حکمت

0
114
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

جب وہ بالکل تنہا ہو گیا تو میں اس کے پاس پہنچا اور اس کے چہرے کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا،

’’اب کیسا محسو س کر رہے ہیں؟‘‘

’’جیسے جہنم کے ایک طبق سے نکل کر دوسرے میں پہنچ گیا ہوں۔‘‘ اس نے جلے بھنے لہجے میں جواب دیا۔

’’ایسا کیوں؟ آپ تو باعزت بری ہوئے ہیں؟‘‘ میں نے سمجھا نے کا انداز اختیار کیا۔

’’جی ہاں، کہنے کو تو میں واقعی با عزت بری ہو گیا مگر عزت ایسی اتری کہ داغ نہیں گئے۔ لوگ اس طرح دیکھتے ہیں جیسے چہرے پر ٹھپے لگا دیے گئے ہوں‘‘ میری طرف دیکھ کر اس نے یہ جملہ ادا کیا۔

- Advertisement -

میں تلملا گیا حالاں کہ میں نے ہمدردانہ نظر ڈالی تھی۔

’’میں آپ سے کچھ جاننے آیا تھا، اگر موڈ اچھا نہ ہو تو پھر کبھی آ جاؤں گا۔‘‘ میں نے اپنے لہجے کو اور نرم کر لیا۔

’’پوچھیے، میں بالکل ٹھیک ہوں،‘‘ اس کے سپاٹ لہجے میں بھی درد کی لہریں موجزن تھیں۔

’’میرے زیادہ تر سوالات آپ کی گرفتاری سے متعلق ہوں گے، آپ کو اعتراض تو نہیں ہوگا؟‘‘

’’میرے پاس اس ذلت کے علاوہ اور ہے بھی کیا؟ آپ بلاتکلف پوچھیے۔‘‘

’’شکریہ! آپ کو جب گرفتار کیا گیا تو آپ کو کیسا لگا؟‘‘ میں نے سوالوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔

’’مجھے محسو س ہوا جیسے میں غلط جگہ پیدا ہو گیا۔‘‘

’’ایسا کیوں محسوس ہوا؟‘‘

’’اس لیے کہ میں کہیں اور پیدا ہوا ہوتا تو میرے ساتھ وہ سلوک نہیں ہوتا جو ہوا۔ مجھے بار بار وہ معصوم اور بے قصور عورت یاد آتی رہی جسے ڈائن بتاکر گاؤں کے بھرے مجمعے میں ننگا نچایا گیا۔

’’ذرا تفصیل سے بتائیں گے؟‘‘میں نے درخواست کی۔

ہمارے گاؤں میں ایک عورت تھی۔ نہایت بےباک، ملنسار، پرخلوص اور دردمند، ہر ایک کے دکھ سکھ میں فوراً پہنچ جاتی تھی مگر اس کے اس اعلا انسانی رویے کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا۔ لوگوں کو اس کا خلوص اس کی کوئی چال لگتی۔ شک کی بنیاد شاید یہ بھی تھی کہ اس کے آتے ہی اس کے ساس سسر اور پھر اس کے شوہر تینوں موت کے گھاٹ اتر گئے تھے حالاں کہ وہ تینوں کسی مہاماری کے شکار ہوئے تھے۔ ایک بارکسی بیماری کی ہوا چلی۔ گاؤں کے کئی گھروں کے بچے اس وبا کی لپیٹ میں آ گئے۔ اسے پتا چلا تو وہ بھاگی بھاگی انھیں دیکھنے گئی۔ اتفاق سے بچّوں کی حالت اور بگڑ گئی اور ان میں سے ایک نے دم توڑ دیا۔ پھر کیا تھا الزام اس عورت کے سر منڈھ دیا گیا اور ناکردہ جرم کے پاداش میں اسے ننگا کرکے نچایا گیا۔ وہ بےچاری چیختی چلّاتی اور گڑگڑاتی رہی۔ اپنی بے گناہی پر آنسو بہاتی رہی مگر کسی کو بھی اس پر رحم نہیں آیا۔ وہ لوگ بھی خاموش تماشائی بنے رہے جو یہ سمجھتے تھے کہ بچے کی موت کا اصل سبب کیا تھا اور وہ عورت واقعی بےقصور تھی۔ صرف ننگا کرنے سے لوگوں کا جی نہیں بھر ا، جلتی لکڑی سے اسے داغا بھی گیا اور اس طرح داغا گیا کہ اس کے جسم کی چربی باہر نکل آئی۔۔۔ عورت کا قصہ بیان کرتے کرتے اچانک اس کی زبان بند ہو گئی اور آنکھوں سے آنسوؤں کے قطرے ٹپک پڑے جیسے اس کی پتلیوں میں گرم سلائیاں پھیر دی گئی ہوں۔‘‘

