پہلا گاہک

0
115
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’معاشی بد حالی کی وجہ سے مجبوراً عصمت سے سمجھوتہ کرنے والی عورت کی کہانی ہے۔ مختار اپنے دوست توفیق کے فلیٹ میں رہتا ہے۔ نجمہ اس کی بیوی اور نازو چھوٹی سی لڑکی ہے۔ چھ مہینے کا کرایہ باقی ہے جس کے لئے توفیق پریشان کر رہا ہے اور ادھر گھر میں راشن کا ایک دانہ بھی نہیں ہے۔ نجمہ اپنے شوہر اور بیٹی کو بہانے سے باہر بھیج دیتی ہے، اسی درمیان توفیق آجاتا ہے اور وہ اس کے ساتھ موٹر پر بیٹھ کر چلی جاتی ہے۔‘‘

مختار فلیٹ میں داخل ہوا تو سورج ڈوب چکا تھا۔ فلیٹ کے ایک کمرے میں روشنی ہو رہی تھی۔ دوسرے میں اندھیرا تھا۔ روشن کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے سوالیہ نگاہوں سے تاریک کمرے کی طرف دیکھا مگر اسے فوراً ہی یاد آ گیا کہ دوسرے کمرے کا بلب فیوز ہوئے کئی دن گزر چکے ہیں۔

وہ روشن کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو سب سے پہلے اس کی نظر نازو پر پڑی جو چٹائی کے ایک ٹکڑے پر بیٹھی ایک تین ٹانگ کے ہاتھی اور ایک بے سر گڑیا سے کھیل رہی تھی۔ کمرے میں دو پلنگ پڑے ہوئے تھے۔ چٹائی کا ٹکڑا پلنگوں کے بیچ میں بچھا ہوا تھا۔ چار دن پہلے تک اس جگہ چہار گوشہ میز اور ایک کرسی پڑی ہوتی تھی۔ مختار کی آنکھیں اس جگہ پر اس میز اور کرسی کو دیکھنے کی اتنی عادی ہوچکی تھیں کہ اسے پھر ان کی غیرموجودگی کا احساس ہوا۔ ایک پلنگ دروازے کے پاس بچھا ہوا تھا اور دوسرا کھڑکی کے پاس، جو باہر کھلتی تھی۔ کھڑکی کے پاس والے پلنگ پر نجمہ لیٹی ہوئی تھی۔ اس کی پشت دروازے کی سمت تھی اور اس کا منہ کھڑکی کی جانب، مختار کو دیکھ کر نازو چلائی، ’’ابو آگئے۔ ابو آ گئے۔‘‘

نجمہ نے کروٹ بدلی اور متجسس نگاہوں سے مختار کو دیکھا۔ مختار کی نظریں نجمہ کی نظروں سے ملتے ہی جھک گئیں اور وہ دوسرے پلنگ پر بیٹھ کر جوتا اتارنے لگا جس کی ایڑیاں آدھی گھس چکی تھیں اور جس پر گرد کی اتنی دبیز تہہ جمی ہوئی تھی کہ اس کا رنگ کالا کم اور مٹیالا زیادہ لگ رہا تھا۔ ایک ہاتھ سے اس نے جوتے کو پلنگ کے نیچے کھسکایا اور دوسرے سے پلنگ کے نیچے سے چپل کی جوڑی نکالی جس میں سے ایک پر مرمت کے نشان تھے۔ نازو اس کے پاس آئی اور اس کے گھٹنوں سے لگ کر کھڑی ہو گئی، ’’ہمارا ہاتھی لائے ابو؟‘‘

’’نہیں بیٹی۔‘‘ مختار نے نازو کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

- Advertisement -

’’آپ تو کہہ رہے تھے آج ضرور لا دوں گا۔‘‘ پھر وہ دوڑ کر چٹائی تک گئی اور تین ٹانگ کا ہاتھی اٹھا لائی، ’’دیکھو نا۔ اب تو اس کی سونڈ بھی ٹوٹ گئی۔‘‘ اس نے ہاتھی کو مختار کی آنکھوں کے سامنے گھما کر کہا۔

