گاؤں کا ہرشخص تین چیزوں سے ڈرتا تھا ۔مہاجن کے اناےر سے نمبردار کے غصے سے اور مولوی کے وعظ سے مگرعارف واحد نوجوان تھا جس نے مڈل تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اکیس ایکڑ زمین کی دیکھ بھال کے علاوہ ایک چھوٹی سی دوکان کھول رکھی تھی اوران تینوں ڈراونی چیزوں سے قطعات بے نیازاوربے خوف تھا۔ بلونڈا ضلعی صدرمقام گورداسپورسے تیس میل کے فاصلے پرواقع تھا وہاں آنے جانے کے لئے راستہ ٹیڑھا میڑھا بھی تھا کچا بھی کئی جگہوں پانی سے بھی گزرنا پڑتا تھا۔ رات کو یہاں سے گزرنے والے مسافر شاید ہی بحفاظت اپنی منزل مقصود پرپہونچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ عارف جب تک چھوٹا تھا وہ اس راستے کو خطرناک ہی نہیں جنوں اور بھوتوں کا مسکن سمجھتے ہوئے اس سے خوف کھایا کرتا تھا۔ مگرجب اس کے بازوؤں کی مچھلیاں تڑپنے لگیں تو اسے اپنی سابقہ روش بڑی مضحکہ خیز معلوم ہوئی اوراس نے جنوں بھوتوں کے اس علاقے کا راز فاش کرنے کا عزم کیا جو رات کے اندھیروں میں چھپ کروارکرنے کے عادی تھے مگردن کے اجالے میں کہیں نظر نہ آتے تھے۔اس نے اپنے ایک جگری دوست حمیدا پہلوان سے اس کا تذکرہ کیا۔ حمیدا فن کشتی و پہلوانی کاماہر تھا خاص طور پر پکڑنے میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ کھاڑوں میں دور دراز سے شائقين محض اس کی گرفت دیکھنے کے لئے آیا کرتے تھے عارف نے حمیدے سے کہا یارطویل عرصے سورج چھپنے کے بعد گوردا سپورجانے والا یہ راستہ بند ہوجاتا ہے اور ہردوسرے تیسرے روز کئی مسافر غائب ہوجاتے ہیں نمبردار کا کہنا ہے کہ وہاں جنوں اوربھوتوں کا ڈیرہ ہے ان کی تائید میں مولوی صاحب بھی وغظ دیتے اور لوگوں كو توبہ تلا کرنے کا مشورہ دیتے ہیں مگرکسی کویہ توفيق نہیں ہوئی کہ اس سربستہ راز سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرتا کہ آخروجہ کیا ہے کہ تیس میل لمبے راستے میں صرف ایک دومیل کا وه علاقہ جہاں سرکنڈے اور پانی جمع ہے جنوں اور بھوتوں نے آخرصرف اسی جگہ کو کیوں اپنا مسکن بنا رکھا ہے جتنی بھی وارداتیں ہوئی ہیں وہ سب کی سب بس اسی جگہ پر بوتی ہیں کیوں نہ اس چکر کا پتہ چلایا جائے حمید شہہ زور اور دلیرنوجوان تھا مگرجن بھوتوں کا نام سن کرگھبرا گيا اور کہنے لگا ۔۔چھڈیارعارف۔۔اے جن بڑے خطرناک ہوندے نیں بہرحال نوجوان عارف نے اسے قائل کرہی لیا اور اگلی ہی رات۔۔ شب خون۔۔ارنے کا پروگرام بنا لیا دونوں دوست رات خوب ڈھلنے کے بعداس خطرناک جگہ سے کچھ فاصلے پر چھپ کر بیٹھ گئے مگررات بھر نہ توکوئی مسافروہاں سے گزرا اورنہ ہی انہیں کوئی جن بھوت دکھائی دیا۔ دوسری رات وہ پھراسی جگہ جاکرچھپ گئے آدھی رات کے بعدانہوں نے محسوس کیا کہ گورداسپور کی جانب سے کچھ لوگ آرہے ہیں سرکنڈوں والی جگہ سے کچھ فاصلے پر آنے والے رک گئے اور ایک مردانہ آواز سنائی دی ۔۔میں تمہیں ایک بار یہ کہتا ہوں کہ واپس چلی چلو اور خطرناک علاقے میں قدم نہ رکھو۔۔چا ہے کچھ بھی ہوجائے میں اپنی بیٹی کے پاس جاؤں گی ۔
جنوں سے میں معافی مانگ لوں گی ۔عارف اور حمیدا نے اندازہ لگایا کہ آنے والے کل چار افراد تھے جن میں سے ایک مرد دوسری عورت اور دو آٹھ دس سال کے بچے تھے کیونکہ وہ اندھیرے میں صاف دکھائی نہیں دے رہے تھے تاہم ستاروں کی روشنی میں ان کے ہیولے نظرآرہے تھے۔ کچھ دیربحث تمحیص کرنے کے بعد بالآخر مردنے ہتھیار پھنک دینے اور اس نے سرکنڈوں کی جانب قدم بڑھا دیا۔عارف اورحمید ابھی نہایت خاموشی کے ساتھ ان سے کچھ فاصلے پرمگرراستے سے ہٹ کر چلتے رہے آگے کچھ دور جہاں پانی جمع تھا جب مرد اپنے تہمند کواوپراڑنے کے لئے اور عورت اپنے پانچئے اوپر کرنے اوربچوں کو سنبھالنے کے لئے رکی تواچانک بالکل قریب ہی سے لکڑبھگڑانما کسی جانور نے چلیتے کی طرح کھی کھی کر کے آواز نکالی اور اچھل کر بچوں کوعورت اور مرد کے ہاتھوں سے چھین لیا دریں اثنا۔ عارف اورحمید ابھی تیر اس پراسرار درندے کے سر پرپہونچ چکے تھے۔ انہوں نے اس کو پکڑنا چاہا تو یہ دیکھ کرانہیں خوشگوارسی حیرت ہوتی کہ حملہ آور جوکچھ بھی تھا بہرحال درندہ نہیں تھا بلکہ سوفیصد گوشت پوست والا انسان تھا حمیدے کی جاندار کلائی کی گرفت نے اس کی ساری کھی کھی بھلادی اور وہ زور زور سے آوازیں د ے کر اپنے ساتھیوں کو بلانے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد تین آدمی ہاتھوں میں بلمیں اور منہ پر ٹھاٹھے باندھے ہوئے وہاں آگئے اور وہ عارف اور حمیدے کوللکارنے لگے کہ وہ حملہ آور کو چھوڑ دیں ورنہ جنوں کے غیظ وغضب کے شکار بن جائیں گے انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ جنوں کے غلام ہیں ان لڑکوں کو وہ ان کے پاس لے جانے پر مجبور ہیں لہذا وہ ان کے آڑے نہ آئیں عارف نے بھیگی بلی بنتے ہوئے ان کے ہاتھ چھوڑدیئے اور پھراچانک ہی جھپٹ کر ایک کے ہاتھ سے بلم چھین لی۔ادھرحمید ابھی ایک نقاب پوش کوزیرکرکے اس سے بلم چھین چکا تھا جب اس نے بلم لہراتے ہوئے یہ کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ حمید پہلوان ان کے سامنے کھڑا ہے توحملہ آور کا خوف کے مارے دم خشک ہوگیا اب انہوں نے دھمکیوں بجاتے عارف اور حمیدے کی خوشامد شروع کردی مگر انہوں نے ان کی ایک نہ سنی اور چاروں حملہ آوروں کو باندھ کرایک طرف ڈال دیا صبح سویرے ہی گورداسپور کے ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈ پولیس کو خبر کی گئی چنانچہ ملزمان کو زیر حراست لیاگیا اور مقدمے کی تفتیش کا آغاز ہوگیا۔
دوران تفتیش جوہولناک انکشاف ہوئے ان سے یہ پتہ چلا کہ نمبر دار مولوی اور کئی دیگرافراد جن میں چاروں گرفتارشد گان بھی شامل تھے طویل عرصہ سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ڈاکہ زنی اور قتل وغارت کی وارداتیں کیا کرتے تھے بلکہ ان کا نام و نشان ہی مٹاد یتے تھے نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کو کئی کئی روز رکھا جاتا اور ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جاتے ملزمان کی نشاندہی پرجنگل میں بنائے گئے اس تہہ خانے کا معائنہ کیا گیا جہاں مصیبت زدہ مسافروں کو کئی کئی روز تک بندر رکھنے کے بعد انہیں انتہائی سفاکی اور درندگی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا جاتا تھا اس تہہ خانے سے جہاں لاتعداد مردوں کی ہڈیاں برآمد ہوئیں وہاں چھ سو تولے سونا، چارسو تولے چاندی ظروف صندوق اور بکسے جوتے اور قیمتی کپڑے بھی برآمد ہوئے ڈاکہ ذنی اور قتل کی ان وار داتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے انہیں جنوں اور بھوتوں کے کھاتے میں ڈال دیا گیا اور اس مہم کو انتہائی منظم اور موثر طریقے سے چلایاگیا۔ گاؤں کے مولوی نے اپنے وعظ کوجنوں اور بھوتوں کی پراسرار کارروائیوں تک محدود کر کے رکھ دیا اور اس حد تک دہشت پھیلانے میں کامیابی حاصل کر لی کہ وہ لوگ جن کے عزیز واقارب سرکنڈوں کے اس خوفناک علاقے میں غائب ہو گئے تھے جنوں اور بھوتوں کے خوف سےاس کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔ پولیس رپوٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سفاک درندوں کی وارداتوں کے نتیجے میں ۱۸۹ افراد ہلاک ہوئے جن میں سے ۳۴ عورتیں اور۱۶ بچے تھے مرنے والی عورتوں میں چھ حاملہ تھیں اس لئے ملزمان جن کی تعداد کل گیاروتھی کے خلاف قتل دوہرے قتل، ڈاکہ زنی عصمت دری۔ وغیره دفعات کے تحت مقدمات درج کئے گئے سیشن کورٹ نے تمام ملزمان کو سزائے موت ہزاروں روپے جریانہ اور قید کی سزائیں سنائیں، ہائی کورٹ نے ان سزاؤں کو بحال رکھا اس پر دوملزمان نے رحم کی اپیلیں دائرکیں جب متعلقہ کا غذات وائسرائے کے سامنے پیش ہوئے اوراس نے حالات وواقعات کا معائنہ کیا تو کہتے ہیں کہ لارڈڈفرن کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا اوراس نے کہا کہ کیا قانون میں کوئی ایسی شق شامل نہیں کی جاسکتی جس سے ملزمان کو بار بار پھانسی پرلٹکایا جا سکتا ہو۔