’’معاف کیجیے گا میرا مقصد آپ کو رلانا نہیں تھا۔‘‘

’’آپ کا مقصد ہو یا نہ ہو، یہ تو میرا مقدر بن چکا ہے۔‘‘ رخساروں پر کچھ اور قطرے بھی ڈھلک آئے۔

’’آپ کے ساتھ کیسا سلو کیا گیا؟‘‘

’’اس ڈائن، میرا مطلب ہے اس معصوم عورت سے بھی کہیں زیادہ بدتر۔ ایسا ہولناک کہ اس کے تصور سے بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔ کوئی ایسی اذیت نہیں جو مجھے نہ دی گئی ہو۔ ان انگوں کو بھی، جن کی طرف دیکھنا بھی منع ہے، ننگا کر کے ان میں بجلی کا کرنٹ دوڑایا گیا اور یہ عمل کوئی ایک بار نہیں ،بلکہ بار بار دہرایا گیا اور ایسے ایسے جھٹکے دیے گئے کہ جاں کنی کا عالم بھی شرما جائے۔‘‘ پلکوں پر رکی بوندیں بھی گالوں پر ڈھلک آئیں۔ میراجی چاہا کہ میں اپنا رومال اس کی طرف بڑھادوں مگر یہ سوچ کر کہ میرا یہ عمل اس کے زخموں پر کہیں نمک نہ چھڑک دے، میں نے اپنے کو روک لیا۔

’’آپ نے کیا کیا کھویا؟‘‘ میں جانتاتھا کہ میرے اس سوال پر اور زیادہ آنسو بہیں گے مگر میرے لیے یہ جاننا بھی ضروری تھا۔

اس سوال پر وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولا:

’’یہ پوچھیے کہ کیا نہیں کھویا؟ صدمے سے ماں چل بسی۔ تذلیل آمیز آوازوں، تحقیری رویوں اور قہرآلود نظروں کی تاب نہ لاکر باپ نے جیتے جی اپنے کمرے کو قبر بنا لیا۔ جنم جنم تک ساتھ نبھانے کا وعدہ کرنے والی محبوبہ کسی اور کی ہو گئی۔ دوست احباب بد گمانی کے شکار ہو گئے۔ پڑوسیوں نے آنکھیں پھیر لیں۔ عزیزواقارب دوری بنانے لگے۔ زند گی جو رنگ و نور سے معمور اور خوش خیالی۔۔۔‘‘ زبان بند ہو گئی اور آنکھیں سامنے کی دیوار پر پہنچ گئیں۔

دیوار پر عمدہ اور نفیس فریم میں ایک خوبرونو جوان کی تصویر آویزاں تھی:

سلیقے سے سجے سیاہ بال، صاف ستھری چوڑی چکنی پیشانی، روشن آنکھیں، نظریں کسی نشانے پر جمی ہوئیں، پھولوں کی طرح مسکراتے ہوئے ہونٹ، بھرے بھرے گال، تنی ہوئی جلد، کریزڈتھری پیس سوٹ، میچنگ ٹائی۔

’’یہ آپ کے بیٹے کی تصویر ہے؟‘‘ میرا یہ سوال سن کر کچھ دیر تک وہ خاموش رہا، پھر بولا۔

’’جیل نہیں گیا ہوتا تو شاید میرا بیٹا بھی ایسا ہی اور اسی عمر کا ہوتا۔‘‘ تصویر سے نظریں ہٹاکر اسن نے اپنا رخ میری طرف کر لیا۔

’’تو کیا یہ آپ ؟‘‘

’’جی،‘‘ جی کی آواز اس طرح نکلی جیسے کسی ادھ مرے جسم سے نکلی ہو

میری آنکھیں پھیل گئیں اور نگاہیں اس کے سراپے میں الجھ گئیں:

