کہانی کی کہانی:’’علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے ابتدائی دور میں لڑکیوں کو داخلہ نہیں دیا جاتا تھا۔ اس کے لیے یونیورسٹی کے خلاف ایک صحافی نے مقدمہ داخل کیا۔ وہ مقدمہ ننٖانوے سال اور صحافی کی تین نسلوں تک چلا۔ اس کے بعد بھی کئی سال بعد تک یونیورسٹی نے لڑکیوں کو داخلہ نہیں دیا۔ پھر کسی طرح ایک لڑکی داخلہ پانے میں کامیاب ہو گئی۔ اس کے داخلے کے بعد یونیورسٹی کے ماحول میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں وہ آپ اس کہانی میں پڑھ سکتے ہیں۔‘‘
(اس کہانی میں کوئی کیریکٹر قطعی فرضی نہیں ہے۔)
(1)
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ میں ۱۹۳۷ء یادگار رہےگا۔ کیونکہ اس سال ہندوستانی مسلمانوں کے واحد دارالعلوم میں سرکاری طو رپر مخلوط تعلیم کی ابتدا ہوئی۔ یہ قصہ بھی عجیب ہے کہ کس طرح یونیورسٹی کے ارباب حل و عقد ا س سنسنی خیز تبدیلی کے لیے قانوناً مجبور کیے گئے۔ ننانوے سال پہلے ہندوستان کے مشہور قوم پرست جرنلسٹ اور سماجی کارکن سلیم الزماں صحافی نے مسلم یونیورسٹی ممبرانِ کورٹ واگز کٹو کونسل کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا تھا جس میں ان بزرگان قوم پر قومی امانت کے خلاف ناجائز مصرف کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
سلیم الزماں صحافی کا دعویٰ تھا کہ مسلم یونیورسٹی کے نام سے جتنا روپیہ جمع کیا گیا تھا وہ مسلمانوں کی تعلیم کے لیے تھا نہ کہ فقط مسلمان لڑکوں کی تعلیم کے لیے اور حکومت نے جب یونیورسٹی کا چارٹر منظور کیا تھا تو اس میں بھی واضح کر دیا گیا تھا کہ یہ یونیورسٹی تمام مسلمانوں کی تعلیم کے لیے قائم کی جاتی ہے۔ یہ کہیں تخصیص نہ کی گئی تھی کہ مسلمانوں سےمراد فقط مسلمان مرد ہیں۔ اس دعوے کے ثبوت میں سلیم الزمان صحافی نے مشہور زبان دانوں کا فیصلہ پیش کیا تھا کہ لفظ ’’مسلمان‘‘ عورتوں اور مردوں دونوں کے لیے یکساں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اس نے مقتدر علماء دین سے بھی ایک فتویٰ حاصل کیا تھا۔ جس میں انہوں نے متفقہ طور پر اعلان کیا تھا کہ گو اکثر مسلمان مردوں پر کسی نہ کسی مولوی نے کبھی نہ کبھی کفر کا فتویٰ لگایا ہے۔ لیکن عورتوں کو ایک جماعت کی حیثیت سے اس وقت تک اسلام سے خارج نہیں کیا گیا تھا۔ اس پر سلیم الزمان صحافی کا دعویٰ تھا کہ اتنے عرصے تک یونیورسٹی کے دروازے لڑکیوں کے لیے بند رکھ کر ممبرانِ کورٹ واگز کٹو کونسل قومی روپے کے ناجائز استعمال کے مرتکب ہوئے ہیں۔
یہ مقدمہ جب یکم اپریل ۱۹۳۸ء کو پہلی بار علی گڑھ کے کلکٹری عدالت میں پیش ہوا تو تمام ملک میں سنسنی پھیل گئی تھی۔ مسٹر جناح کی مسلم لیگ، ہزہائی نس آغا خاں کی مسلم کانفرنس، مولانا شوکت علی کی خلافت کمیٹی، مولوی مظہرالدین کی جمعیۃ العلماء، صدریار جنگ کی مسلم ایجوکیشنل کانفرنس اور دیگر خالص اسلامی انجمنوں نے تیرہ ہزار دوسو ستاون جلسے کیے جن سب میں کل تعداد حاضرین کی تیرہ ہزار ایک سو پچاس نفوس تھی۔ اس کے علاوہ سلیم الزماں صحافی پرستائیس مفتیوں نے کفر کے فتویٰ لگائے اور سترہ اخباروں نےاس پر الزام لگایا کہ وہ کانگریس سے روپیہ لے کر کھا گیا ہے۔ مسٹر جناح سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنے چودہ نکات میں ایک پندرہویں نکتے کو شامل کر لیں کہ ازل سے لے کر ابد تک مسلم یونیورسٹی میں مخلوط تعلیم کبھی جاری نہ کی جائےگی۔
