کہانی کی کہانی:’’یہ کہانی ایک ایسی لڑکی کی ہے جو سیر کے لیے پہاڑی علاقے میں گئی ہوئی ہے کہ اسے اپنے چچا کی بیماری کا خط ملتا ہے۔ اس کے گھر پہنچنے کے اگلے ہی دن چچا کی موت ہو جاتی ہے۔ چچا کی موت کے بعد گھر والوں کے سامنے کچھ ایسے عجیب و غریب واقعات پیش آتے ہیں جو ان کے لیے منحوس اور ڈراؤنے ثابت ہوتے ہیں۔‘‘
علالت کا تار
اف میرے چچا کی خوف ناک موت!
ان کی موت بجائے خود ایک آسیبی حادثہ تھی۔ جب کبھی میں ان پراسرار شیطانی واقعات کا خیال کرتی ہوں جو ان کی موت کے سلسلے میں یا یوں کہیے ان کی موت کے بعد کوہ فیروز میں گزرے تھے، تو آج بھی خوف سے لرز جاتی ہوں۔ رونگٹے جیسے کھڑے ہوجاتے ہیں اور مارے خوف کے پسینہ آ جاتا ہے۔ خدا کی پناہ!
ہم افسانہ نویسوں اور رومان نگاروں کے متعلق عام طور پر یہ مشہور ہے کہ ہم،
’’بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیب داستاں کے لیے‘‘
مگر میں آپ سے سچ کہتی ہوں کہ میں ان واہیات رومان نویسوں جیسی نہیں ہوں۔ جو خواہ مخواہ خارج از عقل واقعات کا اپنے افسانوں میں ذکر کرکے ناظرین کو پریشان کر دیتے ہیں۔ میں اصل واقعہ جوں کا توں آپ کو سناتی ہوں، وہ جتنا خوف ناک ہے اتنا ہی دردناک۔
میں ۳۲ء کے موسم خزاں میں بغرض سیاحت دریائی راستوں اور ویران صحراؤں کا سفر طے کرکے مہاذری کے عجیب و غریب اور خوفناک پہاڑوں پر گئی تھی۔ تاکہ وہاں کی وحشی اقوام کے متعلق اپنے سیاحت نامہ میں کچھ لکھ سکوں۔ مگر وہاں دو ہفتے بھی تندرست نہ رہنے پائی اور بخار میں مبتلا ہو گئی۔ اور جب بخار سے نجات ملی تو اعصابی کمزوری میں گرفتار ہو گئی۔
میرے طبی مشیر بوڑھے ڈاکٹر گار نے کسی ایسے شہر میں تبدیل آب و ہوا کے لیے جانے کی رائے دی۔ جو سمندر کے کنارے آباد ہو۔ ہم سیاحوں کی زندگی ہی کیا؟ کبھی صحرا میں تو کبھی کسی میدان میں۔ چنانچہ میں فوراً کسی بحری مقام کو جانے کے لیے تیار ہو گئی۔
دوپہر کا وقت تھا۔ خزاں کا آفتاب گہرے نیلے آسمان پر چمک رہا تھا۔ دریچوں کے آگے روشنیاں جگمگا رہی تھیں اور ہوا میں ارغنوں کا سا سریلا شور ملاہوا تھا۔
میری قدیم بوڑھی حبشن سے آپ واقف ہی ہیں۔ یعنی زوناش! وہ اندر کمرے میں اسباب سفر کی درستگی میں مصروف تھی۔ کیونکہ دوسرے ہی دن ایک جہاز یہاں کی بندرگاہ سے نکلنے والا تھا۔ اور ہمیں اسی میں سوار ہونا تھا۔ میرا ارادہ کسی ایسے شاندار بارونق شہر میں جانے کا تھا۔ جو سمندر کے کنارے آباد ہو تاکہ کچھ دن شہری زندگی کے دل چسپ مناظر سے لطف اندوز ہوں اور اپنی بیماری بھلا دوں۔ چنانچہ میں اس سفر سے بےحد خوش تھی۔ چھ مہینے سے میں جنگلی کیمپ میں مصروف تھی اور اب بیزار ہو گئی تھی۔ سفر کے خیال سے اس وقت طبیعت شگفتہ تھی۔ اس لیے میں ایک لمبے سے آسمانی رنگت کے دریچے کے آگے بیٹھی ستار پر ایک شوخ عربی غزل بجا رہی تھی۔ اتنے میں زوناش اپنی موٹی کمر سمیت آ گئی اور کسی قدر گھبرائی ہوئی آواز میں بولی۔
’’بی بی یہ تار!‘‘
میں نے ستار کو دریچی میں رکھ دیا۔ ’’کس کا ہے زوناش؟‘‘
میرا موجودہ پتہ سوائے میرے ہارلی یا بوڑھے ڈاکٹر گار کے کسی کو معلوم نہ تھا۔ اس لیے مجھے تارپر حیرت ہو رہی تھی۔ میں نے کھول کر پڑھا تو حواس رخصت ہو گئے۔ کوہ فیروز سے ڈاکٹر گار کاتار آیا تھا۔ اس میں میرے بدنصیب چچا کونٹ الیاس کی خطرناک علالت کی خبر لکھی تھی اور ساتھ ہی مجھے فوراً آنے کی تاکید بھی کر رکھی تھی۔
صدمے نے مجھے زور کر دیا۔ آہ بدنصیب چچا! وہ سالہا سال سے کوہ فیروز کے ویران پہاڑ پر زندگی کے دن علم روحانیات کے مطالعہ میں بسر کر رہے تھے۔ سپریچولزم سے انہیں اس قدر شغف تھا کہ اس مصروفیت میں انہوں نے شادی تک نہیں کی تھی نہ کسی سے عشق کیا تھا اب تو عمر کی آخری منزلوں پر پہنچ چکے تھے۔ ایک وفادار بوڑھا خادم احمد ان کا رفیق تھا۔ آہ غریب احمد! وہ اپنے مالک کی اس خطرناک علالت کس قدر خوف زدہ ہوگا۔
زوناش میرے سکوت پر بوکھلا گئی، ’’کیا بات ہے بی بی؟‘‘
’’آہ بوڑھی بلی!‘‘ میں نے غمگین لہجہ میں کہا۔ ’’چچا الیاس!‘‘
زوناش گھبرا گئی، ’’کیا انتقال کرگئے؟‘‘
’’ابھی نہیں‘‘ میں افسردہ لہجہ میں کہنے لگی، ’’ابھی نہیں مگر کچھ دنوں بعد انتقال کریں گے۔ اب سمندری شان دار شہر میں جانے کا پروگرام ملتوی کرو آج شام جو جہاز نکلتا ہے۔ اس میں ہمیں سوار ہو جانا چاہیے۔ یہ کوہ فیروز کی بندرگاہ کی طرف جاتا ہے۔ تیسرے دن پہنچ جائےگا۔‘‘
یہ کہہ کر میں برآمدے میں آرام کرسی پر لیٹ گئی۔ سر میں درد شروع ہو گیا تھا۔ سوچنے لگی اس عرصہ میں کہیں چچا کا انتقال ہی نہ ہو گیا ہو۔ کہیں ان کی روح میرے قریب ہی نہ کھڑی ہو۔ انہوں نے اپنی عمر روحوں کی تحقیقات میں کاٹی تھی، اکثر روحانی مجلسوں میں شریک ہوتے رہے۔ کسے پتہ؟ اپنے علم کے زور سے وہ مرکر یہاں روح کی شکل میں آ گئے ہوں۔ اس خیل کے آتے ہی میں ڈر گئی اور بھاگ کر اس کمرہ میں گئی جہاں زوناش سوٹ کیس میں کپڑے رکھ رہی تھی۔
