آنگن کی دھوپ

0
144
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:یہ ایک بچوں کی کہانی ہے۔ اس میں دو چھوٹے بچوں کی شرارتوں، ان کے کھیلوں، چاہتوں اور خواہشوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ کھیلتے ہوئے بچے کہانی سنانے کی فرمائش کرتے ہیں اور ان کا باپ نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں ایک ایسے بوڑھے لکڑہارے کی کہانی سناتا ہے، جو سوکھے پیڑوں کے ساتھ ہرے پیڑوں کی لکڑیاں بھی کاٹ لاتا ہے۔ اس وجہ سے اس کی بڑھیا اس سے ناراض ہو جاتی ہے۔

میگھارانی تمہارے دانت کتنے پیارے ہیں، گلہری کے دانت۔ تمہارے بال کب کٹے۔ کس نے کٹوائے، مجھے اچھے لگتے تھے تمہاری گردن پر دوڑتی گلہری کی طرح سنہرے بال۔ ہاں گلابی فیتہ بھی خوب بھپتا ہے، لگتا ہے بڑی سی تتلی تمہارے سر پر بسیرا کرنے کے لئے اتر آئی ہے۔ بھاگ کیوں رہی ہو؟ آؤ آؤ میں تم کو اپنے بازوؤں میں چھپا لوں۔ سمجھا، یہ نٹ کھٹ ساشا تمہاری چاکلٹ اڑانا چاہتا ہوگا اور جوتے کہاں گئے۔ اوہو ٹھنڈے ٹھنڈے پاؤں، ریشم جیسے نرم پاؤں، گلابی گلابی، آؤ میں ان کو اپنی مٹھیوں میں چھپالوں۔ گرم ہو جائیں گے۔ نہ جانے یہ لوگ اس کو موزے کیوں نہیں پہناتے؟

وہ اپنی ننھی ننھی ہتھلیاں میری آنکھوں پر رکھ دیتی ہے اور چلاتی ہے، ’’ڈھونڈو! میں کھو گئی ہوں۔ مجھے ڈھونڈو!‘‘ اور میں اس کو ڈھونڈتا ہوں۔ پلنگ کے نیچے، پردے کے پیچھے، اپنی جیب میں اور ہر بار اس کی گھنٹیوں جیسی بجتی آواز میرے دل میں دور تک گونجتی چلی جاتی ہے اور ساشا اتنے میں دبے پاؤں آتا ہے اور مجھ پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ میں شکاری ہوں۔ بہت دور سے آیا ہوں۔ جنگل سے۔ جنگل سے؟ بھئی جنگل کیوں گئے تھے۔ شیر کو مارنے۔ شیر کو؟ شیر تو بہت اچھا ہوتا ہے۔ نہیں نہیں میں تو دوسرے شیر کو مارنے گیا تھا۔ دوسرا شیر کون؟ وہ جو روز رات کو آتا تھا، جانوروں کو اٹھا لے جاتا تھا۔ وہ میرا بے چارا خرگوش۔ کیوں کیا ہوا خرگوش کو؟ (شیر اٹھا کر لے گیا اور اس خرگوش کی نرم کھال کے دستانے بنوا لیے۔ دستانے؟ ہاں، تاکہ جب باہر نکلے تو کوئی اس کے پنجے نہ دیکھے۔ ان ہی پنجوں سے تو اس نے خرگوش کو دبوچ لیا تھا۔ اوہو۔ ساث میں تو دوڑ رہا ہوں۔ کہیں تمہارا شیر یہاں آ نکلا تو میرا اور میگھا کا کیا ہوگا۔ کیوں میگھا ہمارا کیا ہوگا؟ اوہو ہو ہو! بتاؤ نا ہمارا کیا ہوگا؟ ہم چوہا بن جائیں گے۔ پھر؟ پھر ہم بل میں چھپ جائیں گے۔ کیوں ہم چھپ کیوں جائیں گے۔ بلی آئےگی او ر ہم کو کھا جائے گی اور ہم چوہا نہ بنے تو؟ ساشا کا منھ کھلتا ہے اور آنکھوں سے دھوپ چھلنے لگتی ہے (اوہو نانا۔ تم بالکل ہاف وٹ ہو۔ تو پھر شیر آئے گا او ر تم کو کھا جائے گا۔ اور چوہا بن گیا تو؟ تو بلی آئےگی اور تم کو کھا جائےگی۔ میگھا کی آنکھوں سے دھوپ چھلکی اور میں کھسیا کر ہنسنے لگا۔ مگر چھوٹی چڑیا چہکتی رہی اور ساشا چاکلیٹ لے اڑا۔ وہ آنگن میں دوڑ رہا ہے اور چاکلیٹ کھا رہا ہے اور اس کی آنکھوں کی دھوپ آنگن کے درخت سے چھنتی دھوپ میں گھل گئی ہے اور وہ ایک رنگ بن گیا ہے، جس میں سو رنگ ہیں، ایک چہکار اور رفتار، زندگی یہاں سے شروع ہوتی ہے اور میگھا میری آستین کھینچتی ہے۔ ساشا میری چاکلیٹ لے گیا۔ مجھے اور چاکلیٹ دو اور میں دیتا ہوں۔ زندگی یہاں سے بھی شروع ہوتی ہے اور اب دونوں خوش ہیں۔ رنگوں کی طرح جن کی لہروں میں ان کے قہقہے اور ناچ بہہ رہے ہیں۔

