میری ناتمام محبت

0
119
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جسے اپنے سے دوگنے عمر کے مرد سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس کے والدین کھلے مزاج کے ہیں اور ہر فیصلے میں اپنی بیٹی کے مشورے کو ترجیح دیتے ہیں، ان سب کے باوجود وہ اس مرد سے شادی نہیں کر پاتی ہے۔‘‘

ایک صبح میں بالا خانے سے نیچے جارہی تھی کہ کمرہ ملاقات میں مجھے گفتگو کی آواز سنائی دی۔ جھانک کر دیکھا تو زبیدہ دادی ایک مخملی صوفے پر بیٹھی ہوئی اپنی ایک بوڑھی سہیلی سے کہہ رہی تھیں، ’’کل ہمارے خط کے جواب میں روحی کے والد کے پاس سے خط آگیا! وہ عنقریب یہاں آنے والے ہیں اور روحی کی شادی کر دینا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گیے۔ آنسوبے اختیار میرے رخسار پر بہہ نکلے، میں خود کو سنبھالنے کے لیے کسی قدر باغ کے زینے پر نکل آئی۔ زینے کے پاس سبز سبز دوب پر بیٹھ گئی۔ باغیچے میں مشرقی ممالک کا آفتاب چمک رہا تھا۔ خو ش رنگ مکھیاں حنا کے پھولوں پر بیٹھی رسیلے راگ گا رہی تھیں۔ پاس ہی شاہ بلوط پر کوئی ایک چھوٹا سا پرندہ بیٹھا سریلی سیٹیاں بجا رہا تھا۔ آہ۔۔۔ یہ کہیں میری ناکام زندگی پر نوحہ نہ کر رہا ہو! کہیں اسے میری بربادی کی خبر نہ پہنچ گئی ہو۔

شادی! اف میں بچپن سے ہی شادی کو ایک عذاب سمجھتی تھی۔ شادی جس کے معنی ہیں زندگی کی شعریت کا اختتام! خاتمہ!!! آہ ایسی ستم انگیز چیز کون سی افسانہ پسند روح پسند کرے گی۔

میرا چہرہ سرخ ہوگیا۔ میرا دل زندگی سے بے زار ہو چلا تھا۔ اس شام دنیا میرے لئے ایک تاریک غار بن گئی تھی۔ دفعتاً میری نظریں اٹھیں دیکھا تو کیپٹن فکری باغ کے پرلے سرے پر ٹہل رہے تھے اور کوئی کتا ب دیکھ رہے تھے۔ آہستہ آہستہ وہ میرے قریب آئے۔

’’صاحب زادی نیچے اتر آؤ باغ میں۔‘‘ مگر میں نے چہرہ چھپا لیا تاکہ وہ میرا مغموم چہرہ نہ دیکھ لیں۔

- Advertisement -

’’کیا بات ہے میری بیچاری کمسن روحی؟ نیچے اتر آؤ۔‘‘ میں باغ میں چلی گئی مگر فکری کی طرف سے میرے دل میں غبار تھا کیوں کہ انہوں نے میرے خلاف بغاوت کی تھی۔ انہوں نے دادی جان کی طرف سے والد کو خط لکھ کر انہیں میری شادی کردینے پر آمادہ کیا تھا۔ کیپٹن فکری نے میرا منہ اوپر کیا۔ اسے آفتاب کی روشنی میں بغیر دیکھے کہنے لگے، ’’شعلے کی طرح سرخ ہو رہی ہو! آنسو! ننھی بچی! مجھے آنسو پسند نہیں۔‘‘ میں نے اپنا چہرہ دوسری طرف کرلیا اور رونے لگی۔

’’روحی۔۔۔!‘‘ انہوں نے کہا۔ پھر میرے بالوں پر شفقت سے ہاتھ پھیر کر کہنے لگے ’’کیا مجھ سے خفا ہو؟ کیا خطا ہوئی مجھ سے؟‘‘ میں نے آنسو خشک کرلیے ’’بہت بڑی خطا۔‘‘ میری زبان سے نکلا۔ یہ سن کر وہ مجھ پر جھک پڑے۔ ’’ایں! میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے ؟ تم میری ننھی سی دوست ہو اور اگر میں نے ناداستگی میں کوئی گناہ کیاہے تو خدا کے لئے ضرور بخش دو اور مجھے میری غلطی سے آگاہ کرو!‘‘

میری آواز لرز رہی تھی۔ جب میں نے کہا، ’’نادانستگی میں نہیں بلکہ سب کچھ جانتے ہوئے آپ نے۔۔۔ ایسا کیاہے۔ آہ میں نے آج تک آپ کو اپنا۔۔۔ اپنا۔۔۔ (مسلسل آنسو) خیر خواہ۔۔۔ سچا ہمدرد سمجھا تھا۔‘‘

’’ہاں میر ی بچی ! میں اب بھی تمہارا ایسا ہی ہمدرد ہوں۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں اور انشاء اللّد ہمیشہ کرتے رہیں گے۔‘‘

میرے دل پر ایک چوٹ سی لگی۔ آہ ! نہ جانے کیوں۔ ادھر چند دنوں سے محبت کے نام ہی سے میرے دل پر ایک چوٹ سی لگتی ہے۔ انہیں دنوں میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں کسی سے محبت کررہی ہوں مگر مجھے یہ ٹھیک ٹھیک معلوم نہ ہوسکا تھا کہ میں دراصل کس سے محبت کرتی ہوں۔ میری اس خاموشی پر فکری متفکر ہوگیے۔

’’روحی! انشاء اللّد ہم ہمیشہ محبت کریں گے! میں ا ب بھی تمہارا سچا ہمدرد ہوں۔‘‘

میرے منہ سے ایک آہ نکل گئی، ’’نہیں میرے مہربان ! آہ تم اب بدل گیے ہو! کیا تم اس حقیقت سے لاعلم ہو۔۔۔ (ایک چھوٹی سی ہچکی) کہ میں۔۔۔ مجھے۔۔۔ شہباز سے محبت نہیں۔۔۔ اس کو جانتے ہوئے بھی تم نے میرے والد کو خط لکھا کہ میری شادی شہباز سے جلدی سے کردی جائے اور۔۔۔ آہ۔۔۔ آہ۔۔۔ اور۔‘‘

’’کہوں کہوں روتی کیوں ہو؟‘‘

پھر میں کہنے لگی، ’’کیا آپ نے ایک دفعہ نہیں کہا تھا کہ آپ میرے بہترین رفیق ہیں؟ آہ۔۔۔ جناب آپ نے بہت بڑا گناہ کیا!‘‘

کیپٹن فکری کا چہرہ سفید ہوگیا۔ انہوں نے ایک آہ سرد بھری پھر مجھے کھینچ کر سینے سے لگا لیا، ’’میر ی پیاری چھوٹی روحی! میں کیا کروں؟ تمہارے کل خاندان کی یہی خواہش ہے! تم اپنی دادی کے خلاف کام نہ کر سکوگی۔ بہ بڑی ہی معقول عورت ہیں اور ذرا خیال توکرو آخراس میں برائی کیاہے ؟ تمہارا منسوب خوبصورت ہے۔ تمہارا قریبی عزیز ہے۔ نوجوان ہے اور اعلی درجے کا تعلیم یافتہ ہے !‘‘ یہ کہہ کر وہ مجھے پیار کرنے لگے۔

میں رو پڑی، ’’ساتھ ہی بدمذاق اور کم فہم بھی ہے۔ اس کے خیالات سے مجھے اختلاف ہے! وہ محل کی اکثر لونڈیوں اور کنیزوں۔۔۔‘‘ مگر انہوں نے مجھے روک دیا، ’’ہش! کوئی بات نہیں، رفتہ رفتہ دونوں آپس میں محبت کرنے لگوگے۔‘‘ میں دفعتاًبول اٹھی، ’’اس معاملہ میں مشرق ہمیشہ غلطی کرتا ہے۔ نفرت محبت میں تبدیل ہو سکتی ہے؟ ناممکن! آہ کیپٹن ! یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ تم میری دادی اور ان کے پوتے کی سفارش کرتے ہو؟ تم کبھی کامیاب نہ ہوگے! میں نہ مانوں گی! تم مجھے دائمی مصیبت میں پھنسانے پر تلے ہوئے ہو۔‘‘ یہ سن کر کیپٹن فکری پریشان ہو گیے اور تھوڑی دیر بعد مجھے بغور دیکھ کر بولے، ’’روحی ایک سوال کا جواب دوگی؟‘‘

