اندھیری گلیاں

0
188
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’گھر سے بھاگے دو محبت کرنے والوں کی کہانی، وہ رات کی تاریکی میں گلیوں کی خاک چھانتے اور ان پلوں کو یاد کرتے ہوئے جنہوں نے انہیں اس مقام پر لا کھڑا کیا تھا، اسٹیشن کی طرف چلے جا رہے تھے۔ بستی پیچھے چھوٹ گئی تھی اور اسٹیشن قریب تھا۔ مگر تبھی انہیں ایک ہوٹل کے سامنے کچھ نوجوان گھیر لیتے ہیں۔ وہ عاشق لڑکے کی بری طرح پٹائی کرتے ہیں اور لڑکی کو اپنے ساتھ اٹھاکر لے جاتے ہیں۔‘‘

گھر سے نکل کر جب وہ سرین محلہ کے ماسٹر تارا سنگھ چوک پر پہنچے تو بجلی کی روشنیاں بجھ گئیں، اور ایک ہیبت ناک اور موت کے تصور سے زیادہ گہرا اندھیرا چھاگیا اور جانے کس گلی کے موڑ پر محلے کا چوکیدار اپنی کرخت، سخت اور دہلادینے والی آواز سے چنگھاڑا، ’’خبردار۔۔۔! خبردار ہو!‘‘

کملیش کا دل یوں دھڑکاجیسے کوئی بھٹکا ہوا، درخت کا پتا ہوا کے تند جھونکے سے زمین سے اٹھ کر راہ گیر کی ٹانگوں سے جاچمٹے۔ ساگر نے اس کی کمر میں اپنا بازو ڈال دیا اور آہستہ سے پوچھا، ’’میرے ارادوں میں جرأت بھرنے والی آج تنہائی کی ہلکی سی چیخ سے خوف کھاگئی! کیوں؟‘‘ کملیش کچھ نہ بولی۔ ساگر نے اس کا چہرہ اپنی طرف گھمادیا۔

’’کملیش!‘‘

’’جی!‘‘

- Advertisement -

’’بس دو گلیاں اور ہیں ان کے بعد ایک لمبی سڑک ہے، جو سٹیشن کی طرف جاتی ہے۔‘‘

’’بہت دور ہے اسٹیشن؟‘‘

’’بس اتنا جتنا میونسپلٹی سے تمہار گھر تک فاصلہ ہے۔‘‘

’’ہمار گھر تو۔۔۔ آہ!‘‘وہ لڑکھڑائی اور نالی کے سرے پر منھ کے بل گری۔

’’چچ۔۔۔!‘‘

’’ہائے۔۔۔‘‘ کملیش گھٹنا پکڑ کر بیٹھ گئی۔ ساگر اسے اٹھاتے ہوئے بولا، ’’آہستہ بولو کوئی سن لے گا تو جان بچانی مشکل ہوجائے گی۔‘‘

’’آہ یہ کہنی یوں دکھ رہی ہے جیسے۔۔۔ دیکھو دیکھو خون معلوم ہوتا ہے۔ آہ میں کیا کروں۔۔۔ آہ!‘‘

’’آہستہ کراہو کملیش! بچی مت بنو۔‘‘

’’ہا۔ تم گرپڑتے تو میں دیکھتی کہ۔۔۔‘‘ وہ رونے لگی۔

’’آہستہ آہستہ روؤ۔ اٹھو میں تمہیں سہارا دیتا ہوں۔ پرلی گلی میں سے کسی کے آنے کی چاپ سنائی دے رہی ہے۔ لوسنو، گلی کے فرش پر ڈانڈ کھڑک رہی ہے۔‘‘

کملیش سارا درد بھول کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ ساگر نے بازوؤں کا سہارا دیا۔ وہ چلی تو اسے گھٹنے کے قریب یوں محسوس ہوا جیسے اس میں کوئی اتارا ہوا نشتر باہر کھینچا جارہاہو۔ ’’آہ۔۔۔‘‘ اس کی سسکی اور ٹھنڈی سانس اس گہری خاموشی میں اس طرح ابھری اور ڈوبی جیسے کوئی طائر چھپاک سے سرپر سے گزر جائے اور شعور کے خلا میں ایک سنسناہٹ سی دیر تک گونجتی رہے، پھرتی رہے اور مٹتی رہے۔ ہوا ٹھنڈی اور قدرے تیز تھی۔ کملیش کے دانت کٹکٹاجاتے تھے۔ دونوں نے چیسٹر پہن رکھے تھے۔ چھاتی اور گلے کے بٹن اچھی طرح بند کر رکھے تھے۔ لیکن پھر بھی یہ سردیوں کی خنک ہوا جانے کدھر سے اندر گھس جاتی تھی کہ دلوں کے اندر سہمی سہمی آرزوؤں کو منجمد کر رہی تھی۔ انھیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ان کے دلوں میں برف سی گھسی جارہی ہے، اور یہ راستہ جو پہلے کبھی پرخطر اور طویل نہ تھا، آج اچانک بدل گیا تھا۔

گھر سے نکلتے ہی اس کی ہیئت میں ایک ہیبت سی بھر گئی تھی، اور ایک ایسا ہول جو پہلے کبھی نہ تھا، آس پاس کے اونچے اور پست مکانات گلی پر بھوتوں کے سائے بن کر چھکے ہوئے تھے۔ گلی کی سطح پر جہاں پہلے کبھی کوئی نشیب دکھائی نہ دیا تھا، اب اس پر چلتے ہوئے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اگر انہوں نے سنبھال کر قدم نہ رکھے تو وہ منہ کے بل جاگریں گے۔ اپنے آگے نظر نہ آنے والے اندھیرے میں بے شمار گڑھے بکھرے ہوئے معلوم ہوتے تھے، اور جیسے ان گڑھوں میں سازشیں تھیں، گھاتیں تھیں۔ دکھائی نہ دینے والے بھالے جن کا قدم قدم پر جسم میں اترجانے کاامکان تھااور کچھ کھٹکے ایسے بھی تھے جو کملیش کے دل میں تزلزل سا بھر رہے تھے۔ اور ان آہنی ارادوں میں جن پر اسے بھروسہ تھا، اعتماد تھا، آج اچانک گداز پیداہو رہا تھا، اور ایک ایسا بھی احساس ہو رہا تھا جیسے مجرم ساگر تھا۔ وہ نہ تھی۔