میں بھی کبھی اسی طرح آنگن میں کھیلتا ہوں گا اور کوئی مجھے شعلے کی طرح لپکتا دیکھتا ہوگا اور دیکھنے والے کا دل امیدوں کی دھوپ سے بھر جاتا ہو گا۔ لیکن اب مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ دھوپ کبھی بھی بجھ سکتی ہے۔ کبھی بھی ایک طوفان اٹھ سکتا ہے، ایسا جیسا پہلے کبھی نہیں ا ٹھا اور وہ سب کچھ اپنے شعلوں میں بہا کر سورج کے اندھیرے غار میں ڈبو سکتا ہے۔ کبھی بھی۔ شاید یہ طوفان اس لئے آئےگا کہ میں چپ ہوں۔ چپ سے پیدا ہونے والا طوفان بہت بھیانک ہوتا ہے۔

جانے میں کیا کیا بکتا رہتا ہوں۔ لگتا ہے میں کوئی اور ہوں، میں نہیں۔ اور، کوئی اور میرے دل کے کھنڈر میں چمگادڑ کی طرح اڑتا رہتا ہے۔ ڈھیتی دیواروں سے اس کے ٹکرانے کی آواز میں سنتا رہتا ہوں۔ مٹی سرسراتی ہے اور ہوا مٹی کو لے اڑتی ہے۔ اور میں صبح سے شام تک اندھی آنکھوں سے سب کچھ دیکھتا رہتا ہوں اور مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

- Advertisement -

دونوں اب تک آنگن میں کھیل رہے ہیں۔ نہ جانے ان کو گیلی مٹی کہاں سے مل گئی ہے، امرود کے پیڑ کے نیچے۔ ان کو پتہ ہی نہیں کہ میں ہوں اور ان کو دیکھ رہا ہوں۔ بچوں کی اپنی دنیا ہے، اپنے ہاتھ، اپنی مٹی، اپنا چاک، چاک گھوم رہا ہے اور وہ برتن بنا رہے ہیں۔ کوئی صراحی، کوئی گلاس، کوئی پیالہ۔ لیکن وہ ایک دوسرے سے مٹی چھین رہے ہیں اور چلا رہے ہیں، ’’یہ میری مٹی ہے۔ یہ میری مٹی ہے۔‘‘

اور میری مٹی؟ میں چپ چاپ ہنستا ہوں اور میرا سورج؟ میں پھر چپ چاپ ہنستا ہوں۔د ھوپ اب پورے آنگن میں بھر گئی ہے اور دونوں بچے پھر دوڑ رہے ہیں۔ ساشا بچی سے پوچھتا ہے، ’’ماگن تم کیا کر رہی ہو؟‘‘ جواب ملتا ہے، ’’گھونسلہ بنا رہی ہوں۔‘‘ پھر ساشا کی آواز گونتیا ہے، ’’گھونسلے کا کیا کروگی؟‘‘ میگا، کے ہونٹ چونچ کی طرح نکیلے ہو جاتے ہیں۔ ’’رہوں گی گھونسلے میں!‘‘ ساشا باز کی طرح جھپٹتا ہے اور میگھا کے گرد چکر کاٹتا ہے۔’’گھونسلے میں تو چڑیا رہتی ہے۔‘‘ ’’میں بھی تو چڑیا ہوں، دیکوک چونچ!‘‘ دونوں ہاتھ پکڑ کر درخت کے گرد چکر لگاتے ہیں اور دھوپ ان کے چکراتے سایوں سے کھیلتی ہے۔

زندگی یوں بھی تو شروع ہوتی ہے۔ کیا ان کی باتوں سے کسی اور چھور کا پتہ چلتا ہے۔ ننھے ننھے مشاہدوں سے یہ باتیں پانی کے دھار کی طرح پھوٹتی ہیں اور وہ صبح سے شام اور شام سے صبح کبھی سایوں کے پیچھے بھاگنے میں اور کبھی روشنی میں چپنے میں کر دیتے ہیں۔ میں جہاں ہوں وہاں نہ دھوپ ہے، نہ سائے، بس ایک جھٹپٹا سا ہے۔ کچھ یادوں کا، کچھ خوابوں کا۔

ہاں بیٹا ساشا اگر میں تم کو اپنے کندھوں پر بٹھالوں تو تم کہاں تک دیکھ سکتے ہو۔ پہلے بٹھاؤ۔ اب بیٹھ گئے، اب بتاؤ۔ میں بھی بیٹھوں گی گردن پر۔ میگھارانی، اچھا لو تم بھی بیٹھ گئیں۔ اب تم دونوں باری باری سے بتاؤ۔ بتائیں؟ دیوار ہے دیوار۔ تالیاں، اچھا۔ اب نکلتے ہیں اس آنگن سے۔ باہر۔ اب بتاؤ۔ کیا دیکھتے ہو؟ پیڑ اور آگے؟ اور آگے کھڑکیاں، کھڑکیوں میں روشنی روشنی میں سایہ، سائے میں روشنی اور آگے؟ اور آگے اور آگے، اندھیرا اور اندھیرے میں؟ اندھیرے میں چاند اور چاند میں؟ چاند میں، چاند میں، اندھیرا! ارے بھئی گردن ٹوٹی میری تو، اترو۔ اترو۔

