صدر جانسن موت کے منہ میں

0
328
urud-story
- Advertisement -

دوسری جنگ عظیم کی ہولناکیاں عروج پر تھی میں ان دنوں لی کے جنگی مورچہ پر ایک پائیلٹ آفیسر کی حیثیت سے تعینات تھا۔ غارتگری میرا مشغلہ تھا۔ امریکی چوکی پورٹ مورس بے اور ہماری چوکی کے درمیان صرف نوے منٹ کی پرواز کا فا صلہ حائل تھا۔ امریکی چوکی پربمباری جاری تھی۔ اس زمانے میں لیفٹیننٹ کمانڈر جونسن امریکی بحرئےا کے ایک ممتاز آفیسر تھے جون کا مہینہ تھا۔ وہ آسٹریلیا میں اتحادی فوجوں کا معائنہ کرنے کے بعدساوتھ ویسٹ پسیفک علاقے کے جنگی دورہ جیسے خطرناک مشن پر نکلے تھے۔ اسی دوران ان سے میری مڈھ بھیڑ ہوئی۔ اور پھر ایک لمحہ کے لئے وہ میرے نشانہ پر آئے اور میں نے ٹریگر دبا دیا۔ اس طرح قریب قریب میں نے لنڈن بی جونسن کا کام تمام کر دیا تھا۔لی کا موسم ماہ جون میں بڑا عجیب وغریب ہوتا ہے۔ عام طور سے مطلع ابر آلود رہتا ہے کبھی کبھی بادل پھٹ جاتے ہیں لیکن بس ذرا دیر کے لئے جون کی آٹھویں شب کو جونسن امریکی مورچے کے سیون مائل ایروڈرم پر آنے والے تھے ان کی آمد سے کچھ گھنٹے پشتیر ہمارے بمباروں نے امریکی چوکی پر پرواز کر کے پہے لگایا کہ بائیسویں بمبار گروپ کے بی۲۶قسم کے خطرناک لڑاکا طیارے لی کے خلاکی کسی مشن میں حصہ لینے کے لئے تیار ہیں۔۹ جون کی صبح کو لی( آج کا نیو گیانا) پرمطلع ابر آلود تھا۔ اگر بادل چھائے ہوئے نہ ہوتے تو شاید ہمیں امریکی علمے کا اتنا خدشہ نہ رہتا۔ اور نہ ہمیں اپنے اس خطرناک مشن کے لیے پرواز کرنی پڑتی۔ زیادہ ترمشنوں میں ہیرولوچی پائیلٹ ٹوشیو اوٹا میرے ساتھ رہے ہیں۔ ہمارے دستے میں جاپانی بحرئیے کے بہترین لڑاکا ہوائی جہاز شامل تھے۔ اور ہم تینوں تو جیسے اس دستے کے ہیروبن گئے تھے۔ ہمیں لوگ ‘‘فاتح مشلث’’ کے نام سے یاد کرتے تھے کیونکہ ہمارا سابقہ ریکارڈ شاہد ہے کہ ہم نے ہمیشہ فتح حاصل کی ہے۔صبح بڑی خوش گوارتھی پربے پر تعینات لوگ بھی آپس میں خوش گپسیوں میں مشغول تھے ۔پوری فضا لوگوں کی آوازوں سے گونج رہی تھی۔ بات دراصل یہ تھی رابائول سے جاپان کےمشہور اخبار ‘‘یومیوری’’ کا جگیل نامہ نگار ہاجیمایو شیدا ہماری چوکی پر آیا ہوا تھا۔ وہ اپنے اخبار کے لئے ہم لوگوں کی تصاویر لینا چاہتا تھا۔کیونکہ جاپانی شہری اپنے مایہ ناز ہوا بازوں کی تصاویر دیکھنے کے بڑے متمنی تھے۔یومیوری کا یہ نامہ نگار ہم تینوں کے بارے میں ایک کہانی بھی لکھنا چاہتا تھا۔ ایک معرکہ میں ہم تینوں اپنی ہمت اور شجاعت کا امریکیوں اور آسٹریلویوں سے لوہا منوا چکے تھے۔پورٹ مورس بے کے خلاف ایک حملے کا ذکر ہے ہم تینوں کے طیارے بم گراکر را باؤل کی جانب واپس آرہے تھے کہ یکایک ہمیں ایک شرارت سوجھی۔ ہم نے اپنے طیاروں کا رخ دھویں سے ڈھکے ہوئے اور خطرات سے پر دشمن کے اڈے سیون مائل ایروڈرم کی جانب موڑ دیا۔ اور زمین سے چند ہزارفٹ کی بلندی سے پرواز کر کے اتحادی فوجوں کو حیرت زدہ کرنیکا منصوبہ بنایا ہم نے اپنے طیاروں کے بازو ایک دوسرے سے ملائےی، اور بڑی مشاقی سے دشمن کے سروں پر فضا میں قلابازیاں کھائیں یہ امریکی اور آسٹریلوی فوجیوں کے لئے کھلا ہوا چیلنج تھا کہ وہ اوپر آئیں اور ہم سے مقابلہ کریں ۔ ہمارے واپس آنے کے کچھ دیر بعد ایک امریکی بی ۲۶ بمبارگرجتا ہوا ہمارے علاقے میں آیا۔ اور کوئی چیز ڈالتا ہوا تیزی سے واپس چلا گیا ۔ ہمارے ماہر فلیک گنر طیارے اس کی جانب دوڑ پڑے اور اس چیز کو پکڑ لائے جو دراصل انگریزی زبان میں لکھا ہوا ایک پیغام تھا۔ ہمارے دستے میں لیفٹینٹ سا سائی ہی واحد شخص تھے جو انگریزی جانتے تھے۔ انہیں کے پاس وہ پیغام لے جایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ سیون مائل کے امریکی ہوا بازوں کی جانب سے لی کمانڈر کے نام ایک پیغام ہے لکھا تھا۔ ہمیں ان تین ہوا بازوں نے حیرت زدہ کردیا جو آج ہمارے علا قے کامعائنہ کرنے آئے تھے ہم سب ان کی بہادری سے بہت خوش ہوئے جس مشاقی اور دلیری کا انہوں نے مظاہرہ کیا وہ قابل تعریف ہے۔ ہمیں مسرت ہوگی۔ اگر وہ ہوا باز ایک بار پھر ہماری جانب آئیں اور اپنی مشاقی کا مظاہرہ کریں ہمیں افسوس ہے کہ پچھلی بار ان پر زیادہ توجہ نہ دی جاسکی۔ اب کی بار ہم پوری توجہ دینے کا وعدہ کرتے ہیں۔ ہم ان ہوا بازوں کا صدق دل سے خیر مقدم کرینگے۔درحقیقت ہمیں کبھی ایسے حالات سے گذرنے کا اتفاق نہیں ہوا۔یہ تو صرف ایک کہانی تھی جو پوشیده اپنے اخبار میں شائع کرنا چاہتا تھا۔ ساتھ ہی وه ہم لوگوں کی تصاویر لینے پر بھی مصر تھا۔ آخر کار میں تصاویر دینے کے لئے بھی تیار ہوگیا۔یہی وہ تصاویر تھیں جن کے دوران لیفٹیننٹ کمانڈر جونسن میری مشین گن کے نشانے پر آگئے تھے۔پوشیدہ نے اپنے کیمرے کو ٹھیک کر لیا تھا اب وہ ہمارے گروپ کا فوٹو لینے کے لئے بالکل تیار تھے۔صرف کیمرے کے اسٹارٹ ہونے کی دیرتھی۔ ٹھیک آٹھ بجکر چالیس منٹ ہورہے تھے، اچانک ہمارے اینٹی ایرکرافٹ طیاروں نے شور مچانا شروع کردیا۔ دشمن کے طیارے ہوشیار !ہوشیار! کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔بالٹیوں اور ڈرموں وغیرہ پر ہتھوڑے پڑنے لگے ۔ گویا کہ یہ خطرے کا اعلان تھا۔یگل کی آواز تو خدا کی پناہ ۔ ان سب آوازوں پر حاوی تھی۔ اس خوفناک شور نے اس خوشگوار صبح کے سکون کو درہم برہم کر ڈالا۔خطرے کا الارم سنتے ہی ہم اپنے طیاروں کی طرف دوڑ پڑے ہمارے فضا میں پہونچنے سے قبل ہی دشمن کے کئی بم کا سینہ چیرتے ہوئے نیچے آگرے۔ بادلوں کے پرخچے اڑ گئے۔ ہمارے سروں پر آسان بالکل صاف ہوگیا۔ اونچی پرواز کرنے والے بی قسم کے دولڑاکا طیارے بمباری کر رہے تھے۔ہم سے پہلے ہمارے سترہ زیرو قسم کے طیارے فضا میں نمودار ہوئے۔دشمن کے بی ۲۵ طیاروں کا ایک دستہ ایک طرف کو بھاگا جارہا تھا۔ ہمارے زیر و داس کی جانب لپکے۔ اور اسکو گیرالیا۔اسی لمحے بادلوں کا سینہ چیرتے ہوئے ہم بلندی پر پہونچ گئے۔ کچھ ہی فاصلہ پر ہمیں دشمن کے خطرناک بی ۲۶ لڑاکا طیاروں کا دستہ نظر آیا میں نے اپنے بازوؤں کو حرکت دے کر اپنے پیچھے آنے والے سات ہوا بازوں کو بھی اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا میں نے اپنا نشانہ منتخب کیا لیکن دشمن کے دستے کا ایک لڑاکا طیارہ اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ گیا۔ اس کا ایک انجن بیکار ہو چکا تھا۔ اس وقت وہ صرف ایک انجن کی مدد سے پرواز کر رہا تھا۔ وہ یقینا خطرے میں تھا۔ ہمارا اور اس کا فاصلہ آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا ۔ مجھے امید تھی کہ طیارے کی برجی والی مشین گن سے ہم پر فائرنگ کی جائے گی لیکن برجی بالکل ساکت رہی اور مشین گن خاموش ، دراصل دائیں ا نجن میں موجود بجلی پیدا کرنے والا جنریٹر انجن کے ساتھ بے کار ہو چکا تھا ۔ اور بغیر بجلی کے برجی کو حرکت میں نہیں لایا جاسکتا تھا ۔ اب ہمیں اس تباہ شدہ مشین گن سے کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن پھر بھی ہم اس بمبار کے نیچے غوط نہیں لگا سکتے تھے کیونکہ ابھی اس میں نوزگن اور ٹیل گن باقی تھیں۔ نورگن خاموش تھی کیونکہ پچاس کلیبر کی مشین گن جو نوزگن کا کام کرتی ہے۔ بالکل جام ہوچکی تھی لیکن پچاس کلیبر والی مشین گن جو ٹیل گن کا کام کر رہی تھی۔ابھی کار آمد تھی اور ہماری جانب مٹھ اٹھائے شعلے ہی تھی۔ امریکی پائیلٹ بڑا مشاق تھا جیسے ہی میں نے اپنے فائر کو کاگ پٹ سے ایک جگہ مجتمع کرنے کے لئے بائیں رڈر کو حرکت دیتے ہوئے غوطہ لگایا۔ دشمن طیارے نے اچانک اپنی پوزیشن تبدیل کر لی ۔ اس وقت میں کھلی فائرنگ کی پوزیشن میں تھا ۔ اور دونوں مشین گنوں اور توپ کے ٹریگر کو دیا چکا تھا۔ وہ اچانک بائیں طرف کو مڑتا چلا گیا۔ اور اس کا دایاں بازو اوپر کو اٹھ گیائی میں نے فائر جاری رکھے لیکن مجھے جلدی ہی معلوم ہو گیا کہ میری گولیاں دشمن کے طیارے تک پہو نچ تورہی تھیں لیکن بیکار۔ وہ تو اسکے بازؤوں اور ڈھانچے میں سوراخ کرنے کے سوا اسے کچھ بھی نقصان نہیں پہونچا رہی تھیں ۔ وہاں نہ کوئی چنگاری تھی اور نہ دھواں ۔ میں بہت سخت محنت کر رہا تھا ۔ اس طیارے پر نظر رکھنا دوبر ہوا جا رہا تھا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ وہ آگے کی طرف غوطہ لیتے ہوے سیدھی پرواز کریگا۔ اور پھر پوری رفتار سے بھاگنے کی کوشش کریگا لیکن وہ ہوا باز تو مجھے چکرا دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ او مشاقی سے فضا میں چکراتا پھر رہا تھا۔ جو کوئی بھی اس طیارے پر کنٹرول کر رہا ہو بڑی مہارت اور جوانمردی کا ثبوت دے رہا تھا میں نے دشمن کے بہت سے خطرناک لڑاکا طیارے مارگرائے ہیں لیکن آج تک اس جیسا طیارہ کوئی نہ دیکھا جو اس طرح دیونہ وار بے جگری کا مظاہرہ کرسکتا ہو۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ہوا کے تھپیڑوں پر ادھر سے ادھر لڑھک رہا ہو حالانکہ وہ غوط لیکرزقتار کر چکا تھا۔ لیکن اس کی قلابازیوں اور لہریوں میں ایک سیکنڈ کے لئے بھی کمی نہیں ہوئی تھی۔ مجھے اس کے پائیلٹ کا دھند لا سا چہرہ نظر آیا جو مجھے اور میرے پیچھے آنے والے سات لڑاکا طیاروں کو دیکھ رہا تھا۔