وہ تو ایک نہ بول سکنے والی بھیڑ تھی جسے زبردستی کھینچا جارہاہو۔ اس میں ترغیب تھی نہ دعوت، کوئی خیال نہ چکاچوند، ایک مری ہوئی خاموش، سرد اور جھلسی ہوئی نعش! وہ اپنے تصور سے کانپ گئی اور ساگر کے بازو کو پکڑ کر یوں رک گئی، جیسے چلتی ہوئی مشین میں سے کسی نے قوت کا تار کھینچ لیا ہو۔ اور ساگر نے اپنے گردوپیش اندھیرے کو گھورا، اور اس کے برف کی مانند سر، ماتھے اور گال پر ہاتھ پھیر کر بولا، ’’کیا ہے کملیش!‘‘

کملیش کاجی چاہا، روکر اس سے لپٹ جائے۔ اور چیخ چیخ کر کہے۔۔۔ مجھے واپس لے چلو۔ میں واپس جانا چاہتی ہوں۔ آگے بڑھنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔ اس اندھیرے کی ہوا کی تیز سانسوں میں مجھے اپنے باپ کے کھانسنے کی آوازیں اور ماں کی پکاریں سنائی دیتی ہیں۔۔۔ لیکن وہ ایک بے زبان کی مانند سر اٹھاکر کھڑی ہوگئی۔۔۔ خاموش اور بجلی کے کھمبے کی طرح ساکن اور منجمد! ساگر نے اسے کاندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ دیااور وہ سچ مچ روپڑی۔

’’چپ کیوں ہو؟ کیسا خوف ہے، جو تمہیں بولنے دیتا ہے نہ چلنے۔‘‘

’’میرا دل گھبرا رہا ہے۔‘‘

وہ ہنس پڑا۔ ’’تو یہ کم بخت دل ہی تمہیں پریشان کیے ہوئے ہے! لیکن یہ ہے کہاں؟ تم تو کتیا تھیں کہ وہ تم نے مجھے دے دیا ہے۔ لاؤ دیکھوں تو۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے جھوٹ بولا تھا۔‘‘ ساگر نے ہنستے ہوئے اسے بازوؤں پر اٹھالیا اور آگے بڑھتے ہوئے کہا، ’’آئے ہائے۔۔۔ مجھے یہ پہلے کیوں نہ معلوم ہوا کہ تمہارا جسم پھول کی طرح ہلکا ہے۔ یہ پھول جو ایک عرصے سے میرے دماغ کو معطر کر رہا ہے۔ اور میرے خیالوں میں ایک تعطر، گہرائی، خوش ذوقی اور ایک آگ بھر رہا ہے۔ کملیش، میں نے تمہیں آگ کہا ہے۔‘‘

’’تو مجھ سے الگ ہوجاؤ۔ یہ آگ کہیں تمہیں جلانہ ڈالے۔‘‘

’’نہیں یہ آگ ٹھنڈی ہے۔ اس کے شعلوں میں ایک میٹھی راحت اور ابدی سکون ہے۔ اس کے پاس آتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک کڑوی جدوجہد کے بعد کچھ سکون سا میسر ہوگیا ہے۔ تمہاری آنکھوں، ہونٹوں اور بالوں میں ایک ایسی کشش ہے کہ میں تم سے دور نہیں جاسکتا۔ تمہاری آنکھیں دیکھ کر مجھے ندیم کی شاعری پھیکی اور فراق کافلسفہ بے جان نظر آتا ہے۔ اور جب کبھی کبھی تمہارے سپید اور حسین ماتھے پر تیور آجاتے ہیں تو مجھے مخمور کی’’عورت کی بغاوت‘‘ کسی بچے کی ضد معلوم ہونے لگتی ہے۔ تمہارے تصور ہی میں ایک ایسی دعوت اور ترغیب ہے کہ میں رشتے کاٹنے پر مجبور ہوجاتا ہوں۔‘‘

کملیش نے اپنا سر اس کے سینے پر رکھ دیا اور بولی، ’’مجھے اتار دو۔ تھک جاؤ گے۔‘‘

’’ابھی سستانے کامقام نہیں آیا۔ میرے ارادوں میں تھکاوٹ اس دن پیدا ہوگی جب تمہیں گھر کی یاد ستائے گی۔ اور مجھے مجبور کروگی کہ تمیں ے گھر چھوڑ آؤں لیکن گھر ہمارے لیے اس وقت تک تنگ ہے جب تک ہمیں سوچنے اور سمجھنے کی آزادی نہیں دی جاتی۔‘‘

’’گھر کی بات کرتے ہو؟‘‘

’’ہاں اس گھر کی جس کے خیال سے تمہاری روح کانپ رہی ہے۔‘‘

’’میری روح کی بھی ایک ہی کہی۔۔۔ یہ سڑیل اس وقت بھی کانپنے لگی تھی۔ جب میں نے تمہیں پہلی بار کالج کے تالاب میں نہاتے ہوئے دیکھا تھا۔ کمر پر ایک زخم کا نشان تھا نا!‘‘

’’ہاں، لیکن اب وہ اپنی جگہ سے ہٹ کر ایک اور جگہ آگیا ہے۔‘‘

’’تمہارا مطلب دل سے ہوگا!‘‘ اس کی آواز میں ایک شوخی گھلی ہوئی تھی۔

’’ہاں۔ تمہیں غالباً پہلے بتایا ہوا ہے۔‘‘

’’نہیں۔۔۔ ایسے نشان ہر مرد کے دل پر ہیں اور چلتے پھرتے۔۔۔ عورتوں کو دیکھ کر دن میں ہزار بار پڑتے اور مٹتے ہیں۔‘‘