ہم مشرقی سیاہ چشم اور صندلی رنگت والی لڑکیاں بچپن ہی سے جادو اور گرم ملکوں کے سحر کے قصے سن سن کر پلتی ہیں۔ ہماری زندگی مشرقی ملکوں میں بجائے خود ایک افسانہ ہوتی ہے اور میں تو مشرق کے بالکل قلبی شہروں میں پلی تھی۔ بھلا کیونکر نہ ڈر جاتی۔
اسی شام غروب آفتاب کے وقت ہم بندرگاہ پہنچ گئے۔
بیمار کی خوفناک حرکتیں
اصل قصہ گویا ۹اپریل ۱۹۳۲ کی شام سے شروع ہوتا ہے جب میں کوہ فیروز میں اپنے چچا کے گھر پہنچی ہوں۔
بوڑھے ڈاکٹر گار نے اداس مسکراہٹ سے زینے پر نکل کے میرا خیرمقدم کیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر بدنصیب چچا کے کمرے کی طرف لے گیا۔ میں نے انہیں بدنصیب کیوں لکھا یہ کوئی راز نہیں۔
آہ وہ اداس شام مجھے کبھی نہ بھولے گی۔ شفق پھولی ہوئی تھی اور ہر چیز جیسے اُس کی سرخی میں ڈوب کر رہ گئی تھی۔ لمبے لمبے دریچے ہوا کے لیے کھول دیے گئے تھے۔ باغ کی کھڑکی سے ہوکر نیلا آسمان نظر آ رہا تھا اور سیب کے درخت سر جھکائے اُداس اُداس کھڑے تھے جیسے کسی منحوس خبر کے سننے سے پہلے آدمی خودبخود سرجھکا لیتا ہے۔
کونٹ الیاس کی چارپائی ایک دریچے کے آگے بچھی ہوئی تھی۔ کمرہ تاریک پڑا تھا۔ صرف شفق کی ہلکی روشنی بیمار کے خوفناک چہرے پر پڑ رہی تھی۔ وہ نیند میں کراہ رہے تھے کبھی باتیں بھی کرنے لگتے تھے، مگر آنکھیں بند تھیں۔
اسی وقت جب کہ میں ایک کھڑکی کے آگے سے گزرنے لگی۔ تو الو نے زور کی چیخ ماری۔ بیماری کے زمانے میں الو کی چیخ منحوس سمجھی جاتی ہے۔ چنانچہ میں انجان بن گئی۔ میں اور ڈاکٹر گار چچا کے سرہانے ایک دریچی میں بیٹھے باتیں کرنے لگے یہاں ہر طرف مجھے وحشت محسوس ہو رہی تھی۔
ڈاکٹر گار متفکر انداز میں کہنے لگے، ’’اور کوئی مرض نہیں۔ بس روحوں کے متعلق سوچتے سوچتے پاگل ہو گئے ہیں۔‘‘
’’پاگل؟‘‘ میں خوفزدہ لہجے میں بولی۔
ڈاکٹر گار اپنی نسوار کی ڈبیہ پر انگلی مارتے ہوئے سرہلاکر بولے، ’’پاگل سے مراد خبطی۔ تمہیں معلوم ہے۔ دن رات یہاں روحانی مجلسیں ہوا کرتی تھیں۔ ماہرین روحانیات کا جمگھٹا لگا رہتا تھا؟ دنوں کمرہ کے اندر بند رہ کر کونٹ الیاس اور ان کے دوست تجربات میں منہمک رہتے تھے۔ پلانچھیت پر بڑے بڑے لوگوں کی روحیں بلائیں جاتی۔ ان سے سوال و جواب ہوتے۔ میز کا عمل بھی کیا جاتا جو چودہ آدمی مل کر کرتے تھے۔ انہوں نے غذا بہت کم کردی تھی۔ بسکٹ، ہلکی چائے، کبھی ایک پتلا سا توس۔ ایک آدھی نارنگی بس یہ غذا تھی کیونکہ روحانی مجلسوں میں شریک ہونے والوں کے لیے ثقیل غذا مضر سمجھی جاتی ہے۔ راتوں کو مطالعہ میں مصروف رہتے اور دن میں تجربات کرتے۔ بس مہینوں کی مشقت نے آج ان کی یہ حالت کر دی ہے۔
اتنے میں چچا الیاس نے آنکھیں کھول دیں اور دیوار کو تکنے لگے۔
ڈاکٹر گار آگے بڑھا اور ان پر جھک گیا۔ ’’کیسی طبیعت ہے کونٹ؟ روحی آ گئی ہے۔‘‘ (روحی میرا افسانوی نام ہے )
یہ سن کر چچا نے ایک عجیب خوفناک غیرانسانی انداز سے میری طرف دیکھا۔ واقعی وہ اس وقت ایک ڈراؤنی روح معلوم ہوتے تھے۔ جو شام کے دھندلکے میں لوگوں کو ڈرانے کے لیے اُترتی ہے۔ مجھے خوف سے پسینہ آ گیا۔ مجھ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اُن کے قریب جاتی۔ اس لیے میں نے وہیں سے کہا، ’’آداب چچا!‘‘
’’ارے یہ کون؟‘‘ انہوں نے پاگلوں کے لہجے میں کہا، ’’یہ زندہ روحی ہے یا صرف اس کی روح مجھ سے ملنے آئی ہے؟‘‘
یہ سن کر میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ ڈاکٹر گار بولا، ’’آپ کی بھی عجیب باتیں ہیں۔ روحی زندہ ہے۔ اپنے مادی جسم میں آپ کی ملاقا ت کے لیے آئی ہے۔‘‘
چچا سر پھیر کر مجھے دیکھنے لگے، ’’مادی جسم میں آئی ہے؟ تو روحی ادھر آؤ۔ مجھے اپنا ہاتھ چھونے دو تاکہ مجھے تمہاری زندگی کا یقین ہو جائے۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ مگر اُف معبود! ان کی اس تقریر کو سن کر میں خوف سے مرگئی اور ہاتھ بڑھانے میں تامل کرنے لگی۔ میرا دل چاہتا تھا میں دریچی سے باغ میں کود جاؤں۔ اے اللہ!۔ میں اس شیطان کے بادشاہ کو دیکھنے کوہ فیروز آخر آئی ہی کیوں؟
تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر گار میری طرف بڑھا، ’’روحی بیٹی! چچا کے پاس جاؤ وہ تمہیں چھونا چاہتے ہیں۔‘‘
میں ڈرتے ڈرتے ایک قدم آگے بڑھی۔ پھر چچا کی خوفناک نظروں کو دیکھ کر پیچھے بھاگی، ’’وہاں مجھ سے نہ جایا جائےگا۔‘‘
یہ کہہ کر میں خوف زدہ ہوگئی اور ڈاکٹر گار کے کان میں بولی، ’’آہ ڈاکٹر چچا پاگل ہو گئے ہیں۔ اگر پاگل نہیں ہو گئے ہیں تو یقیناً مر گئے ہیں اور ان کے مردہ جسم میں کوئی خبیث روح گھس گئی ہے۔ جبھی تو ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں۔‘‘
’’یقین کرو نہ وہ پاگل ہیں اور نہ مر گئے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر گار تشفی بخش لہجے میں آہستہ آہستہ کہنے لگا، ’’انہوں نے روحوں کے باب میں اتنا زیادہ مطالعہ کیا ہے کہ اب انہیں ہر ہر بات میں روح یاد آتی ہے۔ لیجیے صاحب! اپنی بھتیجی کا ہاتھ چھوکر اطمینان کر لیجیے کہ یہ زندہ ہے۔‘‘ ڈاکٹر مجھے چچا کے قریب لے گیا۔
