کہانی کی کہانی:’’دولت اور شہرت کو کنبے اور رشتوں سے زیادہ اہمیت دینے والی ایک ایسی عورت کی کہانی، جس کی شادی ایک تاجر سے ہو جاتی ہے۔ شادی کے بعد بھی وہ اپنی زندگی میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نہیں کرتی۔ اس کا شوہر تجارت کے سلسلے میں ودیش چلا جاتا ہے تبھی اس کی زندگی میں ایک بگڑا ہوا امیرزادہ آ تا ہے، جو اس کی زندگی کو موت کے دہانے تک لے جاتا ہے۔‘‘
ضرورت ہے،
’’ایک تعلیم یافتہ، سلیقہ مند، خوشرو نوجوان لڑکی کے لیے ایک شوہر کی جو تمام مردانہ خصوصیات تعلیم کے ساتھ کم از کم پانچ سو روپیہ ماہوار کی آمدنی کا مالک اور حسنِ ظاہری کے ساتھ ادبی ذوق بھی رکھتا ہو۔ تصویریں مطلوب ہیں۔‘‘
ہرچند رشید اشتہاری شادی کا موافق نہ تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ اس طرح شوہر کی تلاش کرنا گویا لڑکی کو نیلام میں رکھ دینا ہے، یا پھر اپنے آپ کو سخت امتحان میں مبتلا کر دینا، اس لیے جب اس نے ایک اخبار میں یہ اشتہار دیکھا تو تھوڑی دیر کے لیے اس نے خیالی لذت تو ضرور حاصل کر لی، لیکن کوئی خلش اپنے دل میں پیدا نہیں کی۔ اخبار دیکھ کر وہیں میز پر رکھ دیا اور اپنے کاروبار کے کاغذات دیکھنے میں مصروف ہو گیا۔
رشید نہ صرف ’’تعلیم‘‘ کے تازہ ترین مفہوم کے لحاظ سے ’’تعلیم یافتہ‘‘ تھا بلکہ ا پنے اخلاق و آداب کے اعتبار سے بھی وہ ایک بلند سیرت کا انسان تھا۔ کالج سے نکلنے کے بعد اس کے والد نے بہت کوشش کی کہ سرکاری ملازمت اختیار کرے لیکن اس نے ہمیشہ اس خواہش کو رد کر دیا اور آخر کار ایک مختصر سرمایہ سے اس نے ’’میل آرڈر بزنس‘‘ دہلی میں شروع کر دیا۔
اول اول اسے سخت تکلیف اٹھانی پڑیں اور احباب و اعزہ نے بھی ہمت شکنی میں کوئی دقیقہ کوشش کا نہ اٹھا رکھا، لیکن چونکہ وہ ایک راسخ عزم اور پکے ارادہ کا آدمی تھا، اس لئے اس نے مطلق کسی کی پرواہ نہیں کی اور تین سال کے اندر اس نے ہندوستان کے بڑے بڑے تاجروں میں رسوخ پیدا کرکے اپنا ایسا اعتبار قایم کر لیا کہ دہلی و جوار دہلی کی تمام مصنوعات اور اکثر پیداوار اسی کے ذریعہ سے منگائی جانے لگی اور چوتھے سال چاندنی چوک میں اپنا باقاعدہ دفتر قایم کرکے اس نے کاروبار کو زیادہ وسعت دے دی۔
اس اثنا میں اس کے والدین نے بارہا شادی کی بھی کوشش کی، لیکن اس نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ جب تک میں اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہو سکوں، اس بار کو اپنے سر پر نہیں لے سکتا، اب چونکہ اس کی آمدنی ایک ہزار روپیہ ماہوار ہو گئی تھی اور وہ اس بار کو اٹھانے کے قابل ہو گیا تھا، اس لیے اس کو بھی شادی کا خیال پیدا ہوا اور مختلف مقامات سے یہ خواہش اس کے سامنے پیش کی گئی۔
شادی کے متعلق وہ نہایت سادہ خیالات رکھتا تھا اس کے نزدیک بیوی کا مفہوم ایک ایسے انس و ہمدم کا تھا جو بہرا بھی ہو اور اندھا بھی، اس کی ساری دنیا صرف شوہر کی ذات ہو اور اس کے جملہ مشاغل کا تنہا شوہر کے اسباب آسائش کی فراہمی حسن ظاہری کے لحاظ سے چونکہ وہ خود بھی اپنے آپ کو حسین نہ سمجھتا تا، اس لیے حسین عورت کی تمنا بھی نہ کرتا تھا۔ ایک بے عیب چہرہ، صحیح و توانا جسم، محنتی اعضا، محبت کرنے والا دل اور غور کرنے والا دماغ، صرف یہ خصوصیات تھیں جنھیں وہ اپنی بیوی میں دیکھنا چاہتا تھا۔ جاہل عورت اسے پسند نہ تھی خواہ وہ تعلیم یافتہ ہی کیوں نہ ہو اور ایسی تعلیم سے وہ نفرت کرتا تھا جو صحیح تربیت سے معرا ہو۔
اس کی عمر اس وقت ۲۸ سال کی ہو چکی تھی اور اس کے تمام قواء پختہ ہوکر اس بات کے طلب گار تھے کہ کوئی شریک انھیں میسر آئے، لیکن اول تو رشید کا انہماک زیادہ اس پر غور کرنے کا موقع ہی نہ دیتا تھا اور اگر کبھی رات کی تنہائیوں میں وہ اس پر غور کرتا تو سخت الجھن میں مبتلا ہو جاتا کیونکہ اس کے خاندان میں کوئی لڑکی اس قابل نہ تھی کہ وہ اپنی قسمت اس کے ساتھ وابستہ کر دیتا۔ یوں تو حسن و تعلیم کے لحاظ سے متعدد لڑکیاں قابل انتخاب نظر آتی تھیں، لیکن ان کی ذہنیت کو وہ اپنے ذوق کے منافی پاتا تھا۔ جو لڑکیاں حسین تھیں مشکل یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو حسین سمجھتی تھیں اور اس پر بےحد مغرور،جو تعلیم یافتہ تھیں وہ یکسر حسن تربیت سے معرا نظر آتی تھیں اور حقوق شوہر کے خیال سے غافل۔ اس میں شک نہیں کہ وہ حسن کا قدر شناس تھا، لیکن مشکل یہ تھی کہ غرور حسن کے سامنے اپنی فتادگیاں پیش کرنے کی فرصت اس کے پاس نہ تھی، وہ تعلیم کو پسند کرتا تھا، لیکن خرابی یہ تھی کہ وہ ایک حد تک عورت کو اپنا پابند دیکھنا چاہتا تھا اور ہر تعلیم یافتہ عورت اس خیال سے منحرف نظر آتی تھی۔ الغرض جس زمانہ میں اس نے یہ اشتہار دیکھا، تو اسی الجھن میں گرفتار تھا اور بعض اوقات پر یشان ہوکر چاہتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح اس جھگڑے کو ختم کر دینا چاہیے، تاکہ یہ خلش دور ہو جائے اور وہ زیادہ انہماک و اطمینان کے ساتھ اپنے تجارتی مشاغل میں لگ جائے۔
شام کا وقت تھا اور دوستوں سے اس مسئلہ میں گفتگو ہو رہی تھی، عزیز چونکہ حال ہی میں ولایت سے واپس آیا تھا اس لیے وہ تعلیم نسواں اور آزادی نسواں کا بہت حامی تھا اور نصیر کی پرورش چونکہ بالکل قدیم خیال کے ماتحت ہوئی تھی اس لیے وہ سرے سے عورتوں کی تعلیم ہی کا مخالف تھا، رہی آزادی سو اس کے متعلق وہ اس قدر سخت تھا کہ اگر کبھی اس کی بیوی کی آواز بھی بلند ہوکر دہلیز تک پہنچ گئی تو اس نے ایک ایک ہفتہ تک اس سے بات نہیں کی۔