’’ہاں بیٹی۔ آج بھول گیا۔‘‘

’’آپ تو روز بھول جاتے ہیں!‘‘ نازو کا منہ پھول گیا۔

’’کل ضرور لادوں گا اپنی بیٹی کو۔‘‘ سازو اس کے سامنے سے ہٹی تو مختار کی نظریں پھر نجمہ کی نظروں سے چار ہو گئیں جو ابھی تک مختار کی سمت لگی ہوئی تھیں۔ مختار نے پھر نظریں جھکا لیں مگر نجمہ متواتر اس کی طرف دیکھتی رہی۔ مختار کی آنکھوں کے نیچے سیاہ نصف حلقے۔ اس کے الجھے ہوئے بال۔ اس کے پچکے ہوئے گال۔ اس کی زرد رنگت۔ اس کی میلی قمیص۔ اس کا جیب کےپاس سے پھٹا ہوا پتلون۔ غرض اس کی ہر ایک چیز کو نجمہ نے ایک بار نہیں کئی بار دیکھا مگر اپنی نگاہوں کا رخ نہیں بدلا۔ مختار تھوڑی دیر تک گردن جھکائے بیٹھا رہا۔ نجمہ کی نظریں اس پر جمی رہیں اور نازو اپنے ہاتھی کو تین ٹانگوں پر کھڑا کرنے کی ناکام کوشش کرتی رہی۔ پھر وہ آہستہ سے پلنگ پر سے اٹھا اور جاکر دوسرے پلنگ پر نجمہ کے پاس بیٹھ گیا۔

’’میں خان بہادر سے ملا تھا۔۔۔‘‘ نجمہ کی خاموشی میں انتظار بھی تھا استفسار بھی۔

’’وہ کہنے لگے آپ کو کسی نے غلط اطلاع دے دی۔ ہم لوگ تو اگلے مہینے سے کنڈکٹروں کی چھٹی کر رہے ہیں اور ویسے بھی یہ کام آپ کے بس کانہیں۔ دو گھنٹے انتظار کرنا پڑا، تب جا کر ملاقات ہوئی اور۔۔۔‘‘ اس نے جملہ ادھورا چھوڑ کر نجمہ کو شکایت سے لبریز آنکھوں سے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو، تم ہی بتاؤ کہاں کا انصاف ہے! نجمہ کی آنکھوں نے جواب دیا۔ میں تو پہلے سے جانتی تھی کہ یہ کوشش بےکار ہے۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور پیر پلنگ سے نیچے لٹکاتے ہوئے بولی، ’’تم جا کر منہ ہاتھ دھولو۔ میں کھانا نکالتی ہوں۔‘‘ مختار منہ ہاتھ دھوکر کمرے میں واپس آیا تو اس کے بدن پر قمیص اور پتلون کی جگہ ایک گنجلا ہوا کرتا اور ایک میلا پاجامہ تھا۔ وہ نازو کے پاس چٹائی کے ٹکڑے پر بیٹھ گیا۔

’’بیٹی اب کھیل ختم کرو اور کھانا کھا لو۔‘‘ اس نے ہاتھی اور گڑیا کو چٹائی پر سے ہٹاتے ہوئے کہا، ’’اب کل کھیلنا۔‘‘ کھلونے دوسرے پلنگ کے نیچے سرکا کر اس نے نازو کو گود میں بٹھا لیا۔ نجمہ چینی کی ایک پلیٹ میں، جس کا کنارہ جگہ جگہ سے ٹوٹا ہوا تھا، چاول لائی اور چینی کے ایک پیالے میں تھوڑی سی دال۔ پلیٹ اور پیالہ مختار کے سامنے رکھ کر وہ خود پلنگ پر بیٹھ گئی۔

