ہندوستان چھوڑ دو

0
229
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

‏’’صاحب مرگیا‘‘، جینت رام نے بازار سے سودے کے ساتھ یہ خبر لاکر دی۔۔۔ ‏

‏’’صاحب! کون صاحب؟‘‘ ‏

‏’’وہ کانڑیا صاحب تھانا۔‘‘ ‏

‏’’او کانا صاحب۔ جیکسن۔۔۔ چہ، بے چارا۔‘‘ میں نے کھڑکی میں سے جھانک کر ‏دیکھا۔ کائی لگی پرانی جگہ جگہ سے کھونڈی بتیسی کی طرح منہدم ہوتی ہوئی دیوار ‏کے اس پار ادھڑے ہوئے سیمنٹ کے چبوترے پر سکھوبائی پیر پسارے بیٹھی مراہٹی ‏زبان میں بین کر رہی تھی۔ اس کے پاس پٹوا کڑوں بیٹھا ہچکیوں سے رو رہا تھا۔ پٹو ‏یعنی پیٹر، کالے گورے میل کا نادر نمونہ، اس کی آنکھیں جیکسن صاحب کی طرح ‏نیلی اور بال بھورے تھے۔ رنگ گندمی تھا جو دھوپ میں جل کر بالکل تانبے جیسا ہو ‏گیا تھا۔ ‏

اسی کھڑکی میں سے میں برسوں سے ایک عجیب و غریب خاندان کو دیکھتی آئی ‏ہوں۔ یہیں بیٹھ کر میری جیکسن سے پہلی مرتبہ بات چیت ہوئی تھی۔ سن بیالیس کا ‏‏’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کا ہنگامہ زوروں پر تھا۔ گرانٹ روڈ سے دادر تک کا سفر ملک ‏کی بے چینی کا ایک مختصر مگر جاندار نمونہ ثابت ہوا تھا۔ منگٹن روڈ کے نالے پر ‏ایک بڑا الاؤ جل رہی تھا۔ جس میں راہ چلتوں کی ٹائیاں ہیٹ اور کبھی موڑ آ جاتا تو ‏پتلونیں اتار کر چلائی جارہی تھیں۔ سین کچھ بچگانہ سہی مگر دلچسپ تھا۔ لچھے دار ‏ٹائیاں نئے طرح دار ہیٹ، استری کی ہوئی پتلونیں بڑی بے دردی سے آگ میں ‏جھونکی جارہی تھیں۔ پھٹے چھیتڑے پہنے آتش باز نئے نئے کپڑوں کی نہایت بے ‏تکلفی سے آگ میں جھونک رہے تھے۔ ایک لمحے کو بھی تو کسی کے دل میں یہ ‏خیال نہیں آ رہا تھا کہ نئی گیبرڈین کی پتلون کو آگ کے منہ میں جھونکنے کے بجائے ‏اپنی ننگی سیاہ ٹانگوں پر ہی چڑھالے۔ ‏

- Advertisement -

اتنے میں ملٹری ٹرک آگئی تھی جس میں سے لال بھبوکا تھوتھنیوں والے گورے ‏ہاتھوں میں مشین گنیں سنبھالے دھمادھم کودنے لگے۔ مجمع ایک دم پھر سے نہ جانے ‏کہاں اڑ گیا تھا۔ میں نے یہ تماشا میونسپل دفتر کے محفوظ احاطے سے دیکھا تھا ‏اورمشین گنیں دیکھ کر میں جلدی سے اپنے دفتر میں گھس گئی تھی۔ ‏

ریل کے ڈبوں میں بھی افراتفری مچی ہوئی تھی۔ بمبئی سنٹرل سے جب ریل چلی تھی ‏تو ڈبہ کی آٹھ سیٹوں میں سے صرف تین سلامت تھیں۔ لوئر پریل تک وہ تینوں بھی ‏اکھیڑ کر کھڑکیوں سے باہر پھینک دی گئیں۔ اور میں راستہ بھر کھڑی دادر آئی۔ ‏مجھے ان چھوکروں پر قطعی کوئی غصہ نہیں آرہا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا یہ ‏ساری ریلیں، یہ ٹائیاں، پتلونیں ہماری نہیں دشمن کی ہیں۔ ان کے ساتھ ہم دشمن کو بھی ‏بھون رہے ہیں۔ اٹھاکر پھینک رہے ہیں۔ میرے گھر کے قریب ہی سڑک کے بیچوں ‏بیچ ٹریفک روکنے کے لیے ایک پیڑ کا لمبا سا گدّھا سڑک پر لمبا لمبا ڈال کر اس ‏پرکوڑے کرکٹ کی اچھی خاصی دیوار کھڑی کردی گئی تھی۔ میں بمشکل اسے ‏پھلانگ کر اپنے فلیٹ کے دروازے تک پہنچی ہی تھی کہ ملٹری ٹرک آگئی۔ اور جو ‏پہلا گورا مشین گن لیے دھم سے کودا تھا۔ وہ جیکسن صاحب ہی تھا۔ ٹرک کی آمد کی ‏خبر سنتے ہی سڑک پر روک باندھنے والا ادھر ادھر بلڈنگوں پر سٹک گیا تھا۔ ‏

میرا فلیٹ چونکہ سب سے نچلی منزل پر تھا لہٰذا بہت سے چھوکرے ایک دم ریلا کر ‏کے گھس آئے۔ کچھ باورچی خانہ میں گھس گئے۔ کچھ غسل خانہ میں اور سنڈاس میں ‏دبک گئے۔ ‏

چونکہ میرا دروازہ کھلا تھا اس لیے جیکسن معہ دو مسلح گوروں کے مجھ سے ‏جواب طلب کرنے آگے آیا۔ ‏

‏’’تمہارے گھر میں بدمعاش چھپے ہیں انہیں ہمارے سپرد کر دو۔‘‘ ‏

‏’’میرے گھر میں تو کوئی نہیں۔ صرف میرے نوکر ہیں‘‘، میں نے بڑی لا پرواہی سے ‏کہا۔ ‏

‏’’کون ہیں تمہارے نوکر؟‘‘ ‏

‏’’یہ تینوں۔۔۔‘‘ میں نے تین آدمیوں کی طرف اشارہ کیا جو برتن کھڑ پڑ کر رہے تھے۔ ‏

‏’’غسل خانہ میں کون ہے؟‘‘ ‏

‏’’میری ساس نہا رہی ہے‘‘، میری ساس نہ جانے اس وقت کہاں ہوں گی۔ ‏

‏’’اور پاخانہ میں‘‘، اس کے چہرے پر کچھ شرارت کی جھپکی آئی۔ ‏

‏’’میری ماں ہوں گی یا شاید بہن ہو۔ مجھے کیا پتہ میں تو ابھی باہر سے آئی ہوں۔‘‘ ‏

‏’’پھر تمہیں کیسے معلوم ہوا غسل خانہ میں تمہاری ساس ہے؟‘‘ ‏

‏’’میں داخل ہوئی تو انہوں نے آواز دے کر تولیہ مانگا تھا۔‘‘ ‏

‏’’ہوں۔۔۔ اچھا اپنی ساس سے کہہ دو سڑک روکنا جرم ہے‘‘، اس نے دبی آواز میں کہا ‏اور اپنے ساتھیوں کو جنہیں وہ باہر کھڑا کر آیا تھا واپس ٹرک میں جانے کو کہا۔ ‏

