منظور ہے گزارش احوال واقعی
اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے
وکالت بھی کیا ہی عمدہ۔۔۔ آزاد پیشہ ہے۔ کیوں؟ سنیے میں بتاتا ہوں۔
پار سال کا ذکر ہے کہ وہ کڑا کے کا جاڑا پڑ رہا تھا کہ صبح کے آٹھ بج گئے تھے مگر بچھو نے سے نکلنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ لحاف میں بیٹھے بیٹھے چائے پی۔ دو مرتبہ خانم نے لحاف گھسیٹا مگر نہ اٹھنا تھا نہ اٹھا۔ غرض چائے پینے کے بعد اسی طرح اوڑھے لپیٹے بیٹھ کر سگریٹ سلگایا ہی تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بلی الماری کے پیچھے سے جھانک رہی ہے۔ فوراً اٹھا اور دبے پاﺅں دروازہ پر پہنچ کر اس کو بند کر دیا۔ دوسرے دروازہ کو بھی لپک کر بند کیا جب بلی گھر گئی تو حلق پھاڑ کر چلایا، ’’خانم دوڑنا۔۔۔ جلدی آنا۔۔۔ بلی۔۔۔ بلی، گھیری ہے۔‘‘
’’کیا ہے؟‘‘ خانم نے صحن کے اس پار سے آواز دی۔ ’’ابھی آئی۔‘‘
زور سے میں پھر گلا پھاڑ کر چلایا، ’’بلی گھیری ہے۔۔۔ بلی۔۔۔ ارے بلی۔۔۔ بلی۔۔۔ کیا بہری ہو گئی؟‘‘
خانم کو کبوتروں کا بےحد شوق تھا اور یہ کمینی بلی تین کبوتر کھا گئی تھی۔ علاوہ اس کے دو مرغیاں، چار چوزے اور مکھن دودھ وغیرہ علیحدہ۔ خانم تو بوکھلائی ہوئی پہنچی اور کانپتے ہوئے اس نے مجھ سے پوچھا، ’’کیا بلی؟ پکڑ لی! پکڑ لی۔۔۔؟‘‘
میں نے کہا، ’’ہاں۔۔۔ گھیر لی۔۔۔ بلی بلی! جلدی۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے خانم کو اندر لے کر دروازہ بند کر لیا۔ خانم کی اماں جان نے منع کر دیا ہے کہ بلی کو جان سے مت مارنا۔ ادھر بلی کا یہ حال کہ روئی کے گالے کی مار سے قابو میں نہیں آتی۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اور میں نے بھی ایک نئی ترکیب نکالی ہے کہ بلی کی بھی عقل ٹھکانے آ جائے اور خانم کی اماں جان بھی ناراض نہ ہوں۔ وہ یہ کہ کمرے کو چاروں طرف سے بند کر کے صرف ایک دروازے کے کواڑ ذرا سے کھول دیجئے، صرف اتنا کہ بلی اس میں سے نکل جائے اور خود دروازے کے پاس ایک کرسی پر کھڑے ہو کر کواڑ پر ہاتھ رکھے اپنی بیوی سے کہئے کہ لکڑی لے کر بلی پر دوڑے اور جب ڈر لگے تو لکڑی کو تاک کر بلی کے ایسے مارے کہ سیدھی لیمپ میں جا لگے اور دور ہی سے تکیے، جوتے، گلاس، ضروری مقدموں کی مسلیں، تعزیرات ہند، قانون شہادت، باضابطہ دیوانی اور یا اسی قسم کی دوسری چیزیں بلی کی طرف پھینکے اور پھر بھی جب کہ کچھ نہ لگے اور کوئی چیز بھی باقی نہ رہے تو سگریٹ کا ڈبہ معہ سگریٹوں کے تاک کے بلے کے مارے۔
لازمی ہے کہ ایک سگریٹ تو بلی کے ضرور ہی لگےگا۔ بلی تنگ آ کر خواہ مخواہ اسی دروازے سے بھاگےگی جہاں آپ اس کے منتظر کو اڑ پکڑے کھڑے ہیں۔ جب آدھی بلی دروازہ کے باہر ہو اور آدھی اندر تو زور سے دروازہ کو بند کر دیجئے اور بلی کو دروازے ہی میں داب لیجئے۔ بیوی سے کہئے کہ دروازہ زور سے دبائے رہے اور خود ایک تیز دھار استرے سے بلی کی دم خیار ترکی طرح کاٹ لیجئے۔ پھر جو دم کٹی آپ کے منہ کی طرف رخ بھی کر جائے تو میرا ذمہ۔
چنانچہ میں نے بھی یہی کیا ادھر بلی دروازے کے بیچ میں آئی اور پھر زور سے چلایا ’’خانم لیجیو! خانم لیجیو!’’ خانم دوڑ کر آئی۔ میں نے کہا کہ ’’تم دروازہ دابو مگر زور سے، ورنہ بلی لوٹ کر کاٹ کھائےگی’’ غرض خانم نے زور سے دروازہ دبایا، بلی تڑپ رہی تھی اور عجیب عجیب قسم کی آوازیں نکال رہی تھی ادھر میں استرا لے کر دوڑا بس ایک ہاتھ میں دم کھٹ سے صاف اڑا دی۔
دم تو بالکل صاف اڑ گئی مگر بد قسمتی ملاحظہ ہو۔ دفتر کا وقت تھا اور منشی جی ایک مقدمے والے کو پھانسے لا رہے تھے۔ بلی کو اسی طرح دبا ہوا دیکھ کر سیڑھیوں پر بےطرح لپکے کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ عین اس وقت جب کہ میں نے دم کاٹی، انتہائی زور لگاکر بلی تڑپ اٹھی اور ’’غوں فش‘‘ کر کے منشی جی پر لگی اور وہ موکلوں پر! غلغپ!! خانم کے منہ سے منشی جی کی جھلک دیکھ کر ایک دم سے نکلا، ’’منشی جی۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔ ’’موکل! مقدمہ۔۔۔‘‘
خانم نے پھر کہا، ’’مقدمہ۔۔۔‘‘
اتنے میں منشی جی نے دروازے میں سر ڈال کر اندر دیکھا۔ میرے ایک ہاتھ میں استرہ تھا اور دوسر ے ہاتھ میں بلی کی دم! خانم برابر کھڑی تھی۔ منشی جی آگ بگولا ہو گئے، اندر آئے غصہ کے مارے ان کی شکل چڑی تن کے باشاہ کی سی تھی۔
’’لاحول ولا قوۃ’’ مٹھی بھینچ کر منشی جی بولے ’’موکل۔‘‘ اور پھر دانت پیس کر بہت زور لگایا مگر نہایت آہستہ سے کہ موکل جو باہر کھڑا تھا وہ سن نہ لے۔ ’’موکل‘‘ لاحول ولا قوۃ۔۔۔ کوئی مقدمہ نہ آئےگا۔۔۔ یہ وکالت ہو رہی ہے؟ منشی جی نے ہاتھ سے کمرہ کی لوٹ پوٹ حالت کو دیکھ کر کہا۔
خانم غائب ہو چکی تھی۔
میں بھلا اس کا کیا جواب دیتا۔
