ٹیری لین کی پتلون

0
125
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

شیشے کی دیوار کے پیچھے کھڑا ہوا صاحب اپنی نیلی کانچ کی آنکھوں سے منگو کو گھور رہا تھا۔

شیشے کی دیوار کے سامنے کھڑا ہوا منگو اپنی چمکیلی کالی آنکھوں سے صاحب کو گھور رہاتھا۔

صاحب کے سر پر سلیٹی رنگ کا ’’ٹوپ‘‘ تھا۔ (اور دل ہی دل میں منگو نے اپنے آپ کو ٹوکا۔ ’’ٹوپ‘‘ نہیں ’’ٹیپ‘‘، ٹوپ تو گنوار بولتے ہیں) صاحب کے بدن پر چھوٹے چھوٹے چار خانوں کا کوٹ تھا۔ کوٹ کے کالر میں سے سفید قمیص اور کالی اور لال دھاریوں دار ٹائی جھانک رہی تھی۔ صاحب کی ٹانگیں نیلے رنگ کی پتلون میں تھیں۔ پتلون صاحب کے کولھوں پر کسی ہوئی تھی اور نیچے کالے شیشے کی طرح چمکتے ہوئے جوتوں تک آتے آتے گائے کی دم کی طرح پتلی ہوگئی تھی۔ پتلون کا کپڑا بڑا چمکیلا تھا۔ ملائم بھی ضرورہوگا۔ منگو نے کانچ کی دیوار کو ناک لگاتے ہوئے سوچا۔

صاحب سے منگو کی کئی مہینے پرانی دوستی تھی۔ ہر روز منگو صاحب کو دیکھنے آتا تھا مگر ان کے درمیان یہ کم بخت کانچ کی دیوار کھڑی تھی جو ان کو ملنے نہیں دیتی تھی۔ صاحب شیشے کی دیواروں کے اندر قید تھا اور منگو ان شیشے کی دیواروں کے باہر قید تھا۔ صاحب درزی کی دکان کے باہر نہیں آسکتا تھا۔ منگو درزی کی دوکان کے اندر نہیں جاسکتا تھا۔ صاحب کے کاٹھ کے بدن میں جان نہیں تھی۔ منگو کے بدن میں جان تو تھی مگر اس کی جیب میں دام نہیں تھے۔ سو دونوں مجبور تھے۔

منگو نے شیشے کی دیوار کے باہر سے ہی صاحب کے قد کو ناپ کر سوچا، ہم دونوں برابر ہی ہوں گے۔ صاحب کے کپڑے میرے بدن پر بھی فٹ آسکتے ہیں۔ ’’فٹ!‘‘ منگو نے سوچا۔ یہ چھوٹا سا انگریزی کا لفظ بولنے ہی میں نہیں، سوچنے میں بھی کتنا اچھا لگتا ہے۔ ’’فٹ!‘‘ جیسے ٹِچ بٹن دباکر لگانے کی آواز ٹِچ۔ جیسے اس کے پلاسٹک کے تھیلے میں لگے ہوئے زپ کو کھینچنے کی آواز۔ زِپ! ویسے ہی ’’فٹ!‘‘ جیسے صاحب کی ٹانگوں سے چپکی ہوئی پتلون۔۔۔ فٹ! جیسے صاحب کی چھاتی اور کمر پر منڈھا ہوا کوٹ۔۔۔ فٹ! جیسے صاحب کے سر پر بیٹھا ہوا ہیٹ۔۔۔ فٹ!

- Advertisement -

وہ صاحب کو سر سے لے کر پیر تک۔۔۔ ہیٹ سے لے کر جوتوں تک۔۔۔ روز دیکھتا تھا مگر اس کی نظر بار بار چمکیلے نیلے رنگ کی پتلون کی مہری پر جاتی تھی جہاں کاغذ کی ایک پرچی لگی تھی جس پر انگریزی میں لکھا تھا، ’’ٹیری لین کی پتلون۔ اسی روپے۔‘‘

اور جب وہ اس اسی روپے والی ٹیری لین کی پتلون کا مقابلہ اپنی ٹانگوں پرجھولتی ہوئی میلی ڈھیلی ڈھالی خاکی ڈبل زین کی پتلون سے کرتا تھا (جو اس نے کئی مہینے ہوئے بارہ روپے میں ریڈی میڈ خریدی تھی اور جو اس کے بدن پر بالکل ’’فٹ‘‘ نہیں تھی!) تو منگو کو ایسا لگتا تھا جیسے اس کی چوبیس سالہ زندگی کی ساری دوڑ دھوپ اسی ٹیری لین کی پتلون کو حاصل کرنے کے لیے تھی۔

منگو ہریا نے کے ایک چھوٹے سے قصبے رہتک میں پیدا ہوا تھا۔ اس کو اپنا بچپن بہت کم یاد تھا۔ اس کی ماں تو منگو کے پیدا ہونے کے سال بھر بعد ہی مر گئی تھی۔ لیکن اس کو تو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ بچپن میں وہ کوئی کھیل بھی کھیلتاتھا یا نہیں یا اس کے بچپن کے ساتھی اور دوست کو ن تھے۔ شاید کوئی تھے ہی نہیں لیکن اس کو اتنا ضرور یاد تھا کہ وہ کوئی پانچ برس کا تھا جب اس کے باپ نے اسے محلے کے میونسپل پرائمری اسکول میں داخل کردیا تھا۔ داخلہ آسانی سے نہیں ہوا تھا۔ کئی بار اسے صبح سویرے اٹھ کر منھ ہاتھ دھوکر گھر کی دھلی ہوئی دھوتی (جو اس کے باپ کی پرانی دھوتی میں سے پھاڑ کر بنائی گئی تھی) اور قمیص پہن کر پہلی پستک اور سلیٹ کو بغل میں دبا کر باپ کے ساتھ اسکول جانا پڑا تھا، تب جاکر ماسٹر جی نے رجسٹر میں اس کا نام لکھا تھا۔۔۔

مگر اگلے دن جب وہ اکیلا اسکول پہنچا تو اسکول کے چپراسی نے برآمدے میں پڑی ایک پھٹی ہوئی چٹائی کی طرف اشارہ کرکے کہا، ’’یہاں بیٹھ جا۔‘‘ اور منگو کی سمجھ میں نہیں آیا کہ جب دوسرے بچے اندر بینچوں اور ڈسکوں پربیٹھے ہیں تو اس کو باہر برآمدے میں کیوں بٹھایا گیا ہے اور ساری کلاس کے ساتھ وہ بھی ’’ا۔ آ۔ اِی۔ ای۔ اُ۔ او۔ دو دونی چار، دو تیا چھ‘‘ چلا چلاکر یاد کرتا رہتا تھا مگر اس کے چھوٹے سے سر میں ایک سوال شہد کی مکھی کی طرح بھن بھن کرتا رہتا۔۔۔ اور سب لڑکے اندر کمرے میں بنچوں پر بیٹھتے ہیں تو صرف مجھے ہی کیوں برآمدے میں گندی پھٹی چٹائی پر بیٹھنا پڑتا ہے؟ کیوں؟ سوال کی زہریلی مکھی بھن بھناتی رہتی، کبھی کبھی ڈنک بھی مارتی، مگر نہ جانے کیوں اس کو یہ سوال زبان تک لاتے ہوئے ایسا عجیب ڈر لگتا تھا جیسا رات کے اندھیرے میں پرانے پیپل کے کھڑکھڑاتے ہوئے سایے میں بھوت سے ڈر لگتا ہے۔

پھر ایک دن کیا ہوا کہ اس کے ماں باپ نے اسے معمول سے بھی سویرے سوتے سے جگایا۔ اور جب وہ اسکول پہنچا تو اس نے دیکھا ابھی ایک بھی بچہ نہیں آیا۔ تینوں کمرے اور ان کے سا منے کا برآمدہ خالی پڑے تھے۔ اس کی کلاس کے کمرے کے دروازے کھلے تھے۔ اندر بنچ اور ڈسک لائنوں میں لگے ہوئے تھے۔ اس نے سوچا ایک بار جہاں اور لڑکے بیٹھتے ہیں، وہاں بیٹھ کر تو دیکھوں۔ ادھر اُدھر دیکھ کر دبے پاؤں کمرے کے اندر گیا اور سب سے پچھلی لائن میں ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔ سامنے ڈسک رکھا ہوا تھا، جس میں روشنائی بھری دواتیں لگی ہوئی تھیں۔ منگو نے ڈسک پر اپنی کتابیں اور تختی سلیٹ قلم پنسلیں جمادیں۔ بنچ کے پیچھے لگی ہوئی لکڑی پر کمرٹکاکر بغلوں میں ہاتھ دباکر بڑی شان سے بیٹھ گیا۔ اس نے سوچا، ’’اگر ہر روز میں بھی یہاں بیٹھ جاؤں تو کیا ہرج ہے؟‘‘