’’کیوں؟ تم نہیں کھاؤگی؟‘‘

’’میں کھا چکی۔‘‘

’’نہیں ابو۔ امی نے کھانا نہیں کھایا ابھی۔‘‘ نازو نے مختار کا کاندھا ہلاکر کہا۔ مختار نے نجمہ کی طرف دیکھا۔

’’مجھے بھوک نہیں لگ رہی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پلنگ پر لیٹ گئی۔

’’تھوڑا سا کھا لو۔‘‘

’’نہیں۔ بالکل بھوک نہیں۔‘‘ مختار نے گردن جھکا کر نظریں چاولوں کی پلیٹ میں جما دیں۔

’’میں نے آج پھر بھیجا تھا نازو کو راشن والے کے پاس۔‘‘ نجمہ کروٹ کے بل لیٹی ہوئی تھی اور اس کا منہ چٹائی کے ٹکڑے کی جانب تھا، ’’تھوڑا سا آٹا دے دیتا۔ مگر وہ نہیں مانا۔ پچھلا حساب صاف کیے بغیر۔۔۔‘‘ مختار نے پیالہ اٹھا کر تھوڑی سی دال چاولوں کی پلیٹ کے ایک کونے میں انڈیل دی۔

’’مٹھی دو مٹھی چاول اور ہیں۔ کل تک کو ہو جائیں تو بہت ہے۔‘‘ مختار انگلیوں سے دال اور چاول ملا رہا تھا۔

’’اور دال کا ایک دانہ بھی باقی نہیں۔‘‘ مختار نے ایک چھوٹا سا نوالہ بنا کر نازو کو کھلایا اور پھر قدرے بڑا نوالہ اپنے منہ میں ڈال کر اسے تھوڑی دیر تک چباتا رہا۔ جب وہ ایک اور چھوٹا سا نوالہ نازو کے منہ تک لے گیا تو نازو نے منہ پھیر لیا۔

’’ہم تو گھی شکر سے کھائیں گے!‘‘ مختار نے نجمہ کی طرف دیکھا۔ نوالہ ابھی تک اس کے اٹھے ہوئے ہاتھ میں تھا۔

’’کھا لو بیٹی!‘‘ نجمہ نے نازو کو پلنگ پر سے چمکارا۔

’’نہیں ہم تو گھی شکر سے کھائیں گے!‘‘

’’گھی شکر ختم ہو گیا۔ کل جب ابو لائیں گے تب کھانا۔‘‘

’’نہیں۔ نہیں۔ ہم تو ابھی کھائیں گے۔‘‘

’’کھالو بیٹی۔‘‘ مختار نے دوسرا ہاتھ نازو کے سر پر پھیرا، ’’بس تھوڑا سا کھا لو۔ کل اپنی بیٹی کے لیے ضرور گھی شکر لاؤں گا۔‘‘

’’کہاں سے لائیں گے۔ راشن والا تو نہیں دےگا۔‘‘

’’ہم اپنی بیٹی کے لیے مارکیٹ سے لائیں گے۔‘‘

’’کھا لو بیٹی!‘‘ نجمہ نے پھر چمکارا۔

’’ہاں۔ بیٹی کھا لو۔‘‘ مختار نے پھر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔

’’ابو!‘‘

’’ہاں بیٹی!‘‘

’’آپ راشن والے کے پیسے کیوں نہیں دیتے؟‘‘

نوالہ مختار کے ہاتھ سے چھوٹ کر پلیٹ میں جاگرا اور نجمہ نے کروٹ بدل کر اپنا منہ کھڑکی کی طرف کر لیا۔ جس میں سے پھیلا ہوا آسمان اور اس پر چمکتے ہوئے چاند تارے نظر آ رہے تھے۔ نازو مختار کی گود سے اٹھ کر نجمہ کے پاس گئی، ’’بتائیں امی! کیوں نہیں دیتے ابو راشن والے کے پیسے؟‘‘ نجمہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور نازو کو اپنے سینے سے لگا کر اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ مختار کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ نوالے بنا کر منہ میں رکھنے لگا۔