’’پوچھیے۔‘‘

’’تم کسی سے محبت تونہیں کرتی ہو؟‘‘

’’مجھے خود شبہ ساہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

’’او۔۔۔ یہ معاملہ ہے! اب میں تمہاری نفرت کے رازکو پہچان گیا۔ (میرا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر) اچھا چھوٹی لڑکی! اب مجھے ایک اچھی بچی کی طرح بتادو۔ وہ کون شخص ہے جس سے تم کو محبت ہے۔‘‘

’’آپ بڑے ہمدرد بن کر ان سب باتوں کو نہ کریدیں۔‘‘ میں نے ایک روٹھی ہو ئی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ انہوں نے دھیمے لہجے میں کہا، ’’مجھے بتانے میں کیا ہرج ہے؟‘‘

’’میں مناسب نہیں خیال کرتی ، قبل از وقت کوئی بات اچھی نہیں معلوم ہو تی۔‘‘

’’مگر۔۔۔ اب وقت آگیاہے۔ تم اپنے دل کی بات ظاہر کردو۔ ورنہ وقت گزر جائے گا اور تم پچھتاؤگی۔‘‘

میں بھی یہ سن کر سوچنے لگی، ’’مگر مجھے خود نہیں معلوم، مشکل تو یہ کہ میں خود نہیں جانتی کہ میں کس سے محبت کرتی ہوں؟‘‘

’’یہ تو ناممکن ہے۔‘‘ فکری کہنے لگے، ’’یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ تم اپنی موضوع محبت سے ناواقف ہو ، کیا تم اپنی دادی کے کسی افسر سے محبت کرتی ہو؟‘‘

’’ہاں کچھ ایسا ہی ہے۔‘‘

’’وہ کون افسر ہے ؟‘‘ انہوں نے اشتیاق سے سوال کیا۔

’’میں کیسے کہہ سکتی ہوں کہ کون ہے ؟ بہر حال اس وقت میرے پیارے کپتان ! تم میری مدد کرو۔‘‘ یہ کہہ کر میں ان سے لپٹ گئی اور خاموش ہوگئی۔ فکری نے ایک متفکر نظر مجھ پر ڈالی۔

’’پیاری روحی یہ بڑی ٹیڑھی کھیر ہے! تم اپنے منسوب سے راضی نہیں ہو۔ ایک اور شخص پر مرتی ہو اور اس شخص کا پتہ نشان بھی تم ٹھیک ٹھیک نہیں بتاتیں۔ اس پر طرہ تمہاری دادی کا مزاج، ان سے کسی قسم کی رحم کی توقع کرنا فضول ہے! میری غریب بچی خدا تم پر رحم کرے۔ بہتر تو یہی ہے کہ تم اپنے دل کو سنبھالواور شہباز کی بیوی بنو!‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے ایک آہ کھینچی۔ پھر جھک کر میرے چہرے کو پیار کیا، ’’شہباز کی بن جاؤگی نا؟‘‘

یہ سن کر میں نے حقارت سے شانے سکوڑے، ’’آہ تم کس قدر سنگ دل ہو! کاش تمہاری شادی کسی ایسی عورت سے ہونے لگے جس تمہیں دلی نفرت ہو! میری دلی دعا ہے۔ پھر تمہیں معلوم ہوجائے!‘‘ یہ سن کر کپتان فکری زور زور سے ہنسنے لگے۔ ان کا چہرہ گلابی ہو گیاتھا۔ ان کی ہلکی آسمانی رنگت کی آنکھیں جگمگا اٹھیں۔ بولے ’’تمہاری یہ دعا کبھی قبول نہیں ہو سکتی ! میں کبھی شادی کروں گا ہی نہیں!‘‘

دوسرے ہفتے میں علیل ہو گئی۔ میں مدت العمر اپنی زندگی کے ان واقعات کو نہیں بھول سکتی جوان ایام میں شوراک میں گزارے تھے اومالک! عجب دن تھے۔ میرے والد فرانس کی سیاحت سے واپس آگئے تھے۔ میری دادی شادی کی تیاریوں میں بڑے ہی اہتمام سے منہمک رہا کرتی تھیں مگرمیری علالت نے میرے والد اوردادی کی خوشیوں کو روک دیا تھا اورمیں دل ہی دل میں اپنی مبارک بیماری کو درازیِ عمر کی دعائیں دے رہی تھیں۔ دراصل شدت، نفرت اور صدمے نے مجھے صاحب فراش کر دیا تھا۔

میں اوپر کی منزل کے ایک آسمانی رنگت کے کمرے میں رکھی گئی تھی جہاں خوش گلوچڑیاں دن بھر شیریں نغمے الاپا کرتی تھیں اور حناکی کلیوں کی خوشبو مہکا کرتی تھی۔ میری علالت کے دوران زبیدہ دادی خلاف توقع مجھ پر بہت مہربان رہیں۔ بات یہ تھی اب ان کو یقین ہوگیا تھا کہ میں ان کی خوشیوں پر بے چوںوچرابھینٹ چڑھا دی جاؤں گی۔ اب سختی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔۔۔ اب ہرن دام صیاد میں پھنسنے کے لیے خود تیار ہوگیا تھا۔

وہ بہار قرمزی رنگ کی شام تھی۔ والد ندی کی سیر کے لیے کشتی پر چلے گیے تھے۔ دادی جان نیچے کمرۂ ملاقات میں لوگوں سے ملاقات کر رہی تھیں۔ میں اپنے کمرے میں دریچے کے پاس کوچ پر لیٹی ہوئی باہر کا منظر دیکھ رہی تھی۔ کشتیاں ندی میں تیر رہی تھیں۔ آفتاب غروب ہورہا تھا۔ اتنے میں کسی نے دروازے پر اطلاعی گھنٹی بجائی۔ میں سمجھ گئی کہ کیپٹن فکری میرے لئے ڈاکٹر لائے ہیں کیوں کہ ڈاکٹر کے آنے کا یہی وقت تھا۔ ڈاکٹر نے مجھے لیٹے رہنے کی تاکید کی اورکہا کہ بخار تیزہے۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد کیپٹن فکری میرے پاس آکر کہنے لگے، ’’چھوٹی روحی! تم بخار میں بھن رہی ہو ! میں تمہارے پاس رہوں گا! افوہ! کس قدر گرمی ہے! برقی پنکھا کھول دوں؟‘‘

’’کھول دیجئے۔۔۔‘‘ میں نے کہا، پھر کسی قدر وقفے کے بعد بولی، ’’آپ باہر تشریف لے جائیں آپ کو کمرے میں بہت گرمی محسو س ہورہی ہوگی۔‘‘ یہ سن کر وہ مسکرائے، ’’معلوم ہوتا ہے تم مجھ سے اب تک سخت ناراض ہو! نہیں روحی! میں باہر نہیں جا سکتا! تم بہت بے چین ہو۔ میں مادام زبیدہ کے آنے تک تم کو تنہانہیں چھوڑ سکتا! (میری پیشانی چوم کر) میں جانور نہیں کہ تمہیں تنہا چھوڑدوں۔‘‘

’’کنیزیں؟‘‘ میں نے سوال کی۔

’’کنیزں کی صحبت تم جیسی اعلی ضاق لڑکی کو پریشان کر دے گی۔ کبھی خوش نہ کرے گی۔ میں یہاں رہوں گا! ! (جھک کر میرے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ) روحی پیاری! میں تم کو تنہا نہ چھوڑوں گا!‘‘

میں نے طنزاً کہا، ’’جیسے آپ میرے بڑے ہمدرد ہیں!‘‘ رقت سے میری آوازبھراگئی۔ ’’علالت سے سخت پریشان ہیں۔‘‘

’’میری پریشانی کا اندازہ تم نہیں لگا سکتیں!‘‘

’’میری علالت کے بانی آپ لوگ ہیں۔ نہ میری نسبت شہباز سے ہوتی نہ آج میں علیل ہوتی۔‘‘ میں رونے لگی۔

