیں تو ان کے گالوں میں گھڑے پڑ جاتے خواہ مخواہ جی چاہتا کہ کوئی بات کریں، بوڑھی عورتیں قہقہہ مار کر ہنس پڑتیں مثلاً اس روز احسان علی کو چوگان میں کھڑا دیکھ کر ایک بولی، ’’یہاں کھڑے ہو کر کسے تاڑ رہے ہو احسان علی؟‘‘
’’یہ سامنے عورتوں کا جو جھرمٹ لگا ہے، نہ جانے کس محلے سے آئی ہیں۔‘‘ دوسری نے دور کھڑی عورتوں کی طرف اشارہ کیا۔
’’اے ہے اب تو اپنے حمید کے لیے دیکھا کرو۔‘‘ بھابی کہنے لگی، ’’اللہ رکھے جوان ہو گیا۔‘‘
’’اور تو کیا اپنے لیے دیکھ رہا ہوں بھابھی۔‘‘ احسان علی مسکرایا، اس بات پر ایک معنی خیز طنزیہ قہقہہ بلند ہوا، احسان علی ہنس کر بولا، ’’دنیا کسی صورت میں راضی نہیں ہوتی ہے چاچی اپنے لیے دیکھو تو لوگ گھورتے ہیں، کسی کے لیے دیکھو تو طعنہ دیتے ہیں مذاق اڑاتے ہیں۔‘‘ جواب دینے میں احسان علی کو کمال حاصل تھا، ایسا جواب دیتے کہ سن کر مزہ آ جاتا۔ شاداں نے یہ سن کر چاچی کو اشارہ کیا اور مصنوعی سنجیدگی سے کہنے لگی، چاچی اس عمر میں اوروں کے لیے دیکھنا ہی رہ جاتا ہے۔‘‘ احسان علی نے آہ بھری بولے، ’’کاش تم ہی سمجھتیں شاداں۔‘‘
’’اتنی عمر ہو چکی ہے چچا پر تمہیں سمجھ نہ آئی۔‘‘ شاداں مسکرائی، ’’ابھی دیکھنے کی ہوس نہیں مٹی۔‘‘
’’اچھا شاداں ایمان سے کہنا۔۔۔‘‘ وہ سنجیدگی سے بولے، ’’کبھی تمہیں میلی آنکھ سے دیکھا ہے؟‘‘
’’ہائیں چچا۔‘‘ شاداں ہونٹ پر انگلی رکھ کر بیٹھ گئی، ’’میں تو تمہاری بیٹی کی طرح ہوں۔‘‘
’’یہ بھی ٹھیک ہے۔‘‘ وہ ہنسے، ’’جب جوانی ڈھل گئی تو چچا جی سلام کہتی ہوں، لیکن جب جوان تھی توبہ جی پاس نہ بھٹکتی تھی کبھی، کیوں بھابھی جھوٹ کہتا ہوں میں؟‘‘ اس بات پر سب ہنس پڑے اور احسان علی وہاں سے سرک گیے، ان کے جانے کے بعد بھابھی نے کہا،’ تو بہ بہن!احسان علی اور بات کرنے سے چوکے۔‘‘
چاچی بولی، ’’ساری عمر عورتوں کوتاڑنے میں کٹ گئی۔ اب تو باتیں ہی باتیں ہیں۔‘‘
’’لے بہن!‘‘ شاداں نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’اب کون سا حاجی بن گیا ہے، اب بھی تو عورت کو دیکھ کر منہ سے رال ٹپکتی ہے۔‘‘ لیکن شاداں بھابھی نے کہا، ’’شاباش ہے اس کو کبھی محلے کی لڑکی کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھا، یہ تو میں مانتی ہوں۔‘‘ شاداں نے ان جانے میں آہ بھری، ’’یہ صفت بھی کسی کسی میں ہوتی ہے۔‘‘ چاچی نے کہا، ’’جب محلے والیوں کی یہ بات احسان علی نے پہلی بار سن پائی، بولے، ’’اتنا بھروسہ بھی نہ کرنامجھ پرشاداں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ چاچی نے ہنس کر کہا، یہ کیا جھوٹ ہے، تمہاری یہ صفت واقعی خوب ہے تو منہ پر کہوں گی احسان علی۔‘‘
’’لو چاچی یہ صفت نہ ہوتی ان میں تو ہمارے محلے میں رہنا مشکل ہو جاتا۔‘‘ شاداں بولی۔
احسان علی کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ بولے، ’’چاچی کہتے ہیں ایک دفعہ بلی کنویں میں گر گئی، باہر نکلنے کے لیے بہتیر ے ہاتھ پاؤں مارے،پھر بولی بہن آج رات یہیں بسر کریں گے۔‘‘
’’یہ بلی کا قصہ کیا ہوا؟‘‘ چاچی نے مسکراتے ہوئے پوچھا
’’ہماری سمجھ میں تو نہیں آیا۔‘‘ شاداں بولی۔ ’’بس تو چھوڑو اس بات کو۔‘‘ بھابھی نے کہا۔ ’’احسان علی کی بات کریدنے سے نکلے گا کیا؟‘‘ احسان علی اس دوران میں ہنستے رہے اور پھر بولے، ’’چاچی یہ میری صفت نہیں یہ تو محلے والیوں کی خوبی ہے، بے چاری ایسی بنی ہیں کہ خواہ مخواہ ماں بہن کہنے کو جی چاہتا ہے، کیوں شاداں؟‘‘
’’ہائے اللہ سنا تم نے چاچی۔‘‘ شاداں چلائی۔
’’سمجھی بھی ہو اس کی بات۔‘‘ بھابھی مسکرائی،
’’سب سمجھتی ہوں۔‘‘ چاچی نے ہنس کر کہا
’’خدا کا ہزار ہزار شکر ہے۔‘‘ شاداں بولی کہ، ’’محلے والیاں ایسی ہیں،پر میں پوچھتی ہوں چچا اگر محلے میں کوئی ایسی ویسی ہوتی تو کیا واقعی ریجھ جاتے اس پر؟‘‘
’’تم اس کی باتیں سنو۔‘‘ بھابھی نے کہا۔
’’توبہ کیسی باتیں بناتا رہتا ہے۔‘‘ چاچی ہنسی۔
’’کسی محلے والی پر ریجھنے تو اک بار مزہ چکھا دیتی تمہیں چچا۔‘‘ شاداں آنکھیں چمکا کر بولی، ’’جوتا دکھا دیتی میاں کو، کیوں بھابھی۔‘‘