سیٹھ اللہ دیا کی صدارت میں مسٹر علی جناح نے بھنڈی بازار، بمبئی کے مسلمانوں کو خالص انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’گو میں یہ ایک علماء نہیں ہوں مگر سلیم الزماں صحافی کی ہندو پرست حرکت کی سخت مذمت کرتا ہوں۔‘‘ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مسلمان کی حیثیت سے وہ مسلم یونیورسٹی میں مخلوط تعلیم کے اجراء کے سخت خلاف ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ نے اپنی صاحبزادی کو کبھی علی گڑھ بھیجنے کا خیال بھی نہ کیا اور یورپ کے مخلوط اداروں میں تعلیم دلوائی۔ آخر میں آپ نے پانچ ہزار روپے روز پر اپنی قانونی خدمات پہ مقدمہ لڑنے کے لیے مسلم یونیورسٹی کو پیش کیں۔ جس پر بھنڈی بازار کے مسلمانوں نے ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعرے بلند کیے کیونکہ انگریزی سے ناواقف ہونے کے باعث وہ سمجھتے تھے کہ مسٹر جناح نے بےکار بےروزگار مسلمانوں کو فاقے سے بچانے کے لیے پانچ ہزار روپے چندے کا اعلان کیا ہے۔ اس جلسے کے بعد مسٹرجناح نے ایک بیان شائع کیا کہ جب تک کانگریس اپنے گرگوں سے ایسے مقدمے دائر کراتی رہے گی وہ کانگریسی لیڈروں سے فرقہ وارانہ مصالحت کی گفتگو نہ کریں گے اور یہ بھی کہا کہ بھنڈی بازار کے جلسے نے ثابت کر دیا ہے کہ مسلم عوام بھی اس رائے میں مسٹر جناح کے ہم خیال ہیں۔ اس بیان کی تائید سر ابوالبقا اور سر امین خاں نے کی۔ جنھوں نے کہا کہ نہرو رپورٹ کے بعد یہ مقدمہ مسلمانوں کی قومی زندگی پر کانگریس کا دوسرا حملہ ہے۔
یہ تھی زبردست ابتدا اس مقدمے کی جو نناوے برس تک مختلف عدالتوں میں چلتا رہا اور اس عرصہ میں تیرہ مرتبہ پریوی کونسل میں پیش ہوا۔ سلیم الزماں صحافی کے مرنے کے بعد اس کے لڑکے رحیم الزماں صحافی نے اس مقدمے کو جاری رکھا اور اس کے بعد اس کے لڑکے رحیم الزماں صحافی نے۔ اس عرصہ میں ہندوستان میں کئی انقلابات ہوئے اور حکومتیں تبدیل ہوئیں لیکن مقدمہ کا فیصلہ نہ ہوا۔ ۱۹۳۵ء میں جب کلیم الزماں صحافی کا انتقال ہوا تو یہ مقدمہ ورثے میں اس کی اکلوتی بیٹی سلمہٰ صحافی کو ملا۔ اگلے ہی سال جب تیرای سوراج حکومت قائم ہوئی تو اس نے فوراً طے کر دیا کہ مسلم یونیورسٹی کے افسران کو لڑکیوں کا داخلہ روکنے کا کوئی حق نہیں ہے اور اگر انھوں نے اپنا یہی طرز عمل جاری رکھا تو حکومت یونیورسٹی کی عمارتیں ضبط کرکے وہاں ایک چڑیا گھر قائم کر دےگی۔
اس فیصلہ پر مسلم یونیورسٹی کے طالب علموں کی یونین نے مبارکباد کا ریزولیشن پاس کیا۔ ہارون ناصری کی تجویز اور حامد عباسی کی تائید پر بجٹ میں دو سو روپے خواتین طالب علموں کے بیٹھنے کے لیے مخملی صوفوں کے واسطے منظور کیے، لیکن ایک سال تک وہ مخملی صوفے بےکار پڑے رہے کیونکہ کوئی لڑکی داخل نہ ہوئی۔ علما نے فتوی دے دیا تھا کہ مخلوط تعلیم حرام ہے اور مشکل یہ تھی کہ قدامت پسند گھرانوں نے ان فتووں کے ڈر سے اپنی لڑکیاں نہ بھیجیں اور جو آزاد خیال لڑکیاں تھیں وہ علی گڑھ جیسی فرقہ پرور اور پرانے خیال کی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے خلاف تھیں۔ آخرکار، گو وہ بھی اس دقیانوسی تعلیم کے خلاف تھی جو علی گڑھ میں دی جاتی تھی، اگلے سال خود سلمہ صحافی کو واردھا کی قومی یونیورسٹی چھوڑ کر علی گڑھ میں داخلہ لینا پڑا تاکہ اپنے ضعف کا حق قائم کرے۔