’’یہ وکالت ہو رہی ہے۔‘‘ منشی جی نے پھر اسی لہجہ میں کہا، ۵۰۰ کا مقدمہ ہے۔ ’’جلدی۔‘‘ ہاتھ سے جھٹک کر کہا۔
پانچ سو روپے کا نام سن کر میں بھی چونکا۔ روپوں کا خیال آنا تھا کہ استرہ اور بلی کی دم الگ پھینکی اور دوڑ کر دوسری طرف سے دفتر کا دروازہ کھولا۔
منشی جی نے جلدی سے موکلوں کو بٹھایا اور دوڑ کر مجھ سے تاکید کی کہ فوراً آؤ پانچ سو روپے ملنے والے ہو رہے تھے اور جوں توں کر کے جلدی جلدی میں نے کوٹ پتلون پہنا کیونکہ منشی جی کی ہمیشہ سے تاکید تھی کہ بغیر کوٹ پتلون پہنے دفتر میں نہ بیٹھا کرو۔ موزے پہننے کو تھا کہ منشی جی پھر آئے اور ’’چلتے نہیں‘‘ کہہ کر میرے آئے ہوش اڑا دیے۔ میں بغیر موزے پہنے سلیپر میں چلا آیا بلکہ یوں کہیے کہ منشی جی مجھے کھینچ لائے۔ نہایت ہی سنجیدگی سے میں نے موکلوں کے سلام کا جواب دیا۔ ایک بڑی توند والے مارواڑی لالہ تھے اور ان کے ساتھ دو آدمی تھے جو ملازم معلوم ہوتے تھے۔ لالہ جی بیٹھ گئے اور انہوں نے اپنے مقدمہ کی تفصیل سنائی۔
واقعہ دراصل یوں تھا کہ کسی سمجھ دار آدمی نے لالہ جی کو الو کی گالی دی تھی۔ گالی دہرانا خلاف تہذیب ہے۔ ناظرین کی آگاہی کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ اس گالی کی رو سے لالہ صاحب کی ولدیت الو ہوئی جاتی تھی۔ میں نے لالہ جی سے بہت سے سوالات کیے اور خوب اچھی طرح غور و فکر کے بعد ان سے کہا، ’’مقدمہ نہیں چل سکتا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ لالہ جی نے اعتراض کیا۔
’’اس وجہ سے‘‘ میں نے کہا۔ اس وجہ سے نہیں چل سکتا کہ اول تو آپ کے پاس کوئی گواہ نہیں اور پھر دوسرے یہ کے تمام ہائی کورٹ اس بارے میں متفق ہیں کہ اس قسم کے الفاظ روزانہ اعلیٰ طبقہ کے لوگ بات چیت کے دوران میں آزادی سے استعمال کرتے ہیں اور اس سے توہین نہیں ہوتی۔
لالہ جی کچھ برداشتہ خاطر ہو کر منشی جی سے بولے، ’’واہ جی تم بھی ہمیں کہاں لے آئے ہمیں تو ایسے وکیل کے پاس لے چلو جو مقدمہ چلا دے۔‘‘
میری نظر منشی جی پر پڑی اور ان کی میرے اوپر۔ وہ آگ بگولہ ہو رہے تھے مگر ضبط کر رہے تھے۔ نظر بچا کر انہوں نے جھنجھلا کر میرے اوپر دانت پیسے پھر ایک دم سے سامنے کی الماری پر سے بلا کسی امتیاز دو تین کتابیں جو سب سے زیادہ موٹی تھیں میرے سامنے پٹک دیں اور بولے،
’’وکیل صاحب، لالہ صاحب اپنے ہی آدمی ہیں ذرا کتابوں کو غور سے دیکھ کر کام شروع کیجئے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے میرے سامنے ڈکشنری کھول کر رکھ دی کیونکہ اس کتاب کی جلد بھی سب سے موٹی تھی۔ پھر لالہ صاحب کی طرف مسکرا کر منشی جی نے عینک کے اوپر سے دیکھتے ہوے کہا، ’’لالہ صاحب معاف کیجئے گا یہ بھی دکانداری ہے اور۔۔۔ پھر۔۔۔ آپ کا مقدمہ۔۔۔ جی سو میں چلے ہزار میں چلے (یہ مقدمہ بالکل نہ چلا اور میں ہار گیا) پھر میری طرف مخاطب ہو کر منشی جی اسی طرح مسکراتے ہوئے بولے۔‘‘
صاحب، یہ لالہ صاحب گھر ہی کے آدمی ہیں۔ میری ان کی ۱۸ برس سے دوستی ہے کوئی آج کی ملاقات تھوڑی ہے۔ لالہ جی کے منشی جی سے نہایت ہی گہرے اور دیرینہ تعلقات تھے اور وہ یہ کہ منشی جی اس سٹرک پر اٹھارہ برس سے چلتے تھے جس پر لالہ صاحب کی دکان تھی۔ چنانچہ لالہ صاحب نے ان دیرینہ تعلقات کی تصدیق کی۔ میں اس دوران ڈکشنری کو لاپرواہی سے دیکھ رہا تھا۔ میرے سامنے حروف (بی) کی فہرست تھی۔ معاً لفظ (برڈ) یعنی چڑیا پر میری نظر پڑی اور پھر لالہ جی پر۔ قطعی یہ لالہ جی چڑیا تھا کم از کم میرے لیے اور وہ بھی سونے کی۔ ان سے مجھے پانچ سو روپے وصول ہونے والے تھے! میں نے واقعی بڑی حماقت کی تھی جو ان سے کہہ دیا تھا کہ مقدمہ نہیں چل سکتا۔ یہ میں نے محسوس کیا۔ مجھے خاموش دیکھ کر لالہ صاحب پژمردہ ہو کر بولے، ’’وکیل صاحب تو کچھ بولتے نہیں۔‘‘
’’ان کے والد خان بہادر ہیں۔‘‘ میں نے منشی جی سے سوال کیا، ’’لالہ جی نے کہا یہ ہمارے محلے میں خود ایک رائے بہادر رہتے ہیں۔ لالہ جی نے یہ اس طرح فخریہ کہا گویا وہ خود رائے بہادر لڑکے ہیں۔‘‘
میں نے موقع پر کہا، ’’لالہ صاحب آپ کے گواہ کوئی نہیں ہیں اس کا تو۔۔۔‘‘
منشی جی نے میری بات کاٹ کر کہا، ’’اس بارے میں سب طے ہو چکا ہے! چار گواہ بنا لیے جائیں گے۔‘‘
’’تو پھر کیا ہے؟‘‘ میں نے اطمینانیہ لہجہ میں کہا۔
اس کے بعد ہی لالہ جی پر روغن قاز کی خوب ہی مالش کی گئی۔ اس سلسلے میں لالہ جی سے کچھ عجیب ہی طرح کے بڑے گہرے تعلقات قائم ہو گئے کیونکہ لالہ جی مار واڑی تھے اور میں بھی مارواڑی ہوں اور پھر میرے والد صاحب مارواڑ کی اس ریاست میں جہاں لالہ جی کی لڑکی بیاہی گئی ہے، ملازم ہیں۔ میرے پیر میں سردی محسوس ہو رہی تھی۔ دو مرتبہ ملازم لڑکے کو آواز دے چکا تھا۔ موزے پلنگ کے پاس کرسی پر پڑے تھے۔ لالہ جی نے منشی جی کی تجویز پر کہا کہ نوکر آپ ہی کا ہے۔ کمرہ بھی برابر ہی تھا مگر وہ مارواڑی ملازم تھا جب وہاں پہنچا تو پکار کر اس نے پوچھا۔ ’’کیا دونوں لاؤں؟‘‘