’’واہ!‘‘ احسان علی مسکرائے، شاداں جس نے جوتا دکھا دیا سمجھو بات پکی کر دی۔‘‘
’’ہائے مر گئی۔‘‘ شاداں نے دونوں ہاتھوں سے سینہ تھام لیا۔
’’احسان علی تجھ پر خدا کی سنوار۔۔‘‘ چاچی نے ہاتھ چلایا، اور احسان علی ہنستے ہنستے آگے نکل گیے، ان کی عادت تھی کہ محفل پر اپنا رنگ جما کر چلے جایا کرتے، اگر چہ محلے والیاں اکیلے میں احسان علی کی گذشتہ زندگی پر ناک بھوں چڑھایا کرتیں اور ان کی فطری کمزوری پر مذاق اڑاتیں، لیکن جب وہ سامنے آ جاتے تو نہ جانے کیوں ان کی آنکھوں میں چمک لہرا جاتی اور وہ خواہ مخواہ ہنس پڑتیں۔
جوان مٹیاریں تو اب بھی پلا بجا کر نکلنے کی کوشش کرتیں، جب احسان علی جوان تھے، ان دونوں تو کسی عورت کا ان کے قریب سے گذر جانا بے حد مشکل تھا، خواہ مخواہ دل دھک دھک کرنے لگتا، ماتھے پر پسینہ آ جاتا، دونوں ہاتھوں سے سینہ تھام لیتی، ہائے میں مر گئی، یہ تو اپنا احسان علی ہے، ان دنوں بوڑھی عورتیں مخدوش نگاہوں سے گھورتی تھیں، محلے کے مرد تو اب ابھی انہیں دیکھ کر تیوری چڑھا لیتے البتہ جب وہ کوئی دلچسپ بات کرتے تو وہ ہنسنے لگتے، اور یوں ہم خیال ہوتے جیسے اپنی فراخدلی کی وجہ سے ان کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے ہوں، لیکن احسان علی کی غیر حاضری میں وہ اکثر کہا کرتے، ’’بوڑھا ہو گیا ہے، لیکن ابھی ہدایت نہیں، ہدایت تو اللہ میاں کی طرف سے ہوتی ہے، جنہیں نہ ہو انہیں کبھی نہیں ہوتی۔۔‘‘
’’حرامکاری کی لت کبھی جاتی ہے بابا جی۔۔‘‘
’’ہاں بھئ یہ تو سچ ہے، دیکھ لو اتنی عمر ہو چکی ہے، باتوں میں کوئی فرق نہیں آیا، وہی چھیر خانی لا حول ولا قوۃ۔۔‘‘ بات بھی سچی تھی اگر چہ احسان علی پچاس سے زیادہ ہو چکے تھے، لیکن وہی منڈی داڑھی متبسم آنکھیں اور چھیڑنے والی باتیں، ان کی روح ویسے ہی جوان تھی،بچوں کو گلی ڈنڈا کھیلتے ہوئے دیکھتے تو وہیں کھڑے ہو کر واہ واہ کرنے لگتے، کھلاڑی کو داد دینے لگتے یا امپائر بن کر کھڑے ہو جاتے، لڑکے انہیں کھیل میں حصہ لینے پر مجبور کرتے، تالیاں بجاتے، شور مچاتے، ’’چچا جی ہمارے آڑی بنیں گے۔‘‘
’’نہیں ہمارے۔‘‘ ایک ہنگامہ بپا ہو جاتا تھا، کھڑکیوں سے محلے والیاں جھانکیں لگتیں، ’’لو دیکھ لو احسان علی گلی ڈنڈا کھیل رہے ہیں۔‘‘ چق کی اوٹ میں سے آواز آتی ہے، ’’بھائی جی کیا پھر سے جوان ہونے کا ارادہ ہے؟‘‘ سبز جنگلے سے شاداں سر نکالتی، ’’ابھی تو اللہ رکھے پہلی جوانی ختم نہیں ہوئی۔‘‘
شاہ نشین سے چاچی بولتی، ’’توبہ شاداں تو بھی کس رخ سے چین لینے نہیں دیتی، شکر کر احسان کا دھیان اور کھیلوں سے ہٹا ہے، گلی ڈنڈا کھیلنے میں کیا عیب ہے۔‘‘ مسجد سے آتا جاتا کوئی محلے دارا نہیں دیکھ کر ہنستا، ’’کب تک اس لڑکیوں لڑکوں کے کھیل میں لگے رہیں گے اب خدا کو بھی یاد کرو۔‘‘ احسان علی ہنس کر گنگناتے، ’’وقت پیری گرگ ظالم می شود پرہیزگار۔‘‘ دوسرا آ کر کہتا ہے، ’’دنیا داری کی غلاظت سے اکتائے نہیں ابھی؟صوم صلوۃ کی پاکیزگی کو کیا جانو۔‘‘ احسان کہتے، ’’بابا جی غلاظت کا احساس ہو تو پاکیزگی کی آرزو پیدا ہوتی ہے۔‘‘
’’تم میں احساس نہیں کیا؟‘‘ بابا جی پوچھتے ہیں اور وہ جواب دیتے ہیں، ’’احساس تو ہے پر غلاظت بھی ہو۔‘‘
’’لا حول وال قوۃ۔‘‘ بابا جی بڑبڑاتے۔
’’لو بھائی جی اب تو شیطان بھی آ گیا۔‘‘ اور وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے۔
احسان علی کے آنے سے پہلے محلہ کیسا ویران دکھائی دیتا تھا، اگرچہ موسم سرما میں دوپہر کے قریب محلے والیاں چوگان میں اکھٹی ہو کر ازار بند بناتی تھیں، دوپہر کے قریب جب چوگان میں دھوپ آتی تو چوکیاں بچھ جاتیں، مٹی کی ہنڈیاں رکھ دی جاتیں، جن میں تیلیوں کے مٹھے بھرے ہوتے، بارہ بجے کھانے پینے سے فارغ ہو کر عورتیں وہاں جمع ہو جاتیں، ایک بجے تک اچھا خاصا میلا لگ جاتا، عجیب آوازیں پیدا کرتے، تتلیاں ٹکراتیں، ازار بند بنتے ہوئے کسی کی بات چھڑ جاتی، گلے ہوتے، شکایتیں ہوتیں، ایک دم دوسرے پر آوازے کسے جاتے مگر قہقہے کی آواز نہ ہوتی۔
