خود کشی

0
307
urdu-story
- Advertisement -

تاش کے کھیل سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ اون پتوں کے ساتھ عموما دوجو کر بھی ہوتے ہیں ۔ جوکروں کا اس کھیل میں براہ راست کوئی حصہ نہیں ہوتا لیکن جب کوئی پتہ گم ہو جائے تو اس کی جگہ جوکر استعمال کرلیا جاتا ہے جوکرکی مسخرے کی شکل دبلے پتلے لڑکے سے ملتی جلتی ہے جس پرمضحکہ لمبی ٹوپی اور چہرے پر ہونقوں جیسا نقاب ہوتا ہے یہ شكل مختلف شوخ رنگوں میں بنائی جاتی ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے مسخرے کی یہ تصویر ابتدا میں موت کی علامت کے طور پر بنائی گئی تھی۔جوکر یا مسخراسب سے پہلے اطالوی تھیٹرمیں ظاہر ہوا۔یہ ایسے مایوس اور دل شکستہ عاشق کا کردار تھا۔جواپنی محبت میں بری طرح ناکام ہو گیا محبوبہ نے اسے مکمل طور پر دھتکاردیا اور موت کو گلے لگانے کے سوا کوئی چاره کا رباتی نہ رہا۔ اس طرح ہوتے ہوتے تھیٹر کا مسخره موت کی علامت بن گیا۔ بعد میں موت کی علامت کو نئے معنی پہنائے گئے اور اسے حد سے زیادہ حساس آور عشق میں دیوانے نوجوان سے تشبیہہ دی جانے لگی۔ ایسا عاشق جو محبت میں ناکامی کے بعد خود کشی کرلیتا ہے۔ ڈراموں کے ایسے کردار عام طورپرعین عالم شباب میں مرتے ہوئے دکھائے جاتے تھے۔ بعد میں ایسے کردار دل سے نیکی شرافت حلیمی، خوش اخلاقی جسمانی خوبصورتی اور جذبہ محبت بھی وابستہ کر دیا گیا محبوب کے بغیر زندگی کس کام کی، نامرادعاشق بڑے خلوص اور دل سوزی سے موت کو گلے لگاتے تھے یہ محبوب کے حضوران کا آخری ہدیہ وفا ہوتا تھا! محبت میں ناکامی خودکشی کی ایک وجہ ہے لیکن اس کا اصل تعلق انسان کے مزاج اورانداز فکر سے ہے ایسے معاشرے جہاں افراد پر ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے مقابلہ اور مسابقت کی فضا پیدا کی جاتی ہے عزت اور بے عزتی کا غیرصحت مند تصورابھاراجاتا ہے وہاں خودکشی کی وارداتیں بکثرت ہوتی ہیں لیکن جن معاشروں میں باہمی احترام، تعاون اور بھائی چارے کی روایات مستحکم ہیں وہاں کے لوگ اپنے ہاتھوں خود کو ہلاک نہیں کرتے ، کوئی واردات ہوتی بھی ہے تو شاذونادر یورپ، امریکہ اور جاپان ایسے صنعتی اور ترقی یافتہ معاشروں میں خودکشی کی زیادہ وارداتیں اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ وہاں افراد پر کچھ کر گزرنے کا بھوت سوار رہتا ہے دولت ، کامیابی اور سماجی حیثیت حاصل کرنے کی انتھک جدوجہدان کے اعصاب کو شکستہ کر دیتی ہے یہاں تک کہ قوت برداشت بالکل ختم ہو جاتی ہے اورموت ان کی تگ و دو کی آخری منزل بن جاتی ہے۔ انسان کو سماجی حیوان کہا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دوسروں میں گھل مل کر رہنا چاہتا ہے وہ محبت ہمدردی، دوستی اور تعاون کا خواہش مند ہوتا ہے ان احساسات سے ذہن کو سکون اور جذبات کو آسودگی حاصل ہوتی ہے اعصابی تناؤ ختم ہوتا اور مزاج میں خوشی اور امنگ پیدا ہوتی ہے یہ حالات انسان میں اعتماد اورحوصلہ پیدا کرتے ہیں وہ خود کو تنہا محسوس نہیں کرتا لہذا ذہنی الجھنوں اور پژمردگی کا شکار بھی نہیں ہوتا ۔ جہاں تک خودکشی کی جاپانی شکل یہ ہاراکری، کا تعلق ہے تواسے ہم ایک رسم کہہ سکتے ہیں قدیم جاپانیوں کے لئے موت کا یہ باعزت طریقہ تھا بصورت دیگرانہیں ذلت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا اس کی ضرورت جنگ میں شکست یا وعدہ خلافی کی صورت میں پیش آئی تھی بدھ مت کے پیروکارجن میں تارک الدنیا سادھو اور دیو داسیاں شامل ہیں خودکشی کو نجات کا ذریعہ تصور کرتے تھے۔ معاشرتی خرابیاں یا سیاسی مظالم نا قابل برداشت حدتک بڑھ جائیں۔ تو بدھ بھکشو بطور احتجاج خود کو آگ لگا کر جل مرتے ہیں ہندوؤں میں ستی کی رسم برہمنوں کی اسی تعلیم کا نتیجہ تھی کہ جولوگ روح کو جسم کی قید سے رہا کرا لیتے ہیں، احترام کے قابل بن جاتے ہیں قدیم یونان میں خودکشی کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا تاہم اس کے خلاف کوئی قانونی پابندیاں بھی نہیں تھیں شرفاء کے سامنے دو راستے ہوتے تھے جن میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے جیسا کہ جاپان میں تھا اپنے ہاتھوں خود کو ہلاک کر لو یا جلاد کی تلوار کا نشانہ بن جاؤ لیکن انتخاب کا یہ موقع کبھی کبھی ملتا تھا ۔اور صرف اسی شخص کو جو اس قابل سمجھا جاتا تھا اس کی مشہور مثال انقراط ہے اس بے مثل مفکر کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی موت کے لئے جو طریقہ بھی چاہے اختیار کرلے اس نے زہرکا پیالہ پی کرمرنا پسند کیا ،رومنوں کے نزدیک خودکشی نہ صرف سائز تھی بلکہ کسی حد تک قابل ستائش تصور کی جاتی تھی خصوصا ان ایام میں جب مشہو فلسفی سٹائک کا نظریہ وحدت الوجود مقبول ہوا۔ موت کی خواہش ذات کی ناپسندیدگی یاعتراف تصور کیا جاتا تھا۔سامی مذاہب کا رویہ خودکشی کے بارے میں بالکل مختلف ہے۔ یہودیت ،عیسائیت اوراسلام تینوں نے خودکشی کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اسے گناہ قرار دیا ۔ عیسائیت میں ایک دور ایسا ضرور آیا جس میں عورتوں کو اپنی عزت بچانے کے لئے خودکشی کی اجازت تھی ۔ لیکن سینٹ آگسٹن نے اس کی بھی سختی سے ممانعت کر دی۔ عیسائیت کے آغاز کے وقت معاشرتی رسم ورواج کے مطابق عورت کی حیثیت مرد کے مقابلے میں نہایت کمترتھی ۔ یونان کے بعض فلسفیوں نے عورت کو خطا کا پتلا ،مرد کی تباہی کا باعث اور گناہ کی پوٹ قرار دیا تھا ۔اس لئے عورت احساس کمتری کا شکاراور مکمل طور پر مرد کی دست نگر ہوچکی تھی،ان حالات میں مرد نے عورت کو قربانی کا بکرا بنایا اور اپنے گناہ بھی اسی کے سر تھوپ کراسے خودکشی کی راہ دکھائی ۔