’’آخر تم کو صاحب زادے سے اس قدر نفرت کیوں ہے؟‘‘

’’اس لئے کہ وہ میرے خیالات کے بالکل برعکس ہے! خیر کپتان اب اس تذکرے کو چھوڑیے! میرا جی گھبرارہاہے۔ کوئی کسی کا درد محسوس نہیں کر سکتا۔‘‘

’’میری جان تم بڑی زودرنج ہو! اچھا میں تم سے ایک سوال کروں گا۔ اس کا تو جواب دوگی نا ؟ بولومیری محبوب لڑکی؟‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے میرا ایک ہاتھ اٹھا لیا۔ میں چڑگئی، ’’نہیں، آپ بڑے خیرخواہ بن کر ان باتوں کونہ کریدیں۔ میں سمجھتی تھی آپ برے وقت میں میری مدد کریں گے۔ مگر۔۔۔!‘‘

کیپٹن فکری کا چہرہ گلابی ہوگیا۔ انہوں نے جھک کر میری پیشانی چومی، کہنے لگے، ’’میری بچی میں تمہاری مدد کرنے کو تیارہوں۔ تم مجھے دنیا میں سب سے پیاری ہو۔ تم جانتی ہو میں نے شادی نہیں کی۔ تم یہ بھی جانتی ہو دنیا میں میرا کوئی عزیز زندہ نہیں رہا۔ یہی سبب ہے کہ میری تمام توجہ، تمام محبت بلا شرکت غیر صرف تمہارے لیے ہے۔ میں نے بچپن سے تم کو دیکھا بھالاہے۔ میں تم کو بچپن ہی سے بہت پیار کرتاہوں۔ اب بھلا یہ کیوں کر ممکن ہے کہ میں تم سے پہلو تہی کروں یاتمہاری مددنہ کروں؟ میں تم سے ایک سوال کرتاہوں، مجھے اس کا جواب دو۔‘‘

ان کی اس لمبی محبت بھری تقریر کو سن کر میں ان سے لپٹ کر زاروقطار رونے لگی۔ ان ایام میں مجھے رونا بہت جلد آ جایا کرتا تھا۔ موسم بھی بہت گرم تھا اس لئے آنسوتھمتے نہ تھے۔

’’روتی کیوں ہو؟ اس قدر نہ رو میری غریب روحی! ایں تمہارے بال کس قدر سنہرے اور خوبصورت ہیں۔ تمہارے ہاتھ کیسے نرم و نازک ہیں۔‘‘

’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ کیا سوال ہے؟‘‘ میں نے بمشکل پوچھا۔ وہ سنبھل کر کہنے لگے، ’’ہاں روحی۔۔۔میرا سوال یہ ہے، آخر تم کس سے محبت کرتی ہو؟ روحی کہو، تم مجھے اپنا ہمدرد خیرخواہ اپنا بزرگ سمجھتی ہو کہنے میں کیا ہرج ہے۔‘‘ میں سر اوپر اٹھاکر مسکرانے لگی، ’’تم کو میں اپنا ہمدرد اپنا خیرخواہ اپنا بزرگ خیال نہیں کرتی۔‘‘

’’تم بڑی شریر ہو۔‘‘ ان کی اس غیر معمولی محبت پر مجھے تعجب ہوا۔ میں نے غور سے دیکھا۔ پھر ان کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے۔ کہنے لگی، ’’کپتان صاحب پہلے آپ میری مدد کریں، پھر یہ سب سوال دہرائے جا سکتے ہیں۔‘‘

’’ننھی جان تم بڑی دیوانی ہو، سب سے پہلے مجھے معلوم ہونا چاہئے کہ تم محبت کس سے کرتی ہو؟‘‘ میں نے کو ئی جواب نہ دیا۔ میرا دل دھڑکنے لگا۔ میں نے یاسمین کے پھولوں کو بکھیر دیا اور ٹالنے کے لئے کہنے لگی، ’’دریچے سے کیسی گرم مگر خوشگوار ہوا آرہی ہے۔‘‘ کپتان بولے اس کی پروانہ کرو۔ اسے آنے دو۔ تم میرے سوال کا جواب دو۔‘‘ میں پھر خاموش ہوگئی۔ صرف اتنا کہا، ’’آج آسمان کس قدر نیلاہے۔‘‘ کپتان نے سگریٹ جلا کر کہا، ’’آسمان نیلاہے تو اچھی بات ہے۔ تم میرے سوال کا جواب دو۔‘‘

’’کیا دادی نیچے ملاقات کررہی ہیں؟‘‘

’’انہیں وہیں رہنے دو۔ اس سے تمہارا کیا بگڑ جائے گا؟ تم ٹالتی ہو، میں نہ مانوں گا۔ میں آج تم سے ضرور سنوں گا۔‘‘

’’آخرآپ کو ایسا خیال ہی کیوں پیدا ہوا؟ اگرمیں یہ کہوں کہ میں نے آج تک کسی سے محبت ہی نہیں کی توآپ یقین کرلیں گے؟‘‘

فکری مسکرائے، ’’ہرگز نہیں!‘‘ انہوں نے انکا ر کردیا ، ’’میں کبھی یقین نہ کروں گا۔‘‘

(پھر ذرا ہنس کر)

’’روحی! میں ایسا دیوانا نہیں ہوں۔ تم کسی سے محبت ضرور کرتی ہوگی؟‘‘ وہ مسکراکر مجھے دیکھنے لگے، ’’اگر میں تمہارے محبوب کا نام بتادوں تومجھے معاف کردوگی؟‘‘ کہتے ہوئے انہوں نے اپنا ہاتھ میری گردن پر حمائل کر دیا۔ میں گھبراہٹ محسوس کرنے لگی مگر بولی، ’’واہ! اس میں معاف کرنے کی کیا بات ہے بلکہ آپ کی ذہانت کی داد دوں گی۔‘‘

وہ دیر تک مسکراتے رہے۔ کبھی سگریٹ کو دیکھتے کبھی کرسی پر دراز ہوجاتے۔ کبھی کچھ سوچنے لگتے۔ ایک دفعہ تو انہوں نے سوچتے عالم بے خبری میں مجھے اٹھا کر بٹھا دیا۔ میں تنگ آکربولی، ’’کیپٹن آپ کو کس پر شبہ ہے؟‘‘

’’کیا سچ مچ بتا دوں؟‘‘

’’ضرور!‘‘

’’روحی ! میں کیا بتاؤ مجھے شبہ ہے کہ تم مجھ سے ہی محبت کر تی ہو!‘‘

الٰہی الٰہی۔۔۔ یہ الفاظ نہ تھے۔ ایک بجلی سی مجھ پر گری۔ مختلف جذبات نے مجھے وارفتہ بنا دیا۔ کچھ انکشاف راز کا رنج ، کچھ شرم، کچھ غصہ اور ناکامی کا خیال۔ میں نے اپنا چہرہ شال میں چھپا لیا اور دل کھول کر رونے لگی۔ کپتان گھبراگیے، ’’کیا میں نے غلطی کی ہے۔ میں تم سے معافی چاہتا ہوں۔‘‘

اتنے میں زبیدہ خانم کے قدموں کی آواز آئی۔ وہ اندر داخل ہوئیں، ’’فکری صاحب! آپ کو بڑی تکلیف ہوئی۔ اب روحی کا مزاج کیسا ہے؟ آپ کی موجودگی سے وہ بہت خوش رہی ہے۔ جب تک وہ تندرست نہ ہو جائے آپ کے زیر نگرانی رہے گی۔‘‘

’’آپ کا شکریہ مادام۔‘‘ فکری اٹھ کھڑے ہوئے۔ دوپہر بہت گرم اور اوربے حد روشن تھی۔ بلبل صبح ہی سے گلا پھاڑ پھاڑکر چیخ رہی تھی۔ میں نے اس گرم دوپہر میں ایک سفید ریشمی لباس زیب تن کیا اور نچلی منزل میں اتر آئی۔

کتب خانے میں مجھے میرے والد اور فکری مصروف گفتگونظر آئے۔ جب میں اندر گئی تو دونوں نے مجھے محبت سے دیکھا۔ مگر فکری نے حسب معمول بزرگانہ شفقت سے میری پیشانی نہیں چومی۔ وہ کس قدر اداس نظر آرہے تھے اور والد خاموش تھے۔ دادی کا پتہ نہ تھا۔ شاید وہ چوتھی منزل میں تصویر کشی میں مصروف تھیں۔