رات گہری ہو گئی ہے اور باہر درختوں پر گہرا اتر رہا ہے۔ آہستہ آہستہ۔ کہرے پر نو ن لائٹ بھاپ کی طرح تیر رہی ہے اور دونوں لحاف میں لیٹے ہوئے ہیں مگر ان کی آنکھیں بھونروں کی طرح چمک رہی ہیں۔ پپوٹوں پر نیند کا کہرا ہے لیکن کہرے میں آنکھوں کی لویں لپک رہی ہیں۔ میں التجا کرتا ہوں۔ بھئی سو جاؤ۔ مگر ساشا اور میگھا دونوں کی ضد جاری ہے۔ نہیں ہر رات کی طرح ان کو کہانی کا انتظار ہے۔ اچھا سنو۔ کون سی سناؤں۔ شیر والی کہانی جو روز رات کو آکر جانوروں کو اٹھا لے جاتا تھا۔ نہیں، دوستو، آج میں تم کو شیر کی کہانی سناؤں گا جو خرگوش کو اٹھا لے گیا اور جس نے اس کے سمور کے دستانے بنا لیے تاکہ اس کے پنجے دکھائی نہ دیں۔ نہیں آج میں تم کو ایک بوڑھے کی کہانی سناتا ہوں۔

سناؤ۔

سنو۔

ایک تھا بوڑھا۔ لکڑ ھارا۔ وہ روز جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا تھا۔ وہ لکڑیاں لا کر بیچتا تھا اور جو پیہھ اس کے ہاتھ میں آتا تھا وہ اس سے کام کی چیزیں خرید تا تھا۔ تب اس کی بیوی چولھا جلاتی تھی۔ لکڑی کچی ہو تو دھواں بہت اٹھتا ہے۔ سو دھواں بہت اٹھتا تھا۔ ایک دن عورت نے جھریوں میں پھیلتے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے بوڑھے لکڑ ہارے سے پوچھا۔ کچے درختوں کو کاٹتے ہوئے کیا تم کو ان درختوں سے ان کی عمر چھینتے اچھا لگتا ہے؟ ابھی تو ان کے دھوپ کھانے اور ہوا میں جھولنے کے دن تھے۔ ایسے میں تو ایک دن سارا جنگل کٹ جائےگا۔ پھر تم کیا کروگے؟ لکڑ ہارا سوچ میں پڑ گیا۔ پھر بولا تب تو ہم بھی نہیں ہوں گے۔ نہ جنگل، ہم نہیں ہوں گے پر اور تو ہوں گے۔ عقل کے دشمن۔ عورت نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے پھر چولھے میں پھونکان شروع کر دیا۔ آگ تیز ہو گئی۔ عورت کا چہرہ روشنی اور گرمی سے دہک اٹھا۔ لکڑ ہارا اداس ہو گیا۔ وہ اپنے دل کے ساتھ بہنے لگا۔ وہ بہتے بہتے جنگل پہنچ گیا۔ سارا جنگل اندھیرے میں چھپ گیا تھا اور ہوائیں رو رہی تھیں۔ ہواؤں کے ساتھ جانور بھی رو رہے تھے۔ جانوروں کے ساتھ بوڑھا لکڑ ہارا بھی رونے لگا۔ اندھیرے میں چھوٹے چھوٹے پودوں کی آوازوں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پوچھا تم کویں روتے ہو لکڑہارے؟ میں تو یوں روتاہوں کہ تم روتے ہو۔ ہم تو یوں روتے ہیں کہ ہم کٹ گئے اور تم؟ اور میں یوں روتا ہوں کہ میں زندگی بھر تم کو کاٹتا رہا اور اب رات ہوتی ہے تو رات کا جنگل تو ہے، پر وہ ہنستے کھیلتے درخت دکھائی نہیں دیتے۔ میں بہت اکیلا ہو گیا ہوں۔ سارا جنگل ہنسنے لگا۔ سارے چاند، سارے سورج ہوا میں تیرنے لگے۔ لکڑ ہارے کا سر چکرایا اور وہ دلدل میں گر گیا۔ اب وہ جتنا ہاتھ پاؤں مارتا تھا اندر دھنستا جاتا تھا۔ یکایک دھماکا ہوا اور۔۔۔

میں آنکھیں ملتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ دھوپ دیوار پر چڑھ آئی ہے اور ساشا ابھی تک آنگن کے درختوں کے پاس مٹی سے صراحی بنا رہا ہے او رمیگھا تنکوں سے گھونسلہ۔ ویسے بڑا سناٹا ہے۔

مصنف:انور عظیم

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here