میرے خیال میں اخبار پڑھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اسے پڑھنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا لیکن میرے ایک دوست اخباربینی کے اس قدر خلاف ہیں کہ ان کی رائے میں اسے نصاب میں شامل کر دینا چاہیے ۔ فرماتے ہیں سمجھ نہیں آتی جب اخبار نہیں تھے تو نوجوان خراب کیسے ہوتے تھے۔ اخبار نہ ہوتے تو لوگ بڑے آدمیوں کی شہرت اور شہوت انگیز قہقہے کہاں سے پڑھتے۔ برے آدمی بھی شریفوں کی طرح چپ چاپ زندگی گزار دیتے۔ یعنی اپنی گلی کے آدمی بھی اسے نہ جانتے اخبار نہ ہوتے توبرے آدمی نہ ہوتے تو اخبار کہاں ہوتے؟ پہلے اخبار کی زندگی ایک روزه ہواکرتی تھی۔ وہ اگلے ہی دن باسی ہوجاتا ۔اب آپ اسے ہفتہ بعد بھی پڑھ لیں بھربھی مزا آئے گا کہ اس میں ایسی کوئی چیز ہوتی ہی نہیں جس کے باسی ہونے کا خدشہ ہو۔ وہی حاکم کاحکم ظالم کا مرثیہ بشرطے کے وہ وہ حاکم کا نہ ہو، مجرموں کی رہائی ، ملزموں کی گرفتار خوش ذوق قارئین کے لیئے آبروریزی کے واقعات کی رننگ کمنٹری اور ان پڑھوں کے لیے بولتی تصویریں۔ یوں بھی آج کل اخبار پڑھتا کون ہے سب دیکھتے ہیں یہ تصویری اخبارآج کے تیز رفتار دور کا تقاضا ہیں۔ انسان تواب کھانا بیٹھ کر نہیں کھاتا کہ پھراسے اٹھنے میں دیر لگ جائے گی۔ وہ آرام سے بیٹھ کر اخبار کیسے پڑھ سکتا ہے۔اسی لئے اخبارات والوں نے رنگین ایڈیشنوں سے نئی رنگ آمیزی کردی ہے تاکہ انسان قریب سے گزرتے اخبار کو سونگھ ہی۔ لے اور وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب رہے ہیں۔صحافی اور اخبار ڈھرادھڑ بک رہے ہیں۔ پہلے بڑے دل گردے والا صحافی ہوتا ہے۔ اب یہی خوبیاں قارئین کے لیے لازمی ہیں میرا دوست‘‘ف’’ کسی کے ہاں سے اخبار پڑھ کران کے خاندان کے بارے میں اپنی رائے قائم کرتا اور بدلتا ہے۔ گذشتہ دنوں اس نے نئے ہمسائیوں کے گھر سے مانگ کر اخبار پڑھنا اور ان کی تعریفیں سنانا شروع کیں ۔کہنے لگے ہمسائیوں کے بچوں کو پڑھنے کا اتنا شوق ہے کہ جب تک کسی کو پڑھتا نہ دیکھ لیں انہیں نیند نہیں آتی ۔عورتیں ٹی وی پر بھی غیر محرم کو دیکھ کر پردہ کرلیتی ہیں اور ذہین اس قدر کہ اگر کسی اناؤنسر کے سر پر دوپئہ دیکھ لیں تو فوراً سمجھ جاتی ہیں کہ اذان کا وقت ہوگیا۔ اس قدر مہذب ہیں کہ دوسروں کو گالی ہمیشہ انگریزی میں دیتے ہیں شاید اسی لیئے وہ اگلے ہی۔ ہفتے موصوف کو انگریزی اخبار پڑھنے کے لیئے دینے لگے جب ہمارے دوست یہ اشارہ نہ سمجھ سکے تو انہیں نے صاف صاف کہ دیا کہ اخبار پڑھنے کا شوق ہے تو خرید کر پڑھو۔ اب موصوف ان کے خلاف خبریں نشر کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں میں نے اپنے بے گناہ گانوں سے ان کی نوجوان لڑکیوں کو اردو کے شعروں کی تشریح کرتے سنا ہے ۔فرماتے ہیں انہوں نے مجھے اخبار کانشہ لگا کر اچھا نہیں کیا۔ اب میں اس کے بغیر بے کار دن اور بدکار راتیں کیسے گزاروں گا۔ اخبار پڑھنے کے علاوہ اور بے شمار مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ماسٹر صاحب اسے محبوب کے وعدے کی طرح گول کرکے چھڑی بنا لیتے۔طلبہ جس مضمون سے الرجک ہوں اس میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے اخبار کا قلمی۔ خواتین ایڈیشن اس کتاب پر چڑھا لیتے ہیں۔ اخبارات میں گئی ننگے بدن ثقافت ادڑھے ملتے ہیں تو پبگ لائبریریوں میں لوگ اخباراوڑھے ملتے جب تک ان کے ہاتھ میں اخبار نہ ہو انہیں نیند نہیں آتی۔