‏’’ہوں۔۔۔ ہوں ہوں۔‘‘ وہ گردن ہلا کر مسکراتا ہوا چلا گیا۔ اس کی آنکھوں میں پرمعنی ‏جگنو چمک رہے تھے۔ ‏

جیکسن کا بنگلہ میرے احاطے سے ملحقہ زمین پر تھا۔ مغربی رخ پر سمندر تھا۔ اس ‏کی میم صاحب مع دو بچوں کے ان دنوں ہندوستان آئی ہوئی تھی۔ بڑی لڑکی جوان ‏تھی اور چھوٹی بارہ تیرہ برس کی۔ میم صاحب صرف چھٹیوں میں تھوڑے دنوں کے ‏لیے ہندوستان آ جاتی تھی۔ اس کے آتے ہی بنگلہ کا حلیہ بدل جایا کرتا تھا۔ نوکر چاق و ‏چوبند ہو جاتے۔ اندر باہر پتائی جاتی۔ باغ میں نئے گملے مہیا کیے جاتے۔ جو میم ‏صاحب کے جاتے ہی پاس پڑوس کے لوگ چرانا شروع کردیتے۔ کچھ مالی بیج ڈالتا ‏اور دوبارہ جب میم صاحب کی آمد کا غلغلہ مچتا تو صاحب پھر وکٹوریہ گارڈن سے ‏گملے اٹھوا لاتا۔ جتنے دن میم صاحب رہتی نوکر باوردی نظر آتے، صاحب بھی ‏یونیوارم ڈالے رہتا یا نہایت عمدہ ڈریسنگ گاؤں پہنے صاف ستھرے کتوں کے ساتھ ‏پھولوں کا بالکل اس طرح معائنہ کرتا پھرتا گویا وہ سوفی صد صاحب لوگوں میں سے ‏ہے۔ مگر میم صاحب کے جاتے ہی وہ اطمینان کی سانس لے کر دفتر جاتا ڈیوٹی کے ‏بعد نیکر اور بنیان پہنے چبوترے پر کرسی ڈالے بیئر پیا کرتا اور شاید اس کا ڈریسنگ ‏گاؤن اس کا بیرا چرالے جاتا۔ کتے تو میم صاحب کے ساتھ ہی چلے جاتے۔ دو چار ‏ٹیری کتے بنگلے کو یتیم سمجھ کر احاطے میں ڈیرہ ڈال دیتے۔ ‏

میم صاحب جتنے دن رہتی ڈنر پارٹیوں کا زور رہتا۔ اور وہ صبح ہی صبح پنچم سروں ‏میں اپنی آیا کو آواز دیتی۔۔۔ ’’آیو۔ ودو!‘‘ ‏

‏’’جی میم صاحب‘‘، آیا اس کی آواز پر تڑپ کر دوڑتی۔ مگر جب میم صاحب چلی ‏جاتی تو لوگوں کا کہنا تھا بیگم بن بیٹھی تھی۔ وہ اس کی غیر حاضری میں غیوضی ‏بھگتایا کرتی تھی۔ فلومینا اور پٹواسی عارضی راج کے مستقل ثبوت تھے۔ ‏

‏’’کچھ ہندوستان چھوڑ دو‘‘، کا ہنگامہ اور کچھ میم صاحب اکتا گئی تھی۔ اس گندے ‏پچپچاتے ملک اور اس کے باسیوں سے۔ اس لیے وہ جلد ہی وطن سدھار گئی۔ انہیں ‏دنوں پھر میری ملاقات جیکسن سے اسی کھڑکی کے ذریعہ ہوئی۔ تمہارا ساس نہا ‏چکا۔۔۔ اسن نے بمبئی کی زبان میں بد ذاتی سے مسکرا کر پوچھا۔ ‏

‏’’ہاں صاحب۔۔۔ نہا چکا۔۔۔ خون کا غسل کیا اس نے‘‘، میں نے تلخی سے کہا۔ چودہ ‏چودہ برس کے چند بچے کچھ ہی دن پہلے ہری نواس پر جو گولی چلی تھی۔ اس میں ‏مارے گئے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ ان میں کچھ وہی بچے ہوں گے جو اس دن جب ‏ٹرک آگئی تھی تو میرے گھر میں چھپ گئے تھے۔ مجھے صاحب سے گھن آنے لگی ‏تھی۔ برٹش سامراج کا جیتا جاگتا ہتھیار میرے سامنے کھڑا ان بے گناہوں کے خون کا ‏مذاق اڑا رہا تھا جو اس کے ہاتھ سے مارے گئے تھے۔ میرا جی چاہا اس کا منہ نوچ ‏لوں اس کی کونسی آنکھ شیشے کی تھی۔ یہ اندازہ لگانا میرے لیے مشکل تھا کیونکہ ‏وہ شیشے والی آنکھ ولائتی فنکاری کااعلیٰ نمونہ تھی۔ اس میں ساری جیکسن کی سفید ‏قوم کی چالبازی بھری ہوئی تھی۔ احساس برتری کا زہر دونوں ہی آنکھوں میں برابر ‏رچا ہوا تھا۔ میں نے دھڑ سے کھڑکی کے پٹ بند کردیے۔ ‏

مجھے سکھوبائی پر غصہ آتا تھا۔ سور کی بچی سفید قوم کے ذلیل کتے کا تر نوالہ ‏بنی ہوئی تھی۔ کیا خود اس ملک کے کوڑھیوں اور حرامزادوں کی کمی تھی۔ جو وہ ‏ملک کی غیرت کے نیلام پر تل گئی تھی۔ ہر روز جیکسن شراب پی کر اس کی ‏ٹھکائی کرتا۔ ملک میں بڑے بڑے معرکے سرکیے جارہے تھے۔ سفید حاکم بس چار ‏دنوں کے مہمان تھے۔ ‏

‏’’بس اب چل چلاؤ ہے ان کی حکومت کا‘‘، کچھ لوگ کہتے۔ ‏

‏’’اجی یہ شیخ چلی کے خواب ہیں۔ انہیں نکلنا مذاق نہیں‘‘، دوسرے لوگ کہتے اور ‏ملک کے نیتاؤں کی لمبی چوری تقریریں سن کر سوچتی۔ ’’کوئی جیکسن کانے ‏صاحب کا ذکر ہی نہیں کرتا۔ وہ مزے سے سکھو بائی کے جھونٹے پکڑ کر پیٹتا ہے۔ ‏فلومینا او رپٹو کو مارتا ہے۔ جے ہند کے نعرے لگانے والے اس کم بخت کا کچھ ‏فیصلہ کیوں نہیں کرتے۔‘‘ ‏