’’آج آپ دونوں کو کیاہوگیا؟‘‘ میں نے ذراشرمیلی آواز میں پوچھا، ’’کچھ نہیں نور نظر!‘‘ میرے والد نے جواب دیا۔ پھر کہنے لگے، ’’تمہاری طبیعت آج کیسی ہے؟‘‘

’’اب تک تو اچھی ہوں۔‘‘

’’اس کے معنی؟‘‘ میرے والد نے میری پیشانی پر ہاتھ رکھ کر پوچھا، ’’ماتھا گرم تونہیں ہے؟‘‘

’’جی نہیں۔‘‘

’’کیپٹن!‘‘ میرے والد کہنے لگے، ’’آپ کو لڑکی کا چہرہ بیمار تو نظر نہیں آتا؟‘‘

’’جی نہیں جناب! چہرہ تو بہت دلفریب اور شگفتہ ہے۔‘‘

میرے والد نے مجھ پر متفکر نظرڈالی، ’’روحی تم ہمیشہ باغ میں ٹہلا کرو۔ تازہ پھل کھاؤ۔ مزاحیہ کتابیں پڑھواور دل خوش رکھنے کی کوشش کرو۔‘‘

’’جی۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے دروازہ کھولا اور باغ میں اترگئی۔ کتب خانے کے دریچے کے نیچے ہری ہری دوب پر ٹہلنے لگی۔ آفتاب مدھم تھا مگر گرمی بہت تھی۔ آج سنہری ریت ہوا میں اڑرہی تھی جس سے سانس رک جاتا ہے۔ لیموکے پھولوں کی خوشبوباغیچے کو نہایت دلکش بنا رہی تھی۔

’’میں نہایت پریشان ہوں۔‘‘ میں نے اپنے والد کی آواز سنی۔ ’’معاملہ ہی کچھ ایسا نازک ہے۔ والدہ بہت سختی سے رواج کی پابند ہیں۔ آخر روحی کے کیا خیالات ہیں؟ کیا آپ کو ان کا کچھ علم ہے۔‘‘

میں بڑی بے چینی سے کیپٹن کے جواب کا انتظار کرنے لگی مگر بہت دیر تک مجھے مایوسی ہوئی۔ چند منٹ کے بعد میں نے ان کی آواز سنی، ’’میرا خیال ہے کہ صاحبزادی روحی کو شہباز سے محبت نہیں ہے۔‘‘

یہ سن کر میرے والد کی آوازبہت افسردہ ہوگئی، ’’توپھر وہ کسے چاہتی ہوگی؟ او بلندآسمان ! عجب کشمکش ہے! فکری صاحب میں آپ کا بہت ممنون ہوں گا اگر آپ میری لڑکی کے بارے میں دلچسپی لیں اور اس باب میں میری مدد کریں، آپ روحی سے دریافت کریں کہ وہ کس سے محبت کرتی ہے۔ آپ سے وہ بے تکلف ہے۔ ضرور آپ سے کہہ دے گی۔‘‘

’’مگر آپ یہ کیوں دریافت کرتے ہیں، کیاآپ اپنی لڑکی کو ایسے شخص سے بیاہیں گے جس سے آپ کی لڑکی محبت کرتی ہے؟‘‘ فکری نے ایک عجب انداز سے سوال کیا۔

’’بے شک بے شک! میرے والد کی آواز بہت گہری ہوچلی تھی، ’’میری عقلمندی اسی میں ہے کہ میں روحی کو اسی شخص کے سپرد کر دوں جس سے وہ محبت کرتی ہے۔‘‘

’’فرض کیجئے۔۔۔‘‘ کیپٹن فکری تھوڑی دیر خاموش رہ گئے۔ پھر کہنے لگے، ’’فرض کیجئے وہ ایک ایسے شخص کو چاہتی ہے جسے آپ ناپسند فرماتے ہیں۔‘‘

’’مگر وہ ان لوگوں سے ملتی جلتی ہی نہیں جنہیں میں ناپسند کرتا ہوں۔ اس لیے مجھے بہ ظاہر یہ امید نہیں کہ وہ ایسے نا پسندیدہ آدمی کو چاہے گی۔‘‘

یہ سن کر فکری نے اور پیچیدہ سوال کیا، ’’معاف کیجیے، اگر معاملہ ہی ایسا ہو تو آپ کیا کریں گے۔‘‘

’’میں اسے نرمی اور محبت سے سمجھاؤں گا۔‘‘

’’اور اگر اس پر بھی وہ اپنی محبت سے باز نہ آئے توکیا کیجے گا۔‘‘

’’پھر تو فکری صاحب! بے چوں و چرا اس کی بات مان لینی پڑے گی۔‘‘

اب فکری کی آواز بڑی سریلی ہو چکی تھی، ’’یعنی آپ اپنی لڑکی کو اجازت دیں گے کہ وہ اپنے منتخب شخص سے شادی کر لے۔‘‘

’’ہاں یقیناً۔۔۔ مگر وہ کون شخص ہے؟‘‘

’’تو۔۔۔ مجھے عرض کرنے دیجیے۔۔۔ میرا خیال ہے کہ جناب یہ شرف بندے کو حاصل ہے۔ میں صاحب زادی روحی کا خواستگار ہوں۔‘‘

تھوڑی دیر میں نے گفتگو کی آواز سنی۔ معلوم ہوتا تھا کہ میرے والد کو حیرت نے بت بنا دیا ہے۔ یہ غیر متوقع جملے ان کی سمجھ سے بالا تر تھے، ’’میرے خدا۔۔۔ او بلند معبود! یہ کیا فرما رہے ہیں آپ۔۔۔روحی جتنی بچی۔۔۔‘‘

’’مگر جناب میں۔۔۔ میں یقیناًبوڑھا نہیں ہوں۔‘‘

میرے والد اب تک حیران تھے۔ ان کی آواز میں کپکپی تھی۔ کہنے لگے، ’’نہیں۔۔۔ آپ کو بوڑھا کون کہے گا بھلا۔۔۔ انتالیس یا چالیس سال کا مرد بوڑھا نہیں کہلایا جا سکتا مگر۔۔۔ روحی کی عمر کا لحاظ کرتے ہوئے انتالیس سال بہت زیادہ ہیں۔ پیارے کیپٹن! ذرا غور تو کرو۔‘‘

میں یہ گفتگو نہایت غور سے سن رہی تھی۔ میرا دل، میری روح، میرا ضمیراس وقت ان کی گفتگو کا مطلب اخذ کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔ آہ! والد کیا کہیں گےوہ اب تک میرے متعلق ایک عمدہ رائے رکھتے تھے۔ اب وہ آیندہ مجھے ایک بری لڑکی سمجھیں گے۔ میرے خیالات کا سلسلہ ٹوٹنے بھی نہ پایا تھا کہ والد کی آواز آئی، ’’اچھا تو اس سے آپ کا مطلب کیاہے فکری صاحب! آپ اپنی محبت کو صرف ایک رومان کی حیثیت دینا چاہتے ہیں۔۔۔ یا۔۔۔ یا۔۔۔؟‘‘

’’جی نہیں جناب۔۔۔ میں آپ سے مؤدبانہ صاحب زادی روحی کے دست محبت کے لیے درخواست کرتا ہوں۔‘‘

’’میری بیٹی کا ہاتھ۔۔۔ تم اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہو؟‘‘ میرے والد نے کچھ اس بے ساختگی اور عجلت کے ساتھ یہ سوال کیا کہ میں بھی اپنی جگہ سہم گئی۔

’’میرا مطلب ہے۔۔۔‘‘ فکری صاحب نےنہایت سنجیدگی سے جواب دیاپھر کہنے لگے، ’’مجھے امید ہے جناب میرے کل حالات سے واقف ہیں اور میرے متلق رائے نیک رکھتے ہیں۔‘‘

’’بے شک بے شک۔۔۔ میں آپ کو بہترین دوست سمجھتا ہوں۔‘‘

’’میں ممنون ہوں۔‘‘ فکری نے دھیمی آواز میں کہا۔

’’مگر۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آتا عزیز من! تم نے آخر کیا سوچ کر روحی جیسی لڑکی سے۔۔۔ محبت کی ہے؟‘‘