چچا میری طرف خوفناک نظروں سے دیکھ رہے تھے اور میں مارے خوف کے باغ کی طرف سیب کے درختوں کو دیکھ رہی تھی۔ انہوں نے مصافحہ کے انداز میں میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا پھر اچانک ایک فلک شگاف قہقہہ لگاکر بولے،
’’یہ ابھی زندہ ہے۔‘‘ مر بھی جاتی تو مجھے مطلق رنج نہ ہوتا۔ رنج ایک طرف مجھے بے حد خوشی ہوتی۔ خدا کرے جلد مر جائے اور دنیا کے بکھیڑوں سے نجات پائے۔ بچاری کمسن روحی! ابھی زندہ ہے۔ جو لوگ مرتے ہیں درحقیقت نئی زندگی حاصل کرتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ روحی زندہ ہے اس کے معنی یہ کہ اسے موت کی تلخی چکھنی ہے۔ مگر یہ صرف دو لمحوں کی تلخی ہوگی۔ پھر تو روحی بقا کی پاک سرزمین پر زندگی سے ہم کنار رہےگی۔ روحی ہم سے کبھی جدا نہ ہوگی۔ بظاہر وہ تاریک قبر میں دفنا دی جائےگی پر ہمارے درمیان موجود رہےگی۔ یا اللہ اسے دنیا سے جلد اٹھا لے۔
اپنے متعلق شام کی عبادت کے وقت یہ بدشگونیاں سن کر مجھے چچا پر بے حد غصہ آیا اور متنفر ہوکر میں نے انہیں دیکھا۔
ڈاکٹر گار ہنس پڑا، ’’روحی مرنا نہیں چاہتی کونٹ! آپ اس کے لیے موت کی دعا نہ کیجیے۔‘‘
’’پاگل ہے۔‘‘ چچا نے کہا، ’’زندہ رہ کر کیا کرےگی؟ مرےگی تو فردوس میں جائےگی۔ اور مزے کی زندگی بسر کرے گی۔ ڈاکٹر صاحب اور بیٹی روحی! تمہیں اس کمرے میں مشرقی دروازے کے قریب تپائی پر گراموفون کا ہارن نظر آ رہا ہے؟‘‘
میں نے مری ہوئی آواز میں کہا، ’’جی۔‘‘
’’اور آپ کو ڈاکٹر صاحب؟‘‘ چچا نے پوچھا۔
’’مجھے بھی نظر آ رہا ہے جناب۔ سبز رنگ کا ہارن رکھا ہوا ہے۔‘‘ ڈاکٹر گار نے سگار سلگاتے ہوئے کہا۔
’’بس ٹھیک ہے۔‘‘ بیمار نے کہا۔ ’’اس کے پیچھے کون کھڑا ہے؟‘‘
’’کون کھڑا ہو سکتا ہے؟ کوئی نہیں!‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا۔
چچا نے قہقہہ لگایا، ’’عجیب پاگل ہو۔ معاف کرنا ڈاکٹر صاحب۔ آپ تو علم روح میں محض جاہل ہیں۔ چار جگہوں پر عموماً روحیں بلائی جاتی ہیں اور وہیں وہ نمودار ہونا پسند کرتی ہیں۔ گراموفون کا ہارن، تپائی، میز کا کونہ یا دیوار کا کونہ۔ چنانچہ اس وقت گراموفون کے ہارن کے پاس آٹھ روحیں کھڑی ہیں۔ آپ کو یقین نہیں آتا؟ کتاب مقدس کی قسم وہ موجود ہیں۔ میں نے ان لوگوں کو اکثر اپنی روحانی مجلسوں میں مدعو کیا تھا اسی لیے اکثر آتی ہیں۔ ان میں کئی روحیں ایسی ہیں جنہیں اس مادی دنیا کو چھوڑے ہوئے پچاس پچاس سال گزر گئے ہیں۔ ایک اس میں میرے دادا کی روح ہے۔ ایک میرے چچا کی۔ روحی کی ماں اور دادی بھی موجود ہیں، باقی لوگ میرے دوست ہیں۔ احمد احمد احمد!‘‘
اتنے میں دروازہ کھلا اور احمد بوڑھے جِن کی طرح اندر داخل ہوا۔
’’حضور!‘‘
چچا نے ہاتھ کے اشارے سے مطلب ظاہر کیا، ’’چند کرسیاں گراموفون کے ہارن کے پاس ڈال دو۔ اس پر وہ لوگ بیٹھیں گے۔‘‘
احمد کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور رہ رہ کر اسے ہچکیاں آرہی تھیں۔ اس نے تعمیل حکم میں کرسیاں ڈال دیں اور کمرے سے باہر چلا گیا۔
دہشت ناک رات۔
ایک رات کھانے کے بعد میں اور ڈاکٹر گار نچلی منزل کے کمرہ ملاقات میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں احمد بالاخانے کے زینے پر دوڑتا ہوا آیا۔
’’اُف کیا بات ہے احمد!‘‘ ڈاکٹر گار پریشان ہوکر بولا۔۔۔ ’’کیا بات ہے؟‘‘
احمد ذرا زور سے روکر بولا، ’’جناب کونٹ الیاس کی طبیعت بہت بگڑ گئی ہے۔ آپ لوگ جلدی اوپر چلیں۔
یہ سن کر ہم دوڑتے ہوئے بالائی منزل میں پہنچے۔ چچا الیاس چارپائی پر سرخ شال لپیٹے بیٹھے تھے۔ کانوں پر انہوں نے رومال لپیٹ رکھا تھا۔ میں خوف سے زرد ہوگئی تھی اور ڈاکٹر گار کے پیچھے پیچھے تھی۔
ڈاکٹر گار جاتے ہی بولا، ’’کیسی طبیعت ہے کونٹ؟‘‘
چچا الیاس ہنس پڑے، ’’ڈاکٹر صاحب آج ساڑھے گیارہ بجے میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا۔‘‘
ڈاکٹر گار ان کے قریب چارپائی پر بیٹھ گیا اور ان کی نبض محسوس کرنے لگا۔ پھر مڑ کر مجھ سے بولا، ’’روحی گلاس میں ٹھنڈا پانی لے آؤ۔‘‘
میں صراحی میں سے پانی لے آئی اور چچا کو دینے لگی۔ وہ ہنس پڑے اور حقارت سے شانے سکوڑنے لگے، بولے،
’’دیوانی لڑکی! اس پانی کو پی کر کیا کروں گا۔ میں اب عنقریب بقا کا جام پینے والا ہوں۔ لڑکی بیٹھ جاؤ۔ میں کچھ دیر بعد تمہاری آنکھوں سے اوجھل ہو جاؤں گا۔ کیونکہ تمہاری آنکھیں اتنی تربیت یافتہ نہیں کہ مجھے دیکھ سکیں۔ مگر یاد رکھو کہ میں دن رات تم لوگوں میں رہوں گا۔ میرا جسم تم لوگ مٹی کے نیچے دبا دوگے۔ مگر میں تم لوگوں کے درمیان موجود رہوں گا۔ احمد سے مجھے اُنس ہے۔ اس نے چالیس سال میری خدمت کی۔ میں اس کابھی نگراں رہوں گا۔ راتوں کے وقت دریچوں میں کھڑا رہوں گا، تو دن کے وقت باغ میں سیب اور ناشپاتی کے درختوں کے نیچے بیٹھا ہوں گا۔ طعام خانے میں جب تم لوگ صبح کافی پینے جاؤگے تو میں دروازے پر تمہارا استقبال کروں گا۔‘‘
یہ کہتے کہتے ان کی آنکھیں پتھرا گئیں۔
’’ڈاکٹر صاحب مجھے ذرا لٹا دو۔‘‘
ڈاکٹر گار نے ان کا سر تکیہ پر رکھ دیا مگر آہ وہ مر چکے تھے۔ میں نے گھڑی کی طرف دیکھا ساڑھے گیارہ کا وقت تھا!