رشید چونکہ دونوں سے علیحدہ ایک معتدل حالت کا طرف دار تھا، اس لیے کبھی وہ عزیز کی طرف بولنے لگتا تھا اور کبھی نصیر کی جانب۔ اسی دوران میں اس اشتہار کا بھی ذکر آ گیا اور موضوع گفتگو صرف رشید کی شادی قرار پاکر یہ بحث ہونے لگی کہ اشتہار کے ذریعے سے شادی کرنا مناسب ہے یا نہیں اور رفتہ رفتہ اس گفتگو نے ایسا نشاط انگیز پہلو اختیار کر لیا کہ رشید نے بھی لطفاً و تفریحاً اپنی تصویر کا بھیجا جانا گوارا کر لیا۔ آخر کار اسی وقت بکس میں سے تصویر نکالی گئی اور عزیز نے رشید کے تمام حالات اپنے قلم سےلکھ کر لفافہ میں بند کرکے لفافہ کو ڈاک کے سپرد کر دیا۔
مولوی عبداللہ تھے پرانے زمانہ کے تعلیم یافتہ انسان، لیکن چونکہ ذہین بہت تھے اس لیے ہر جدید چیز کی طرف ان کی طبیعت جلد راغب ہو جاتی تھی، جب تک خود انھوں نے اسکول کی ملازمت اختیار نہ کی تھی، وہ لڑکیوں کی تعلیم کو زیادہ اہمیت نہ دیتے تھے، لیکن جب اتفاق سے انہیں ایک زنانہ ہائی اسکول کے دفتر میں ملازمت مل گئی اور اس اسکول کے بانی سے تبادلۂ خیال ہوا تو وہ تعلیم نسواں کے زبردست حامی بن گئے اور اپنی اکلوتی لڑکی رابعہ کو نہایت مسرت کے ساتھ مدرسہ میں داخل کر دیا۔
میٹرک پاس کرنے تک آٹھ دس سال کا زمانہ رابعہ نے جس طرح اسکول میں بسر کیا، اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ سارے مدرسہ میں اپنی ذہانت کی وجہ سے مشہور تھی اور جس وقت وہ امتحان میٹرک میں نہایت ممتاز طور پر کامیاب ہوئی تو اراکین مدرسہ میں سے کسی کو تعجب نہ ہوا کیونکہ سب کو اس کا یقین تھا اور مولوی عبداللہ صاحب خود بھی کچھ کم وثوق نہ رکھتے تھے۔ خیال کیا یقین تھا کہ امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد مدرسہ کے جلسے اس سے محروم ہو جائیں گے، لیکن حسن اتفاق کہ اس زمانہ میں ایک معلمہ کا انتقال ہو گیا اور رابعہ کو اس کی جگہ دے دی گئی۔ تنخواہ قلیل تھی لیکن چونکہ رابعہ نے اپنی زندگی کے بہترین دس سال یہاں بسر کیے تھے اور مدرسہ کے درودیورا سے اسے محبت ہو گئی تھی اس لیے اس نے اس خدمت کو نہایت مسرت کے ساتھ قبول کیا اور وہیں بورڈنگ میں رہنے لگی۔
رابعہ گو محض حسن کے لحاظ سے کوئی خصوصیت اپنے انداز میں نہ رکھتی تھی، لیکن اس کے رکھ رکھاؤ نے ایسی دلکشی اس کے اندر پیدا کر دی تھی کہ ہر دیکھنے والی نگاہ اسے حسین سمجھنے پر مجبور ہو جاتی تھی، وہ اس کا اپنے جسم کے لحاظ سے ملبوس میں جدتیں پیدا کرتے رہنا، وہ اس کا اپنے چہرہ و پیشانی کی ساخت کے لحاظ سے اپنے بالوں کو مخصوص طور پر سنوارنا، وہ اس کا مختلف موقعوں پر اپنی آواز میں نشیب و فراز پیدا کرنا، وہ اس کا دلربایانہ صتعپ کے ساتھ چشم و ابرو کو جنبش میں لانا، وہ اس کا اپنی ہنسی کو نہایت نرم و شیریں بناکر پیش کرنا، وہ اس کا سارے جسم میں ایک لچک پیدا کرکے ذرا جھوم جھوم کر چلنا اور اسی طرح کی اور بہت سی خصوصیات جو پہلے قصداً پیدا کی گئی تھیں اور اب عادت سے بالکل فطری معلوم ہوتی تھیں، رابعہ کو حسین اور بہت زیادہ دلکش بنائے ہوئے تھیں۔ اس میں شک نہیں کہ وہ فطرت کی طرف سے بہترین صناعانہ دماغ لے کر آئی تھی اور صنعت گری کے نازک ترین پیچ و خم اس کی ہر ہر ادا سے ظاہر ہوتے تھے، وہ نقاش بھی تھی اور شاعرہ بھی، وہ خوش تقریر بھی تھی اور اچھی مضمون نگار بھی، لیکن تصنع اس کی ہر بات میں پایا جاتا تھا اور فن تمثیل کے اشارات سے اس کی زندگی کا ہر ہر لمحہ معمور تھا۔
عزائم کے لحاظ سے وہ بہت بلند حوصلہ واقع ہوئی تھی اور خدا جانے اسے کیوں یقین ہو گیا تھا کہ وہ دنیا میں غیرمعمولی ترقی و شہرت حاصل کرنے آئی ہے۔ یہی سبب تھا کہ وہ ہر شخص اپنے سے فروتر سمجھتی تھی اور اپنے حکم کی تعمیل اسی طرح چاہتی تھی جیسے وہ کوئی فرمانروا ہو، انتظام خانہ داری کے لیے جن صفات کا ایک عورت میں ہونا ضروری ہے وہ اس میں پائی جاتی تھیں، یعنی مختلف اقسام کے کھانے پکانا، سینا پرونا، کاڑھنا اسے سب کچھ آتا تھا، لیکن ان کاموں کی طرف اسے بالکل رغبت نہ تھی اور وہ ایسے معمولی مشاغل میں اپنا وقت صرف کرنا اپنے مقصود زندگی کے خلاف خیال کرتی تھی، اسے یقین تھا کہ وہ اس سے زیادہ بلند کام کے لیے پیدا ہوئی ہےاور ایسی باتوں میں اس کو اپنا دماغ صرف نہ کرنا چاہیے۔
ظاہر ہے کہ ایسی عورت کے لیے انتخاب شوہر کا مسئلہ بہ نسبت رشید کے زیادہ اہم تھا اور اسی لیے باوجود سیکڑوں پیغام آنے کے اس نے کسی کو قبول نہ کیا، کہیں اس کو حسن کم نظر آتا تھا، تو کسی جگہ دولت کا فقدان ہوتا تھا، دولت و حسن کا اجتماع بھی اگر کہیں ہوتا تھا، تو صورت اسے جابرانہ نظر آتی تھی، یہ بھی عیب نہ ہوتا تو تعلی کی طرف سے وہ غیرمطمئن ہو جاتی۔ بعض بعض پیغام ایسے بھی آئے کہ اس نے صرف اس بناپر انکار کر دیا کہ ’’صورت سے ذوقِ ادب ظاہر نہیں ہوتا۔‘‘
الغرض یہ تمام مراحل طے ہو چکے اور کسی میں کامیابی نظر نہ آئی تو اشتہار دیا گیا اور جب ایک ماہ کے بعد خطوط و تصاویر کا ایک انبار اس کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے کامل ایک ہفتہ تک غور کرنے کے بعد رشید کو نظر پسندیدگی سے دیکھ کر سویمبر کی اس ملکہ کی طرح جو کامیاب عاشق کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈال کر اپنی رضامندی کا اظہار کرتی تھی، ایک تار کے ذریعہ سے منظوری کی اطلاع دے دی۔