’’آہ! محبت کیا سوچ سمجھ کر ہوتی ہے۔‘‘ میرے دل نے نعرہ بلند کیا۔

میرے والد نے تھوڑی دیر کے بعد پھر وہی سوال کیا، ’’آخر تم دونوں نے کیا سوچ کر ایک دوسرے سے اقرار محبت کیا؟‘‘

فکری مطمئن لہجے میں کہنے لگے، ’’کچھ نہیں۔۔۔ مجھے آپ کی لڑکی سے محبت ہے۔ میں نے بچپن سے اس کی تعلیم و تربیت میں دلچسپی لی۔ جناب من! کیا میں اس معاملے میں آپ سےنیک توقعات رکھ سکتا ہوں؟‘‘

’’عزیز من! سچ تو یہ ہےکہ میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘‘ میرے والد نے جواب دیا۔

کھڑکی سے مسلسل سگریٹ کا دھواں نکل کر باغ میں آ رہا تھا۔ روشن دھوپ چمکیلے پتوں پر پھیل رہی تھی۔ ہوا میں ایک سرور تھا۔ گرم موسم کا ایک پرند سامنے زرد لیموں کے درخت پر بیٹھا ایک رسیلا گیت گا رہا تھا۔ میں عین کھڑکی کے نیچے کھڑی تھی۔ دفعتاًمیں نے سر اونچا کرکے دیکھا تو مجھے اپنے والد کا چہرہ نظر آیا جو کسی قدر اداس تھا۔ انہوں نے اپنے دونوں پاؤں قالین پر پھیلا رکھے تھےاور صوفے پر نیم دراز تھے۔ ایک مصری سگار پی رہے تھےاور باتیں کرتے جاتے تھے، ’’ابھی میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘‘ انہوں نے دوبارہ کہا۔

’’نہ اس عجلت کی ضرورت ہے۔‘‘ فکری صاحب نے جواب دیا ، پھر بولے، ’’کیا جناب مجھ پر اعتماد فرماتے ہیں؟‘‘

’’مگر فکری صاحب! آپ مادام زبیدہ کی طبیعت سے مجھ سے کہیں زیادہ واقف ہیں۔‘‘

’’یہ تو مجھے اچھی طرح معلوم ہےکہ اپنے پوتے کے مقابلے میں کسی کا نام کسی کو اچھا نہیں لگتا۔ خانم اپنے پوتے پر فدا ہیں۔ مگر آپ روحی کے والد ہیں۔ اس کے خیالات سے کما حقہ واقفیت رکھتے ہیں ، اس کی خلاف مرضی کچھ کرنا بھی نہیں چاہتے ہیں۔‘‘

میرے والد نے جھک کر راکھ دان میں سگار رکھتے ہوئے کہا، ’’سچ تو یہ ہے کہ اب شہباز کے اخلاق کو میں مشتبہ نظروں سے دیکھنے لگا ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ روحی کا قدر دان شوہر ثابت نہ ہوگا۔‘‘

’’یہ نہیں کہا جا سکتا مگر اس کا کیا علاج ہے کہ خود صاحب زادی کو اس رشتہ سے انکار ہے۔‘‘

’’یہی تو غضب ہے۔ میرے والد نے کہا، ’’خدا ہی اس پیچیدہ معاملہ کو آسان کرے۔‘‘

’’خدا بڑ اکارساز ہے۔‘‘

’’اور وہی ہماری مشکلوں کو آسان کرے گا۔‘‘ یہ کہہ کر میرے والد نے فکری کو غور سے دیکھا۔ شاید وہ اپنے آئندہ داماد کو ناقدانہ نظر سے دیکھ رہے تھےاور اندازہ لگا رہے تھے کہ یہ شخص ان کی لڑکی کا شریک حیات بننے کی صلاحیت اور قابلیت رکھتا بھی ہے کہ نہیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ خود ہی کہنے لگے، ’’کوئی شک نہیں دوست، تم ایک دل پسند، خوش رونوجوان ہو اور تم یقینا میری لڑکی کو خوش رکھ سکو گے۔‘‘

ان واقعات کے بعد گھر کا عجب منظر تھا۔

میری دادی سخت غضب ناک ہو رہی تھیں۔ کپتان فکری اب گھر میں شاذ ہی نظر آتے تھے۔ میرے والد نہایت پریشان اور اداس نظر آ رہے تھے۔ شہباز حسب معمول اپنی زندگی کے مزے لوٹ رہا تھا۔ میں زندہ درگور تھی۔ یہ سب کچھ ایک طرف، میں آج تک پہچان نہ سکی کہ میرا عاشق کس مزاج کا آدمی تھا۔ میں اس کو بچپن سے دیکھتی آئی تھی مگر اب میری سمجھ ایک معمہ بن کر رہ گئی تھی۔ میں کچھ سمجھ نہ سکتی تھی کہ وہ مجھ سے محبت کر رہا ہے یا نفرت۔

ایک دن وہ صبح ناشتے کے بعد باغ کے ایک کوچ پر بیٹھےروزانہ اخبار دیکھ رہے تھے۔ گزشتہ دن سے مجھے سخت بخار تھا۔ میری حبشی خادمہ زوناش اتفاقیہ عین اسی جگہ باغ میں ٹہلانے لے آئی جہاں وہ بیٹھے تھے۔ آج کئی دن بعد ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا مگر یہ ملاقات کچھ اس قدر دل ریش ثابت ہوئی جس کا اثر میری صحت پر بہت برا پڑا۔ پہلے تو چند منٹ انہوں نے انجان بن کر اخبار پڑھا پھر اٹھ کر جانے لگے۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے غمگین لہجے میں آواز دی، ’’فکری۔۔۔ کیا میری مزاج پرسی بھی نہ کرو گے؟‘‘

یہ سن کر وہ محض اخلاقاً مڑ گیے۔ دھیمے لہجے میں بولے، ’’معاف کرنا۔۔۔ کیسی طبیعت ہے؟‘‘

زوناش کہنے لگی، ’’جناب! گزشتہ شب یہ بے چین رہیں، بی بی کی صحت اچھی نہیں۔ بہتر ہے کہ یہ سمندری سفر پر چلی جائیں۔‘‘

مگر فکری نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ ہری ہری دوب کو دیکھ رہے تھے۔ صبح کی خوش گوار ہوا میری فیروزی چادر کو ہلا رہی تھی اور میرے تنفس میں ایک الم ناک تبدیلی محسوس ہو رہی تھی۔ بہت دیر بعد کیپٹن فکری کہنے لگے، ’’بتدریج طبیعت درست ہو جائے گی۔‘‘

’’آپ۔۔۔ آپ۔۔۔ مجھ سے رنجیدہ یا ناراض تو نہیں ہیں؟‘‘ رکتے رکتے میں نے ناتواں آواز میں پوچھا۔

’’کوئی وجہ نہیں۔۔۔ دیکھو زونازش! آفتاب بہت تیزی سے چمکنے لگا ہے، صاحب زادی کو محل میں لے چلو۔۔۔ خدا حافظ۔۔۔ مجھے کام ہے۔‘‘

یہ کہہ کر وہ جلد جلد محل کی طرف چلے گیے۔ اس ناگوار گفتگو کا مجھ پر وہی اثر ہوا جو ایک نازک لڑکی پر ہونا چاہیے۔ اگر فکری کی بجائے کوئی دوسرا شخص مجھ سے ایسا روکھا پھیکا اور میرے خلاف شان سلوک کرتا تو عمر بھر اس کی صورت نہ دیکھتی، پر نہ جانے وہ کون سا جنون مسلط تھا۔۔۔فکری سے مجھےاس درجہ محبت تھی جس کا اظہار نا ممکن ہے۔ آج کئی دن سے ان کا یہ طرز سلوک سوہان روح ہو رہا تھا۔ انہوں نے ایک لخت مجھ سے بات چیت کم کر دی تھی، اشد ضرورت پر کچھ بولتے ، گویا مجھ سے پہلو تہی کر رہے تھے۔ مجھ سے بچنا چاہتے تھے۔ میں عجب الجھن میں مبتلا ہو گئی تھی۔ اپنی توہین محسوس کر رہی تھی۔ غصہ کے گھونٹ پی پی کر رہ جایا کرتی تھی مگر اس کا کیا علاج کہ ان کی فطرت بدلتی نہ تھی۔