’’لاحول ولاقوۃ۔‘‘ میں نے اپنے دل میں کہا یہ لالہ جی کا نوکر بھی عجیب احمق ہے مگر میں خود مارواڑی تھا اور جانتا تھا کہ یہ اس ملک کا رہنے والا ہے جہاں اردو ٹھیک نہیں سمجھتے ہیں مگر پھر بھی اس حماقت پر تو بہت ہی غصہ آیا کیونکہ آپ خود غور کیجئے کہ موزے منگائے اور پوچھتا ہے کہ دونوں لاؤں، پکار کر منشی جی نے کہا، ’’ہاں دونوں۔‘‘
آپ یقین مانیے کہ وہ کمرے سے بجائے موزوں کے دونوں اگالدان لیے چلا آتا ہے، میں اب اس کی صورت کو دیکھتا ہوں کہ ہنسوں یا روؤں، ابھی ابھی یہ طے کرنے نہیں پایا تھا کہ لالہ جی مراد آبادی قلعی کے اگالدان کو شاید گلدان سمجھ کر دیکھتے ہیں۔ اس کو مٹھی میں اس طرح پکڑتے ہیں جیسے مداری ڈگڈگی کو، یہاں تک بھی غنیمت ہے مگر قسمت تو دیکھئے کہ قبل اس کے کہ منشی جی ان کے ہاتھ سے اگالدان کو لیں اور ملازم کو اس کی غلطی بتائیں لالہ جی نے اس کے اندر جھانک کر دیکھا اور کراہیت مگر نہایت سنجیدگی سے اس کو زمین پر رکھتے ہوئے بولے۔ ’’باسن توگھڑائیں چوکھا ہے مگر کسی’’ بیٹی رے باپ‘‘ نے اس میں تھوک دیا ہے۔‘‘
انا للہ و انا الیہ راجعون! وہ اپنا ہاتھ پاک کرنے کے لیے زمین پر رگڑ رہے تھے اور میں اپنی قسمت کو رو رہا تھا کہ خدا نے پالا ڈالا تو ایسوں سے کیونکہ ’’گھڑائیں چوکھا’’ کے معنی ہیں بہت اچھا اور ’’بیٹی رے باپ‘‘ کے معنی ہیں، بیٹی کا باپ، یعنی پرلے درجے کا احمق اور بدتمیز۔ یہ سب کچھ تھا مگر پانچ سو روپے! مجھے لالہ جی محض انہی روپوں کی وجہ سے پری معلوم ہو رہے تھے اور کیوں نہ ہوں۔ ادھر لالہ جی گئے اور ادھر منشی جی نے عینک کے اوپر سے میرے اوپر نگاہیں ترچھی ترچھی ڈالیں، بڑے لال پیلے ہو کر انہوں نے کہا:’’میں نوکری نہیں کر سکتا۔۔۔ آپ وکالت کر چکے ہیں۔۔۔ کر چکے۔۔۔ بس۔۔۔ بس ہو چکی۔۔۔ دیکھ لیا۔۔۔‘‘
’’نائی رے نائی کتنے بال؟ جو ہیں صاحب جی سامنے آئے جاتے ہیں۔۔۔ کہیں ایسے ہی وکالت ہوتی ہے؟ ادھر پھر۔۔۔‘‘
میں نے تنگ آ کر کہا، ’’تو آخر کیا غضب ہو گیا؟‘‘
جھلا کر منشی جی بولے، ’’جی ہاں۔۔۔ مارواڑی کا مقدمہ اور آپ بلی کی دم کاٹ رہے ہیں۔۔۔ اور جو وہ دیکھ لیتا تو؟ ہاں۔۔۔ اور یہ! آپ نے یہ کیسے کہہ دیا کہ مقدمہ نہیں چل سکتا؟‘‘ منشی جی نے یہ جملہ تیز ہو کر کہا۔
میں، ’’اس لیے کہ اول تو گواہ ندارد اور پھر دوسرے یہ کہ محض اتنی سی بات پر مقدمہ۔۔۔‘‘
منشی جی جھلا کر بولے، ’’ بس بس۔۔۔ ہو چکی وکالت۔۔۔ آپ کو کیسے معلوم کہ مقدمہ نہیں چلےگا۔ ہونہہ امتحان کیا پاس کیا کہ سمجھے کہ وکیل ہو گئے، ارے میاں یہاں تو یہ حال ہے کہ نہ معلوم کتنے وکیل بنا دیے۔۔۔ ہار ہار کہتا ہوں اور پھر وہی باتیں۔۔۔ مقدمہ نہ بھی چلےگا تو موکل سے تھوڑی کہہ دیا جاتا ہے کہ تیرا مقدمہ نہیں چلےگا۔‘‘ میں قائل ہو رہا تھا واقعی میری غلطی تھی۔ منشی جی بزرگ اور ہمدرد تھے۔ قانون دانی سے کچھ نہیں ہوتا۔ بقول ان کے وکالت کے پیچ سیکھنا چاہئیں، یہ وکالت کے پیچ ہیں! یعنی بالفاظ دیگر ’’مک۔۔۔ کا۔۔۔ ری۔‘‘
میں کیا جواب دیتا، قائل تھا، معقول تھا، سر ہلا رہا تھا، ہنسی آ رہی تھی اور دل میں کہہ رہا تھا۔
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
کمبختی تو دیکھیے کہ خانم شیشہ میں سے جھانک رہی تھی اور منشی جی کی باتیں سن کر اکیلی ہی اکیلی ہنس رہی تھی۔ میری نظر جو پڑی تو مجھے بھی بےاختیار ہنسی آئی اور میں ایک دم سے کمرے سے بھاگا۔ خدا معلوم منشی جی کیا بڑبڑائے اتنا ضرور سنا۔۔۔ بدتمیزی۔۔۔ ’’وکالت نہیں‘‘ منشی جی غصے میں آ کر چل دیے۔
میں کھانا کھا ہی رہا تھا کہ ایک مقدمے والے نے پکارا۔ یہ ایک موکل کا لڑکا تھا جس کا آج مقدمہ تھا اور اس نے مجھ سے کہا، ’’باپ نے تاکید کر کے کہہ دیا ہے کہ موٹی والی کتاب ضرور لیتے آنا۔‘‘ مقدمہ دیوانی کا تھا، اور مجھے فوجداری کی ایک کتاب کی آج کچہری میں ضرورت تھی چنانچہ میں نے تعزیرات ہند دے کر اس کو روانہ کیا۔ یہ بھی کرنا پڑتا ہے ورنہ موکل صاحب مقدمہ خلاف ہو جانے کی صورت میں تمام الزام دیتے کہ کتاب موٹی والی کہہ دینے پر بھی نہ لائے خواہ آپ کو کتاب کی ضرورت ہو یا نہ ہو مگر موکل صاحب فرمائیں تو پھر کیسے نہ لے جائیےگا۔ ضرورت پتلی سی کتاب کی ہو مگر آپ کو موٹی کتاب لے جانا پڑےگی۔
میں اپنی قابلیت پر دل ہی دل میں نازاں تھا اور اس کا سکہ خانم پر بھی بٹھانا چاہتا تھا، ’’کچھ سنتی ہو‘‘ میں نے کہا ’’میرے ساتھیوں میں سے اب تک کسی کو پانچ سو روپیہ کا مقدمہ نہیں ملا‘‘ شاید قائل ہو کر خانم اس کے جواب میں مسکرائی اور میں نے اور رعب جمایا، ’’تم خود دیکھو کہ اتنی جلدی پانچ پانچ سو روپے کے مقدمات آنے لگے ہیں، اب بتاؤ نوکری اچھی یا یہ وکالت۔‘‘
