کہانی کی کہانی:یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو دکھی، لاچار اور بھکاری بن کر لوگوں کو ٹھگنے کا کام کرتا ہے۔ اسے ٹیوب ویل کے پاس کھڑا روتا دیکھ کر جب پینے کے لیے پانی اور کھانے کے لیے کھانا دیا گیا تو اسے کچھ راحت ملی تھی۔ بعد میں اس نے بتایا کہ وہ ایودھیا سے بکسر اپنی ماں کا کینسر کا علاج کرانے آیا تھا۔ ماں تو بچ نہیں سکی، اس کا سارا سامان بھی چوری ہو گیا۔ اس پر رحم کھا کر آپا نے اسے اپنی ساری جمع پونجی دے دی تھی۔ واپسی کے لیے جب میں اسٹیشن جا رہا تھا تو میں نے راستے میں دیکھا کہ وہ شخص ایک آدمی کو اپنی وہی رام کہانی سنا رہا تھا۔
گاؤں کی ایک شدید تپتی ہوئی دوپہر کا ذکر ہے۔
میں برسوں بعد سرحد پار اپنے آبائی گاؤں کے نیم پختہ مکان کی ڈیوڑھی کے باہری دروازے پر کھڑا کھانے کے بعد جوٹھے ہاتھ دھو رہا تھا اور میری نظریں ان چوزوں پر جم گئی تھیں جو سیلی زمین پر گرے ہوئے دال چاول کے ٹکڑوں کو چن چن کر بڑی بےصبری سے حلق کے نیچے اتار رہے تھے۔ مرغی بھی دانوں پر لپکتی مگر اپنے حصے کا رزق چھن جانے پر اپنے ہی بچوں کو بڑی بے دردی سے چونچ مارتی اور رگیدتی۔۔۔!
دوسری جانب ذرا فاصلے پر کھڑا گھر کا وفادار کتا، زبان نکالے گرسنہ نگاہوں سے یہ سارا تماشہ دیکھ رہا تھا اور کبھی کبھی اشتہا سے مجبور ہوکر وہ اپنی لمبی زبان کو ہونٹوں پر پھیر لیتا۔ پھر وہ بڑی بے بسی سے بیٹھ کر ٹکڑے کا انتظار کرنے لگا۔ اتنے میں میری نظر نیم کے نسلوں پرانے دیو ہیکل پیڑ کے تنے پر جا کر ٹھہر گئیں جس کی آڑ میں ایک اجنبی کھڑا ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کبھی ٹیوب ویل اور کبھی دانہ چگتے چوزوں کو بڑی حسرت سے دیکھ رہا تھا اور بھوکوں کے اس تکون کے باہر میرا وجود بڑا بے جوڑ اور مضحکہ خیز لگ رہا تھا۔۔۔!
ابھی میں کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ اتنے میں روٹی کا بڑا سا ٹکڑا کتے کو ڈالتے ہوئے آپا کی نظر اس اجنبی شخص پر پڑی۔
’’بےچارہ۔ بھوکا پیاس لگتا ہے۔ پانی پینے کا انتظار کر رہا ہے شاید!‘‘
انہوں نے ٹیوب ویل کی طرف دیکھا جہاں محلے کے ہندو مسلمان لڑکے پانی بھرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے مگر بے بی گلے سے نہانے میں اس قدر مگن تھی کہ اسے کسی بات کا ہوش نہ تھا۔ آپا سے رہا نہ گیا۔
’’اے بےبی، کتنا نہاؤگی۔ چل ہٹ۔ دوسروں کو موقع دے‘‘۔
نانی کی غصہ بھری آواز سن کر وہ بھاگتی ہوئی دوسرے دروازے سے آنگن میں آ گئی اور ڈر کے مارے کچھ دیر دھوپ میں کھڑی رہی۔ تب بچوں نے پہلے اس پیاسے کو اوک سے پانی پلایا۔ میں سگریٹ جلانے کے لیے پیچھے مڑا ۔ آپا مطمئن ہو کر باورچی خانے کی طرف چلی گئیں جہاں رعنا برتن سمیٹ رہی تھی۔