’’ہائے کیا چچا رحلت کر گئے۔ اتنی جلدی۔۔۔؟ بیساختہ افسوس کے لہجے میں میری زبان سے نکلا۔
ڈاکٹر بولا، ’’بلاشبہ وہ دوسری دنیا میں پہنچ گئے ہیں۔ اب کوئی طبی کوشش انہیں جگانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ کونٹ الیاس نے بہت ہی خاموش اور پاکیزہ زندگی دنیا میں بسر کی۔ خدا کا حکم۔ کوئی کیا کرے۔
دروازہ کھلا اور احمد وحشت ناک طریق پر روتا چیختا چلاتا اندر آیا اور اپنے مالک کی لاش پر گر پڑا۔
’’میں نے چالیس برس ان کی خدمت کی۔ بے مثال آدمی تھا۔ اب میں ان کے بعد دنیا میں رہنا نہیں چاہتا۔‘‘ یہ کہہ کر زور زور سے رونے لگا۔
اس کی یہ حالت دیکھ کر میں نے اپنی آنکھوں پر رومال رکھ لیا۔ اور دریچے میں بیٹھ گئی۔ خوف اور صدمے نے مجھے نڈھال کر دیا تھا۔
ڈاکٹر گار، احمد کی غمناک حالت دیکھ کر ذرا چیں بہ جبیں ہوکر بولا، ’’ایں۔ احمد! یہ تم نے کیا شور مچا رکھا ہے۔ میت پر زور سے ماتم کرنا مذہبی تہذیب اور مسلمانوں کے اخلاق کے سراسر خلاف ہے۔ بس کرو رونا پیٹنا۔‘‘
دم کی دم میں کونٹ الیاس کی موت کی خبر کوہ فیروز میں آگ کی طرح پھیل گئی اور بارہ بجتے بجتے شہر کے لوگوں سے نچلی منزل بھر گئی۔ غریب چچا کی لاش غسل کے لیے نچلی منزل میں لائی گئی۔ اس رات ہر طرف ایک خوفناک بیکسی برس رہی تھی۔ آہ! وہ خوفناک رات! وہ مجھے کبھی نہ بھولےگی۔ سیب کے درختوں کے نیچے ایک مشرقی وضع کی منقش صندل کی چوکی پر چچا کی لاش رکھی گئی تھی۔ اور ایک سفید چادر اس پر پڑی تھی۔ گیس کی تیز روشنی کے چراغ میت کے اطراف اور باغ کے کونوں میں رکھے گئے تھے۔
میں نیچے باورچی خانے کے دریچے سے سہارا لیے باہر باغ میں جھانک رہی تھی۔ زوناش چولہے کے پاس بلی کی طرح سمٹی سمٹائی بیٹھی تھی۔ مجھے تو اس شب مکان کے ہر کمرے میں موت کے قدموں کے نشان نظر آ رہے تھے۔
آخر جنازہ تیار ہوا اور تھوڑی ہی دیر میں لوگ قبرستان کی طرف روانہ ہوگئے۔ قبرستان بالکل مکان سے لگا ہوا تھا۔ صرف درمیان میں ایک دیورا استادہ تھی۔ چنانچہ میں اوپر کی منزل میں چلی گئی تاکہ وہاں کے برآمدے میں بیٹھ کر قبرستان کا منظر دیکھوں۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ رات کی تاریکی میں قبرستان کے صحن میں سرد اور املی کے درخت ہواؤں میں کانپ رہے ہیں۔
اتنے میں جنازے کی نماز ختم ہوئی۔
ایک رونگٹے کھڑا کردینے والا واقعہ۔
وہ رات ہم سب نے آنکھوں میں کاٹی۔
ڈاکٹر گار تین بجے کے قریب قبرستان سے واپس آیا اور صبح تک لوگ بڑے ہال میں بیٹھے مرحوم کی باتیں کرتے رہے۔ رنج اور وحشت سے نیند بھلا کسے آتی!
دوسرے دن بھی طبیعت نہایت متوحش اور بےچین رہی۔ ڈاکٹر گار، احمد، میں، زوناش، غرض سب کے سب مضمحل اور اداس تھے۔ باغ کے تناور درختوں پر المناک سایہ حرکت کرتا نظر آتا تھا۔ مکان کے کمرے ویران کھلے پڑے تھے۔ برآمدوں میں نحوست برس رہی تھی۔ مالک مکان رخصت ہو گیا تھا پھر بھلا مکان کی کیا رونق؟
عصر کے وقت کھانا کھاکر سب اپنی اپنی خواب گاہوں میں سونے کی نیت سے لیٹ گئے۔ مگر کسی کو پریشانی اور وحشت کے باعث نیند نہیں آئی۔
اس زمانے میں مجھے درد سر کی مستقل شکایت تھی۔ میں رات سے اس میں مبتلا تھی۔ دن جوں توں کرکے ختم ہوا اور آخر آفتاب غروب ہو گیا۔ اب تو ہم سچ مچ نڈھال ہو گئے تھے۔ چنانچہ ہم سب نے ہلکا سا ناشتہ کیا۔ نارنگیاں، کھجور، چائے بسکٹ تھوڑے تھوڑے سے کھائے اور اطمینان سے رات بھر سونے کے لیے اپنی اپنی خواب گاہ میں چلے گئے۔
ہمارے ان مشرقی ممالک میں خزاں کے موسم میں رات کے وقت اچانک گرم ہوا چلنے لگتی ہے۔ چنانچہ میں نے ساری کھڑکیاں کھول دیں۔ رات بہت گرم۔ بے حد تاریک اور ویران تھی۔
اگرچہ کوہ فیروز میں رات کے وقت پہاڑی پرندے اور صحرائی چھپکلیاں بہت چیختی ہیں۔ مگر مجھے رات بھر گہری نیند آئی۔ ہاں البتہ بوڑھی زوناش دو ایک مرتبہ ضرور چیخ پڑی۔ کہنے لگی، دریچے کے پاس سے ایک اونچا سا آسیبی سایہ باورچی خانے کی طرف جاتا ہوا نظر آیا ہے! مگر میں نے اس کی ان واہیات باتوں کی پرواہ نہ کی۔ کروٹ بدلی اور پھر سو گئی۔
دوسرے دن جب آنکھ کھلی تو المناک واقعات ازسرنو یاد آ گئے۔ کمرے کی سفید اونچی دیواروں پر نارنجی رنگ کی دھوپ لہریں مار رہی تھی۔ دریچہ کھلا ہوا تھا۔ جس میں سے گہرا نیلا آسمان نظر آ رہا تھا۔
میں اداس تھی پر زوناش! کیا بجا ہوگا؟
’’آٹھ بجے ہیں بیبی۔‘‘
میں بستر پر اٹھ بیٹی، ’’افوہ! آٹھ بج گئے! کتنا وقت گذر گیا۔ تم چائے لے آؤ۔‘‘
زوناش سہمی ہوئی تھی وہ دریچی کے آگے کھڑی ہوئی اپنی چاندی کی چوڑیاں المناک انداز سے ہلانے لگی۔
’’کیا بات ہے بوڑھی گائے؟‘‘ میں حیران ہوکر کہنے لگی۔ ’’تم چائے کیوں نہیں لے آتیں؟ سہمی ہوئی کیوں ہو؟‘‘
وہ دریچے کی راہ سے باغ کی طرف خوف ناک نظروں سے دیکھ رہی تھی، کہنے لگی ’’کیا کہوں خاتون۔ رات میں نے عجب ہولناک خواب دیکھا۔‘‘