خانم اپنی فکر میں تھیں اور بولیں، ’’تو اپنی بات سے نہ پھر جانا، آج شام کو کچہری سے آؤ بندے ضرور ساتھ ہوں دام طے کر لینا اور چکا کر لانا اور۔۔۔‘‘ بات کاٹ کر میں نے کہا، ’’لیتا آؤں گا۔۔۔ میں۔۔۔ اور دیکھو جب ایک مقدمہ بڑا آتا ہے یعنی زیادہ فیس کا تو پھر اس کے ساتھ ساتھ بڑے اچھے مقدمے آتے ہیں اور تار سا بندھ جاتا ہے۔‘‘
خانم نے کہا، ’’تو ضرور لیتے آنا، کل تک تو وہ دے دےگا آخر مارواڑی مہاجن ہے اس کے لیے پانچ سو روپے کون سی بڑی بات ہے۔‘‘
قاعدے سے تو منشی جی نے اس سے روپیہ وصول کر ہی لیا ہوگا۔ میں نے سوچا کہ بات دراصل جناب یہ ہے کہ میری حیثیت کے نئے وکیل کے پاس اگر پانچ سو روپے کا مقدمہ آ جائے تو اس کو ایسا معلوم دیتا ہے کہ ٹھنڈے پانی سے نہا رہے ہیں، مطلب میرا یہ کہ سانس کچھ اوپر کو کھینچنے لگتی ہے۔ میں نے خانم سے فوراً وعدہ کر لیا تھا کہ کچہری سے واپسی میں ہیرے کے بندے لیتا آؤں گا۔ وہ بندے انہوں نے حال میں بےحد پسند کیے تھے لیکن قاعدے سے اب تک ان کے لیے میری حیثیت کو دیکھتے ہوئے وہ خریدنے کی چیز نہ تھی بلکہ محض دیکھنے کی چیز تھی۔ خانم کے بار بار اصرار سے میں نے کہا،
’’جان کیوں کھائے جاتی ہو، کہتا بھی ہوں کہ لیتا آؤں گا ضرور لیتا آؤں گا ضرور بالضرور اور کچہری سے سیدھا بازار جاؤں گا اطمینان رکھو۔‘‘ باوجود اس قدر اطمینان دلانے کے بھی خانم مجھے کمرے کے دروازے تک حسب معمول رخصت کرنے جو آئیں تو چلتے چلتے پھر تاکید کر دی۔
میں کچہری پہنچا۔ راستہ میں جتنے بھی نیم کے درخت ملے ان کی طرف دیکھا تو خانم کی خیالی تصویر ہیرے کے بندے پہنے ہوئے نظر آئی۔ طبعیت آج بے طرح خوش تھی، اپنے کو میں ذرا بڑے وکیلوں میں شمار کر رہا تھا، کچہری پہنچ کر سیدھا منشی جی کے پاس پہنچا، منشی جی نے مجھے دیکھ کر ناک کے نتھنے پھلا لیے، میں نے ذرا ادھر ادھر کی کام کی باتیں پوچھیں تو منہ بنا بنا کر جواب دیے۔ مگر مجھے خانم کے بندوں کی جلدی پڑی تھی اور میں نے منشی جی سے آخر کو پوچھ لیا کہ پانچ سو روپے میں لالہ جی کتنے روپے دے گئے اور کتنے باقی ہیں، کسی نے کہا ہے،
اے بسا آرزو کہ خاک شد
آپ مشکل سے اندازہ لگا سکیں گے کہ میرا کیا حال ہوا جب معلوم ہوا کہ مقدمہ پانچ سو کا تو بے شک تھا اور ہے مگر پانچ سو روپے کا نہیں ہے بلکہ دفعہ ۵۰۰ کا (تعزیرات ہند) ہے۔ صدمہ کی وجہ سے میری گردن ایک طرف کو ڈھلک گئی اور اس پر منشی جی کا نہایت ہی کرخت اور طنزیہ لہجے میں ریمارک، ’’ جی۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ پانچ سو روپے فیس کے مقدمے آپ کے لیے اب میں ہائیکورٹ سے منگواؤں گا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔‘‘
میرا تمام جوش و خروش رخصت ہو گیا اور ایک عجیب پسپائیت چھا گئی۔ جماہی لے کر سامنے نیم کی طرف دیکھا۔ بجائے خانم کے خیالی تصویر کے دکاندار کی الماری میں بندے مخمل کی ڈبیا میں رکھے اسی طرح چمک رہے تھے۔
گھر پہنچا تو خانم نے چپکے سے آکر پیچھے سے آنکھیں بند کر لیں اور پھر فوراً ہی میری دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈال کر کہا تمہیں قسم ہے کتنے میں ملے۔ اب آگے جانے دیجیے کہ کس طرح میں نے خانم کو غلط فہمی سے نکال کر سمجھایا اور کیا کیا کوفت ہوئی ہے اور یہ سب کچھ اپنی ہی حماقت سے کیونکہ ذرا غور کرنے پر معلوم ہو گیا کہ اس قسم کے خیالات ہی دل میں مجھے نہ لانا چاہیے تھے۔ لاحول ولا قوۃ۔
(۲)
دوسرے تیسرے روز کا ذکر ہے کہ ایک پر لطف ایٹ روم تھا، کچھ شناسا اور دوست باہر سے بھی اسی تقریب میں آئے تھے جن کا تعلق کالج سے تھا۔ ان میں سے کچھ وکیل بھی تھے۔ یہاں وکیلوں سے بحث ہے۔ ان میں سے کچھ صاحبان ایسے تھے جن سے میری بڑی بے تکلفی تھی۔ مجھ سے دو تین سال پہلے ایل ایل بی کر چکے تھے فرض کیجیے کہ ان میں سے ایک کا نام ’’الف’’ اور دوسرے کا ’’ب’’ اور تیسرے کا ’’ج’’ تھا۔
مسٹر الف سے صبح ملاقات ہوئی تھی سخت پریشان تھے۔ وکالت قطعی نہ چلتی تھی کہنے لگے ’’یار کیا کروں نوکری کی فکر میں ہوں، میں نے کہا’’ پھر؟ ‘‘تو بولے’’ کوئی نوکری بھی نہیں ملتی۔ ‘‘میری حالت پوچھی تو میں نے بھی یہی کہا اور حقیقت بتلا دی کہ یار جب تک والد صاحب روپے دیتے جائیں گے میں برابر وکالت کرتا جاؤں گا۔‘‘
اسی طرح ’’ب‘‘ صاحب سے بھی ملاقات ایک اور صاحب کے ہاں ہوئی۔ ان کا پتلا حال تھا بلکہ ان کی جیب سے تو عمدہ عمدہ قسم کے وانٹڈ اشتہارات کی گڈی کی گڈی نکلی۔ چونکہ میرے گہرے دوست تھے، دو تین اس میں سے چھانٹ کر مجھے بھی اشتہار دیے اور پھر عرضی کے بارے میں تاکید کی کہ رجسٹری سے بھیجنا۔ آج تک تو عرضیوں میں سے ایک کا بھی جواب نہیں آیا اور خواہ مخواہ رجسٹریوں پر میرے دام گئے۔ ’’ج‘‘ صاحب سے بھی ملاقات ہوئی اور ان کا بھی یہی حال تھا۔ میری ان تینوں حضرات سے بےتکلفی تھی لہذا مجھے اصلی حالات بتانے میں کسی نے تامل نہ کیا۔