رشید جو تصویر بھیج کر غافل ہو گیا تھا اور اسے یہ بھی یاد نہ تھا کہ اس نے کب اشتہار دیکھا تھا، دفعتاً تار کے ملنے سے چونک پڑا اور اپنے کاغذات علیحدہ رکھ کر سونچنے لگا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ تار لیے ہوئے گھر گیا اور اپنی والدہ سے سارا قصہ سنایا، ماں جس کو اپنے بیٹے کی شادی کرنے کی بڑی تمنا تھی سنتے ہی راضی ہو گئیں، لیکن باپ نے اس قدر عجلت سے کام لینا مناسب نہیں سمجھا اور لڑکی کے متعلق مزید تحقیق کو ضروری قرار دے کر اس وقت اس معاملہ کو ملتوی کر دیا، رشید جو اپنے اخلاق کے لحاظ سے حد درجہ شریف انسان تھا، اس پس و پیش میں تھا کہ اگر تحقیق کے بعد یہ جگہ نامناسب ثابت ہوئی تو بھی اب وہ اخلاقاً انکار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ پہلے تصویر کا بھیج دینا ہی یہ معنی رکھتا تھا کہ مجھے کوئی عذر نہیں ہے اور اس لیے اب جب کہ وہاں سے منظوری کا تار آ گیا ہے انکار کی کوئی صورت باقی ہی نہیں رہی ہے اور ایک حیثیت سے عقد ہو چکا ہے۔ چونکہ تار میں یہ بھی درج تھا کہ ’’مفصل تحریر روانہ کی جاتی ہے۔‘‘ اس لیے اس کا انتظار کرنے لگا اور جب دوسرے دن خط ملا تو فی الجملہ رابعہ کی طرف سے مطمئن ہو گیا، یہ خط اسی کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا اور اس میں اس نے اپنے تمام حالات تعلیم وغیرہ کے مفصل درج کر دیے گئے تھے، ہرچند رشید انگریزی مدارس کی تعلیم یافتہ لڑکیوں کی طرف سے کوئی اچھا خیال نہ رکھتا تھا اور اس کے سامنے متعدد مثالیں اس کے احباب کی ایسی موجود تھیں جنھوں نے اس تعلیم کے ملمع پر فریفتہ ہوکر شادیاں کیں اور بعد کو چند در چند مشکلات میں مبتلا ہو گئے، لیکن اس نے تصویر بھیج کر اپنے ہاتھ پاؤں کٹا لیے تھے اور اب سکوت کے ساتھ اس رشتہ کو منظور کرنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہا تھا۔
رشید کے ساتھ رابعہ کی شادی کو ایک مہینہ کا زمانہ گزر چکا ہے اور کوئی نئی بات سوائے اس کے محسوس نہیں کی گئی کہ وہ رشید کے والدین سے بہت کم تعلق رکھنا پسند کرتی ہے اور ان کے وجود کو غیرضروری سمجھتی ہے، چونکہ شادی کے بعد کا زمانہ چند دنوں تک صرف حکومتِ شباب کا زمانہ ہوتا ہے اور تمام تنقید و تحقیق سے بےنیاز، اس لیے رشید کو کبھی اس پر غور کرنے کی فرصت ہی نہیں ملی کہ رابعہ کس مزاج و طبیعت کی لڑکی ہے اور وہ کس حدتک صحیح معنی میں اس کی شریک زندگی بننے کی اہل ہو سکتی ہے لیکن جب سیلاب گزر گیا، طوفان کم ہوا اور رفتہ رفتہ مدہوشی دور ہوئی، تو ایک دوسرے پر تنقیدی نگاہ ڈالنا شروع کی اور سب سے پہلی جو بات رابعہ نے اپنے خلاف مزاج محسوس کی وہ رشید کا تاجرانہ حساب و کتاب اور اقتصادی انتظام تھا، دوسری طرف رشید کے دل میں جو بات کھٹکی وہ رابعہ کی آزادیِ خیال تھی جسے وہ خودسرائی سے تعبیر کر سکتا تھا۔
رابعہ کی تقسیم اوقات اس طرح تھی کہ صبح کو آٹھ بجے وہ بیدار ہوتی تھی اور غسل سے فارغ ہونے کے بعد تقریباً دو گھنٹہ تبدیل لباس اور بناؤ سنگھار میں صرف کرنے کے بعد دس بجے تک چائے سے فارغ ہوتی تھی۔ اس کے بعد ایک گھنٹہ ہارمونیم اور پیانو کے لیے وقف تھا، گیارہ بجے کے قریب رشید کے دفتر سے اس کی ڈاک آ جاتی تھی اور وہ اپنے لکھنے پڑھنے کے کمرہ میں چلی جاتی، یہاں وہ خطوط کا جواب دیتی، مضامین لکھتی، غزل گوئی میں وقت صرف کرتی، یہاں تک کہ ایک بج جاتا، یہ وقت رشید کے دفتر سے آنے کا ہوتا تھا، دونوں ساتھ کھانا کھاتے اور کھانےسے فارغ ہونے کے بعد رابعہ پیانو نوازی میں مصروف ہوجاتی اور رشید وہیں آرام کرسی پر لیٹ کر ایک گھنٹہ قیلولہ کرتا اور رابعہ دوبجے بستر پر جاکر چار بجے بیدار ہوتی اور دو گھنٹے پھر تبدیل لباس اور چائے میں صرف ہوجاتی۔ اگر ۵ بجے تک رشید آ گیا تو خیر اس کے ساتھ ورنہ تنہا گاڑی پر سوار ہوکر تفریح کے لیے نکل جاتی۔ چونکہ وہ زنانہ کلب کی بھی ممبر ہو گئی تھی، اس لیے کبھی کبھی وہاں چلی جاتی اور کھیل کود میں دو گھنٹہ صرف کرکے ۸بجے کے قریب گھر آتی اور ایک گھنٹہ کے بعد کھانا کھاکر کچھ دیر تک پھر پیانو کا شغل جاری رہتا اور دس بجے بستر پر جاکر گھنٹہ دو گھنٹہ کوئی کتاب دیکھتی اور سو جاتی۔
رشید جو اس نظام اوقات سے عملاً بالکل ناآشنا تھا اور اس کے والدین جن کے ذہن و تصور میں بھی کسی شریف لڑکی کا یہ ضبط اوقات نہ آ سکتا تھا، رابعہ کی اس بےمعنی زندگی بسر کرنے سے خوش نہ تھے اور ہرچند کبھی کبھی دبی زبان سے رشید نے اپنے اس خیال کو کنایتہً ظاہر بھی کیا، لیکن اول تو رابعہ نے اس کے سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور اگر سمجھی بھی تو کبھی خاموش اور کبھی ہلکی سی چین پیشانی کے ساتھ ٹال گئی، اس میں شک نہیں کہ رشید میں وہ بہت سی باتیں اپنے خلاف مزاج پاتی تھی لیکن اسی کے ساتھ وہ یہ یقین کرتی تھی کہ اپنی طبیعت کے لحاظ سے وہ نہایت نیک و سنجیدہ انسان ہے اور چند دنوں میں اگر اس کے ذوق کی خشونت دور نہ ہوئی تو بھی اس میں اس قدر کمی ضرور پیدا ہو جائےگی کہ اس کے مشاغل میں حرج نہ پیدا کیا جائےگا اور وہ آزادی کے ساتھ جو چاہے گی کر سکےگی، اس طرح رشید روز بروز اس تلخی کو محسوس کرتا جاتا تھا کہ جب دن بھر کی تھکن کے بعد گھر واپس آکر اس کو حقیقی سکون و راحت کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اسے نصیب نہیں ہوتی اور رابعہ کی طرف سے وہ فتادگی کبھی ظاہر نہیں ہوتی، جو مرد کے تمام آلام و مصائب کا مداوا ہوتی ہے اور اس کی زندگی کی تمام جراحتوں پر مرہم کا کام دیتی ہے وہ اس بات کو سمجھتا تھا کہ رابعہ گھر کی مالکہ کی حیثیت سے تمام انتظام پر حاوی ہو جانا چاہتی ہے، لیکن چونکہ وہ اس میں اقتصادی پیش بینی کا فقدان محسوس کرتا تھا، اس لیے وہ ڈرتا تھا کہ کہیں اس کے اسراف کا اثر اس کی تجارت پر نہ پڑے اور تعلقات ازدواج بھی خراب ہو جائیں۔ لیکن چونکہ وہ حد درجہ متحمل اور ضابط شخص تھا، اس لیے اس نے کبھی اپنے طرز عمل سے یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ رابعہ کے بعض اطوار اسے ناپسند ہیں اور وہ اس آزادی کی طرف سے خائف ہے، تاہم اس مسئلہ پر جب کبھی گفتگو آ جاتی تو وہ اپنی صحیح رائے ضرور ظاہر کر دیتا۔