روکھے پھیکے بال، سیاہی میں سفید ی کی ملاوٹ، سلوٹوں سے بھری پیشانی، بجھی ہوئی آنکھیں، گڈھے پڑے گال، مرجھائے ہوئے ہونٹ، آنکھوں کے نیچے سیاہ ہالے، گالوں پر جابجا دھبے، بغیراستری کے کپڑے۔

’’اس قید و بند کی سختی سے میرا سراپا تو ڈیمیج ہوا ہی، میری وہ شے بھی شاید کچلی گئی جس سے مرد کی۔۔۔۔ ‘‘ہونٹ کپکپا کر بند ہو گئے۔ آنکھیں برس پڑیں۔

’’ایک گلاس پانی ملےگا؟‘‘ میں نے پانی سے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کی۔

’’ضرور‘‘ وہ اندر جاکر جگ اور گلاس اٹھا لایا۔

’’قیدوبند کے دنوں میں جس بات نے آپ کو سب سے زیادہ پریشان کیا، وہ کیا تھی؟‘‘

پانی کا خالی گلاس میز پر رکھتے ہوئے میں نے انٹرویو کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔

’’وہ ایک سوال تھا۔‘‘ اپنے ہاتھ کا آدھا خالی اور آدھا بھرا گلاس اس نے بھی میز پر رکھ دیا۔

’’وہ سوال کیا تھا؟‘‘میرا تجسس بڑھا گیا۔۔۔۔

’’وہ سوال تھا میں گرفتار کیوں ہوا؟ سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے دن رات یہی سوچتا رہا کہ مجھے گرفتار کیوں کیا گیا؟ گرفتاری کے جتنے اسباب ہو سکتے ہیں میں نے سب پر غور کیا۔ ایک ایک پہلو پر ٹھہر ٹھہر کر سوچا مگر کوئی بھی میرا عمل ایسا نظر نہیں آیا جو میری گرفتاری کا سبب بنتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے کوئی بھی ایسا کام نہیں کیا تھا جس کے باعث میری طرف کوئی انگلی بھی اٹھا سکے۔ پہلی کلاس سے لے کر آخری کلاس تک میرا کریر اور کریکٹر بے داغ رہا۔ محلّے سے لے کر کالج تک کسی سے بھی میری کبھی لڑائی نہیں ہوئی۔ میں پڑھنے میں سنسیئر تھا اور ایسی کار کردگی کا مظاہرہ کرتا تھا کہ سالانہ فنکشن میں سب سے زیادہ انعامات میری ہی جھولی میں پڑتے تھے۔ اسی لیے اساتذہ بھی مجھے عزیز رکھتے تھے۔ میرا کوئی دشمن نہیں تھا، سبھی سے میرے مراسم اچھے تھے۔ جانے انجانے میں بھی کبھی کسی کو مجھ سے کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔

’’پھر آپ کو ایسے سنگین جرم میں کیوں پکڑ لیا گیا؟‘‘

’’یہی تو میری حیرانی ہے۔‘‘

’’آپ نے غور تو کیا ہوگا؟‘‘

’’جی ہاں، کیا۔‘‘

’’کسی نتیجے پر پہنچے؟‘‘

’’کچھ عکس ابھرے تو مگر کوئی واضح تصویر نہ بن سکی۔‘‘

’’جیسے؟‘‘

’’اپنی گرفتاری کے سوال پر غور کرتے وقت ان گرفتاریوں کی روداد میرے کانوں میں گونجتی رہی جن کے ملزم میری ہی طرح ثبوت نہ ہونے کی بنا پر بری کر دیے گئے۔ ہر ایک روداد میں یہ بات بھی سنائی پڑی کہ گرفتار ہونے والا کسی کالج یا انسٹی ٹیوٹ کا کوئی برائٹ اسٹوڈینٹ تھا۔ کوئی میڈیکل کے کسی شعبے میں تھا تو کوئی انجینئر نگ کی کسی برانچ میں۔ کوئی کسی کمپنی میں منیجر تھا تو کوئی کسی فیکٹری میں انجینئر، کوئی کسی رسرچ انسٹی ٹیوٹ میں اسکالر تھا تو کوئی کسی کمپنی یا آفس کا کوئی اچھی پوسٹ ہولڈر امپلائی، کوئی نیوز پیپر میں رپوٹرتو کوئی کسی ٹی۔ وی۔ چینل کا کمپیئرر، کوئی کمپیوٹر کا ماہر تھا تو کوئی کسی ٹیکنولوجی کا اکسپرٹ ۔سب کے سب جوان بھی تھے۔ کوئی بھی ان میں بوڑھا نہیں تھا۔