’’توفیق سے ملے تھے؟‘‘ نجمہ نے نازو کو اپنے پاس پلنگ پر لٹا کر پوچھا۔

’’سیدھا اسی کے پاس تو گیا تھا۔‘‘

’’کیا کہتا تھا؟‘‘

’’بدمعاش ہے!‘‘

نجمہ کی خاموشی کہہ رہی تھی میرے سوال کا جواب نہیں ملا۔

’’بھوکوں مرجاؤں گا مگر اس لفنگے کے پاس ہرگز نہیں جاؤں گا!‘‘

نجمہ کی خاموشی کہہ رہی تھی۔ یہ بھی میرے سوال کا جواب نہیں۔

’’دولت کا نشہ اندھا کر دیتا ہے ان لوگوں کو۔ چربی چڑھ جاتی ہے آنکھوں پر۔ انسانیت گنوا بیٹھتے ہیں!‘‘ دال ختم ہو چکی تھی اور مختار اب روکھے چاول کھا رہا تھا، ’’دوستی کا دعویٰ کیا کرتا تھا کمینہ کہیں کا۔۔۔‘‘ نجمہ کی خاموشی کہہ رہی تھی۔ میرے سوال کا جواب کیوں نہیں دیتے۔

’’اسے کہتے ہیں توتا چشمی۔ ایسے ملا جیسے مجھ سے بات کرکے مجھ پر احسان کر رہا ہے۔۔۔‘‘

نجمہ کو آخر بولنا ہی پڑا، ’’کرائے کے بارے میں کچھ کہا اس نے؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’کیوں؟ تم نے کرائے کی بات نہیں کی؟‘‘

’’موقع ہی نہیں دیا اس نے۔ بدمعاش اپنی باتیں ختم کرتا تب ہی تو کرتا میں کرایے کی بات۔‘‘

کیسی باتیں؟ سوال نجمہ کی زبان پر آکر رہ گیا۔

’’تم فکر نہ کرو۔‘‘ اس نے نجمہ کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، جس پر بے شمار اندیشے گردن جھکائے بیٹھے تھے، ’’میں کرایے کی ایک ایک پائی چکا دوں گا۔ میں مزدوری کروں گا مگر اس کا کرایہ ضرور ادا کروں گا۔ ڈیڑھ سو روپیہ ہوتا ہی کیا ہے۔ ذرا سی دیر میں ادا کر دوں گا۔‘‘ نجمہ نے سرجھکا لیا اور خالی پلیٹ کو دیکھنے لگی۔

’’سمجھ کیا رکھا ہے لفنگے نے۔۔۔‘‘ مختار خالی پلیٹ اور پیالہ اٹھا کر ایک دم کھڑا ہو گیا۔

’’لاؤ میں رکھ آؤں۔‘‘

’’تم بیٹھی رہو۔ میں رکھ آتا ہوں۔‘‘ مختار کمرے میں واپس آیا تو نجمہ ٹانگیں پھیلائے، دیوار سے سر ٹکائے چٹائی کے ٹکڑے پر بیٹھی ہوئی تھی اور نازو پلنگ پر لیٹی کسی نظر نہ آنے والے شخص سے بے صدا گفتگو کر رہی تھی۔

’’کیا سوچ رہی ہو؟‘‘ وہ نجمہ کے پاس چٹائی کے ٹکڑے پر بیٹھ گیا۔

’’کچھ بھی نہیں۔‘‘ نجمہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔ پھر تھوڑی دیر بعد اس نے پوچھا، ’’تم کب ملے تھے اس سے؟‘‘

