کہانی کی کہانی:’’تقسیم ہند کے بعد صاحب ثروت طبقہ جو ہجرت کرکے پاکستان میں آباد ہوا تھا ان کے یہاں جائداد کی تقسیم کو لے کر پیدا ہونے والے مسئلہ کی عکاسی کی گئی ہے۔ محل والوں کی حالت تو تقسیم سے پہلے جج صاحب کی موت کے بعد ہی ابتر ہو چکی تھی لیکن تقسیم نے ان کے خاندان کی حالت مزید ابتر کردی۔ ہجرت نے ان سب کو ایک جگہ جمع کر دیا اور وہ سب متروکہ جائداد کے بدلے ملنے والی جائداد کی تقسیم کے لیے آپس میں الجھ گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ساری کی ساری جائداد تقسیم ہو کر ختم ہو گئی اور سب کے اندر سے مروت بھی رخصت ہو گئی۔‘‘
بڑی بھابھی بھی یہی کہتی تھیں کہ انھوں نے اپنے ہاتھ سے جج صاحب کی تصویر صندوق میں رکھی تھی، نہ معلوم یہ بڑی بھابھی کی بھول تھی یا راستے میں کوئی واردات گزری، بہرحال جب پاکستان آکر سامان کھولا گیا تو جج صاحب کی تصویر غائب تھی، جج صاحب کی تصویر کے ساتھ تو یہ سانحہ گزرا اور محل کو اٹھا کر نہیں لایا جا سکتا۔ چھتوں پر گھاس اگ آئی تھی، لیکن دیواروں کی بلندی، بڑا پھاٹک، اونچی ڈیوڑھی یہ سب اس بات کی دلیلیں تھیں کہ محل معمولی عمارت نہیں تھی اور اس کے رہنے والے ایسے ویسے نہیں تھے۔ جج صاحب کا وہ زمانہ اس گھرانے کے عروج کا زمانہ تھا، سارا خاندان ایک جگہ جمع تھا اور محل میں یہ حالت تھی کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی، لیکن جج صاحب کے گزرنے کے ساتھ ساتھ امی جی کا یہ دور بھی گزر گیا۔
ایسا دیکھا گیا ہے کہ کبھی کبھی خاندان کا بھرم کسی ایک شخصیت کی وجہ سے بنا رہتا ہے۔ اس کے اٹھتے ہی ساکھ ایسی بگڑتی ہے کہ بننے میں پھر آتی ہی نہیں، محل والوں کے ساتھ بھی کچھ یہی ہوا، جج صاحب نے اپنی زندگی میں خاندان والوں کو ایسا جماکے رکھا تھا کہ نہ تو کسی پہ مفلسی کا دور آیا اور نہ آپس میں کوئی تفرقہ پیدا ہوا، ان کی آنکھ بند ہوتے ہی سارا خاندان تیلیوں کی طرح بکھر گیا، جائداد کے بٹوارے تک کی نوبت آگئی تھی۔ مگر خیر یہ معاملہ تو رفع ہوگیا، ہاں وہ جمگھٹا قائم نہ رہ سکا، روزی کی فکر میں جدھر جس کے سینگ سمائے نکل گیا اور جس دیس کی ہوا موافق نظر نہ آئی وہیں پڑاؤ ڈال دیا۔
جباّر شیخ نے کلکتہ جاکر بیوپار شروع کر دیا، ہادی بھائی آگرہ جاکر پہلے ایک چمڑا رنگنے کے کارخانے میں ملازم ہوگئے، پھر اپنی جوتوں کی دوکان کھول لی اور ہادی بھائی جوتے والے کے نام سے مشہور ہوگئے، جعفری اور پروفیسر شاہ نے انگریزی تعلیم پائی تھی، انہوں نے تجارت کے کاموں میں پڑنے میں اپنی ہتک سمجھی۔ جج صاحب مرحوم کے روابط کام آئے اور رنجر جعفری سفارشوں کے زور پر سی پی کے محکمہ جنگلات میں رینج آفیسر مقرر ہوگئے۔ سی پی کے معصوم لوگوں نے نہ معلوم ان میں کیا لٹک دیکھی کہ انہیں سیّد سمجھ بیٹھے۔ سفارشوں سے حاصل کیا ہوا عہدہ اور سی پی کے عقیدت مند لوگوں کی بخشی ہوئی سیادت، دونوں کے گھال میل سے رنجر جعفری کا نام ظہور میں آیا اور اصلی نام پر غلبہ پایا۔
پروفیسر شاہ پنجاب آکر شاہ بنے، تعلیم نے ان کی مزاج کو ذرا زیادہ خراب کیا تھا، انہوں نے جج صاحب کے تعلقات سے فائدہ اٹھانے سے صاف انکار کر دیا، اور اپنی قابلیت کی سفارش پر پنجاب کے معمولی سے شہر کے ایک کالج میں لیکچرار بن گئے، نام کے آگے حسین لگا ہوا تھا، محلہ والوں نے شاہ صاحب کہنا شروع کردیا، یوں وہ پروفیسر شاہ بن گئے۔ پنجاب کے ایک کھاتے پیتے سیّد خاندان نے انہیں اپنی غلامی میں لے لیا اور یوں ان کی سیاست پر مہر توثیق ثبت ہوگئی، خاندان والوں کو جب یہ خبر ملی کہ خاندان کے دو افراد پردیس جاکے سیّد بن گئے تو تھوڑے دن تک خاصا تفریح کا سامان رہا، طنزاً انہوں نے بھی ان نئے سیّدوں کو رنجر جعفری اور پروفیسر شاہ کہنا شروع کردیا، رفتہ رفتہ طنز کا وہ پہلو تو زائل ہوگیا اور رنجر جعفری اور پروفیسر شاہ اچھے بھلے نام بن گئے، پروفیسر شاہ کی بیوی تو خیر تھیں ہی سیّدانی، اس لئے وہ سیّدانی آپا کہلائیں تو بجا کہلائیں۔
مختصر یہ کہ خاندان ہر طریقے سے تتر بتر ہوا، کوئی شیخ بنا، کوئی سیّد، کوئی پٹھان۔ کوئی کسی دیس پہنچا، کسی نے کسی شہر کا رخ کیا، ڈیوڑھی خالی پڑی رہتی، محل بھائیں بھائیں کرتا، چھوٹے میاں وضعدار نکلے اور خاندان کے جتنے افراد رہ گئے تھےان کے سر پرست بن گئے، واقعہ یوں ہے کہ جج صاحب کے بعد خاندان میں سب سے بڑے چھوٹے میاں تھے، اور جج صاحب کے روپے پیسے کے بھی اصلی وارث وہی تھے۔
باقی تو کوئی پھوپھی کا بیٹا کوئی چچا کا کوئی تایا کا، دراصل یہ خاندان کچھ اتنا پھیلا ہوا تھا کہ ان کے باہمی رشتوں کا کچھ پتہ ہی نہ چلتا تھا، بس سب کو ایک احساس سا تھا کہ ہم سب ایک خاندان ہیں، خاندان کے تتر بتر ہوجانے کی وجہ سے یہ احساس کچھ اور مبہم ہوگیا تھا، اب تو صرف کاج ہی کے موقع پر خاندان کے سارے افراد کے نام یاد آتے تھے اور اس قسم کے ہر موقعہ پر اچھی خاصی بدمزگی ہو جاتی تھی۔ ہادی بھائی جوتے والے کی لڑکی آمنہ کی جب بسم اللہ ہوئی تھی تو رنجر جعفری کو دعوت کا رقعہ نہیں پہنچا جس پہ رنجر نے شکایتوں کے طومار باندھے۔ ہادی بھائی قسمیں کھا کر کہتے تھے کہ انہوں نے ایک خط آگرہ ڈالا تھا اور دوسرا خط محل پہنچ کر بھیجا۔ دراصل اس میں خطا رنجر جعفری کے پتے کی تھی، روز تو ان کا تبادلہ ہوتا تھا اور پھر سی پی کے عوج بنونق شہر، دموہ، چھند واڑہ، یوت مال، پتھریا، ہروہ، ذرا ہجے غلط ہوجائیں تو شہر بدل جاتا ہے۔ خیر رنجر جعفری اور رنجرنی کو رشتوں ناتوں کا احساس تو تھا، جباّر شیخ تو کلکتہ جاکر ایسے بیگانہ ہوئے تھے کہ تقریب میں شرکت تو درکنار، مبارکبادی کا خط بھی بھیجا بھیجا نہ بھیجا نہ بھیجا۔