ایک عکس یہ بھی ابھر ا کہ جس انداز سے میری گرفتاری ہوئی اور جتنی جلدی میرے خلاف ثبوت جٹالیے گئے اور جس طرح ان ثبوتوں کی جانچ پڑتال کیے بغیر مجھے جیل میں ڈال دیا گیا اس سے اندیشہ ہوتا ہے کہ جیسے پہلے سے یہ منصوبہ تیار ہوکہ اگر میرے علاقے میں ایسا کچھ ہوتا ہے جس سے بدامنی پھیلتی ہے یا افراتفری پھیلنے کا خدشہ ہوتو مجھے گرفتار کر لیا جائے۔ میرے اس اندیشے کو تقویت اس نوعیت کی بعض دوسری گرفتاریوں سے بھی ملتی ہے۔

’’اگر آپ کے ان شبہات کو اہمیت دی جائے تب بھی سوال قائم رہتا ہے کہ کیوں؟‘‘

’’شاید اس کیوں کا جواب میرا نام ہو؟‘‘

’’آپ کا نام کیوں؟‘‘

’’اس لیے کہ میرا نام ایسا ہے کہ جس کے کانوں میں پڑتے ہی کچھ لوگوں کی آنکھوں میں خوفناک مناظر لہرا اٹھتے ہیں۔‘‘

’’میں سمجھا نہیں۔‘‘

’’سمجھا تو ٹھیک سے میں بھی نہیں مگر لگتا ہے کہ ایسا ہوتا ہوگا۔‘‘

’’ایسا کیوں لگتا ہے؟‘‘

’’شاید اس لیے کہ میرا نام جس لسانی مآخذ سے آیا ہے اور اس مآخذ سے اتنے سارے قصے جڑے ہیں اور ان قصّوں میں ایسے ایسے وقوعے گڑھے گئے ہیں اور پلاٹ میں ایسے ایسے مرقعے بنائے گئے ہیں کہ ان کے اثرات لگتا ہے انفرادی لاشعور کے ساتھ ساتھ اجتماعی لاشعور میں بھی مرتب ہو چکے ہیں۔‘‘

’’اگر اس کو بھی سچ مان لیا جائے تب بھی اس سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ جو کچھ ہواا س کا قصور وار ایک مخصوص لسانی مآخذ سے تعلق رکھنے والا نام ہی ہے؟‘‘

’’ثابت تو نہیں ہوتا مگر شک کی سوئی ادھر جاتی ضرور ہے۔‘‘

’’صرف شک کی بنیاد پر اتنا بڑا فیصلہ ! میری عقل تو اسے ماننے کے لیے تیار نہیں۔‘‘

’’عقل تو شاید ان کی بھی تسلیم نہیں کرتی ہوگی جن کے ہاتھوں گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں‘‘

’’پھر یہ گرفتاری ہوئی کیوں؟‘‘ گھوم پھر کر ہم پھر اسی سوال پر آ گئے۔

’’یعنی آپ کو بھی لگتا ہے کہ میری گرفتاری بلاوجہ ہوئی ؟یا کم سے کم ان میں سے کوئی وجہ نہیں جس کی بنیاد پر میری گرفتاری کی منطق سمجھ میں آتی ؟ ‘‘اس نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے سوال کیا

’’آف کورس۔ آپ کی رہائی اس بات کا ثبوت ہے کہ گرفتاری بلاوجہ ہوئی مگر بلاوجہ کی اس گرفتاری کی منطق میری سمجھ سے باہر ہے۔‘‘میں نے اپنی بات صاف صاف کہہ دی۔