کہا گیا اگر عورت کو اپنی عزت لٹ جانے کا خطرہ ہو تو خود کشی کرلے لیکن اس گھناؤنے معاشرے میں اس مرد کے لئے کوئی سزا تجویز نہ کی گئی جس سے عورت کی عزت لٹنے کا خطرہ تھا۔ ہندومت، بدھ مت اور یونانی فلسفے کیونکہ آریائی اصل سے تعلق رکھتے ہیں ۔اس لئے تینوں میں خودکشی کی اجازت اور عورت کی مظلومیت کی تصویر دکھائی دیتی ہے ۔ سامی مذاہب میں زندگی کی اہمیت اور عورت کا مقام قدرے بلند نظر آتا ہے ۔ خاص طور پر اسلام نے عورت کے مقام اور احترام کے بارے میں نہایت متوازن رائے پیش کی ہے ۔اسی طرح انسانی زندگی کا وقاراوراحترام بھی بڑھایا ہے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہرانسان، انسان ہونے کے ناطے عزت و تکریم کا حقدار ہے عورت بھی انسانیت کا لازمی جزو ہے۔ لہذا برابر کے احترام کی مستحق ہے ۔ دوسرا حکم یہ ہے کہ اپنی جان کو جان بوجھ کر ہلاکت میں مت ڈالو۔ اسلام نے کچھ اصول اور قاعدے بتائیے ہیں جن کی خاطر جان کی بازی لگائی جاسکتی ہے ۔ مگرا سے خودکشی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ علمائے اسلام کی تصریحات کے مطابق اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاک کرنا حرام ہے۔ اوراس کی قطعا ممانعت ہے اسلام کے یہ معاشرتی ضابطے ساتویں صدی عیسوی میں مرتب ہوئے اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام پہلا مذہب ہے جس نے خودکشی کی مذمت کی اوراسے انسانیت کی توہین قراردیا۔ یورپ میں انگلستان پہلا ملک ہے ۔ جہاں گیارہویں صدی میں اول بارخودکشی کو خلاف قانون قرار دیا گیا۔انگلش کامن لا میں ذاتی ارتکاب ہلاکت کو بڑا جرم تصور کیا گیا ۔خود کشی کرنیوالے کی ساری جائیداد تاج کے نام ضبط کرلی جاتی تھی۔ اور دارثوں کو ایک پائی تک نہیں ملتی تھی۔ خودکشی کے خواہش مندوں کی پسماندگان کے خیال سے کئی بار سوچنا پڑتا تھا۔ البتہ ایک استثنائی صورت تھی کہ خودکشی کرنیوالو کو پاگل ثابت کیا جائے ۔ یہ صورت ۱۸۷۰تک برقرار رہی۔ اس کے بعد قانون میں ترمیم کرکے اسے بہتر بنایا گیا خودکشی کرنیوالوں کو عام قبرستانوں میں دفن نہیں کیا جاتا تھا۔ ان کے لئے الگ جگہیں بنائی گئی تھیں، جہاں باقاعدہ قبر بنانے کی بجائے ایک گڑھا کھودا جاتا اورلاش کو کپڑوں سمیت اٹھاکر اس میں پھینک دیا جاتا۔ یورپ کے بعض ملکوں میں خودکشی کرنے والوں کی جائدادیں ضبط کرنے کے علاوہ ان کی لاشیں بھی مسخ کردی جاتی تھیں، ان لاشوں کو شاہراہوں کے کنارے زمین میں دبا دیا جاتا اور نشان کے لئے ایک لمبی نوکدار چھڑی ان کے دل میں پیوست کر دی جاتی تھی ، راہ گیر اسے دیکھ کر نفرت کا اظہا ر کرتے،۱۹۶۱ کی قالونی ترمیم تک خودکشی کی کوشش بھی جرم تصور کی جانی تھی ، انگلستان اورامریکہ کے کئی علاقوں میں خودکشی ابھی تک جرم ہے ، خودکشی پراکسانایا خودکشی میں مدد کرنا بھی جرم ہے۔