مگر میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔ پچھواڑے شراب بنتی تھی۔ مجھے ‏معلوم تھا۔ سب کچھ مگر میں کیا کرسکتی تھی۔ سنا تھا کہ اگر ان غنڈوں کی رپورٹ ‏کردو۔ تو یہ جان کے لاگو ہو جاتے ہیں۔ ویسے مجھے یہ بھی تو نہیں معلوم تھا کہ ‏کس سے رپورٹ کروں۔ ساری بلڈنگ کے نل دن رات ٹپکتے تھے۔ موریاں سڑ رہی ‏تھیں۔ مگر مجھے قطعی نہیں معلوم تھا کہ کہاں اور کس سے رپورٹ کی جاتی ہے۔ ‏آس پاس رہنے والوں میں بھی کسی کو نہیں معلوم تھا کہ اگر کوئی بدذات عورت اوپر ‏سے سر پر کوڑے کاٹین الٹ دے تو اس کی کس سے شکایت کرو۔ ایسے موقعوں پر ‏عموماً جس کے سر پر کوڑا گرتا وہ منہ اونچا کرکے کھڑکیوں کو گالیاں دیتا کپڑے ‏جھاڑتا اپنی راہ لیتا۔ ‏

میں نے موقع پاکر ایک دن سکھوبائی کو پکڑا۔ ‏

‏’’کیوں کم بخت! یہ پاجی تمہیں روز پیٹتا ہے تجھے شرم بھی نہیں آتی۔‘‘ ‏

‏’’روج کبھی مارتا بائی؟‘‘ وہ بحث کرنے لگی۔ ‏

‏’’خیر وہ مہینے میں چار پانچ دفعہ تو مارتا ہے نا!‘‘ ‏

‏’’ہاں مارتا ہے بائی۔۔۔ سو ہم بھی سالے کو مارتاہے‘‘، وہ ہنسی۔ ‏

‏’’چل جھوٹی۔‘‘ ‏

‏’’ارے پٹو کا سوگند۔۔۔ ہم تھوڑا مار دیا سالا کو پرسوں؟‘‘ ‏

‏’’مگر تجھے شرم نہیں آتی، یہ سفید چمڑی والے کی جوتیاں سہتی ہے؟‘‘ میں نے ایک ‏سچے وطن پرست کی طرح جوش میں آکر لکچر دے ڈالا۔ ’’ان لٹیروں نے ہمارے ‏ملک کو کتنا لوٹا ہے‘‘، وغیرہ وغیرہ۔ ‏

‏’’ارے بائی کیا بات کرتا تم۔ صاحب سالا کوئی کو نہیں لوٹا۔ یہ جو موالی لوگ ہے نا ‏یہ بیچارا کو دن رات لوٹتا۔ میم صاحب گیا۔ پیچھے سب کٹلری پھٹلری بیرا لوگ پار ‏کردیا۔ اکھا پاٹلون، کوٹ ہیٹ، اتنا فسٹ کلاس جوتا۔۔۔ سب کھتم۔۔۔ دیکھو چل کے بنگلے ‏میں کوچھ بھی نئیں چھوڑا۔ تم کہتا ہے چور ہے صاحب، ہم بولتا ہم نئیں ہووے تو سالا ‏اس کا بوٹی کاٹ کے جاوے اے لوگ۔‘‘ ‏

‏’’مگر تمہیں کیوں اس کا اتنا درد ہے؟‘‘ ‏

‏’’کائیکو نئیں ہووے درد وہ ہمارا مرد ہے نا بائی۔۔۔‘‘ سکھو بائی مسکرائی۔ ‏

‏’’اور میم صاحب؟‘‘ ‏

‏’’میم صاحب سالی پکی چھنال ہاں۔۔۔‘‘ سکھو بائی نے فیصلہ کیا۔ ’’ہم اس کو اچھی ‏طرح جانتا۔۔۔ ہاں۔۔۔ لندین میں اس بوت تار ہے۔‘‘ یہاں سکھو بائی نے موٹی سی گالی ‏دے کر کہا۔ وہیں مری رہتی ہے۔ آتی بھی نئیں، پن آتی تو اکھا دن صاحب سے کھٹ ‏کھٹ۔ نوکر لوگ سے کھٹ کھٹ۔‘‘ ‏

میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اب انگریز ہندوستان سے جا رہے ہیں۔ ‏صاحب بھی چلا جائے گا۔ مگر وہ قطعی نہیں سمجھی۔ یہی کہتی رہی، ’’صاحب ہم کو ‏چھوڑ کے کیا جائے گا۔۔۔ بائی اس کو ہلایت ایک دم پسند نہیں۔‘‘ ‏

کچھ سال کے لیے مجھے پونا رہنا پڑا۔ اس عرصے میں دنیا بدل گئی۔ پھر واقعی ‏انگریز چلے گئے۔ ملک کا بٹوارہ ہوا۔ سفید حاکم پٹی ہوئی چال چل گیا اور ملک خون ‏کی لہروں میں نہا گیا۔ ‏

جب بمبئی واپس آتی تو بنگلہ کا حلیہ بدلا ہوا تھا۔ صاحب نہ جانے کہاں چلا گیا تھا۔ ‏بنگلے میں ایک ریفوجی خاندان آبسا تھا۔ باہر نوکروں کے کوارٹروں میں سے ایک ‏کوٹھڑی میں سکھو بائی رہنے لگی تھی۔ فلومینا خاصی لمبی ہوگئی تھی۔ پٹو اور وہ ‏ماہم کے قریب ایک یتیم خانے میں پڑھنے جاتے تھے۔ ‏

جیسے ہی سکھوبائی کو میرے آنے کی خبر ملی فوراً ہاتھ میں دوچار مونگنے کی ‏پھلیاں لیے آن دھمکی۔ ‏

‏’’کیسا ہے بائی؟‘‘ اس نے رسماً میرے گھٹنے دبا کر پوچھا۔ ‏

‏’’تم کیسا ہے۔۔۔ صاحب کہاں ہے تمہارا؟ چلا گیا نا لندہن۔‘‘ ‏

‏’’نئیں بائی‘‘، سکھوبائی کا منہ سوکھ گیا۔ ’’ہم بولا بھی جانے کو پر نئیں گیا۔‘‘ اس کا ‏نوکری بھی کھلاس ہوگیا تھا۔ آرڈر بھی آیا پر نئیں گیا۔‘‘ پھر وہ گیا کہاں؟‘‘ ‏

‏’’ہسپتال میں!‘‘ ‏

‏’’کیوں کیا ہوگیا؟‘‘ ‏

‏’’ڈاکٹر لوگ بولتا۔۔۔ کہ دارو بہت پیا۔ اس کے کارن مستک پھر گیا۔ ادھر پاگل صاحب ‏کا ہسپتل ہے۔ اچا، ایک دم فرسٹ کلاس ادھر اس کو ڈالا۔ ‏