ادھر ڈیوڑھی میں مسئلے مسائل کی بات گرم رہتی، شریعت کے احکام بار بار دہرائے جاتے، حدیثوں کے حوالے دیے جاتے، اولیا کرام کی حکایات سنائی جاتیں، ہنگامہ تورہتا تھا مگر اس میں مزاح کی شیرنی نام کونہ ہوتی، عورتوں کے مسلسل جھگڑوں اور مردوں کی خشک بحثوں کی وجہ سے وہ مسلسل شور محلہ اور بھی ویران کر دیتا، پھر احسان علی پینشن لے کے محلے میں آ بسے۔ ان کے آنے کے بعد محلے کا رنگ بدل گیا، جب عورتیں ایک دوسرے کے گلے شکوے کرنے میں مصروف ہوتیں تو احسان علی نکل آتے اور آتے ہی ایسی بات کرتے کہ سبھی ہنس پڑتیں، اور محفل کا رنگ ہی بدل جاتا۔ طعنے اور تمسخر کی جگہ ہنسی مذاق شروع ہو جاتے، آپس میں جھگڑتی عورتیں مل کر احسان علی کے خلاف محاذ قایم کر لیتیں اور محلے کے چوگان میں قہقہے گونجتے لگتے۔محلے کے بزرگ خشک مسائل چھوڑ کر احسان علی کے چٹکلے سننے لگتے، بات بات پر لاحول ولا پڑھنے والے بڈھے لاحول پڑھنا بھول جاتے لیکن پھر بھی عادت سے مجبور ہر کر کوئی نہ کوئی لاحول پڑھ دیتا اس پر احسان علی کھلکھللا کر ہنس پڑتے، بھائی جان کیا آپ کو بات بات پر لاحول پڑھنے کی ضرورت پڑتی ہے ہم تو یہ جانتے ہیں کہ شیطان کا خطرہ لاحق نہ ہو لاحول کا سہار لینے کی ضرورت نہیں پڑتی، احسان علی کو لاحول سے چڑ تھی، ہاں تو واقعی احسان علی کے آنے پر محلے میں ایک نئی روح دوڑ گئی تھی۔
پھر ایک روز ایک انوکھا واقعہ ہوا، چوگان میں عورتیں حسب معمول جمع تھیں، نئی روشنی کے نوجوانوں کی بات چل رہی تھی۔ شاداں نے دور سے احسان علی کو آتے دیکھ لیا، چاچی کو اشارہ کر کے با آواز بولی، ’’چچی خدا جھوٹ نہ بلائے آج کل تو چھوٹے چھوٹے لڑکے بھی چچا احسان علی بنے ہوئے ہیں، راہ چلتی لڑکی کو تاڑتے ہیں۔‘‘
’’ہائے ہائے۔‘‘ چاچی نے شاداں کا اشارہ سمجھے بغیر کہا، ’’تم تو خواہ مخواہ اس بے چارے۔۔۔‘‘ شاداں نے پھر سے اشارہ دہرایا، جسے دیکھ کر چچی کا غصہ مسکراہٹ میں بدل گیا، ’’آج کل کے مردوں کی کیا پوچھتی ہو چچی۔۔۔‘‘ شاداں نے پھر سے بات شروع کی، ’’بال کھچڑی ہو جاتے ہیں، پر عورتوں کو تاڑنے کی لت نہیں جاتی۔‘‘
’’ہاں شاداں!‘‘ چچی نے منہ بنا کر کہا، ’’زمانہ ہی ایسا آیا ہے۔‘‘ اس کے بعد مجمعے پر خاموشی چھا گئی، احسان کی بات سننے کی منتظر تھی اگر چہ وہ سب یوں بیٹھ گئیں تھیں جیسے انہیں احسان علی کے آنے کی خبر نہ ہو۔
احسان علی آئے اور چپ چاپ ان کے پاس سے گزر گیے۔ انہوں نے ان کو جاتے ہوئے دیکھا اور حیران ہو گئیں، ’’اللہ خیر کرے آج احسان علی کو کیا ہوا ہے‘‘، چاچی زیر لب بولی، ’’میں تو آپ حیران ہوں۔‘‘ شاداں ہاتھ ملنے لگی، ’’اے ہے احسان علی اور چپ چاپ پاس سے گزر جائے، میں کہتی ہوں ضرور کوئی بات ہے۔‘‘ بھابھی نے انگلی ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’کہیں گھر سے لڑ کر تو نہیں آئے تھے‘‘ شاداں نے پوچھا۔
’’لو‘‘ چاچی نے ہونٹ پر انگلی رکھ کر کہا، ’’جس روز نواب بیوی سے لڑے، اس روز تو اور بھی چمکا ہوا ہوتا ہے، کیوں بھابھی یاد ہے کل کیسے ہنس ہنس کر گھر کی لڑائی کی بات سنا رہا تھا۔‘‘
’’ہاں!‘‘ بھابھی مسکرائی، ’’جیسے لڑائی نہ ہوئی ہو تماشہ ہوا۔‘‘
’’اس کا کیا ہے۔۔۔‘‘ چاچی بولیں، ’’اس کے لئے تو ہر بات تماشہ ہے چاہے موت کی ہو یا بیاہ کی۔‘‘
’’ہائے چاچی کیسی اچھی طبعیت ہے احسان علی کی۔ کبھی ماتھے پر تیوری نہیں دیکھی ایمان سے رنگیلا ہے رنگیلا، پر میں کہتی ہوں ضرور آج کوئی بات ہے۔‘‘ بھابھی ہونٹ پر ہاتھ رکھ کر سوچنے لگی، شاداں ازار بند لپیٹتے ہوئے بولی، ’’چلو تو چل کر نواب بی بی سے پوچھیں۔‘‘
’’اے ہے دو جوڑے تو چڑھا لینے دو۔‘‘ بھابھی نے کہا
’’ہو نہ ہو دو جوڑے اتنا لوبھ بھی کیا۔‘‘ اس نے اٹھ کر بھابھی کے ازار بند کو زبر دستی لپیٹ دیا، پہلے تو نواب سے ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہیں، پھر چاچی نے بات چھیڑی کہنے لگی، ’’احسان علی کو کیا ہوا ہے آج؟‘‘
’’ابھی اچھے بھلے باہر گیے تھے۔‘‘ نواب بی بی بے جواب دیا۔
’’وہ تو ہم نے بھی دیکھا تھا اسے باہر جاتے ہوئے۔‘‘ بھابھی نے جواب دیا۔
