ایک لڑکی سات دیوانے

0
129
Urdu Story Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’یہ ایک سیاسی علامتی کہانی ہے۔ ایک خوبصورت جوان لڑکی ہے جس سے شادی کی غرض سے مختلف قسم کے سات لوگ آتے ہیں۔ آنے والوں میں پنڈت ہے، راجا ہے، افسر ہے، سیٹھ ہے، انقلابی ہے، کسان ہے اور کھدر پوش نوجوان بھی ہے۔ لڑکی سب سے بات چیت کرتی ہے اور آخر میں ایک کو اپنا شوہر منتخب کر لیتی ہے۔ لڑکی کے شوہر کے انتخاب سے تاریکی میں سے ایک ہلکی سی روشنی کی جو کرن پھوٹتی ہے وہ ملک کے آزادی کی کرن ہوتی ہے۔‘‘

لڑکی جوان ہو گئی تھی۔

لوگ کہتے تھے لڑکی خوبصورت ہے، چنچل ہے، طرح دار ہے، دنیا اس کی دیوانی ہے، ہر کوئی اس کی خاطر جان دینے کو تیار ہے۔

ساتھ میں لڑکی گنی بھی تھی۔ پڑھی لکھی تھی۔ دنیا بھر کی زبانیں جانتی تھی۔ ملٹن اور شیلی، ٹیگور اور قاضی نذرالسلام، سبرامنیم بھارتی اور نرالا، جوش اور فیض کی نظمیں اسے زبانی یاد تھیں۔ لنکن اور گیری بالڈی، زدلا اور مارکس، اینجلز اور لینن، گاندھی اور جواہر لال نہرو کی کتابیں پڑھے ہوئے تھی۔ اس کی زبان میں جادو تھا۔ اس کی ایک آواز پر لاکھوں کروڑوں مرنے مارنے کو تیار ہو جاتے تھے۔

جب اس کی پچیسویں سال گرہ قریب آئی تو سب نے کہا کہ اب تو لڑکی کو گھر بسانا چاہیے۔ بچپن کا لاابالی پن کب تک چلےگا۔ دنیا کے لوگ انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں، پچیس برس کی لڑکی کو یونہی واہی تباہی نہیں گھومنا چاہیے۔ آج اس کے ساتھ کل اس کے ساتھ۔ اب تو اسے ایک کو پسند کرکے اسے شریکِ زندگی بنا چاہیے۔

- Advertisement -

ہر سو اعلان ہو گیا کہ لڑکی اپنا شریک زندگی چنےگی۔ جتنے اس کے چاہنے والے ہیں سب سوئمبر کے لیے اکٹھے ہو جائیں۔ جس خوش قسمت کووہ اس قابل سمجھےگی، اس کے گلے میں جے مالا ڈالےگی۔

یوں تو کون لڑکی کا دلدادہ نہیں تھا، مگر ان سب میں سات ایسے تھے جو اس پر دل و جان سے فدا تھے اور اس کو اپنانا چاہتے تھے، اپنی بنانا چاہتے تھے۔ ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ لڑکی اس کو پہلے سے ہی پسند کر چکی ہے۔ صرف دنیا کے سامنے اقرار کرنے کی ضرورت ہے۔

پہلے تو ایک صاحب سامنے آئے۔’’مجھے دھرم دیو کہتے ہیں۔‘‘ انھوں نے اپنا تعارف کرایا۔ لمبے چوڑے۔ اونچا ماتھا۔ سر پر لمبے لمبے بال۔ گیروے رنگ کا سلک کا لمبا کرتا اور دھوتی پہنے ہوئے۔ پیچھے پیچھے چیلوں اور چیلیوں کا ایک گروہ کیرتن کرتا، کھڑتالیں بجاتا ہوا۔ ’’دھرم دیو کی جے‘‘ کے نعرے لگاتا ہوا۔