‏’’مگر وہ تو واپس جانے والا تھا۔‘‘ ‏

‏’’کتنا سب لوگ بولا، ہم بھی بولا۔۔۔ بابا چلا جاؤ‘‘، سکھو بائی رو پڑیں۔ ’’پن نہیں۔ ہم کو ‏بولا سکھو ڈالنگ تیرے کو چھوڑ کر نہیں جائے گا۔‘‘ ‏

نہ جانے سکھو بائی کو روتے دیکھ کر مجھے کیا ہوگیا۔ میں بالکل بھول گئی کہ ‏صاحب ایک غاصب قوم کا فرد ہے جس نے فوج میں بھرتی ہو کر میرے ملک کی ‏غلامی کی زنجیروں کو چوہیرا کر دیا تھا۔ جس نے میرے ہموطن بچوں پر گولیا ‏چلائی تھیں۔ نہتے لوگوں پر مشین گنوں سے آگ برسائی تھی۔ برٹش سامراج کے ان ‏گھناؤنے کل پرزوں میں سے تھا جس نے میرے دیس کے جانبازوں کا خون سڑکوں ‏پر بہایا تھا۔ صرف اس قصور میں کہ وہ اپنا حق مانگتے تھے۔ مگر مجھے اس وقت ‏کچھ یاد نہ رہا۔ سوائے اس کے کہ سکھوبائی کا ’مرد‘ پاگل خانہ میں تھا۔ مجھے اپنے ‏جذباتی ہونے پر بہت دک تھا کیونکہ ایک قوم پرست کو جابر قوم کے ایک فرد سے ‏قطعی کسی قسم کی ہمدردی یا لگاؤ نہ محسوس کرنا چاہیے۔ ‏

میں ہی نہیں سب بھول چکے تھے۔ محلے کے سارے لونڈے نیلی آنکھوں والی فلومینا ‏پر بغیر یہ سوچے سمجھے فدا تھے کہ وہ کیڑا جس سے اس کی ہستی وجود میں آئی ‏سفید تھا یا کالا۔ جب وہ اسکول سے لوٹتی تو کتنی ہی ٹھنڈی سانسیں اس کے جلو میں ‏ہوتیں۔ کتنی ہی نگاہیں اس کے پاؤں تلے بچھائی جاتیں۔ کسی لونڈے کو اس کے عشق ‏میں سردھنتے وقت قطعی یہ یاد نہ رہتا تھا کہ یہ اسی سفید درندے کی لڑکی ہے جس ‏نے ہری نواس کے ناکے پر چودہ برس کے بچے کو خون میں ڈبو مارا تھا۔ جس نے ‏باہم چرچ کے سامنے نہتی عورتوں پر گولیاں چلائی تھیں۔ کیونکہ وہ نعرے لگا رہی ‏تھیں، ’’ہندوستان چھوڑ دو۔‘‘ ‏

جس نے چوپاٹی کی ریت میں جوانوں کا خون نچوڑا تھا اور سکریٹریٹ کے سامنے ‏سوکھے مارے ننگے بھوکے لڑکوں کے جلوس کو مشین گنوں سے درہم برہم کیا تھا۔ ‏وہ سب بھول چکے تھے۔ بس اتنا یاد تھا کہ کندنی گالوں اور نیلی آنکھوں والی ‏چھوکری کی کمر میں غضب کی لچک ہے موٹے موٹے گدرائے ہوئے ہونٹوں کی ‏جنبش میں موتی رلتے ہیں۔ ‏

ایک دن سکھوبائی جھولی میں پرساد لیے بھاگی بھاگی آئی۔ ‏

‏’’ہمارا صاحب آگیا‘‘، ان کی آواز لرز رہی تھی۔ آنکھوں میں موتی چمک رہے تھے۔ ‏کتنا پیار تھا۔ اس لفظ ’ہمارا‘ میں۔ زندگی میں ایک بار کسی کو یوں جی جان کا دم ‏نچوڑ کر اپنا کہنے کا موقعہ مل جائے تو پھر جنم لینے کا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔ ‏

‏’’اچھا ہوگیا؟‘‘ ‏

‏’’ارے بائی پاگل کبھی تھا؟ ایسا یج صاحب لوگ پکڑ کر لے گیا تھا۔ بھاگ آیا۔۔۔‘‘ وہ ‏رازداری کے ہجے میں بولیں۔ ‏

میں ڈر گئی کہ لو بھئی ایک تو ہارا ہوا انگریز اوپر سے پاگل خانہ سے بھاگا ہو۔ کس ‏کو رپورٹ کروں۔ بمبئی کی پولیس کے لفڑے میں کون پڑتا پھرے۔ ہوا کرے پاگل ‏میری بلا سے۔ کون مجھے اس سے میل جول بڑھانا ہے۔ ‏

لیکن میرا خیال غلط نکلا۔ مجھے میل جول بڑھانا پڑا۔ میرے دل میں بھی کھدبد ہو رہی ‏تھی کہ کسی طرح پوچھوں جیکسن انگلستان اپنے بیوی کے پاس کیوں نہیں جاتا۔ بھلا ‏ایسا بھی کوئی انسان ہوگا جو فردوس کو چھوڑ کر یوں ایک کھولی میں پڑا رہے اور ‏ایک دن مجھے موقع مل ہی گیا۔ کچھ دن تک تو وہ کوٹھڑی سے باہر ہی نہ نکلا۔ پھر ‏آہستہ آہستہ نکل کر چوکھٹ پر بیٹھنے لگا۔ وہ سوکھ کر چرخ ہوگیا تھا۔ اس کا رنگ ‏جو پہلے بندر کی طرح لال چقندر تھا جھلس کر کتھی ہوگیا تھا۔ بال سفید ہوگئے تھے۔ ‏چار خانہ کی لنگی باندھے میلا بنیان چڑھائے وہ بالکل ہندوستان کی گلیوں میں ‏گھومتے پرانے گورکھوں جیسا لگتا تھا۔ اس کی نقلی اور اصلی آنکھ میں فرق معلوم ‏ہونے لگا تھا۔ شیشہ تو اب بھی ویسا ہی چمکدار، شفاف اور ’انگریز‘ تھا۔ مگر اصلی ‏آنکھ گدلی بے رونق ہوکر ذرا دب گئی۔ عموماً وہ شیشے والی آنکھ کے بغیر ہی گھوما ‏کرتا تھا۔ ایک دن میں نے کھڑکی میں سے دیکھا تو وہ جامن کے پیڑ کے نیچے کھڑا ‏کھوئے کھوئے انداز میں کبھی زمین سے کوئی کنکر اٹھاتا، اسے بچوں کی طرح ‏دیکھ کر مسکراتا پھر پوری طاقت سے اسے دور پھینک دیتا۔ مجھے دیکھ کر وہ ‏مسکرانے اور سرہلانے لگا۔ ‏