پاکستان کے قیام کے ساتھ ساتھ محل والوں کی تاریخ میں ایک انقلاب آیا، ہجرت نے بہت سے خاندانوں کا شیرازہ بکھیر دیا مگر محل والوں کے ساتھ معاملہ الٹا ہوا، پاکستان نے ان کے خاندان کو پھر ایک جگہ جمع کر دیا اگر چہ ان کا محل متروکہ جائداد قرار دے دیا گیا۔ یہ بے محل کے محل والے عجب انداز سے آکر پاکستان میں ملے، پروفیسر شاہ دوپہر کو کالج سے نکل رہے تھے، گیٹ پہ ایک شخص ملا، کپڑے میلے چیکٹ، بالوں میں دھول، بڑھی ہوئی حجامت۔ پروفیسر شاہ پہلے تو سمجھے نہیں کہ وہ شخص کیوں ان کی طرف بڑھ رہا ہےلیکن ایک ساتھ پہچان گئے اور ہادی بھائی کہہ کر گلے سے لپٹ گئے۔ ذرا ہوش آیا تو پوچھنے لگے، ’’بھابھی کہاں ہیں؟‘‘ ہادی بھائی رونی آواز میں بولے، ’’بھیّا میں اکیلا آگرے سے آرہا ہوں، دکان میں آگ لگ گئی، سیکڑوں کا مال منٹوں میں خاک ہوگیا، تمہاری بھابھی کو بچوں سمیت میں نے پہلے ہی آگرے سے گھر بھیج دیا تھا، جانے کس حال میں ہیں۔‘‘
کوئی تیسرے چوتھے دن جوتے والی بھابھی اور باقی سارے محل والے اسپیشل سے آپہنچے، چھوٹے ابا اور بڑی بھابھی ہوائی جہاز سے آئیں، جباّر شیخ بھی کلکتہ سے ہوائی جہاز میں بیٹھے اور پاکستان آن اترے، رنجر جعفری دمودہ سے بمبئی پہنچے، وہاں پندرہ دن تک ساحل پہ مصیبتیں اٹھاتے رہے، خدا خدا کرکے جہاز چلا، بمبئی سے کراچی اور کراچی سے پروفیسر شاہ کے گھر۔ عتیق کالج سے آیا تو دیکھا کہ گھر بھرا ہوا ہے، بہت حیران ہوا، بڑی بھابھی نے اسے آنکھیں مچکا مچکا کر غور سے دیکھا، پروفیسر شاہ بولے، ’’عتیق بڑی بھابھی آئی ہیں۔‘‘ عتیق نے جلدی سے گھبرا کر سلام کیا اور بڑی بھابھی نے اسے اٹھ کے سینے سے لگا لیا۔
’’اے ہے عتیق ہے، میں نے تو بالکل نہیں پہچانا، ماشاء اللہ جوان ہوگیا ہے۔‘‘
’’سیدانی اب اس کی شادی کر دو۔‘‘
جوتے والی بھابھی نے بھی اٹھ کر چٹ چٹ بلائیں لیں اور ٹکڑا لگایا، ’’ہاں سیدانی تو بس اس کا بیاہ کروا ڈالو، ہمیں بھی پلاؤ کا نوالہ مل جاوے گا۔‘‘
سیدانی نے بڑی نرمی سے جواب دیا، ’’ہاں بڑی بھابھی آگئی ہیں، اب یہی اس کی شادی کریں گی۔‘‘ اور پھر عتیق سے مخاطب ہوئیں، ’’عتیق! سن رہے ہو، بڑی بھابھی تمہاری شادی کرنے آئی ہیں، بس پڑھنا لکھنا ہوچکا، اب امتحان دے کر نوکری کرلو۔‘‘
جب جباّر شیخ آکر اترے تو رضیہ کو بھی سب سے پہلے بڑی بھابھی ہی نے سینے سے لگایا، رضیہ کی بڑی بڑی آنکھوں، بھرے بھرے سینے اور بنگالی ساڑی سے بڑی بھابھی بہت متاثر ہوئیں، ’’میری بیٹی بالکل بنگالن سی لگے ہے۔‘‘ پھر جباّر شیخ کی بیوی سے مخاطب ہوئیں، ’’اجی اس کی عمر کیا ہے؟‘‘ جبار شیخ کی بیوی بولیں، ’’بڑی بھابھی مجھے تو ایسا دھیان پڑے ہے کہ سولہویں برس میں ہے‘‘
’’زیادہ عمر بتانا بھی فیشن ہوگیا ہے، رنجر جعفری کے بیاہ میں جب تو آئی تھی تو اللہ رکھے یہ تیرے پیٹ میں تھی، رنجر کے بیاہ کو سولہ برس ابھی کہاں سے ہوگئے۔‘‘ جباّر شیخ کی بیوی عاجزی سے بولیں، ’’اجی مجھے تو عمروں کا پتہ نہیں ہے، تم ہی جانو۔‘‘ بڑی بھابھی فاتحانہ احساس کے ساتھ بولیں، ’’ہاں ہمیں پتہ ہے بی بی، رنجر کے بیاہ کو پچھلے مہینے پندرہ برس ہوئے ہیں، مجھے تو آج کی سی بات یاد ہے، اس وقت تجھے ساتواں مہینے تھا تو میرے حساب سے تو تیزی کے مہینے میں رضیہ سولہویں میں پڑے گی۔‘‘
جباّر شیخ کی بیوی نے جوتے والی بھابھی سے خطاب کیا، ’’اور بھابھی آپ کی آمنہ کی عمر کیا ہے؟‘‘ جوتے والی بھابھی نے دو ٹوک جواب دیا، ’’خالی کا چاند دیکھے پہ اٹھارویں میں پڑے گی۔‘‘ آمنہ کی عمر کے سلسلے میں بڑی بھابھی کو اعتراض کی مطلق گنجائش نظر نہ آئی، جوتے والی بھابھی کو آمنہ کی بڑھتی عمر کا اذیت ناک حد تک احساس تھا، انہوں نے سالگرہ کے کلاوے کی گانٹھیں احتیاط سے گن رکھی تھیں اور دنوں تک عمر کا حساب لگا رکھا تھا۔
جباّر شیخ کی بیوی نے کلکتہ جاکر ساڑی باندھنی شروع کر دی تھی، محض ساڑی کی مناسبت سے محل والوں نے انہیں’’بنگالن آپا‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ بنگالن آپا نے اسے اپنی سج دھج کی شان میں خراج سمجھا اور واقعی اپنے آپ کو بنگالن سمجھنے لگیں، رضیہ کی بنگالیت کا احساس سب سے زیادہ عتیق کو ہوا، تیسرے پہر کو جب وہ غسل خانے سے اپنی لٹیں چھٹکاتی نکلی اور بھرے بھرے سینے سے سرکتے ہوئے ساڑی کے پلوّ کو قدرے بے اعتنائی سے درست کیا تو عتیق کو نن بالا کی فلمیں اور بنگال کے متعلق لکھے ہوئے کئی اردو افسانے یاد آگئے۔ اس کا بے اختیار جی چاہا کہ بڑھ کر اس کے چاکلٹی رنگ کے نرم شانوں کو چھولے اور کولھوں کو چھوتے ہوئے بالوں میں انگلیاں ڈال کر اس سے اردو افسانوں کی زبان میں محبت کی باتیں کرنے لگے۔ لیکن چھوٹی بھابھی سامنے چار پائی پہ بیٹھی چھالیاں کتر رہی تھیں، عتیق کلیجہ مسوس کر رہ گیا۔
پروفیسر شاہ کا مکان مختصر تھا اگر بڑا بھی ہوتا تو کون سا فرق پڑ جاتا، محل والے فوج کی فوج تھے، کوئی محل سا مکان ہوتا، اس میں ہی سما سکتے تھے، اس گھر میں حالت یہ تھی کہ مکان اوپر نیچے۔ اسے اتفاق سمجھئے کہ اس محلہ میں برابر ہی ایک سکھ سوداگر کا سہ منزلہ مکان خالی پڑا تھا۔ محل والوں نے موقع غنیمت سمجھا اور اس پر قبضہ کر لیا، بالائی منزل کے دو کمرے ہادی بھائی نے قبضائے، جوتے والی بھابھی نے سنگھار میز اور قالین اٹھا کر سامان کی کوٹھری میں بند کر دیے کہ آمنہ کے جہیز میں کام آئیں گے۔ فرش پر بچھی ہوئی دری کے انہوں نے چار ٹکڑے کئے، تین بانس کی چارپائیوں پر بچھائے جو ہادی بھائی جیسے تیسے کر کے خرید لائے تھے، چوتھا ٹکڑا پردے کی نیت سے چوبارے پرلٹکا دیا گیا۔ کتابوں کے متعلق وہ ابھی فیصلہ نہ کر پائی تھیں کہ ہادی بھائی کے ہاتھ مصورّی کی ایک کتاب پڑگئی اور صفحہ ایسی جگہ سے کھلا جہاں ایک برہنہ عورت کی پشت دکھائی گئی تھی۔