چار چھ مہینے کے اندر اس نوع کی گفتگو اتنی مرتبہ ہوئی کہ اگر رابعہ کو اپنے شوہر سے حقیقی محبت ہوتی تو وہ یقیناً اپنی حالت میں تبدیلی پیدا کر لیتی اور اپنے آپ کو رشید کے معیار طبیعت پر لے آتی، لیکن وہ اپنے اوپر جبر کرنے کی عادی نہ تھی اور خود اپنے شوہر کو اس معیار زندگی تک کھینچ لانا چاہتی تھی، جو اس کے نزدیک صرف لذت ہی لذت تھا اور جہاں تلخی کا نام نہ تھا۔
ایک رات رشید زیادہ دیر کرکے گھر آیا۔ چونکہ ایک خاص تجارتی مسئلہ میں اس نے دن بھر اپنا دماغ صرف کیا تھا اس لیے اس کی طبیعت کچھ مضمحل تھی اور وہ بہت تھک گیا تھا، اس کا خیال تھا کہ گھر واپس پہنچ کر اس اضمحلال میں کچھ کمی ہو جائےگی، لیکن جب وہاں پہنچ کر یہ معلوم ہوا کہ رابعہ ٹھیک وقت پر بغیر ایک لمحہ اس کا انتظار کیے ہوئے کھانا کھا چکی تھی، تو اس کی تکلیف اور زیادہ بڑھ گئی اور اس نے اس غم میں کھانا نہیں کھایا۔ رابعہ نے اس کو محسوس کیا، لیکن ایک دفعہ سے زیادہ اصرار بھی نہیں کیا اور خود بھی خاموش ہوکر آرام کرسی پر لیٹ گئی اور کتاب دیکھنے لگی۔ رشید نے صورتِ حالات کو اچھی طرح سمجھا اور اس میں شک نہیں کہ اسے غیرمعمولی صدمہ پہنچا، لیکن اس نے بہت ضبط سے کام لے کر یہ خیال اپنے دل سے دور کرنے کی کوشش کی اور نہایت لطف سے اس نے رابعہ سے دریافت کیا کہ ’’آج کیوں مضمحل ہو، طبیعت کیسی ہے۔‘‘
رابعہ نے پیشانی پر شکنیں ڈال کر جواب دیا کہ ’’اچھی ہوں، یوں ہی کچھ دردسر کی شکایت ہے۔‘‘
رشید، ’’تم نے مجھ سے دفتر میں کیوں نہ کہلا بھیجا، کوئی دوا لیتا آتا۔‘‘
رابعہ، ’’مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ کو میری زندگی اس قدر عزیز ہے۔‘‘
رشید، جو دنیا میں طعن تشنیع کی گفتگو سے زیادہ اور کسی چیز سے نفرت نہ کرتا تھا، یہ جواب سنتے ہی برہم ہو گیا اور بولا ’’ہاں مجھے آپ کی زندگی عزیز تو نہیں ہے، کیونکہ آپ نے اس کا احساس ہی میرے اندر اس وقت تک پیدا نہیں کیا، لیکن انسانیت کا تقاضہ ضرور ہے کہ میں آپ کی صحت و عافیت کا خواہاں ہوں۔‘‘
رابعہ، ’’درست ہے، لیکن اگر انسانیت ایک شخص کے حقوق کو پامال کر سکتی ہے، تو اس کی صحت و عافیت کی طرف بھی متوجہ نہیں ہو سکتی، اس لیے آپ کی یہ پرسشِ حال انسانیت تو نہیں البتہ ظاہرداری ضرور قرار دی جا سکتی ہے۔‘‘
رشید، ’’آپ کے اس حسن استدلال کی داد دیتا ہوں، لیکن کیا میں یہ سوال کر سکتا ہوں کہ میں نے آپ کے کن حقوق کو پامال کیا؟‘‘
رابعہ، ’’خیر، جانے دیجیے، اس اجمال کی تفصیل اور زیادہ تلخ ہوگی۔‘‘
رشید، ’’میرے لیے اتنی تلخ نہ ہوگی، جتنی آپ کو محجوب کر دینے والی، کیونکہ آپ کو معلوم ہے کہ میرا سینہ شکووں سے لبریز ہے اور اگر آپ کو اپنے حقوق کی پامالی کی ناروا شکایت ہے، تو میں اس کے جواب میں جائز گلہ مندیاں پیش کر سکتا ہوں۔‘‘
رابعہ جو حددرجہ محرورالمزاج تھی، یہ جواب سن کر غصہ سے بیتاب ہو گئی، کتاب کو علیحدہ پھینک کر کرسی پر اٹھ بیٹھی اور اپنے خدوخال میں جوش غضب کا انتہائی رنگ لیے ہوئے بولی کہ ’’مہربانی فرماکر اپنی شکایتیں بیان کیجیے۔ میں بھی آج ایک فیصلہ کر لینا چاہتی ہوں اور اس سوگوار زندگی کو ہمیشہ کے لیے ختم۔‘‘
رشید، ’’مجھے سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ آپ مجھے انگریز کیوں سمجھتی ہیں اور آپ ہندوستانی خاتون ہو کر شیوہ ہائے مغرب کیوں پسند کرتی ہیں۔ کبھی آپ نے اپنی تقسیم اوقات پر بھی غور فرمایا ہے کہ وہ کتنی بے پروائیوں سے مرکب ہے، لطف یہ ہے کہ مغربی خواتین کی پیروی کرنے میں آپ نے ان کی دو باتیں تو اختیار کر لی ہیں جو تمدن کی انتہائی ترقی کے ساتھ ان میں عیب کی صورت سے پیدا ہو گئی ہیں اور ان باتوں کو ترک کر دیا ہے جنھیں ہم محاسن کہہ سکتے ہیں۔ یہ آپ کا دن چڑھے بیدار ہونا، ضرورت سے زیادہ آرایش میں وقت صرف کرنا، مشاغل لہو لعب میں مصروف رہنا اور ایک لمحہ کے لیے یہ نہ سوچنا کہ آپ کے فرائض کیا ہیں اور میرے ساتھ آپ کا تعلق نکاح کن امور کا مقتضی ہے۔ اگر یہ باتیں قابل ستایش ہیں تو افسوس ہے کہ میرا دماغ ان کی خوبی سمجھنے سے قاصر ہے۔‘‘
آپ کلب کی ممبر ہوں اور مجھ سے نہ پوچھا جائے، آپ روز شام کو تفریح کے لیے تشریف لے جائیں اور میری رائے نہ طلب کی جائے۔ آپ دو دو گھنٹے فضول مضمون نگاری اور غزل گوئی میں صرف کر دیں اور میری طرف اعتنا نہ کیا جائے، آخر یہ قصہ کیا ہے؟ آپ کا فرض تھا کہ سب سے پہلے گھر کے انتظام کی طرف متوجہ ہوتیں، معاشری اصلاح کی جانب قدم اٹھائیں۔ میرے اوقات کا خیال کرکے میری آسایش کا اتنظام فرماتیں۔ لیکن آپ نے ایک دن بھی اس کو اپنا فرض نہیں سمجھا اور سارا وقت اس بےجا نمود و نمایش میں صرف کر دیا جس کا مقصود کم از کم میری سمجھ میں تو آتا نہیں۔