میں چڑ گئی، ’’تم بڑی واہیات ہو۔ ہمیشہ تمہیں شیطانی افسانے سوجھتے ہیں۔ تم شیطان کی ساس ہو۔ یہ کہہ کر میں ہنس پڑی اور اس کا شانہ پکڑ کر ہلانے لگی۔
مگر زوناش بُت بنی کھڑی تھی، بولی، ’’بی بی میں جھوٹ نہیں بولتی۔ میں نے خواب میں۔۔۔ یا یوں کہیے۔ سچ مچ رات کے اندھیرے میں عجیب منظر دیکھا۔ معبود ہم سب کو پناہ میں رکھے۔‘‘
’’خدا کے لئے زوناش ’’میں نے بیزار ہوکر کہا۔‘‘ خدا کے لیے چائے لے آؤ۔ احمد غریب کو تکلیف نہ دو۔ سو رہا ہوگا۔ بیچارہ چچا کی موت سے پریشان ہو رہا ہے۔‘‘
زوناش چائے لانے چلی گئی۔ میں غمگین اداسے چارپائی سے اٹھی۔ سمندری نیلے رنگ کا ڈریسنگ گون کندھے پر ڈال کر لباس نکالنے کے لیے الماری کی طرف گئی۔ دفعتاً باغ کی راہ سے باورچی خانے کی طرف سے زوناش کے زور سے رونے کی آواز آئی۔ ساتھ ہی وہشت ناک چیخ۔۔۔ پھر چیخ۔۔۔ پھر چیخ۔۔۔!
خوف نے مجھے بت بنا دیا۔ میں دروازہ کھول کر باغ کے زینے پر نکل آئی اور پھر بھاگتی ہوئی باورچی خانے کی طرف گئی۔
دیکھا تو عجیب منظر تھا۔ زوناش باورچی خانے کے زینے پر پڑی ہانپ رہی تھی۔
’’زوناش! زوناش! یہ تمہیں کیا ہو گیا؟ کیا بات ہے؟‘‘ یہ کہتے ہوئے بیچاری زوناش کے پاس بیٹھ گئی۔ اس کی عجیب حالت ہو رہی تھی۔ بات منہ سے نکلتی نہ تھی۔ ہانپ رہی تھی اور کبھی کبھی چیخ پڑتی تھی۔
’’آخر کچھ تو بتاؤ۔ کیا ہوا؟‘‘
اس نے بہ مشکل باورچی خانے کی الماری کی طرف اشارہ کیا، ’’بی بی۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ اُدھر دیکھیے۔ خاتون۔۔۔ خاتون روحی۔۔۔ اُدھر دیکھیے۔ الماری کے سامنے کیا چیز پڑی ہے؟
’’کیا چیز پڑی ہے؟‘‘ میں نے حیران ہوکر اس سے پوچھا۔
’’ہائے خاتون روحی۔۔۔ کیا بتاؤں۔۔۔! بی بی ڈاکٹر گار کو بلاؤ۔۔۔ احمد کو بلاؤ۔۔۔ تم تنہا اس کے قریب نہ جاؤ، ڈر جاؤگی۔
میں پریشان ہو گئی۔ وہاں کوئی ایسی چیز نہیں پڑی ہے جس کو دیکھ کر میں ڈر جاؤں، ہاں البتہ۔ یہ کہہ کر میں ادھر دیکھنے لگی۔ پھر غور سے دیکھ کر بولی، ’’کوئی سفید چادر پڑی ہے۔ شاید کسی لکڑی پر چادر لپٹی ہوئی۔‘‘
میرا جملہ ختم بھی نہ ہوا تھا کہ زوناش چیخ پڑی۔ بلند آسمان۔۔۔! بی بی بھاگو خدا کے لیے بھاگو۔۔۔ وہ سفید چادر نہیں ہے، وہ تو۔۔۔ وہ تو۔۔۔ آہ۔۔۔ کسی انسان کی کی۔۔۔‘‘
’’لاش۔۔۔ لاش۔۔۔‘‘ میں نے غور سے دیکھ کر چلاکر کہا ہوش و حواس رخصت ہو گئے اور میں دس قدم دور بھاگی۔
وہ کس کی لاش تھی؟
ہم دونوں باورچی خانے کے زینے پر سے بھاگتے ہوئے ڈاکٹر گار کے کمرہ خواب میں پہنچے۔ ڈاکٹر گار اپنی شب خوابی کے دھاری دار نیلے لباس میں بیٹھا اپنی بستر کی چائے پی رہا تھا۔
اسے دیکھتے ہی زوناش چیخ پڑی ’’جناب! جناب!، وہ آگے کچھ نہ کہہ سکی۔
’’ڈاکٹر۔۔۔‘‘ میری زبان سے نکلا، ’’ادھر جلدی آؤ۔ ایک لاش زینے پر پڑی ہے۔‘‘
’’زینے پر کیا پڑی ہے؟‘‘ ڈاکٹر گار نے حیران ہوکر سوال کیا۔ زوناش بول اٹھی، ’’لاش جناب! انسانی لاش! میں نے باورچی خانے کی الماری دودھ کا کٹورا نکالنے کے لیے کھولی۔ الماری کے کھلتے ہی ایک لاش نکل کر مجھ پر آپڑی۔ میں گھبرا کر بھاگی وہ اب زینے پر پڑی ہے۔ آہ خدا آہ خدا تری پناہ۔۔۔!‘‘
زوناش ہانپتی ہوئی ایک دریچے سے جالگی۔
ڈاکٹر گارخوف زدہ ہوکر فوراً اُٹھ کھڑا ہوا، ’’یا اللہ! یہ کیا ہو گیا! یہ کیا کہہ رہی ہو تم دونوں! کیا معمہ ہے!
ڈاکٹر گار پریشان ہوکر کمرے سے باہر نکلا۔ مزید تحقیقات کے لیے وہ بارچی خانے کی طرف گیا۔ دو ہی لمحوں بعد جب واپس آیا تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ وہ اپنے ہوش میں نہ تھا۔
’’بیٹی بیٹھ جاؤ۔ مجھے چکر آ رہے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک صوفے پر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔‘‘ ہائے تمہارا خیال درست نکلا۔ وہ لاش ہی ہے۔‘‘
’’آخر کس کی لاش ہے ڈاکٹر؟‘‘ خوف سے میری چیخ نکل گئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کچھ کہتے ہوئے تامل کر رہا ہے۔ کہنے لگا، ’’کیا بتاؤں روحی کہ کس کی ہے! میر کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ ہم پر کیا افتاد پڑی!‘‘
میں اور ڈر گئی، ’’اے اللہ! یہ تمہیں کیا ہو گیا۔ صاف کہہ دو کس کی لاش ہے۔ اور وہاں کیسے پہنچ گئی۔ میں خوف کے مارے مری جاتی ہوں۔‘‘
ڈاکٹر گار پاگل ہوگیا تھا۔ دیوانوں کی طرح اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ بولا میں کیا بتاؤں بیٹی روحی۔ بتاتے ہوئے گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے۔ ڈروگی تو نہیں؟‘‘ یہ سن کرمیری پریشانی میں اور اضافہ ہوا۔ الہیٰ یہ ڈاکٹر کیا کہہ رہا ہے۔ کس کی لاش ہے۔ اور مجھ سے اس پردہ داری کی وجوہ؟ ویسے ہی لاش کانام غضب اس پر اس کا الماری میں سے برآمد ہونا ستم! اس پر یہ رازداری۔ اُف اُف!