میں سگریٹ کا کش لیتے ہوئے ابھی اس شخص کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے باہر سے سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ دیکھا تو وہی شخص پیٹ پکڑے منہ پر کچھ رکھے بے اختیار زاروقطار رو رہا ہے۔ میں نے پریشان ہو کر پوچھا۔
’’کیا بات ہے؟ کیوں رو رہے ہو؟ کیا تکلیف ہے؟‘‘
مگر وہ روئے چلا جا رہا تھا۔ پھر وہ پیٹ پکڑ کر زمین پر بیٹھ گیا اور کراہنے لگا۔ میں نے آپا کو آواز دی، انہوں نے بدحواس ہو کر کہا، ’’بھیا، اسے اندر لے آؤ۔ جانے کیا تکلیف ہے‘‘۔
میں نے بازو سے پکڑ کر اسے اٹھایا۔ وہ بڑی مشکل سے چل کر ڈیوڑھی میں آیا اور چوکی پر بیٹھ گیا اور سسکیوں سے رونے لگا۔ وہ اپنی تکلیف نہیں بتا رہا تھا جس سے ہماری پریشانی اور بڑھتی جا رہی تھی۔
’’کچھ بولو بھیا، کھانا کھاؤگے؟‘‘ آپا نے دلاسا دیتے ہوئے پوچھا اور جلدی سے جو کچھ بچا تھا، لینے چلی گئیں۔
رعنا پانی کا جگ اور گلاس لے آئی، ’’پیٹ میں مروڑ کے ساتھ بھوک سے درد ہو رہا ہے شاید! کھا لو بھیا، کھا لو‘‘۔انہوں نے سینی اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔ پھر کئی بار کہنے کے بعد وہ کھانا کھانے لگا اور میری نظریں اس کے وجود کا جائزہ لینے لگیں۔
دبلا پتلا، کمزور سا نوجوان جس کے تن پر سرمئی رنگ کا میلا کچیلا کرتا، چھوٹے پائنچے کا مٹیالہ پاجامہ، سر پر بدرنگ سی دو پلی ٹوپی، دھاری دار گمچھا، ستے ہوئے چہرے پر چھوٹی سی خشخشی داڑھی اور آنکھوں میں اداسی کا گہرا سناٹا، بھوک اور غربت نے جس سے جوانی کا سارا کس بل چھین کے جینے کے لیے صرف آنسو دے دیے تھے جسے بہا بہا کر وہ صرف اوروں کی طرح زندگی جیے جا رہا تھا۔ آپا اسے پنکھا جھل رہی تھیں۔ رعنا اور اس کے بچے کچھ دیر اسے غور سے دیکھنے کے بعد اسارے میں چلے گئے تھے۔ایک سوگوار سی خاموشی کچھ دیر پھیلی رہی۔ میری نظریں اس کے وجود پر جمی تھیں اور ذہن سوچ رہا تھا کہ آدھی صدی بیت جانے کے بعد بھی یہاں کے ایک طبقے کو بھوک اور افلاس سے چھٹکارا نہیں ملا۔ سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا میں چھوڑ کر گیا تھا بلکہ اب تو جان کی قیمت بھی نہیں رہی، آئے دن دنگا فساد!
کھانے کے بعد وہ ذرا پرسکون نظر آیا۔
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ میں نے اسے بولنے پر آمادہ کرنا چاہا۔
’’عبدل نام ہیخ‘‘۔
’’اتنا کیوں رو رہے تھے؟‘‘
’’پانی پیتے ہی پیٹ میں مروڑ اٹھا تھا نا۔ تین دن سے کچھ کھایا بھی نہیں تھا اور اماں کی یاد آ گئی تھی۔۔۔‘‘
’’اماں کی یاد؟ یعنی۔۔۔؟‘‘
’’میں اپنی اماں کا علاج کرانے ایودھیا سے بکسر آیا۔ وہ کینسر کی مریضہ تھیں۔ کسی نے بتایا تھا کہ یہاں اچھا اور سستا علاج ہوتا ہے۔ چند دن دوا دارو کے بعد وہ کچھ ٹھیک ہورہی تھیں مگر اچانک جانے کیا ہوا کہ ایک رات وہ ہم کو چھوڑکر چلی گئیں۔ میں بہت رویا پیٹا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان کی میت کو ایودھیا کیسے لے جاؤں۔ پیسے ختم ہو چکے تھے۔ کہاں کہاں نہیں علاج کرایا۔ لکھنؤ بھی گئے۔ ابھی علاج چل ہی رہا تھا کہ ایک دن خبر آئی کہ ایودھیا میں بلوائیوں نے میرے محلے کے سارے مسلمانوں کے گھر جلا دیے ہیں اور میرا گھر بھی لوٹ کر آگ لگا دی۔ بیوی کے ساتھ زیادتی کی، پھر اسے مار ڈالا۔ بچے بھاگ کر پڑوس میں چلے گئے تھے اس لیے بچ گئے ورنہ وہ بھی۔۔۔‘‘
وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ میں اس کی بپتا سن رہا تھا مگر میرا ذہن ان واقعات میں الجھ گیا تھا جو سرحد پار کرتے ہوئے میرے قافلے والوں کے ساتھ بھی پیش آئے تھے۔ خاندان کے خاندان قتل کر دیے گئے اور سب کو بےسروسامانی کے عالم میں خالی ہاتھ شعلوں کے درمیان سے جان بچا کر بھاگنا پڑا تھا۔ وقت پھر وہی کچھ دہرا رہا ہے۔ میرادل رونے لگا۔
’’بچے دادی سے بہت مانوس ہیں۔ میں انہیں کیا جواب دوں گا‘‘۔ وہ دیوار کو گھورنے لگا۔
مجھے یوں لگا جیسے وہ دروازے پر بھوکے پیاسے بیٹھے دادی کا انتظار کر رہے ہوں۔ پھر بہت سے بچے میری نظروں کے سامنے آ گئے۔
سب کے چہرے پر وہی اداسی تھی اور ان کی معصوم نظروں کے سامنے لق و دق میدان کی روح فرسا ویرانی۔
وہ بتا رہا تھا، ’’اماں کے کفن دفن کا بندوبست میت کے گرد جمع ہونے والے مقامی لوگوں نے کیا۔ ہندو مسلمان سبھوں نے چندہ دیا۔ پھر وہیں دفنا دیا گیا‘‘۔
اس کے آنسو اب بھی رواں تھے۔ ماں کے بچھڑنے کے غم، بچوں کی جدائی، بیوی کی ہلاکت، بےگھری، بےسروسامانی، خوف، بےیقینی، طویل سفر اور زادراہ کچھ بھی نہیں۔ گویا آنسو ہی اس کا سرمایہ تھے۔ میں اس کے بارے میں سوچ کر اداس ہو گیا۔ شاید ان نوجوانوں کا یہی مقدر ہے!
’’بکسر اسٹیشن پر میں ٹرین کا انتظار کر رہا تھا۔ بڑی بھیڑ تھی بھیا اور طرح طرح کے لباس میں لوگ آ جا رہے تھے جیسے ہندوؤں کا کوئی تہوار ہو‘‘۔
’’لگن کا موسم ہے نا! شادی بیاہ ہوتا ہے، بارات ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں باجے گاجے کے ساتھ جاتی ہے۔ تم یہیں کے ہو، تم کو کچھ نہیں معلوم؟‘‘ میں نے اسے بتایا۔
’’شہر میں یہ سب کہاں ہوتا ہے اب‘‘۔ اس نے انجان بن کر کہا، ’’پھر جب بہت دیر ہو گئی اور گاڑی نہیں آئی تو میں وضو بنانے چلا گیا اور اپنے قریب بیٹھے ہوئے مسافر کو سامان پر نظر رکھنے کے لیے کہہ دیا۔ پھر جب نماز پڑھ کر واپس آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ نہ میرا سامان وہاں موجود تھا اور نہ وہ مسافر۔ بستر بند میں کرائے کے پیسے تھے جسے جیب کتروں کے ڈر سے میں نے جیب میں رکھنے کی بجائے تکیہ کے غلاف میں چھپا رکھا تھا اور ابھی تک ٹکٹ بھی نہیں خریدا تھا۔ خالی جیب اور خالی ذہن میں اسے پورے پلیٹ فارم پر ڈھونڈتا رہا۔ بھوک سے برا حال تھا۔ تھک ہار کر میں اسٹیشن سے باہر آ گیا۔ کافی دور آنے کے بعد جب مجھ سے چلا نہیں جا رہا تھا تو میں تھک کر ایک درخت کے سائے میں سستانے کے لیے بیٹھ گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اب مجھ میں آگے جانے کی ہمت نہ تھی۔ گھر اور بچوں کا خیال ستا رہا تھا، مایوسی بڑھتی جارہی تھی۔ اللہ میری مدد کر، مجھے کسی طرح گھر پہنچا دے، یہی میرے دل کی آواز تھی۔ پھر بہت دیر کے بعد سامان سے لدا ایک ٹرک میرے قریب آکر رکا۔ ڈرائیور پیشاب کرنے کے بعد میرے قریب آیا اور اس نے پوچھا، ’’کہواں جائیےگا بھیا، کاہے رؤت ہووا!‘‘
’’ماں مر گئی ہے۔۔۔!‘‘
’’کونو ٹھکانہ بتاوا۔ ہم تو ہرا کے چھوڑ دئیب‘‘۔
’’ہمارا گھر تو ایودھیا میں ہے۔ مگر کونو ایسے گاؤں پہنچاوا جہاں ٹھکانا مل سکے‘‘۔
اس نے مجھے ٹرک میں بٹھا لیا۔ راستے بھر میری بپتا سنتا اور افسوس کرتا رہا۔ پھر اس نے مجھے اس بستی کے قریب یہ کہہ کر اتار دیا کہ یہاں چند گھر مسلمانوں کے ہیں، تمہیں پناہ مل جائےگی۔ سنا ہے اس بستی میں کوئی پردیسی بھی آیا ہوا ہے‘‘۔
میں نے چونک کر آپا کی طرف دیکھا، ’’اسے یہ کیسے معلوم ہوا۔۔۔؟‘‘
عبدل ہمارے چہرے کی طرف دیکھ کر خاموش رہا۔
آپا نے بتایا، ’’وہ یقیناً اسی دیار کا رہنے والا ہوگا۔ بات یہ ہے بھیا کہ جب کوئی پردیس یا کسی دوسرے شہر سے بہت دنوں بعد آتا ہے تو ایک دوسرے کو خبر ہو جاتی ہے۔ راہ چلتے ہوئے جب ایک گاؤں کے لوگ دوسرے گاؤں والوں سے ملتے ہیں تو کسی نئی بات کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ کسی کو کچھ بتانے یا خبر پھیلانے کی ضرور ت نہیں ہوتی۔ وہ تو خودبخود پھیل جاتی ہے۔ اس میں اتنی حیرانی کی ضرورت نہیں‘‘۔
لیکن ان کی یہ بات سننے کے باوجود بھی مجھے حیرت ہو رہی تھی اور میں ان کے چہرے کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔
وہ مسکراکر کہنے لگیں، ’’تم اپنا بچپن بھول گئے۔ تم بھی تو ایسی باتیں اپنے ہمجولیوں سے سن کر ہمیں بتایا کرتے تھے‘‘۔
’’اچھا۔۔۔‘‘ میں نے کچھ یاد کرتے ہوئے سوچا اور اس گاؤں کی گلیوں میں بھٹکنے لگا جو سب کچھ لٹ جانے اور وقت کی طنابیں کھنچ جانے کے باوجود بھی میرے اندر آباد ہے۔ وہ مکھیاں اڑاتے ہوئے پنکھا جھلنے لگیں۔ عبدل بڑے انہماک سے ہماری باتیں سن رہا تھا۔
’’تمہارے کتنے بچے ہیں؟‘‘ میں نے اس کے چہرے پر قدرے سکون دیکھ کر پوچھا۔
’’دو بچے ہیں۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی‘‘۔ اس نے گہری اداسی سے کہا اور کچھ بےچین سا دکھائی دیا جیسے اب جانا چاہتا ہو۔
آپا نے گہری نظر سے میری طرف دیکھا۔ رعنا خلاف توقع بڑی دیر سے خاموش بیٹھی تھی، اٹھ کر اسارے میں چلی گئی اور اپنی چھوٹی بیٹی بے بی کو جو مسلسل شرارت کیے جا رہی تھی ڈانٹنے لگی۔
آپا کا مطلب سمجھ کر میں نے جیب سے کچھ روپے نکالے اور اسے دیتے ہوئے پوچھا، ’’کرائے اور سفری خرچ کے لیے کم تو نہیں ہوں گے؟‘‘
اس نے جھجکتے ہوئے میر ی طرف دیکھا۔