’’لیکن اس دل پر تو تمہارے کاٹنے کے نشان ہیں جو بہت گہرے ہیں۔‘‘

’’کاٹنے کے۔۔۔؟ تم نے مجھے کیا سمجھ رکھا ہے۔‘‘

’’ایک ایسی جنس، جو نگاہوں سے کاٹتی ہے۔ اور ان نگاہوں میں زہر ہوتا ہے۔ ترغیب کا زہر۔۔۔ آمادگی کاایک ایساجذبہ جو سامنے آتے ہی سر سے پاؤں تک چھاجاتا ہے۔‘‘

’’ہٹو مجھے اتاردو۔ یہ جھوٹا الزام ہے۔‘‘ وہ اس کے بازوؤں سے کود گئی۔ اور ساگر نے چلتے چلتے اس کا گال نوچ لیا۔ وہ اس کے ہاتھ کومروڑتے ہوئے بولی، ’’مجھ میں کوئی زہر وہر نہیں اور نہ مجھے کسی کی شاعری سے منسوب کیا کرو۔‘‘

’’ہا۔۔۔ چچ! یوں نہ کہو۔ تمہارے بغیر شاعری کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ تم ہو تو شاعری کے دم خم ہیں اور یہ دل ہے، غم ہے، درد ہے، چوٹ ہے، تلاش اور ٹھوکریں، قتل اور خون اور جنگ۔۔۔ دنیا کی جب سب سے پہلے جنگ ہوئی ہوگی تووہ تمہاری وجہ سے ہوئی ہوگی۔ عورت کا وجود ہی جنگ کے لیے ہوتا ہے۔ یہ نہ رہے تو یہ جنگ ختم ہوجاتی ہے۔ جنگ کامقصد ختم ہوجاتا ہے۔ جنگ کانام ختم ہوجاتاہے۔ اس کی ضروریات اور فرمائشیں ہی مرد کی جدوجہد کاآغاز کرتی ہیں۔ بنانے والے نے بنانے سے پہلے جب اس کاتصور کیا ہوگا، تو وہ اپنے حسین خیال پر جھوم اٹھا ہوگا۔ اور وہ حسین خیال آج ان گنت خیالوں اور خوابوں کا مرکزبنا ہوا ہے۔ یہ خیال صدیوں کا پرانا ہے اگرچہ اس سے گریز کرنے کے لیے لاکھوں مشنریوں اور بے شمار کتابوں کی امداد حاصل کی گئی لیکن یہ جنگ نہ ٹلی۔ خودکشی کاجذبہ نہ گیا، تلاش اور فرار کی آرزو شکست نہ ہوئی۔‘‘

’’ساگر!‘‘

ساگر کی باتیں خاموشی کے سمندر میں لہروں کے گیتوں سے مشابہ تھیں۔ یہ گیت ترنم اور بہت گہرے تھے۔ کملیش کاجی چاہا کہ راستے میں کہیں بیٹھ جائیں۔ ساگر کی باتوں سے اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کوئی معمولی لڑکی نہ تھی۔ دنیا کی قدیم تاریخوں میں عورت ہی ہرجگہ موجود رہی تھی۔ اس لیے وہ بجاطور پر فخر کرسکتی تھی۔ لیکن ساگر جو اتنی دیر سے بولتا چلاآرہا تھا، خاموش کیوں نہیں ہوتا۔ کیوں نہ اس سے جواب طلب کرے۔ لیکن اس کی باتیں میٹھی اور دلفریب تھیں۔ اس لیے کچھ نہ بولی۔ اسے نہ ٹوکا۔

اس کے بولنے سے کملیش کے دل میں ایک ایسی امنگ اور خوشی بھر جاتی تھی کہ اسے اپنے آپ میں ایک نیاپن نظر آنے لگتا تھا۔ ساگر اسے سرخ پھول کہہ کراس کے جذبات کو گدگدایا کرتا تھا۔ اور اس کا جی چاہتا تھا کہ پتلی خمیدہ ڈنڈی پر لچکتی ہوئی اپنی پنکھڑیاں سمیٹ کر ایک گہرے اور سات رنگوں والے خیال میں ڈوب جائے۔ اس سات رنگوں والے خیال میں ایک نئی دنیا تھی، نئی زندگی تھی اور نیا ماحول تھا۔ ایک ایسا ماحول جس میں ڈر نہ تھا، فکر نہ تھا، خوف نہ تھا اور باپ۔ اور باپ کی کھانسی اور پھٹکار نہ تھی۔ وہ راستے بھی نئے تھے۔ صاف ہموار اور گھومتے ہوئے اور زندگی کی مانند زندہ اور فروزاں۔۔۔!

اس کا جی چاہتا کبھی ساگر سے پوچھے کہ یہ راستے اور رنگ جو خیالوں میں بنتے اور بگڑتے ہیں، باہر نکل کر اس رنگ و بو کی دنیا میں کیوں نہیں آجاتے۔ کتنی زندگیاں انہی خیالوں میں گم ہیں۔ صدیوں سے ان کی امیدیں اور آرزوئیں منتظر ہیں کہ کبھی کوئی عجوبہ کیوں نہیں ہوجاتا۔ آکاش کی نیلی پہنائیوں میں ڈھکی ہوئی چاندیاں زمین پر بکھر جائیں۔ شفق کے سونے زمین والوں کو اپنے رنگ میں رنگ دیں۔ اور دنیا کچھ ایسی دنیا بن جائے کہ پہلی دنیا یاد نہ رہے۔ خیالوں میں سے اترجائے اور خوف، ڈر اور تمام رکاوٹیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دب جائیں۔ لیکن ساگر فلسفی تھا۔ اس کی ہربات کاٹتا تھا۔ اس کے ہر سوال کا عجیب ساجواب دیتا تھا۔ اس کی منطق میں ایک ایسی جمالیت اور محویت تھی کہ وہ اپنا سوال اور انکار بھول جاتی تھی۔ اسے اس کی ہر بات تسلیم کرنی پڑتی تھی۔ وہ اس کے آگے ہارکر بیٹھ جاتی تھی۔

گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد جب وہ پھر کالج میں آئی تو اس سے ساگر کے ساتھ آنکھیں نہ ملائی جاسکیں۔ سائنس کی لیبارٹری میں کام کرتے ہوئے اسے ایسا محسو س ہو رہا تھاجیسے سارے ہال میں صرف اسی کا سانس چل رہا تھا۔ اور تو کوئی سانس لیتا بھی نہ تھا۔ وہ بائیں طرف سر اٹھاتی تو پروفیسر ڈی ڈی کی نگاہیں لگی ہوئی تھیں۔ دائیں جانب شرارتی لڑکے شیشے کی ٹیوبیں توڑ رہے تھے۔ اور سامنے ساگر تھا، ساگر کی آنکھیں تھیں، ساگر کے ہاتھ تھے اور ساگر کاخاکی گارنش کلرسوٹ تھا اور تازہ خون سے مشابہ سرخ بوتی۔۔۔ وہ نگاہ اٹھاتی تو اس کے ہاتھ کانپ جاتے تھے۔ جیسے ساگراس کاامتحان لے رہاتھا، اور وہ اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لیے انگلیوں سے کام لے رہی تھی۔

وہ انگلیاں، جو گردن، سر، بازو، کمر اور ٹانگوں پربار بار پہنچ کر کھجانے لگتی تھیں۔ یہ احساس کی کھجلی تھی۔ ایک ایسی ذہنی کوفت تھی جو اسے تمام اپرٹیس توڑ پھوڑ کر باہر بھاگ جانے پر مجبور کر رہی تھی۔ اور اس کاسبب صرف اتنا تھا کہ پہاڑ پر سے واپس آکر چھٹیوں کے بعد اس نے اپنے جانے پہچانے ساگر کو نمستے نہ کہی تھی۔ یا ایسی نگاہوں سے تاکانہ تھا جن کا مطلب ’’ہیلو‘‘ سے لیا جاسکے۔ اور اب وہ چھپنا چاہتی تھی۔ ساگر کی نگاہوں سے بچنا چاہتی تھی۔ لیکن جب وہ ہاتھ دھونے کے لیے ٹب کی طرف چلی تو ساگر نے اسے جالیا۔ اور اس کے لیے پانی کی ٹونٹی کھولتے ہوئے بولا، ’’نمستے کملیش کماری۔‘‘

’’نمستے!‘‘ ۔۔۔ وہ نمستے کہتے ہوئے بھی شرماگئی، اور اسے یوں محسوس ہوا جیسے کانوں پر کسی نے گرم گرم انگارے رکھ دیے ہوں۔ وہ صابن کے جھاگ میں زور زور سے انگلیاں رگڑنے لگی۔

’’کل شانتا کہہ رہی تھی کہ تم پہاڑ پر سے واپس آگئی ہو۔ اور میں سارا دن تمہارا انتظار کرتا رہا کہ چھٹی کے آخری ہی دن پکنک کا کوئی پروگرام بن جائے۔ لیکن تم تو جیسے ان تینوں مہینوں میں سب کچھ بھول چکی ہو۔۔۔ کبھی ساگر کا بھی خیال آتا رہا؟‘‘

’’ہاں وہ ساگر جو مجھ سے ملے بغیر اپنے نانا کے ہاں پارا چنار چلا گیا تھا۔‘‘

’’ارے تم اس ساگر کو پہچانتی ہو!‘‘

’’جی! خوب پہچانتی ہوں۔‘‘

’’اس ساگر کو وہاں ایک دن بھی قرار نہ آیا۔‘‘

’’اور میں اس خوف سے مرتی رہی کہ کہیں تمہاری بے قراری تمہیں میرے پیچھے پیچھے نہ کھینچ لائے۔ دیکھو سب کی نگاہیں ہم پر لگی ہوئی ہیں۔ مجھے اس بیٹھی ہوئی آنکھ والے لطیف اور موٹے گاؤدی نرنجن سے بہت خوف معلوم ہوتاہے۔‘‘

ساگر نے گھوم کر دیکھا اور بولا، ’’کسی کی پرواہ مت کرو۔‘‘

’’زندگی سے یہ رنج، فکر اور ڈر نکل بھاگے تو روح کو کچھ سکون اور شانتی مل سکے۔‘‘

ساگر ہنسنے لگا۔ بولا، ’’اگر ایسا ہوگیا تو دنیا میں صرف ہیجڑے ہی باقی رہ جائیں گے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’اس لیے کہ ان کے بغیر انسان کا انسان سے رشتہ کٹ جاتا ہے۔ سب ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن جاتے ہیں۔ اس وقت خون میں جکڑے ہوئے رشتے بھی ایک دوسرے کو پہچاننے سے انکار کردیں گے۔ اس رنج نے انسانیت اور فکر نے ترقی یافتہ عالم اور ڈورنے بندوق اور توپ کے بعد اٹامک بم ایجاد کرلیا ہے اور ان سب کی بنیاد گوشت پوست کا لوتھڑا۔۔۔ دل ہے۔ یہ دل جو تمہیں میرے قریب لایا ہے!‘‘

یہ کہہ کر ساگر نے اسے منھ بناکر چڑادیا اور باہر نکل گیا۔ اور وہ سوچتی اور مسکراتی رہ گئی۔ لیباریٹری سے باہر آکر ساگر سوچ میں پڑگیا۔ یہ سوچ اچانک پیدا ہوئی اور اسی دم اس کا چہرہ مرجھاگیا۔ اس کے چہرے پر ایک ایسی شدید سنجیدگی کاتاثر لپ گیا کہ دیکھنے والوں کے لیے وہ ساگر نہ رہا۔ بلکہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ اگر اس کے ہاتھ سے کتابیں رکھوادی جائیں تو ہاراہواجواری تھا، یاجیسے گرفتار شدہ بلیک مارکیٹی ہو یا جیسے شرابی کا خمار ٹوٹ گیاہو اور وہ تازہ شراب خریدنے کے لیے خالی جیب ٹٹول رہا ہو۔۔۔ اس نے مڑکر دیکھا لیباریٹری میں کملیش کتابیں کھڑکی پر رکھ کر گردن میں الجھا ہوا ساڑھی کا آنچل درست کر رہی تھی اور دوسری جانب منھ پھیرا تو پروفیسر گھوش لیکچر روم میں داخل ہو رہے تھے۔ وہ جلدی سے پاؤں مارتا ہوا کمرے میں سب سے آخری بنچ پر جابیٹھا اور جب پرفیسر گھوش نے ڈیسک پر کہنیاں رکھ کر تمام طالب علموں کا جائزہ لیا تو اس کی نگاہیں ساگر پر کچھ وقفے کے لیے جم کر رہ گئیں۔ جیسے پوچھ رہی ہوں۔ آج ساگر سب سے پیچھے کیوں ہے۔۔۔؟