خودکشی کے لئے جاپانی لفظ ہارا کری ہے ، جاپان میں خودکشی ایک فن اور رواج کا درجہ رکھتی ہے ، نام اور عزت کی خاطر لوگ بے دریغ خودکشی کاارتکاب کرتے ہیں ، دوسری عالمی جنگ میں جاپانیوں کی یہ رسم ان کے بہت کام آئی، جہاں بہت سے دشمنوں کو ہلاک کرنا مقصود ہوتا ،جاپانی سپاہی اپنے جسم کے ساتھ بڑی تعداد میں بم باندھ کر مجمع میں کود جاتے تھے جاپانی ہوا بازوں نے دشمن کے کئی بحری جہاز اس طرح غرق کئے کہ بموں سے لدے ہوئے طیارے جنگی جہازوں سے ٹکرادیئے۔ڈاکٹر نذیر احمد نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا خودکشی کی بڑی وجہ مایوسی ہے ایک شخص جب حالات میں تبدیلی سے مایوس ہو جاتا ہے اور اصلاح کی کوئی امید نہیں رہتی تو موت کو گلے لگا لیتا ہے، ایسے لوگ درحقیقت ذہنی مریض ہوتے ہیں ، حالات کا تاریک پہلوان کے دل ودماغ پر چھا جاتا ہے ، امید کی کرن ان کے خیالات میں راہ نہیں پاسکتی۔

ایسے لوگوں کو مایوسی سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے خیالات کی اصلاح کی جائے انہیں تنہا اور خاموش نہ رہنے دیا جائے، ان کے ساتھ تبادلہ خیال کیاجائے۔ انہیں دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع دیا جائے ان کی تندوتلخ غصہ سے بھری ہوئی باتیں سنی جائیں، اورپھرہمدردانہ روئے کے ذریعہ سے مایوسی، بے دلی اور تنہائی کی ذہنی کیفیت سے نکالنے کی کوشش کی جائے کمزور طبیعت حساس زودرنج ، خوداعتمادی اور قوت فیصلہ سے محروم افرادہی عموما خودکشی کے بارے میں سوچتے ہیں۔دوستی محبت، اپنائیت اور جذبہ خلوص کا اظہار مایوسی کی کیفیت تبدیل کرنے میں موثر ثابت ہوتا ہے، گھریلو لڑائی جھگڑے طعنے اورنفرت و حقارت کے مظاہرے ذہنی سکون کو برباد کرتے اور بغاوت کارجحان پیدا کرتے ہیں ، کوئی عملی مدد نہ کرسکتا ہو تو بھی حوصلہ افرائی کے دو جملے مریض میں زندہ رہنے کی نئی امنگ پیدا کر سکتے ہیں، اصل میں انسان کی زندگی اس کے خیالات کا عکس ہے، وہ جو کچھ سوچے گا وہی اس کے عمل سے ظاہر ہوگا بہتر ہوگا کہ خوشدلی، امید زندہ دلی اور حالات کو برداشت کرنے کی عادت بچوں کی تربیت کاحصہ بنا دی جائے خوش فہمی اور لمبی چوڑی توقعات بھی پریشانی کا باعث بنتی ہیں، اسلام کے بنیادی اصول اور عقائد اگر اچھی طرح سمجھ لئے جائیں اور زندگی کے ہر لمحہ میں ان سے رہنمائی حاصل کی جائے توکبھی مایوسی کی نوبت نہیں آ سکتی، بنیادی مذہبی عقائد بھی ابتداء سے بچوں کے ذہن نشیں کرانے چاہئیں ، ذہنی صحت کے لئے یہ بے حد ضروری ہے جدید نفسیات کا مستقل مطالعہ بھی متوازن زندگی گزارنے کے لئے معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

مصنف :خالد لطیف

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here