’’لے لو بھیا، لے لو۔ شرمانے کی ضرورت نہیں۔ آخر تم گھر کیسے جاؤگے۔ بچے انتظار کر رہے ہوں گے‘‘۔
’’ہاں ٹھیک ہے‘‘۔ جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو۔
روپے جیب میں رکھتے ہوئے عبدل جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ اس کے چہرے پر اطمینان دیکھ کر مجھے خوشی ہو رہی تھی اور آپا میرے جذبہ ترحم اور نیکی سے نہال ہو رہی تھیں۔ وہ نیم کے سائے سے گزر کر گلی کی نرم دھوپ میں بائیں جانب مڑ گیا۔ آپا اسے جاتا ہوا دیکھ کر دعائیں دے رہی تھیں۔
’’ماموں آنگن میں آ جائیے۔ دھوپ جا چکی ہے، اچھی ہوا چل رہی ہے‘‘۔ رعنا نے آنگن میں چھڑکاؤ کر کے چارپائی بچھاتے ہوئے آواز لگائی میں سگریٹ جلا کر کچھ سوچنے لگا تھا۔
’’ارے ماموں زیادہ مت سوچیے۔ اس گھر میں ایسے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔ سارے دکھیاروں کو بس یہی گھر نظر آتا ہے۔ ہماری اماں کے دم سے یہ رونق ہے نا ماموں’’۔ وہ کھلکھلاکر ہنسنے لگی اور کن انکھیوں سے آپا کو دیکھا۔
انہوں نے گھڑونچی پر رکھے کورے مٹکے سے ٹھنڈا پانی پیتے ہوئے کٹورے کی اوٹ سے اسے تیز نظروں سے دیکھا اور مسکرا کر رہ گئیں۔ وہ اس کی پیٹ پوچھنی اکلوتی بیٹی تھی جو منہ لگی اور تیز طرار بھی تھی۔
’’کیا مطلب ہے تمہار؟‘‘ میں نے اس کی خاص ہنسی میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔
’’رہنے دیں ماموں۔ اماں ناراض ہو رہی ہیں‘‘۔
’’کیوں؟ مجھے تو بتاؤ‘‘۔
’’ارے ماموں کیا کیا بتائیں۔ چلیے آپ کہتے ہیں تو بس ایک بات سن لیجئے۔ ابھی کچھ دن پہلے ایک انگوٹھی والے بابا آئے تھے۔ انہوں نے اپنی ساری انگلیوں میں یہ بڑے بڑے پتھر پہن رکھے تھے۔ بڑے بڑے بال، لمبا جبہ پہنے ، ڈراؤنی شکل، سر پر ہری پگڑی، ننگے پاؤں، ہاتھ میں ڈنڈا۔ ایسی ہی بھری دوپہر یا تھی۔ پہلے انہوں نے پیٹ بھر کھانا کھایا۔ پھر لمبی ڈکار لے کر اپنی تھیلی میں سے قسم قسم کے پتھر نکال کر سب کی خاصیت بتائی۔ اماں کی ہتھیلی کی لکیروں کو دیکھا۔ پھر گھر اور بال بچوں کی قسمت بدل جانے کا یقین دلا کر اماں کی جمع پونجی لے گئے۔ اس دن سے اماں انگوٹھی پہنے گھر کی خوشحالی کا انتظار کر رہی ہیں۔ اس گاؤں میں بجلی تو دن بھر رہتی نہیں، گرمی سے آپ کا برا حال ہے۔ گاؤں والے ساری رات جاگ کر کرنٹ آنے اور موٹر چلاکر ٹیوب ویل سے کھیتوں میں پانی دینے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ پھر بھلا آپ ہی بتائیے کہ ایسی صورت میں بھلا خوشحالی کہاں سے آئےگی۔ گرمی کی شدت سے ہم سب کا برا حال رہتا ہے۔ مکھی مچھروں کی بھرمار ہے۔ اماں دن بھر پنکھا جھلتی ہوئی اچھے دنوں کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔ بھیا کا کام بھی چھوٹ گیا ہے‘‘۔
آپ کی سادگی اور نیک دلی پر اسے ہنسی آگئی۔
’’بزرگوں کی شان میں ایسا نہیں کہتے‘‘۔ آپا نے برا مناتے ہوئے ٹوکا۔