’’بالِکا‘‘ انھوں نے لڑکی کو مخاطب کرکے کہا،’’اگر تم مایا موہ کے جال سے نکلنا چاہتی ہو تو مجھے اپنالو، دھرم دیو بلکہ دھرم کی شرن میں آ جاؤ۔ اور لوگ جو کچھ تمھیں دے سکتے ہیں۔ پریم، دھن، دولت، عیش وعشرت۔ وہ سب میں بھی تمھیں دے سکتا ہوں۔ مگر ساتھ میں تمھیں مکتی بھی پراپت ہوگی۔ جو تمھیں اور کوئی نہیں دے سکتا۔ کیا جواب ہے تمہارا، بالِکا؟‘‘

لڑکی نے جواب دیا، ’’مہاراج من تو چاہتا ہے جیون آپ کے چرنوں میں ہی بِتادوں، مگر اوروں سے بھی مل لوں، ان کی بھی سُن لوں پھر جواب دوں گی۔‘‘

دھرم دیو نے ہاتھ اٹھاکر لڑکی کو آشیرواد دیا اور کہا، ’’کوئی چنتا نہ کرو، بالِکا۔ تم بے شک اوروں سے ملو، ان کو بھی پرکھو، مگر تمہارے بھاگیہ میں میرا جیون ساتھی بننا ہی لکھا ہے۔‘‘

لڑکی نے نظریں جھکاکر کہا،’’جو بھاگیہ میں لکھا ہے وہ تو ہوگا ہی مہاراج۔‘‘

اس کے بعد مہاراجا مان سنگھ شان سنگھ کی سواری آئی۔ زرق برق شاہانہ لباس۔ سفید گھوڑے پر سوار، کمر میں تلوار بندھی ہوئی راجپوتی شان کی بڑی بڑی مونچھیں۔ ان کے جلوس میں کتنے ہی غلام، باندیاں، لونڈیاں، گانے والیاں ناچنے والیاں، طبہ بجانے والے، سارنگی بجانے والے۔

گھوڑا روک کر انھوں نے لڑکی سے کہا،’’اے سندری۔ آؤ اور میرے راج محل کی شوبھا بڑھاؤ۔ میں تمھیں مہارانی بناکر رکھوں گا۔‘‘

لڑکی نے جواب میں کہا،’’مہاراج کی جے ہو۔ لگتا ہے آپ نے آنے میں دیر کردی میں نے تو سنا کہ آپ کی پریوی پرسز بند کر دی گئیں، آپ کے خاص حقوق ختم کردیے گئے ہیں۔ پھر آپ کی پہلے ہی بہت سی بیویاں ہیں۔ کیا آپ ایک اور بیوی کا خرچہ برداشت کر سکیں گے؟‘‘

مہاراجا نے مونچھوں کو تاؤ دے کر کہا،’’سندری تم چنتا نہ کرو۔ پریوی پرسز کے بند ہوجانے کے بعد بھی میرے پاس اتنا کچھ ہے کہ سینکڑوں برس تک نہ صرف میں اور تم اور میری سب رانیاں بلکہ سب رانیوں سےمیری اولاد اتنے ہی شان اور اتنے ہی آرام سے رہ سکتی ہے جس آرام اور جس شان سے میں رہتاہوں۔ میں تمھیں یقین دلاتا ہوں کہ ہمارا دور ابھی ختم نہیں ہوا۔ پہلے میرے پاس کروڑوں ایکڑ بنجر زمین تھی۔ رعایا کی دیکھ بھال کرنے کا دردِ سر تھا۔ اب میرے پاس ہزاروں ایکڑ کا فارم ہے جہاں ٹریکٹر چلتے ہیں۔ شراب بنانے کی فیکٹری میں میرے حصے ہیں۔ موٹروں کے کارخانے میں میری ساجھے داری ہے۔ میری آمدنی پہلے سےکہیں زیادہ ہے۔ تمھیں آج بھی ہیرے جواہرات سے لاد سکتا ہوں۔‘‘

’’مہاراج سے یہی امید ہے۔‘‘ لڑکی نے کہا، ’’مگر جہاں اتنا انتظار کیا ہے تھوڑا اور انتظار کیجیے۔ میں یقین دلاتی ہوں کہ فیصلہ ہونے سے پہلے جے مالا کے پھول باسی نہ ہونے پائیں گے۔‘‘