کملیش کا یہ پیریڈ خالی تھا، اسے اب یقیناً گھر چلے جانا تھا۔ وہ گھر چلی گئی ہوگی۔ اس نے منہ پھیرا۔ کالج کا صحن خاموش اور خالی تھااور یوں معلوم ہوتاتھا جیسے ابھی ابھی کوئی گزر کر لائبری کی دیوار کے ساتھ ساتھ گھوم گیا ہو۔ اور پروفیسر کے کھانسنے کی آواز آئی جیسے وہ اپنا لکچر شروع کرنے والا ہو۔ ساگر نے ایک بار سر اٹھاکر پروفیرے کی طرف دیکھا اور پھر سرجھکاکر بیٹھ گیا۔ اس کے دماغ میں بے شمار خیالات چکر لگارہے تھے۔ الٹے سیدھے خیالات جو سر رکھتے تھے نہ پاؤں۔ بے ہنگم سے، آوارہ سے اور بے ربط سے! اس کا جی چاہتا تھا۔ اٹھ کر پروفیسر کے گلے سے لپٹ جائے اور اسے بے اختیار چومنے لگے اور محبت بھرے لہجے میں پوچھے۔۔۔ عورت کے جب لب کپکپاتے ہیں، جب وہ آنکھیں ملانے سے گریزاں نظر آتی ہے، جب وہ ملنے سے احتراز کرتی ہے اور جب وہ خوف اور ڈر کا مظاہرہ کرتی ہے تو اس وقت اس کی دلی کیفیتوں کا پس منظر کیا ہوتا ہے۔

کیا عورت کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ اسے چاندی کا چمکتا ہواکپ سمجھ کر میدان سے یا گھر سے یا گلیوں میں سے۔۔۔ جیتا جائے، مانگا جائے یا چھینا جائے۔ کیا عورت مرد کی دلی مسرتوں کا مستی بھرا نغمہ نہیں۔ جو اس کے ہونٹوں پر سطح بحر کی لہروں کی مانند کبھی کبھی تھر تھراتا ہے۔ انسانی زندگی میں وہ لمحے کتنے ہیں جو حقیقی خوشی کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ بہت کم اور۔۔۔ شاذ! ان لمحوں کا وجود عورت سے شروع ہوتا ہے۔ عورت کے خیال سے ہوتا ہے اور عورت کی امید سے ہوتا ہے۔ دولت یا جائداد سے نہیں! اور یہی عورت آج سماج کے اندر ایک ٹھیکری، اخبار، برف اور تازہ پالش کی ہوئی نیلام گھر کی کرسی کی طرح بے قیمت، مایوس اور سرد پڑی ہے، ٹھوکریں کھارہی ہے اور جی رہی ہے۔ توڑی اور پھوڑی جارہی ہے، اور چل رہی ہے۔ اسے گھروں، گلیوں، بازاروں اور سڑکوں، کلبوں اور سٹیجوں سے اوپر کیوں نہیں اٹھا دیا جاتا۔ اس کامقام بلند ہونا چاہیے۔ ہمارے خیالوں اور ارادوں سے بھی بہت اونچا۔ وہاں ہونا چاہیے جہاں سات رنگ ایک دوسرے کے بہت قریب آجاتے ہیں جنہیں ہم دیکھ سکتے ہیں، گندے اور ناپاک ہاتھوں سے چھو نہیں سکتے۔ بہت تنگ نظر اور جلد فنا ہوجانے والے ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو عورت کو بازارمیں چل سکنے والاسکہ یا احساسات کی کھجلی کانام دیتے ہیں۔۔۔!

پروفیسر نے کمپنی کی تاریخ زور سے ڈیسک پر پٹخ دی اور ساگر کے پاس آکر بولا، ’’تمہارا ذہن کدھر ہے؟۔۔۔ تم کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ ساگر گھبراکر اٹھ کھڑا ہوا اور کتابیں اٹھاکر بولا، ’’میرے سر میں سخت درد ہے جناب! مجھے غیر حاضر رہنے کی اجازت دیجیے۔‘‘

پروفیسر گھوش نے اسے گھور کر دیکھا اور کہا، ’’اچھا جاؤ۔‘‘ اور اگلی قطار میں بیٹھے ہوئے نرنجن نے مسکراکر لطیف کو آنکھ ماری اور ساگر شکریہ کہہ کر باہر نکل آیا۔ دفتر کے باہر پروفیسر شرما اور لیباریٹری اسسٹنٹ کھڑے ہنس رہے تھے۔ اور لگن لعل بولچندانی جو ہرسال کالج کی ’’ڈی بیٹ‘‘ میں فرسٹ آتا تھا، ڈاکیے سے منی آرڈر پر آئے ہوئے روپے گن رہا تھا۔ ساگر سائیکل شیڈ میں جاگھسا اور دیکھا کہ انیسواں نمبر خالی تھا۔ کملیش اپنا سائیکل اٹھاکر چلی گئی تھی۔ اس نے اپناسائیکل نکالا اور کتابیں کیرئر پر سپرنگ کے نیچے رکھیں تو گدی کے نیچے کوئی کاغذ چرمر چرمر بولا۔ اس نے ہاتھ مارا تو یہ ولیم پیچٹ کے ناول Cries from the Shadows کا ایک ورق تھا۔ اس ورق پر فریچی کے تاریخی عزم کا ذکر تھا۔ جب وہ اپنے محبوب کرٹس کی اس خواہش کو ٹھکرادیتی ہے کہ وہ رات پچھلا پہر اس کے ساتھ گھر سے باہر آکر اس سامنے نظر آنے والے باغ میں گزاردے جہاں چاند اپنی ٹھنڈی اور میٹھی چاندنی برسا رہاتھا۔ لیکن فریچی نے اسے جھڑک دیا کہ کل اگر اس نے لارنس کو شکست دے دی تو وہ میدانِ جنگ ہی میں اس کے ساتھ ہمیشہ کے لیے وابستہ ہوجائے گی۔ یہ کہہ کر اس نے کھڑکی بند کردی اور کرٹس اپنی تلوار کی دھار پر انگلیاں پھیرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔

ساگر یہ ورق دیکھ کر مسکرایا اور اسے تہ کرکے جیب میں رکھ لیا۔ آج شام کو پولیس گراؤنڈ میں ہاکی کا میچ تھا اور ولیم پیچٹ کے ناول کا یہ ورق کملیش کے وہاں ملنے کا پیغام دیتا تھا۔ ملنے کی دعوت دیتا تھا۔ اور انتظار کی وہ گھڑیاں بخشتا تھا جو ساگر کے پاس پہلے ہی بہت کافی تھیں۔ لیکن اب کے یہ گھڑیاں اس قدر طویل ہوئیں کہ ساگر کو تازہ پالش کیے ہوئے بوٹ اور پریس کی ہوئی دورنگی یونیفارم بوجھل سی معلوم ہونے لگی۔ وہ بار بار کھڑکی سے جھانک جھانک کر دیکھتا اور بڑا بڑاتا کہ نہ جانے مجید اور ذاکر کو کیا ہوگیا تھا۔ شاید وہ اکیلے ہی گراؤنڈ میں چلے گئے ہوں گے۔ لیکن انہیں آناضرور چاہیے تھا۔ وہ اکیلے کبھی نہ جاتے تھے۔ وہ با بار ہاکی کے بلیڈ پر ایسی نگاہ ڈالتا جیسے آج وہ کسی بہت بڑے مقابلے میں شریک ہو رہا ہو اور مقابلے کے لیے اسے کوئی بہت قیمتی انعام ملنے والا ہو۔ جیسے وہ ہاکی کے میدان میں نہیں بلکہ اگلے وقتوں کے کسی راجہ کی سوئمبر سبھا میں شجاعت کاجوہر دکھانے جارہا ہو۔

جب تماشائیوں کے پرشور آواز نے۔۔۔ ہرا ساگر۔۔۔! شاباش ذاکر۔۔۔ بک اپ مجید اور موہن سنگھ جاملو۔۔۔ اور تالیاں اور پھر شور۔۔۔ ایک قیامت کاشور۔۔۔ گول گول گول۔۔۔! اور فضا میں ناچتی ہوئی۔۔۔ سیٹیاں تھم گئیں اور ایک طویل وسل بجی اور کھلاڑی آگے پیچھے دوقطاروں میں جڑگئے۔ اور ایک صاحب نے جو پوشاک اور کا نسنے اور دیکھنے کے انداز سے کوئی حاکم اعلی ٰمعلوم ہوتے تھے، باری باری سب کو انعامات تقسیم کردیے اور ساگر چاندی کا چمکتا ہوا ایک بہت بڑا کپ اٹھائے دوستوں کے گھیرے سے باہر نکلا تو کملیش اس کا سائیکل اٹھائے ایک طرف کھڑی گھنٹی ٹنٹنارہی تھی اور اسے دیکھتے ہی ایک لطیف اور پیاری مسکراہٹ اس کے پتلے پتلے ہونٹوں پر نمودار ہوئی اور ساگر ادھر ہی لپکا، ’’ہیلو کملیش!‘‘

’’شکر ہے تمہارے دوستوں نے تمہیں مجھے تک پہنچنے کے لیے راستہ دے دیا۔ اور میں نے کہا مبارک ہو!‘‘

’’شکریہ۔۔۔‘‘ وہ ایک طرف درختوں سے گھری ہوئی سڑک پرہولیے۔ کملیش چمکتی ہوئی بولی، ’’میں نے کہا، آج کے میچ میں تو آپ نے کمال کر دیا۔ وہ ہاتھ دکھائے کہ بھئی کیا بات ہے، میں تو دنگ رہ گئی۔‘‘

’میں نے کہا۔۔۔ شکریہ‘‘ ساگر نے اس کی ناچتی ہوئی آنکھوں کو قدرے حیرت سے گھورا۔ اور وہ آنکھیں چراتے ہوئے بولی، ’’لو سنبھالو اپنی سائیکل!‘‘

’’لو پکڑو یہ کپ اور بیٹھ جاؤ آگے!‘‘

کملیش کپ لے کر آگے بیٹھ گئی، اور ساگر سائیکل کو خیالوں کی طرح اڑاتا ہوا شہر سے باہر دور دور تک لیٹے ہوئے سرسبز باغوں کے درمیان لے آیا۔ کملیش نے کپ اچھالتے ہوئے پوچھا، ’’تمہارے پاس ایسے بے شمار انعام ہیں۔ جی نہیں بھرا ابھی۔‘‘

’’سب سے بڑا انعام تو ابھی جیتنا ہے۔‘‘

’’وہ کون سا؟‘‘

’’ہے ایک!‘‘

’’میں بھی تو سنوں۔‘‘

’’بتادوں؟‘‘

’’ہاں!‘‘

’’نہیں بتاتا۔‘‘

’’خیر نہ بتاؤ۔‘‘

’’خیر بتائے دیتا ہوں۔‘‘

’’میں نے کہا۔ میں نہیں سننا چاہتی۔‘‘

’’میں نے کہا تمہیں سننا پڑے گا۔‘‘

’’میں نے کہا میں نہیں سننا چاہتی۔‘‘

’’میں نے کہامیں یہیں چھوڑدوں کا سائیکل کو۔۔۔ لو یہ گیا۔‘‘

کملیش سائیکل کے ہینڈل سے چمٹ کر چلائی، ’’اوئی۔ ہائے۔ مت گرانا۔ لو بس بتادو۔ میں سننے کے لیے تیار ہوں۔۔۔‘‘ اور ساگر نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’اب آئی ہونا سیدھے راستے پر۔ سنو وہ انعام۔۔۔!‘‘