اور شاید اس ان کہے سوال کے جواب میں چپراسی رام دین سر پر اپنا خاکی صافہ باندھتے ہوئے برابر کے دروازے سے کمرے میں داخل ہوا اور منگو کو بنچ پر بیٹھا دیکھ کر چلاپڑا، ’’ابے او۔ تجھے یہاں بیٹھنے کو کس نے کہا ہے؟ اپنے ساتھ مجھے بھی پٹوائے گا؟‘‘

عام طور سے رام دین منگو سے بڑی مہربانی سے پیش آتا تھا۔ ماسٹر جی کی طرح اس کے ہاتھوں پر قمچیاں نہیں مارتا تھا۔ سو منگو ڈر کے مارے ایک دم کھڑا نہیں ہوگیا۔ وہیں بیٹھا بیٹھا بولا، ’’کاکا رام دین۔ میں یہاں کیوں نہیں بیٹھ سکتا؟ مجھے وہاں چٹائی پر کیوں بیٹھنا پڑتا ہے؟‘‘

’’اِس لیے کہ تو اچھوت ہے۔‘‘ رام دین نے جواب دیا۔ منگو کو ’’اچھوت‘‘ کے معنی نہیں معلوم تھے مگر اسے یہ لفظ سنتے ہی اپنے آپ میں سے گھناؤنی بوآئی اور وہ بوکھلا کر کھڑا ہوگیا اور جلدی جلدی اپنی کتابیں سمیٹ کر برآمدے میں جابیٹھا مگر اس جلدی میں اس کی دھوتی کا سرا ڈسک میں لگی ایک کیل میں اٹک گیا، جھڑ سی آواز آئی اور منگو کی بائیں ٹانگ کولھے تک ننگی ہوگئی۔ پھٹی ہوئی دھوتی کو سنبھالتے ہوئے ابھی اس نے آلتی پالتی مار کر سامنے کتابیں رکھی ہی تھیں کہ رام دین نے اسکول کی گھنٹی بجانی شروع کی اور لڑکوں کی ٹولیاں بھاگ بھاگ کر اسکول میں آنے لگیں۔

لڑکے چھ کا پہاڑا یاد کرتے رہے، ’’چھ اِکن چھ۔ چھ دونی بارہ۔ چھ تیا اٹھارہ‘‘ مگر منگو کے دماغ میں زہریلی شہد کی مکھی بھن بھناتی رہی، ’’اچھوت۔ اچھوت۔۔۔ اچھوت!‘‘

لڑکے چلاتے رہے، ’’آج آم لا۔ کل کام پر جا۔ سچ بول۔ کم نہ تول۔ وہ تیرا بھائی ہے۔ تو اس کا بھائی ہے۔‘‘ مگر منگوکے کانوں میں سنائی دیتا رہا، ’’تو بنچ پر نہ بیٹھ۔ تو اچھوت ہے۔ گندی چٹائی پر بیٹھ۔ تو اچھوت ہے۔ تو کسی کا بھائی نہیں ہے۔ تو اچھوت ہے۔‘‘ ماسٹر جی پوچھتے رہے، ’’ہاں تو بچو! بتاؤ۔ جھیل کیا ہوتی ہے؟ ساگر کیا ہوتا ہے؟ ٹاپو کیا ہوتا ہے؟‘‘ اور منگو سنتا رہا، ’’ہاں تو بچو بتاؤ۔ اچھوت کیا ہوتا ہے؟ اچھوت کیسا ہوتا ہے؟ اچھوت کیا ہوتا ہے؟‘‘

اور پھر ایک دم ماسٹر جی کی قمچی کی مار اس کی کمر پر پڑی، ’’اے منگو جواب نہیں دیتا۔ کیا سو رہا ہے؟ چل کھڑا ہوجا۔‘‘ منگو گھبراکر کھڑا ہوا تو دھوتی کا پھٹا ہوا پلو نیچے گر پڑا اور اس کی بائیں ٹانگ کولھے تک سب کے سامنے ننگی ہوگئی۔ سب بچے کھلکھلاکر ہنس پڑے۔ ایک اور قمچی کی مار منگو کی کمر پر پڑی اور اسے ایسا لگا جیسے ایک لمبی ڈنک والی بھڑنے ایک دم اسے کاٹ لیا ہو۔ ماسٹر جی نے چلاکر کہا، ’’پھر کبھی پھٹی دھوتی پہن کر آیا تو تجھے اسکول سے نکال دوں گا۔‘‘

اسکول ختم ہونے کی گھنٹی بجی اور سب بچے ہنستے شور مچاتے باہر بھاگے تو منگو نے انہیں غور سے دیکھا۔ ان میں سے ہر ایک قمیص اور نیکر پہنے ہوئے تھا۔ کوئی خاکی نیکر کوئی نیلی نیکر۔ کسی کے پیروں میں موزے اور بوٹ تھے، کسی کے پیروں میں چپل مگر ننگے پاؤں کوئی نہیں تھا۔ اسکول سے گھر جاتے ہوئے منگو نے سوچا، ’’اچھوت وہ ہوتا ہے جو نیکر کے بجائے پھٹی ہوئی دھوتی پہنتا ہے اور ننگے پاؤں اسکول جاتا ہے۔‘‘ اور اس نے گھر پہنچتے ہی باپ سے کہا، ’’بابا۔ مجھے نیکر سلوادو اور چپل دلوادو۔ میں ننگے پاؤں اسکول نہیں جاؤں گا۔‘‘

تین دن کے بعد وہ نئے چپلوں کو چرمر کرتا نیلی کھدر کی نیکر پہن کر سویرے سویرے اسکول پہنچا اور رام دین سے پوچھا، ’’کاکا۔ اب تو میں اندر بیٹھ سکتا ہوں نا؟‘‘ اور رام دین نے چٹائی کی طرف اشارہ کرکے کہا، ’’اپنی خیریت چاہتا ہے تو بیٹھ جااپنی جگہ۔ نیکر پہن کر بھی تو ہے تو اچھوت۔‘‘

اس دن اس نے باپ سے پوچھا، ’’بابا۔ اچھوت کیا ہوتا ہے؟‘‘ باپ نے، جو اس وقت سڑک پر جھاڑو دے کر آیا تھا، جھاڑو ٹوکری پھینک کر جواب دیا، ’’اچھوت وہ ہوتا ہے جسے کوئی اونچی جات والا چھو نہیں سکتا۔‘‘

’’مگر کیوں نہیں چھوسکتا؟ ہم میں کوئی گندلگی ہے کیا؟‘‘

’’ہاں، بیٹا۔ لگی تو ہے۔ ہم لوگ کوڑا کرکٹ جو اٹھاتے ہیں۔ ٹٹی صاف کرتے ہیں۔ گندی نالیاں دھوتے ہیں۔ سڑک پر جھاڑو دیتے ہیں۔ اس لیے ہم اچھوت ہیں۔‘‘

منگو نے اپنا فیصلہ سنادیا، ’’تو پھر میں تو یہ گندا کام نہیں کروں گا۔‘‘

اور باپ نے حقہ گڑگڑاتے ہوئے کہا، ’’تو نہیں کرے گا تو اور کریں گے۔ یہ کام تو کسی نہ کسی کو کرنا ہی ہے۔ اگر ہم یہ کام نہ کریں تو سڑکوں پر کوڑے کے ڈھیر لگ جائیں، ہرگھر میں ٹٹی اکٹھی ہوکر سڑانڈ آنے لگے۔۔۔ بیماریاں پھیل جائیں۔‘‘

اس کا جواب منگو کے پاس نہیں تھا۔ مگر اس نے کہا، ’’میں تو کوئی اور کام کروں گا۔‘‘

’’تب ہی تو تجھے اسکول میں بھرتی کرایا ہے۔ چار جماعت پڑھ لے گا تو تجھے دلی بھیج دوں گا۔ وہاں کچھ نہیں تو چپراسی کی نوکری مل جائے گی۔‘‘ اور منگو نے کہا، ’’چپراسی نہیں میں بابو بنوں گا بابو۔‘‘