’’میں نے تو بلکہ انہیں چھیڑنے کی خاطر کچھ کہا بھی تھا۔‘‘ شاداں بولی، ’’میں نے کہا چلو دو گھڑی کا مذاق ہی رہے گا، پر انہیں یوں چپ چاپ دیکھ کر میں تو حیران رہ گئی، کہیں میری بات کا برا تو نہ مان لیا، توبہ میں نے بات کیوں کی۔‘‘
’’اونہوں۔‘‘ نواب بی بی نے کہا، برا ماننے والا نہیں وہ۔‘‘
’’کسی فکر میں پڑا تھا جو یوں پاس سے گزر گیا۔‘‘ چاچی نے کہا۔
’’ہاں تو ٹھیک ہے۔‘‘ نواب بی بی نے کہا، ’’اپنے حمید کا خط آیا ہے آج، لڑکے نے اپنی شادی کے بارے میں لکھا ہے۔‘‘
’’ہائیں میں مر گئی۔‘‘ شاداں چلائی، ’’آپ اپنی شادی کے لیے لکھا ہے کیا، توبہ کیا زمانہ آیا ہے۔‘‘
’’اس میں حرج کیا ہے؟‘‘ چاچی بولی، ’’اللہ رکھے جوان لڑکا ہے، آپ کماتا ہے، لکھ دیا تو کون سی قیامت آ گئی، میں جانوں احسان علی کو دیر نہیں کرنی چاہئے اس بات میں۔‘‘
’’اونہوں، انہیں خیال ہوتا اس بات کا تو یہاں تک نوبت نہ آتی میں تو کب سے کہہ رہی تھی کہ لڑکے کو نامرد کر دو لیکن ان کے اپنے چاؤ بھی ختم ہوں، اتنی عمر ہو چکی ہے لیکن ابھی ہوس نہیں گئی۔‘‘
’’نہ بہن۔‘‘ چاچی بولیں، مجھ سے تو آپ انہوں نے کئی بار کہا ہے چاچی چاچی جہاں لڑکا کہے گا اس کی شادی کر دیں گے، اللہ اللہ خیر سے سلا آج کل یہ لڑکے کی مرضی بغیر نہیں ہوتے، بات بھی سچی ہے۔‘‘
’’یہ بات ہے۔‘‘ نواب بی بی بولی، ’’تو اب کیوں سر پیٹ کر باہر نکل گیا، لڑکے نے اپنی بیوی تلاش کر لی ہے تو۔۔‘‘
’’اپنی بیوی تلاش کر لی ہے؟‘‘ شاداں چلائی۔
’’سچ؟‘‘ بھابھی ران پر ہاتھ مار کر بولی۔
’’ہاں بھابھی۔‘‘ نواب بی بی بولی، ’’پہلے تو اس اسے اپنی مرضی کی بیوی تلاش کرنے کی پٹی پڑھاتے رہے اور اب اس نے اپنی بیوی کا چناؤ کر لیا ہے تو میاں گرم ہو رہے ہیں۔‘‘
’’کون ہے وہ؟‘‘ چاچی نے پوچھا۔
’’مجھے کیا معلوم اسکول میں استانی ہے۔لڑکے نے فوٹو بھیجی ہے اس کی۔‘‘
’’ہم بھی دیکھیں۔‘‘ شاداں نے منت کی، نواب بی بی اٹھ بیٹھی اور میز کی دراز میں سے فوٹو لے آئی، ’’ہائے چاچی یہ تو میم ہے میم۔‘‘ شاداں خوشی سے پھولی نہ سمائی۔
’’اے ہے۔‘‘ چاچی بولی، ’’ایسی ہی تو ہوتی ہیں یہ اسکول والیاں، تو بہ کیسی بنی ٹھنی ہتھنی ہے۔‘‘ بھابھی ہنسی۔
’’کتنی خوبصورت ہے۔‘‘ شاداں بولی، ’’احسان علی کو ایسی خوبصورت بہو کہاں سے مل سکتی تھی۔‘‘ عین اس وقت احسان علی آ گیے۔ شاداں کی بات سن کر وہ گھبرا گیے، ٹھٹک کر کھڑے ہو گیےپھر کمرے سے باہر جانے لگے لیکن شاداں کب چھوڑنے والی تھی انہیں۔
’’مبارک ہو چچا۔‘‘ وہ بولی، ’’نئی بہو مبارک ہو، محلے کی لڑکیاں تو تمہیں پسند نہیں تھیں اللہ رکھے لڑکے نے یہ مشکل بھی آسان کر دی۔‘‘ ایک ساعت کے لیے احسان علی کا منہ فق ہو گیا، لیکن جلدی وہ سنبھل کر غصے میں بولے، ’’وہ تو ہے بے وقوف، بے وقوف اتنا بھی نہیں سمجھتا خوبصورت لڑکیاں دیکھنے کے لیے ہوتی ہیں، بیاہنے کے لیے نہیں، بھلا دیکھو تو اس لڑکی کا اس گھر میں گزارا ہو سکتا ہے؟‘‘
’’کیوں اس کو کیا ہے۔‘‘ شاداں بولی دیکھو کتنی خوبصورت ہے۔‘‘
’’یہی تو مصیبت ہے۔‘‘ وہ سر کھجاتے ہوئے بولے۔
’’آپ جو ساری عمر خوبصورت لڑکیوں کے پیچھے پھرتے رہے ہو، احسان علی اب کیا لڑکے کا جی نہیں چاہتا۔‘‘ بھابھی بولی۔
’’پیچھے پیچھے پھرتا رہا ہوں نا، بیاہ کر تو نہیں لایا ہوں کسی کو، یہ دیکھ لو، یہ حمید کی ماں بیٹھی ہے۔‘‘ وہ جوش میں بولے، ’’دیکھ لو کیا ناک نقشہ ہے۔‘‘
’’کیوں نواب بی بی کو کیا ہے؟‘‘ چاچی ہنسی۔
’’میں کب کہتا ہوں کہ کچھ ہے اگر کچھ ہوتا تو کیا میرے چولہے پر بیٹھ کر برتن مانجھتی رہتی؟‘‘
’’آخر حمید کا بھی تو جی چاہتا ہے کہ خوبصورت لڑکی ہو، اس میں حرج ہی کیا ہے۔‘‘ شاداں مسکرائی۔
’’میں کب کہتا ہوں کہ جی نہ چاہے لیکن چاہئیے یہ تیتریاں تو یارانہ لگانے کے لئے ہوتی ہیں، بیاہنے کے لئے نہیں۔‘‘
’’ہائیں!‘‘ شاداں نے ناک پر انگلی رکھ لی، احسان علی تم نے تو حد کر دی۔‘‘
’’کوئی محلے کی بیاہ لیتا پھر چاہے جہاں مرضی ہوتی یارانے لگاتا پھرتا۔‘‘ احسان علی اپنی ہی دھن میں کہے گیے۔