ہادی بھائی نے سکھوں کے اس اخلاقی زوال پر ان کی جی بھر کے مذمت کی اور ساری کتابیں باورچی خانے میں ڈلوادی گئیں تا کہ تھوڑے دن کے لئے ایندھن کی فکر سے فرصت ہوجائے۔ محل والے اپنی جمع پونجی تھوڑی بہت لے ہی آئے تھے، لیکن وہ قارون کا خزانہ تو تھا نہیں اور محض خرچ سے تو قارون کا خزانہ بھی خالی ہوجاتا ہے۔ جباّر شیخ نے کراچی جا کر کاروبار شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا مگر بڑی بھابھی نے فوراً مخالفت کی، ’’نا بھیاّ ہم تمہیں اکیلا کراچی نہ جانے دیں گے۔‘‘ چھوٹے میاں ہمیشہ بڑی بھابھی کے اشاروں پر چلے، انہوں نے بھی مخالفت کی، ’’بھئی اگر سب نے یہی کیا تو سارا خاندان بکھر جائے گا، کوئی ایسا بندوبست کرو کہ محل والے سب ایک جگہ بس جائیں۔‘‘ جباّر شیخ کی سمجھ میں بات آگئی، کراچی کا ارادہ ملتوی ہوگیا۔
یہ خبر ہادی بھائی لائے تھے کہ امپرومنٹ ٹرسٹ کی اسکیم کے ماتحت مہاجروں کو رعایتی داموں پر پلاٹ فروخت ہو رہے ہیں، رنجر جعفری، جباّر شیخ اور چھوٹے میاں تینوں کو یہ بات بھاگئی، انہوں نے سوچا کہ اگر محل والے مل جل کر کوئی بڑا سا پلاٹ خرید لیں تو سب ایک ہی جگہ آباد ہوسکتے ہیں۔ خاندان کے افراد کافی تھے اور اچھی خاصی جائداد چھوڑ کر آئے تھے، حساب لگا کر تین ایکڑ زمین کی درخواست دی گئی۔ جباّر شیخ جب درخواست دینے گئے تو دفتر میں مہاجروں کا وہ ہجوم تھا کہ ایک پہ ایک گرتا تھا، اس ہجوم کو دیکھ کر وہ کچھ مایوس سے ہوگئے اور گھر آکر چھوٹے میاں سے بولے، ’’اجی وہاں تو خلقت ٹوٹ رہی ہےزمین ملنی مشکل ہی نظر آتی ہے۔‘‘ بڑی بھابھی نے یہ سنتے ہی فوراً پروفیسر شاہ کو بلا بھجا اور بولیں، ’’بھیاّ ہم کب تک بے گھر بے در پڑے رہیں، کوئی بندوبست کرو، سنیں ہیں کہ زمینوں کے حصّے بک رہے ہیں۔‘‘
سیدانی آپا بولیں، ’’اجی بڑی بھابھی یہ کیا کریں گے، بلیّ کاگو ہیں، لیپنے میں نہ تو پوتنے میں ہر وقت کتابوں میں پٹے پڑے رہتے ہیں۔‘‘ چھوٹے میاں بولے، ’’بھائی اب یاں تو ہم تمہارے رحم و کرم پہ ہیں، یاں ہمیں کون جانتا ہے، تم ہی کچھ کروگے، خاندان والے سب ایک جگہ رہیں تو اچھا ہے، ہمارا کیا ہے، ہم تو قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں، بس یہی دعا ہے کہ مٹی عزیز ہوجائے، خاندان بکھر گیا تو پردیس میں کندھا دینے کے لئے بھی چار آدمی نہ ملیں گے۔‘‘
سیدانی آپا نے پروفیسر شاہ کے متعلق ٹھیک ہی کہا تھا مگر بڑے بھائی کی تقریر کچھ اثر کر گئی، یہ پہلا موقع تھا کہ وہ اپنے تعلقات کو کام میں لائے، افسروں سے ملے، محل والوں کی جائداد کا حساب بتایا، مسلم لیگ کی جو خدمات کی تھیں وہ جتائیں، افسروں کو حق جائز نظر آیا اور انہوں نے یقین دلایا کہ زمین ضرور مل جائے گی اور تین ایکڑ ہی ملے گی۔ پروفیسر شاہ نے گھر آکر یہ ذکر کیا تو بڑی بھابھی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور وہ رو رو کے کہنے لگیں، ’’بھیاّ تم نہ ہوتے تو ہم کیا کرتے، پاکستان میں آکے تو لوگوں کے ایسے خون سفید ہوگئے ہیں کہ کوئی مرجائے تو منہ میں پانی نہ ڈالیں۔‘‘ جوتے والی بھابھی نے گود پھیلا کے دعا دی، ’’الٰہی پروفیسر کے عہدے میں ترقی ہو، پروفیسر اور سیدانی آپا اپنے بیٹے کی بہاریں دیکھیں۔‘‘
دعاؤں کا دور ختم ہوا تو خوا بوں کا دور شروع ہوگیا، بڑی بھابھی کا خیال تھا کہ محل جیسی حویلی بنوالیں گے، سیدانی آپا نے ان کی تجویز پسند نہ کی اور خیال ظاہر کیا کہ الگ الگ کوٹھیاں بننی چاہئیں، جباّر شیخ کی تجویز تھی کہ بہت سے کوارٹر بنائے جائیں، چند کوارٹراپنے قبضے میں رکھے جائیں اور باقیوں کو کرائے پر اٹھا دیا جائے۔
جباّر شیخ نے انہیں دنوں اخبار میں یہ خبر پڑھی تھی کہ مروان میں ایشیا کی سب سے بڑی شوگر فیکٹری قائم ہوئی ہے، یہ خبر پڑھ کر ان کے منہ میں پانی بھر آیا تھا اور پلاٹ کے ایک کونے میں وہ اسی پیمانے پر سوتی کپڑے کا کارخانہ قائم کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ ہادی بھائی کا تخیل جس نے تاج محل کے سائے میں پرورش پائی تھی سب پر بازی لے گیا، ایشیا کا نام انھوں نے پاکستان آکر سنا تھا، وہ یہ تو نہ سمجھے کہ یہ کسی سلطنت کا نام ہے یا مسلمان قوم کا لقب ہے۔ مگر چونکہ نظیراکبرآبادی کے وطن میں پلے تھے، اس لئے کان لفظوں کی موسیقی سے آشنا تھے، شین کی آواز سے ’ایشیا‘ کے لفظ میں جو ایک موسیقی پیدا ہوگئی ہے وہ انہیں بھلی لگی اور ایک روز ترنگ میں آ کر اعلان کیا کہ ، ’’پلاٹ مل جائے تو ہم وہاں ایشیا کا سب سے بڑا زری کے جوتوں کا کاخانہ کھولیں گے۔‘‘ جوتوں والی بھابھی نے انہیں فوراً آڑے ہاتھوں لیا، ’’تمہاری ایشیا ویشیا کے سر میں بھوبل، پاکستان آکے تمہیں یہ باتیں سوجھی ہیں۔‘‘
محل والوں کی قسمت نے زور مارا، تین ایکڑ کا پلاٹ الاٹ ہوگیا۔ پلاٹ ملنے کے ساتھ خوابوں کادور ختم اور منصوبہ بندی کا دور شروع ہوا، چھوٹے میاں نے کئی نقشے بنائے لیکن ہر نقشے میں کوئی نقص نکل آیا، پہلے نقشے میں یہ اہتمام کیا گیا تھا کہ رہائش کے لئے چند کوٹھیاں تعمیر ہوں اور باقی کرائے پر اٹھانے کے لئے کوارٹر بنائے جائیں، جباّر شیخ کا اعتراض تھا کہ محل والی بات اب نہیں چلے گی۔ آخر اتنی بڑی بڑی کوٹھیوں کی کیا ضرورت ہے، رہائش کے لئے بھی معمولی کوارٹر ہی بنوائے جائیں، اس تجویز کے مطابق دوسرا نقشہ تیار کیا گیا، اس پر پروفیسر شاہ کو اعتراض تھا کہ کوارٹر بہت تنگ ہیں، کمرے ہوا دار نہیں، صحت پر برا اثر پڑے گا، یوں یہ نقشہ بھی رد ہوگیا۔