میری اچٹتی سی نظر ایک اور چہرے پر پڑی جو برجی کے اوپری حےث میں نظر آرہا تھا۔ ایک اور چہرہ کا ک پٹ کے ٹھیک پیچھے طیارے کے ڈھانچے میں جہاں مشاہدکے لئے جگہ بنی ہوئی ہے دیکھا جاسکتا تھا ۔ وہ لیفٹیننٹ کمانڈر لنڈن جونسن تھے جو اس خوفناک لڑائی کا مشاہدہ کر رہے تھے ۔ بی ۲۶ کے اس حصے کو میں نے اچھی طرح اپنے دماغ میں محفوظ کیا اور پھر دوسرے ہی لمحے وہ کھڑا ہوا غیرمتحرک شخص میری مشین گن کے نشانے پر تھا۔ میری مشین گن سے دکہتی ہوئی گولیاں بمبار کے ڈھانچے سے ٹکرائیں لیکن اس پر تو کچھ اثر ہوتا ہوا نظرنہیں آیا۔ میں فوراً اپنے جہاز کو تیزی سے بی ۲۶ کے اوپر کی طرف لیتا چلا گیا ۔ اس وقت ہمارے دیگر سات زیرو طیاروں نے اس بمبار پر فائر کئے لیکن اس کی دیوانہ وار قلا با زیوں اور لہریوں نے زیادہ تر گولیاں بے کارکر دیں میں نے اپنے جہازکو فضا میں لہرایا اور اسے اونچا کرتا چلا گیا۔پیچھے آنے والے دو طیاروں نے بھی میرا ساتھ دیا لیکن ہم اپنی پرواز کی بلندی پر دھیان نہ دے سکے جس کا اس بمبار نے فائدہ اٹھانے میں دیر نہیں کی ۔ اور وہ ہماری آنکھوں میں دھول جھونک کر بادلوں کا سینہ چیرتا ہوا نو دو گیارہ ہوگیا۔ میں فورا ٹھرگیا۔ میرے پیچھے والے طیارے بھی ٹھہر گئے ہم نے چاروں طرف نظر دوڑائیں بڑی بھاگ دوڑ کی لیکن اس چھلا وے کا پتہ نہیں چل سکا خیر؟ اسے سزا تو بڑی ہی سخت مل چکی تھی۔ اگر وہ دوبارہ ہمیں نظر آجاتا تو اس کا خاتمہ یقینی تھا۔ اچانک میں چونک پڑا ۔ ہمارے سات زیرو طیارے دشمن کے ایک بابںر کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ اس کے علاوہ گیارہ بمبار لی پر اور شاید سلاموار کے اطراف میں بھی بمباری کررہے تھے میں نے لی کی طرف نظر دوڑائیں زمین سے کیف دھواں اٹھ رہا تھا اور دشمن کے لڑاکا طیاروں کا ایک دستہ سلاموا کی طرف جارہا تھا۔ ہمارے کچھ غضبناک زیرو طیارے اس کے چاروں طرف منڈلا رہے تھے۔ میں نے سوچا لعنت ہے اس عیار پر جو مجھے چر کہ دے گیا۔ خدا کرے کہ وہ کسی اور زیرد کے ہتھے چڑھ گیا ہو۔ اس کے بعد میں شمن کے دستے کی طرف دوڑ پڑا۔ اور اس کے ایک دوسرے بی ۲۶ بمبار پرحملہ کردیا۔ میری توپ کے گولوں نے اس کی پتوار کے پر خچے اڑا دیئے۔ نتیجے کے طور پر لگڑھا بمبار تین سومیل فی گھنٹہ سے بھی زیادہ رفتار سے سمندر کی طرف گرنے لگا اور پھر سمندر کے سینے میں سماگیا۔ اس طیارے میں لیفٹینٹ کمانڈر جونسن کے جنگ کے زمانے کے گہرے دوست لیفٹیننٹ کرنل فرانس آربیٹیونسن ایک جنگی مشاہد کی حیثیت سے پرواز کررہے تھے۔ وہ بھی اس طیارے کے ساتھ ختم ہوگئے ۔اگر اس دن لی پر مطلع ابر آلودہ نہ ہوگیا ہوتا تو ہم جانسن والے اس لنگڑے بی ۲۶ طیارے کو اس کے پائیلٹ کی بے انتہا مشاقی کے باوجود مارگرانے میں ضرور کامیاب ہوجاتے۔