’’میں نے بتایا نہ کہ اس کی وجہ شاید میرا نام ہے۔‘‘وہ اپنے شبہے پر زور دینے لگا۔

’’آپ اتنے وثوق کے ساتھ اپنے شک کی وکالت کیوں کر کر سکتے ہیں؟‘‘

’’اس کی ایک منطق کی طرف تو میں پہلے بھی اشارہ کر چکا ہوں کہ میرا نام ایسا ہے کہ جس کے کانوں میں پڑتے ہی کچھ آنکھوں میں خوف ناک منظر لہرانے لگتے ہیں اور دوسری منطق یہ ہے کہ میرے نام سے کچھ لوگوں کی ناکامیاں چھپ جاتی ہیں اور مشاہدہ یہ بھی بتا تا ہے کہ کچھ لوگ آسانی سے اس کی بدولت سُرخ روئی بھی حاصل کر لیتے ہیں۔‘‘

’’چلیے مان لیا کہ سبب آپ کانام ہے مگر آپ کے نام تک پہنچنے کے لیے بھی تو کوئی آدھار ہونا چاہیے ۔یایوں ہی کوئی آنکھیں بند کرکے آپ تک پہنچ جائے گا۔ یہ کوئی آنکھ مچولی کا کھیل تھوڑے ہی ہے!‘‘

’’جس انداز سے میری گفتاری ہوئی اس سے تو یہی لگتا ہے کہ آنکھ مچولی والا ہی کھیل ہو اہے۔ پکڑنے والا آنکھیں بند کرکے ہی مجھ تک پہنچا تھا۔ آنکھیں ہوتیں تو یقیناً اس کے ہاتھ مجھ تک نہیں پہنچتے۔‘‘

’’اگر ایسا ہوا بھی ہے تو اس کی بھی تو کوئی وجہ ہوگی؟‘‘

’’جی ہاں، وجہ تو ہوگی۔‘‘

’’کیا وجہ ہو سکتی ہے؟‘‘

’’جہاں تک میں نے سوچا ہے اس کی وجہ وہ رو بو سسٹم ہے جس کے ذریعے اس طرح کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں یا لائی جا رہی ہیں۔‘‘

’’ذرا کھل کر بتائیے نا۔‘‘ میں نے وضاحت چاہی۔

’’وہ عملہ جس کے ذمے یہ کام سوپنا گیا ہے، مجھے لگتا ہے کہ وہ روبو سسٹم سے عمل کرتا ہے۔ اس کے پاس کوئی اپنی سمجھ نہیں ہے، و ہ اپنی کسی بھی حِس کا استعمال نہیں کرتا، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس کے پاس حواس ہیں ہی نہیں۔ جس طرح سے ربوٹ Computerised System کے مطابق کام کرتا ہے، وہ بھی ویسا ہی ایکٹ کرتا ہے۔ اسے کیا کرنا ہے؟ کس سمت میں جانا ہے؟ کہاں تک جانا ہے؟ کہاں سے کدھر مڑنا ہے؟ کس کو دائرے میں لانا ہے؟ کسے دائرے سے باہر رکھنا ہے؟ کس کو چھوڑنا ہے اور کسے دھر دبوچنا ہے؟ یہ سب کچھ اس میں پہلے سے feed کر دیا گیا ہے، اسی لیے عملہ بدل جانے کے بعد بھی عمل ویسا ہی رہتا ہے۔ آپ غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ ہر ایک رزیم (Regime) میں نتیجہ وہی نکلتا ہے۔ دھماکا کہیں بھی ہو؟ کیسا بھی ہو؟ پکڑ میں وہی آتے ہیں جنھیں آنا ہے۔ ثبوت نہ ہونے کے باوجود وہ پکڑ لیے جاتے ہیں اور پختہ ثبوت ہونے کے باوجود اصل مجرم پکڑ میں نہیں آتے۔ ربوٹ کی طرح اس پر بھی آنسو، آہ اور کراہ کا اثر نہیں ہوتا۔

’’چلیے یہ بھی مان لیا کہ یہ کام روبوٹ سسٹم کے ذریعے ہوتا ہے مگر پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر یہ سسٹم بنا کیوں؟‘‘