چھوٹے میاں نے شروع میں بڑی سرگرمی سے کام شروع کیا تھا، مگر جب پے در پے دو نقشے رد ہوگئے تو ان کی رفتار خواہ مخواہ سست پڑ گئی، کئی مہینے بعد انہوں نے تیسرا نقشہ پیش کیا، اس مرتبہ ہادی بھائی نے اڑتی پتنگ میں لنگر مارا، ’’چھوٹے میاں آپ نے تو سارے کوارٹر بنا دیے ہیں، کچھ دوکانوں کی بھی گنجائش نکالئے۔‘‘ بات معقول تھی، چھوٹے میاں کو جھکنا پڑا، انہوں نے نقشہ میز کی دراز میں ڈال دیا اور دوسرے کاموں میں لگ گئے۔ جباّر شیخ اور ہادی بھائی کو آخر بےکلی شروع ہوئی، ان کی بےکلی نے دوسروں کو بھی متاثر کیا، آخر چھوٹے میاں سے تقاضے شروع کئے، چھوٹے میاں نے تنگ آکر پھر نیا نقشہ تیار کیا، رنجر جعفری نے چلتی گاڑی میں پچر لگادی، ’’چھوٹے میاں! آپ اتنی بڑی بستی تعمیر کر رہے ہیں اور درخت ایک بھی نہیں، باغ بغیچہ نہ سہی کچھ درخت تو ضرور ہونے چاہئیں۔‘‘
رنجر جعفری کی بھنک جوتے والی بھابھی کے کان میں پڑ گئی، وہ بولیں، ’’اجی نیم کے پیڑ تو ضرور ہونے چاہئیں، پاکستان میں برساتوں پہ برساتیں گزری جا رہی ہیں اور جھولے کی صورت نہیں دیکھی۔‘‘ سیدانی آپا نے نیم کی حمایت اس وجہ سے کی کہ اس کے سائے میں وہ تنور بنا سکیں گی، بڑی بھابھی کا خیال تھا کہ آم جامن کے درخت بھی ہونے چاہیئں اور تھوڑی سی پھلواری بھی۔ چھوٹے میاں نے الکساہٹ سے نقشہ لیا اور آتش دان پہ رکھ دیا۔
نقشے پہ اتنی گرما گرمی سے بحث ہوئی تھی کہ ایک ڈیڑھ مہینہ تک تو تھکن کا سا احساس رہا اور کسی نے پھر اس کا ذکر ہی نہیں چھیڑا، لیکن جب دو مہینے ختم ہوگئے اور چھوٹے میاں کروٹ لیتے نظر آئے تو پھر کھد بد شروع ہوئی۔ دن گزرتے گئے اور چھوٹے میاں خاموش تھے، پہلے سرگوشیاں ہوئیں پھر اشاروں کنایوں میں باتیں ہوئیں پھر کھلم کھلا تقاضے ہوئے۔ چھوٹے میاں نے تنگ آکر کئی مرتبہ نقشہ اٹھایا اور اس میں ترمیم کرنے بیٹھے مگر اکتا کر پھر رکھ دیا، تقاضوں نے اظہار بے اعتمادی کی شکل اختیار کرلی۔ جباّر شیخ بولے، ’’اجی چھوٹے میاں کی عمر گزر گئی، یہ کام اب ان کے بس کے نہیں ہیں۔‘‘ ہادی بھائی کہنے لگے، ’’تو پھر وہ اس کام سے چپٹے ہوئے کیوں ہیں، کسی اور کے سپرد کردیں۔‘‘
’’اور کیا۔‘‘ رنجر جعفری نے تائید کی، ’’اب چھوٹے میاں نے عمر بھر کا ٹھیکہ تو سارے کام کرنے کا نہیں لیا ہے، اب دوسرے ذمہ داری سنبھالیں۔‘‘ پہلے یہ فقرے دبی زبان سے ادا ہوئے پھر ان کا لہجہ بلند ہوا، بلند سے ترش اور ترش سے تلخ ہوا، جب سب ایک زبان ہوگئے تو چھوٹے میاں کیاکرتے، انہوں نے نقشہ جبار شیخ کے سپرد کر دیا اور کہا کہ، ’’بھئی میں تو تھک گیا ہوں، عمر کا تقاضا ہے، اب تم جانو اور تمہارا کام۔‘‘ جباّر شیخ نے شروع میں بڑی تیزی دکھائی، نقشہ تو انہو ں نے میز کی دراز میں رکھا اور کہا کہ، ’’نقشہ میں تو مین میخ نکلتی رہے گی، اس پہ لعنت بھیجو۔‘‘
انہوں نے چندہ جمع کرکے فوراً اینٹوں اور سمینٹ کا آرڈر دے دیا، ہفتے بھر کے اندر اندر پلاٹ میں ایک طرف اینٹوں کا ڈھیر لگ گیا، اس کے برابر سیمنٹ کی بوریاں آپڑیں، انہیں دنوں جبار شیخ کا کراچی جانا نکل آیا، کراچی وہ کوئی ایک مہینہ تک رہے ہوں گے۔ وہاں سے واپس آئے تو اپنی تجارتی سرگرمیوں سے متعلق فکروں کی ایک پوٹ ساتھ لائے، تین چار مہینے پلک مارتے گزر گئے اور سمینٹ کی بوریاں اور اینٹیں اسی طرح پڑی رہیں۔ ایک روز اچانک بڑی بھابھی کو خیال آیا، ’’اجی یہ زمین خالی پڑے پڑے کیا انڈے دے رہی ہے۔‘‘
جوتے والی بھابھی کی آنکھوں میں چمک سی آئی مگر وہ پھر سنبھلیں اور آہستہ سے بولیں، ’’بنگالن آپا کو خبر ہوگی۔‘‘ پھر بنگالن آپا سے مخاطب ہوئیں، ’’کیوں بنگالن آپا! کیا کہوے ہیں جباّر شیخ، کوارٹر کب تک بن جاویں گے؟‘‘ بنگالن آپا پہلو بچاتے ہوئے بولیں، ’’اجی مجھے تو کچھ خبر ہے نہیں، تمہارے دیور ہی جانیں، آج کل تو وہ اپنی فکروں میں رہویں ہیں۔‘‘ بڑی بھابھی تلخ انداز میں کہنے لگیں، ’’بڑے بنیں گے کوارٹر، بس رہنے بھی دو، ان لوگوں کے بس کا کچھ نہیں ہے، میں تو کہوں ہوں کہ کچے پکے دوچار گھر تھپوالیں، ہم وہیں جا پڑیں گے۔‘‘ جوتے والی بھابھی نے تائید کی، ’’اے اور کیا کچی چاردیواری کھچوالیں اس پہ چھپر ڈلوالیں اللہ اللہ خیر سلا۔‘‘
جوتے والی بھابھی نے فوراً ہادی بھائی سے ذکر کیا، ہادی بھائی کو خیال آنے کی دیر تھی، انہوں نے چھوٹے میاں، پروفیسر شاہ، رنجر جعفری، باری باری سب سے جاکر پوچھا کہ کوارٹر کب بن رہے ہیں اور سب کو ایک ساتھ خیال آیا کہ واقعی یہ تو مہینوں گزر گئے اور معاملہ جوں کا توں ہے۔ پروفیسر شاہ بولے، ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج کل جبار شیخ اپنے کسی چکر میں ہیں۔‘‘
’’اجی وہ بات یہ ہے۔‘‘ ہادی بھائی بولے، ’’وہ تو کراچی جاکر ایکسپورٹ امپورٹ کا دھندہ کرنے کی فکر میں ہیں۔‘‘ رنجر جعفری کو اس پر بڑا طیش آیا، ’’اچھا! ہاں ہاں وہ ضرور جائیں مگر کوارٹروں کے کام کو الجھا رکھا ہے خود نہیں کرسکتے تو کسی اور کے سپرد کردیں۔‘‘ رفتہ رفتہ یہ باتیں جبار شیخ تک بھی پہنچنے لگیں، پہلے تو انہوں نے ایک کان سنا اور دوسرے کان اڑایا، لیکن جب شکائتیں زیادہ ہوئیں تو انہوں نے سب کو دلاسا دیا کہ پندرہ دن کے اندر اندر میرا کام نبٹ جائے گا۔ اس کے بعد کام شروع کرادوں گا، پندرہ دن بڑی بے چینی سے گزرے، جباّر شیخ اس کے بعد ایک دن پلاٹ دیکھنے گئے۔ ایک دو چکر کاٹے، گھر آکر نقشہ نکال کر دیکھا، بہت دیر تک اس پہ جھکے رہے، آخر ان کی آنکھوں میں تر مرے آگئے اور انہوں نے تھک کر نقشہ پھر میز پہ رکھ دیا۔ میز پہ نقشہ ڈیڑھ دو مہینے تک اسی طرح رکھا رہا، لوگوں میں پھر بے چینی اور پھر کھسر پھسر شروع ہوئی۔