منگو نے چار جماعتیں تو پڑھ لیں۔ مڈل اسکول میں بھی داخل ہوگیا۔ یہاں اس کو برآمدے میں چٹائی پر بیٹھنا نہیں پڑتا تھا۔ کلاس روم میں ہی بنچ اور ڈسک پر دوسرے لڑکوں کے ساتھ بیٹھتا تھا۔ منگو کو اس کے باپ نے بتایا تھا کہ دیش آزاد ہوگیا ہے اور مہاتما گاندھی جی مرنے سے پہلے سب کو کہہ گئے ہیں کہ اچھوتوں کو اچھوت نہ کہیں، ’ہریجن‘ کہیں اور ان سے چھوت چھات نہ برتیں۔ سو سرکار نے ایک نیا قانون بھی بنادیا تھا کہ چھوت چھات بند ہوجائے۔ پر یہ قانون اسکول تک تو پہنچا تھا مگر ان کی بستی کے پاس جو اونچی جات والوں کا محلہ تھا، اس کے کوئیں تک نہیں پہنچا تھا۔ اچھوت ہریجن ہوگئے تھے مگر اس کوئیں سے پانی نہیں بھر سکتے تھے۔ مڈل اسکول میں بھی دوچار دن تو منگوبہت خوش رہا کہ اب وہ بھی کرسی میز پر بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے لیکن چند روز کے بعد اسے عجیب سا لگا کہ اُن کے کمرے میں دو دولڑکے ایک ڈسک پر بیٹھتے ہیں لیکن منگو کے برابر والی جگہ ہمیشہ خالی رہتی ہے اور برابر والے ڈسک پر دو کے بجائے تین لڑکے پھنس کر بیٹھتے ہیں۔

منگو نے مڈل پاس کیا تو باپ نے اسکول سے اٹھالیا۔ ابھی وہ دلی جانے کی سوچ ہی رہا تھا کہ اس کا باپ ہیضے میں مرگیا۔ یتیم منگو کو اس کے رشتے دار میونسپل میں بھنگی کی نوکری دلوانے کی سوچ رہے تھے کہ ان کی بستی کا ایک آدمی رلدو بمبئی سے واپس آیا۔ وہ وہاں کسی ملک میں کام کرتا تھا۔ ایک دن منگو کو وہ راستے میں مل گیا تو اس نے پوچھا، ’’کیوں منگو۔ بمبئی چلے گا؟‘‘

سو رُلدو نے اس کو بتایا کہ بمبئی میں وہ رلیا رام کہلاتا ہے۔ ایک مل میں کام کرتا ہے۔ جس چال میں رہ رہتا ہے وہاں ہر کوٹھری میں (جسے بمبئی کی بھاشا میں کھولی کہتے ہیں) بھانت بھانت جاتی کے لوگ رہتے ہیں۔ کسی میں برہمن تو کسی میں شتری، تو کسی میں مسلمان تو کسی میں کرستان۔ پارسی سکھ، مدراسی، بنگالی۔ اور تو اور رُلدو عرف رلیا رام بھی وہیں رہتا ہے اور کسی نے آج تک اس سے یہ نہیں پوچھا کہ تو چھوت ہے یا اچھوت۔ ’’منگو بمبئی میں سب لوگ رات دن کام میں جٹے رہتے ہیں۔ کسی کو ٹائم ہی نہیں ہے ایسے سوال جواب کرنے کا۔‘‘

پھر منگو نے پوچھا، ’’مگر کھانے پینے میں تو چھوت چھات ضرور ہوتی ہوگی۔‘‘ اور رلدو نے کہا، ’’ارے بمبئی کے ایرانی ہوٹلوں میں سب دھرم اور جات کے لوگ کھاتے پیتے ہیں۔ کوئی نہیں پوچھتا کیا دھرم ہے۔ کون جات ہو، بڑے شہر میں یہی تو مجا ہے۔ یہ چھوت چھات تو قصبوں دیہاتوں میں رہ گئی ہے۔‘‘

رلدو واپس بمبئی گیا تو منگو بھی اس کے ساتھ ہولیا۔ پہلی بار وہ ریل میں بیٹھا تو اس کو ایسا لگا جیسے ریل نہیں چل رہی، ساری دنیا پیچھے کو بھاگ رہی ہے۔ رہتک کاشہر، وہاں کے مکان، ہریجنوں کی بستی کی جھونپڑیاں، کنواں جہاں منگو کے بھائی بند پانی نہیں بھر سکتے، مڈل اسکول، پرائمری اسکول۔ منگو نے سوچا، میری ساری پرانی زندگی پیچھے کو جارہی ہے صرف میں آگے جارہا ہوں۔ آگے جہاں بمبئی ہے۔ وہ شہر جہاں عمارتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں، جہاں رلدو رلیا رام کہلاتا ہے اور جہاں پہنچ کر منگو منگت سنگھ ہوجائے گا۔ ’’کوئی میری ذات بھی پوچھے گا تو کہہ دوں گا راجپوت ہوں۔‘‘ اس نے سوچ رکھا تھا۔

اس ریل کے سفر نے نہ صرف منگو کو رہتک سے بمبئی پہنچادیا بلکہ اس کی سمجھ بوجھ کو بھی کہیں سے کہیں پہنچادیا۔ ریل سے زیادہ اہم منگو کو ریل کا پاخانہ لگا جہاں ایک زنجیر کو کھینچنے سے ہر قسم کی گندگی کو بہادیا جاتا ہے۔ منگو کو ایسا محسوس ہوا کہ اس زنجیر کے ساتھ اس کا اور اس جیسے کروڑوں ہریجنوں کا مستقبل بندھا ہوا ہے۔ اپنے باپ کی بات یاد کرکے اس نے سوچا، آج بابا مجھ سے پوچھتے اگر ہم یہ نہیں کریں گے تو صفائی کا کام کون کرے گا؟ تومیں جواب دیتا، ایک پانی کی ٹنکی اور ایک لوہے کی زنجیر یہ کام کرے گی اور ہمیں ہمیشہ کے لیے چھوت چھات سے آزاد کردے گی۔

بمبئی پہنچ کر رلدو نے کہا، ’’منگو پہلا کام یہ کر دوچار شرٹ پینٹ خریدلے۔ کرافوروڈ مارکیٹ میں سلے سلائے کپڑے بکتے ہیں۔‘‘ اگلے ہی دن منگو نے دو ریڈی میڈ قمیص خریدیں اور دو پتلونیں۔ ڈبل زین کی۔ ایک خاکی ایک نیلی۔ پہلے دن ہی اسے ایسے لگا جیسے وہ ایک دم صاحب لوگ جیسا ہوگیا ہو۔ رلدو کا ایک جان پہچان والا ایک صابن بنانے والی کمپنی کے دفتر میں کام کرتا تھا۔ وہاں منگت سنگھ (یعنی منگو) کو چپراسی کی نوکری بھی مل گئی۔

منگو کو ایسا لگا کہ ایک شرٹ اور ایک پتلون نے اس کی دنیا ہی بدل ڈالی۔ اب وہ ایرانی ہوٹل میں چائے پیتا۔ ایک مدراسی برہمن ہوٹل میں کھانا کھاتا۔ چوپاٹی پر راجستھانی چاٹ والوں سے چاٹ لے کر کھاتا۔ بوتل کو منہ لگاکر کوکا کولا پیتا۔ اور کوئی اس سے یہ نہ پوچھتا کیوں بے تو اچھوت تونہیں ہے؟

پھر جیسے جیسے اس دفتر میں دن گزرنے لگے، اس کو آہستہ آہستہ معلوم ہوا کہ شرٹ شرٹ میں اور پتلون پتلون میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ایک اس کی ڈھیلی میلی ملگجی پتلون تھی جو ہفتے میں ایک بار دھلتی تھی، جس کی استری ایک دن کے بعد غائب ہوجاتی تھی۔ دوسری منیجر صاحب کی پتلون تھی جس کی استری اتنی نکیلی ہوتی تھی جیسے تلوار کی دھار۔ ایک رمیش بابو کی پتلون تھی جو نئے فیشن کے مطابق بندوق کے کندے کی طرح سڈول اور گاؤ دم تھی، یہاں تک کہ جوتے تک پہنچتے پہنچتے چوڑی دار پاجامے کی طرح پتلی اور تنگ ہوجاتی تھی۔ اور تو اور ایک چندر اسٹینو گرافر کی پتلون بھی جو چمکیلے اور ملائم کپڑے کی تھی اور جو ہمیشہ ایسی لگتی تھی جیسے ابھی لانڈری سے ڈرائی کلین ہوکر آئی ہو۔