یہ ظاہر ہے کہ آپ مصنفہ ہونے کی حیثیت سے کوئی خاص شہرت حاصل نہیں کر سکتیں، کیونکہ آپ کی تعلیم ایسی نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی تھی، کیونکہ انگریزی مدارس یا کالجوں میں مردوں کی بھی تعلیم ایسی نہیں ہوتی چہ جائیکہ عورتوں کی اس لیے آپ زیادہ سے زیادہ ایک معمولی افسانہ نگار یا غزل گو خاتون کی حیثیت سے امتیاز حاصل کر سکتی ہیں، لیکن اسی کے ساتھ آپ اپنی زندگی کے جتنے حقیقی فرائص ترک کرنے پر مجبور ہوں گی ان کی تلافی کس طرح ممکن ہوگی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ مشاغل نوشت و خواند ترک کر دیجیے، لیکن خدا کے لیے ان میں سنجیدگی پیدا کیجیے، آپ کی کتابوں کا ذخیرہ صرف معمولی قصے کہانی کی کتابوں اور ناولوں کا بیکار مجموعہ ہے اور اس میں ایک کتاب بھی ایسی نظر نہیں آتی کہ کوئی سنجیدہ انسان دیکھے، آپ کی مضمون نگاری کا انتہائی عروج عشق و محبت کے افسانے لکھنا ہے یا کوئی غزل مرتب کر دینا۔ لیکن اگر میں یہ سوال کروں کہ آپ کو محبت کے عریاں جذبات ضبط تحریر میں لاکر شائع کرانے اور غزلوں میں کسی کے عشوہ وناز، کرشمہ و ادا سے بحث کرنے کا کیا حق حاصل ہے، تو آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہو سکتا ہے، آپ اپنے پندار میں سمجھتی ہوں گی کہ اس طرح آپ لٹریچر کی بڑی خدمت انجام دے رہی ہیں، لیکن میرے نزدیک اس سے زیادہ ظلم لٹریچر پر اور نہیں ہو سکتا کہ اس میں ایسی معمولی ادبیات کا اضافہ ہو اور اگر اس کو تسلیم بھی کر لیا جائے، تو بھی یہ بتائیے کہ کیا ایک بیوی کے فرائض میں یہ باتیں بھی شامل ہیں۔؟
میں نے اس وقت تک آپ کے حالات و مشاغل سے کوئی تعرض نہیں کیا، اس خیال سے کہ شاید آپ میری خاموش زندگی سے میرے منشا کو سمجھ سکیں، لیکن افسوس ہے کہ میرا یہ خیال غلط نکلا اور مجبوراً مجھے ظاہر کر دینا پڑا کیونکہ مجھے نہ آپ کی پیانوبازی سے دلچسپی ہے اور نہ آپ کی غزل گوئی سے، نہ آپ کے ملبوس کی حسین اختراع میرے اندر جذبات شیفتگی پیدا کر سکتے ہیں اور نہ آپ کا بالوں کو مختلف انداز سے سنوارنا مجھے مالوف کر سکتا ہے۔ میرے اندر اگر کوئی چیز فتادگی پیدا کر سکتی ہے تو وہ صرف آپ کی سیرت ہے، آپ کا حسن نظم ہے اور آپ کا ہر وقت میرے اسباب آسائش فراہم کرنے میں منہمک رہنا۔
اب آپ کو اختیار ہے کہ میری زندگی کو تلخ بنائیے یا خوش گوار اور اس گھر کو آباد کیجیے یا برباد، آیندہ میں اس مسئلہ میں گفتگو آپ سے نہیں کروں گا۔ کیونکہ مجھے اس کی فرصت نہیں۔‘‘
رشید کی اس طویل تقریر کے جواب میں رابعہ کچھ کہنا ہی چاہتی تھی کہ رشید اٹھ کر باہر چلا گیا۔
اس واقعہ کے بعد کا ہفتہ رشید کے لیے اس قدر مصروفیت کا تھا کہ وہ مشکل سے کسی وقت ایک گھنٹہ کے لیے گھر آتا تھا، چونکہ اس کو کاروبار کے سلسلہ میں ولایت جانا ضروری تھا اور وقت کم تھا اس لیے اس کو تمام کاغذات مرتب کرنے ملازموں کو ضروری ہدایات دینے اور مختلف مقامات سے خط و کتابت کرنے میں بہت زیادہ انہماک سے کام لینا پڑا اور اگر یہ کہا جائے کہ اس نے اس ہفتہ میں رابعہ کو دیکھا بھی نہیں تو یہ کہنا درست ہوگا کیونکہ وہ رات کو بہت دیر کرکے آتا تھا اور طلوع آفتاب سے قبل چلا جاتا تھا۔
ایک ہفتہ کے بعد جب وہ اپنے اسباب کی تیاری میں مصروف ہوا اور دوسرے دن صبح کو آ سکی روانگی طے پا گئی تو اس نے رابعہ کو ایک تحریر بھیجی کہ، ’’میں ایک تجارتی معاملہ کے سلسلہ میں کل صبح کو ڈاک سے بمبئی جا رہا ہوں، وہاں دو دن قیام کرنےکے بعد ولایت چلاجاؤں گا، میرا یہ سفر کم از کم چھ مہینے میں ختم ہوگا۔ اس زمانہ میں اگر آپ یہاں نہ رہنا چاہیں تو گھر جاسکتی ہیں، سو روپیہ ماہوار آپ کو برابر پہنچتے رہیں گے۔‘‘
رابعہ جس کے اوپر اس ہفتہ میں حسرت و افسوس، انفعال و ندامت کے خدا جانے کتنے دور یکے بعد دیگرے گز رگئے تھے، اس تحریر کو پاکر سخت حیران ہوئی کہ وہ کیا کرے۔ چونکہ فطرت اس کی بری نہ تھی، اس لیے اس پر رشید کی نصیحت کا اثر تو ضرور ہوا، لیکن اسی کے ساتھ اس کی خودسر طبیعت نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرکے رشید سےمعافی چاہتی۔ وہ ایک ہفتہ تک برابر رویاکی اور بارہا خیال آیا کہ رشید کو بلاکر معاملہ کو صاف کرے، لیکن اس کی غیرت نے گوارا نہ کیا، اب جو یہ تحریر اس کو ملی تو اسے پہلے سکتہ سا ہو گیا، لیکن بعد کو غور کرنے سے یہ جدائی اسے غنیمت معلوم ہوئی اور اس نےاپنے گھر جانا پسند کرکے رشید کو اطلاع دیدی۔
رشید کو ولایت گئے ہوئے تین مہینے کا زمانہ گزر گیا ہے اور اس اثنا میں اس کا صرف ایک خط رابعہ کے نام آیا، رابعہ رشید کے گھر سے جو جذبات انفعال لائی تھی، وہ اسکول کی فضا میں محو ہو چکے ہیں اور اس پر دور مغربیت پھر زیادہ شدت کے ساتھ طاری ہو گیا ہے، مختلف رسائل میں اس کے افسانے نکل رہے ہیں، غزلیں شائع ہو رہی ہیں، ملک کے وہ رسائل و جرائد جن کے سامنے کوئی اخلاقی پہلو نہیں ہے، اس میں اور زیادہ شوق پیدا کر رہے ہیں اور بہت سے نوجوان جن کے لیے خط و کتابت کرنا بہترین ذریعۂ تفریح اور شاید اسی قدر امید افزا بھی ہے، آفرین و مرحبا کے خطوط بھیج رہے ہیں اور رابعہ ہر داد پر اپنے نشہ میں اضافہ محسوس کرتی جاتی ہے۔ اسی طرح اس کی پرلطف زندگی بسر ہو رہی تھی کہ ایک دن صبح کو ڈاک میں اسے لاہور سے ایک خط ملا، ’’محترمہ، میری زندگی کا بڑا حصہ ادبیات ہی کے مطالعہ میں صرف ہوا ہے لیکن باور کیجیے کہ جب تک آپ کی تحریر میری نگاہ سے نہ گزری تھی، میں کسی طرح یقین نہ کر سکتا تھا کہ اردو زبان میں بھی ایسے ایسے لکھنے والے موجود ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ تمام مضامین کا انگریزی ترجمہ کرکے یورپ میں شائع کراؤ اور اہل مغرب کو بتاؤ کہ مشرق اس باب میں بھی اس سے کسی طرح کم نہیں ہے، چونکہ میں ایک ہفتہ کے اندر خود لکھنؤ آنے والا ہوں، اس لیے اگر آپ نے اجازت دی تو خود حاضر ہوکر اس مسئلہ میں گفتگو کروں گا۔