کبھی رنجر جعفری پوچھتے، ’’کیوں شیخ جی کام کب شروع کرارہے ہو؟‘‘ کبھی ہادی بھائی سوال کر بیٹھتے، ’’ارے بھئی، کوارٹر کب تک تیار ہو جائیں گے؟‘‘ ایک روز بڑی بھابھی نے بڑی بے زاری سے کہا، ’’کیوں بھیا، اب کی گرمئیں میں بھی اسی ڈوبے گھر میں گزریں گی، میرا تو بس دم گھٹ جاوے گا۔‘‘ لیکن کسی کی پیش نہ گئی، جباّر شیخ ہر سوال کو آئیں بائیں شائیں کرکے ٹال دیتے، آخر تنگ آکر سب نے چھوٹے میاں سے کہا کہ، ’’چھوٹے میاں آپ بزرگ ہیں، اب آپ ہی فیصلہ کریں گے، یہ کام ہوتا نظر نہیں آتا۔‘‘
چھوٹے میاں نے جبار شیخ کو بلا کر دبے انداز میں ڈانٹا کچھ سمجھایا اور کہا کہ، ’’تم دوسرے چکروں میں گرفتار رہو، تم سے یہ کام نہ ہوگا، بہتر یہ ہے کہ جعفری کے سپرد کردو، اسے کام کا تھوڑا بہت تجربہ بھی ہے، کام جلدی ہوجائے گا۔ جبار شیخ کو بڑا تاؤ آیا، اپنے کمرے میں جاکے گرد میں اٹا ہوا نقشہ اٹھایا اور رنجر جعفری کو دے آئے، رنجر جعفری نے جلدی جلدی نقشہ میں دو ایک ترمیمیں کیں، دوسرے ہی دن مزدور ٹھہرائے اور کام شروع کرادیا، اچانک ہادی بھائی کو ایک خیال آیا اور وہ بھاگے چھوٹے میاں کے پاس پہنچے۔ ’’چھوٹے میاں یہ تو بڑا غضب ہے کہ مکان بنیں، دکانیں بنیں، باغ باغیچے لگیں اور مسجد نہ بنے۔‘‘ چھوٹے میاں نے ان کی بات کی تائید کی، رنجر جعفری مزدوروں کو لگا چکے تھے، کوارٹروں کا نقشہ ابھی پوری طرح مرتب نہ ہوا تھا، انہوں نے سوچا کہ ہٹاؤ پہلے مسجد کی تعمیر شروع کرادیں، چنانچہ نیو کھدنی شروع ہو گئی۔
نیو کھدی، پھر دیوار کی چنائی شروع ہوگئی، لیکن ابھی ایک ہاتھ اونچی دیوار اٹھی تھی کہ پروفیسر شاہ نے ایک عجیب و غریب مسئلہ کھڑا کر دیا، پروفیسر شاہ کسی زمانے میں خاکسار رہ چکے تھے، مسجد کی تعمیر پر وہ خوش ہوئے، مگر پھر انہوں نے اعتراض کیا کہ مسجد کا رخ قبلہ کی طرف نہیں ہے، اس پہ سب کے سب چکرا گئے۔ جعفری نے کہا، ’’پروفیسر تم عجیب بات کرتے ہو، دوسری مسجدوں کی سمت دیکھ کر اس کی سمت متعین کی گئی ہے۔‘‘ پروفیسر شاہ نے اطمینان سے جواب دیا، ’’کہ ہندوستان اور پاکستان کی تمام مسجدوں کا رخ غلط ہے۔‘‘
’’تمام مسجدوں کا رخ غلط ہے؟‘‘ چھوٹے میاں حیران ہوکر بولے۔
’’جی!‘‘
ہادی بھائی بھن کر بولے، ’’میاں گھاس کھاگئے ہو یا عقل کہیں چرنے گئی ہے۔‘‘ پروفیسر شاہ بولے، ’’میں تو جانتا نہیں، جدید جغرافیہ یہی کہتا ہے۔‘‘
’’اچھا آیا ہے جدید جغرافیہ۔‘‘ چھوٹے میاں گرم ہوئے، ’’اس کے معنی تو یہ ہیں کہ ہمارے سارے بزرگ اب تک نماز غلط پڑھ رہے تھے۔‘‘
’’جو کچھ بھی آپ سمجھیں بہر حال مسجد بنے گی تو قبلہ رو بنے گی۔‘‘ اور یہ کہہ کر پروفیسر شاہ اپنے گھر کی طرف ہولئے۔ جعفری کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ کیا کیا جائے، انہوں نے سوچا کہ فی الحال مسجد کی تعمیر روک دی جائے اور کوارٹروں کی تعمیر شروع کرادی جائے، چنانچہ کوارٹروں کی نیو کھدنے لگی، اسی عرصے میں انہوں نے کچھ درختوں اور پھولوں کی پود اور بیج منگوا لئے تھے، رنجر جعفری نے پیسہ اللّے تللّے سے خرچ کیا۔ دھیلے کی جگہ پیسہ اور پیسے کی جگہ اکنّی خرچ کی، روپیہ ختم ہوگیا۔
جعفری نے چندے کی مہم شروع کی تو محل والوں نے اعتراض کیا کہ ابھی تو ایک دیوار بھی کھڑی نہیں ہوئی اور روپیہ خرچ ہوگیا، روپے کے کیا پاؤں لگ گئے، رنجر جعفری نے پائی پائی کا حساب دینے کے دعویٰ کے ساتھ اخراجات کی فہرست پیش کی۔ پھلواری کی رقم ہادی بھائی کو زیادہ نظر آئی۔ رنجر جعفری نے جواب دیا، ’’ہادی بھائی آپ کو خبر بھی ہے یا یونہی اعتراض کر دیا، مسجد کے احاطہ میں جو گملے رکھے ہیں، ان کے بیچ مدینہ منورہ سے آئے ہیں۔ اب اس میں خرچ ہوتا یا نہ ہوتا۔‘‘
ہادی بھائی اپنا سامنہ لے کے رہ گئے، لیکن چھوٹے میاں کچھ دیر سوچتے رہے اور پھر بولے، ’’عرب کے ریگستان میں گلاب چنبیلی ہوتا ہے؟‘‘ اس سوال پر سب کے سب چونک پڑے، رنجر جعفری بھی کچھ سٹپٹائے، اس موقع پر سیدانی آپا کی معلومات بہت ہی کام آئیں، کہنے لگیں، ’’چھوٹے میاں ہمیں اور کچھ تو معلوم نہیں مگر شہادت نامے میں صاف لکھا ہے کہ جب شبِ عاشورہ کو حضرت قاسم کا بیاہ ہوا تو بی بی زینب نے اپنے ہاتھوں سے سہرا تیار کیا، گلاب چنبیلی کے پھول نہ ہوتے تو سہرا کہاں سے تیار ہوجاتا؟‘‘ پروفیسر شاہ کو لگے ہاتھوں انؔیس کا ایک شعر یاد آگیا،
پیا سے جو زہر گلشنِ زہرا تھے آب کے
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
رنجر جعفری کا پلا بھاری ہوچلا تھا، لیکن جبار شیخ کو ایک نئی سوجھی، ’’کیوں جناب خانہ خدا میں اس قسم کی عیش و عشرت کی چیزیں ہونی چاہئیں۔ کیا عہدِ نبوی میں مسجدوں میں پھلواری ہوتی تھی۔‘‘ رنجر جعفری ہر سوال کا جواب لےآئے تھے، لیکن اس سوال پر کھیل گئے، نتیجہ یہ ہوا کہ محل والوں کو یقین ہوگیا کہ رنجر جعفری فضول خرچی کر رہے ہیں، ایسی فضول خرچی جو شرع کے خلاف ہے، چندہ دینے سے ایک طرف سے سب نے انکار کر دیا۔ رنجر جعفری کو اس کے سوا کچھ چارہ نظر نہ آیا کہ کام روک دیا جائے اور مزدوروں کو رخصت کر دیا جائے، دیواروں کی نیویں ادھ کھدی رہ گئیں۔