ایک دن منگو نے ہمت کرکے چندر سے پوچھ ہی لیا، ’’تمہاری پتلون کی استری اتنے دنوں تک اتنی کڑک کیسے رہتی ہے؟ اور چندر نے بتایا کہ ایک نیا کپڑا ایجاد ہوا ہے جسے ٹیری لین کہتے ہیں، جسے گھر میں دھوسکتے ہیں، لانڈری بھیجنے کی کوئی ضرورت نہیں اور جس کی پتلون بغیر استری کیے بھی ایسی لگتی ہے جیسے ابھی ابھی دھوبی نے استری کرکے دی ہو۔ اور پھر اپنے دفتر سے چرچ گیٹ ریلوے اسٹیشن تک پیدل جاتے ہوئے منگو حسب معمول راستے کی دکانوں میں سجے ہوئے سامان کو دیکھتا ہوا جارہا تھا کہ اس کی ملاقات ’’صاحب‘‘ سے ہوگئی۔ اور اس کو معلوم ہوا کہ ٹیری لین کی پتلون اسی روپے میں مل سکتی ہے۔

اس وقت تک منگو نے کسی لڑکی سے محبت نہیں کی تھی لیکن اس نے سنا تھا کہ جب کسی کو کسی سے محبت ہوتی ہے تو سوتے جاگتے ہر وقت اسی کے بارے میں سوچتا ہے۔ تو پھر ضرور اسے بھی اس ٹیری لین کی پتلون سے محبت ہی ہوگئی ہوگی۔ ورنہ یہ کیا کہ رات کو سوتے ہوئے خواب میں بھی اسے وہی دکھائی دیتی۔ کبھی وہ دیکھتا کہ ایک لق و دق میدان ہے جہاں ٹیری لین کی پتلون بن دھڑ کے آدمی کی طرح بھاگی چلی جارہی ہے اور وہ اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ کبھی وہ پتلون ایک نیلے پروں والے پرندے کی طرح پھڑپھڑاتی ہوئی ہوا میں اڑجاتی اور منگو اسے حسرت سے دیکھتا ہی رہ جاتا۔ کبھی پتلون ایک نخریلی لڑکی کی طرح منگو کو اپنی طرف بلاتی مگر جب وہ اس کے پاس جاکر اسے چھونے کی کوشش کرتا وہ ایک طرح چھلانگیں لگاتی ہوئی دور بھاگ جاتی اور سپنے کے زمین آسمان منگو پر ہنسنے لگتے۔

اور پھر اس کی آنکھ کھل جاتی اور وہ لیٹا سوچتا رہتا کہ کہیں وہ پتلون بک تو نہیں گئی۔ اور سو وقت سے پہلے ہی وہ دفتر کے لیے روانہ ہوجاتا۔ مگر جب وہ درزی کی دکان کے سامنے پہنچتا تو وہ دیکھتا کہ صاحب وہاں اسی طرح کھڑا اپنی کانچ کی نیلی نیلی آنکھوں سے اسے دیکھ کر مسکرا رہا ہے۔ اس کے سر پر وہی ہیٹ ہے۔ اس کے بدن پر وہی چار خانے کا کوٹ اور وہی نیلی چمکیلی ٹیری لین کی پتلون ہے اور پتلون پر وہی پرچی لگی ہوئی ہے جس پر لکھا ہے، ’’ٹیری لین کی پتلون۔ قیمت اسی روپے۔‘‘

اسی روپے! منگو نے سنا تھا کہ ان کے دفتر کا بڑا منیجر ایک دن میں اسی روپے کی شراب پی جاتا ہے۔ اسسٹنٹ منیجر مہینے میں اسی روپے کی سگریٹ پھونک دیتا ہے مگر منگو کو تو مہنگائی الاؤنس ملا کر کل ملتے ہی تھے اسی روپے۔ اس میں سے وہ بیس روپے مہینہ اس کھولی میں رہنے کا دیتا تھا جہاں وہ اور رلدو اور ان جیسے دو اور زمین پر سوتے تھے۔ چال پرانی تھی۔ ایسا لگتا تھا اگلی برسات میں گر جائے گی۔ کھولی اندھیری تھی۔ اتنی چھوٹی تھی کہ چار آدمی جب سوتے تھے تو اس طرح کہ ایک کی ٹانگیں دوسرے کے سر سے ٹکراتی تھیں۔ مگر کنوئیں سے پانی بھر کے لانا نہیں پڑتاتھا۔ کھولی کے ایک کونے میں موری تھی جہاں پانی کا نل لگاہوا تھا۔

برآمدے کے پرلے کنارے پر دو پاخانے تھے۔ ان کی صفائی کے لیے ہریجن بھنگی ٹوکرا جھاڑو لیے نہیں آتے تھے۔ پانی کی ٹنکی لگی تھی اور اس میں ایک زنجیر۔ زنجیر کھینچتے ہی پانی کا ایک ریلا آتا تھا اور گندگی کو بہاکر لے جاتا تھا اور منگو کو ایسا لگتا تھا کہ وہ پانی کا ریلا ساتھ میں اس گندگی کو بہالے جاتا ہے جو منگو کی ساری جاتی پر ہزاروں برس سے لگی ہوئی تھی۔ اور سو اس کو چال میں صرف سونے کی جگہ کے بیس روپے مہینہ دینا منظور تھا مگر دس روپے مہینہ پر کسی جھونپڑی میں رہنا منظور نہیں تھا کیونکہ وہاں پاخانے میں پانی کی ٹنکی اور زنجیر لگی ہوئی نہیں تھی۔

سو اسی روپے میں سے بیس روپے کرایے کے دیتا، ساڑھے سات روپے مہینے کا اس کا ریلوے پاس تھا، ڈیڑھ روپیہ روز کھانے پر بھی لگتا تھا۔ مشکل سے اتنا بچتا تھا کہ وہ مہینے میں ایک بار کوئی فلم دیکھ سکے۔ اب اسی روپے کی ٹیری لین کی پتلون خریدے تو کیسے خریدے؟ سو اس نے پگار ملتے ہی سیونگ بینک میں حساب کھول لیا اور فیصلہ کرلیا کہ ہر مہینے بیس روپے بچاکر اس میں ضرور ڈالے گا۔ سینما جانا اس نے بالکل بند کردیا۔ دوپہر کے کھانے کی بجائے کبھی دو کیلے، کبھی ڈبل روٹی کھاکر ایک پیالی چائے پی لیتا۔ دفتر سے کہیں کام پر جانے کے لیے بس کا کرایہ ملتا تو وہ پیدل جاتا آتا اور کرایے کے پیسے بچاکر سیونگ بینک میں ڈال دیتا۔

ابھی بینک میں ساٹھ روپے ہی جمع ہوئے تھے کہ ٹیری لین کی پتلون خریدنا اور بھی ضروری ہوگیا۔ ان کے دفتر میں ایک نئی اسٹینو گرافر آئی تھی مس کملا راٹھور، جو منگو کو بہت اچھی لگتی تھی۔ دبلی پتلی سانولی مگر اس کی آنکھیں بڑی بڑی اور بہت خوبصورت تھیں اور اس کے سینے پر پڑی ہوئی دوچوٹیاں (جن میں کبھی گلابی کبھی نیلے ربن بندھے ہوتے تھے) منگوکو بہت اچھی لگتی تھیں۔ کملا کی پتلی لمبی انگلیوں میں جادو تھا۔ وہ ٹائپ رائٹر پر بجلی کی رفتار سے چلتی تھیں۔ منگو جب بھی کام سے خالی ہوتا وہ اپنے اسٹول پربیٹھا کملا کو ٹائپ کرتے دیکھا کرتا تھا۔ اس کا اسٹول جس کونے میں تھا، وہ کملا کی ٹیبل سے دور نہیں تھا لیکن پھر بھی ہر روز منگو اس کو دوچار انچ اور سرکایتا تھا۔ یہاں تک کہ اب وہ اپنی جگہ پر بیٹھا بیٹھا نہ صرف کملا کو دیکھ سکتا تھا بلکہ اس کی بھینی بھینی خوشبو کو بھی سونگھ سکتا تھا، جس میں لکس ٹائلٹ سوپ اور کوئی پاؤڈر کے علاوہ جوانی کے پسینے کی سوگندھ بھی شامل تھی۔

ایک دن کملا نے ٹائپ رائٹر کی مشین میں سے کاغذ نکالتے ہوئے گھنٹی بجائی تو منگو لپک کر اٹھا، ’’یہ چٹھی اندر صاحب کو دے دو۔‘‘ کملا نے کاغذ پکڑاتے ہوئے منگو سے کہا، کاغذ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں گئے تو ان کی انگلیاں چھوگئیں اور منگو کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے سارے بدن میں بجلی کا کرنٹ دوڑ گیا ہو۔