’’صبح سیدھا اسی کے ہاں تو گیا تھا۔‘‘

نجمہ چپ ہو گئی۔

’’کیوں؟‘‘

’’وہ آج پھر یہاں آیا تھا۔‘‘

مختار کے جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا۔

’’کون۔۔۔؟ توفیق۔۔۔؟ کب آیا تھا؟‘‘

’’شام کو۔‘‘ نجمہ کی آواز میں قبر کا سا سکون تھا۔

’’کیوں گھسنے دیا تم نے اسے گھر میں۔ نکال دیا ہوتا باہر بدمعاش کو!‘‘

’’میں تو شروع سے کہتی تھی کہ یہ آدمی مجھے پسند نہیں۔ اس کا آنا جانا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ تم ہی اس کے گن گایا کرتے تھے۔ دوست آدمی ہے۔ ایسا ہے۔ ویسا ہے۔‘‘ نجمہ کی آواز میں سوکھے پتوں کی کھڑکھڑاہٹ آ گئی تھی۔

’’مجھے کیا معلوم تھا۔‘‘

’’پر میں جو کہا کرتی تھی۔‘‘

مختار چپ ہو گیا۔

’’اس وقت اس کا پلہ بھاری ہے۔ جب تک کرایہ ادا نہ ہو جائے ہمیں دبنا ہی پڑےگا۔‘‘ نجمہ کی آواز میں اب پھر قبر کا سکون تھا۔ مختار نے دھیمی آواز میں پوچھا، ’’کیا کہہ رہا تھا؟‘‘ نجمہ جواب دینے سے پہلے لمحے بھر رکی، ’’کہہ رہا تھا کل تک کرایہ ادانہ ہوا تو فلیٹ خالی کروا لےگا۔‘‘

’’جھوٹا کہیں کا۔ مجھ سے کہا تین دن مہلت اور دیتا ہوں اور تم سے کہہ گیا۔۔۔‘‘

’’اس کا پلہ بھاری ہے۔‘‘ نجمہ نے جیسے مختار کو یاد دلایا، ’’وہ جھوٹ بول کر بھی کھرا بنا رہےگا۔ کور تو ہماری دب رہی ہے۔‘‘

’’دیکھتا ہوں کیسے فلیٹ خالی کرواتا ہے!‘‘

نجمہ کے ہونٹوں پر ایک بے جان ہنسی پھیل گئی، ’’دو آدمی لے آئےگا اپنے ساتھ اور پلنگ اور بکس اٹھوا کر سڑک پر پھنکوا دےگا۔ ایک دو کا نہیں چھ مہینے کا کرایہ ہے۔ دیکھنے والے بھی اسی کی سی کہیں گے۔ تماشہ بننا منطور ہے؟‘‘

’’مگر کل تک کرایے کا انتظام کیسے ہو سکےگا؟‘‘مختار نے گویا اپنے آپ سے پوچھا۔

’’اور تین دن بعد بھی کرایے کا انتظام کیسے ہو سکےگا؟‘‘

مختار بھڑک اٹھا، ’’ہم کہیں جھونپڑی ڈال لیں گے۔ فٹ پاتھ پر رہ لیں گے۔ مگر۔۔۔ مگر۔۔۔‘‘ نجمہ کی آنکھیں پوچھ رہی تھیں۔ سچ۔۔۔؟ اس نے سنبھل سنبھل کر کہنا شروع کیا، ’’وہ لوگ کہتے ہیں یہاں پیٹ کسی نہ کسی طرح بھرا جا سکتا ہے۔ بدن ڈھانپا جا سکتا ہے۔ مگر سر چھپانےکی جگہ ڈھونڈنا بےکار ہے۔‘‘