سارے پلاٹ میں مٹی کے ڈھیر پڑے تھے اور قدِآدم کھائیاں، ایک گوشے میں مسجد کی چار دیواری تھی جو ڈیڑھ فٹ کی بلندی پہ چھوڑ دی گئی تھی، اینٹیں جب آئی تھیں تو ایک دبیز فصیل کی شکل میں چنی ہوئی تھیں، اب وہ کچھ بکھر گئی تھیں ایک سیمنٹ کی بوری بھی پڑی تھی۔ گارا ابھی گیلا تھا، بچوں کو ایک نیا شغل ہاتھ آیا، انہوں نے گیلی بادامی مٹی ہاتھوں میں بھری اور گولے بنانے شروع کر دیے۔ ایک لڑکا جب اس مشغلے سے اکتا گیا تو نل پہ پہنچ کے اس نے ٹب میں تھوڑا سا پانی بھرا، پھر گود میں سمینٹ بھر کے لایا، اسے گیلا کیا اور گولے بنانے شروع کردیے۔
ایک تو سرمئی رنگ، پھر سمینٹ مٹی کی بہ نسبت ذرا دردرا ہوتا ہے، مٹی کے گولے بنانے کی بہ نسبت سمینٹ کے گولوں کا شوق لڑ کوں کو زیادہ بھایا اور سب نے یہی کچھ کرنا شروع کردیا، چاندنی راتوں میں یہاں چور سپاہی اور آنکھ مچولی کے کھیل شروع ہوجاتے۔ کوئی لڑکا مسجد کی ادھ بنی دیوار کے پیچھے جا چھپتا، کوئی کسی کھائی میں بیٹھ جاتا، کوئی مٹی کے ڈھیر کے سہارے لیٹ جاتا۔ کبھی کبھی کھائی میں دو لڑکے اکھٹے جا چھپتے، انہیں بیٹھے بیٹھے بہت دیر ہو جاتی، اندھیرا ان کے جسموں پر عمل کرنے لگتا، ایک تاریک برقی رو ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتی اور ان میں ایک ان دیکھا اور انجانا ربط قائم کر دیتی، برقی رو دوڑتی رہتی، پھر وہ جسم قریب ہوتے چلے جاتے اور پھر وہ کھائی سے ایک نیا تجربہ حاصل کرکے نکلتے۔
جب کئی مہینے اس طرح گزر گئے تو محل والوں میں پھر ہنڈیا پکنی شروع ہوئی، جو لوگ اس وقت بہت مشتعل تھے، ان کا غصہ دھیما پڑ چلا تھا۔ جو چندے کی ایک پائی دینے کے روادار نہ تھے، وہ اب پوری رقم دینے کو آمادہ تھے، رنجر جعفری نے سستی دکھائی۔ پھر ایک روز جب وہ مہم شروع کرنے کا ارادہ کر رہے تھے تو برسات کا پہلا بادل آیا اور سارے شہر میں جل تھل کر گیا، اس کے بعد وہ بارشیں شروع ہوئیں کہ خدا کی پناہ، سارے پلاٹ میں پانی ہی پانی نظر آتا تھا۔ کھائیوں کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا کہ نہریں بہہ رہی ہیں۔ کھائیوں کی نکلی ہوئی مٹی بہتی بہتی سمینٹ کی بوریوں کے قریب جا پہنچی تھی سمینٹ کی ایک دو بوریاں کھل گئی تھیں اور ان کا سمینٹ جھڑ جھڑ کر مٹی میں مل رہا تھا۔
کوارٹروں کی تعمیر کی مہم برسات کے ریلے میں بہہ گئی، خدا خدا کرکے بارشیں ختم ہوئیں، مگر بارشوں کے ختم ہونے کی کوئی تاریخ تو ہوتی نہیں اور اگر قطعی تاریخ ہو بھی تو کیا ضروری ہے کہ برسات سے معطل ہونے والے کام دوسرے ہی دن یاد آجائیں، برسات کی سیلن تو مہینوں نہیں اترتی، واقعہ یوں ہے کہ برسات کے بھولے بائیس رجب کو جاکر جاگے۔
ہوا یوں کہ بڑی بھابھی کو نیاز کی پوریاں پکانی تھیں، انہیں چولہے کے لئے کوری اور پاکیزہ اینٹوں کی تلاش ہوئی، بنگالن آپا نے کوارٹروں کی اینٹیں منگانے کی رائے دی۔ بڑی بھابھی نے جھٹ پٹ تھوڑی سی اینٹیں منگائیں۔ ایک چولہا بنگالن آپا نے بنایا، دوسرا بڑی بھابھی نے اور پوریاں پکانی شروع کریں، جوتے والی بھابھی نے کوری کوری اینٹیں دیکھیں تو ان کے منہ میں پانی بھر آیا۔ مگر رات ہوچکی تھی، اب وہاں سے ان کے لئے اینٹیں کون اٹھاکر لاتا، رنجرنی نے دوسرے ہی دن جاکر سیدانی آپا سے اس واقعہ کا ذکر کیا، سیدانی آپا نے ٹھنڈا سانس بھر کے کہا، ’’ہاں بھیّا ہمیں بے وقوف ہیں، بڑی بھابھی عقلمند ہیں، و ہ سوچتی ہیں کہ کوارٹر تو بنیں گے نہیں، اینٹیں ہی اٹھوالو۔‘‘
اس واقعہ کا سارے محل والوں میں چرچا ہوگیا، بڑی بھابھی کا تو رعب داب ایسا تھا کہ ان کا نام کسی نے زیادہ نہیں لیا، لیکن بنگالن آپا کے خلاف تو خوب خوب چہ میگوئیاں ہوئیں، بات سے بات نکلتی ہے، رضیہ اور عتیق کا قصہ دبا ہوا تھا، وہ اب اچانک ابھر آیا۔ محل والیوں نے رضیہ کی ساڑی تو جیسے تیسے برداشت کر لی تھی، مگر اس کی بے پردگی پر سب کی انگلی اٹھی، اس کی حمایت میں ایک بی بی نے رنجرنی کی بے پردگی کی مثال پیش کی۔ مگر رنجرنی نے اپنا پہلو بچا لیا کہنے لگیں، ’’بی بی بات یہ ہے کہ بمبئی کے مہاجر کیمپ میں ہم مہینے بھرتک بے پردہ پڑے رہے، کب تک برقعے میں گھٹے رہتے، آخر پردہ اٹھایا اور بی بی میرا کیا ہے، مجھے اب کون سی شادی کرنی رہی ہے۔‘‘
جوتے والی بھابھی نے فوراً تائید کی، ’’ہاں بی بی شادی والیوں کا کیا پردہ، آنکھ کی شرم ہو، بس یہی بہت ہے، پردہ تو کنواریوں کا ہووے ہے۔‘‘ بڑی بھابھی تلخ انداز میں بولیں، ’’اجی اب کنواریاں بھی پردہ نئیں کرتیں، پاکستان میں آکے ایسی ڈوب پڑی ہے کہ جس لونڈیا کو دیکھو طباخ سامنہ لئے پھرے ہے، کمبختیں اڑی جاتی ہیں۔‘‘ سیدانی آپا نے اس چرچے سے خاصا اثر قبول کیا اور گھر جاکر پروفیسر شاہ سے شکایتیں کیں کہ بنگالن آپا کی لونڈیا ہمارے لونڈے کو بگاڑ رہی ہے۔ پروفیسر شاہ بولے، ’’تو لونڈے کو روکونا، وہ کیوں بگڑ رہا ہے۔‘‘
’’اجی وہ غریب کیا کرے۔‘‘ سیدانی آپا بولیں، ’’رضیہ حرافہ اسے اڑائے اڑائے پھرے ہے، ہمیں جوان لڑکے لڑکیوں کا ایسی آزادی سے ملنا اچھا نہیں لگتا۔‘‘ عتیق نے صرف رضیہ کے نرم شانوں کو ہی نہیں چھوا تھا بلکہ اس سے آگے بھی اسے رسائی حاصل ہوگئی تھی، پکچر ہاؤس کے اندھیرے میں عتیق رضیہ سے کہہ رہا تھا، ’’معلوم ہے تمہارے گال مجھے کیسے لگتے ہیں؟‘‘
’’کیسے لگتے ہیں؟‘‘
’’جیسے بنگالی رس گلے ہوں، شیرینی سے لبریز۔‘‘
رضیہ ہنس پڑی۔