جس وقت سلمہ صحافی کے داخلہ کا فارم یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر مولوی ابوالعلم کے پاس پہنچا تو وہ ست پریشان ہوئے اوردوڑے وائس چانسلر شیخ رحیم الدین کے پاس گئے۔ وہ دونوں مخلوط تعلیم کے سخت خلاف تھے لیکن سلمہ صحافی کا داخلہ کرنے سے انکار کرنا حکومت کے فرمان کی خلاف ورزی تھی۔ ’’اس کمبخت لڑکی کو داخل کرنا ہی پڑےگا‘‘ مولوی ابوالعلم بولے۔ ’’لیکن طالب علم لڑکیوں کے لیے کچھ ایسے قوانین بنائے جائیں جن سے گھبرا کر وہ یونیورسٹی میں داخلے کا خیال ہی چھوڑ دیں۔‘‘ اگلے روز یونیورسٹی کی اگزکیٹیو کونسل کاجلسہ منعقد ہوا تاکہ صورت حال پر غور کیا جائے۔ نواب طاؤس یار جنگ اچکانی نے تجویز پیش کی کہ طالب علم لڑکیوں کے لیے ایک خاص بورڈنگ ہاؤس تعمیر کیا جائے۔ جس کی دیواریں دوسو بیس گز اونچی ہوں اور اس بورڈنگ سے لے کر لکچر کے کمروں تک ایک سرنگ بنائی جائے جس کے ذریعہ سلمہ صحافی لکچر سننے جایا کرے۔ اس کے علاوہ ہر لکچر روم میں چاروں طرف سے ایک بند کوٹھری بنائی جائے جس میں سرنگ کا راستہ نکلتا ہو اور اس کوٹھری میں بجائے دروازے یا کھڑکی کے چار باریک سوراخ ہوں جن میں سے پروفیسر کی آواز پہنچ سکے۔ اس تجویز کی زبردست موافقت مولانا لقمان نے کی اور بالاتفاق رائے منظور ہوگئی۔ اس کے بعد پرفیسر عبدالصدیق رشیدی نے تجویز پیش کی کہ جس طرح طالب علم لڑکوں کے لیے سیاہ بند گلے کا کوٹ اور اٹھارویں صدی ٹرکی کی ٹوپی پہننا لازمی تھا، اسی طرح طالب علم لڑکیوں کے لیے کالا برقعہ پہننا لازمی قرار دیا جائے۔ یہ تجویز بھی منظور کر لی گئی۔ اب خداوند ان یونیورسٹی نے اطمینان کا سانس لیا۔ اب ان کو یقین تھا کہ سلمہ صحافی کبھی یونیورسٹی میں داخلہ نہ لےگی۔
سلمہ کو جب ان قوانین کا علم ہوا تو وہ بڑی گھبرائی۔ لیکن کچھ سوچ کر اس نے محکمۂ تعلیم و حفظان صحت کو ایک خط لکھا اور ان قوانین کی طرف توجہ دلائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وزیر تعلیم نے ڈانٹ کر وائس چانسلر کو ایک خط لکھا کہ ایسے قوانین بناکر حکومت کے احکام کی خلاف ورزی کرنے پر آیندہ سخت سزا دی جائے گی۔ اس کے علاوہ محکمہ حفظان صحت کے ایک انسپکٹر نے یونیورسٹی کا معائنہ کرتےہوئے لڑکیوں کے بورڈنگ اور سرنگ دونوں کو خلاف قانون قرار دےکر مسمار کرا دیا۔ اگزکوا کونسل کا ایک جلسہ فوراً صورت حال پر غور کرنے کے لیے منعقد کیا گیا۔ مولوی ابوالعلم نے فرمایا کہ مسلم یونیورسٹی کا مسلک ہمیشہ حکومت کی اطاعت رہا ہے، اس لیے ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ سلمہ صحافی کو بے پردہ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے دیں۔ وائس چانسلر نے بھی کہا کہ بحالت مجبوری ان کو ایسا ہی کرنا ہوگا باقی آٹھ ممبران کونسل نے کہا، ’’جیسا آپ کا حکم سرکار‘‘ اور جلسہ برخاست ہو گیا۔
(2)
مسلم یونیورسٹی کی تاریخ میں اتنا بڑا انقلاب کبھی نہ ہوا تھا جتنا ایک لڑکی سلمہ صحافی کے داخل ہونے پر ہوا۔ وہ شہر کی مزدور لڑکیوں کے ہوسٹل میں رہتی تھی جو بیسوی صدی کے ایک نواب مضمحل اللہ کے شاندار محل میں قائم کیا گیا تھا جب صبح کو وہ کالج جاتی تو ہر شخص کی نظر اس کی طرف اٹھتی۔ وہ حسین نہ تھی لیکن نوجوان عورت علی گڑھ میں ہمیشہ سے ایک نایاب شے رہی ہے۔ یہ پہلی بار تھی کہ یونیورسٹی کے چند ہزار طالب علموں نے ایک لڑکی کو طالب علم کی حیثیت سے دیکھا۔ سلمہ نے بیسویں صدی علی گڑھ کے متعلق عجیب و غریب قصے سنے تھے کہ اس زمانہ میں اگر اسٹیشن پر سے کسی ریل میں کوئی حسین لڑکی گزرتی تھی تو تمام یونیورسٹی میں ہنگامہ برپا ہو جاتا تھا۔