’’میری اماں سچ مچ بڑی بھولی ہیں ماموں۔ یہ نہیں جانتیں کہ دنیا کتنی بدل گئی ہے، دھوکہ ، فریب عام سی بات ہے۔ سب کے آنسو سچ نہیں بولتے‘‘۔
’’اچھا اچھا عاقلہ بوا، اپنی بکواس بند کر۔ اللہ تو دیکھ رہا ہے نا! کوئی کسی کی قسمت تھوڑے ہی لے جائےگا‘‘۔ انہوں نے زچ ہوکر کہا اور وضو بنانے چلی گئیں۔
میں رعنا کی باتیں سن کر سوچ میں پڑ گیا۔ اس کے ذہن میں یہ بات کیسے آئی۔ کیا واقعی آنسو۔
آپا عصر کی نماز سے فارغ ہوکر عبدل کے لیے بڑی دیر تک دعا مانگتی رہیں۔ ان کے لفظوں کی ہلکی ہلکی گونج میرے کانوں کی راہ دل میں اتر رہی تھی اور ذہن کے وسوسے دور ہو رہے تھے۔ مصلے سے اٹھ کر انہوں نے میرے سر پر پھونک ماری۔ پیشانی کو چوما اور میری واپسی کے دن انگلیوں پر گنتے ہوئے روہانسی ہو گئیں۔ میرا دل ان کے پیار سے بھر آیا۔ وہ پاندان لے کر میری چارپائی کی پائنتی بیٹھ گئیں۔
میں لیٹا، کھلے آسمان کو دیکھ رہا تھا، بادل اڑے جا رہے تھے۔ وہ پان لگاتے ہوئے رقت بھری آواز میں میرے طویل سفر کے بارے میں پوچھنے لگیں۔ لمحے ٹھہر گئے تھے۔ میں بھاری دل کے ساتھ ان کی ایک ایک بات کا جواب دیتا رہا۔ اس رات میں ٹھیک سے سو نہیں سکا۔ دن بھر کے واقعات ستاتے رہے۔
صبح سے ہی گھر میں چہل پہل اور غمگین اداسی تھی۔ خاندان کے لوگ اور پڑوسی الوداعی ملاقات کے لیے آجارہے تھے۔ سب کی آنکھوں میں جدائی کے آنسو تھے۔ میں بوجھل قدموں سے ملنے والوں کو گلے لگا کر دوبارہ آنے کا وعدہ کر رہا تھا۔ آپا اور رعنا کو تسلی دے رہا تھا۔ دل کی عجیب کیفیت تھی۔ آنے کی خوشی سے جانے کا غم کتنا بڑا ہوتا ہے۔ گھر کے چند افراد مجھے اسٹیشن چھوڑنے آئے۔ پلیٹ فارم پر بڑی بھیڑ تھی۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں پردیس واپس جانے والوں کو رخصت کرنے کے لیے لوگ جمع تھے۔ سب کے چہرے اداس تھے اور اپنوں کی آنکھوں سے جدائی کے آنسو رواں تھے۔ عجیب رقت آمیز منظر دکھائی دے رہا تھا۔ اتنے میں اسی بھیڑ میں میری نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو ذرا فاصلے پر، گڑگڑاکر کسی پردیسی کو اپنی بپتا سنا رہا تھا۔ اس کی پشت میری جانب تھی مگر آواز مانوس سی لگ رہی تھی۔ میرے ذہن میں اسے دیکھنے کا تجسس پیدا ہوا۔ دوسرے ہی لمحے ایک اور خیال نے پوری شدت سے میرے ذہن کو جکڑ لیا۔ کہیں یہ وہی شخص تو نہیں جس کی مدد میں نے کی تھی۔ مگر شاید نہیں۔ وہ تو اپنے بچوں کو گلے لگا کر دلاسا دے رہا ہوگا۔ ابھی میں اتنا ہی سوچ پایا تھا کہ وہ پردیسی سے رقم لے کر پلٹا۔ ہماری نگاہیں چار ہوئیں۔ میں ہکا بکا اسے دیکھنے لگا۔ وہ ٹھٹھکا۔ رعنا کی باتیں ایک دم میرے کانوں میں گونج اٹھیں۔ میرا جی چاہا کہ میں بڑھ کر اس کا گریبان پکڑ لوں۔ اتنے میں عجیب انداز سے بھیڑ کو چیرتا ہوا وہ میری جانب بڑی تیزی سے لپکا اور پھر میرے پاؤں پر گر پڑا۔
مصنف:احمد زین الدین