رضیہ آج پھر عتیق کے ساتھ فلم دیکھنے چلی گئی تھی، بنگالن آپاجبار شیخ پہ بگڑ رہی تھیں، ’’بڑا آیا ہے کہیں کا، ہوگا تمہارا سگا، مگر لونڈیا کو ہم کیسے بدنام کرالیں۔‘‘ رضیہ اور عتیق میں جنتا ربط بڑھا، جبار شیخ اور پروفیسر شاہ میں اتنی ہی ناچاقی پیدا ہوئی، جوتوں والی بھابھی نے اس ناچاقی کو خوب ہوا دی، وہ جو عتیق سے آمنہ کی شادی کا خواب دیکھ رہی تھیں اس پر اب پانی پھرا جا رہا تھا۔
ہادی بھائی ایک روز خبر لائے کہ پلاٹ سے سمینٹ کی تین بوریاں غائب ہوگئی ہیں، سب لوگ سناٹے میں آگئے۔ رنجرنی، رنجر جعفری سے کہہ رہی تھیں، ’’اجی یہ ہادی بھائی ہیں تو تمہارے چہیتے بھیئے، مگر ہیں بہت چلتے ہوئے، کہیں انہوں نے ہی تو بوریاں برابر کے پلاٹ والوں کو چپکے سے نہیں سرکادیں۔‘‘
’’تمہارا کیا ہے، تم کل کو مجھ پہ شبہ کرنے لگوگی۔‘‘
سیدانی آپا اور جوتوں والی بھابھی بہت دیر سے اپنے کمرے میں بیٹھی کھسر پھسر کر رہی تھیں، سیدانی آپا کہہ رہی تھیں، ’’شک تو مجھے بھی انہیں پہ پڑے ہے۔‘‘
’’اجی ابھی تک تم شک میں ہی ہو۔‘‘ جوتوں والی بھابھی بولیں، ’’جس روز بنگالن آپا نے چولھے کے لئے اینٹیں منگائی تھیں، میرا اسی روز ماتھا ٹھنکا تھا، جبار شیخ نے دیکھ لیا کہ کوئی کچھ کہتا تو ہے نہیں، لاؤ ذرا ڈبل ہاتھ مارو۔‘‘
’’اری بی بی یہ کیا خبر ہے کہ یہ پہلی دفعہ ہے، اب اتنی اینٹیں گن کے تو رکھی نہیں ہیں، نہ معلوم کتنی اینٹ سرکادی ہو۔‘‘
’’ہاں ہاں اور کیا۔‘‘ جوتوں والی بھابھی بولیں، ’’اور اس کی بھی کیا خبر ہوتی وہ تو یہ کہو کہ اتفاق سے تمہارے جیٹھ نے جاکے بوریاں گن لیں۔ اب اینٹیں تو نہیں گنی جاتیں۔‘‘
’’بھئی رنجر جعفری، بات یہ ہے کہ اپنے جبار شیخ ایکسپورٹرامپورٹر بن گئے ہیں‘‘
’’مگر ہادی بھائی یہ خیرات گھر سے کیوں شروع ہوئی، اچھے ایکسپورٹر بنے گھر کا مال ہی ایکسپورٹ کر ڈالا۔‘‘
جبار شیخ آگ بگولا ہورہے تھے، چھوٹے میاں نے سمجھایا، ’’بھیا! غصہ تھوک دو، آپس میں اگر ہم لڑنے لگے تو پھر مل کے کس کے ساتھ بیٹھیں گے۔‘‘
’’تو چھوٹے میاں آپ یہ چاہتے ہیں کہ پروفیسر شاہ مجھ پہ چوری کا الزام لگائے اور میں اس کے ساتھ مل کر بیٹھوں، نا صاحب ہم ایسی آپس داری کے قائل نہیں ہیں، ہماری کسی سے آپس داری نہیں ہے۔‘‘
’’بھائی، کس نے تم پہ چوری کا الزام لگایا اور اگر کسی نے لگایا بھی ہے تو یہ کیسے تحقیق ہوئی کہ وہ پروفیسر شاہ ہے۔‘‘ جباّر شیخ بگڑکے بولے، ’’اجی مجھے تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے اب اس سے ملنا ہی نہیں ہے، میں کیوں تحقیق کروں۔‘‘
’’بڑی بھابھی بات یہ ہے کہ۔۔۔‘‘ بنگالن آپا کہہ رہی تھیں، ’’جو ہم سے مل کے چلے گا ہم اس سے ملیں گے اور جو ہم سے آنکھ ناک مروڑے گا، ہم نے اسے جوتی کی نوک پہ دھرکے مارا ہے، سیدانی آپا سے کہہ دیجو کہ بی بی بیٹا کسی قابل ہوجاوے تو اکڑیو، بڑا ہے نا، لائق فائق جو میں اسے اچکنے کی کوشش کرتی۔‘‘ بڑی بھابھی کہنے لگیں، ’’بی بی تمہاری لڑائی دیکھ کے بولائی جا رہی ہوں، ہمارے خاندان میں کبھی کا ہے کو ایسے بہتان لگے تھے، توبہ توبہ برا زمانہ آیا ہے۔‘‘
بنگالن آپا نے بڑی بھابھی کے فقروں کو شاید سنا ہی نہیں، انہوں نے پھر سلسلہ گفتگو جاری کر دیا، ’’اور بڑی بھابھی رہی بے پردگی کی بات تو ہاں ہاں، ہماری بیٹی پردہ نہیں کرتی، آج کل بڑے بڑے شریفوں کی بیٹیاں گھر سے بے پردہ نکلتی ہیں، وزیر اعظموں کی بیویاں کھلے منہ پھرتی ہیں، ہماری تو بساط کیا ہے۔ اجی ہماری بیٹی کی بے پردگی تو عالم آشکارا ہے۔ مگر جن بیبیوں کی بیٹیئں پردے کرتی ہیں، وہ ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈالیں، کوئی بات چھپی نہیں رہاکرتی، خدا کو آنکھ سے نہیں مگر عقل سے پہچانا ہے۔‘‘ ان آخری فقروں پہ جوتے والی بھابھی بہت تپیں، ’’بنگالن آپا پہ تم نے کیا بات کہی کہ کسی کی بات چھپی نہیں رہا کرتی۔‘‘ بنگالن آپا نے فوراً صفائی پیش کی، ’’جوتوں والی بھابھی، سیدھی بات کو اپنے اوپر مت لے جایا کرو، تمہاری بیٹی کا ذکر نہیں ہے، میں نے تو دنیا کی بات کہی ہے۔‘‘
الجھنوں میں اضافہ ہوتا گیا، لڑائی بڑھتی گئی۔ گھمسان کی لڑائی میں یوں بھی ہوتا ہے کہ گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑتی ہوئی گرد سے سارا میدان اٹ جاتا ہے۔ اور اس میں دوست دشمن کی تمیز اٹھ جاتی ہے۔ سپاہی تلوار چلانا اپنا مقصد سمجھتے ہیں، یہ نہیں دیکھتے کہ کس پہ چل رہی ہے، کچھ یہی عالم اس وقت محل والوں پہ گزر رہا تھا، سب لڑ رہے تھے، ایک دوسرے کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ مل کر، کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ کون کس کے ساتھ ہے اور کسی کے خلاف ہے۔ ایک روز نوبت یہاں تک پہنچی کہ جبار شیخ اپنی بندوق لے کر نکل آئے اور پروفیسر شاہ کو گالیاں دینے لگے، چھوٹے میاں بڑی مشکل سے دبوچ دباچ کر انہیں اندر لائے، اس واقعہ کا محلہ میں اس حد تک چرچا ہوا کہ خبر تھانے جا پہنچی۔ تھوڑی ہی دیر میں گھم گھم پولیس آگئی، پولیس کیا آئی کہ سارے محلے میں تہلکہ پڑ گیا۔
’’یہ دوڑ کہاں آئی ہے؟‘‘ پولیس والے جب پاس سے گزر گئے تو ایک شخص نے ہراس آمیز انداز میں پر چونئے سے پوچھا۔ پرچونئے نے جواب دیا، ’’محل والوں میں لڑائی ہوگئی ہے، ان کے ہاں آئی ہے۔‘‘
’’محل والوں کے گھر دوڑ آئی ہے۔‘‘ یہ فقرہ آگ بن کر محلے بھر میں پھیل گیا، جس نے خبر سنی دہل کر رہ گیا۔