’’توبہ میری،احسان علی تم تو بات کہتے ہوئے کسی کا لحاظ نہیں کرتے۔‘‘ چاچی بولی۔
’’لو اسے دیکھونا ذرا، احسان علی نےپھر تصویر ان کے سامنے رکھ دی، ’’یہ آنکھیں، راہ چلتے کو روکتی ہیں یا نہیں، توبہ آنکھ بھر کے دیکھانہیں جاتا۔‘‘
’’اے ہے دیکھا کیوں نہیں جاتا بھلی اچھی تو ہے۔‘‘ شاداں مسکرائی۔
’’مرد کی آنکھ سے دیکھو تو معلوم ہونا۔‘‘ احسان علی ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھنے لگے۔
’’اپنی بہو کے بارے میں کہہ رہے ہو۔‘‘ چاچی ہنسی۔
’’بہو تو جب بنے گی تب دیکھا جائے گا، چاچی ویسے بات کر رہا ہوں، آخر مجھے بھی تو اس گھر میں رہنا ہے۔‘‘ وہ مسکرائے، اس بات پر تو نواب بی بی کی بھی ہنسی نکل گئی بولی، ’’ان کی تو عادت ہی ایسی ہے، جو منہ میں آیا کہہ دیا۔‘‘
ان کے جانے کے بعد احسان علی پھر اسی طرح گم سم ہو گیے۔ حمید کی ماں نے کئی بار بات چھیڑنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے خیالات میں گم تھے، دفعتاً وہ اٹھ بیٹھے، حمید کی ماں مجھے آپ جا کر اس سے ملنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ معاملہ ہاتھ سے نکل جائے، سوٹ کیس میں دو جوڑے رکھ دے صبح کی پہلی گاڑی سے ہی چلا جاؤں گا۔ حمید کے پاس پہنچ کر پہلے تو انہوں نے باتوں ہی باتوں میں اسے سمجھانے کی کوشش کی، چٹکلے سنائے، اپنے تجربہ اور مشاہدہ کو پیش کرنے کے لیے آپ بیتیاں بیان کیں، لیکن حمید نے کسی بات کا جواب نہ دیا تو وہ دلیلوں پر اتر آئے لیکن اس پر بھی حمید خاموش رہا تو انہوں نے اسے دھمکانا شروع کر دیا، جلدی ہی دھمکیوں نے منتوں کی شکل اختیار کر لی، اس پر حمید بولا، ’’ابا جی میں مجبور ہوں میں نسرین سے بیاہ کرنے پر مجبور ہوں۔‘‘
اس وقت احسان علی کو باتیں کرتے ہوئے دیکھ کرایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے کوئی ڈوبتا سہارا لینے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہو، دفعتاً وہ پھر جلال میں آ گیے بولے، ’’اچھا بے شک بیاہ لاؤ اسے لیکن ہمارے یہاں کبھی نہ آئے، کبھی نہیں، ہم اس سے کبھی نہیں ملیں گے۔‘‘ اس پر حمید اٹھ بیٹھا، بولا، ’’آپ کی مرضی۔‘‘
’’لیکن اس لڑکی کو بیاہنے پر تم اس قدر مصر کیوں ہوں؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’میں مجبور ہو ں ابا جی۔‘‘ حمید نے کہا، ’’ہماری شادی ہو چکی ہے۔‘‘
’’ہو چکی ہے؟‘‘ وہ دھڑام سے صوفے پر گر پڑے۔
’’یہ حقیقت ہے۔‘‘ حمید نے سنجیدگی سے کہا، ’’اس بات کو ایک ہفتہ ہو چکا ہے۔‘‘
’’ایک ہفتہ؟‘‘ انہوں نے پیشانی سے پسینہ پونچھا، ’’یہ بات ہے تو پھر جھگڑا ہی کیا۔‘‘ وہ ہنس پڑے لیکن ان کی ہنسی بے حد کھسیانی تھی، حمید اٹھ بیٹھا اور ساتھ والے دروازے پر کھٹکھٹانے لگا۔
’’ایں!‘‘ احسان علی نے حیرانی سے اس طرف دیکھا، ’’تم تو کہتے تھے یہ کمرہ پڑوسیوں سے متعلق ہے۔‘‘
’’اور کیا کہتا ابا جی۔‘‘ حمید مسکرایا اور پھر با آوازبولا، ’’نسرین آ جاؤ، ابا تم سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’اوہ!‘‘ احسان علی کے پاؤں تلے سے زمین سرک گئی، ’’تو یہ بات ہے۔‘‘
نسرین بڑے پر وقار انداز سے کمرے میں داخل ہوئی۔ ’’سلام عرض کرتی ہوں۔‘‘ سریلی آواز کمرے میں گونجی۔ دو ایک ساعت کے لیے وہ سامنے ٹنگی ہوئی تصوری کو گھورتے رہے، پھر دفعتاً انہیں احساس ہوا کہ انہیں جواب میں کچھ کہنا چاہیے۔
’’بیٹھے تشریف رکھیے۔‘‘ وہ گھبرا کر بولے، انہوں نے محسوس کیا کہ وہ اسی صوفے کے دوسرے سرے پر بیٹھ گئی ہے، گھبرا کر اٹھ بیٹھے، اب کیا ہو سکتا ہے خیر کوئی بات نہیں جو ہونا تھا ہو چکا، فضول۔
’’ہاں بھئی!‘‘ وہ حمید سے مخاطب ہوئے، ’’تم انہیں محلے میں لاؤ نا، تمہیں وہاں آنا ہی پڑے گا، تمہاری ماں تمہاری راہ دیکھتی رہی ہے۔‘‘
’’سچ کیا واقعی آپ چاہتے ہیں کہ ہم گھر آئیں؟‘‘
’’اور تو کیا مذاق کر رہا ہوں، تمہیں چھٹی لینی چاہیے۔‘‘
’’ہاں چھٹی تو میں نے پہلے ہی لے رکھی تھی۔‘‘ حمید مسکرایا۔