مختار کچھ دیر چٹائی کے ٹکڑے پر سر جھکائے خاموش بیٹھا رہا۔ پھر جاکر دوسرے پلنگ پر لیٹ گیا۔ وہ کروٹ کے بل لیٹا ہوا تھا۔ اس کا ایک ہاتھ تکیے کے نیچے تھا۔ دوسرا پلنگ سے نیچے لٹک رہا تھا اور اس کی آنکھیں فرش پر جمی ہوئی تھیں۔ فرش کے پھول پتوں کو گھورتے گھورتے اس کی نظر یں اخباری کاغذ کے ایک ٹکرے کی طرف بھٹک گئیں جو پلنگ کے پائے کے پاس پڑا تھا۔ پہلے تو اس نے اسی طرح لیٹے لیٹے کاغذ پر چھپی ہوئی عبارت کو پڑھنے کی کوشش کی۔ پھر ہاتھ بڑھا کر کاغذ کے اس ٹکڑے کو اٹھا لیا۔

’’مہاجرین کی آبادکاری ایک سال میں مکمل ہو جائےگی۔‘‘ وزیر بحالیات کا اعلان۔

کراچی۔ ۱۳ دسمبر۔ آج وزیر بحالیات نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو ایک خاص ملاقات کے دوران بتایا کہ حکومت نے مہاجرین کی آبادکاری کی ایک نئی اسکیم مرتب کی ہے جس کے تحت ملک کی ساری مہاجر آبادی ایک سال کے اندر اندر۔۔۔ پوری خبر پڑھے بغیر مختار نے کاغذ کے ٹکڑے کو الٹ کر دیکھا۔ دوسری طرف کسی نظم کے چند بند چھپے ہوئے تھے جن میں اس مصرع کی تکرار تھی۔۔۔ بہاروں کا مسکن ہے میرا وطن۔ اس نے کاغذ کے ٹکڑے کو گنجل کر پلنگ کے نیچے پھینک دیا اور چت ہوکر چھت پر نظریں جما دیں۔ نازو نے یکایک نظر نہ آنے والی شخصیت سے اپنی بےصدا گفتگو کا سلسلہ بند کر دیا اور اٹھ کر بیٹھتے ہوئے بولی، ’’بھوک لگ رہی ہے امی!‘‘ مختار نے نجمہ کو دیکھا جو ابھی تک چٹائی کے ٹکڑے پر بیٹھی ہوئی تھی۔

’’تھوڑے سے چاول باقی ہیں۔‘‘ نجمہ نے کہا۔

’’ہم خالی چاول نہیں کھائیں گے۔‘‘ نازو نے روٹھی آواز میں کہا، ’’ہم تو گھی شکر سے کھائیں گے!‘‘

’’کہہ جو دیا بیٹی گھی شکر نہیں ہے گھر میں۔‘‘ مختار نے کہا۔

’’کہاں سے لائیں تیرے لیے گھی شکر۔ کہہ دیا ایک دفعہ۔‘‘ نجمہ کی جھلائی ہوئی آواز اس کے حلق میں پھنس گئی۔ نازو کا چہرہ لمبا ہوا۔ پھر اس نے رونا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ اوں۔ اوں۔ اوں۔ مختار نے پلنگ پر سے اتر کر اسے گود میں اٹھا لیا۔ وہ روتی جا رہی تھی اور کہتی جا رہی تھی، ’’ہم تو گھی شکر سے کھائیں گے۔ ہم تو گھی شکر سے کھائیں گے۔‘‘ نجمہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔

’’اب بند کرتی ہے یہ رٹ کہ لگاؤں ایک تھپڑ!‘‘ نازو نے رٹ تو بند کردی مگر اس کا رونا جاری رہا۔ اب وہ سسکیاں بھی بھر رہی تھی۔ مختار نے ہاتھ کے اشارے سے نجمہ کو ڈانٹنے سے منع کیا۔ جھلاہٹ گویا ایک قوت تھی جس نے نجمہ کو بیٹھے سے کھڑا کر دیا تھا۔ یہ قوت اس کے بدن سے چلی گئی تو وہ جیسے کمزوری سے مغلوب ہوکر پلنگ پربیٹھی نہیں، گر پڑی۔ نازو نے کنکھیوں سے نجمہ کو دیکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ نجمہ تھوڑی دیر سر جھکائے بیٹھے رہی۔ پھر اس نے یکایک چونک کر کہا، ’’تم اسے باہر لے جاؤ۔‘‘