پہلے پہل سلمہ کو اس قدر عالمگیر توجہ کا مرکز بننا برا معلوم ہوا لیکن کچھ عرصہ کے بعد وہ اس کی عادی ہو گئی۔ سب سے بڑا انقلاب اس کی کلاس یعنی ایل۔ایل۔بی۔ پریویس میں ہوا تھا۔ ایک سو اکیاون طالب علمموں میں وہ اکیلی لڑکی تھی۔ ان سب کی توجہ کی وہ واحد مرکز تھی۔ جب سے اس نے داخلہ لیا تھا ان تمام لڑکوں میں بین تبدیلی نظر آتی تھی۔ جو تیسرے دن داڑھی مونڈتے تھے، وہ اب روز شیو کرنے لگے، جو ہمیشہ میلے کپڑے پہن کر آتے تھے وہ اب صاف کپڑے پہن کر آنے لگے۔ جن کے کوٹوں پر برسوں سے برش نہ ہوا تھا ان کے کوٹ اب چمکنے لگے۔ جن کے بالوں میں ہفتوں کبھی کنگا نہ ہوتا تھا انھوں نے کلاس میں آتے وقت بھی جیب میں شیشہ کنگھا رکھنا شروع کر دیا۔ سب سے بڑا کمال یہ ہوا کہ تقریبا تمام طالب علم اب لکچر کے وقت حاظر رہنے لگے۔ ورنہ ایل۔ایل۔بی۔ پریوس میں کھیر ۲۵ فیصدی سے زیادہ لڑکے حاضر نہ ہوتے تھے۔ باقی سب دوستوں سے پراکسی بلواکر کام چلاتے تھے۔ جس دن سے سلمہ صحافی نے داخلہ لیا لکچر روم بھرا رہنے لگا۔ فائنل کلاس کے طلبا بھی کسی نہ کسی بہانے سے آکر بیٹھنےلگے۔ پروفیسر کی زندگی میں بھی سلمہ صحافی کی موجودگی نے کافی تبدیلی پیدا کر دی۔ وہ بھی اچھے کپڑے پہن کر آنے لگے جن کے کوٹ پر ہمیشہ چاک کی سفیدی پڑی رہتی تھی وہ کلاس میں آنے سے قبل نہایت احتیاط سے کوٹ پر برش کرنے لگے۔ سٹاف روم میں ایک آئینہ، کنگھا، کپڑوں اور بالوں کے برش رکھے گئے۔
کلاس کے تمام لڑکوں میں سلیم اور انور سلمہ میں زیادہ دلچسپی لیتے تھے۔ یہ دونوں یونیورسٹی کے بااثر اور مشہور طالب علموں میں شمار ہوتے تھے۔ سلیم ٹینس کلب کا سکریٹری اور بڑا اچھا کھلاڑی تھا۔ سومنگ باتھ میں مچھلی کی طرح تیرتا تھا اور یو۔ٹی۔سی۔ کا سارجنٹ تھا۔ ساتھ ہی وہ ایک قابل رشک صحت اور سانچے میں ڈھلتے جسم کا مالک تھا۔ اس کو اپنے مردانہ حسن پر کافی ناز بھی تھا اور جب اس نے سلمہ صحافی میں دلچسپی لینی شروع کی تو سوائے انور کے اس کی رقابت مول لینے کی کسی نے ہمت نہ کی۔
انور اتنا حسین نہ تھا جتنا سلیم، وہ کھلاڑی بھی نہ تھا مگر پڑھنے لکھنے میں وہ سب سے تیز تھا اس نے اول درجہ میں انگریزی ادب کاایم۔اے۔ کیا تھا۔ یونین کا بہترین مقرر اور میگزین کا اڈیٹر تھا۔ اس کے افسانے اور نظمیں ملک کے اکثر قدامت پسند رسالوں میں شائع ہوتی تھیں۔ وہ سلمہ صحافی میں دلچسپی لیتا تھا اور کلاس میں جب تک ممکن ہوتا کوئی ادبی یا قانونی بحث چھیڑ کر اس سے بات کرنے کا موقع نکال لیتا۔ انور اور سلیم قدامت پسند خاندانوں کے لڑکے تھے ان کے لیے عورت ایک نامعلوم جنس تھی۔ اس لیے وہ بیسویں صدی کے شاعر مزاج طالب علموں کی طرح ہر اس لڑکی میں جس سے کسی طرح ان کی ملاقات ہو جائے اس قدر دلچسپی لیتے تھے۔ ان کے کلاس میں ایک لڑکا احسان اللہ پڑھتا تھا جس کی بدقسمتی سے سات بہنیں تھیں۔ یہ سب لڑکیاں دہلی کی قومی یونیورسٹی میں پڑھتی تھیں۔ لیکن چھٹیوں میں اکثر علی گڑھ اپنےبھائی سے ملنے آیا کرتی تھیں اس لیے کلاس کے تقریباً تمام لڑکے احسان اللہ سے دوستی گانٹھنے کی کوشش کرتے تھے۔ ہر موقعہ پر اس کی آؤ بھگت ہوتی اور نوجوان پروفیسر بھی اس کا خیال رکھتے۔ سلیم اور انور نے خاص طور پر احسان میں دلچسپی لینی شروع کی۔ سلیم اس کو روز ٹینس کھیلنے بلاتا اور کلب کی فیس اس کے بجائے خود دے دیتا۔ انور اصرار کرتا کہ احسان ا س کے ساتھ مل کر امتحان کے لیے پڑھے۔ دونوں اس کی دعوتیں بھی خوب کرتے۔ شروع شروع میں احسان ان سب عنایات کو دوستی پر محمول کرتا رہا۔ لیکن عرصہ کے بعد اس نے محسوس کیا کہ یہ دونوں اس سے زیادہ اس کی بہنوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جس دن اِس کی بہنیں دہلی سے آئیں سلیم و انور اس کےساتھ ساتھ لگے رہتے اور اس کی بہنوں کی خاطر و مدارات میں ضرورت سے زیادہ انہماک دکھاتے۔ حالانکہ وہ سب مل کر ان دونوں کو بیوقوف بناتی تھیں۔ احسان ہمیشہ سے منہ پھٹ واقع ہوا تھا۔ ایک دن جب اس کو انور و سلیم کی حرکتوں سے سخت کوفت ہوئی تو اس نے اپنی بہنوں کے سامنے ہی ان سے صاف صاف کہہ دیا،’’دیکھیے صاحب! اس وقت آپ دونوں بھی موجود ہیں اور میری بہنیں بھی، آپ کو ان میں سے جس جس سے دلچسپی ہو صاف کہہ دیجیے، ان کی مرضی ہو تو وہ آپ سے دوستی کریں۔ مگر مہربانی کرکے میری جان چھوڑیے۔‘‘ اس دن سے انور اور سلیم اور احسان اللہ کے تعلق کا خاتمہ ہو گیا اور ان کو کسی نئے شکار کی تلاش ہوئی۔ جب سلمہ صحافی نے داخلہ لیا تو دونوں نے علیحدہ علیحدہ کوشش شروع کی کہ اس سے دوستی بڑھائی جائے۔
ایک صبح خالی گھنٹہ میں سلمہ برآمدے میں اکیلی کھڑی تھی۔ اس سے کچھ فاصلے پر لڑکوں کا ایک گروہ کھڑا اس کی طرف گھور رہا تھا۔ سلمہ کو اس قسم کی حرکتوں پر غصہ بھی آتا تھا اور ہنسی بھی،غصہ اس لیے کہ خواہ نخواہ اس کو کوئی کیوں اس طرح گھورے اور ہنسی اس بات پر کہ علی گڑھ کے یہ تعلیم یافتہ لڑکےاس قدر دقیانوسی تھے۔ اکیسویں صدی میں بھی ایسی حماقتیں کرتے تھے۔ اس کو اپنے ڈسک میں اکثر گمنام عاشقانہ خطوط ملتے تھے۔ ایک بار تو ایک نامعلوم عاشق صاحب نے ایک قیمتی فاؤنٹین پن اسی طرح تحفہ دیا تھا۔ روزانہ ڈسک کے اوپر گلاب کے پھول رکھے ملتے۔ لیکن ان سب مجنون صفت حضرات میں سے کسی کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ کھلم کھلا اس سے بات بھی کر سکے۔ سلمہ کھڑی ان سب باتوں پر غور کر رہی تھی کہ سلیم صاحب اپنا بہترین سوٹ پہنے بالو ں میں دھڑیوں تیل لگائے اور فلم اسٹاروں جیسی مونچھیں بنائے ہوئے نازل ہوئے۔
’’مس سلمہ صحافی‘‘ اس نے بیسوی صدی کے انداز میں اس قدر جھک کر کہا کہ سلمہ کو ہنسی آگئی۔ ’’آپ یہاں کھڑی کیا کر رہی ہیں؟ ہاں۔۔۔ وہ میرا مطلب یہ ہے آپ کوئی کھیل کیوں نہیں کھیلتیں؟ دیکھیے آپ کی رنگت زرد ہوتی جا رہی ہے۔ وہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ
All work and no play
Makes Jack a dull boy.
مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ وردھا میں ٹینس کی بہترین کھلاڑیوں میں شمار ہوتی تھیں۔ تو آپ ہمارےسومنگ باتھ کلب میں آج شام کو ٹینس کھیلنے آئیے نا؟‘‘ وہ سانس لینے کے لیے رکا تو سلمہ نے کہا، ’’شکریہ میں اب تک تو اس لیے کھیلنے نہ آئی تھی کہ شاید وائس چانسلر صاحب لڑکوں کے اخلاق خراب کرنے کے جرم میں مجھے یونیورٹسی سے نکال دیں۔‘‘
سلیم اپنے آپ کو آزاد خیال اور ترقی پسند سمجھتا تھا۔ ’’ارے آپ بھی کیا کہتی ہیں کس کی مجال ہے کہ آپ کو یہاں سے نکال دے۔ ہم سب یونیورسٹی چھوڑ دیں گے۔ آپ شاید مجھ سے واقف نہیں ہیں۔ پچھلے سال ٹکڑوں میں میٹھا کم ہونے پر میں نے ایک مہینہ تک ڈائننگ ہال کا اسٹرائک کرا دیا تھا۔ آپ بےفکر ہوکر آج ہی سے کھیلنے آئیے۔‘‘
سلمہ نے اپنی جان چھڑانے کے لیے وعدہ کر لیا اور کہا کہ وہ اسی مقام پر شام کے پانچ بجے ملےگی اور پھر دونوں اکٹھے سومنگ باتھ لان پر ٹینس کھیلنے جائیں گے۔
سلیم اس سے رخصت ہوکر خوش خوش اپنے کمرے کی طرف چلا۔ راستہ میں سوچتا جارہا تھا کہ “Doubles” میں سلمہ کو اپنے ساتھ کھلائےگا تاکہ پارٹنر، پارنٹر پکار کر پہلے ہی بے تکلفی بڑھالے۔ ہوسٹل کے دروازے میں داخل ہو رہا تھا کہ بغل میں کتابیں دبائے انور آتا ہوا ملا۔