میں اپنی عمر میں پہلی مرتبہ اس صبرو ضبط سے کام لے رہی تھی۔ واقعی جو شخص کسی کو چاہتا ہے وہ چاہا نہیں جاتا۔ ایک دفعہ تو انہوں نے مجھ سے اس قدرروکھا سلوک کیا کہ میرا دل ٹوٹتے ٹوٹتے بچ گیا۔ کئی مرتبہ جی میں آیاکہ فکری کو چاہنا یک لخت چھوڑ دوں۔ میں نے بارہا اس بات کی کوشش بھی کی کہ شہباز سے محبت کرنے لگوں تاکہ فکری اپنی سزا کو پہنچیں مگر اس کا کیا علاج کہ فکری کا وجیہ اور خوبصورت چہرہ ان کے دل فریب اور بہادرانہ اندازو ادا کچھ اس طرح میرے دل پر نقش ہو گئی تھی کہ ان کا محو ہونا کارے دارد والا معاملہ معلوم ہوتا تھا۔ ڈیڑھ ہفتے کے بعد یہ حالت ہو گئی تھی کہ اب ہم میں کسی طرح کی کوئی گفتگو نہ ہوتی تھی۔ اگر کبھی ہوتی تو ایسی کہ اس کا نہ ہونا بہتر ہوتا۔ خشک اور غیر دلچسپ۔

ان تمام واقعات کے کئی دن بعدایک گرم دوپہر میری طبیعت کسی قدر اچھی تھی۔ میں مکانات میں بہت ہی وحشت محسوس کرتی تھی کیونکہ اب وہ پہلی سی چہل پہل باقی نہیں رہی تھی۔ دادی جان اب اپنے کمروں سے باہر نہیں نکلتی تھیں۔ والد نہایت غمگین تھے۔ اس لیے وہ دن دن بھراپنے کتب خانے میں بیٹھے رہتے تھے۔ شہباز کا پتہ نہ تھا۔ وہ باہر پھرا کرتااور فکری بھی یہی کرتے تھے۔

میں اپنی تنہائی پر آنسو بہاتی ہوئی اس خوبصورت دوپہر باغ کی نہر پر چلی گئی۔ مچھلیاں چمکیلےابر کو دیکھنے کبھی کبھی اوپر آ جایا کرتی تھیں۔ اتفاق کہ بات کہ تھوڑی ہی دیر میں شہباز اور فکری مچھلی کے شکار کے لیے اسی نہر پر آ گیے۔ انہیں دیکھ کر میں عشق پیچاں کی بیلوں میں سنگ مرمر کے ایک کوچ پر بیٹھ گئی۔ خدا جانے اپنی اداس محبت کو یاد کرکرکےمیں کب تک روتی رہی۔ جب نظر اٹھا کر دیکھا تو سرخ آفتاب بادلوں کے ہلکے پردوں میں سے جھانک رہا تھا۔ ٹہنیوں پر سنہری کرنیں رقصاں تھیں اور دوپہر کی گرم مگر سریلی ہوائیں پرانے پیڑوں سے ٹکرا رہی تھیں۔۔۔آہ!

تھوڑی دیر میں میں نے دیکھا کہ کیپٹن فکری اور شہباز میرے قریب سے گزر رہے ہیں۔ شہباز تو اندر چلا گیا مگرکپتان ٹھہر گیے۔ گویا چونک پڑے۔ ’’تم ایسے گرم موسم میں باہر بیٹھی ہو؟ وہ کسی قدر درد سے پوچھنے لگے۔‘‘

میں جل گئی، ’’آپ فکر نہ کریں۔ اندر تشریف لے جائیے، ورنہ گرم ہوا۔۔۔میں کچھ زیادہ نہ کہہ سکی۔‘‘ آواز گلو گیر ہو گئی۔ وہ وہیں کھڑے مجھے بغور دیکھ رہے تھے۔ ’’نہیں، میرے لیے یہ ہوا ایسی مضر نہیں مگر تم ناتواں ہو۔ مگر میرا جی اور جل گیا۔ کہنے لگی، ’’اتنی فکر نہ کیجیئے، میرا جی یہاں بیٹھنے کو چاہتا ہے او ر میں ضرور بیٹھوں گی۔‘‘

یہ سن کر کیپٹن فکری مسکرائے اور قریب آ گیے، ’’روحی! تم بھی کیسی عجیب و غریب لڑکی ہو! میں نے تو محض خیر خواہی سے کہا تھاکہ یہاں نہ بیٹھو۔ بات یہ ہے کہ ہم سب تمہاری صحت کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں کہ جلد سے جلد تم تندرست ہو جاؤ۔‘‘

’’مہربانی آپ لوگوں کی۔‘‘

’’مگر تم یہ بھی جانتی ہو کہ کیوں۔۔۔؟ اس لیے کہ تمہاری شادی عنقریب ہونے والی ہے۔ دلہن کو بیمار نہیں ہونا چاہیے۔ دیکھو! تمہارے ہونے والے شوہر کس قدر خوش مزاج انسان ہیں۔‘‘

آہ! ضبط۔۔۔ آخر کب تک۔۔۔؟ اس گفتگو کو میں کیونکر برداشت کر سکتی تھی۔ آخر میں نازک مزاج لڑکی تھی۔۔۔ان تباہ کن انگاروں پر کب تک لوٹتی۔۔۔؟ آنسو بے اختیار نکل رہے تھے۔ وہ مسلسل رخسار پر بہہ رہے تھے۔ اور دوپہر کی تیز کرنیں ان کو چمکا رہی تھیں مگر فکری انجان بنے دوسری طرف دیکھ رہے تھے۔ تھوڑی دیربعد یکایک گھبرا کر کہنے لگے، ’’ایں۔۔۔ رونے کی کیا بات ہوئی؟ میں تم سے بات کرتے ہوئے اس لیے ڈرتا ہوں کہ تم بہت جلد رو پڑتی ہو۔‘‘

’’میں بہت جلد رو پڑتی ہوں۔۔۔ ہاں مجھ میں ضبط بہت کم ہے۔‘‘ اس کے بعد میری تو ہچکی بندھ گئی۔ میں کوچ سے اٹھ کھڑی ہوئی، ’’اب مجھے جانے دیجیے۔‘‘

فکری بھی فورا اٹھ کر کھڑے ہو گیے۔ میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر بولے، ’’نہیں خدا کے لیے تھوڑی دیر بیٹھ جاؤ۔‘‘ (بٹھا کر) ’’میری روحی!‘‘ مگر وہ خاموش ہو گیے۔ وہ ان دنوں میرے لیے ایک معمہ ہو کر رہ گیے۔ الہی وہ مجھ سے محبت کر رہے ہیں یا نفرت۔ وہ سنبھل کر کہنے لگے، ’’روحی! میں تم کو بحیثیت ایک دوست کے ایک نصیحت۔۔۔ نہیں نہیں۔ ۔ محبت آمیز رائے دینا چاہتا ہوں۔‘‘

’’مجھے کسی رائے کی ضرورت نہیں۔‘‘

’’مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ شہباز کے چال چلن پر جھوٹے الزام لگائے گیے ہیں۔‘‘ مگر میں آگے سن نہ سکی۔ ’’مجھے دھوکا دیا جاتا ہے۔‘‘ میں کہنے لگی، ’’فکری مجھے چھوڑ دو۔۔۔ لو میرا ہاتھ چھوڑو۔۔۔ تم مجھ سے دشمنی کرتے ہو۔‘‘

’’میں تم کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ شہباز۔۔۔ شہباز۔۔۔‘‘ مگر میں نے انہیں روک دیا۔ ’’خدا کے لیے میرے سامنے اس کا نام نہ لو۔۔۔ میں نے آپ کی کیا خطا کی ہے۔‘‘