اس کے بعد ایک بڑی شاندار، لمبی چوڑی امپالا موٹر آکر رُکی۔ اس پر سیٹھ کروڑی مل پکوڑی مل براجمان تھے۔ موٹر پھولوں کی جھالروں سے سجی ہوئی تھی کیونکہ سیٹھ صاحب تو لڑکی کے ساتھ سات پھیرے کروانے کا فیصلہ کرکے ہی گھر سے نکلے تھے۔

موٹر کا دروازہ کھلا اور سیٹھ صاحب سہرا لگائے اپنی توند سنبھالتے ہوئے نیچے اترے۔

’’لڑکی،‘‘ انھوں نے دیکھتے ہی کہا، ’’تو تو مھاری ساتھ آجا۔ پنڈت پروہت سب کا پر بندھ کروا رکھا ہے میں نے ایک بار میری ہو گئی تو تیری ایسی حفاظت کروں گا جیسی اپنی تجوریوں کی کرتا ہوں۔ بلکہ تجوری ہی میں بند کرکے رکھ دوں گا، کوئی سدا تیری طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھ سکےگا۔ ہاں!‘‘

’’ایسی بھی کیا جلدی ہے سیٹھ صاحب۔‘‘ لڑکی نے بڑے انداز سے مسکراکر کہا، ’’آپ کے تو مجھ پر ہی بڑے احسان ہیں۔‘‘

’’ہیں تو‘‘ سیٹھ جی بولے، ’’میں نہ ہوتا تو تجھے کون جانتا۔ جنم سے لے کر آج تک تیرا خرچہ کس نے اٹھایا ہے؟ میں نے۔ تیرے سولہ سنگار کس کے پیسے سے ہوئے؟ میرے؟ تیرے کپڑے لتے۔ یہ سارا تیرا تام جھام کس کے پیسے سے آیا؟ ساڑھیاں چاہییں؟ پوری ریشمی ساڑھیوں کی دکان ہی گھر بھجوادوں گا۔ تین کوٹھیاں ہوں گی تیرے واسطے۔ایک دلی میں، ایک بمبئی میں، ایک مسوری میں۔ اور تین موٹریں۔۔۔‘‘

لڑکی نے کہا، ’’یہ سب تو مہاراجا مان سنگھ شان سنگھ بھی دینے کو کہہ رہے ہیں!‘‘

’’ارے وہ راجا کیا کھاکے میرا مقابلہ کرےگا۔ میرے ہی کارخانوں میں تو چھوٹا موٹا حصہ ہے اس کا۔ اب اس کی شان دیکھنے ہی دیکھنے کی رہ گئی ہے۔ اصل تو مہارے پاس ہے۔ اصل مال اور اصلی طاقت بینک، کارخانے، انگریزی ہندی کے بڑے بڑے اخبار اور چھاپے خانے، افسر، منسٹر، سب میری جیب میں ہیں۔ حکم دوں تو ساری دنیا میں تیری سندرتا کے چرچے ہوں گے اور اگر الٹا حکم دیدوں تو کوئی تیرا نام بھی نہ جانےگا۔ یہ ہے مھاری شکتی۔ یہ کہہ دے اپنے سب چاہنے والوں سے۔ جی چاہے تو طاقت آزماکے دیکھ لیں!‘‘

’’سیٹھ جی‘‘ لڑکی نے اٹھلاکے کہا، ’’بھلا کس کی ہمت ہے کہ آپ کا مقابلہ کر سکے؟ بس ذرا سی دیر کی بات ہے۔ پھر آپ کو کیا فکر ہے۔ آپ کے سر تو سہرا پہلے ہی بندھا ہوا ہے۔‘‘

کروڑی مل پکوڑی مل اپنی موٹر میں جابیٹھے۔ دروازہ بند کر لیا۔ موٹر روانہ ہو گئی اور پھولوں کی جھالروں کے پردے میں چھپ کر انھوں نے اپنا بیگ کھولا اور ہزار ہزار روپے کے نوٹوں کے پلندوں کو گننا شروع کر دیا۔

اب پگڑ باندھے ایک ہٹا کٹا نوجوان آیا جو ایک ٹریکٹر پر سوار تھا۔ لڑکی کے سامنے آتے ہی دس دس کے نوٹوں کا بنڈل نکالا اور لڑکی کے سر پر سے وار کر ادھر ادھر پھینکنے لگا۔ اڑوس پڑوس کے چھوکرے، لوفر، لفنگے سب دوڑ دوڑ کرنوٹ بٹورنے لگے۔