’’ہاں وہ انعام۔۔۔‘‘

’’وہ قیمتی اور خوبصورت انعام۔۔۔ تم ہو!‘‘

کملیش نے سرہلایا، ’’واہ! یہ انعام تو تمہیں ملنے سے رہا۔‘‘

یہ سن کر ساگر نے ریت کاایک ٹیلہ دیکھ کر سائیکل گرادی اور مصنوعی غصے سے بولا، ’’کیوں۔۔۔؟ میں تمہیں چھین کرلے جاؤں گا۔ حریف کے قتلے کردوں گا۔‘‘

کملیش اپنی پسلیاں سنبھالتے سنبھالتے چونک پڑی اور ٹیلے کی پرلی طرف ماتھے پرہاتھ رکھ کر شفق کے سونے میں گھورا۔ پھر یوں گھبراکر ساگر کی طرف دیکھا جیسے انجانے میں کسی نے ڈس لیا ہو۔

’’ساگر!‘‘

’’کیوں کیا ہوا؟‘‘

’’وہ دیکھو!‘‘

’’دیکھ رہا ہوں۔‘‘

’’میرا ماموں ہے۔‘‘

ساگر نے اٹھ کر دیکھا اور ایک ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے کہا، ’’معلوم تو وہی ہوتے ہیں۔‘‘

’’مجھے چھپالو۔ کیا کوئی اوٹ نظر نہیں آتی؟‘‘

’’اس کی کیا ضرورت ہے؟ چھپانی وہ بات چاہیے جسے ہم آئندہ نہ کریں، کیا اب جو کچھ پیش آئے گا، اس کے بعد مجھ سے دور ہوجاؤگی؟‘‘

کملیش نے دونوں ہاتھوں میں منھ چھپالیا اور سسکنے لگی۔

’’انہوں نے ہمیں پہچان لیا ہے۔‘‘

’’نہیں، انہوں نے ہمیں نہیں پہچانا۔ صحیح طور پر پہچانتے تو شاید ادھر نہ آتے۔‘‘

اور کملیش کے ماموں کا سایہ جوں جوں آگے بڑھتا آیا، اس کی سسکیاں بلند ہوتی گئیں۔ اور جب وہ بالکل قریب آگیا تو کملیش ایک طرف سرجھکا کر کھڑی ہوگئی۔ اور اس کے ماموں کے چہرے پر ایک ایسا غیظ و غضب نمودار ہوا کہ دونوں کے سانس رک گئے اور روحیں حلق پر آکر اٹک گئیں۔ اور ایک زناٹے دار تھپڑ ساگر کے منھ پر پڑا۔ ساگر گرتے گرتے سنبھلا۔ اس نے ایک اور تھپڑ اٹھایا۔ کملیش نے کمال بیچارگی اور ملتجی نگاہوں سے ماموں کی طرف دیکھا اور اس کے ماموں کا اٹھایا ہوا ہاتھ گرگیا۔ اور وہ جیسے نفرت بھری پیک پھینکتے ہوئے بولا، ’’مجھے تم سے ایسی امید نہ تھی کہ زمیندار صاحب کا پوتاہمارے گھر ڈاکہ ڈالے گا۔‘‘

اس نے مڑکر کملیش کو ایک دھکا لگایا وہ ریت پر منہ کے بل گرپڑی۔ ریت اس کے منہ، ناک اورآنکھوں میں گھس گئی۔ وہ تھوکنے لگی اور آنکھیں ملنے لگی اور اس کے ماموں نے اسے بازو سے پکڑا اور گھسیٹتا ہوالے چلا۔ ساگر خاموش کھڑا دیکھتا رہا۔ اور کملیش ریت بھری آنکھوں سے مڑ مڑ کر اس طرح دیکھتی گئی جیسے قصاب بھیڑ کوبوچڑخانے کی طرف گھسیٹے لے جارہاہو۔ اور وہ دور ہوتے ہوتے آنکھوں سے بالکل اوجھل ہوگئی۔ اور شام کی سرمئی فضا میں گھروں کو لوٹتے ہوئے ڈھور ڈنگروں کے گلے میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی صدا گونجنے لگی۔ ساگر نے سائیکل اٹھایا اور چاندی کا کپ لڑکھتا ہواٹیلے کے نیچے چلا گیا۔ گھنٹیوں کی صدا میں ایک وحشت ناک اداسی تھی۔ وہ خود بھی اداس تھا۔ ساری فضا ہی اداسی سے بھری ہوئی نظر آتی تھی۔ وہ چل رہا تھااور یوں محسوس ہو رہاتھا جیسے اس کے پاؤں منوں بھاری ہوگئے ہوں۔ جی چاہتاتھا، وہیں بیٹھ جائے۔۔۔ جی چاہتاتھا زور زورسے چلائے۔۔۔ اور جی چاہتا تھا کپڑے پھاڑ کر ننگ دھڑنگ شہر کی طرف بھاگتا ہوا چلا جائے لیکن اس سے کچھ بھی نہ ہوسکا۔

وہ چلتا گیا۔ اپنے آپ کوگھسیٹتا ہوا، اپنی نعش کوخود کاندھوں پر اٹھائے۔۔۔ چہرے اور د ل پر غم کا ایک شدید تاثر لیے۔۔۔ اپنے گھر چلا گیا۔ لیکن وہاں پہنچ کر بھی اسے سکون نصیب نہ ہوا۔ دل کے اندر جیسے ایک آگ سی لگی ہوئی تھی۔ جس کی تپش سے اس کے احساسات جھلسے جارہے تھے۔ بہت رات گئے تک وہ بستر پر کروٹیں بدلتا رہا۔ سوچتارہا۔ کڑھتا رہا اور بل کھاتا رہا۔ معاً کلاک نے دوبجائے اور وہ بستر سے اٹھ کر کرسی پر آبیٹھا۔ بغل کے کمرے میں سے اس کے پتاجی کے خراٹے بھرنے کی آواز آرہی تھی۔ اور یہ آواز اس خاموشی میں یوں معلوم ہوتی تھی، جیسے اس کے احساس پر ہلکی ہلکی ضربیں لگائی جارہی ہوں۔ اس نے اپنے آپ کو کرسی کی پشت پر گرادیا، اور ایک جمائی لی اور گنگنانے لگا