حیدر رضا، بی-اے، بیرسٹر
اس سے قبل رابعہ کی تحسین میں متعدد خطوط آئے اور اس نے لوگوں کو جواب بھی دیا، لیکن اس خط نے ایسا میدان شہرت و ترقی کا اس کے سامنے پیش کر دیا کہ وہ چند لمحوں کے لیے از خود رفتہ ہو گئی اور فوراً حیدر رضا کو اطلاع دے دی کہ میں آپ سے ملنے کے لیے تیار ہوں۔
پندرہ دن کے بعد جب ایک دن شام کو حیدر رضا کی تحریر پہنچی کہ میں آج صبح کو لکھنؤ آ گیا ہوں اور ہوٹل میں مقیم ہوں تو رابعہ کی مسرت کی کوئی انتہا نہ تھی، وہ سمجھتی تھی کہ یہ کوئی فرشتہ ہے، جو اسے دفعتاً زمین سے اٹھاکر آسمان پر پہنچا دےگا۔ چونکہ وہ کسی مہمان کو اپنے گھر نہ بلا سکتی تھی اس لیے اس نے بیتاب ہوکر اسی وقت جواب دے دیا کہ ’’کل سہ پہر کو جائے قیام پر حاضر ہوں گی۔‘‘ آخر کار کل کی سہ پہر بھی آ گئی اور رابعہ ایک ایسے ملبوس میں جو اس کی خوش ذوقی کا منتہائے نظر ہو سکتا تھا، ریشمی چارشف سر پر ڈال کر ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئی۔
حیدر رضا لاہور کے ایک معزز خاندان کا فرد تھا اور اس کا باپ ایک خوش حال زمیندار تھا، لیکن حیدر رضا نے ولایت سے واپس آکر باپ کی جائداد کواس بری طرح ضائع کیا کہ دو سال کے عرصہ میں گھر کا مکان بھی فروخت ہو گیا۔ چونکہ ولایت میں بھی اس نے اپنی زندگی سراسر اوباشی میں بسر کی تھی اور ہنوز اس کے شباب کی سرمستیاں جوانی پر تھیں اس لیے اس نے لاہور واپس آنے کے بعد بھی وہی وطیرہ اختیار کیا اور جب ساری جائداد تباہ ہو گئی تو پھر اس نے تہذیب و شایستگی کی تمام ممکن نمایشوں کے ساتھ مکر و فریب کو اپنا رہبر بنایا۔ چونکہ اس کی صورت غیرمعمولی حسین تھی اور اسی کے ساتھ بے انتہا دلکش اداؤں کا بھی مالک تھا، اس لیے وہ جنس لطیف کےافراد پر نہایت آسانی سے قابو پا جاتا تھا اور اس طرح گزشتہ دو سال کے عرصہ میں لاہور کی دو متمول بازاری عورتوں کو تباہ کر چکا تھا۔
چونکہ اب لاہور اور اس کے قرب و جوار میں ہر شخص اس کی حرکات سے واقف ہو چکا تھا، اس لیے یہاں اس کے لیے میدان تنگ ہو گیا تھا اور اب وہ اس فکر میں تھا کہ حدود پنجاب سے باہر اپنا دام فریب پھیلائے۔ اس کا حلقہ تعارف بہت وسیع تھا اور خط و کتابت کے ذریعے سے اس نے بہت لوگوں سے غائبانہ تعارف حاصل کر لیا تھا، چند ماہ سے وہ اردو کے مختلف رسائل میں رابعہ کے مضامین دیکھ رہا تھا، خدا جانے اسے کس نے یقین دلادیا تھا کہ وہ دولتمند بھی ہے، چنانچہ اس نے ایک دن بیٹھ کر ساری اسکیم مرتب کی اور لاہور کے ایک رسالہ کے دفتر سے رابعہ کا پتہ معلوم کرکے خط اس کو لکھا۔
چونکہ رابعہ کے مضامین سے وہ اس کی طبیعت کا اندازہ لگا چکا تھا اور نفسیات کا ماہر ہونےکی وجہ سے وہ سمجھتا تھا کہ یہاں کون سا مکر کامیاب ہو سکتا ہے، اس لیے اس نے ایسا خط لکھا کہ رابعہ بیتاب ہو گئی اور اس سے ملنے کے لیے تیار۔
جس وقت رابعہ ہوٹل میں پہنچی تو وہ پہلے ہی سے تیار تھا، چنانچہ اس نے دروازہ سے باہر نکل کر اس کی پذیرائی کی اور اپنے کمرہ کی اس فضا میں لے آیا جو اس وقت عطریات سے بسی ہوئی تھی۔ نہایت احترام کے ساتھ اس نے اپنے سر کو مغربی انداز میں ذرا خم دے کر کرسی پیش کی اور خود سامنے بیٹھ کر پہلے اس نے اس تکلیف دہی پر معذرت کا اظہار کیا اور پھر رابعہ کی ادبیت کے متعلق اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے بولا کہ ’’میں نے کامل دس سال یورپ کے صرف اس حلقہ میں بسر کیے ہیں جو وہاں کے لٹریچر کی جان سمجھا جاتا ہے، لیکن جو اثر آپ کی انشاء نے مجھ پر کیا ہے وہ اس قدر عجیب و غریب ایسا قوی و شدید ہے کہ مشکل سے میں اسے محو کر سکتا ہوں، آپ کے افسانوں کا دلکش پلاٹ، آپ کے جذبات کی پاکیزگی، آپ کی زبان کی حلاوت، آپ کے انداز بیان کی ندرت۔میں حیران ہوں کہ ہندوستان کی ایک خاتون کیونکر ایسا بلند معیار ادب حاصل کر سکتی اور افسوس کرتا ہوں اس ملک پرجو اپنے ہاں کے ایسے ایسے جوہر تابندہ کی قدر کرنے میں بخل سے کام لیتا ہے۔‘‘
’’میں نے آپ کے متعدد افسانے دیکھے، بہت سی غزلیں مطالعہ کیں اور میں ان سے اس قدر مثاتر ہوا کہ بغیر آپ کی اجازت حاصل کیے ہوئے میں نے بعض افسانوں کا ترجمہ انگریزی میں شروع کر دیا، جنھیں میں آپ کی خدمت میں پیش کروں گا، لیکن چونکہ یہ مسئلہ بغیر آپ سے ملے ہوئے طے نہ ہو سکتا تھا اس لیے میں نے خود یہاں آکر آپ کو اس قدر تکلیف دینے کی جسارت کی، امید ہے کہ آپ معاف فرمائیں گی۔‘‘
رابعہ جو اتنی دیر میں حیدر کی صورت و وضع، اس کے انداز و اطوار اور کمرہ کے سامان سے اس کی دولت مندی و خوش ذوقی کے متعلق بہترین رائے قایم کر چکی تھی، اس کی تقریر کی لذت سے مخمور ہو گئی اور اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیونکر اس شخص کے ایسے عظیم احسان کا اعتراف کیا جا سکتا ہے اور اس کے معاوضہ میں وہ کیا چیز پیش کر سکتی ہے، اس نے پہلے نہایت ہی لطف و محبت کے لہجہ میں حیدر کے اس قدر زحمت سفر برداشت کرنے پر اظہار احسان مندی کیا اور پھر بولی کہ ’’میرے متعلق آپ نے جو رائے ظاہر کی ہے اس میں خواہ کتنا ہی مبالغہ سے کام لیا گیا ہو، لیکن وہ میرے لیے حوصلہ افزا ضرور ہے اور میں نہیں سمجھتی کہ آپ کےاس غیرمعمولی لطف و کرم کا بار کیونکر برداشت کر سکتی ہوں، بہرحال میرے لیے اس سے زیادہ مسرت کسی امر میں نہیں ہو سکتی، کہ آپ جیسا نقاد سخن اور لطیف الخیال انسان میرے مضامین کو انگریزی میں ترجمہ کرکے شائع کرے اور میں اس مسئلہ میں ہر امکانی مدد کے لیے تیار ہوں۔‘‘