’’یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘ لڑکی نے بظاہر کسی قدر بگڑ کر(مگر دل ہی دل میں خوش ہوکر) کہا، ’’لگتا ہے تمھیں روپے کی قدر نہیں ہے؟‘‘

نوجوان جس کا نام ’’دھرتی پتی کرلاک‘‘ تھا۔ ایک بےباک اور نو دو لیتے انداز میں بولا، ’’میری جان قدر کیوں نہیں ہے؟ روپے کی قدر کرتا ہوں تب ہی تو تم پر سے نچھاور کر رہاہوں۔ تمھاری قدر و قیمت کوئی میرے دل سے پوچھے۔ ہائے!‘‘ اور یہ کہہ کر اس نےنہایت بےشرمی سے ایک آنکھ بند کرکے منہ میں انگلی ڈال کر لو فروں کی طرح سیٹی بجائی۔

لڑکی نے بھی بے باکی سےجواب دیا، ’’تم کیا۔ یہاں جو ہے وہ میرا دیوانہ ہے! دھرم دیو ہوں یا راجا مان سنگھ شان سنگھ ہوں یا سیٹھ کروڑی مل ہوں۔ ایک سے ایک بڑھ کر قیمت لگارہے ہیں میری! تم بھی بولی لگاؤ۔‘‘

’’وہ تو میں لگاؤں گا ہی، میری جان۔‘‘ دھرتی پتی کولاک نے کہا، ’’یہ سب تو اگلے وقتوں کے لوگ ہیں، بڈھے کھوسٹ۔ میں ہوں ایک تمھاری عمر کا۔ جب تم پیدا ہوئی ادھر میں پیدا ہوا۔ تمہارے ساتھ ہی کھیل کود کرمیں جوان ہوا۔ پرانے جاگیرداروں کی جاگیریں تم نے مجھے دیں۔ زمینداروں کی زمینداری ختم کرکے تم نےمجھے زمینیں الاٹ کیں۔ میں تو جو کچھ بھی ہوں تمہارا ہی بنایا ہوا ہوں۔ تم نہ ہوتیں تو مجھے کون پوچھتا اور میں نہ ہوتا تو تمہارا اس دنیا میں کون ہوتا۔ بولو۔ تم میری ہو اور میں تیرا، میری جان! ایک دفعہ بس ہاں کہہ دو پھر دیکھو۔ کس دھوم دھام سے بیاہ رچاتا ہوں۔ ہماری شادی کی دعوت میں تو کم سے کم ایک لاکھ آدمی کھانا کھائیں گے۔‘‘

’’ایک لاکھ؟‘‘ لڑکی نے تعجب سے کہا، ’’اتنے آدمیوں کے لیے اتنا چاول، اتنا گھی، اتنی شکر کہاں سے آئےگی؟‘‘

’’وہ سب میرے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ تمہاری سلامتی چاہیے۔ میرے فارم میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ اپنی بہن کی شادی میں میں نے تین ہزار مہمان بلائے تھے۔ وہ بھی معمولی مہان نہیں ایک سے ایک بڑا افسر اور منسٹر تھا! جس دن تمھیں بیاہ کے لے جاؤں گا اس دن تو میں دودھ، دہی، گھی اور شراب کے دریا بہادوں گا، دریا!‘‘

’’وہ تو مجھے معلوم ہے،‘‘ لڑکی نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ’’مگر تھوڑی دیر انتظار کرنا پڑےگا۔‘‘

’’جیسا تمہارا حکم‘‘ دھرتی پتی کولاک نے ٹریکٹرکواسٹارٹ کرتے ہوئے کہا، ’’میرا تمہارا تو جنم جنمان کا رشتہ ہے!‘‘