شام کو ایٹ ہوم کے پر لطف جلسے میں میری قسم کے بہت سے وکیل اپنے اپنے باپوں کی کمائی سے بنوائے ہوئے قیمتی سوٹ زیب تن کیے کیک اور پھل جھاڑ رہے تھے۔ ہم عمر اور ہم خیال اور پھر ہم پیشہ جمع ہوئے تو یہی سوال پیش ہو گیا کہ کہو بھئی کیسے چلتی ہے۔ میں نہیں عرض کر سکتا کہ یہ سوال کس قدر ٹیڑھا ہے۔ آپ کو پہچان بتاتا ہوں کہ نیا وکیل اس سوال کا جواب دینے سے پہلے اگر ذرا بھی کھانسے یا ادھر ادھر دیکھے تو جو آمدنی وہ اپنی بتائے اس کو بے دھڑک دس پر تقسیم کر دیں بالکل صحیح جواب نکل آئےگا۔ نئے وکیل اس سوال سے اس قدر گھبراتے ہیں (خصوصاً میں) کہ اگر وہ سسرال جاتے ہوں تو محض اس سوال سے بچنے کے لیے بطور پیش بندی یہی کہہ دیا جاتا ہے کہ جناب ایک مقدمہ میں جا رہا ہوں۔ آپ ہی بتائیے کہ پھر آخر کیا بتایا جائے۔
غرض یہی سوال کہ ’’کیسی چلتی ہے؟‘‘ پیش کیا گیا اور مسٹر ’’ب‘‘ کو جواب دینا پڑا۔ مسٹر ’’ب‘‘ نے چہرے کو کسی قدر منور کر کے کہا۔ ’’خدا کا شکر ہے اچھا کام چل رہا ہے۔‘‘
’’کتنا اوسط پڑ جاتا ہے؟‘‘ مسٹر ج نے پوچھا۔ مسٹر ب نے ذرا گلا صاف کر کے کھانستے ہوئے کہا، ’’کیا اوسط ہوتا ہے۔۔۔ بھئی بات تو یہ ہے کہ نیا کام ہے کچھ بھروسہ نہیں، کسی مہینے میں کم تو کسی میں زیادہ۔ اتنا کہہ کر کچھ کھانے کی طرف متوجہ ہوئے، کیونکہ ا س فرض سے بھی غافل رہنا نہ چاہتے تھے۔ اور پھر کچھ سمجھ کر خود ہی کہا۔۔۔ ایک مہینے میں ایسا ہوا کہ صرف بتیس روپے پونے نو آنے آئے۔۔۔!’’
ایک قہقہہ لگا اور ایک صاحب نے زور سے کہا ’’پونے نو آنے نہ کم نہ زیادہ۔‘‘ مسٹر ب نے جلدی سے لوگوں کی غلط فہمی سے اس طرح نکالا، ’’ ایک میں تو ساڑھے بتیس روپے آئے لیکن دوسرے مہینے میں سترہ روز کے اندر اندر دو سو چھیالیس۔‘‘ مسٹر ج نیز اوروں نے غور سے مسٹر ب کی آمدنی کا معائنہ کرتے ہوئے کہا، ’’تو اوسط آپ کا دو سو روپیہ ماہوار کا پڑتا ہوگا۔‘‘
مسٹر ب نے نظر نیچی کیے نارنگی کی پھانک کھاتے ہوئے کہا، ’’جی مشکل سے۔۔۔ دو سو سے کم ہی سمجھیے بلکہ ایک کم دو سو کہیے ’’ اس طرح سوال سے اپنی جان چھڑا کر اب مسٹر ج کو پکڑا اور کہا ’’کہو یار تمہارا کیا حال ہے؟‘‘ اب مسٹر ج کی طرف سب کی آنکھیں اٹھ گئیں ان کی حالت بھی قابل رحم تھی، ان کو بھی کھانسی آئی اور ان کا بھی اوسط دو سو پونے دو سو کے قریب پڑا۔ مسٹر الف کا نمبر آیا تو کم و بیش اتنا ہی ان کا بھی حساب پڑتا تھا مگر چونکہ وہ حساب رکھنے کے عادی نہیں تھے لہذا کچھ زیادہ روشنی ڈالنے سے قاصر رہے۔ سب کی بالا تفاق رائے تھی کہ وکالت نہایت عمدہ اور آزاد پیشہ ہے، قطعی ہے بشرطیکہ گھر سے برابر روپیہ آتا رہے، سال دو سال میں ڈیڑھ دو سو کی آمدنی ہونے لگنا دلیل ہے اس یقینی امر کی کہ دس بارہ سال میں کافی آمدنی ہونے لگے گی یعنی ہزار بارہ سو۔
میرا نمبر آیا تو میں نے مسٹر ب کے عطا کردہ وانٹڈ کے اشتہار نکال کر دکھائے کہ ’’بھئی میں تو آج کل یہ دیکھ رہا ہوں۔‘‘ ناظرین نے ایک قہقہہ لگا یا اور میں نے چپکے سے مسٹر ب کی طرف دیکھا وہ کچھ بے چین تھے۔ مسٹر الف و ب و ج کیا بلکہ بڑی حد تک جتنے بھی وہاں وکالت پیشہ تھے انہوں نے خاص دلچسپی کا اظہار کیا اور پھر مسٹر الف و ب و ج نے تو کہا کہ ’’ا جی جمے رہو۔ ہم بھی پہلے گھبرا گئے تھے اور تمہاری طرح کہتے تھے کہ نوکری کر لیں گے مگر خبردار نوکری کا بھول کر بھی نام نہ لینا۔‘‘
واقعی بات بھی ٹھیک تھی، کیوں؟ شاید محض اس وجہ سے کہ وکالت نہایت معزز اور آزاد پیشہ ہے۔
(۳)
اسی ایٹ ہوم میں میرے سینئر بھی ملے۔ کہنے لگے کہ، ’’صبح آنا ایک معمولی سی عذر داری ہے دس بجے کی گاڑی سے چلے جانا شام کی گاڑی سے چلے آنا۔‘‘
یہ ضلع کی ایک تحصیل کی منصفی کا مقدمہ تھا۔ مقدمہ یا فیس کے بارے میں کیفیت پوچھ نہ سکا۔ میرے سینئر پرانے اور کامیاب وکیل ہیں۔ لمبے چوڑے وجہیہ آدمی، قد آور، دبنگ آواز کے وکیلوں میں نمایاں شخصیت رکھنے والے۔ چونکہ تحصیلوں کی منصفی میں نئے وکیل کو خصوصاً ذرا ٹھاٹھ سے جانا چاہیے۔ میں نے بھی رات ہی کو ایک عمدہ سا سوٹ نکال کر رکھا۔ صبح خانم سے کہا کہ ’’چائے کے بجائے پراٹھے اور انڈے کھلواؤ۔‘‘ ایک کتاب بھی لے جانا طے ہوا حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