اتنے میں احمد دہشت اور سراسیمگی کے عالم میں باورچی خانے کے زینے پر دوڑتا ہوا آیا اور رو کر بولا، ’’خاتون روحی۔۔۔ ہائے کونٹ الیاس کی لاش!‘‘
’’ایں ایں کیا کہہ رہے ہو؟ احمد؟۔۔۔ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔۔۔ ڈاکٹر۔۔۔ یہ احمد کیا کہہ رہا ہے؟ میرے معبود! میرے اللہ!‘‘
’’ہاں میری بیٹی۔‘‘ ڈاکٹر وحشت ناک لہجے میں بولا، ’’وہ سچ کہتا ہے۔ تمہارے چچا کی لاش ہے۔‘‘
’’مگر۔۔۔‘‘ میں نہایت خوف زدہ ہوکر کہنے لگی، ’’مگر ان کا تو پرسوں انتقال ہو گیا اور وہ دفن کردیے گئے تھے۔ ہاں ڈاکٹر یہ تم لوگ کیا کہہ رہے ہو؟ وہ تو مر گئے۔‘‘
’’مگر اپنے علم کے زور سے پھر واپس آ گئے ہیں۔‘‘ احمد نے وثوق کے لہجے میں کہا۔
’’پاگل!‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔ مر کر کوئی انسان اپنے علم کے زور سے واپس آ سکتا ہے احمد؟ پھر مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگا، ’’روحی اب میں جاتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے اپنی ٹوپی اٹھا لی۔
’’کہاں جاتے ہو ڈاکٹر؟ کہاں جاتے ہو؟‘‘ میں اس کے کوٹ کا دامن پکڑ کر پوچھنے لگی۔
’’پہلے قبرستان جاکر کونٹ الیاس کی قبر دیکھوں گا۔ پھر۔۔۔ پھر پولیس میں اطلاع دینی پڑے گی۔‘‘ ڈاکٹر گار کا چہرہ سفید ہو گیا تھا۔ وہ خوف سے لرز رہا تھا۔
احمد رو کر بولا، ’’یہ مرحوم کی سخت توہین ہوگی۔ مظلوم کونٹ! ان کے تعلقات تو سب کے ساتھ خوش گوار تھے آخر کس دشمن نے یہ نازیبا حرکت کی ہوگی؟
میں سکتے کے عالم میں تھی اور ڈاکٹر گار پاگل ہو گیا تھا مگر احمد۔۔۔ وہ ہم دونوں سے بہتر تھا۔ اس نے ایک وجہ ڈھونڈ نکالی تھی۔ اس کا عقیدہ تھا کہ لاش علم کے زور سے اوپر نکل آئی ہے۔ مگر ڈاکٹر گار اور میں اس واقعہ پر حیران تھے۔ اور سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا۔
زوناش کا حال سب سے بُرا تھا۔ احمد باورچی خانے میں لاش کی نگرانی کے لیے چلا گیا۔ ڈاکٹر باہر جا چکا تھا۔ میں اور زوناش آفتاب کی شعاعوں میں دریچہ کے پاس بیٹھی اس خوفناک واقعہ پر چہ میگوئیاں کر رہی تھیں۔ آہ وہ المناک صبح!‘‘
۱۲بجے ڈاکٹر گار پولیس کے چند افسران کو ساتھ لیے واپس لایا۔ ان لوگوں نے لاش دیکھی۔ بلاشبہ بدنصیب کونٹ الیاس کی لاش تھی۔ مگر وہ یہاں کیسے آ گئی! یہ ایک عجیب راز تھا اور لوگ اس کے متعلق افواہیں مشہور کر رہے تھے۔ سب کی رائے مختلف تھی۔
ڈاکٹر کہنے لگا، ’’بیٹی یہ عجیب و غریب واقعہ ہے۔ میں نے آج تک اتنا خوفناک واقعہ سنا بھی نہیں تھا۔ پولیس نے میری اجازت سے قبر کھودی۔ اندر لاش غائب تھی۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کسی دشمن کی کارستانی ہے۔ مگر مردے سے انتقام کیسا؟ خدا علیم ہے۔‘‘
غرض دوبارہ لاش دفنادی گئی اور رات بھر پولیس کی نگرانی رہی۔ احمد نے بھی قسم کھائی تھی۔ وہ بھی رات رات بھر قبر کے پاس بیٹھا رہےگا۔ چنانچہ وہ دن کے وقت سوتا تھا اور رات قبر کے پاس بسر کرتا تھا۔
لاش کی پانچ انگلیاں
دوسرے دن اخباروں میں اس عجیب و غریب سنسنی پیدا کرنے والے واقعہ کی خبریں درج ہوگئیں۔ کوہ فیروز میں ایک شور مچ گیا تھا کہ کونٹ الیاس کی لاش باورچی خانے سے برآمد ہوئی اور قبر سے غائب کر دی گئی۔
کئی دن تک رات کے وقت قبر کے پاس پہرے کا انتظام رہا۔ احمد بھی بلاناغہ غروب آفتاب کے بعد قبرستان چلا جایا کرتا اور رات بھر بیٹھا جاگتا رہتا تھا۔
جب ایک ہفتہ گزر گیا تو ایک دن صبح کی چائے کے وقت ڈاکٹر گار نے مجھ سے کہا کہ اب پہرے کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی۔ اب تو لاش کو دفنائے کئی دن گزر گئے۔ میرا بھی یہ خیال تھا کہ اب ضرورت نہیں رہی۔ چنانچہ اسی دن سے قبر تنہا چھوڑ دی گئی۔ احمد بھی سمجھ گیا کہ اب نگہبانی فضول ہے۔ لاش بوسیدہ ہوگئی ہوتی۔ اب اسے کوئی نہیں اٹھا سکتا۔
اس شب میں اپنی خواب گاہ میں چار پائی پر لیٹی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔ بارہ بجے کا وقت تھا۔ ہر طرف سناٹا تھا۔ مجھے کچھ نیند آرہی تھی۔ یکایک سرہانے کی کھڑکی کھلی اور کوئی چیز قالین پر آکر گری۔ میں نے کھڑکی کی طرف دیکھا تو کوئی نہ تھا۔ قالین پر نظر ڈالی تو کچھ چھوٹی سی چیز نظر آئی۔ ہوا چل رہی تھی۔ اور خزاں رسیدہ پتے ہواؤں میں اُڑتے پھرتے تھے۔ اس لیے میں نے کچھ خیال نہیں کیا۔ تھوڑی دیر بعد سو گئی۔
دوسرے دن بیدار ہوئی۔ سمندر کا منظر دیکھنے دریچے کی طرف گئی۔ سامنے قالین پر نظر پڑی تو بے ساختہ میری چیخ نکل گئی! اس وقت مجھے یاد آیا کہ رات کھڑکی کی راہ سے کوئی چیز اندر آئی تھی۔ وہاں کیا تھا؟ پانچ سفید انسانی انگلیاں! میں چیختی ہوئی دروازے کی طرف بھاگی۔