اب ایک اور امیدوار آئے اور بڑی شان سے آئے۔ آگے آگے لال پٹیاں باندھے ہوئے چپراسیوں کی ہراول فوج، پیچھے ایک لمبا چوڑا تخت جسے ایک سوہیڈ کلرک اپنے سروں پر اٹھائے لا رہے تھے۔ تخت پر قالین، قالین پر ایک بہت بڑی میز جس پر پانچ ٹیلی فون رکھے ہوئے تھے اور نوٹوں کی گڈیوں پر سونے چاندی کے پیپرویٹ رکھے ہوئے تھے کہ وہ ہوا میں وار نہ جائیں۔ کرسی پر مسٹر ’’دفتر شاہی افسر‘‘ گلابند کوٹ اور پتلون پہنے اکڑے ہوئے بیٹھے تھے۔

کلرکوں نے تخت لڑکی کے عین سامنے لاکر رکھ دیاکیونکہ مسٹر دفتر شاہی افسر کی گردن اکڑی ہوئی تھی۔ وہ لڑکی کو صرف اس وقت دیکھ سکتے تھے جب وہ عین ان کی نظروں کے سامنے ہو۔

مسٹر دفتر شاہی افسر کے ایک سب اسسٹنٹ ڈپٹی سکریٹری نے لڑکی سےآکر کہا، ’’آپ کو صاحب سے بات کرنی ہے؟‘‘

لڑکی نے بڑی شانِ بےنیازی سے کہا، ’’اگر وہ بات کرنا چاہیں تو بات کر سکتی ہوں۔‘‘

’’ٹھیک ہے،‘‘ سب اسسٹنٹ ڈپٹی سکریٹری نے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا، ’’لائیے پانچ ہزار روپے دلوائیے۔ صاحب کا وقت بڑا قیمتی ہے۔ پانچ منٹ کی ملاقات کرائے دیتا ہوں۔‘‘

لڑکی نے غصے سے کہا، ’’صاحب جائے تمہارا چولھے میں میری جوتی اس سے بات کرنا چاہتی ہے!‘‘

’’سیکشن کلرک!‘‘ سب اسسٹنٹ ڈپٹی سکریٹری نے آواز دی اور کہا، ’’جاؤ صاحب سے کہہ دو کہ لڑکی اس قابل نہیں ہے کہ اسے کوئی پرمٹ یا لائسنس دیا جائے۔ انٹرویو بھی دیا تو وقت ضائع ہوگا۔‘‘

’’ایڈیٹ‘‘ دفتر شاہی افسر چلایا، ’’بات کرنے کی تمیز نہیں۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہیں! نکل جاؤ یہاں سے۔ ہم اس لیڈی سے اکیلے میں بات کرتے ہیں۔‘‘

جب وہ دونوں اکیلے رہ گئے تو دفتر شاہی افسر نے اپنی ٹیڑھی گردن کا پینچ ڈھیلا کرتے ہوئے کہا، ’’ڈارلنگ!‘‘

لڑکی نے بڑے طنز بھرے لہجے میں جواب دیا،’’کیوں خیریت تو ہے، آج تو بڑے پیار کا اظہار کر رہے ہو۔ انگریزوں کے زمانےمیں تو تم مجھے گولی مار دینا چاہتے تھے!‘‘

’’پرانی باتوں کو بھول جاؤ، ڈارلنگ۔ آج کی بات کرو میں پچیس برس سے تمہاری سیوا کر رہا ہوں۔‘‘

’’میری سیوا؟‘‘ لڑکی نے پوچھا، ’’یا اپنی سیوا؟‘‘

’’وہ ایک ہی بات ہے ڈارلنگ۔ میں اور تم الگ الگ تھوڑا ہی ہیں۔ تم میرے لیے بہت لکی ثابت ہوئی ہو۔ پہلے میری اوپر کی آمدنی پانچ چھ سو روپے تھے اب پانچ ہزار روپے مہینہ ہے۔ کبھی کبھی تو بھگوان پرمٹ کا چھپر پھاڑتا ہے تواس میں سے لاکھوں روپے مل جاتے ہیں۔ یہ سب تمھاری ہی برکت ہے، تمہاری ہی دین ہے!‘‘

’’پھر اب کیا چاہتے ہو؟‘‘ لڑکی نے پوچھا، ’’تم تو میرے بغیر بھی مزے کر رہے ہو!‘‘

’’نہیں ڈارلنگ۔ تمہارے بغیر نہیں، تمہاری وجہ سے مزے کر رہا ہوں۔ تم ہمیشہ کے لیے میری ہو جاؤگی تو ہم دونوں عیش کریں گے۔‘‘