’’تو پھر یہاں کیا کر رہے ہو، کیا حماقت ہے۔‘‘ انہوں نے مسکرانے کی کوشش کی۔ ’’کل ہی پہنچ جاؤ وہاں، اچھا تو اب میں جاتا ہوں، نسرین کو ساتھ لانا، سمجھے؟‘‘
جس وقت حمید اور نسرین محلے میں داخل ہوئے وہ سب چوگان میں تھیں، نسرین نے کالا ریشمیں برقعہ اتارا۔ ایک ساعت کے لیے وہ جھجک گئیں، رسمی سلام ہوئے، دعائیں دی گئیں، سر پر ہاتھ پھیرے گیے، جب دلہن اپنے گھر چلی گئی تو نکتہ چینی ہونے لگی۔ ایک بولی، ’’لے بہن دلہن کا ہمارے ساتھ کیا کام۔‘‘
شاداں بولی، ’’کیوں ہم کیا کم ہیں کسی سے۔‘‘ تیسری نے کہا، ’’منہ پر اللہ مارا پوڈر دو دو انگلی چڑھا ہوا ہے۔‘‘ چوتھی نے کہا، ویسے تو چودویں کا چاند ہے، احسان علی کا گھر تو منور ہو گیا۔‘‘
’’ہاں بہن۔‘‘ شاداں نے آہ بھر کر کہا، ’’اسے محلے والیاں پسند نہ تھیں۔‘‘ شاداں نے سر اٹھایا تو سامنے احسان علی کھڑے تھے، بھابھی بولی، ’’سنا احسان علی شاداں کیا کہہ رہی ہے۔‘‘
’’لا حول ولا قوۃ۔‘‘ احسان علی کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا، احسان علی کو اس کا احساس ہوا تو لگے سر کنے وہاں، شاداں نے بڑھ کر ہاتھ سے پکڑ لیا، بولی، ’’اب کہاں جاتے ہو میں تو گن گن کر بدلے لوں گی۔‘‘ چاچی ہنسی، بولی، ’’کیسی مبارک دلہن آئی ہے۔‘‘ احسان علی کے منہ سے عربی کے لفظ نکلے۔
’’پر چاچی۔‘‘ شاداں چلائی، ’’ان سے بھلا پوچھو تو آج لاحول پڑھنے کی کیا ضرورت پڑی ہے انہیں۔‘‘
’’ارے ہے شاداں۔‘‘ بھابھی بولی، ’’کیا کہہ رہی ہے تو؟‘‘
’’ٹھیک کہہ رہی ہوں۔‘‘ شاداں چمکی، ’’اس روز میں نے لا حول پڑھا تو احسان علی نے کس قدر شرمندہ کیا تھا، مجھے کہنے لگے لاحول پڑھا جائے تو شیطان کچھ دور نہیں ہوتا۔‘‘
’’اب تو اسے جانے بھی دے گی یا نہیں۔‘‘ چاچی چڑ کر کہنے لگی، ’’گھر بہو آئی ہے اور تو نے اسے یہاں پکڑ رکھا ہے۔‘‘
اسی شام جب دلہن اپنے کمرے میں چلے گیے تو شاداں نے حسب معمول مذاق سے کہا، ’’خیر سے دلہن گھر میں آئی ہے تمہیں تو شکرانہ کے نفل ادا کرنے چاہیئے احسان علی۔‘‘ جب کبھی شاداں انہیں مذاق میں نفل یا نماز کے لیے کہتی تو احسان علی، جواب میں کوئی نہ کوئی فقرہ چست کر دیا کرتے لیکن اس روز بولے، ’’سچ۔۔۔ اچھا شاداں تو بھی کیا کہے گی، کہ چچا نے میری بات نہیں مانی، آج تو تیری بات پوری ہی کردیتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ حمام کے پاس جا بیٹھے اور وضو کرنے لگے، پہلے تو وہ سمجھتی رہی کہ مذاق کر رہے ہیں، لیکن وہ جب جائے نماز پر کھڑے ہو گیے تو شاداں حیران ہو گئی۔ اگلے روز تمام محلے میں بات مشہور ہو چکی تھی کہ احسان علی نے نفل پڑھے۔
’’سچ؟‘‘ چچی بولی۔
’’کیا واقعی؟‘‘ بھابھی نے دونوں ہاتھوں سے سینہ سنبھال لیا، ’’نہیں نہیں میں نہیں مانتی۔‘‘
’’تمہاری قسم!‘‘ شاداں نے ہاتھ چلا کر کہا۔
’’مبارک قدم ہے دلہن کا۔‘‘ چاچی بولی، ’’کہ احسان علی مصلے پر کھڑے ہوئے۔‘‘
محلے کی ڈیوڑھی تک بات پہنچی تو اس پر بحث ہونے لگی، ’’اجی ہر بات کے لیے وقت مقرر ہے، میں کہتا ہوں، شکر کرو کہ اس نٹ کھٹ نے سجدہ کیا۔‘‘
’’آخر کب تک نہ کرتا سجدہ۔‘‘ احسان علی کو آتے دیکھ کر ایک بولا، ’’آخر آ گئے نا راہ راست پر۔‘‘
’’ہاں بھئی اب تو چھپ چھپ کر نفل پڑھے جاتے ہیں۔‘‘
’’احسان علی کو تو کہا کرتا تھا کہ جب غلاظت کا احساس ہو تو۔۔۔‘‘
’’آ گیے نا عورتوں کی باتوں میں۔۔۔‘‘ احسان علی نےہنسنے کی کوشش کی، ’’کون ہے بابا جی عورت کی بات میں نہیں آتا ہے سب مجھ سے ہیں۔‘‘
’’لیکن، اس میں برا کیاہے۔‘‘ بابا جی نے کہا، ’’ہمیں تو بلکہ خوشی ہے کہ تم نے سجدہ کیا۔‘‘
دو دن تو احسان علی کے گھر ہنگامہ رہا، عورتیں آتی جاتی رہیں محلے کے کمین میراثی، ڈوم اور بھانڈ بدھائی دینے کے لیے آ موجود ہوئے، پھر تیسرے دن جب انہیں فراغت ہوئی تو نواب بی بی نے کہا، ’’اب کیا دلہن کے لیے چار ایک جوڑوں کا انتظام بھی نہ کروگے، اور محلے والے، انہیں ولیمے کی دعوت دینی ہو گی۔‘‘ پہلے تو احسان علی شہر سے چیزیں خریدنے کے لئے تیار نہ تھے، پھر جب انہوں نے دیکھا کہ نواب بی بی کے ساتھ حمید جانے کو تیار ہے تو وہ گھبرا گیے۔ بولے، ’’حمید کا جانا ٹھیک نہیں دلہاکو دلہن سے علیحدہ کرنا مناسب نہیں ہے۔‘‘