’’روحی! واقعات پر غور کرو، دیکھو! تم ایک مہذب خاندان کی تربیت یافتہ لڑکی ہو۔ تم کو یہ نہیں سکھایا گیا ہے کہ اپنے بزرگوں کی دل شکنی کرو۔ اپنے خیر خواہوں کی بات مان جاؤ، روحی، اپنی دادی کو خوش کرو۔ اپنے والد کی موجودہ پریشانیوں کو دور کرو۔‘‘

’’اور آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ بیٹھے تماشا دیکھا کریں گے۔‘‘ میں نے جل کر کہا، ’’تمہارے سینے میں دل ہے فکری؟ سچ تو یہ ہے کہ ادھر چند دنوں سے تمہارا طرز سلوک میرے لیے ایک معمہ بن کر رہ گیا ہے۔ کیا تم میرے خیالات سے واقف نہیں ہو؟ فکری! کیا تم نہیں جانتے کہ مجھے شہباز سے کبھی محبت نہیں تھی۔۔۔؟ کیا وہ دن بھول گیےجب کہ میری مدد کرنے کا وعدہ کر رہے تھے۔ تم کو اس کا بھی بخوبی علم ہے کہ میں کیوں ان سے نفرت کرتی ہوں۔‘‘

’’نہیں۔۔۔‘‘ وہ سنجیدہ لہجے میں کہنے لگے، ’’مجھے اس کا قطعی علم نہیں کہ تمہاری نفرت کی وجہ کیا ہے۔۔۔‘‘ (پھر تھوڑی دیر بعد) ’’دیکھو روحی! طفلانہ ضد چھوڑو، میں تم کو بہ حیثیت دوست کے سمجھا رہا ہوں۔ تم کو چاہیے کہ بے چوں و چراصاحب زادے شہباز کو قبو کرو، ان کو تم سے سچی محبت ہے!‘‘

’’کیپٹن۔۔۔!‘‘ عشق پیچاں کی بیلوں کے پیچھے سے آواز آئی، ’’ساڑھے بارہ بج گیے، باہر نہ چلو گے؟‘‘ ہم دونوں نے مڑ کے دیکھا تو شہباز ایک مکلف لباس میں کھڑا مسکرا رہا تھا۔ فکری چونک کر بولے، ’’ساڑھے بارہ! آج ہم دونوں کو ایک دعوت میں شریک ہونا ہے روحی!‘‘

’’تم کس سے باتیں کر رہے ہو؟‘‘ شہباز نے پوچھا۔

’’میں۔۔۔ آپ کی دلہن۔۔۔‘‘

فکری کچھ عجب بد حواسی کے عالم میں اپنی چھوٹی سی کتیا پر جھک گیےاور اسے پیار کرنے لگے۔

زبیدہ دادی چراغ کے آگے ایک سلطانہ کی طرح کھڑی تھیں، ’’دیکھو! پنی صحت کا خیال رکھو۔ آج کے دن سے تم کو مکمل دولہن بننا ہے۔ روحی! یہ میر ا فرض ہے کہ تم کو نصیحت کروں۔ زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ کروں۔ واہیات خیالات کو بھلا ڈالو۔ ایک اچھی لڑکی بن جاؤ۔ مجھے بہت سے کام کرنے اور کروانے ہیں۔ گیارہ بج گیے، تم سو رہو، میں جاتی ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر انہوں نے جھک کر میری پیشانی چومی اور کمرے سے باہر چلی گئیں۔ جب وہ باہر جانے لگیں تو میں نے ان کے ہلکے سبز ریشم کے لباس کو اور اونچے قد کو دیکھا۔ وہ اس وقت مجھے ملکہ موت معلوم ہوتی تھیں۔ میں اپنی زندگی کی اس رات کو کبھی نہ بھولوں گی۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ شب میری آئندہ زندگی کے کارناموں کا سنگ بنیاد ہے۔

وہ اگست کی ایک خشک اور وحشت ناک رات تھی۔ آسمان تاریک پڑا تھاکیونکہ چاند ابھی طلوع نہیں ہوا تھا۔ دریچے کے پاس گرم موسم کے بھونرے راگ گا رہے تھے۔ کہکشاں یوں دمک رہی تھی جیسے کالے آسمان پر آگ لگ رہی ہو۔ میرا دل بیٹھا جاتا تھا۔ کیا میری زندگی میرے دیکھتے ہی دیکھتےبرباد کر دی جائے گی؟ کیا زندگی کا مسئلہ اس قدر آسان ہےکہ اسے ایک ہی رات میں سلجھا دیا جائے۔ اف اف! میر دل بھننے لگا۔ میرا سانس پھول گیا۔ بے رونق زندگی بے لطف زندگی! میرا جی یہی چاہتا تھاکہ اس کی تاریکی میں کسی دیوانے کی چیخ کی طرح، جو ہواؤں میں گونج کر گم ہو جاتی ہے، غائب ہو جاؤں۔

شب کے ساڑھے گیار بج چکے تھےمگر مجھے نیند نہ آئی تھی۔ میں نےباغ کی طرف کا دروازہ کھولا اور آہستہ آہستہ باغ میں نکل آئی۔ میرے والد کی آواز آئی، ’’رات بہت گرم ہے یا اندر جانے کو دل نہیں چاہتا۔ (آہ سرد) میں ساحل سمندر پر چہل قدمی کے لیے نکل گیا تھاسگریٹ لیجیے۔‘‘

’’شکریہ!‘‘ مغموم لہجے میں کیپٹن فکری نے جواب دیا۔ ان کی آواز سن کر میرے دل پر ایک چوٹ لگی۔ آہ۔۔۔ وہ پرانی اور پیاری آواز۔۔۔ میرے والد اور کیپٹن فکری کچھ اس قدر دھیمے لہجے میں گفتگو کر رہے تھے کہ میں بمشکل ان کی گفتگو سن سکتی تھی۔ میں نے ہمت کرکے انار کے درختوں میں سے ان لوگوں کی طرف نگاہ کی۔ آہ! فکری کا چہرہ غروب ہونے والے چاند کی طرح مغموم و اداس تھا۔ گرمی بہت تھی۔ اس لیے انہوں نے کوٹ اتار کر کوچ پر رکھ لیا تھا۔

دفعتاًمیرے والد کی آواز آئی، ’’مجھے نہایت افسوس ہے، میرا دل دکھتا ہے، یقین جانیے میں آپ کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ خدا آپ کو نوازے۔ افسوس ہے کہ میں نے آپ کی کوئی خدمت نہ کی۔ میں آپ کو کیا معاوضہ دے سکتا ہوں۔ میرے عزیز دوست! میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ تم جہاں کہیں رہو۔۔۔خوش رہو۔ ۔ اور مجھے نہ بھولو۔ یہ اچانک جدائی واقعی بڑی بری چیز ہے۔‘‘

میں کوچ پر بیٹھ گئی اور ان کی گفتگو پر غور کرنے لگی۔ الہی! اس معمے کو میں کیوں کر حل کر سکوں گی۔ کیا فکری کہیں جا رہے ہیں؟ آخر کیوں؟ میرے والد محل میں چلے گیے۔ یہ دیکھ کر میں بھی اپنی جگہ سے اٹھی۔ جس وقت میں دبے پاؤں فکری کے کوچ کے پاس سے گزر رہی تھی، انہوں نے دفعتاً سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور پھر ایک دم سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ’’اب کیسی طبیعت ہے روحی! ادھر تو آؤ۔۔۔ ایک دفعہ تمہیں جی بھر کر دیکھ لوں۔‘‘

اس گفتگو کا مجھ پر عجب اثر ہوا۔ مختلف جذبات نے مجھے جواب دینے سے قاصر رکھا۔ ’’کیا تم مجھ سے خفا ہو؟‘‘ وہ مجھے لینے کو زینے تک آ گیے۔ ’’اند ر جا کر کیا کروگی روحی! آؤ یہاں تھوڑی دیر بیٹھیں۔‘‘

’’نہیں۔۔۔‘‘ میں نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔

’’کیوں نہیں۔۔۔‘‘ فکری نے میرا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا پھر بولے، ’’یہ رات پھر کبھی واپس نہ آئے گی۔‘‘

’’مگر رات ہو گئی ہے۔۔۔‘‘ میں نے آنسو پوچھتے ہوئے کہا۔

’’کوئی ہرج نہیں۔۔۔ میں تو تمہارے ساتھ ہوں۔ انہوں نے مجھے کوچ پر بٹھاتے ہوئے کہا، ایسی افسانوی راتیں زندگی میں شاذ ہی آتی ہیں۔ دیکھو، زرد چاند طلوع ہو رہا ہے۔‘‘