’’اچھا!‘‘ لڑکی نے بےدلی سے کہا، ’’تو کچھ دیر اور انتظار کرو۔‘‘

’’تمہاری خاطر یہ بھی کرلوں گا، ڈارلنگ۔‘‘ دفتر شاہی افسر صاحب نے اپنے کلرکوں کو واپس بلاتے ہوئے کہا، ’’ورنہ میں تو اور سب کو انتظار کراتا ہوں۔ میں کسی کا انتظار نہیں کرتا!‘‘

اب ایک نئے ڈھنگ کی برات آئی۔

آگے آگے بینڈ۔ آدھا بینڈ انگریزی باجے بجارہا تھا۔ آدھا ہندستانی ایک طرف وائلن۔ دوسری طرف سارنگیاں۔ ایک طرف طبلے دوسری طرف بونگوا اور کیٹل ڈرم۔

دولہا ننگے پاؤں مگر پتلون پہنے ہوئے۔ پتلون کے اوپر جو گیا رنگ کا سلک کا کرتا۔ سرپر ہیٹ۔ ایک پاؤں کار میں دوسرا چھکڑےمیں۔

برات لڑکی کے سامنے آکر رک گئی۔ دولہا نے اپنا تعارف کرایا۔ ’’مجھے نیتا خاں بھارت سیوک انڈیا والا کہتے ہیں۔ ہم آپ کے پرانےچاہنے والوں میں ہیں۔ سوچا آج سات پھیرے بھی ہو جائیں۔ نکاح بھی پڑھوالیں اور رجسٹرار کے دستخط بھی ہو جائیں۔‘‘

’’یعنی ایک چھوڑ تین تین ڈھنگ کی شادیاں۔‘‘ لڑکی نے حیرت سے کہا۔

’’جی ہاں۔ انڈیا یعنی بھارت یعنی ہندوستان کی مکسڈ اکانومی میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔‘‘

’’یہ آپ کو کیسے خیال ہوا کہ میں آپ سےشادی کر لوں گی؟‘‘ لڑکی نے پوچھا۔

’’شادی تو ایک طرح سے ہماری آپ کی ہو چکی ہے۔‘‘ نیتا خاں بھارت سیوک انڈیا والا نے کہا۔ کیا ہماری قربانیوں کو آپ نےبھلا دیا ہے؟ ہمارے خون سے ہی آپ کی مانگ میں سندور بھرا گیا تھا، آپ کے ہاتھ پاؤں میں سہاگ کی مہندی لگی تھی!‘‘

’’اس کا بدلہ بھی میں نے چکادیا تھا۔‘‘ لڑکی نے کہا، ’’برسوں میں نے آپ کی عنایات کے بدلے میں آپ کی سیوا کی ہے۔ کیا آپ ہمیشہ کی غلامی کرانا چاہتے ہیں؟‘‘

’’آپ بھی کیسی باتیں کرتی ہیں؟‘‘ نیتا خاں بھارت سیوک انڈیا والا نے کہا، ’’غلامی نہیں یہ تو بھارتیہ استری کادھرم ہے کہ اپنے پتی کی سیوا کرے۔ پھر ہمارا آپ کا سمبندھ تو پرانا ہے۔ ہم نے ہی آپ کو یہ رنگ روپ، یہ نکھار، یہ انداز دیا۔ بدلے میں کیا آپ کا فرض نہیں ہے کہ آپ ہماری اور صرف ہماری ہوکر رہیں؟‘‘

لڑکی نے بہ ظاہر لاجواب ہوکر کہا، ’’تب تو آپ کو بھی کچھ دیر انتظار کرنا پڑےگا۔ مجھے فیصلہ کرنےمیں تھوڑا وقت لگےگا۔‘‘

اس کے بعد یکایک ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا۔ کئی بم ایک ساتھ پھٹے، دھواں ہٹا تو دیکھا کہ نوجوان موٹر سائیکل پر سوار چلا آ رہا ہے۔