تھا جنوں مجھ کو مگر قابل زنجیر نہ تھا

گنگناتے ہوئے وہ چونک پڑا۔ گلی میں کسی کے چلنے کی آواز آرہی تھی اور پاؤں کی چاپ نزدیک آتے آتے اس کے دروازے پر آکر رک گئی اور اس کا سانس بھی رک گیا کہ جانے ایک لمحہ بعدکون نمودار ہوتا ہے۔ کس کی آواز آتی ہے۔ دروازے پر ایک ہلکی سی ٹھک ہوئی اور اس نے بڑھ کر دروازے کی چٹخنی ہٹالی۔ بھوسلے رنگ کے ایک پتلے کمبل میں لپٹی ہوئی کملیش کھڑی سردی سے دانت کٹکٹارہی تھی اور اسے دیکھ کر ساگر کو یوں محسوس ہواجیسے کسی نے اس کی غلطی معاف کردی ہو۔ اس کادل اور ذہن ایک دم صاف ہوگیا اور اس نے اسے اندر کھینچتے ہوئے پوچھا، ’’معلوم ہوتا ہے تم گھر چھوڑ کر آئی ہو!‘‘

کملیش نے کمبل سے ایک تھیلی نکال کر میز پر پٹخ دی جس میں سے زیورات اور روپوں کے بجنے کی آواز آئی۔ اور وہ مری ہوئی آواز میں بولی، ’’وقت تیزی سے سرک رہا ہے۔ نہ معلوم میرے آنے کے بعد وہاں کیا ہو رہاہوگا۔ کچھ ہوگیا تو وہ سیدھے یہاں آئیں گے۔‘‘

ساگر ایک لمحے کے لیے رکا اور پھر دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ کملیش نے دیورا پر لٹکا ہوا اس کا اوور کوٹ اور فیلٹ اتاری اور تھیلی کوٹ کی جیب میں ڈال دی۔ تھوڑی دیر بعد ساگر نوٹوں کے چند بنڈل اٹھائے ہوئے اندر داخل ہوااور وہ بھی کوٹ میں ڈال دیے اور دونوں باہر نکل آئے۔ باہرہوا چل رہی تھی اور سردی بڑھ رہی تھی۔ کملیش اور دانت کٹکٹانے لگی۔

’’ساگر!‘‘

ساگر نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ پیچھے چھوڑی ہوئی عمارتیں تاروں کی مدھم روشنی میں بہت خوفناک دکھائی دیتی تھیں۔ محلے کے گلی کوچوں سے نکل کر جب وہ سڑک پر آگئے تو انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور ہنس پڑے۔ اس ہنسی میں بے پناہ طنز تھا۔ جیسے وہ اس فرار پر حق بجانب تھے۔ یہ رستہ اختیار کرکے انہوں نے اپنی مصیبتوں اور پابندیوں کے رسے کاٹ ڈالے تھے۔ اور اب وہ مطمئن تھے۔ پیچھے مڑکر انہوں نے پھر دیکھااور پھر ہنسے۔ اور پھر سیدھی جانے والی سڑک کی طرف دیکھا جہاں دور ایک فاصلے پر سٹیشن کی رنگ برنگی بتیاں چمک رہی تھیں۔ اور اچانک کہیں پاس سے بہت سے آدمیوں کے ہنسنے کی آواز آئی۔ دونوں نے گھبراکر ادھر ادھر دیکھا۔ اور سڑک کے پار گرینڈ ہوٹل کے گیٹ کی مدھم روشنی کے ارد گرد چند ینکی منڈلاتے ہوئے دکھائی دیے۔ سڑک پر چلتے چلتے کملیش ساگر کی دوسری طرف آگئی اور اس کا پاؤں ساڑی میں الجھ کر لڑکھڑایا اور ایک ینکی Yankee وہیں سے چیخا۔۔۔

’’ے۔۔۔ ی!‘‘ اور انہوں نے اپنی ٹارچوں کی روشنیاں ان پر پھینکیں۔ ساگر ان روشنیوں کے درمیان غصے سے بل کھارہا تھا اور کملیش نے چکاچوند سے گھبراکر آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھ لیے تھے۔ ساگر بولا، ’’جلدی چلو کملیش۔۔۔! یہ الو کے پٹھے نشے میں بدمست معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ ساگر کے تیز رفتار قدموں کے ساتھ ساتھ کملیش بھاگنے لگی۔۔۔ ٹپ ٹپ ٹپ! اس کا سانس چلنے لگا اور ینکی دوڑکر ان کے سامنے آگئے۔

’’کدھر جانا ہے!‘‘

’’گرلی۔۔۔ راؤنڈ گرلی۔۔۔ بوائے!‘‘

ساگر نے مٹھیاں کس لیں اور اچانک اس کے پیچھے سے گردن پر ایک زبردست مکا پڑا۔ وہ لڑکھڑاکر گرپڑا۔ کملیش کی چیخ نکل گئی۔ اور پھر بے شمار چیخیں نکلیں اور لاتعداد مکے اور گھونسے آزمائے گئے۔ پھر ایک کڑی جدوجہد کے بعد یہ چیخیں رک گئیں۔ کملیش کو وہ ینکی اٹھاکر ہوٹل میں لے گئے اور ساگر زخموں اور درد سے نڈھال ہوکر سڑک کے درمیان گر پڑا۔ اس کی جیب سے تھیلی چھنکتی ہوئی باہر آپڑی، اور اس کا ہاتھ نہایت بے چارگی سے پاس پڑی ہوئی فوجی ٹوپی پر دوچار بار پڑا۔ پھر ایک دھواں دھار شور سااس کے دماغ میں گھس گیا اور اسے دم گھٹتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ فضا میں ایک سکوت تھا، موت تھی اور منجمد کردینے والی ہوا سائیں سائیں کر رہی تھی اور۔۔۔ دور ایک خاص فاصلے پر سٹیشن کی مدھم اور رنگ دار بتیاں ابھی تک چمک رہی تھیں۔

مأخذ : جو عورت ننگی ہے

مصنف:رام لعل

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here