دفتر میں ایک بوڑھا ہیڈ چپراسی تھا، جو حولدار کہلاتا تھا، ایک دن اس نے منگو کو الگ لے جاکر کہا، ’’بیٹا منگت۔ یہ تیری نجر کدھر پھسل رہی ہے بیٹا؟ تجھ سے عمر میں کم سے کم چھ برس بڑی ہے۔‘‘ منگت نے سوچا، یہ بڈھا جوانی سے جلتا ہے۔ مجھے تو کملا اتنی بڑی نہیں لگتی۔ مجھ سے بڑی ہوتی تو اس کو دیکھ کر میرا دل کیوں دھڑ دھڑ کرنے لگتا ہے؟

پھر ایک دن جب دفتر کے سب لوگ لنچ کی چھٹی میں آس پاس کے چھوٹے موٹے ہوٹلوں میں گئے ہوئے تھے کہ منگو نے دیکھا کملا اپنی میز پر ہی بیٹھی ایک کاغذ کے پیکٹ میں سے پوری بھاجی کھا رہی ہے۔ منگو اپنے اسٹول پر ہی بیٹھا ڈبل روٹی اور کیلے کھا رہا تھا۔ اس نے کملا کی طرف دیکھ کر کہا، ’’کیوں جی آپ کھانا گھر سے لاتی ہیں؟‘‘

کملا نے کھاتے کھاتے سر کے اشارے سے ہاں کہا۔

’’یہ کیلا کھائیں گی؟‘‘

کملا پہلے تو ہچکچائی پھر مسکراکر اس نے کیلا لے لیا۔

’’تم پوری کھاؤگے؟‘‘

’’کھالوں گا جی۔۔۔‘‘

دو پوریوں پربھاجی رکھتے ہوئے کملا نے پوچھا، ’’چھوت چھات کا خیال تو نہیں ہے؟‘‘ اور جب منگو نے سرہلاکرنہیں کہا تو کملا بولی، ’’کون جات ہو؟‘‘ اس سوال کے لیے تو منگو تیار ہی رہتا تھا۔ کھٹ سے اس نے جواب دیا، ’’راجپوت۔‘‘

’’بہت اچھا۔۔۔‘‘ کملا نے جواب دیا، ’’ہم بھی راجپوت ہیں۔ لو پوری کھاؤ۔‘‘

ابھی کملا سے منگو کی بات چیت کا سلسلہ شروع ہی ہوا تھا کہ ایک دن اتوار کو رلدو منگوکو جوہو لے گیا۔ ’’جوہو بڑی خوبصورت جگہ ہے۔‘‘ رلدو نے کہا، ’’اور پھر وہاں میرے سگے والے رہتے ہیں۔ کھانا بھی وہیں کھائیں گے۔‘‘

منگوکو اتنے مہینے بمبئی رہتے ہوگئے تھے لیکن اس نے اب تک جوہو کی سیر نہیں کی تھی۔ دیکھا تو خوش ہوگیا۔ سمندر کاکنارہ۔ نرم نرم ریت۔ اونچے اونچے ناریل کے پیڑ۔ بھیل پوری والوں کی دکانیں۔ رنگین ساڑیاں، شلوار قمیص والیوں کے ہوا میں لہراتے ہوئے دوپٹے۔ منگو نے سوچا ایک دن کملا کو جو ہو کی سیر کرانی چاہیے۔

جوہو ہوٹل اور سن اینڈ سینڈ ہوٹل کے سامنے سے گزرتے ہوئے وہ سمندر کے کنارے کنارے جارہے تھے کہ ناریلوں کے جھنڈ میں ایک دو منزل کی بلڈنگ نظر آئی۔ رلدو نے کہا، ’’وہاں ہمارے سگے والے رہتے ہیں۔‘‘ پہلے تو منگو نے سوچا، رُلدو کے سگے والے رہتے توہیں بڑی خوبصورت جگہ۔ بلڈنگ بھی پکی تھی اور ان کی چال کی طرح پرانی اور بوسیدہ نہیں تھی۔ مگر باہر ناریلوں کے جھنڈ میں تین بڑی بڑی موٹر ٹرکیں کھڑی تھیں۔ دو بند اور ایک کھلی ہوئی مگر تینوں میں سے بڑی بدبو آرہی تھی جیسے دنیا بھر کی گندگی ان ٹرکوں میں بھری ہوئی ہو۔ جب وہ ان کے پاس سے گزرے تو منگو نے دیکھا کہ کھلی ہوئی ٹرک گندے بدبودار کچرے سے بھری ہوئی ہے۔ ایک کالا سا دبلا سا آدمی میلا سا اوور آل پہنے اس کے پاس کھڑا ہوا بیڑی پی رہا ہے۔

منگو نے پوچھا، ’’یہاں کون رہتا ہے؟‘‘

رلدو نے کہا، ’’یہاں ہم رہتے ہیں۔‘‘

یہ بلڈنگ میونسپل کارپوریشن کی بنائی ہوئی تھی۔ پکی بلڈنگ ناریلوں کے جھنڈ میں سمندر کے کنارے بڑی خوبصورت جگہ۔ منگو کو رلدو نے بتایا کہ’’یہاں میونسپلٹی کے محکمہ صفائی کے مزدور رہتے ہیں یعنی بھنگی۔ ہمارے تمہارے جیسے ہریجن۔‘‘

’’مگر۔۔۔‘‘ منگو نے حیرت سے پوچھا، ’’اب تو صفائی کا کام مشینوں سے ہوتا ہے، ہر گھر کے پاخانے میں گندگی بہانے کو پانی کی ٹنکی اور زنجیر لگی ہے۔ اب تو یہ کام کوئی بھی کرسکتا ہے؟‘‘

رلدو نے منگو کو ایسے دیکھا جیسے وہ اسے پاگل سمجھتا ہو۔ ’’منگو۔ یہ کام ہمارے سوا اور کوئی نہیں کرسکتا۔ گندے گٹروں کے اندر ہمارے سوا اور کون گھسے گا، سڑک کے کنارے پڑے مرے ہوئے چوہے کون اٹھائے گا۔ جھاڑو کون دے گا، سارے شہر کے کوڑے کے ڈھیروں کو ٹرکوں میں ڈال کر کوڑی پر کون ڈالنے جائے گا۔۔۔ سوائے ان کے جن کے باپ دادا نے سیکڑوں برس سے یہی کام کیا ہے۔‘‘

منگو نے کہا، ’’پھر تو ہم وہیں کے وہیں ہیں۔ سوائے اس کے کہ پہلے کوڑے کرکٹ کو ٹوکروں میں اٹھاتے تھے، اب ٹرک میں بھر کر لے جاتے ہیں۔‘‘ رلدو نے کہا، ’’منگو بیٹا۔ یہ بھی کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ تو نے کبھی کوڑے کا ٹوکرا نہیں اٹھایا، اس لیے تو نہیں جانتا ٹرک چلانا کتنی بڑی بات ہے۔‘‘

اتنی دیر میں وہ دبلا سا سوکھا سا آدمی جو میلا اوور آل پہنے کھڑا تھا، اس نے اپنی بیڑی زمین پر پھینکی۔ کود کر ٹرک میں چڑھا، دھڑ سے دروازہ بند کیا اور بڑے زور سے انجن کو اسٹارٹ کیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ گندگی سے بھرے ٹرک پر نہیں، راجہ جی کے ہاتھی پر بیٹھا ہو۔

اب وہ بلڈنگ کے زینے پر چڑھ رہے تھے۔ منگو نے سوچا، ہے یہ بھی بھنگیوں کی بستی مگر ہماری حصار والی جھونپڑیوں سے تو بہتر ہے۔ چھوٹے چھوٹے مگر صاف ستھرے کمرے تھے۔ رلدو نے بتایا میونسپلٹی کرایہ بھی بہت کم لیتی ہے۔ صرف چھ روپے مہینہ۔ برآمدے میں رہنے والوں نے رسی سے لٹکے ہوئے گملوں میں پھول کھلا رکھے تھے۔ پھول شاید خوشبودار بھی تھے مگر نیچے کھڑے ہوئے ٹرک کی پھیلی ہوئی بدبو میں ان پھولوں کی خوشبو دبی ہوئی تھی۔