’’اس وقت؟‘‘مختار کی نظریں اس کی خالی کلائی کی طرف اٹھ گئیں۔

’’ہاں۔ ابو ہم بازار چلیں گے۔‘‘

’’لے بھی جاؤ ورنہ رو رو کر سارا گھر بھر دےگی۔‘‘

’’ہاں ابو، ہمیں بازار لے چلو۔‘‘

’’تم اسے لے ہی جاؤ۔‘‘ نجمہ کی آواز میں فکر اور تھکن ساتھ ساتھ بول رہے تھے۔ مختار نے اس کے چہرے کو ایسی نگاہوں سے، جن میں بہت سے ادھورے سوال تکمیل پا رہے تھے دیکھا اور نازو کو گود میں اٹھائے دروازے کی طرف چل دیا۔ جب وہ قریب قریب دروازے سے باہر نکل گیا تو نجمہ جھپٹ کر پلنگ پر سے اٹھی۔ دروازے تک گئی اور ایسے بولی جیسے اس نے کوئی ارادہ بدل دیا تھا یا اسے کچھ یاد آ گیا تھا۔ یا وہ کچھ بھول جانا چاہتی تھی، ’’جلدی لوٹ آنا۔‘‘ مختار نے مڑکر ایک بار پھر نجمہ کے چہرے کو دیکھا اور قدم اٹھاتا فلیٹ سے باہر چلا گیا۔

’’آخر شہزادی نے شہزادے کی خاطر ایک دن۔۔۔‘‘ مختار جملہ پورا کیے بغیر ٹھٹک گیا۔ اس کی نظریں سامنے والی بلڈنگ کے اس فلیٹ پر جم گئیں جس میں وہ رہتا تھا۔ کسی نے فلیٹ کے کمرے کی روشنی گل کر دی تھی۔ وہ نازو کو بازار کی سیر کرا کے لوٹ رہا تھا۔

’’کیا کیا شہزادی نے؟‘‘ نازو نے، جو اس کی انگلی پکڑے ہوئے تھی، مختار کا ہاتھ ہلا کر پوچھا۔ مختار نے نازو کو گود میں اٹھا لیا۔ وہ فٹ پاتھ پر کھڑا تھا اور اسے سڑک پار کرنی تھی۔ جس پر بےشمار موٹریں، سائیکلیں، گھوڑا گاڑیاں، رکشے اور بسیں دوڑ رہی تھیں۔

’’ابھی بتاتا ہوں‘‘ اس نے سڑک پر قدم رکھتے ہوئے کہا۔ سڑک پار کرتے ہوئے مختار نے سوچا، ’’شاید نیند آرہی ہوگی۔ نجمہ اتنی جلدی سونے کی عادی تو نہیں۔‘‘ ابھی اس نے سڑک کی تین چوتھائی چوڑائی پارکی ہوگی کہ اسے سامنے گلی میں بلڈنگ کے دروازے کے سامنے ایک موٹر کھڑی نظر آئی۔ سڑک پار کرکے دوسرے فٹ پاتھ پر قدم رکھتے ہوئے اس نےسوچا، ’’اسی بدمعاش کی ہے۔ وہی نمبر۔ وہی پچکا ہوا مڈگارڈ۔ وہی کالا رنگ۔۔۔‘‘