مجھے تو افسوس تھا ہی، خانم سے کہا تو اس کو اور بھی افسوس ہوا کہ جب میں اپنے سینئر کے ہاں سے واپس آیا اور سارا قصہ سناتے ہوئے جلدی جلدی اسٹیشن جانے کی تیاری کی۔ بات افسوس کی دراصل یہ تھی کہ موکل بیس روپے دے گیا تھا۔ سینئر صاحب تو ججی کے ایک اپیل کی وجہ سے نہ جا سکتے تھے لہذا انہوں نے مجھ سے کہا کہ وکالت نامہ موجود ہے اس پر تم بھی دستخط کر دینا اور دس روپے تم لے لینا باقی موکل کو واپس کر دینا۔ میں بھلا ان سے کیسے کہتا کہ جناب یہ آپ کیوں نا حق واپس کرواتے ہیں۔
میرے اور خانم کے دماغ تو دیکھیے۔ میں سوچ رہا تھا کہ جو کام میرے سینئر کرتے، آخر بالکل وہی کام میں کروں گا، وہ خود کرتے تو بیس لیتے جو موکل دے ہی گیا تھا اور مجھ سے کام لے رہے ہیں تو آیا ہوا روپیہ واپس کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ مگر مجھے واپس کرنا ہی تھا۔ روپے فیس کے علاوہ کرایہ وغیرہ کے علیحدہ تھے۔ معاملے کو سینئر صاحب سے خوب سمجھ کر آیا تھا اور پھر آخر کچھ معاملہ بھی تو ہو، ذرا غور تو کیجیے کام ہی کیا تھا۔ قصہ دراصل یہ تھا کہ دو بھائی تھے ایک نے قرض لیا، مہاجن قرقی کرانے آیا تو قرض دار بھائی کے پاس کچھ برآمد نہ ہوا تو اس نے دوسرے بھائی کے بیل خواہ مخواہ قرق کرا لیے۔
اگر دیکھا جائے تو اس معاملہ میں دراصل کسی وکیل کی بھی ضرورت نہ تھی۔ کجا ایک بڑے وکیل کی کیونکہ کو آپریٹو بنک کے رجسٹر موجود تھے اور پھر پٹواری کی فرد جس سے یہ ثابت تھا کہ دونوں بھائیوں کی کھیتی باڑی اور تمام کاروبار الگ ہیں اور ایک بھائی کے قرضے میں دوسرے بھائی کے بیل کسی طور بھی قرق نہیں ہو سکتے۔ اس کی بھی پوری شہادت موجود تھی کہ یہ بیل بنک کے قرضے سے خریدے گئے ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود بھی بجائے وکیل بالکل نہ کرنے کے یا میرا سا کوئی تھرڈ کلاس کر لینے کے وہ بھلا مانس سیدھا میرے سینئر کے پاس دوڑا آیا۔
میں آپ سے کیا عرض کروں کہ تمام نئے وکیلوں کو (خصوصاً مجھے سب سے زیادہ) کتنی بڑی شکایت ہے کہ اہل معاملہ یعنی مقدمہ لڑنے والے ذرا ذرا سے کاموں کے لیے بڑے بڑے وکیلوں کے پاس دوڑتے ہیں۔ ہم لوگوں کو کوئی مسخرا بھول کر بھی نہیں پوچھتا ورنہ اس سے بہتر کام آدھی سے کم فیس پر دوڑ کر کریں۔ مگر صاحب ہماری کوئی نہیں سنتا، جسے دیکھو بڑے وکیلوں کی طرف دوڑا چلا جا رہا ہے، ہم بھی جل کر کہتے ہیں جاؤ ہماری بلا سے تم ایک چھوڑ دس مرتبہ جاؤ، دوگنے چوگنے دام بھی دو اور جھڑکیاں کھاؤ وہ علیحدہ۔ اب آپ ہی بتائیں کہ اس کے علاوہ اور بھلا ہم کر ہی کیا سکتے ہیں۔
ساڑھے دس بجے کے قریب میں منزل مقصود پر پہنچ گیا اور فوراً اپنے موکل کی تلاش شروع کر دی۔ یہ موکل دراصل میرے سینئر صاحب کا بےحد قائل بلکہ معتقد تھا اور سوچتا تھا کہ خراب مقدمہ بھی وہ درست کر سکتے ہیں، چنانچہ اسی بنا پر وہ ان کے پاس دوڑا آیا تھا، میں نے اس موذی کو کبھی نہ دیکھا تھا۔ ادھر میں اس کی تلاش میں تھا اور ادھر وہ میرے سینئر کا منتظر، اسے کیا معلوم کہ ان کے بجائے میں آیا ہوں اور خود اس کو ڈھونڈتا پھرتا ہوں۔ پیش کار کے پاس جا کر میں نے وکالت نامہ داخل کیا۔ عدالت کے کمرے سے نکلا ہی تھا کہ ایک گنوار نے مجھے سلام کیا، اس طرح کہ جیسے مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہے، اس نے مجھ سے میرے سینئر کے بارے میں پوچھا کہ، ’’کیوں صاحب آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ کیوں نہیں آئے؟‘‘ میں نے اس کے جواب میں اس کا نام لے کر پوچھا کہ تمہارا نام یہ ہے، اس نے کہا ہاں، میں خوش ہوا کہ موکل مل گیا۔ میں نے اس سے کہا کہ ’’تمہارے مقدمہ میں، میں آیا ہوں ان کی ججی میں ایک اپیل ہے۔‘‘ یہ سن کر اس کمبخت کا گویا دم ہی تو سوکھ گیا۔ نہایت ہی بد دل ہوکر اس نالائق نے دو چار آدمیوں کے سامنے ہی کہہ دیا کہ ’’انہوں نے (یعنی میرے سینئر نے) میرا مقدمہ پٹ کر دیا۔‘‘ آپ خود ہی خیال کیجیے کہ اس گنوار کے اوپر مجھے کیا غصہ نہ آیا ہوگا۔ میں سخت خفیف سا ہوا اور دل میں ہی میں نے کہا کہ اگر ایسے ہی دو چار اور مل گئے تو پھر بقول منشی جی وکالت تو ’’بس چل چکی۔‘‘
میں نے اپنی خفت مٹانے کو ہنسی میں بات ٹالنا چاہی اور کہا، ’’کیا فضول بکتا ہے۔‘‘ مجھے خیال آیا کہ دس روپے منجملہ بیس کے اسی وقت واپس کر دوں تاکہ یہ خوش ہو جائے، چنانچہ میں نے دس روپے کا نوٹ نکال کر اس کو دیا اور کہا کہ باقی میری دس فیس کے ہوئے اور یہ تمہیں واپس کیے جاتے ہیں۔ میرا روپیہ واپس کرنا گویا اور بھی ستم ہو گیا، گویا ساری قلعی کھل گئی۔ اس نے نوٹ تہہ کر کے اپنی جیب میں رکھتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے دس پانچ روپے کا ٹوٹا پھوٹا وکیل کرنا ہوتا تو میں ان کے پاس کیوں جاتا؟ یہیں کسی کو نہ کر لیتا۔‘‘