بچہ کو چپ کرانے کے لیے چوسنی اور بڑے کو اخبار دی جاتی ہے۔ گناہ گارجیلوں میں استغفار اور اخبارپڑھ کرگزارہ کرتے ہیں۔ اخبار فارغ کے لیے مصروفیت اور مصروف کے لیے انفارمیشن حاصل کرنے کا بہانہ ہے۔ اخبار پڑھ کر آدمی کو کچھ نہ کچھ کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ اور جو کچھ کر سکے وہ اخبار میں لکھنے لگتا ہے۔اخبارات ٹیلی اسکوپ ہیں جو پڑھنے والے کے لیے وہ مناظر فوکس کرتی ہے جو ویسے اس کی پہنچ سے بہت دور ہوتے ہیں۔ وہ دنیا کے دور دراز کونوں میں ہونے والے ظلم کی بادگشت سناتے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اخبار کاہر لفظ سیاه ماتمی لباس پہنے ہوتا ہے۔ اخبار رازدواجی زندگی کے راز فاش کر دیتا ہے۔ نئے نویلے دولہا رات کو اس میں دلہن کی پسندیدہ چیزیں لپیٹ کرلاتے ہیں تاکہ اسے پڑھ کررات گزارسکیں۔اخبار عام حالت میں مانگ کراوربس میں خرید کرپڑھنا فن ہے۔ ہمارے ایک دوست کہتے ہیں میں نے شاعری کے علاوه ہربرا کام کیا ہے مگرکبھی اخبار مانگ کر نہیں پڑھا۔ ان کے نزدیک اخبار خریدنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان کو اخبار پڑھنا پڑتا ہے ۔ فرماتے ہیں اگر اخبار مذہبی لٹریچر کی طرح مفت تقسیم کیئے جاتے تو انہیں بھی۔ کوئی نہ پڑھتا۔ شاید یہی وجہ ہے۔ کہ اخباروں کی قیمتیں موصوف کی رائے کی طرح بدل رہی ہیں وہ کہتے ہیں فخاشی پھیلانے والے اخباروں کو لٹکا دینا چاہیے شاید اس لئے جب کبھی کسی اخبارمیں فحش تصویرچھپتی ہے اسے کمرے میں لٹکا دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں کوشش کی جائے توہرجرم ختم ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ یہ کوشش مجرموں کی اپنی ہو۔اخبار آج کے انسان کی ذاتی ڈائری کا ورق ہے جس میں غزل کے ہر شعر کی طرح ہرکالم میں نیاطوفان چھپا ہوتا ہے۔ کہیں ان بچوں کی کہانی ہے جنہیں سردیوں میں ساری رات سردی گود میں لئے ر ہتی ہے اور گرمیوں میں گرمی سینےسے چمٹائے رہتی ہے تو کہیں ان بڑوں کی باتیں جن پرتعزیتی کالم لکھ کریا تحقیقی کام کرکے نقادان کے مرنے کے منتظر ہوتے ہیں۔ کہیں وہ تحریریں جو لکھنے والے کو زندگی دیتی ہیں توکہیں وہ جن کی اپنی زندگی اتنی بھی نہیں ہوتی جتنی دیرمیں وہ لکھی گئیں۔
مجھے اخبار معاشرے کی آنکھ سے پٹکاوہ آنسو لگتا ہے جسے وجود میں لانے کے لیئے سارادن نہ جانے کتنی آنکھیں خوشی، نمی بے بسی اورخون کے آنسوروتی ہیں۔ایمرجنسی وارڈ ہسپتال کا وہ حصہ ہے جس کا فاصلہ آسمان سے بہت کم ہوتا ہے۔یہاں داخل ہوتے وقت انسان اسی حالت میں ہوتا ہے جس میں وہ دنیا میں آتا ہے یعنی رورہا ہوتا ہے۔ اس وارڈکی روزانہ رپورٹ دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ کتنے لوگ برراستہ ایمرجنسی وارڈ دوسری دنیا میں پہنچے۔ اس رپورٹ کو چھوتے ہی آنکھیں آنسوؤں کے نقاب اوڑھ لیتی ہیں مگر چند روزقبل میں نے ایک ڈاکٹر کویہ رپورٹ پڑھ کر خوش ہوتے دیکھا۔ اس نے ہونٹوں پر مونچھیں اور آنکھوں پر عینک اوڑھ رکھی تھی۔ میرے پوچھنے پراس نے بتایا کہ میں اس لئے خوش ہوں کہ آج بہت کم لوگ مرے۔ میں نے رپورٹ دیکھی تواس پر کئی بے جان لاشے ناموں کی صورت بکھرے تھے۔ سوچتا ہوں تو مجھے یہ دنیا بھی بہت بڑایمرجنسی وارڈ لکتی ہے اور اخباراس وارد کی روزانہ رپورٹ ہیں۔ اسے پڑھ کرہم بھی کبھی کبھی خوش ہوتے ہیں کہ آج کل سے کم قتل ہوئے اور کم دوپٹے خون سے سرخ پرچم بنے۔اخبار پڑھنے کا عمل اخبار سے بھی پرانا ہے اس زمانہ میں جب انسان کا دشمن انسان نہیں جانور ہوتے تھے چہرے سچ بولتے تھے۔ وہ خوشی یاغمی کی خبرچہرے پرسجائے دوسرے تک پہنچتا تو دوسرا یہ خبر پڑھ کر اپنےچہرے پررقم کرلیتا یوں یہ خبر قبیلے کے ہرفرد تک پہنچ جاتی گویا جس دن انسان نے ایک دوسرے کے دکھ سکھ کواپنا سمجھنا شروع کیا اسی دن سے اخبار پڑھنے کا عمل شروع ہو گیا تھا۔