چھوٹے میاں پر اس واقعہ کا عجب اثر ہوا، انہیں محل والوں کا گزرا ہوا زمانہ رہ رہ کے یاد آیا، محل والوں کی ایسی بے عزّتی کبھی کا ہے کو ہوئی تھی، جج صاحب کے زمانے میں تو یہ حال تھا کہ محل والوں کے چوہے کے بچے کو بھی پولیس والے سر آنکھوں پہ بٹھاتے تھے۔ ان کے بعد اگر چہ وہ کرّوفر نہیں رہا، مگر ساکھ تو قائم تھی اور عید، بقرعید کے موقعوں پر تھانیدار چھوٹے میاں کو سلام کرنے آیا کرتا تھا، ہجرت نے ساکھ کے اس اوپری خول کو بھی اتار پھینکا اور آپس کا جھگڑا وہ رنگ لایا کہ محل والوں کی عزّت ہمیشہ کے لئے خاک میں مل گئی۔
چھوٹے میاں کو بے عزتی کا غم کھائے جا رہا تھا اور باقی محل والے پولیس کے آنے سے دہل گئے تھے، چند دنوں تک وہ سناٹا رہا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ محل والے وجود ہی نہیں رکھتے یا ان سب کو سانپ سونگھ گیا ہے، سناٹا پیدا ہوا تو اپنی حالت پر غور کرنے کا موقع ملا، رنجر جعفری کو اب احساس ہوا کہ جتنی رقم وہ لے کر آئے تھے اس میں سے بس تھوڑے سے روپے باقی ہیں۔ ہادی بھائی کی حیثیت ہی کیا تھی، تھوڑی بہت جو جمع پونجی تھی وہ ٹھکانے لگ چکی تھی اور اب فاقوں کی نوبت آچلی تھی، جبار شیخ نے ایکسپورٹ امپورٹ کا کام شروع کر دیا تھا مگر خاندانی جھگڑوں میں وہ ایسے لگے کہ وہ سارا کاروبار چوپٹ ہو گیا۔ چھوٹے میاں کی حالت بھی پتلی تھی۔ انہیں یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ کہیں غربت میں افلاس کی ذلت بھی اٹھانی نہ پڑے، پلاٹ کو بیچنے کا خیال نہ معلوم پہلے کس کے ذہن میں آیا تھا۔
مگر جب اس کا اظہار ہوا تو پتہ چلا کہ سب یہی سوچ رہے تھے، شاید اسی وجہ سےاس تجویز کے پیش کرنے والے کا پتہ چل نہ سکا، عورتوں میں جب یہ خبر پہنچی تو انہوں نے بھی اس کی ایسی مخالفت نہیں کی، جوتوں والی بولی، ’’بی بی بات یہ ہے کہ ہماری ایسی کون سی بڑی حیثیت ہے۔ تھوڑی سی رقم لے کے یاں آئے تھے، وہ ساری رقم اس زمین میں ڈوب گئی۔‘‘ بڑی بھابھی کہنے لگیں، ’’کمبخت پیسہ بھی گیا اور دلوں میں فرق بھی پڑ گیا۔ ایسے تین ایکڑ خریدے کہ محل والے تین تیرے ہوگئے۔‘‘ سیدانی آپا کہنے لگیں، ’’بڑی بھابھی بعض چیز راس نہیں آتی، یہ زمین بک جائے تو اچھا ہی ہے، میں تو جانوں کہ کسی نے وہاں پہ سیہ کا کانٹا گاڑ دیا ہے، روز لڑائی ہوتی ہے۔‘‘
’’خیر بی بی میں یہ تو نہیں کہوں گی۔‘‘ بڑی بھابھی کہنے لگیں، ’’زمین پڑی رہتی تو اچھا ہوتا، کبھی توفیق ہوتی تو جھونپڑا ڈال کے پڑ رہتے۔‘‘ جوتوں والی بھابھی نےکہا، ’’اجی بس رہنے دو بڑی بھابھی ہمارے مردوں کے بس کا نہیں ہے یہ کام، اور بی بی سچی بات ہے ہمارے گھر تو فاقے ہونے لگے۔ زمین کو لے کر کیا اچار ڈالیں، اور پھر روز روز کا جھگڑا، بک جائے تو پاپ کٹے، نہ رہے گابانس نہ بجے گی بانسری۔‘‘ بڑی بھابھی بڑے تلخ لہجہ میں بولیں، ’’اری بی بی تو پھر خریدنے کا کیا شوق مارا جاتا تھا، میں تو یہ جانوں ہوں کہ تیری ماں نے خصم کیا برا کیا، کرکے چھوڑ دیا اور بھی برا کیا۔‘‘
پلاٹ کی حالت اب کچھ اور خستہ ہوگئی تھی، اینٹیں جس وقت آئی تھیں دور سے دھوپ میں سرخ انگارہ لگتی تھیں، برسات میں ان کا رنگ سرخ سے زرد ہوا، برسات گزرنے پر زردی میں سیاہی کا رنگ شامل ہوا اور باریک سفید پرت جمنے لگا، سمینٹ کی بوریاں بوسیدہ ہوچکی تھیں، ان کے اندر جو سمینٹ ہوگا محفوظ ہی ہوگیا، باہر جو سمینٹ پڑا تھا اس نے زرد مٹی میں مل کر ایک نئی شکل اختیار کر لی تھی۔ کھائیاں اب بھری جا رہی تھیں، مگر عجب انداز سے، آس پاس کے مکانوں کا سارا کوڑا کرکٹ اب ان کھائیوں میں پڑنے لگا تھا۔ مہترانیاں آتیں اور نجاست کے ٹوکرے الٹ جاتیں۔
ایک سمت میں کھائی بالکل پر ہوچکی تھی اور اچھا خاصا ایک گھورا بنتا جا رہا تھا، کسی سمت سے مرغیوں کا غول کا غول آتا اور کوڑے کو پوری گرم جوشی سے پنجوں اور چونچوں سے کریدتا، اس گھورے کی مٹی میں نہ جانے کیا تاثیر تھی کہ ایک اونچے سرخ مرغے کو اس میں چہل قدمی کرتے کرتے ادبدا کر جوش آ جاتا، آس پاس گھومتی ہوئی کسی مرغی کو وہ شدت سے دبوچ لیتا، اس کی چونچ مرغی کے سر پہ ہوتی اور اس کے سرخ بازو اس کے پورے جسم کو ڈھانک لیتے، دونوں جسم ایک دوسرے میں مدغم ہوکر پروں کا ایک گرم کانپتا ہوا پلندہ بن جاتے۔ پھر مرغا الگ ہوکر پر پھڑ پھڑاتا اور بانگ دے کر پھر گھورے کو کریدنے لگتا، کبھی کوئی کھجلی کا مارا ہوا کتا اس طرف کا رخ کرتا اور کسی کھائی میں مکھیوں سے چھپ کر پڑ رہتا، وہ اونگھتا رہتا، اونگھتا رہتا پھر یکایک اسے بے چینی سی ہوتی، وہ کھڑا ہوکر جھر جھری لیتا، کسی سوکھے ہوئے گلاب کے گملے کو سونگھتا، اس پہ ٹانگ اٹھا کے پیشاب کرتا اور پھر بے مقصد، بے منزل نا معلوم سمت میں چل پڑتا۔
پلاٹ بیچنے کا خیال تجویز بنا اور تجویز نے فیصلے کی شکل اختیار کی، محل والوں کے سارے مرد چھوٹے میاں کے کمرے میں جمع ہوئے، پلاٹ کی خریداری کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ محل والوں نے مل جل کر ایک مسئلے پر سوچ بچا ر کیا۔ چھوٹے میاں نے اندر جاکر ذکر کیا تو بڑی بھابھی پھوٹ پھوٹ کے رونے لگیں، ’’غضب خدا کا، ساری جائداد واں غارت ہوگئی، یاں اک زمین کا نوالہ مل گیا تھا، سواسے بھی ٹھکانے لگا دیا۔‘‘ چھوٹے میاں کا برف سا سر جھک گیا اور کانپتی ہوئی انگلیاں داڑھی کے سفید بالوں میں بھٹکنے لگیں، وہ تھوڑی دیر کسی خیال میں گم بیٹھے رہے، پھر نیم رقت آمیز لہجے میں کہنے لگے، ’’کسی کا کیا مقدور ہے، جج صاحب کے مرنے سے اس گھر پہ زوال آگیا، محل والوں کی بہتری قدرت کو منظور نہیں۔‘‘
اس رات بہت دنوں بعد محل والوں کو محل یاد آیا، جواب متروکہ جائداد قرار دے دیا گیا تھا، اور جج صاحب یاد آئے جن کی تصویر چلتے وقت سامان سے کہیں گم ہوگئی تھی۔
مأخذ : گنی چنی کہانیاں
مصنف:انتظار حسین