’’کہاں جا رہے ہو؟ گھنٹہ تو خالی ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’اوہ میں تو ایسے ہی جارہا ہوں۔‘‘ انور نے جواب دیا۔ ’’ذرا لائبریری سے چند کتابیں لانی ہیں۔‘‘
مگر ہوسٹل سے نکلتے ہی، بجائے لائبریری کے انور نے لکچر روم کا رخ کیا۔ سلمہ اب تک برآمدہ میں کھڑی تھی۔ قدم بڑھاتے ہوئے اس کے پاس پہنچ کر اس عاشق جانباز نےبھی تنہائی میں گفتگو کا یہ موقع غنیمت جانا اور فوراً تقریر شروع کر دی۔
’’مس سلمہ صحافی۔ آدام عرض ہے۔ گستاخی معاف کیجیےگا، مگر میں دیکھتا ہوں کہ آپ کورس کی کتابوں کے علاوہ عام لٹریچر میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لیتیں۔ آخر کیا وجہ ہے؟ آپ کو لائبریری میں بھی کبھی آتے نہیں دیکھا۔ اس طرح لاپرواہی سے تو آپ کی واقفیت عامہ صفر ہوکر رہ جائےگی۔‘‘
سلمہ نے شکریہ ادا کرتے ہوئے جواب دیا، ’’تازہ کتابیں تو میرے پاس برابر آتی رہتی ہیں۔ مگر میرا خیال تھا کہ یونیورسٹی لائبریری میں شاید میرے کام کی کتابیں نہ ملیں، میں نے سنا ہے کہ یہاں اشتراکی لٹریچر کی ممانعت ہے۔‘‘
’’اوہو آپ بھی کس زمانے کی باتیں کر رہی ہیں۔‘‘ انور نے جلدی سے کہا۔ اب تو جب سے قومی حکومت قائم ہوئی ہے ہمارے پرووائس چانسلر صاحب نے حکم دیا ہے کہ لائبریری میں انقلابی کتابوں پر سے ممانعت اٹھالی جائے۔۔۔ ہاں تو آپ میرے ساتھ لائبریری تشریف لے چلیے گھنٹہ بھی خالی ہے۔‘‘
’’معاف کیجیےگا۔ اس وقت تو مجھے فرصت نہیں ہے لیکن اگر آپ شام کو پانچ بجے مجھے اسی جگہ ملیں تو ہم اکٹھے لائبریری چلے چلیں گے۔‘‘
انور نے سوچا یہ بھی اچھا رہے گا۔ شام کو جب سب کھیل کے لیے چلے جاتے ہیں لائبریری تقریباً سنسان معلوم ہوتی ہے، سلمہ صحافی سے اکیلے میں خوب باتیں ہو سکیں گی۔
(3)
انور خوش خوش ’’آج ہی گھر میں بوریانہ ہوا۔‘‘ گاتا ہوا اپنےکمرے میں داخل ہوا تو سلیم کو ’’پریم نگر میں بناؤں گی گھر میں‘‘ گاتا ہوا پایا۔ اِن کے کمرے کا تیسرا شریک آزاد حسب معمول پلنگ پر لیٹا ایک جاسوسی ناول پڑھ رہا تھا۔ جاسوسی ناول پڑھنا اور سونا یہ آزاد کے محبوب مشغلے تھے۔ وہ ان لوگوں میں تھا جو کسی شعبہ حیات میں بھی امتیاز نہیں حاصل کر سکتے۔ نہ وہ پڑھائی میں ہوشیار تھا اور نہ اس نے میگزین میں کوئی مضمون لکھا تھا۔ ملتا جلتا بھی وہ کم تھا اور اپنے کمرے کے رفیقوں سے بھی وہ بوقت ضرورت ہی بات کرتا تھا۔ وہ خوب صورت بھی نہ تھا۔ چہرے پر موٹر سائیکل سے گرنے کے کئی نشانات تھے۔ سانولا رنگ تھا، معمولی قد، خشک اور سخت بال جن میں شاید دن میں ایک بار بھی کنگھا نہ ہوتا تھا۔ غرض اس میں کوئی ایسی صفت نہ تھی کہ وہ طالب علموں یا صنف نازک میں مقبول ہو سکتا اور نہ وہ لڑکیوں میں غیرضرورت دلچسپی کا اظہار ہی کرتا تھا۔ انور اور سلیم کے رومانی مشغلوں کو وہ غیر متعلق دلچسپی سے دیکھتا تھا نہ وہ اس کو اپنے رازوں میں شریک کرتے اور نہ وہ اِس کی کوشش کرتا۔ آج سلیم اور انور کی غیرمعمولی بشاشت سے معلوم ہوتا تھا کہ دونوں کو پھر رومانی کیڑے نے کاٹا ہے مگر اس نے سوائے علیک سلیک کے کوئی بات نہ کی اور اپنی جاسوسی ناول پڑھتا رہا۔
’’تم اتنے خوش کیوں نظر آتے ہو۔‘‘ انور نے سلمہ کے گانے سے تنگ آکر کہا۔
’’تمہیں کیوں بتاؤں۔‘‘ سلیم نے بگڑ کر جواب دیا۔ ’’مگر میں کہتا ہوں کہ تمہیں آج کون سا خزانہ پڑا پا گیا ہے کہ خوشی سے پھٹے جا رہے ہو۔‘‘
تھوڑی دیر کمرے میں خاموشی طاری رہی۔ انور اور سلیم دونوں اپنے اپنے سوٹ کیس میں کپڑے تلاش کر رہے تھے۔
’’ارے چھدّو! ارے چھدّو۔‘‘ انور نے نوکر کو پکارا، ’’وہ درزی میرا سوٹ لایا یا نہیں؟‘‘