اسی وقت بالاخانے کے زینے پر احمد نظر آیا۔ میں نے اسے آواز دی، ’’احمد! احمد! اِدھر آؤ، یہ کیا چیز ہے؟‘‘
احمد جھک کر دیکھنے لگا، ’’انگلیاں ہیں!‘‘ وہ چیخ کر بولا۔
’’انگلیاں؟ کس کی؟‘‘ میری روح لرز گئی میں ڈر کر دیوار میں جا لگی۔
احمد روکر کہنے لگا، ’’اور کس کی ہوں گی؟ میرے بدنصیب آقا کی ہوں گی۔ ہائے غضب ہو گیا۔‘‘
’’ایں؟ چچا مرحوم کی! او مالک؟ کیا عجیب بات ہے۔ انہیں تو انتقال کیے کئی دن گزر گئے۔ یہ کل رات کی بات ہے کہ دریچہ کھول کر کسی نے اندر پھینک دیں۔ میں اس وقت جاگ رہی تھی احمد! یہ کسی دشمن کا کام ہوگا۔ پہلے تو لاش غائب کردی اب انگلیاں!‘‘ میں خوف سے لمحہ بہ لمحہ سفید ہوتی گئی۔
’’مگر خاتون‘‘ احمد نے کہا، ’’یہ کسی دشمن کی سازش نہیں معلوم ہوتی۔‘‘
’’یعنی۔۔۔؟‘‘ میں احمد کی طرف دیکھنے لگی۔
احمد نے وثوق کے لہجے میں کہا، ’’یہ خود کونٹ الیاس کے روحانی کرشمے ہیں۔‘‘
مگر مجھے یقین نہیں آیا، ’’ہرگز نہیں احمد، ہرگز نہیں۔ یہ تو آسیبی حرکتیں معلوم ہوتی ہیں۔ انہیں پاک روح کے کرشمے نہ کہو۔‘‘
’’آپ کو یاد ہوگا۔‘‘ احمد کہنے لگا۔ ’’خاتون آپ کو یاد ہوگا۔ کونٹ الیاس نے اپنی زندگی میں وعدہ کیا تھا کہ مرنے کے بعد وہ ہم سے تعلقات قائم رکھیں گے۔ چنانچہ وہ اس کا ثبوت دے رہے ہیں۔‘‘
’’مگر‘‘ میں بولی، ’’پاک روح ایسے شیطانی انداز میں ظاہر نہیں ہوتی۔ یہ تو کسی خبیث کے منصوبے معلوم ہوتے ہیں۔ کیا ڈاکٹر گار گھوڑے کی سواری سے واپس نہیں آئے ابھی؟‘‘
تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر گار آ گیا۔ جب اسے کل کیفیت ہم نے سنائی تو بے حد مثاثر ہو گیا۔ ’’روحی! میں کیا کروں؟‘‘ وہ ناشتے کے کمرہ میں ایک دریچے کا سہارا لیے کھڑا تھا۔ میرا دل پاش پاش ہوا جاتا تھا۔ آخر پولیس میں اطلاع دے کر بھی کیا کروں؟ اس کا بھی تو کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ کھڑکی کھول کر اندر انگلیاں پھینکنے سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ کسی دشمن کی سازش ہے۔‘‘
احمد نے انگلیاں طشتری میں ڈال کے طاق پر رکھ دیں۔
آہ اس دن کی وحشت! وہ لوگوں کی مختلف رائیں! وہ پولیس کی تحقیقات، وہ ویران گھر! وہ دہشت!
ان ایام میں کوہ فیروز میں عجیب عجیب قصے مشہور تھے۔ ہر ایک کی زبان پر یہی تھا کہ کونٹ الیاس کی لاش رات کے وقت قبر سے بھوت بن کر نکلتی ہے۔ اس پر کئی افسانے گھڑ لیے گئے۔ کسی نے کہا کل عصر کے وقت کونٹ الیاس کو ہم نے مسجد کے زینے پر دیکھا۔ کسی نے کہا کہ قبرستان کے پہلو جو گلی ہے، اس میں وہ کل رات چہل قدمی کر رہے تھے اور جب سے کہ ان کی پانچ انگلیاں برآمد ہوئی تھیں، لوگوں کو ایک اور نیا افسانہ ہاتھ آ گیا تھا۔
ایک عجیب بات
کھانے کی میز چپ چاپ اداس پڑی تھی اور طعام خانے میں وحشت برس رہی تھی۔ چراغ بیمار کی آنکھ کی طرح مدھم فانوس میں جل رہا تھا۔ میں مچھلی کھا رہی تھی اور ڈاکٹر گار بمشکل اپنا شوربہ ختم کر رہا تھا۔
ویسے ہی ہم مشرقی لوگ کھانے کے دوران میں بہت کم گفتگو کرتے ہیں، کیونکہ یہ ایشیا کی تہذیب کے خلاف ہے کہ کھانے کی میز پر واہیات باتیں زور زور سے کریں۔ اس پر مستزاد آج کل ہم سب وحشت زدہ سے تھے۔ اس لیے کسی کی زبان سے ایک لفظ نہیں نکلتا تھا۔
دفعتاً ڈاکٹر گار نے میری طرف دیکھا، ’’آج رات میں خود ریوالور لے کر قبرستان کے کسی ویران گوشے میں بیٹھ جاؤں گا۔‘‘
میں نے اپنی چھری رکابی میں رکھ دی، ’’بہت اچھی بات ہے۔ مگر ڈاکٹر اپنی مدد کے لیے کسی کو بلالو۔‘‘
کھانے کے بعد ڈاکٹر گار ریوالور لے کر قبرستان چلا گیا۔ میں دریچے میں کھڑی بہت دیر تک دیکھتی رہی، مگر وہاں سوائے تاریکی کے کچھ نظر نہ آیا۔ باہر ہوائیں وحشت ناک گیت گا رہی تھیں۔ ناشپاتی کے درختوں پر چمگادڑ شور مچا رہے تھے۔ گھڑی کی ٹک ٹک تنہائی کی وحشت میں اضافہ کر رہی تھی۔ اتنے میں کسی اندرونی کمرے سے گھڑیال کے بجنے کی آواز آئی۔ بارہ بجے تھے کہ یکایک قبرستان کی طرف سے باتوں اور قدموں کی آواز آنے لگی۔۔۔ تھوڑی دیر میں روشنی نظر آئی۔ اتنے میں باغ کے زینے پر ڈاکٹر گار دکھائی دیا۔
’’روحی! باہر نکل آؤ۔‘‘ ڈاکٹر گار نے مجھے آواز دی۔ میں بھاگ کر باہر آئی۔ دیکھا تو دو آدمی بوڑھے احمد کو پکڑے ہوئے تھے۔ اس کی آنکھیں نیم وا تھیں۔
’’یہ کیا۔ کیا احمد کو غش آ گیا تھا؟‘‘ میں نے حیران ہوکر پوچھا۔
ڈاکٹر گار ہنسا۔۔۔ ’’جی نہیں۔ غش نہیں آیا۔ احمد ہی ساری فسادکی جڑ ہے۔ وہی آج قبر کھودتا ہوا پکڑا گیا۔‘‘
میں بت بن گئی۔ مجھے یقین نہیں آیا۔‘‘ یہ کیسے ممکن ہے؟ احمد قبر کھود سکتا ہے؟ ناممکن؟‘‘
ادھر ڈاکٹر گار احمد کے خلاف مجھ سے کہہ رہا تھا، ادھر احمد بت بنا سب کچھ سنتا تھا اور رو رہا تھا۔ میں حیران کھڑی تھی، احمد خود حیران کھڑا تھا۔