رابعہ دو گھنٹہ تک یہاں بیٹھی اور اس عرصہ میں حیدر جس قدر مظاہرہ اپنی خوش ذوقی، بلندی فکر، پرستاری محبت اور اسی کے ساتھ جاہ و دولت کا کر سکتا تھا، اس نے ختم کر دیا اور رابعہ اس کے انداز گفتگو سے اس درجہ مسحور ہوئی کہ جس وقت وہ اٹھی تو صرف یہ خیال اس کے دماغ میں گونج رہا تھا کہ ’’کیسی خوش نصیب ہے وہ عورت جو اس کی انیس و ہمدم بننے کی عزت حاصل کر سکے۔‘‘
چونکہ حیدر بڑا بولنے والا تھا اور اپنی گفتگو سے ایک انسان کو مسحور کر لینا اس کے لیے نہایت معمولی امر تھا اس لیے دوران گفتگو میں اس نے رابعہ کی زندگی کا سارا حال اس کی موجودہ کیفیت اور رشید سے اس کے تعلقات کی حالت معلوم کر لی اور جس وقت رابعہ وہاں سے اٹھی تو وہ اس کی تمام کیفیات سے اسی طرح باخبر تھا گویا کہ وہ برسوں کا رازدار دوست ہے۔ جس وقت حیدر کو یہ معلوم ہوا کہ وہ کسی دولتمند خاندان کی لڑکی نہیں ہے، تو اسے اس کا بھی افسوس نہ ہوا کہ اس کا نکاح ہو چکا تھا اور اب اس کی اسکیم میں تھوڑی سی تبدیلی پیدا ہو گئی تھی، یعنی اگر وہ پہلے اسے دولت مند سمجھ کر شادی کرنے آیا تھا، تو اب صرف اسے حسین و جوان سمجھ کر چند دن لطف و مسرت سے بسر کر دینے کے خیال سے مست و سرشار تھا اور اس مقصد کے حصول کے لیے سارا پلاٹ اپنے ذہن میں مرتب کر چکا تھا۔
وہ ایک ہفتہ تک یہاں مقیم رہا اور اس زمانہ میں اس نے نسائیات اور فلسفۂ نکاح پر اس قدر متعدد بار اور ایسے ایسے حسن استدلال سے بحث کی کہ نہ رابعہ کا نقاب اس کا مقابلہ کر سکا اور نہ اس کے خاندانی غیرت و خودداری، اب وہ بالکل بے حجاب اس کے روبرو بیٹھی تھی، نہایت بے تکلفی سے گفتگو کرتی تھی، حددرجہ آزادی کے ساتھ اس کی معیت میں رات کو سنیما جاتی تھی، ہاں میں ہاتھ ڈال کر گھنٹوں پارک میں ٹہلا کرتی تھی، الغرض وہ اپنے آپ کو دنیا میں ایک مستقل ذی اختیار ہستی سمجھ کر، آزادی کے ان منازل سے گزر رہی تھی، جہاں نہ والدین کا خیال حارج ہو سکتا ہے اور نہ شوہر کا وجود۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ ب تکلفی اس حدتک بڑھ گئی تھی، جہاں تک حیدر اسے پہنچانا چاہتا تھا، لیکن اس کا سبب رابعہ کی صالح فطرت نہ تھی، بلکہ خود حیدر کی مصلحت تھی اور وہ اس تدریج کے ساتھ رابعہ کو تباہ کرنا چاہتا تھا، جو مغربی طریق اوباشی میں بہترین لذت سمجھی جاتی ہے اور سرزمین لکھنؤ سے دور جاکر اس افسانہ کی تکمیل کرنا چاہتا تھا، کیونکہ یہاں رابعہ اس آزادی کے ساتھ نہیں مل سکتی تھی جس کا وہ خواہش مند تھا۔
ایک دن صبح جب کہ رابعہ، حیدر کے پاس جانے کی تیاری کر رہی تھی، رشید کا تار بمبئی سے اس کے پاس پہنچا، اس میں لکھا تھا کہ ’’میں خلاف امید جلد واپس آ گیا ہوں اور تاج محل ہوٹل میں مقیم ہوں، اگر ممکن ہو تو بمبئی آکر مجھ سے مل لیجیے، یہاں صرف چار دن قیام اور ہوگا۔‘‘
اس خبر نے رابعہ کو سخت سراسیمہ بنا دیا اور وہ اسی عالم اضطرار میں تار لیے ہوئے حیدر کے پاس پہنچی، حیدر نے تار پڑھ کر ایک مصنوعی تبسم کے ساتھ کہا کہ ’’فطرت بھی کس قدر ظالم ہے، دیکھیے آج ہی میرے پاس کلکتہ کے پبلشر کا خط آیا ہے کہ آپ کا وہاں پہنچنا ضروری ہے تاکہ آپ کے مجموعۂ مضامین کے ترجمہ کا حق اشاعت باضابطہ طور پر وہاں رجسٹری ہو سکے، میں نےاس وقت تک آپ سے یہ ذکر نہیں کیا تھا کہ معاملہ طے نہ ہوا تھا، لیکن وہ اب بالکل تیار ہے صر ف معاوضہ کا سوال رہ جاتا ہے، میں نے اس کو دس ہزار روپیہ لکھے تھے، لیکن وہ فی الحال صرف چھ ہزار روپیہ دینے پر آمادہ ہے، باقی اشاعت کے بعد ادا کرےگا، معاف فرمائیےگا، میں نے اس مسئلہ میں زیادہ خودرائی سے کام لیا اور آپ سے استمزاج نہیں کیا۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ آپ میری ہر تجویز کو پسند کر لیں گی۔ اگر ارشاد ہو تو میں آج ہی آپ کو چھ ہزار کا چک امپیریل بنک کا دے دوں میں پبلشر سے بعد کو وصول کر لوں گا، لیکن مشکل یہی ہے کہ آپ کا ایک بار کلکتہ جانا ضروری ہے اور بحالت موجودہ میں زیادہ اصرار بھی نہیں کر سکتا، ہاں ایک امر میں اور آپ سے معافی طلب کروں گا اور وہ یہ کہ میں نے بغیر آپ کی اجازت کے آپ کے ایک افسانہ کا ترجمہ لنڈن ٹائمس کو بھیج دیا ہے اور آپ کی تصویر بھی بھیج دی ہے، لیکن میں کیا کروں اپنے جذبۂ پسندیدگی سے مجبور تھا۔‘‘
رابعہ لاکھ ذین و ہوشیار سہی لیکن پھر بھی عملی دنیا سے بالکل ناواقف تھی، اس لیے حیدر کی اس گفتگو نے اس پر سحر کا سا اثر کیا اور وہ ایسا محسوس کرنے لگی کہ اس وقت دنیا کی شہرت و عزت، جاہ و دولت اس کے قدموں پر پڑی لوٹ رہی ہے، نہ رشید کاخیال اس کے سامنے تھا اور نہ والدین کا۔ وہ اس وقت اپنے آپ کو کسی ایسی دنیا میں دیکھ رہی تھی، جہاں زر و جواہر اس پر نثار کیا جا رہا تھا، نمود وشہرت کی دیوی اس پر سایہ فگن تھی، ملک اس کی قابلیت کا دیوانہ ہو رہا تھا اور مشرق سے لےکر مغرب تک اس کی تصویریں، اس کے مضامین کے ترجمے تمام رسائل و جرائد میں شائع ہو رہے تھے، الغرص وہ اس وقت اپنے کو طبقۂ انسان سے بہت بالا خیال کر رہی تھی اور سمجھ رہی تھی کہ میرا رشید ایسے معمولی انسان سے تعلق رکھنا یقیناً انسانیت کی توہین ہے۔ اس لیے اس نے فیصلہ کر لیا اور حیدر سے کہہ دیا کہ میں ہر وقت کلکتہ جانے کے لیے تیار ہوں خواہ رشید سے میرا تعلق رہے یا نہ رہے۔