’’لڑکی!‘‘ اس نے موٹر سائیکل روکتے ہوئے ڈانٹ کر پوچھا، ’’کیا تو ہی وہ لڑکی ہو؟‘‘

’’جی ہاں‘‘، لڑکی نے ڈرتےہوئے کہا۔

’’ویری گڈ، میرا نام ہے کرانتی کاری پورکر۔ چنگ۔ پانگ۔ ناؤ۔ ناؤ۔ پاؤ۔ پاؤ۔‘‘

’’جی؟‘‘ لڑکی نے تعجب کا اظہار کیا۔

’’اس کامطلب ہے لال سلام۔ کیا تم چنگ پانگ نہیں سمجھتیں؟‘‘

’’جی نہیں۔‘‘ لڑکی نے اقرار جرم کیا۔

’’کوئی بات نہیں۔ لال کتاب تمھیں سب پڑھادےگی، سب سمجھادےگی۔ تو تم مجھ سے شادی کے لیے تیار ہو؟‘‘ کرانتی کاری پورکر نے سوال کیا۔

’’مگر‘‘ لڑکی نے کہا، ’’میں تو سمجھتی تھی آپ شادی کے خلاف ہیں۔‘‘

’’بالکل غلط۔ وہ امریکی بورژوا اور روسی Revisionist ہیں جو شادی کے خلاف ہیں۔‘‘ اور پھر جیب سے لال کتاب نکال کر اس کاایک ورق پلٹتے ہوئے بولا، ’’کتاب کہتی ہے شادی کرو۔ بہت سے بچے پیدا کرو تاکہ انقلاب کے سپاہیوں کی تعداد بڑھے۔ تم فیملی پلاننگ جیسے بورژوا ڈھکوسلوں میں تو وشواس نہیں رکھتیں؟‘‘

لڑکی نے جھجکتے ہوئے کہا، ’’مگر ملک کی آبادی تو خطرناک حدتک بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘

’’یہ سب بورژوا لوگوں اور سامراجی ایجنٹوں کا پروپیگنڈا ہے تاکہ کرانتی کاریوں اور انقلاب کے سپاہیوں کی تعداد نہ بڑھے۔‘‘

’’شادی کے بعد کیا ہوگا؟‘‘ لڑکی نے پوچھا۔

کرانتی کاری پور کرنے کہا، ’’سرخ سویرا آئےگا۔ مشرق کی کوکھ سے لال سورج نکلےگا۔ مغرب میں اندھیرا چھا جائےگا۔ تمہاری گودی میں سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں بچے کھیلیں گے۔‘‘

’’مگر ان سب کو ہم کھلائیں گے کیسے؟‘‘ لڑکی نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

’’نیتا سب کا پالن ہار ہے۔‘‘

’’تب تو تھوڑی دیر انتظار کرو۔ میرے لال ساتھی؟ لڑکی نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے مسکراکر کہا۔ اور کرانتی کاری پورکر بولا، ’’میں انتظار نہیں کر سکتا۔ مگر تمہاری خاطر یہ بھی سہی۔‘‘ اس نے کہا اور ایک ہینڈ گرینیڈ کے دھماکے کے ساتھ اس کے دھوئیں میں گم ہو گیا۔

لڑکی ابھی فیصلہ نہ کرپائی تھی کہ ان امیدواروں میں سے کسے اپنائے کہ ایک طرف سے بھاگتا ہوا ایک نوجوان آیا۔ میلے کھدر کا کرتا پاجامہ پیوند لگا چپل جو دوڑنے میں بالکل ٹوٹ گیا تھا۔ دوتین دن کی داڑھی بڑھی ہوئی۔ اس کے پیچھے پیچھے ایک پوری فوج دوڑتی ہوئی۔ ان میں دھرم دیو، راجا مان سنگھ شان سنگھ، سیٹھ کروڑی مل پکوڑی مل، دھرتی پتی کولاک، مسٹر دفتر شاہی افسر، کرانتی کاری پورکر اور نیتا خاں بھارت سیوک انڈیا والا اور ان کے حالی موالی سب تھے اور سب چلا رہے تھے۔