’’تو پھر میرے ساتھ کون جائے گا؟‘‘ نواب بی بی نے چڑکر پوچھا۔
’’تو میں ہی چلا جاتا ہوں۔‘‘ وہ بولے۔ اس پر حمید کہنے لگا، ’’میرے جانے میں کیا حرج ہے ابا جی،آپ جو گھر ہیں۔ نسرین اکیلی تو نہ رہے گی۔‘‘ احسان علی نے اصرار کیا تو وہ بولا، ’’آپ جا کر نہ جانے کیا کیا اٹھا لائیں گے۔‘‘
اوہ، یہ بات ہے۔‘‘ احسان علی نے اطمینان کا سانس لیا، ’’تو دلہن کو بھی ساتھ لے جاؤ۔‘‘ اس بات پر نوب بی بی چلائی، ’’اے ہے نئی دلہن کو ساتھ لیے پھریں گے لوگ کیا کہیں گے۔‘‘ احسان علی خاموش ہو گیے اور حمید اپنی والدہ کو ساتھ لے کر دو روز کے لیے شہر چلا گیا۔
پہلے روز تو وہ باہر نکل گیے، چوگان میں بیٹھی عورتوں کے ساتھ باتیں کرتے رہے پھر ڈیوڑھی میں جا بیٹھے، لیکن جلد ہی وہاں بھی دلہن اور ان کے نفلوں کی بات چھڑگئی اور وہ بہانے بہانے وہاں سے سرک گیے۔بچوں نے انہیں گزرتے ہوئے دیکھا تو لگے شور مچانے، ایک ساعت کے لیے وہ حسب معمول وہاں کھڑے رہے پھر دفعتاً کوئی خیال آیا، اس کھڑکی کی طرف دیکھا جونسرین کے کمرے سے اس طرف کھلتی تھی، اس خیال پرو ہ پھر چوگان میں آ کھڑے ہوئے، چوگان میں شاداں نے انہیں پکڑ لیا، اور لگی مذاق کرنے۔ لیکن اس روز انہیں کوئی بات نہ سوجھتی تھی، بار بار اوپر کھڑکی کی طرف دیکھتے اور پریشان ہو جاتے، شام کو جب وہ گھر پہنچے تو نسرین مسکراتی ہوئی انہیں ملی۔
’’رات کے لئے کیا بناؤں؟‘‘
’’جو تم چاہو۔‘‘ وہ گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگے، نسرین انہیں کی چار پائی پر بیٹھ گئی تو وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھے۔
’’اوہ۔۔۔‘‘ ان کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔ نسرین چونک پڑی، ’’کیا چاہئیے آپ کو؟‘‘
’’میں تو بھول ہی گیا۔‘‘ وہ اپنی دھن میں بولے۔
’’کیا؟‘‘ نسرین نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ وہ بڑ بڑائے، ’’میرا مطلب ہے۔۔۔‘‘
انہیں خود سمجھ میں نہ آتا تھا، کہ ان کا مطلب کیا ہے، ان کی گھبرائی ہوئی نظریں جائے نماز پر پڑیں، اطمینان کا سانس لیا، جیسے ڈوبتے ہوئے کو سہارا مل گیا ہو، ’’میرا مطلب ہے۔۔۔‘‘ وہ بولے، ’’مغرب کی نماز کا وقت تو جا رہا ہے۔‘‘ انہیں وضو کرتے دیکھ کر نسرین نے جائے نماز بچھا دی، اور آپ اس کے پاس ہی بیٹھ کر سوئیٹر بننے لگی، وضو سے فارغ ہو کر جائے نماز پر آ کھڑے ہوئے ابھی نیت باندھنے ہی لگے تھے کہ پیچھے سے خوشبو کا ایک لپٹا آیا مڑ کر دیکھا تو نسرین کچھ بن رہی تھی، وہ پھر بڑ بڑانے لگے، ’’میرا مطلب ہے یعنی ابھی وقت ہے، کافی وقت ہے ابھی۔ یہ پاس مسجد ہے۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے جوتا پہنا اور پیشتر اس کے کہ نسرین کچھ کہے، باہر نکل گیے۔ اس کے بعد انہیں پتہ نہیں کیا ہوا، وہ بھاگے بھاگے چوگان سے نکل گیے۔ کھیلتے ہوئے بچوں کو دیکھے بغیر آگے چلے گیے، ڈیوڑھی خالی پڑی تھی، وہاں انہیں ہوش آیا، سوچنے لگے پھر نہ جانے مسجد کے دروازے پر کیسے پہنچ گیے۔
دروازے میں احسان علی کو دیکھ کر محلے والے ان کی طرف متوجہ ہو گیے، ایک بولا اس کی بھولا نہ جانئے جو صبح گیا گھر واپس آوے شام، دوسرا کہنے لگا آخر کبھی کبھی غلاظت کا احساس ہو ہی جاتا ہے، یہ سن کر معاً وہ مڑے جیسے وہاں سے بھاگ جانا چاہیے، عین اسی وقت بابا جی آ گیے، احسان علی کو پکڑ لیا، آ کر واپس نہیں جایا کرتے احسان علی، انہیں گھسیٹ کر مسجد میں لے گیے۔ اس بات پر انہیں اطمینان ہو گیا، بولے، یہ دیکھو میں تو نہیں آیا مجھے لایا جا رہا ہے، چلو یونہی سہی، بابا جی نے کہا تیرا بولا آخر کوئی نہ کوئی بہانہ وسیلہ بن ہی جاتا ہے، نہی بہو کے قدم کو دعا دو بھئی۔ چوتھے نے کہا، ورنہ کہاں احسان علی کہاں مسجد، اگر مسجد کا امام وقت تنگ سمجھ کر کھڑا نہ ہوتا تو نہ جانے کیا کیا باتیں ہوتیں اس وقت۔