اسی ہنگامہ میں صبح ہوگئی۔ بعض سمجھتے تھے کہ احمد پاگل ہو گیا ہے۔ مگر جب صبح کے وقت ڈاکٹر گار نے ناشتے کے کمرے میں بلاکر اس سے آہستہ سے پوچھا کہ ’’احمد یہ رات تم نے کیا حرکت کی تھی۔ اس سے تمہارا کیا منشا ہے؟‘‘ تو وہ زاروقطار رونے لگا اور یقین دلانے لگا کہ اس نے قبر نہیں کھودی۔ وہ رات بھر باورچی خانے کے برآمدے میں پڑا سوتا رہا۔
’’مگر احمد‘‘، ڈاکٹر حیران ہوکر کہنے لگا ’’میں نے خود تمہیں رات کے وقت کونٹ الیاس کی قبر کھودتے ہوئے دیکھا۔ تم بہت سی مٹی نہ نکالنے پائے تھے کہ میں لپکا اور تمہیں پکڑ لیا۔‘‘
احمد کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ وہ صدمے سے زرد ہو گیا تھا اور اس کی زبان بند ہو گئی تھی۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر ڈاکٹر گار جھک کر مجھ سے کہنے لگا، ’’روحی! یہ کیا معمہ ہے؟ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ احمد اس قسم کا آدمی نہیں۔ مزید برآں میں اسے چالیس سال سے جانتا ہوں۔ اسے دیکھ کر مجھے بڑا رحم آتا ہے۔ میں چاہتا ہوں اس کا طبی معائنہ کراؤں۔ ڈاکٹر نجم ماہر دماغ ڈاکٹر ہیں۔ میرا خیال ہے کہ انہیں آج رات بلالوں۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’ڈکٹر نجم کو بلا لیجیے مگر احمد پاگل نہیں معلوم ہوتا۔ چچا کی زندگی میں وہ جیسا ہوشیار تھا آج بھی ویسا ہی ہے۔‘‘
عجیب بیماری
اس شب ڈاکٹر نجم کو ہم نے رات کے کھانے پر بلا لیا اور کھانے کے بعد یہ طے پایا کہ میں بڑے ہال کی کھڑی میں احمد کی نظر بچاکر بیٹھ جاؤں۔ ڈاکٹر گار باغ کے دروازے میں چھپے بیٹھے رہیں گے اور ڈاکٹر نجم کونٹ الیاس کی قبر کے پاس گلاب کی جھاڑیوں میں چھپے رہیں گے۔ غرض کھانے کے بعد ہم اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ میں اپنی کھڑکی میں بیٹھی احمد کو تک رہی تھی۔ جو شہ نشین میں پڑا بے خبر سو رہا تھا۔
گھڑیال نے بارہ بجائے۔ احمد یکایک اٹھ بیٹھا۔ پھر کچھ دیر کھڑا رہا۔ دو لمحے بعد بہت تیزی کے ساتھ باغ میں گیا۔ میں اب برآمدے کے زینے پر کھڑی تھی جہاں سے ڈاکٹر گار اپنے سیاہ کوٹ میں باغ کے دروازے کے پاس کھڑا نظر آرہا تھا۔ احمد نے سیب کے درخت کے نیچے سے پھاوڑا اٹھا لیا اور دروازے سے ہوکر ڈاکٹر گار کے بالکل قریب سے باہر قبرستان کی طرف نکل گیا۔ میرے دل نے کہا، ’’بلاشبہ احمد شیطان ہے، وہی ہر رات قبر کھودتا ہے۔‘‘ میں اب ڈاکٹر گار کے قریب پہنچ گئی تھی جو اشارے سے مجھے آہستہ چلنے کی تاکید کر رہا تھا۔ ہم دونوں باغ کا دروازہ کھول کر قبرستان کی طرف گئے، احمد اس اثنا میں کونٹ الیاس کی قبر پر پہنچ گیا تھا اور اسے کھودنے کی نیت سے ادھر اُدھر قبر کے چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی چیز ڈھونڈ رہا ہے۔ آخر پھاوڑا اٹھاکر اس نے بہت زور سے کھودنا شروع کیا۔ ڈاکٹر نجم گلاب کی جھاڑیوں میں چھپے بیٹھے تھے۔ وہ باہر نکل کر غور سے احمد کی طرف دیکھنے لگے۔ ڈاکٹر گار کو ذرا غصہ آ گیا تھا، ’’احمد! احمد! یہ تم کیا کر رہے ہو؟‘‘ مگر احمد نے مطلق توجہ نہ کی وہ اپنے کام میں مصروف رہا۔
’’اسے گھر لے چلو۔ ڈاکٹر گار اسے گھر لے چلیے۔ اب میں کل کیفیت سے آگاہ ہو گیا ہوں۔‘‘
’’آخر کیا بھید ہے نجم صاحب؟‘‘ ڈاکٹر گار حیران کھڑا تھا۔
’’راز معلوم ہو گیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر نجم ہنس کر بولے۔
ڈاکٹر گار کچھ سوچ کر چونک پڑا۔۔۔ ’’او! کیا آپ کا خیال ہے کہ احمد (Somnambulism) مثی النوم میں مبتلا ہے؟‘‘
’’بلاشبہ‘‘ ڈاکٹر نجم کہنے لگے ’’بلاشبہ وہ اس مرض میں گرفتار ہے۔ قبر کھودنے کے سلسلے میں اس کا کوئی قصور نہیں۔ خاتون روحی وہ بالکل لاعلمی میں یہ کام کر رہا ہے۔ میں نے ایسے بہت مریض دیکھے اور مجھے کئی مریضوں کے دل چسپ قصے یاد ہیں، مجھے یاد ہے سر جعفر اسی مرض میں مبتلا تھے۔ ان کا نام آپ نے سنا ہی ہوگا۔ ڈاکٹروں نے سالہا سال ان کے مرض کو پہچانا نہیں۔ نہ انہیں خود معلوم ہو سکا کہ وہ کس مرض میں گرفتار ہیں۔ ان کی عادت تھی آدھی رات کو سوتے میں اٹھتے اور اپنی چارپائی باغ کے کنوئیں کے پاس ڈال دیا کرتے۔ صبح اٹھ کر اپنے ملازموں پر خفا ہوتے۔ دِن کے وقت سب حیران ہوتے کہ یہ کیا معمہ ہے۔ کبھی چراغ جلا دیتے اور صبح اٹھ کر سب سے پوچھتے کس نے جلایا۔ مگر کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ اصل راز کیا تھا۔ آخر میرے والد مرحوم نے جو اس مرض کے ماہر تھے ان کے ساتھ مہینوں رہ کر اتفاق سے ایک رات ان کے مرض کو پہچان لیا۔
یہ سن کر میں مبہوت رہ گئی۔ اس کے دوسرے ہی دن بوڑھے احمد کو ڈاکٹر نجم کے ہاسپیٹل میں داخل کراکے سمندری شہر کی سیاحت کے لیے زوناش کو ساتھ لے کر چلی گئی۔
مصنف:حجاب امتیاز علی