‏’’کیسے طبیعت ہے صاحب؟‘‘ تجسس نے اکسایا تو میں نے پوچھا۔ ‏

‏’’اچھا ہے۔ اچھا ہے‘‘، وہ مسکراکر شکریہ ادا کرنے لگا۔ ‏

میں نے باہر جاکر ادھر ادھر کی باتیں کرنا شروع کیں۔ جلد ہی وہ مجھ سے باتیں ‏کرنے میں بے تکلفی سی محسوس کرنے لگا۔ پھر ایک دن میں نے موقع پاکر کریدنا ‏شروع کیا۔ کئی دن کی جانفشانی کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک شریف زادی کا ‏ناجائز بیٹا تھا۔ اس کے نانا نے ایک کسان کو کچھ روپیہ دے دلا کر پالنے پر راضی ‏کرلیا۔ مگر یہ معاملہ اس صفائی سے کیا گیا کہ اس کسان کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ ‏وہ کس خاندان کا ہے۔ کسان بڑا جابر تھا۔ اس کے کئی بیٹے تھے جو جیکسن کو طرح ‏طرح سے زک پہنچایا کرتے تھے۔ روز پٹائی ہوتی تھی۔ مگر کھانے کو اچھاملتا تھا۔ ‏اس نے بارہ تیرہ برس کی عمر سے بھاگنے کی کوشش کرنا شروع کی۔ تین چار سال ‏کی مستقل کوششوں کے بعد وہ لڑھکتا پڑھکتا دھکے کھاتا لندن پہنچا۔ وہاں اس نے ‏دنیا بھر کے پیشے باری باری اختیار کیے۔ مگر اس عرصہ میں وہ اتنا ڈھیت مکار ‏اور خود سر ہوگیا تھا کہ دودن سے زیادہ کوئی نوکری نہ رہتی۔ ‏

وہ شکل و صورت کاوجہیہ تھا۔ اس لیے لڑکیوں میں کافی ہردلعزیزتھا۔ ڈار تھی اس ‏کی بیوی بڑے نک چڑھے خاندان کی لڑکی تھی۔ کم رو اور کم ظرف بھی تھی۔ اس کا ‏باپ بار سوخ آدمی تھا۔ جیکسن نے سوچا اس خانہ بدوشی کی زندگی میں بڑے ‏جھنجھٹ ہیں۔ آئے دن پولیس اور کچہری سے واسطہ پڑتا ہے۔ کیوں نہ ڈار تھی سے ‏شادی کر کے عاقبت سنوار لی جائے۔ ‏

ڈار تھی اس کے باپ کی بیٹی اس کی دسترس سے باہر تھی وہ اونچی سوسائٹی میں ‏اٹھنے بیٹھنے کی عادی تھی مگر جیکسن کی اس وقت دونوں آنکھیں کھری اصلی ‏تھیں یہ تو جب ڈار تھی سے لڑ کر وہ شراب خانوں کا ہو رہا، وہاں کسی سے مار ‏پیٹ میں آنکھ جاتی رہی۔ جب تک اس کی صرف بڑی بیٹی پیدا ہوئی تھی۔ ‏

‏’’ہاں تم نے ڈار تھی کو کیسے گھیر کر پھانسا۔۔۔؟‘‘ میں نے اور کریدا۔ ‏

‏’’جب میری دونوں آنکھیں سلامت تھیں‘‘، جیکسن مسکرایا۔ ‏

کسی نہ کسی طرح ڈار تھی ہتھے چڑھ گئی۔ کم بخت کنواری بھی نہیں تھی مگر ایسے ‏فیل مچائے کہ باپ کی مخالفت کے باوجود شادی کرلی۔ شاید وہ اپنی شادی سے نا امید ‏ہوچکی تھی اور خود اسکی گھات میں تھی۔ ‏

باپ نے بھی لڑکی کی مجبوریوں کو سمجھ لیا۔ نیز بیوی کے روز روز کے تقاضوں ‏سے مجبور ہوکر اسے ہندوستان بھجوا دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر انگریز ہندوستان ‏کے سر منڈھ دیا جاتا تھا۔ خواہ وہاں وہ جوتے گانٹھتا ہو یہاں آتے ہی صاحب بن بیٹھتا ‏تھا۔ ‏

جیکسن نے حد کردی۔ وہ ہندوستان میں بھی ویسا ہی نکمااور لاابالی ثابت ہوا۔ سب ‏سے بڑی خرابی جو اس میں تھی وہ اس کا چھچھورا پن تھا۔ بجائے صاحب بہادروں ‏کی طرح رعب داب سے رہنے کے وہ نہایت بھونڈے پن سے نیٹو لوگوں میں گھل مل ‏جاتا تھا۔ جب وہ بستی کے علاقے میں جنگلات کے محکمہ میں تعینات ہوا تو وہ کلب ‏کے بجائے نہ جانے کن چنڈوخانوں میں گھومتا پھرتا تھا۔ ‏

آس پاس صرف چند انگریزوں کے بنگلے تھے۔ بدقسمتی سے زیادہ تر لوگ معمر اور ‏بردبار تھے۔ سنسان کلب میں جہاں ہندوستانیوں اور کتوں کو آنے کی اجازت نہ تھی۔ ‏زیادہ تر الو بولا کرتا تھا۔ سب ہی افسروں کی بیویاں اپنے وطن میں رہتی تھیں۔ جب ‏کبھی کسی افسر کی بیوی آتی تو وہ اسے بجائے جنگل میں لانے کے خود چھٹی لے ‏کر شملہ یا نینی تال چلا جاتا۔ پھر بیوی ہندوستان کی غلاظت سے عاجز آکر واپس ‏چلی جاتی۔ اور اس کا صاحب ٹھنڈی آہیں بھرتا بیوی کی حسین یاد لیے لوٹ آتا۔ ‏صاحب لوگ ویسے اپنا کام نیٹو عورتوں سے چلا لیا کرتے تھے۔ اس قسم کے تعلقات ‏سے کسی کا بھی نقصان نہیں ہوتا تھا۔ حساب بھی سستا رہتا تھا۔ ہندوستان کا بھی فائدہ ‏تھا۔ اس میں ایک تو ان سے پیدا ہونے والی اولاد بادامی اور کبھی خاصی گوری پیدا ‏ہوتی تھی، اور پھر ان کے بارسوخ باپ ان کے لیے یتیم خانے اور اسکول بھی کھول ‏دیتے تھے۔ سرکاری خرچہ پر ان کی دوسرے ہندوستان سے بہتر تعلیم و تربیت ہوتی ‏تھی۔ یہ اینگلوانڈین خوش شکل طبقہ انگریزوں سے بس دوسرے نمبر پر تھا۔ لڑکے ‏ریلوے، جنگلات اور نیوی میں بڑی آسانی سے کھپ جاتے تھے۔ جو معمولی شکل ‏کی لڑکیاں ہوتیں انہیں ہندوستانی لڑکیوں کے مقابلے میں بہتر نوکریاں مل جاتیں اور ‏وہ اسکولوں، دفتروں اور ہسپتالوں کی رونق بڑھاتیں۔ جو زیادہ حسین ہوتیں وہ بڑے ‏بڑے شہروں کے مغرب زدہ بازار حسن میں بڑی کامیاب ثابت ہوتی تھیں۔ ‏