رات کو کھانے کے بعد نسرین نے انہیں کے کمرے میں اپنا بستر جما دیا اور پھر آپ چار پائی پر بیٹھ کر اطمینان سے سوئیٹر بننے لگی، حقہ پتیے ہوئے وہ کچھ سوچنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن بار بار نگاہیں ادھر ادھر بھٹکنے لگتیں، سامنے فرش پر نسرین کی خوبصورت سرخ چپلی ان کی آنکھوں تلے ناچتی، کمرہ خوشبو سے بھرا ہوا تھا، اف وہ بار بار اپنی ناک سکیڑتے۔کیسی واہیات بو تھی۔
’’ہاں وہ میری کتاب۔‘‘ وہ آپ ہی گنگنائے، ’’کتاب؟‘‘ نسرین کی آواز کمرے میں گونجی، ’’میں دیتی ہوں آپ کی کتاب۔‘‘
’’نہیں نہیں۔‘‘ وہ چلائے، ’’میں خود لے لوں گا۔‘‘ وہ اٹھ بیٹھے لیکن نسرین پہلے ہی الماری تک جا پہنچی۔
’’لاحول والا قوۃ۔‘‘ بے اختیار ان کے منہ سے نکل گیا، دور ہی رک گیے جیسے آگے بڑھنے سے ڈرتے ہوں۔
’’وہ نیلی وہ بائیں طرف والی۔‘‘ وہ چلائے، ’’وہاں رکھ دو۔‘‘ انہوں نے دور سے چار پائی کی طرف اشارہ کیا، ’’وہاں۔۔۔‘‘
ان کی آنکھوں تلے کتاب کےلفظ ناچنے لگے، حاشیہ سرک سرک کر دائیں سے بائیں طرف جا پہنچا اور پھر بائیں سے دائیں چلنا شروع کر دیتا، لفظوں کی قطاریں لگتیں اور پھر دفعتاً ایک جگہ ڈھیر ہو جاتیں۔ دور محلے والیاں ڈھولک بجا رہی تھی، سامنے نسرین کس انداز میں بیٹھی تھی، کیا واہیات طریقے سے بیٹھی تھی، انہوں نے سوچا کیا نمائشی انداز ہیں، اور پھر چونکے، ’’کیا پھتے نائی کی ماں نہیں آئی؟‘‘ وہ گویا کتاب سے پوچھنے لگے۔
’’کوئی کام ہے کیا؟‘‘ نسرین نے پوچھا۔
’’نہیں نہیں۔‘‘ وہ گھبرا گیے۔
’’ویسے وہ سونے کو تو آئے گی۔‘‘
’’اس کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ نسرین بولی، ’’میں جو ہوں۔‘‘
’’اوہ!‘‘ وہ ازر سر نو گھبرا گیے۔ ’’میں جوں ہوں۔۔۔میں جو ہوں۔۔۔‘‘ دور محلے ڈھولک کے ساتھ گا رہی تھیں۔
’’اوہ، گیارہ بج گیے۔‘‘ انہوں نے گھڑی کی طرف دیکھا کر کہا، ’’ابھی تو گیارہ ہی بجے ہیں۔‘‘ کمرے میں چھوٹی سے بتی جل رہی تھی۔ چاروں طرف عجیب سی بو پھیلی ہوئی تھی، دو چھوٹے دو چھوٹے پاؤں رضائی سے باہر نکلے ہوئے تھے چینی چینی کسی نے تمسخر سے ان کے کان میں کہا، سرہانے پر کالے بالوں کا ڈھیر لگا تھا، سرہانے تلے پتلی تتلی انگلیاں پڑیں تھیں، جن پر روغن چمک رہا تھا۔
’’فضول۔‘‘ انہوں نے منہ بنایا، اٹھ بیٹھے اور باہر صحن میں چاندنی چھٹکی ہوئی تھی، دور محلے والیاں گا رہی تھیں، بال گوری دے پیچھرے کالے، نہ جانے کیوں انہوں نے محسوس کیا جیسے ان کی زندگی کی تمام تر رنگینی ختم ہو چکی تھی، اندر آ کر وہ سوچنے لگے، ’’ہوں۔۔۔ تو دو بجے ہیں، وقت گزرتا ہی نہیں۔‘‘ گھڑی چلانے لگی۔
جائے نماز کو دیکھ کر انہوں نے اطمینان کا سانس لیا جو ہونا تھا ہو گیا، انہوں نے سوچا حمید نے کس قدر فحش غلطی کی ہے بے وقوف۔ انہوں نے نسرین کی طرف دیکھ کر سوچا اور پھر ان جانے میں جائے نماز پر کھڑے ہو گیے، اس وقت انہیں نماز گویا دہی نہ تھی۔ میرے اللہ میرے اللہ۔دل سے آوازیں آ رہی تھیں، جی چاہتا تھا، کہ چیخ چیخ کر روئیں، رکوع کے بغیر وہ سجدہ میں گر گیے، عین اس وقت شاداں چاچی کے ساتھ کوٹھے سے نیچے اتری۔
’’چپ!‘‘ شاداں زیر لب بولی، ’’وہ سورہے ہوں گے، آج تو چچا احسان سے وہ مذاق کر کے رہوں گی، کہ یاد کریں گے۔‘‘ چاچی ہنس پڑی بولی، تجھے بھی تو ہر سمے شرارتیں ہی سوجھتی ہیں۔‘‘
’’اور وہ کیا لحاظ کرتے ہیں میرا۔‘‘ شاداں نے کہا۔
’’ہائیں!‘‘ انہیں سجدے میں دیکھ کر شاداں نے اپنا سینہ سنبھالا، ’’میں مر گئی یہاں تو تہجد ادا کی جا رہی ہے، نہ جانے بہو نے کیا جادو کیا ہے۔‘‘
’’سچ!‘‘ چاچی نےہونٹ پر انگلی رکھ لی، اور یہ دیکھ لو دلہن سو رہی ہے جیسے کچھ خبر ہی نہ ہو۔‘‘
احسان علی چونک کر اٹھ بیٹھے۔ ان کے گال آنسوؤں سے تر تھے۔ ’’ہائے میرے اللہ!‘‘ شاداں نے پھر اپنے آپ کو سنبھالا، احسان علی نے انہیں دیکھا تو دفعتاً منہ ڈھیلا پڑ گیا، چہرے پر جھریاں چھا گئیں، جیسے ایک لخت وہ بوڑھے ہو گیے ہوں۔
’’احسان علی!‘‘ شاداں نے چیخ سی ماری، احسان علی نے منہ پھیرا، ایک ہچکی نکل گئی اور وہ سجدے میں گر پڑے، انہوں نے محسوس کیا گویا چینی کا نازک کھلونا ریزہ ریزہ ہو کر ڈھیر ہو گیا ہو۔
مصنف:ممتاز مفتی