حیدر کو اس جواب پر ذرا بھی تعجب نہ ہوا کیونکہ اس نے رابعہ کی طبیعت کا اندازہ کرکے جس افسوں سے کام لیا تھا وہ کبھی ناکامیاب ہو ہی نہیں سکتا تھا اور اسے یقین تھا کہ اس وقت وہ اس عالم میں ہے کہ اگر رشید سامنے ہوتا تو اسے اپنے ہاتھ سے ہلاک کرنے میں بھی عذر نہیں کر سکتی تھی۔
رشید کو یقین تھا کہ اس کی چند ماہ کی غیرحاضری نے رابعہ کی مزاجی حالت میں بہت تغیر پیدا کر دیا ہوگا اور اب وہ زیادہ امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرےگا، اسی لیے وہ بمبئی سے تار دے کر نہایت شوق کے ساتھ رابعہ کی آمد کا انتظار کر رہا تھا، لیکن جب دو دن تک نہ اس کا کوئی جواب آیا اور نہ وہ خود آئی، تو اس کو تشویش پیدا ہوئی اور وہ بغیر مزید انتظار کیے ہوئے سیدھا لکھنؤ پہنچنا چاہتا تھا کہ ایک تجارتی معاملہ کے متعلق اس کو رنگون جانا پڑا، اس لیے اس نے رابعہ کو دوسرا تار بھیجا کہ ’’اب بجائے بمبئی جانے کے سیدھی دہلی پہنچئے، میں بھی دس دن کے بعد رنگون ہوتا ہوا وہاں پہنچ جاؤں گا۔‘‘
لیکن یہ تار اس وقت پہنچا جب رابعہ لکھنؤ چھوڑ چکی تھی اور اس کے والد مولوی عبداللہ نے غیرت و شرم کے مارے گھر سے باہر نکلنا ترک کر دیا تھا۔
گراؤنڈ ہوٹل کلکتہ کی بالائی منزل پر ایک کمرہ میں حیدر اور رابعہ ایک ہفتہ سے مقیم ہیں اور اتنے عرصہ میں کلکتہ کی حسنِ پرور اور نشہ بخش فضا جتنی لذتیں اور سرشاریاں مہیا کر سکتی ہے، وہ سب ان کو حاصل ہیں، حیدر کا مکر و فریب آہستہ آہستہ اپنی گرفت کو مضبوط کرنا چاہتا ہے اور رابعہ کی سادہ دلی رفتہ رفتہ اخلاق کی تمام پابندیوں سے آزاد ہوتی جاتی ہے، یوں تو لکھنؤ کے زمانۂ قیام ہی میں حیدر نے فلسفۂ اخلاق کے بہت سے نکات اس کو سمجھاکر ضرورت سے زیادہ آزاد بتا دیا تھا، لیکن اب کلکتہ آکر تو بےشرمی و بے عصمتی کی کوئی ادا ایسی نہ تھی جو اس نے رابعہ پر مسلط نہ کر دی ہو، چارشف اور اس کا نقاب نوچ کر پھینک دیا گیا، پردہ سے دفعتاً باہر آتے وقت جو فطری جھجک ہونی چاہیے دور ہو گئی اور وہ حیدر کے ساتھ دن کے وقت موٹر پر اس طرح بےحجابانہ پھرنے لگی گویا کبھی اس کے خاندان میں یہ رسم تھی ہی نہیں، وہ حیدر کے ساتھ سنیما میں جاتی تھی، تھیٹروں میں اس کی آغوش میں سوتی تھی، ہوٹلوں میں چھری کانٹے سے کھانا کھاتی تھی اور آبدار خانوں میں خم کے خم لنڈھاتی تھی۔ الغرض ایمان و اخلاق عصمت و شرافت کے تمام جذبات اس کے دماغ سے محو ہو چکے تھے اور اپنے خیال میں وہ ایک ایسی زندگی بسر کر رہی تھی جس کے لیے وہ وضع ہوئی تھی اور حیدر کی امید افزا باتیں اسے ساری عالم سے بےنیاز کئے ہوئے تھیں۔
الغرض رابعہ کی اس معصیت کوش زندگی کے ایام گزرتے گئے اور حیدر کے مواعید نے اسے ایک لمحہ کے لیے بھی یہ سوچنے کا موقعہ نہ دیا کہ اس کی موجودہ حالت کیا ہے اور اس کا انجام کیا ہوگا۔ پبلشر کے متعلق حیدر روز یہی کہہ دیتا ہے کہ وہ اب تک بمبئی سے واپس نہیں آیا اور رابعہ روز اس کا یقین کر لیتی ہے۔ آخر کار جب پندرہ دن کے اندر حیدر اپنے تمام مقاصد میں کامیاب ہو گیا اور اپنی کامیابی سے بھی سیر ہو گیا، تو اس نے ہوٹل میں آخری مرتبہ حد درجہ تکمیل کے ساتھ سامان نشاط مہیا کرکے اور انتہائی کیفیات لذت سے سرشار ہونے کے بعد اس افسانہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔
رابعہ جب صبح کو دس بجے کے قریب بیدار ہوئی تو اس کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ کمرہ کچھ سنسان سا نظر آ رہا ہے اور حیدر موجود نہیں ہے۔ اس نے خیال کیا کہ باہر کسی ضرورت سے گیا ہوگا، لیکن جب اس نے زیادہ غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس کا اسباب بھی غائب ہے، یہ خیال کرکے کہ شاید چوری ہو گئی ہے وہ مضطرب ہوکر اٹھی اور اپنے بکس کو بھی کھلا ہوا پایا، لیکن کپڑے سب موجود تھے، زیادہ تلاش کی تو معلوم ہوا کہ چھوٹا بکس جو رشید کا عطیہ تھا اور جس میں کم از کم چھ ہزار کا زیور تھا، موجود نہیں ہے۔ اب اس کو بالکل یقین ہو گیا کہ رات کو اس کے کمرہ میں چوری ہو گئی۔ لیکن یہ بات اس کی سمجھ میں نہ آئی کہ چوروں نے صرف حیدر کا اسباب کیوں چرایا اور سوائے زیور کے میرے سامان کو کیوں ہاتھ نہیں لگایا۔ اسی کے ساتھ اس کو فکر ہوئی کہ حیدر کہاں ہے، یقیناً اس نے مجھ سے پہلے اس چوری کا حال معلوم کر لیا ہوگا۔ غالباً وہ پولیس کو اطلاع دینے گیا ہے، لیکن یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ مجھے بیدار نہ کرتا۔ الغرض وہ اسی عالم اضطراب میں سراسیمہ ادھر ادھر دوڑ رہی تھی، کہ کونے کی میز پر اسے ایک چمکدار چیز نظر آئی۔ وہاں جاکر دیکھا تو وہ ایک آبدار چھری تھی جس کے نیچے ایک تحریر دبی ہوئی تھی، ’’میں آپ سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوتا ہوں اور ان لذتوں کے معاوضہ میں جو آپ کو میرے ذریعہ سے حاصل ہوئی ہیں آپ کے زیور کا بکس لیے جاتا ہوں۔ آپ میری جستجو نہ کیجیےگا کیونکہ میرا نام اور پتہ آپ کو سب غلط معلوم تھا۔ مجھے اس امر کا کامل احساس ہے کہ آپ نے ہمیشہ میری ہر بات کو نہایت لطف سے مانا اور کبھی میری خواہشات کی مخالفت نہیں کی۔ اس کے اعتراف میں یہ چھری پیش کرتا ہوں، کیونکہ دنیا میں اس قدر لذتیں حاصل کر لینے کے بعد غالباً آپ کو زیادہ جینے کی تمنا نہ ہوگی۔‘‘
اس کے بعد رابعہ نے کیا سوچا اور کیا کیا، اس کی تفصیل تو معلوم نہیں، لیکن شام کے وقت کلکتہ کے ہر اخبار میں یہ عنوان ضرور جلی حرفوں سے نظر آتا تھا کہ،
’’گرانڈ ہوٹل میں ایک خاتون نے خودکشی کر لی۔‘‘
مصنف:نیاز فتح پوری