رلدو نے منگو کو اپنے سگے والے سے ملایا۔ منسارام کو دیکھ کر منگو کو اپنا باپ یاد آگیا۔ چہرے پر ایسے ہی زندگی بھر کی محنت کی گہری لکیریں پڑی ہوئی تھیں۔ اسی طرح بڑھاپے سے کمر جھکی ہوئی تھیں۔ منسا رام ایک کمرے میں اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔ بیوی بازار گئی ہوئی تھی۔ بیٹی کونے میں بیٹھی ہوئی اسکول کاسبق یاد کر رہی تھی۔ ’’اری او منگتی۔ ادھر آ۔ مہمان آئے ہیں چائے بنالے۔‘‘ لڑکی اپنی جگہ سے اٹھی تو منگو نے دیکھا پندرہ سولہ برس کی سانولی سی لڑکی ہے۔ گھر کا دھلا ہوا اسکول کی یونیفارم کا نیلا فراک پہنے ہوئے وہ بالکل بچی لگتی تھی۔

’’اری رلدو کا کا کو تو پہچانتی ہے نا او ریہ منگو بھی اپنے حصار کا ہی ہے، اپنی برادری کا۔‘‘ منگتی نے دونوں کو ہاتھ جوڑ کر نمسکار کیا اور منگو کی ہمت نہیں ہوئی کہ منسا رام سے کہے، ’’بمبئی میں میرا نام منگو نہیں ہے، منگت سنگھ ہے۔‘‘ کیونکہ پھریہ بھی کہنا پڑتا، ’’میں تمہاری برادری سے نہیں ہوں منسارام جی۔‘‘

منگتی چائے بنانے کے لیے تیل کا چولھا جلا رہی تھی اور منسا رام بیٹی کی تعریف کیے جارہا تھا، ’’چھٹی کلاس میں پڑھتی ہے۔ بڑی ہوشیار ہے۔ سب کے خط پتر یہی پڑھ کر سناتی ہے۔ ہندی کی کتنی ہی کویتائیں تو منہ زبانی یاد ہیں۔ گھر کے کام کاج میں بھی ماں کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ اسکول کی ماسٹرنی تو کہتی ہے اسے میٹرک تک پڑھاؤ مگر رلدو بھیا تو ہی بتا چھوکری اتنا پڑھ لکھ کر کیا کرے گی۔ اس کی ماں تو کہتی ہے اب کی دیوالی پر اس کے ہاتھ پیلے کردوں۔‘‘ اور یہ کہہ کر نہ جانے کیوں منسا رام نے منگو کی طرف دیکھا اور منگو نے منگتی کی طرف اور منگتی کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چائے کی پیالیاں آپ سے آپ کھنکنے لگیں اور پیالی منگو کو پکڑاتے ہی وہ بھاگ گئی۔

واپسی میں وہ بس اسٹینڈ پرپہنچے تو دیکھا بڑا لمباکیو لگا ہوا ہے۔ اتوار کے دن جوہو پر بڑی بھیڑ ہوتی ہے او رشام ہوتے ہی سب شہر لوٹنے کی سوچتے ہیں۔ منگو نے کہا، ’’رلدو کاکا۔ آج تو پھنس گئے۔ کم سے کم تین بسوں کے بعد اپنا نمبر آئے گا۔‘‘

اتنے میں بدبو کے ایک بھپکے کے ساتھ ایک کچرے کی ٹرک آکر بس اسٹینڈ کے سامنے کھڑی ہوگئی، جس کو دیکھتے ہی کتنے ہی آدمیوں نے اپنی ناک بند کرلی۔ ایک میم صاحب نے سینٹ لگارومال اپنی ناک کے آگے ہلانا شروع کردیا۔

’’ارے ڈرائیور۔ یہ کچرا گاڑی یہاں سے ہٹاؤ۔‘‘

ڈرائیور جو ایک ہٹا کٹا جوان تھا اور اوور آل کو اس شان سے پہنے تھا، جیسے وہ ملٹری کی یونیفارم ہو، اپنے دانت چمکاتے ہوئے بولا، ’’ارے تو اس کچرے کے ڈھیر کو تمہارا باپ اٹھائے گا یہاں سے؟‘‘ اور جب تک کچرا ٹرک میں نہیں بھرا گیا، وہ ٹرک وہیں کھڑی رہی او رمیم صاحب کی ناک کے سامنے سینٹ بھرا رومال جھولتا رہا، یہاں تک کہ سینٹ ہوا میں اڑگیا اور صرف کچرے کی بو رہ گئی۔ ٹرک اسٹارٹ کرتے ہوئے ڈرائیور نے رلدو سے پوچھا، ’’کیوں کاکا کہو تو پریل تک چھوڑدوں؟‘‘

رلدو نے منگو کی طرف دیکھا۔ منگو نے لمبے کیو کو دیکھا، پھر وہ دونوں ٹرک ڈرائیور کے برابر بیٹھ گئے۔ ٹرک روانہ ہوگئی اور تب میم صاحب، رومال بیگ میں واپس رکھتے ہوئے بولیں، ’’ان بھنگی لوگوں کا بھی کتنادماگ ہوگیا ہے!‘‘

اگلے دن منگو دفتر جانے سے پہلے خوب صابن سے رگڑ کر نہایا، پھر دھوبی کے دھلے کپڑے پہنے، مگر پھر بھی جب دفتر میں پہنچا اور کملا نے اس کی طرف مسکراکر دھیرے سے کہا، ’’ہیلو!‘‘ تو بڑی دیرتک وہ کملا کی ٹیبل سے دور ہی دور رہا۔ کہیں اب تک اس میں کچرا گاڑی کی بو تونہیں سمائی ہوئی اور دل ہی دل میں سوچتا رہا، ’’اگر کبھی کملا نے وہ بدبو سونگھ لی تو پھر کبھی مجھ سے مسکراکر بات نہیں کرے گی۔‘‘

چند روز کے بعد رولدو نے پوچھا، ’’کیوں منگو! منگتی کیسی لگی؟‘‘

’’کون وہ منسا رام کی چھوکری؟ ٹھیک ہی ہے!‘‘

’’منگو اور منگتی۔۔۔ تمہاری جوڑی اچھی رہے گی نا؟‘‘

منگو کو ایسا لگا جیسے اسے کسی نے گالی دی ہو۔

’’کاکا کیا بات کر رہے ہو؟‘‘

’’کیوں ہوا کیا؟ چھوکری جوان ہے۔ صورت شکل کی بری نہیں۔ چھ کلاس پڑھی بھی ہے۔۔۔‘‘

منگو کی زبان سے بے اختیار نکل گیا، ’’مگر بیٹی تو بھنگی کی ہے؟‘‘

رلدو کو پہلے تو ایسا لگا جیسے منگو نے اس کے منہ پر پتھر مارا ہوا، پھر وہ غصے کو پی کر بولا، ’’اور تو کس کا بیٹا ہے؟‘‘

’’کچھ بھی ہو کاکا۔ میں بھنگیوں میں بیاہ نہیں کروں گا۔‘‘ اور یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور کھولی سے باہر نکل گیا۔ سیڑھیوں سے اترتا ہوا چال سے باہر نکل گیا۔ نہ جانے کب تک سڑکوں پر گھومتا رہا۔ تھک کر ٹھیرا تو دیکھا شیشے کی دیوار کے پیچھے صاحب ٹیری لین کی پتلون پہنے کھڑا مسکرا رہا ہے۔ شاید اسے بلا رہا ہے، کچھ یاد دلا رہا ہے۔ منگو نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر سیونگ بینک کی کتاب نکالی۔ اب اس کے حساب سے پچھتر روپے جمع ہوچکے تھے۔ اس نے سوچا، ’’صرف پانچ روپے کی کسر ہے۔‘‘

دوپہرکو دفتر کی سب میزیں خالی پڑی تھیں۔ صرف کملا اپنی جگہ بیٹھی تھی۔ منگو دفتر کی کینٹین سے چائے پی کر آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک پیالی تھی، جو اس نے کملا کے سا منے رکھ دی۔

’’تھینک یو!‘‘ کہہ کر کملا چائے پینے لگی تو منگو نے ایک اخبار جیب سے نکالا اور کملا کی طرف دیکھے بغیر ہی بولا، ’’نازمین آؤپیار کریں، لگی ہے۔‘‘