جیکسن صاحب جب ہندوستان آیا تو اس میں کانے شخص کے تمام عیب بڑی افراط ‏سے موجود تھے۔ شراب اس کی عادت ثانی بن چکی تھی۔ ہر جگہ اس کی کسی نہ ‏کسی سے چخ چل جاتی اور اس کا تبادلہ ہو جاتا۔ جنگلات سے ہٹا کر اسے پولیس میں ‏بھیج دیا گیا۔ اس کا اسے بہت ملال تھا۔ کیونکہ وہاں ایک پہاڑن پر اس کا بے طرح دل ‏آگیا تھا۔ جبل پور پہنچ کر وہ اسے ضرور بلوالیتا مگر وہاں سے ایک نٹنی سے عشق ‏ہوگیا۔ ایسا شدید عشق کہ اس کی بیوی ساری چھٹیاں نینی تال میں گزار کر واپس چلی ‏گئی اور وہ نہ گیا۔ کام کی زیادتی کا بہانہ کرتا رہا۔ چھٹی نہ ملنے کا عذر کیا۔ مگر ڈار ‏تھی کے ڈیڈی کے کتنے ہی دوست تھے جن کی رسوخ کی وجہ سے اسے زبردستی ‏چھٹی دلوائی گئی۔ جب وہ نینی تال پہنچا تو اس کا دل وہاں قطعی نہ لگا۔ ایک تو ڈار ‏تھی اس کی جدائی میں اس پر بے طرح عاشق ہوگئی تھی اور چاہتی تھی دوبارہ ہنی ‏مون منایا جائے۔ دوسری طرف اسے جیکسن کے طریقہ عشق سے بڑی وحشت ہوتی ‏تھی۔ وہ اتنے دن ہندوستان میں رہ کر بالکل ہی اجنبی ہوچکا تھا۔ پہاڑن اور نٹنی دونوں ‏نے اس کی ہندوستانی پتی ورتا استریوں کی طرح خدمت کرکے اس کا دماغ خراب ‏کردیا تھا۔ ‏

سال میں صرف دو مہینہ کے لیے آنے والی بیوی بالکل اجنبی ہوگئی تھی۔ پھر اس ‏کے سامنے جیکسن کو تکلفات برتنا پڑتے تھے۔ ‏

ایک دن نشہ میں اس نے کچھ پہاڑن اور نٹنی کے اندازِ محبت کا اپنی بیوی سے بھی ‏مطالبہ کر دیا۔ وہ ایسی چراغ پا ہوئی کہ جیکسن کے چھکے چھوٹ گئے۔ اس نے بہت ‏جرح کی بہت کریدا کہ ’’کہیں تم بھی دوسرے بے غیرت اور نیچ انگریزوں کی طرح ‏لوکل عورتوں سے میل جول تو نہیں بڑھانے لگے ہو۔‘‘ جیکسن نے قسمیں کھائیں اور ‏ڈار تھی کے اتنے پیار لیے کہ وہ اس کی پارسائی کی قائل ہوگئی۔ اسے بڑا ترس آیا ‏اور بڑے اصرار سے وہ اسے جبلپور لے آیا۔ مگر وہ وہاں کی مکھیوں اور گرمی ‏سے بوکھلا کر نیم پاگل ہوگئی۔ اور تو سب جھیل جاتی مگر جب اس کے غسل خانے ‏میں دو موئی نکلی تو وہ اسی وقت سامان باندھنے لگی۔ جیکسن نے بہت سمجھایا کہ ‏یہ سانپ نہیں اور کاٹتا بھی نہیں مگر اس نے ایک نہ سنی اور دوسرے دن دہلی چلی ‏گئی۔ ‏

وہاں سے اس نے زور لگا کر اس کا تبادلہ بمبئی کروا دیا۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے ‏جب دوسری جنگ شروع ہو چکی تھی۔ نٹنی کی جدائی اور ڈار تھی کا بمبئی میں ‏مستقل قیام سوہان روح بن گیا۔ سکھوبائی بچوں کی آیا کا ہاتھ بٹانے کے لیے رکھی ‏گئی تھی۔ مگر جب بارش سے جی چھوڑ کر ڈار تھی مع بچوں کے وطن گئی تو ‏جیکسن کی نظر عنایت اس پر پڑی۔ اف کس قدر الجھی ہوئی داستان تھی صاحب کی۔ ‏کیونکہ سکھو بائی اصل میں گنپت ہیڈ بیرے کی رکھیلی عورت تھی وہ اسے پون پل ‏سے پھسلا لایا تھا۔ ویسے بیوی بچوں والا آدمی تھا۔ سکھوبائی اپنی اس نوکری سے ‏جس میں زمین پونچھنے، برتن دھونے کے علاوہ گنپت کے ناز اٹھانا بھی شامل تھا۔ ‏کافی مطمئن تھی۔ ‏

گنپت اسے کبھی اپنے کسی دوست کو بھی ازراہ ِکرم یا قرضہ کے عوض میں دے دیا ‏کرتا تھا۔ مگر بڑی چالاکی سے کہ بہت دن تک سکھوبائی کو بھی پتہ نہ چلا۔ وہ پینے ‏سے تو پہلے ہی کچھ واقف تھی۔ گنپت کی صحبت میں پابندی سے شام کو ٹھرا ‏چڑھانے لگی۔ گنپت گاہک کو اپنی کوٹھڑی میں لے آتا۔ جیکسن کا ڈر تو کسی کو تھا ‏نہیں۔ سب کام کاج چھوڑ کر نوکر مزے سے جوا کھیلتے، ٹھرا پیتے بلکہ سارے ‏شیواجی پارک کے غنڈے ڈار تھی کے جاتے ہی صاحب کے بنگلے پر ٹوٹ پڑتے ‏اور رات گئے تک ہلڑ مچا رہتا۔ ‏

شراب جب خوب چڑھ جاتی ہے تو وہ سکھوبائی کو اس آدمی کے پاس چھوڑ کر ‏کسی بہانے سے چلا جاتا۔ سکھوبائی سمجھتی کہ وہ گنپت کو الو بنارہی ہے اور آہستہ ‏آہستہ وہ صاحب کی خدمت کرتے کرتے بیوی کی عوضی بھی بھگتنے لگی۔ اسی ‏طرح گنپت کے چکر سے چھٹی ملی۔ وہ کم بخت الٹا اس کی ساری تنخواہ اینٹھ لیا کرتا ‏تھا۔ ان ہی دنوں گنپت فوج میں سے بیرے کی حیثیت سے مڈل ایسٹ چلا گیا اور ‏سکھو بائی مستقل میم صاحب کی جگہ جم گئی۔ بس جب چھٹیوں میں میم صاحب آتی ‏تو وہ اپنی کھولی میں منتقل ہوجاتی۔ اور جب وہ اپنی پتلی کوک دار آواز میں۔۔۔ ’’آیو۔ ‏دود۔۔۔‘‘ پکارتیں تو وہ فوراً سب کام چھوڑ چھاڑ کے ’’یس میم صاحب‘‘، کہہ کر لپکتی۔ ‏یوں تو میم صاحب سے سیکھ کر وہ اپنے آپ کو بڑی انگریزی دان سمجھنے لگی ‏تھی۔ انگریزی زبان میں یس۔ نو۔ ڈیم فول، سوآین کے سوا اور ہے ہی کیا؟‘‘ ‏