’’مارو۔۔۔ مارو۔‘‘

’’پکڑو ساتھیو، بچنے نہ پائے۔‘‘

’’یہ چور ہے۔‘‘

’’یہ ڈاکو ہے۔‘‘

’’یہ گنڈا ہے۔‘‘

’’یہ موالی ہے۔‘‘

’’یہ چار سو بیس ہے۔‘‘

’’یہ مسلمان ہے۔‘‘

’’یہ کرسٹان ہے۔‘‘

’’یہ انقلابی ہے۔‘‘

’’یہ کرانتی کاری ہے۔‘‘

’’یہ کرانتی کاری ورودھی ہے۔ انقلاب دشمن ہے۔‘‘

دوڑتا دوڑتا، ہانپتا کانپتا نوجوان لڑکی کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔

’’لڑکی اب تم ہی مجھ کو بچاسکتی ہو۔‘‘

لڑکی نے پوچھا، ’’تم کون ہو؟‘‘

نوجوان نے کہا، ’’میں نہ چور ہوں، نہ ڈاکو، نہ موالی، نہ گنڈا، نہ کرانتی کاری، نہ کرانتی ورودھی۔ میں ایک سیدھا سادا انسان ہوں جو آزادی اور انسانیت کی تلاش میں مارا مار پھر رہا ہے اور جس کا پیچھا یہ سب کر رہے ہیں۔ بھاگتے بھاگتے میں تھک چکا ہوں۔ مروں گا تو نہیں کیونکہ سخت جان ہوں لیکن مجھے لگتا ہے، انسانیت میں، آزادی میں وِشواس ہمیشہ کے لیے کھودوں گا۔‘‘

’’میری طرف دیکھو۔‘‘ لڑکی نے کہا، ’’مجھے پہچانتے ہو؟‘‘

تھکے ہارے نوجوان نے لڑکی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔ آہستہ آہستہ اس کی بجھی ہوئی آنکھوں میں ایک نئی چمک، امید کی ایک نئی لہر ابھر آئی۔ اس نے آہستہ سے سر ہلاکر کہا۔،’’اب پہچان گیا۔‘‘

اتنے میں جتنے لوگ نوجوان کا پیچھا کر رہے تھے وہ سب لڑکی کے سامنے آکر کھڑے ہو گئے اور نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چلانے لگے۔

’’یہ چور ہے۔‘‘

’’یہ ڈاکو ہے۔‘‘

’’یہ گنڈا ہے۔‘‘

’’یہ موالی ہے۔‘‘

’’یہ چار سو بیس ہے۔‘‘

’’یہ ہندو ہے۔‘‘

’’یہ مسلمان ہے۔‘‘

’’یہ کرسٹان ہے۔‘‘

’’یہ انقلابی ہے۔‘‘

’’یہ کرانتی کاری ہے۔‘‘

’’یہ کرانتی ورودھی ہے۔ یہ انقلاب دشمن ہے!‘‘

اور اب لڑکی نے ان سب کی طرف ایسی نگاہوں سے دیکھا جن میں شعلے بھڑک رہے تھے۔

نوجوان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے وہ بولی، ’’یہ میرا ہے اور میں اس کی ہوں؟ شکر ہے پچیس برس انتظار کرنے کے بعد میں اسے مل گئی ہوں اور یہ مجھے۔‘‘

اور پھر ان سب کی حیرت بھری آنکھوں کے سامنے لڑکی اور وہ نوجوان دونوں فضا میں تحلیل ہو گئے — اور پھر وہاں نہ دھرم دیو تھا، نہ راجا مان سنگھ شان سنگھ، نہ سیٹھ کروڑی مل پکوڑی مل، نہ دھرتی پین کولاک، نہ مسٹر دفتر شاہی افسر، نہ کرانتی کاری پورکر، نہ نیتا خاں بھارت سیوک انڈیا والا۔ سب نہ جانے کہاں گم ہو گئے تھے۔ صرف برسات کی ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی اور مشرق میں ایک دھندلا سا سویرا گھنے کالے بادلوں کادل چیرتا ہوا چلا آ رہا تھا۔

یہ پندرہ اگست کی صبح تھی، یہ آزادی کا دھندلکا تھا۔

مأخذ : نئی دھرتی نئے انسان

مصنف:خواجہ احمد عباس

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here