’’اور وہ میرا بلیزر جس کی آستنین کھولنے کے لیے دیا تھا۔ وہ آیا یا نہیں؟‘‘ انور نے سوال کیا۔
جب معلوم ہوا کہ درزی حسب معمول وعدے کے مطابق کپڑے نہیں لایا تو دونوں نے مل کر اس کو برا بھلا کہا۔ اس کے بعد آزاد کا ٹرنک ٹٹولا گیا کہ شاید اس میں کچھ پہننے کے قابل کپڑے نکلیں مگر وہاں کیا ملتا۔ وہ تو جاڑےکا موسم ایک گرے پتلون اور گرمی سفید قمیص اور خاکی نیکر پہن کر گزار دیتا تھا۔
کھانا کھاکر سلیم نے سائیکل سنبھالی تو انور نے پوچھا، ’’اس لوُ گرمی میں کہاں چلے؟‘‘
’’تمھیں کیوں بتاؤں کہ درزی کے یہاں جا رہا ہوں۔‘‘ سلیم نے کہا اور سائیکل پر بیٹھ روانہ ہوگیا۔ اس کے چند منٹ بعد انور نے آزاد کی سائیکل سنبھالی۔
’’میں نے کہا، شاعر صاحب‘‘ آزاد نے ہنستے ہوئے فقرہ کسا، ’’کسی کی تیر نظر سے میری سائیکل میں پنکچر نہ کر لائیےگا۔۔۔ ‘‘
درزی کے یہاں سے کپڑے لے کر چلے تو انور کو خیال ہوا کہ نئے سوٹ کے ساتھ نیا جوتا بھی ہونا چاہیے اور سلیم کو یاد آیا کہ اس کا ٹینس کا جوتہ ذرا پرانا ہوچکا ہے۔ جوتوں والے کے برابر میں ایک جنرل مرچنٹ کی دوکان تھی۔ انور نے ایک نئی ٹائی بھی خرید ڈالی۔ سلیم نے ایک ریشمی مفلر لیا۔ انور نے نئے بلیڈوں کا پیکٹ لیا تو سلیم کو یاد آیا کہ اس کی Face Cream ختم ہوگئی ہے۔ سلیم نے ریشمی رومال خریدا تو انور نے سینٹ کی شیشی۔
غرض تین بجے کے قریب دونوں دوست لدے پھندے واپس کمرے پہنچے۔ آزاد سو رہا تھا مگر دیر تک نہ سو سکا اس کو ایسا معلوم ہوا کہ بھونچال آ گیا۔ آنکھیں کھول کر دیکھا تو انور اور سلیم کمرے کے واحد آئینہ میں بیک وقت ڈاڑھی مونڈنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور خوب گالم گلوج اور چھینٹا جھپٹی ہو رہی ہے۔ اِسی جھگڑے میں انور نے اپنا گال کاٹ لیا اور آزاد نے اٹھ کر خون روکنے کے لیے پھٹکری لگا دی تو اتنے زور سے چلایا کہ آس پاس کے کمرے والے سمجھے کوئی قتل ہو گیا ہے۔
غرض بڑی مشکل سے دونوں دوست تقریباً ساڑھے چار بجے سج دھج کر تیار ہوئے۔ بالوں میں Anzora ڈالا گیا۔ مانگ پٹی کی گئی۔ چہرے پر کولڈ کریم کی مالش ہوئی مگر حالت قابل رحم تھی اتنی سخت گرمی کے باوجود انور نے کلپ دیا ہوا سخت کالر لگایا تھا جس نے اس کی گردن کو طوق کی طرح جکڑ دیا تھا۔ اس پر غضب یہ کیا کہ نہ صرف کوٹ بلکہ واسکٹ بھی، سلیم نے بھی اپنی شان جمانے کے لیے یونیورسٹی کے رنگوں کا اونی بلیزر پہنا تھا، غرض دونوں کا پسینہ کے مارے برا حال تھا۔
’’کہاں کی تیاری ہے؟‘‘ انور نے سلیم سے پوچھا۔
’’تم کوئی ٹھیکہ دار ہو‘‘ سلیم نے کٹ کر جواب دیا، ’’اور دیکھتے نہیں ہو کہ ٹینس کھیلنے جا رہا ہوں۔ تم بن ٹھن کر کہاں جا رہے ہو؟‘‘
خدا خدا کرکے پونے پانچ بجے یہ دونوں روانہ ہوئے تو آزاد کو اطمینان نصیب ہوا۔ اِس نےتکیہ کے نیچے سے جاسوسی ناول نکالا اور پڑھنا شروع کر دیا۔
(4)
یونیورسٹی کلاک ٹاور نے چھ بجائے تو انور نے سلیم سے کہا، ’’بس بھائی اب چلو انتظار کی حد ہو گئی۔ اس لڑکی نے آج ہم دونوں کو بیوقوف بنا دیا۔‘‘
دونوں دوست ایک گھنٹہ تک ٹہلتے رہے تھے۔ ایک دوسرے کو ایک ہی مقام پر دیکھ کر تعجب ضرور ہوا تھا اور آپس میں فقرے بازی ہوئی لیکن کچھ عرصے کے بعد دونوں نے قبول دیا کہ اصل مقصد ان کے آنے کا کیا تھا۔ جب چھ بج گئے اور سلمہ صحافی نہ آئی تو انھوں نے اس کو برا بھلا کہنے کے بعد طے کیا کہ اب کہیں ٹہلنے چلا جائے۔