حاکموں کا ان چند الفاظ میں ہی کام نکل جاتا ہے۔ لمبے چورے ادبی جملوں کی ‏ضرورت نہیں پڑتی۔ تانگہ کے گھوڑے کو ٹخ ٹخ اور چابک کی زبان ہی کافی ہوتی ‏ہے۔ مگر سکھو بائی کایہ نہیں معلوم تھا کہ انگریزی کی گاڑی میں جتا ہوا مریل ‏گھوڑا الف ہو کر گاڑی لوٹ چکا تھا اور اب اس کی لگا میں دوسرے ہاتھوں میں ‏تھیں اس کی دنیا بڑی محدود تھی وہ خود اس کے دو بچے اور اس کا ’مرد‘۔ ‏

جب میم صاحب ہندوستان آیا کرتی تھی۔ جب بھی سکھو بائی بری فراخدلی سے ‏عیوضی چھوڑ کر پھر نینی کے ساتھ نیچے کام کرنے لگتی۔ اسے میم صاحب سے ‏قطعی کوئی حسد نہیں تھا۔ میم صاحب مغربی حسن کا نمونہ ہو تو ہو۔ ہندوستانی معیار ‏حسن کے ترازو میں اسے تولا جاتا تو جواب صفر ملتا۔ اس کی جلد کھرچے ہوئے ‏شلغم کی طرح کچی کچی تھی۔ جیسے اسے پوری طرح پکنے سے پہلے ڈال سے توڑ ‏لیا گیا ہو۔ یا ٹھنڈی بے جان اندھیری قبر میں برسوں دفن رکھنے کے بعد نکالا ہو۔ اس ‏کے چھدرے میلی چاندی کے رنگ کے بال بالکل بوڑھیوں کے بالوں کی طرح لگتے ‏تھے۔ اس لیے سکھوبائی کے درجے کے لوگ اسے بڑھیا سمجھتے تھے یا پھر ‏سورج مکھی جسے ہندوستان میں بڑا قابل رحم سمجھا جاتا ہے۔ جب وہ منھ دھوئے ‏ہوتی تو اس کی پنسل سے بنائی ہوئی بھنویں غائب ہوتیں۔ چہرہ ایسا معلوم ہوتا گویا ‏کسی نے تصویر کو سستے ربڑ سے بگاڑ دیا ہو۔ ‏

پھر ڈار تھی سرد تھی، اجنبی تھی۔ جیکسن کا وجود اس کے لیے ایک گھناؤنی گالی ‏تھا۔ وہ اپنے کو نہایت بدنصیب اور مظلوم سمجھتی تھی۔ اور شادی کا ناکامیاب بنانے ‏میں حق بجانب تھی۔ خواہ جیکسن کتنے ہی بلند عہدے پر پہنچ جاتا وہ اس پر فخر نہیں ‏کرسکتی تھی، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ یہ سارے عہدے خود ڈار تھی کے باپ کے ‏دلائے ہوئے ہیں جو کسی بھی احمق کو دلا دیے جاتے تو وہ آسمانوں کو چھو لیتا۔ ‏

اس کے برخلاف لکھوبائی اپنی تھی۔۔۔ گرماگرم تھی۔ اس نے پون پل پر الاؤ کی طرح ‏بھڑک کر ہزاروں کے ہاتھ تاپنے کا سامان مہیا کیا تھا۔ وہ گنپت کی رکھیلی تھی جو ‏اسے پرانی قمیض کی طرح دوستوں کو ادھار دے دیا کرتا تھا۔ اس کے لیے جیکسن ‏صاحب دیوتا تھا۔ شرافت کا اوتار تھا۔ اس کے اور گنپت کے پیار کے طریقے میں کتنا ‏فرق تھا، گنپت تو اسے منہ کا مزہ بدلنے کے لیے چبا چبا کر تھوکتا۔ اور صاحب ایک ‏مجبور ضرورت مند کی طرح اسے امرت سمجھتا۔ اس کے پیارمیں ایک بچے جیسی ‏لاچاری تھی۔ ‏

جب انگریز اپنا ٹاٹ پلان لے کر چلے گئے تو وہ نہیں گیا۔ ڈار تھی نے اسے بلانے ‏کے سارے جتن کر ڈالے۔ دھمکیاں دیں مگر اس نے استعفی دے دیا اور نہیں گیا۔ ‏

‏’’صاحب تمہیں اپنے بچے بھی یاد نہیں آتے؟‘‘ میں نے ایک دن اس سے پوچھا۔ ‏

‏’’بہت یاد آتے ہیں۔ فلو شام کو دیر سے آتی ہے او رپٹو لونڈوں کے ساتھ کھیلنے چلا ‏جاتا ہے۔ میں چاہتا ہوں وہ کبھی میرے پاس بھی بیٹھیں‘‘، وہ اڑن گھائیاں بنانے لگا۔ ‏

‏’’پٹو اور فلو مینا نہیں۔ استھر اور لذا‘‘، میں نے بھی ڈھٹائی لادلی۔ ‏

‏’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔‘‘ وہ ہنس کر سر ہلانے لگا۔ ’’پلے صرف کتیا سے مانوس ہوتے ہیں اس ‏کتے کو نہیں پہچانتے جو ان کے وجود میں ساجھے دار ہوتا ہے‘‘، اس نے اپنی اصلی ‏آنکھ مار کر کہا۔ ‏

‏’’یہ جاتا کیوں نہیں یہاں پڑا سڑ رہا ہے۔‘‘ یہ میں ہی نہیں آس پاس کے سب ہی لوگوں ‏کو بے چینی سی ہوتی تھی۔ ‏

‏’’جاسوس ہے، اسے جان بوجھ کر یہاں رکھا گیا ہے تاکہ یہ ملک میں دوبارہ برطانوی ‏راج کو لانے میں مدد دے‘‘ کچھ لوگ یوں بھی سوچتے۔ گلی کے لونڈے جب وہ ‏دکھائی دیتا، یہی پوچھتے۔ ‏