’’سنا ہے اچھی مزیدار فلم ہے۔‘‘

’’اس اتوار کو دیکھنے چلوگی؟‘‘

’’پتاجی سے پوچھنا ہوگا۔ اگر انہوں نے ہاں کہی تو جاسکتی ہوں۔‘‘

’’پھر بھی پوچھ کر کل بتانا۔‘‘

اگلے دن کملا نے منگو سے کہا، ’’اتوار کو میرے گھر آنا ہوگا۔‘‘

’’اورفلم دیکھنے نہیں چلوگی؟‘‘

’’پہلے پتاجی تم سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘

’’تومیں ساڑھے چار بجے آجاؤں گا۔ تمہارے پتاجی سے آگیا لے کر چھ بجے سینما پہنچ سکتے ہیں۔‘‘

اگلے دن منگو نے بینک سے پچھتر روپے نکال لیے۔ پندرہ روپے دفتر کے کیشیر سے اڈوانس لیے۔

کام ختم ہوتے ہی وہ چرچ گیٹ اسٹریٹ کی طرف بھاگا۔ شیشے کی دیوار کے پیچھے کھڑا صاحب اپنی نیلی نیلی کانچ کی آنکھوں سے اب بھی گھور رہا تھالیکن آج ان کے درمیان یہ شیشے کی دیوار نہیں رہے گی۔ منگو نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کرارے نوٹوں کو چھوکر اطمینان کیا اور پھر دکان میں داخل ہوگیا۔

’’مجھے ٹیری لین کی پتلون چاہیے۔‘‘

’’کپڑا پسند کرلیجیے۔‘‘

’’بس وہ چاہیے۔ ریڈی میڈ۔ جو صاحب پہنے ہوئے ہے۔‘‘

’’صاحب۔۔۔ اوہ وہ ڈمی کو جو پہنائی ہوئی ہے۔ میں ابھی لاتا ہوں۔ آپ فٹنگ روم میں جائیے۔ ٹرائی کرلیجیے۔‘‘

درزی پتلون لے آیا۔ پہننے سے پہلے منگو نے کپڑے کو چھوکر دیکھا۔ سچ مچ بڑا ملائم تھا۔ اپنی خاکی کی ڈبل زین کی پتلون اتار کر اس نے نئی پتلون پہن کر دیکھی۔ بالکل فٹ۔ جیسے ٹچ۔ جیسے زِپ۔ ویسے ہی فٹ!

جیبوں میں ہاتھ ڈالا تو چکنی سلک کے استر پر ہاتھ پھسل گئے۔ واہ وا! اس نے سوچا۔ کیا پتلون ہے۔ درزی نے کہا، ’’صاحب۔ آئینے میں دیکھ لیجیے۔ ایسالگتا ہے آپ کے لیے ہی سلی ہے۔‘‘

منگو نے آئینہ دیکھا تو وہاں حصار کے بھنگی واڑے والے منگو کی بجائے ایک کالے بالوں، سانولی رنگت کا صاحب کھڑا تھا، جس کی ٹانگوں میں نیلی ٹیری لین کی پتلون تھی۔ پتلون پر کاغذ کی پرچی لگی ہوئی تھی۔ ٹیری لین کی پتلون کی قیمت اسی روپے۔ اس نے سوچا اب مجھ میں اور صاحب میں فرق بھی کیا ہے؟

اس نے درزی سے کہا، ’’یہ لیجیے اسی روپے اور پتلون کو کاغذ میں لپیٹ دیجیے۔‘‘

کاغذ کے تھیلے میں ٹیری لین کی پتلون لیے منگو باہر نکلا تو اسے ایسا لگا اتنی دیر میں دنیا بدل گئی ہے۔ وہی چرچ گیٹ اسٹریٹ ہے مگر آج چہل پہل ہی الگ ہے۔ ہر آدمی خوش دکھائی دیا۔ ہر عورت خوبصورت۔ فلورا فاؤنٹن کے فوارے چل رہے تھے۔ دور سمندر کی طرف آسمان پر رنگ برنگے بادل چھائے ہوئے تھے اور سڑکوں کی نیلی نیلی روشنیاں ایک ایک کرکے جلتی جارہی تھیں۔ اب وہ خود بھی بدل گیا تھا۔ اب نہ وہ ایک بھنگی کا چھوکرا تھا، جس کو اسکول میں سب سے الگ ٹاٹ پر بیٹھنا پڑتا تھا، نہ وہ ماڈرن سوپ کمپنی لمیٹڈ کے ہیڈ آفس کا آفس بوائے یعنی چپراسی تھا۔ اب وہ مسٹر منگت سنگھ تھا، جس کے ہاتھ میں ایک بڑا موٹے کاغذ کا تھیلہ تھا، جس پر ایک بہت بڑی درزی کی دکان کانام اور پتا چھپا ہوا تھا اور اس کاغذ کے تھیلے میں ایک ٹیری لین کی پتلون تھی۔

اس رات کو منگو کو کتنی ہی دیر نیند نہ آئی۔ وہ لیٹا لیٹا اپنی ٹیری لین کی پتلون کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس کے ساتھ شرٹ بھی بڑھیا ہونی چاہیے اور جوتا بھی نیا ہو تو اچھا ہے۔ پھر وہ یہ سب پہن کر کملا کے گھر جائے گا۔ اس کے پتا سے ملے گا تو وہ بھی اس کے کپڑے دیکھ کر مان جائیں گے لڑکا ضرورکسی بڑے اونچے گھرانے کا ہے۔ فوراً بیٹی کو اس کے ساتھ سینما جانے کی اجازت دے دیں گے۔ پہلے دوچا رمہینے وہ دونوں سینما یا شام کو سیر کو اکٹھے جایا کریں گے پھرایک دن سارا اتوار جوہو پر گزاریں گے۔ سمندر کی لہروں میں ڈبکیاں لگائیں گے، ناریل پانی پئیں گے اور مسالے دار چاٹ کھائیں گے اور شام کو جوہو ہوٹل یا سن اینڈ سینڈ میں چائے پئیں گے۔ پھر ٹیکسی لے کر واپس ہوں گے اور راستے میں منگو کملا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہے گا، ’’کملا کیا تم میری۔۔۔؟

مگر اس وقت تک وہ سوچکا تھا اور خواب میں دیکھ رہا تھا کہ اس کی ٹیری لین کی پتلون ایک نیلے رنگ کا ہوائی جہاز بن گئی ہے اور وہ اس پر سوار ہوکر نیلے آسمان میں اڑتا ہوا کملا کے گھر کی طرف جارہا ہے۔۔۔

اتوار کو ٹھیک ساڑھے چار بجے اپنے نئے بوٹ چرمراتا ہوا منگو کملا کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گیا۔ دروازے پر کملا کے پتا کے نام کی تختی اور ساتھ میں گھنٹی بھی لگی تھی۔ کملا کے پتاجی نے خود دروازہ کھولا تو دیکھا، ایک کسی قدر گھبرایا ہوا سا مگر اچھی صورت شکل کا بڑے صاف ستھرے کپڑے پہنے نوجوان باہر کھڑا ہے۔

’’جی وہ مجھے مس کملا نے۔۔۔‘‘

’’آؤ بھئی آؤ اندر آؤ۔ کملا تیار ہو رہی ہے۔ تم ادھر بیٹھو۔‘‘

چھوٹی سی فلیٹ تھی اور اس کا چھوٹا سا ڈرائنگ روم تھا۔ وہیں کملا کے پتا نے منگو کو بٹھایا۔ منگو اپنی نئی ٹیری لین کی پتلون کی سلوٹ کو سنبھالتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گیا۔ کملا کے پتاجی غور سے اس کے منہ کو دیکھ رہے تھے اور منگو سوچ رہا تھا، یہ بڑے میاں میری ٹیری لین کی پتلون کی طرف کیوں نہیں دیکھتے۔

’’کہو بھئی تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

’’جی۔ منگت سنگھ۔‘‘

’’سنگھ۔۔۔ تو تم بھی راجپوت ہو کیا؟‘‘

’’جی ہاں ہم راجپوت ہی ہیں۔‘‘

’’چندر بنسی یا سورج بنسی۔‘‘

منگو یہ سوال سن کر بوکھلاگیا۔ پھر بات بناتے ہوئے اس نے کہا، ’’جی یہ سب تو پتا جی کو معلوم تھا۔۔۔‘‘

’’تمہارے پتاجی گزرگئے ہیں کیا؟‘‘

’’جی۔ ایک برس ہوئے ان کا دیہانت ہوگیا۔‘‘

’’بڑا افسوس ہے۔ کیا کام کرتے تھے تمہارے پتاجی؟‘‘

منگو نے اس سوا ل کا جواب پہلے سے سوچ رکھا تھا۔ جلدی سے بولا، ’’جی وہ میونسپل کمیٹی میں نوکر تھے۔‘‘