’’شاید اس لیے بنا ہوکہ اس کے بنانے والے دوراندیش رہے ہوں ۔ان کی نظریں ماضی اور حال کے ساتھ ساتھ مستقبل پر بھی رہی ہوں۔ انھیں یہ علم ہو کہ آنے والا وقت اپنے ساتھ کیا کیا لا سکتا ہے؟ اس کے آنے پر کیا کیا ہو سکتا ہے؟ کس کس طر ح کی صورتِ حال پیدا ہو سکتی ہے؟ وہ صورت حال کیا کیا رنگ دکھا سکتی ہے؟ کون کدھر جا سکتا ہے؟ کون کہاں آ سکتا ہے؟ کون آگے بڑھ سکتا ہے؟ کون پیچھے چھوٹ سکتا ہے؟ خود کو کیسے بچایا جا سکتا ہے؟ دوسروں کو کیسے پھنسایا جا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

’’آپ کو یہ نہیں لگتا کہ آپ کی باتیں کچھ زیادہ ہی فلسفیانہ ہو رہی ہیں۔ لگتا ہے مسلسل غوروفکر کی عادت نے آپ کو فلسفی بنا دیا ہے۔‘‘

’’ممکن ہے ایسا آپ کو لگتا ہو ورنہ سچ تو یہی ہے کہ میرے شبہات میرے برسوں کے مشاہدات و محسوسات پر مبنی ہیں۔‘‘

’’آپ کتنے سال تک رہے؟‘‘

’’شاید بارہ یا تیرہ یا شاید۔۔۔۔۔

’’آپ کو جب گرفتار کیا گیا اس وقت آپ کی عمر کیا رہی ہوگی؟‘‘ میں نے calculation کو آسان بنانے کی کوشش کی۔

’’میں بیس سال کا تھا۔‘‘

’’کالج میں ہوں گے؟‘‘

’’جی۔‘‘

’’سبجیکٹ کیا تھا؟‘‘

’’سائنس ۔‘‘

’’کوئی خاص وجہ؟‘‘

’’سائنس میں میری دلچسپی بہت تھی۔ سائنس دانوں کے تجربوں نے مجھے بہت متاثر کیا تھا۔ کئی تجربے میں نے بھی کیے تھے۔ ان میں کچھ تو ایسے تھے جنھیں دیکھ کر میرے اساتذہ کہاکرتے تھے کہ آگے چل کر سائنس کے میدان میں میں نام پیدا کروں گا۔ اسی لیے بعض اساتذہ میری طرف خصوصی توجہ بھی فرماتے تھے۔‘‘

’’اب آ پ کی عمر کیا ہے؟‘‘

’’چوتیس سال۔‘‘

’’گویا چودہ سال تک آپ قیدوبند میں رہے۔ یہ مدّت تو شری رام کے بن باس کی نکلی!‘‘

’’جی ہاں اور کیا پتا میری گرفتاری کا مقصد بھی وہی نکلے۔

’’مطلب؟‘‘میری آنکھیں پھیل گئیں۔‘‘

’’مطلب وہی جو رام کے بن باس کامقصد تھا۔‘‘

دفعتاً میری آنکھوں میں راجا دسرتھ کے رتھ سے لے کر کیکئی کے بر، رام کے بن باس اور بھرت کی گدی نشینی تک کے مناظر ابھر آئے۔ رفتہ رفتہ ان میں اس کے کچھ بیانات بھی پس منظر کے طور پر کھڑے ہوتے گئے۔

’’بےحد شکریہ کہ آپ نے میرے لیے وقت نکالا اور میرے سوالوں کا جی کھول کر جواب دیا۔ اب اجازت۔‘‘ ایک بار پھر اس کی طرف نظر ڈال کر میں اٹھنے لگا۔ اس بار کا میرا دیکھنا اسے ایسا محسوس نہیں ہوا جیسا کہ اسے پہلی بار محسوس ہو ا تھا۔

’’آپ کا بھی شکریہ کہ آپ نے مجھے ہمدردی سے سنا۔‘‘ اس جملے کے ساتھ اس کے آنسو بھی باہر آ گئے۔ اس بار بلاکسی جھجھک کے میں نے اپنا رومال اس کی جانب بڑھا دیا۔

’انٹرویو‘ میں نے اخبار کو اشاعت کے لیے بھیج دیا مگر جب وہ چھپ کر آیا تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ اس کے کچھ حصّے حذف کر دیے گئے تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ اس کا بیان کیا ہوا ربوسسٹم والا ’’شبہہ‘‘ شاید بے بنیاد نہیں تھا۔

(مجموعہ پارکنگ ایریا از غضنفر، ص 158)

مصنف:غضنفر

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here