‏’’صاحب ولایت کب جائے گا؟‘‘ ‏

‏’’صاحب کوئٹ انڈیا ہے کونئیں کرتا؟‘‘ ‏

‏’’ہندوستان چھوڑ دو صاحب!‘‘ ‏

‏’’انگریزی چھورا چلا گیا۔‘‘ ‏

‏’’وہ گورا گورا چلا گیا۔‘‘ ‏

‏’’پھر تم کائے کو نہیں جاتا؟ سڑک پر آوارہ گھومنے والے لونڈے اس کے پیچھے ‏دھیری لگاتے آواز کستے۔‘‘ ‏

‏’’ہوں۔۔۔ ہونہوں۔۔۔ جائے گا۔۔۔ جائے گا بابا‘‘، وہ سرہلا کر مسکراتا اورا پنی کھولی میں ‏چلا جاتا۔ ‏

تب مجھے اس کے اوپر بڑا ترس آتا۔ کہاں ہیں دنیا کے رکھوالے جوہر کمزور ملک ‏کو تہذیب سکھاتے پھرتے ہیں۔ ننگوں کو پتلون اور فراکیں پہناتے پھرتے ہیں۔ اپنے ‏سفید خون کی برتری کا ڈھول پیٹتے ہیں۔ ان کا ہی خون ہے جو جیکسن کے روپ میں ‏کتنا ننگا ہوچکا ہے۔ مگر اسے کوئی مشنری ڈھانکنے نہیں آتا۔ ‏

اور جب گلی کے لفنگے تھک ہار کر چلے جاتے تو وہ اپنی کھولی کے سامنے بیٹھ ‏کر بیڑی پیا کرتا۔ اس کی اکلوتی آنکھ دور افق پر اس ملک کی سرحدوں کو تلاش ‏کرتی جہاں نہ کوئی گورا ہے۔ نہ کالا نہ کوئی زبردستی جا سکتا ہے۔ نہ آسکتا ہے اور ‏نہ وہاں بدکار مائیں اپنے ناجائز بچوں کو تیری میری چوکھٹ پر جن کو خود اپنی ‏باوقار دنیا بسا لیتی ہیں۔ ‏

سکھوبائی آس پاس کے گھروں میں کمائین کا کام کرتی۔۔۔ اچھا خاصا کما لیتی۔ اس ‏کے علاوہ وہ بانس کی ڈلیاں، میز کرسی وغیرہ بنا لیتی تھی۔ اس ذریعہ سے کچھ ‏آمدنی ہو جاتی۔ جیکسن بھی اگر نشے میں نہ ہوتا تو الٹی سیدھی بے پیندے کی ‏ٹوکریاں بنایا کرتا۔ شام کو سکھوبائی اس کے لیے ایک ٹھرے کا ادھا لا دیتی جو وہ ‏فوراً چڑھا جاتا اور پھر اس سے لڑنے لگتا۔ ایک رات اس نے نہ جانے کہاں سے ‏ٹھرے کی پوری بوتل حاصل کرلی اور ساری رات پیتا رہا۔ صبح دم وہیں کھولی کے ‏آگے پڑ کر سوگیا۔ فلومینا اور پٹو اس کے اوپر سے پھلانگ کر اسکول چلے گئے۔ ‏سکھوبائی بھی تھوڑی دیر اسے گالیاں دے کر چلی گئی۔ دوپہر تک وہ وہیں پڑا رہا۔ ‏شام کو جب بچے آئے تو وہ دیوار سے پیٹھ لگائے بیٹھا تھا۔ اسے شدید بخار تھا جو ‏دوسرے دن بڑھ کر سرسام کی صورت اختیار کر گیا۔ ‏

ساری رات وہ نہ جانے کیا بّراتا رہا۔ نہ جانے کسے کسے یاد کرتا رہا، شاید اپنی ماں ‏کو جسے اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جو اس وقت کسی شاندان ضیافت میں شریک ‏‏’اخلاقی اصلاح بندی‘ پر کر رہی ہوگی۔ یا وہ باپ یاد آرہا ہو جس نے نسل چلانے ‏والے سانڈ کی خدمت اداکرنے کے بعد اسے اپنے جسم سے بہی ہوئی غلاظت سے ‏زیادہ اہمیت نہ دی۔ اور جو اس وقت کسی دوسرے محکوم ملک میں بیٹھا قومی اقتدار ‏قائم کرنے کے منصوبے بنا رہا ہوگا۔ یا ڈار تھی کے طعنوں بھرے احسان یاد آرہے ‏تھے۔ جو بے رحم کسان کے ہنٹروں کی طرح ساری عمر اس کے احساسات پر ‏برستے رہے یا شاید وہ گولیاں جو اس کی مشین گن سے نکل کر بے گناہوں کے ‏سینوں کے پار ہوئیں اور آج پلٹ کر اسی کی روح کو ڈس رہی تھیں۔ وہ رات بھر ‏چلاتا رہا سر پٹختا رہا۔ سینے کی دھوکنی چلتی رہی۔ در و دیوار نے پکار پکار کر ‏کہا، ’’تیرا کوئی ملک نہیں۔۔۔ کوئی نسل نہیں۔۔۔ کوئی رنگ نہیں۔‘‘ ‏

‏’’تیرا ملک اور نسل سکھوبائی ہے جس نے تجھے بے پناہ پیار دیا کیونکہ وہ بھی اپنے ‏دیس میں غریب الوطن ہے۔ بالکل تیری طرح۔ ان کروڑوں انسانوں کی طرح جو دنیا ‏کے ہر کونے میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ نہ ان کی ولادت پر شادیانے بجتے ہیں نہ موت پر ‏ماتم ہوتے ہیں!‘‘ ‏

‏’’پوپھٹ رہی تھی۔ ملوں کی چمنیاں دھواں اگل رہی تھیں اور مزدوروں کی قطاروں ‏کو نگل رہی تھیں۔ تھکی ہاری رنڈیاں اپنے رات بھر کے خریداروں کے چنگل سے ‏پنڈا چھڑا کر انہیں رخصت کر رہی تھیں۔ ‏

‏’’ہندوستان چھوڑ۔‘‘ ‏

‏’’کوئٹ انڈیا۔‘‘ ‏

طعن اور نفرت میں ڈوبی آوازیں اس کے ذہن پر ہتھوڑوں کی طرح پڑ رہی تھیں۔ اس ‏نے ایک بار حسرت سے اپنی عورت کی طرف دیکھا جو وہیں پٹی پر سر رکھ کر ‏سوگئی تھی۔ فلو منا رسوئی کے دروازے میں ٹاٹ کے ٹکڑے پر سو رہی تھی۔ پٹو اس ‏کی کمر میں منہ گھسائے پڑا تھا۔ کلیجے میں ایک ہوک سی اٹھی اور اس کی اصلی ‏آنکھ سے ایک آنسو ٹپک کر میلی دری میں جذب ہوگیا۔ ‏

برطانوی راج کی مٹتی ہوئی نشانی ایرک ولیم جیکسن نے ہندوستان چھوڑ دیا۔

مأخذ : بدن کی خوشبو

مصنف:عصمت چغتائی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here