سومنگ باتھ ریسٹوران میں شربت پینے کے بعد انھوں نے باتفاق رائے کھیتوں کا رخ کیا، ریلوے لائن کو پار کرکے پگڈنڈی پگڈنڈی باتیں کرتے جارہے تھے کہ کچھ فاصلہ پر دو سائیکلیں پڑی دیکھیں۔ ان دونوں سائیکلوں کو وہ پہچانتے تھے، فوراً جھجک گئے اور کھیت کی آڑ لے کر اِدھر ادھر ہوشیاری سے نگاہ کی تو برابر کے کوپئیں کی مڈیر پر آزاد اور سلمہ صحافی کو بیٹھا ہوا پایا۔ انور نےسلیم کی طرف دیکھا اور سلیم نے انور کی طرف۔ اِس کی ایک نگاہ میں تعجب، غصہ اور انتقام کی خواہش تمام جذبات موجود تھے۔ غرض صورت حال پر مفصل تبصرہ تھا۔ آزاد اور سلمہ باتیں کر رہے تھے۔ کان لگاکر سُنا تو انور اور سلیم دونوں کے چہرے سرخ ہورہے تھے کیونکہ ذکر خیر ان ہی کا تھا۔
’’کاش تم ان کو دیکھتے۔ انور نے مفلر باندھ کر اس پر گرم کوٹ پہنا اور سلیم نے نہ صرف سخت کالر لگایا بلکہ واسکٹ بھی پہنی۔ پسینہ کا یہ حال تھا کہ خدا کی پناہ۔‘‘ اور دونوں نے زور سے ہنسنا شروع کیا کہ انور اور سلیم سے برداشت نہ ہو سکا اور وہ الٹے قدم واپس لوٹ گئے۔ کچھ عرصہ خاموش چلتے رہے پھر دونوں بیک وقت بولے:
’’بدلہ لیں گے۔‘‘
’’بدنام کریں گے۔‘‘
کچھ دور واپس گئے تھے کہ ان کا ایک کلاس فیلو فضل الدین مل گیا، یہ بھی یونیورسٹی کے عاشق مزاجوں میں سے تھا، مگر حال ہی میں شہر کے اسکول کی اپنے سے عمر میں دس برس بڑی ایک دیسی عیسائی ہیڈمسٹرس کے عشق میں زک اٹھا چکے تھے۔ اس لیے فی الحال عورتوں کی قدم سے بغض رکھتے تھے۔ انور اور سلیم نے نہایت رازدارانہ طریقہ پر فضل الدین کو آزاد اور سلمہ کے پکڑے جانے کا ’’واقعہ‘‘ سنایا اور ساتھ میں یہ بھی کہا، ’’بھائی کسی سے کہنا مت، کسی کو بدنام کرنے سے ہمیں کیا فائدہ؟‘‘
ایک ہفتے کے اند راندر یہ ’’واقعہ‘‘ یونیورسٹی کے بچے بچے کی زبان پر تھا۔
(5)
اور پھر وہ دن آیا جب مسلم یونیورسٹی میں ایک لڑکی بھی نہ رہی، زبانِ خلق سے تنگ آکر سلمہ اور آزاد دونوں نے نام کٹا لیا۔ سلمہ واردھا واپس چلی گئی اور آزاد اپنے جاسوسی ناولوں کا پلندہ اٹھا اپنے وطن چلا گیا۔
مسلم یونیورسٹی گزٹ نے بورڈ گاؤں کے زمیندار کی سالگرہ کی خوشی میں ایک کالم سیاہ کرنے کے بعد چند لائنیں اس واقعہ پر بھی لکھیں اور لکھا، ’’یہ خوشی کی بات ہے کہ مس سلمہ صحافی کے جانے کے بعد یونیورسٹی ایک خطرناک عنصر سے پاک ہو گئی۔‘‘
حامد عباسی کی تجویز اور ناصر ہارونی کی تائید پر یونین نے سلمہ صحافی کی جرات کو سراہتے ہوئے ریزولیشن پاس کیا۔ ایک دوسرے ریزولیوشن سے یہ طے پایا کہ جو مخملی صوفے لڑکیوں کے لیے بنوائے گئے تھے ان کو فروخت کرکے اس کے روپے سے سلمہ صحافی کا ایک مجسمہ یونین ہال کے سامنے لان میں نصب کیا جائے تاکہ اس زمانے کی یادگار رہے جب یونیورسٹی میں ایک لڑکی پڑھتی تھی۔
حکومت کے قوانین کی رو سے طالب علموں کی انجمن خود مختار جماعت تھی اس لیے یونیورسٹی ایگزکٹو کونسل اس ریزولیوشن کے خلاف کوئی کارروائی نہ کر سکی اور بہت جلد مجسمہ نصب کر دیا گیا۔ اسی سال یونیورسٹی کے بجٹ میں ایگزکٹو کونسل نے دس روپے کی رقم ’’طالب علموں کے اخلاق کی حفاظت کی تدابیر، کے لیے منظور کی۔ اس رقم سے ایک برقعہ سلوایا گیا اور سلمہ صحافی کے مجسمہ کو اڑھا دیا گیا۔
اور مدت تک یہ برقعہ سلمہ صحافی کے مجسمہ پر ڈھکا رہا اور ہوا میں پھڑپھڑاکر قریب سے گزرنے والوں کو عبرت دلاتا رہا، مگر ۱۹۴۷ء میں جس سال ہندوستان میں پہلی بار اشتراکی حکومت قائم ہوئی ایک خوفناک زلزلہ آیا جس میں بنارس اور علی گڑھ یونیورسٹی کی تمام عمارتیں تباہ ہوگئی مگر سلمہ صحافی کا مجسمہ اسی طرح قائم رہا۔ زلزلہ کے ساتھ ہی ایک زبردست آندھی چلی جو اس تاریخی برقعے کو اڑاکر لے گئی۔
مأخذ : ایک لڑکی اور دوسری کہانیاں
مصنف:خواجہ احمد عباس