’’تم کیا کرتے ہو؟‘‘

’’جی میں اسی دفتر میں کام کرتا ہوں جہاں کملا۔۔۔ مس کملا جی۔۔۔‘‘

’’ہاں۔ مگر کیا کام کرتے ہو؟ تم بھی سٹینو گرافر ہو؟‘‘

’’جی نہیں۔ سٹینو گرافر تو نہیں۔۔۔‘‘

’’پھر کیا۔۔۔ معمولی کلرک ہو؟‘‘ کملا کے پتاجی کی آواز میں ایک عجیب سی برفیلی ٹھنڈک بڑھتی جارہی تھی۔

’’جی نہیں کلرک بھی نہیں ہوں۔ بات یہ ہے کہ میں تو ابھی۔۔۔ آفس بوائے ہوں۔‘‘

’’آفس بوائے۔۔۔؟ یعنی چپراسی۔‘‘

’’جی یہی سمجھیے مگر ہمیں آفس بوائے ہی بولتے ہیں۔‘‘

’’پگار کیا ملتی ہے؟‘‘

’’اسی روپے۔‘‘ منگو نے جواب دیا مگر اس کا جی چاہتا تھا کہے، ’’بڑے میاں مجھے اسی روپے تنخواہ ملتی ہے تو کیا ہے۔ میرا دل کتنا بڑا ہے یہ تو دیکھو۔ میری اسی روپے کی ٹیری لین کی پتلون کو غور سے دیکھو۔ کسی بھی صاحب سے کم نہیں ہوں۔ آج اسی روپے ملتے ہیں تو کیا ہوا۔ کل دیکھو کتنی ترقی کرتا ہوں۔۔۔‘‘

’’ہوں!‘‘ کملا کے پتا نے برف سے بھی ٹھنڈی آواز میں کہا اور اٹھ کر اندر چلے گئے۔

تھوڑی دیر میں کملا اکیلی باہر آئی۔ نائلون کی نیلی ساڑھی پہنے بالوں میں نیلے ربن لگائے بڑی اچھی لگ رہی تھی۔ منگو کاجی چاہا کہے، ’’کملا! دیکھو تمہاری نیلی ساڑی اور نیلے ربن کی طرح میری ٹیری لین کی پتلون بھی نیلی ہے!‘‘ لیکن کملا کی آنکھوں کا سرمہ گالوں کے پاؤڈر پر پھیل رہا تھا اور گلابی آنکھیں بتارہی تھیں کہ ابھی ابھی رو کر آنسو پونچھے ہیں۔

’’سوری منگو۔۔۔‘‘ وہ بولی، ’’پتاجی سینما جانے کو منع کر رہے ہیں۔ تم جاؤ۔‘‘

منگو دروازے سے باہر نکل رہا تھا کہ اندر سے کچھ سن کر ٹھٹک گیا۔ اندر کملا کے ماتا پتا جھگڑ رہے تھے اور ان کی آوازیں دروازے کے باہر بھی منگو کا پیچھا کرتی رہیں۔ ماں کہہ رہی تھی، ’’مجھے تو لڑکا ٹھیک ٹھاک لگتا ہے۔ کپڑے بھی اچھے پہنے ہوئے ہے مگر تمہیں پسند ہی نہیں آتا۔ چوبیس برس کی تو ہوگئی۔ عمر بھر کنواری بٹھائے رکھوگے کیا؟‘‘ اور باپ کہہ رہا تھا، ’’کنواری بیٹھی ہے تو بیٹھی رہے۔ میں اسی روپلی پانے والے چپراسی سے تو اپنی لڑکی نہیں بیاہ سکتا!‘‘

سڑک پر نکل کر منگو نے پتلون کی ریشمی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ’’آؤ پیار کریں‘‘ کے دونوں ٹکٹ نکال کر پھاڑ ڈالے۔

ابھی وہ اسٹیشن کی طرف جانے کے لیے سڑک پر مڑا ہی تھا کہ بدبو کا بھپکا آیا اور ایک کچرے کی ٹرک پاس سے گزر گئی۔ منگو نے سوچا اس نئی ٹیری لین کی پتلون کے باوجود میرے اندر کوئی بدبو بسی ہوئی ہے کیا کہ کملا کے پتا نے اسے سونگھ کر مجھے باہر نکال دیا۔

اسٹیشن پر چائے کی دکان پر کھڑے ہوکر اس نے سامنے لگے ہوئے قد آدم آئینے میں اپنے آپ کو غور سے دیکھا۔ بالکل صاحب لگتا ہوں۔ آسمانی رنگ کی دس روپے کی شرٹ۔ اسی روپے کی ٹیری لین کی پتلون۔ مجھ میں کیا برائی نظر آئی انہیں؟

اسی روپے! اسی روپے کی پتلون! اسی روپے پگار!

جات پات کی گندگی کو تو زنجیر کھینچنے سے پانی کا ریلا بہا کر لے گیا لیکن اس روپے پگار کے کلنک کو کون سا گنگاجل دھوسکتا ہے؟ چائے پی کر پیالی واپس کرتے ہوئے اس نے سوچا۔ بمبئی میں چائے دیتے وقت کوئی جات پات نہیں پوچھتا لیکن بیٹی کو کسی چھوکرے کے ساتھ سینما بھیجنے سے پہلے جات پات بھی پوچھتے ہیں اورپگار بھی۔

اگلے اتوار کو سانتا کروز سے جوہو بس میں جاتے ہوئے منگو نے دیکھا لیڈو سینما میں بھی ’’آؤ پیار کریں‘‘ چل رہی ہے۔

منسارام نے منگو کو دیکھا تو اس کا چہرہ کھل اٹھا، ’’آؤ بیٹا۔ بڑے دنوں کے بعد آئے ہو۔ منگتی کی ماں۔ یہ اپنا منگو ہے۔ اے منگتی۔ مہمان آیا ہے ذرا چائے تو بنالے۔‘‘

’’چائے رہنے دیجیے۔ میں سینما جارہا تھا۔ سوچا آپ لوگوں سے بھی پوچھ لوں۔ چلیں گے آپ؟‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک لہراتی ہوئی نظر منگتی کی طرف ڈالی۔

’’بیٹا ہم بڈھے لوگ کیا سینما ونیما جائیں گے۔‘‘

’’یہیں جوہو کے لیڈو میں بڑی اچھی فلم چل رہی ہے۔‘‘

’’پاس میں ہی ہے تو منگتی چلی جائے گی۔ اے منگتی۔ جلدی سے کپڑے بدل لے۔‘‘

منگو کمرے سے نکل کر باہر برآمدے میں آگیا۔ اندر منگتی کے ماں باپ کھسرپسر کر رہے تھے۔

’’برادری والے کیا کہیں گے۔۔۔؟‘‘

’’اری یہ نیا جمانا ہے۔ رُلدو کہے ہے چھوکرا سریف ہے۔ پھر اپنی برادری کا ہے۔‘‘

’’اری سینما جارہی ہے تو یہ نہیں، وہ نئی والی ساڑی پہن۔‘‘

منگتی کپڑے بدل کرآئی تو منگو نے دیکھا کہ ساڑی پہنتے ہی منگتی جوان ہوگئی ہے۔ ساڑی سستی نقلی سلک کی تھی لیکن نیلی تھی اور منگتی کے گدرائے ہوئے جسم پر بڑی بھلی لگ رہی تھی۔

جوہو کی سڑک پر اور سمندر کے کنارے سیکڑوں نوجوان جوڑے چلے جارہے تھے۔ لڑکے سوٹ پہنے تھے، پتلون قمیص پہنے تھے، کرتا پاجامہ پہنے تھے۔ لڑکیاں ساڑیاں پہنے تھیں، فراک پہنے تھیں، شلوار قمیص، کرتا چوڑی دار پاجامہ پہنے تھیں۔ سب خوش تھے۔ ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے تھے۔

ان میں ایک سانولا سا نوجوان تھا، جو نیلے رنگ کی ٹیری لین کی پتلون اور نئے چرمر کرتے ہوئے جوتے پہنے تھا اور اس کے ساتھ نیلی ساڑی پہنے ایک شرمیلی سی سولہ سترہ سالہ لڑکی تھی جو بات کرتے بھی گھبرا رہی تھی۔

’’کیوں جی۔۔۔‘‘ اس نے دھیرے سے پوچھا، ’’ہم کون سی فلم دیکھنے جارہے ہیں؟‘‘

منگو نے جواب دیا، ’’آؤ پیار کریں۔‘‘

مصنف:خواجہ احمد عباس

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here