اب تو جناب میں اور بھی گھبرایا، کیا بتاؤں کس قدر اس کم بخت نے مجھے خفیف کیا اور کیسا سب کے سامنے ذلیل کیا۔ مارے غصے کے میں کانپنے لگا مجھے معلوم ہوتا کہ یہ موذی مجھے اس بری طرح بھگو بھگوکر مارےگا تو میں سو روپے فیس پر بھی اس نالائق کے مقدمہ میں نہ آتا، ہائے میں کیوں آیا بس نہ تھا کہ ایک دم سے اڑ کر یہاں سے کسی طرح غائب ہو جاؤں مبادا کہ وہ اسی قسم کے فقرے چست کرے۔ میں اس پیشے کو دل ہی دل میں برا بھلا کہہ رہا تھا اور باہر اس لطیفے پر کچہری کے لوگ ہنس رہے تھے، لاحول ولا قوۃ ایسی بھی میری کبھی کاہے کو ذلت ہوئی ہوگی، اور یہ سب درگت محض دس روپیہ کی بدولت لعنت ہے اس پیشے پر، میں نے اپنے دل میں کہا۔
جب میں نے دیکھا کہ وہ موذی دور چلا گیا تو پھر برآمدہ میں نکلا۔ دور سے ایک درخت کے نیچے میں نے اس کو کھڑا دیکھا، دو چار آدمی اور تھے۔ اتنے میں اس ظالم نے مجھے دیکھا اور دیکھتے ہی وہیں سے میری طرف اس نے انگلی اٹھائی۔ آپ کی طرف اگر کوئی دشمن بھری ہوئی بندوق کی نال دکھائے تو آپ کیا کریں گے؟ یقینی آڑ میں چھپ جائیں گے، بس پھر میں نے بھی یہی کیا اور فوراً عدالت کے کمرہ میں گھس گیا کیونکہ وہ ناشدنی انگلی میرے لیے کسی طرح بھی بندوق کی نال سے کم نہ تھی پھر تھوڑی دیر بعد نکلا تو پھر اس نے میری طرف انگلی اٹھائی، اب مجھ میں ضبط کی طاقت نہ تھی اور سیدھا اسی کی طرف گیا۔ مارے غصے کے میرا برا حال تھا۔ پہنچتے ہی اس نے میرے تیور بگڑے دیکھے۔ کچھ جھجکا کہ میں نے ڈانٹ کر کہا، ’’چپ رہو بدتمیز کہیں کا ایک تو ہم اتنی دور سے آئے آدھی فیس لی اور اس پر تو بدزبانی کرتا ہے۔‘‘
دو ایک عرائض نویسوں نے بھی میری حمایت کی اور اس کو ڈانٹا اور میری قابلیت وغیرہ پر کچھ روشنی ڈالی اور اس کو قائل کیا تو وہ فوراً سیدھا ہو گیا اور پھر معذرت کرنے گا کیونکہ آخر مجھ ہی سے اس کو کام لینا تھا۔ جب وہ راہ راست پر آ گیا تو میں نے اس سے کچھ زبانی بھی باتیں دریافت کیں۔ پٹواری سے بھی بات چیت کی۔ بنک کے منشی سے بھی مل لیا اور سب کو ضروری ہدایت بھی کر دی۔ تھوڑی ہی دیر بعد مقدمہ کی پیشی ہوئی میں کبھی اس پیشی کو نہ بھولوں گا۔
ادھر سے میں وکیل تھا اور ادھر سے ایک موٹے تازے بڑی بڑی مونچھوں والے کالے بھجنگ وکیل تھے جن کی گھاٹی اس قدر صاف تھی اور وہ اس تیزی سے بولتے تھے کہ گمان ہوتا تھا کہ کوئی چنے دل رہا ہے۔ ادھر تو یہ معاملہ اور ادھر میں، سوکھا ساکھا قحط کا مارا معہ مبالغہ مجھ جیسے ان میں سے دس بنتے۔ غل غپاڑہ ویسے تو میں بھی مچا سکتا ہوں، حضرت کہاں ڈفلی اور کہاں ڈھول اور پھر علاوہ اس کے مجھ میں اور ان میں سب سے بڑا ایک اور فرق تھا وہ فرق جو عموماً ہائی کورٹ اور تحصیل کے وکیل میں ہو سکتا ہے۔
جب مقدمہ پیش ہوا تو میں نے کچھ بن کر نہایت ہی قاعدے سے اپنے موکل کی عذر داری پیش کی مگر خدا وکیلوں کی بدتمیزی سے بچائے۔ وکیل مخالف بار بار خلاف قاعدہ دخل در معقولات کرتے تھے، بے وجہ اور بے بات میرے اوپر خلاف قاعدہ اعتراض کرتے تھے، کئی مرتبہ میں نے عدالت کی توجہ بھی اس طرف دلائی کہ ان کا کوئی حق نہیں اور عدالت نے کہا مگر وہ بھلا کاہے کو سنتے تھے، نہ انہیں عدالت کی جھڑکیوں کا ڈر تھا اور نہ اس کا خیال کہ یہ بات بالکل بےقاعدہ ہے کہ میری تقریر کے دوران میں دخل دیں، انہیں تو بس ایک ہی خیال تھا اور وہ یہ کہ مقدمہ تو ہارنا ہی ہے لاؤ اپنے موکل ہی کو خوش کر لوں تاکہ وہ قائل ہو جائے کہ میرے وکیل نے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ غرض وہ مرغے کی سی چونچیں لڑ رہے تھے، کبھی مسل سامنے سے لیے لیتے تھے تو کبھی پھاند پھاند کر مجھے روک دیتے تھے۔
جس طرح بھی بن پڑا میں نے اپنی تقریر نہایت ہی عمدہ پیرائے سے خوش اسلوبی کے ساتھ ختم کی اور اب ان کا نمبر آیا انہوں نے اپنی مونچھیں پونچھ کر ذرا گلا صاف کیا گویا بالفاظ دگر کہا،
اب جگر تھام کے بیٹھو مری باری آئی
انہوں نے اپنی جوابی تقریر شروع کی، آنکھیں گھما کر اور پیشانی پر بل ڈال کر ریل گاڑی سی چھوڑ دی، جو منہ میں آیا خواہ تعلق یا بےتعلق سب کہہ ڈالا اور پھر اس تقریر کے دوران میں ان کا گردن کو جھٹکا دے کر ایک عجیب انداز سے آگے کو بڑھنا اور پھر گردن ہلاتے ہوئے آنکھیں مٹکاتے ہوئے اور ہاتھ نچاتے ہوئے پیچھے ہٹنا اور پھر جھپٹ کر مسل کو لینا اور تیزی سے ورق کو الٹ پلٹ کر کے اس کے ورق اڑانا، یہ سب ایک تماشا تھا کہ اگر مسٹر السٹن یا جسٹس محمود یا راش بہاری گھوش ہوتے تب بھی اس مقدمے میں میرے خلاف ان کی بولنے کی ہمت نہ پڑتی کیونکہ مقدمہ ہی اس طرف سے کمزور تھا مگر وہ حضرت بھلا کاہے کو رکتے۔
