خورشید کی بیٹی کہ جو دھوپوں میں پلی ہے

0
178
Romantic Poetry in Urdu
- Advertisement -

خورشید کی بیٹی کہ جو دھوپوں میں پلی ہے

تہذیب کی دیوار کے سائے میں کھڑی ہے

دھندلا گئے رنجش میں اس آواز کے شیشے

برسوں جو سماعت سے ہم آغوش رہی ہے

اب تک ہے وہی سلسلۂ خانہ خرابی

- Advertisement -

اے عشق ستم پیشہ تری عمر بڑی ہے

ہم آئیں تو غیروں کی طرح بزم میں بیٹھیں

اے صاحب خانہ تری یہ شرط کڑی ہے

ڈسوایا ہے پھنکارتے سانپوں سے بدن کو

تب جا کے یہ اک دولت فن ہاتھ لگی ہے

نقاد کے ہاتھوں میں ہیں تنقید کے تیشے

سہمی ہوئی تخلیق کتابوں میں پڑی ہے

شاعر:زبیر رضوی

مزید غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here