دشمن کے بمبار طیارے سلاموا پربم گراتے ہوئے اپنے اڈ ے کی جانب تیزی سے لوٹ گئے۔ ہم نے کچھ دور تک ان کا تعاقب کیا۔ لیکن انہوں نے ہمیں واپس لوٹنے پرمجبورکردیا۔مجھے بعد میں پتہ چلا کہ لیفٹیننٹ کمانڈر جونسن کوجزل گلسن میک آرتر نے امریکی فوج کا تمغہ سلور اسٹار عطا گیا تھا۔ کے اوائل میں میں نے دو امریکی مصنفوں سے رابہف قائم کیا انہیں ایک ستھے مارٹن کیڈن اور دوسرے ایڈورڈ ہمیوف جنہوں نے دی مشن نام کی ایک کتاب صدر جانسن کی فوجی زندگی سےتعلق لکھی ہے انہیں معلوم تھا کہ جنگ کے دوران میں لی کے محاذ پر تاا میری ڈائری کے اندر اجات کی روشنی میں انہوں نے لکھا ہے۔۹ جون کو پورٹ مورس بے اور سلاموا کے نزدیک لی کے مقام پر ایک معرکہ بےمثال جانبازی کا ثبوت دینے پر انہیں سلور اسٹار عطا کیا گیا وہ ساوتھ ویسٹ پیفک علاقہ سے متعلق اہم جیگس معلومات حاصل کرنے کے لئے اور حالات جنگ کا بذات خود جائزہ لینے کے لئے ایک رضا کار شاہد کی حیثیت سے اس اہم مشن پر روانہ ہوئے تھے ۔ لی کے مقام پر دشمن کے نزغہ میں پھنس گئے۔ حالانکہ ہمارے لڑاکا طیارے ان کے نزیک ہی موجود تھے لیکن ان کا طیارہ کسی مشینی خرابی کا شکار ہوجانے کے باعث اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ جانے پر مجبور ہوگیا۔دوسرے طیاروں کو دشمن کے آٹھ لڑاکا طیاروں نے ان سے دور دور ہی رکھا لیفٹیننٹ کمانڈر جانسن کا طیارہ دشمن کے لئے اچھا نشانہ ثابت ہوا۔ دشمن نے اپنی عدادات اور بغض کا پورا پورا مظاہرہ کیا۔ جانسن اپنی جانبازی اورعالی ہیتج ہی بدولت دشمن کے نرغہ سے بمعہ قتیب معلومات کے نکل کر واپسی آنے میں کامیاب ہوئے۔ان کاجنگی اعزاز وہ چھوٹا سا دھات کا ٹکڑا ہے جو وه اپنی بہت سی تصاویر میں لگائے نظر آتے ہیں۔ ایک کانگریسی ممبر سنٹر اور نائب صدر کی حیثیت سے ان کا وہ بہترین ریکارڈ ہی تو تھا جس نے انہیں امریکہ کے اعلی ترین عہدے پر پہونچا دیا۔کل کا دشمن آج میرے ملک کا گہرا دوست ہے۔

صدر جانسن والے واقعہ کے تقریبا دو ماہ بعد یعنی اگست میں بھی موت کے منہ میں جاکر واپس آچکا ہوں۔ گاڈل کناال پر ایک فضائی معرکہ کے دوران مجھے سخت ترین چوٹیں آہیں۔ میرا زیر وفائر لنگڑا ہوگیا۔ اور میری بائیں ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ دھات کے چھوٹے چھوٹے کے ٹکڑے میری پیٹھا اور سنیے میں پیوست ہوگئے تھے پچاس کلیورمشین گن کی دو بھاری گولیوں کے ٹکڑے بھی میری کھو پڑی میں گھس گئے اور سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ ایک آنکھ بھی اللہ کو پیاری ہوگی ۔ اف بڑی ہی خطرناک سچویشن تھی۔ میں اپنے ہوش و حواس کھو چکا تھا، لیکن مشل مشہور ہے۔ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ نہ جانے کس طرح میں اپنے اوے رابال تک واپس پہونچ سکا۔ دوسال تک اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد پرواز کے قابل ہوگیا۔جاپان کے ہتھیار ڈال دینے کے بعد برھ ئیے سے مجھے سبکدوش کر دیا گیا۔ اس مخوس علاقہ میں فوجی خدمات کے عوض صرف ان ہی لوگوں کو تمغے وغروہ دیئے گےگ جو جنگ میں اپنی جانوں کو قربان کر چکے تھے لیکن ان لوگوں کو کچھ بھی نہ ملا جو جوانمردی اور بہادری سے لڑنے کے باوجود زندہ رہ گئے تھے حالانکہ میری سروس کافی پرانی تھی۔ اور میں اپنی فوجی زندگی میں خطرناک ترین زخم کھا چکا تھا۔ لیکن پھر بھی میرے لئے وہاں پینشن ملنے کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ کیونکہ جاپان جنگ ہار چکا تھا۔ اور پنشن یا معذوری الاونس کے میدگ صر ف فاتح قوم کے آزموده کا لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔جنگ کے بعد میری زندگی کا دوسرا رخ شروع ہوا۔ جاپان کے شاہی سجرئیے میں میں نے صرف یہی سیکھا تاگ کہ اپنے ملک کے دشمن کےخلاف کس طرح لڑا جائے۔ اورتقریبا پانچ سال تک میں نے یہی کیا بھی۔ میرے نزدیک زندگی کا کوئی اور مقصد نہیں تھا میں تو صرف فضائی سورما تھا ٖفضائی سورما جو اپنے آپ کو فضاوں کا بادشاہ سمجھتا ہے سجرئیے سے علیحدہ ہونے کے بعد مجھے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ملازمتوں کا قانون مجھے کسی قسم کے جہاز کو اڑانے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔میں ملازمت کر رہا لیکن سماج میں اپنا کوئی مقام نہیں بنا سکا۔ فاقہ کیی اور مصائب میرامقدر بن چکے تھے۔ میری بیوی جو بمباری کا نشانہ بن چکی تھی بھی بڑی کیت مپرسی کی حالت میں اس عالم فانی سے کوچ کرگئی۔ آخر میں میں نے تھوڑا تھوڑا کر کے کچھ پیسہ جمع کیا اور ایک چھوٹی سی چھپائی کی دکان کھول لی جو آج ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیارکرگئی ہے ۔ میری آج کی زندگی بالکل نئی زندگی ہے۔ مراتوں اور شادمانیوں سے بھرپور پرسکون زندگی ۔بعد میں نےپ جاپان کی حکومت نے مجھے فضائیہ میں کمیشن دینے کی پیشکشیں بھی کیں لیکن میں نے ایسی سھبی پیشکشیوں کو رد کردیا۔ کیونکہ ان کوقبول کرنے کے بعد میں پھر اسی دنیا میں پہونچ جاتا جس کی تلخ یادیں میں ماضی کی عمیق گہرائیوں میں دفن کرچکا ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں پرواز بھول گیا ہوں۔ میں آج بھی جانتا ہوں کہ کس طرح دشمن کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔اگر آج بھی جاپان کومیری ضرورت پڑی۔ کمیونسٹ طاقتوں نے میرے ملک پرناجائز دباو ڈالا تو میں پھر اپنے ملک کے لئے پروازیں کروں گا۔ لیکن میں دعا کرتا ہوں کہ اس طرح کا کوئی بہانہ بھی مجھے دوبارا فضائی زندگی میں لیجانے کا باعث نہ بنے۔ایک طرح سے دیکھا جائے تو صدر جانسن اور میں نے ساتھ ساتھ موت سے جنگ لڑی ہے۔ اور ہم دونوں نے ہی اسے شکست دی ہے کبھی ہم دونوں ایک دوسرے کے تن کی حیثیت سے ملے تھے لیکن اگر اب کبھی ہمیں دوبارا مےدگ کا اتفاق ہوا تو وہ ملاقات یقینا ایک دوستانہ ملاقات ہوگی۔

مصنف :ایم۔این۔خان

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here