وہ میرے قریب بیٹھ گیے۔ سامنے اگست کا زرد چاند طلوع ہو رہا تھا۔ ہوائیں گرم مگر سریلی تھیں۔ رات نہایت اداس تھی۔ فکری کے یہ دردناک جملے کہ یہ رات کبھی واپس نہ آئے گی، میرے کان میں گونج رہے تھے۔ آہ! کس قدر مؤثر جملہ ہے۔ میں مدت العمر اس کو یاد رکھوں گی۔ تھوڑی دیر بعد وہ مجھ پر جھک گیے۔ بولے، ’’عزیز از جان! تم مجھ سے ناراض ہو؟ تم کو کیا میرے موجودہ طرز عمل سے رنج پہنچا ہے؟‘‘

’’ضرور پہنچا ہے، نہ پہنچنا کیا معنی؟ ’’میں سسکیاں لے کر رونے لگی، پھر بولی، ’’آہ۔۔۔ آخر تم کو کیا ہو گیا تھا؟‘‘

’’کیا ہو گیا تھا۔۔۔ میری پیاری میں کیا کہوں، کیا ہو گیا تھا۔ آہ! تمہارے دل کو میرے خشک اور بے لطف سکوت نے چھلنی کر دیا ہوگا۔ آہ! میں گنہگار ہوں۔‘‘

میں متعجب رہ گئی۔ ’’تم کو کیا ہو گیا ہے؟ آخر تم کو میں کیا سمجھوں؟‘‘

’’مجھے کیا سمجھو؟ ہائے میں اس کا کیا جواب دوں؟ ایک بد نصیب ، ناکام تمنا اور قریب المرگ عاشق۔ روحی! تمہیں کیا خبر کہ میں نے پچھلے چندہفتے کس کرب اور بے چینی میں گزارے۔ ۔ پھر جب میں نے ہر طرف مایوسی اور ناکامی دیکھ لی اور اپنی ہر کوشش کو ناکام ہوتے دیکھ لیا تو یہی مناسب جانا کہ تم سے کنارہ کشی کر لوں۔ میں اسی کی مشق کرتا رہا۔ میں نے۔۔۔ آہ۔۔۔ میں نےاس کی بھی کوشش کی کہ تمہیں۔۔۔ ہائے تمہیں شہباز سے محبت ہو جائےتاکہ تمہاری زندگی خوشی اور شادمانی سے گزرے۔ مگر نہ تم کامیاب ہوئیں نہ میں۔ ہم دونوں کی محبت میں کسی عارضی اور مصنوعی رکاوٹ نے خلل نہیں آنے دیا۔ مگر روحی! یہ سب فضول ہے۔ دیکھو آج میں نے اپنے دامن صبر و شکیبائی کو چاک کر دیا۔ مگر اس سے بھی کیا حاصل! اب ہم کو ہمیشہ کے لیےایک دوسرے سے بچھڑنا ہے۔ یقین کرو ، میں تم سے جدا ہو کر کبھی زند ہ نہیں رہوں گا۔‘‘

میں سسکیاں لے کر رونے لگی۔ وہ صرف آنسو تھے جو مچل مچل کر نکل رہے تھے۔ چاروں طرف خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔ چاند اب آہستہ آہستہ اوپر آ گیا تھا اور اس کی زرد زرد روشنی لمبی لمبی ہری گھاس پر پڑ رہی تھی۔ باغ کے آخری حصے میں اگست میں گانے والی مغموم بلبل دردناک راگ گا رہی تھی۔ آہ! شاید اس کی زندگی بھی میری زندگی سے ملتی جلتی تھی۔

’’تم اس قدر خاموش کیوں ہو؟ یہ رات پھر کبھی نہ آئے گی۔ کہو، مجھ سے جو کچھ کہنا چاہتی ہو۔۔۔‘‘ فکری کے ان جملوں نے میری روح کو تڑپا دیا۔ ’’آہ۔۔۔‘‘ میں نے ناتواں لہجے میں کہا۔ ’’کیا یہ رات پھر واپس نہ آئے گی؟‘‘

’’نہیں، میری روحی! پھر کبھی نہیں۔۔۔‘‘

’’کیوں نہیں فکری۔۔۔‘‘

فکری نے بغور میرے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا، ’’اس لیے کہ قسمت تجھے اور مجھے جدا کر دے گی۔‘‘

’’آہ فکری!‘‘ میں نے مچل کر کہا، ’’میں تمہیں کبھی نہ چھوڑوں گی۔ تم بہت پیارے ہو۔‘‘ فکری کے چہرے پر ایک اداس محبت بھری مسکراہٹ کھیلنے لگی، ’’جان من! تمہارا لہجہ کس قدر طفلانہ ہے! تم مجھے کبھی نہ چھوڑو گی؟ ننھی روحی! تم کو مجھے چھوڑنا ہو گا۔‘‘

’’کیوں چھوڑنا پڑے گا؟ تمہیں کبھی نہ چھوڑوں گی۔ تم کہاں چلے جاؤ گے؟‘‘

یہ سن کر فکری کا چہرہ زرد ہو گیا۔ وہ دفعتاً بول اٹھے، ’’تمہیں مجھ بد قسمت سے اس درجہ محبت ہے۔۔۔ اس درجہ۔۔۔ آہ۔۔۔ میں کیا کروں! میرے پاس کیا تدبیر ہے! میں تمہارے والد ، تمہاری دادی کے خیالات کو کس طرح بدل دوں! روحی! تمہیں بتاؤ میں کیا کروں ؟‘‘

میں کہنے لگی، ’’فکری تم چلے جاؤ گے؟ تم مزے میں بقیہ زندگی ایک سیاح کی حیثیت سے گزار دو گے۔ پر آہ! تمہیں کیا خبر کہ مجھ پر کیا الم ٹوٹیں گے فکری! میں بہ جبر شہباز کی بیوی بنائی جاؤں گی! شہباز جو شعلہ کا عاشق ہے، جو نہیں جانتا کہ خواتین سے کس قسم کا سلوک کرنا چاہیے۔ فکری یقین کرو، کچھ دنوں بعد وہ شعلہ کو اپنی بیوی بنائے گا۔ اس وقت والد کچھ نہ کر سکیں گے۔ نہ دادی میرے سوگ میں شریک ہوں گی۔ فکری! کیا تم ایسے ہی بے وفا ہو؟‘‘

فکری کچھ اس قدر مستغرق تھے کہ ان کو دنیا و ما فیہا کی خبر نہ تھی۔ ’’تم کیا سوچ رہے ہو۔‘‘ دفعتاً میں نے پوچھا۔ دفعتاً انہوں نے میرا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور کہنے لگے، ’’آہ! پرسوں اس چھوٹی سی سفید انگلی میں عقد کی انگشتری ہو گی۔‘‘

’’کبھی نہیں۔۔۔‘‘ میں نے جواب دیا، ’’کبھی نہیں۔‘‘

’’یہ تو نا ممکن ہے ، روحی! اب تم انکار نہیں کر سکو گی۔‘‘

’’مگر واقعات انکار کر دیں گے۔‘‘

’’دیکھو روحی! ایسی باتیں نہ کرو۔ میں بھی کیسا بے وقوف ہو گیا ہوں۔ میرے لیے یہ مناسب نہیں کہ تمہیں رنجیدہ کروں۔ آہ روحی! آؤ اب ہم ایک دوسرے کو سچے دوستوں کی طرح الوداع کہیں۔ میں کل چلا جاؤں گا۔ کیونکہ پرسوں میرا یہاں رہنا کسی طرح مناسب نہیں۔ آؤمجھے الواداع کہو۔۔۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔‘‘

’’مگر نہیں روحی! میرا ارادہ مستقل ہے۔ مجھ سے تم کو او ر تمہیں مجھ سے جدا ہونا ہی ہے۔ مجھے خبر نہیں کہ پھر ہماری ملاقات کس دنیا میں ہو گی۔ خدا حافظ!‘‘

مأخذ : گلستاں اور بھی ہیں

مصنف:حجاب امتیاز علی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here