ان کی اس بے تکی اور لغو تقریر سے میرے اوپر یا عدالت کے اوپر تو کوئی اثر نہ پڑ سکتا تھا مگر بدقسمتی سے میرے موکل کے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ ناشدنی سخت گھبرایا اور یہ سمجھا کہ وکیل مخالف چونکہ بڑے زور و شور سے مقدمہ لڑ رہا ہے لہذا میری کاہلی سے جیت نہ جائے، چنانچہ اس نے میرے کان میں چپکے سے اپنا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے مجھ سے کہا کہ تم کیوں نہیں لڑتے۔ میں نے اس کی اس بے ہودگی کا کچھ جواب نہ دیا، مجھے کیا معلوم تھا کہ اس کا نتیجہ میرے حق میں برا نکلے گا ورنہ وکیل مخالف کے چپت ہی پڑتا۔ لیکن میرے موکل نے مجھے پھر آگاہ کیا اور جب کئی مرتبہ مجھے بار بار تنگ کیا تو میں نے اسے جھڑک دیا کہ چپ رہ۔
اب میری مصیبت آتی ہے تھوڑی ہی دیر بعد جب وکیل مخالف کی دھواں دھار تقریر پھر زوروں پر آئی تو میرے موکل نے ایک نئی ترکیب نکالی ’’حضور‘‘ کہہ کر، ہاتھ جوڑ کر منصف صاحب کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ منصف صاحب نے وکیل مخالف کو روکا اور میرے موکل سے کہا کیوں؟ اور پھر میری طرف مخاطب ہو کر کہا ’’یہ کیا کہتا ہے؟‘‘ مجھ سے انہوں نے اس وجہ سے پوچھا کہ عموماً موکل ہر بات پر اپنے وکیل کی معرفت عدالت سے کہتا ہے، میں نے لاعلمی ظاہر کی اور موکل سے پوچھا کہ جو کہنا ہو مجھ سے کہو۔ میری طرف موکل نے بھنا کر دیکھا اور کہا ’’تم سے نہیں کہنا ہے مجھے تو حضور سے کہنا ہے۔‘‘ یعنی عدالت سے۔ منصف صاحب نے اس سے کہا کہ ’’بول کیا کہتا ہے‘‘ یعنی عدالت سے، منصف صاحب نے اس سے کہا کہ بول کیا کہتا ہے۔ ہاتھ جوڑے تو وہ کھڑا ہی تھا اب گڑگڑاکر کہنے لگا۔
’’حضور میرے مقدمہ کی پیشی کی کوئی دوسری تاریخ فرما دی جائے۔‘‘ قبل اس کے کہ منصف صاحب کچھ بولیں، اس نے تین چار مرتبہ فریاد کی۔
’’حضور میری پیشی بڑھا دی جائے۔ حضور میں مر جاؤں گا۔‘‘ وغیرہ وغیرہ اب میں کچھ کھٹکا اور گھبرایا۔
قاعدہ ہے کہ بغیر وجہ مقدمہ ملتوی نہیں ہوتا لہٰذا منصف صاحب نے وجہ دریافت کی اس پر وہ ناشدنی بولا کہ صاحب میں بے موت مر گیا اب کیا کہوں اور کیا وجہ بتاؤں بس کچھ نہ پوچھئے۔ میرے تو کرم پھوٹ گئے جب اس نے بار بار دریافت کرنے پر بھی کچھ نہ بتایا تو منصف صاحب نے ڈانٹ کر کہا کہ ’’بتانا ہو تو بتاؤ ورنہ عدالت سے باہر نکلوا دوں گا۔‘‘
اس پر وہ موذی بولا اور نہایت ہی برے لہجہ میں کہا حضور میری تقدیر اس وجہ سے پھوٹ گئی اس مقدمہ میں بڑے وکیل صاحب کو بلایا تھا۔ میرے کرم جو پھوٹے تو انہوں نے بھیج دیا ان کو۔ یہ کہہ کر میری طرف انگلی اٹھائی اور میرا چہرہ فق ہو گیا، ہاتھ پیر پھول گئے، دل دھڑکنے لگا۔ جاڑوں کا موسم تھا۔ مگر پسینہ سا آ گیا۔ غرض میری طرف انگلی اٹھا کر اس نے سلسلہ کلام اسی قابل اعتراض لہجے میں جاری رکھا اور کہا، ’’انہوں نے انہیں بھیج دیا اور حضور ان کا حال یہ ہے کہ ان کا چرکورئے کا سا سینہ نہ بحثیں نہ بحثیں۔‘‘
اس پر زور سے قہقہہ لگا مگر منصف صاحب نے ڈانٹ کر کہا کیا بکتا ہے نالائق کہیں کا، مگر ہنسی کے مارے سب کا برا حال تھا۔ ادھر میرا یہ حال کہ خفت کی ہنسی ہنسنے کی کوشش کی۔ اس سے کام نہ چلا تو جماہی لی منہ رومال سے پوچھا، گھڑی کی طرف دیکھا، قلم کی نب سے کچھ میز کریدی اور وہ ملعون ہے کہ گڑگڑا کر کہے جا رہا ہے کہ حضور میری پیشی بڑھا دی جائے۔ میرے اوپر رحم کیجیے، میں مر جاؤں گا وغیرہ وغیرہ۔
منصف صاحب نے خود ہنسی کو روکا اور سنجیدگی سے وکیل مخالف سے کہا کہ آپ کو تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ انہوں نے کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں بشرطیکہ فریق مخالف میرا ہرجانہ داخل کر دے۔ یہ سنتے ہی میرے موکل نے وہی دس روپے کا نوٹ جو میں نے اسے واپس کیا تھا عدالت کی میز پر رکھ دیا۔ وکیل مخالف نے فوراً اس کو اٹھا کر اپنی جیب میں رکھا۔ اب اس نے یعنی میرے موکل نے اطمینان سے وکیل مخالف کی طرف بھی ٹیڑھی نظروں سے دیکھا اور کہا، ’’آج ٹیں ٹیں کر لو، اب کی مرتبہ جو میرا وکیل آئےگا تو تمہیں بھی بند کر دےگا۔‘‘ منصف صاحب نے ایک ڈانٹ اسے بتائی اور کہا اسے نکالو، عدالت سے نکالو وہ کم بخت ہاتھ جوڑتا سلام کرتا منصف صاحب کو ججی کی دعائیں دیتا سر پر پیر رکھ کر بھاگا۔ میں آپ سے کیا عرض کروں کہ میرا کیا حال تھا۔ ہر شخص مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا اور میں مرا جا رہا تھا، بس نہ چلتا تھا کہ زمین میں سما جاؤں۔ چلتے وقت مصف صاحب نے بھی ایک چھینٹا کسا اور مجھ سے کہا کہ وکیل صاحب ڈنڈ نکالا کیجئے تاکہ سینہ کشادہ ہو جائے۔
غرض جس طرح بن پڑا سیدھا عدالت کے کمرے سے نکل کر اسٹیشن کی طرف بھاگا۔ وہ دن اور آج کا دن پھر کبھی اس تحصیل میں جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ یہی کیا کم ہے کہ وکالت کر رہا ہوں۔ وہ شاید اس وجہ سے کہ وکالت نہایت عمدہ اور ایک آزاد پیشہ ہے۔ قربان جائیے اس آزادی کے۔
مصنف:مرزا عظیم بیگ چغتائی