’’آئیں ابو کیا کیا شہزادی نے؟‘‘

مختار نے نازو کو گود سے اتار دیا اور اس کا ہاتھ پکڑکر فٹ پاتھ کی گولائی طے کرنے لگا۔ اس کی نظریں بلڈنگ کے دروازے کے سامنے رکی ہوئی موٹر پر سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ ابھی وہ موٹر سے کوئی بیس پچیس گز کے فاصلے پر تھا کہ نجمہ ایک آدمی کے ساتھ بلڈنگ سے باہر آئی۔ آدمی نے بڑھ کر دروازہ کھولا اور نجمہ کار میں بیٹھ گئی تو دروازہ بند کر دیا۔ دوسرا دروازہ کھولا اور خود بھی کار میں بیٹھ گیا۔ کار اسٹارٹ ہوئی اور یہ جا وہ جا۔ پل بھر میں کئی خیالات زن زن کرتے ہوئے مختار کے دماغ میں سے گزر گئے۔ پہلے اس نے سوچا کہ کار کے پیچھے بھاگے۔ پھر اسے خیال آیا کہ وہ دوڑتا ہوا اپنے فلیٹ میں جائے اور پلنگ پر گر کر خوب روئے اور پھر اس نے سوچا کہ وہیں کھڑے کھڑے زور زور سے قہقہے لگائے اور۔۔۔

’’بتاؤ نا ابو کیا کیا شہزادی نے؟‘‘ نازو جو لمحے بھر کے لیے نکڑ کی دکان میں شیشے کی مرتبانوں میں بھری ہوئی انگریزی مٹھائیوں میں کھو گئی تھی، مختار کا ہاتھ ہلا ہلاکر پوچھ رہی تھی۔ اس نے نازو کو پھر سے گود میں اٹھا لیا۔

’’شہزادی نے کہا کہ میرے بدن کا سارا خون نچوڑ کر شہزادے کی رگوں میں دوڑا دو اور اس کی جان بچا لو۔‘‘

’’بابو جی۔‘‘ مختار نے گلی کے دوسرے نکڑ کی جانب دیکھا۔

’’میں نے کہا۔ بابو جی۔‘‘ وہ نازو کو گود میں لیے گلی کی چوڑائی پار کر کے دوسرے نکڑ پر پہنچ گیا، جہاں پان بیڑی سگریٹ کی دوکان تھی۔

’’میں نےکہا پچھلے مہینے کا حساب ابھی تک صاف نہیں ہوا۔ بابو جی۔‘‘ دوکان کی گدی پر بیٹھے ہوئے بڈھے نے شکایت آمیز لہجے میں کہا۔

’’معاف کرنا بڑے میاں۔‘‘ مختار ان چار لفظوں کو تیزی سے ادا کرکے ٹھہر گیا۔ پھر اس نے آہستہ آہستہ دھیمی آواز میں کہا، ’’بہت جلد صاف ہو جائےگا تمہارا حساب۔‘‘

’’کیا کہا بابو جی۔‘‘

’’بہت جلد صاف ہو جائےگا تمہارا حساب۔‘‘

’’ہاں بابو جی۔ تم تو جانو ہو اپنی روجی کا وسیلہ تو یہی دوکان ہے۔‘‘ مختار جانے کے لیے مڑا۔

’’غریب آدمی کے لیے تو تم جانو۔۔۔‘‘ مختار رک کیا۔

’’ایک کیپسٹن کی سگرٹ دینا بڑے میاں۔‘‘ بڈھے نے مشتبہ نظر سے مختار کی طرف دیکھا اور پھر پیکٹ میں سے ایک سگرٹ نکال کر اس کی جانب بڑھا دی۔

’’ماچس!‘‘ مختار نے سگرٹ منہ میں لگاکر کہا۔ بڈھے نے بجلی کے کھمبے سے بندھی ہوئی رسی کی طرف اشارہ کیا جس کا ایک سرا سلگ رہا تھا۔ مختار نے نازو کو گود سے اتارا اور جھک کر رسی کو جھٹکا تو رسی کے سلگتے ہوئے سرے پر سے راکھ جھڑ گئی اور ایک چھوٹا سا نوکدار انگارا بے نقاب ہو گیا۔ مختار نے سگرٹ کو انگارے کی نوک سے ملا کر کش کھینچا تو سگرٹ کا سرا بھی سلگ اٹھا۔

مأخذ : تشنہ فریاد

مصنف:ضمیرالدین احمد

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here