کردار
نمبر ایک رُوح کا ناطق وجود
نمبر دورُوح کا جذباتی وجود
نمبر تین رُوح کا سرمدی وجود
بیوی نمبر ایک بیوی کے متعلق نمبر ایک کا خیال
بیوی نمبر دو بیوی کے متعلق نمبر دو کا خیال
رقاصہ نمبر ایک رقاصہ کے متعلق نمبر ایک کا خیال
رقاصہ نمبر دورقاصہ کے متعلق نمبر دو کا خیال
۔۔۔۔۔۔اورایک رپورٹر۔۔۔۔۔۔
حضرات! یہ ڈرامہ جو تھوڑی دیر کے بعد آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا معمولی ڈرامہ نہیں۔ اس کا ایک ایک لفظ آپ کو غور سے سننا ہو گا۔ تاکہ آپ اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ سکیں۔ ڈرامے کا نام ہے’’ روح کا ناٹک‘‘ اور یہ ڈرامہ روح کے اندر آدھے سیکنڈ کے عرصے میں کھیلا گیا ہے یوں تو ہر روز آپ کی ہماری روح کے اندر کئی ڈرامے کھیلے جاتے ہیں مگر آج تک کسی نے ان کو پیش نہیں کی اور نہ کسی نے سمجھنے کی کوشش کیہے۔ مگر یہ ڈرامے کیوں ہوتے ہیں۔
سائنسدانوں نے ثابت کیا ہے کہُ روح مجموعہ ہے تین راتوں کا جن کی نیچر جدا جدا ہے۔ مثال کے طو پر اگر الف کو ایک آدمی فرض کر لیا جائے تو اس کے تین حصے یہ ہوں گے الف نمبر ایک الف نمبر دو۔ الف نمبر تین۔۔۔!
نمبر ایک رُوح کا وہ حصہ ہے جو اچھائی اور برائی میں تمیز کرتا ہے۔ اسے ہم ضمیر کہتے ہیں۔۔۔!
نمبر دو جذباتی وجود ہے جو راگ رنگ اور عیش چاہتا ہے۔
نمبر تین رُوح کا وہ حصہ ہو جو کبھی فنا نہیں ہوتا اور دنیوی جھگڑوں میں خود کو نہیں پھنساتا۔۔۔یہ مسافر ہے جو ہمیشہ سفر میں رہتا ہے اب آپ مجھ سے یہ پوچھیں گے کہ رُوح کے یہ تین حصہ دار کہاں رہتے ہیں۔ بتلاتا ہوں پرانے زمانے میں لوگوں کا خیال تھا کہ روح یعنی آتما دل میں رہتی ہے اس ڈرا مے کا لکھنے والا کہتا ہے کہ روح ہمارے سینے کے اُس حصے میں رہتی ہے جس پر ہاتھ مار کر ہم عام طور پر کہا کرتے ہیں میری رُوح کو بڑا دکھ ہوتا ہے۔ یا ’’میری آتما کو سکھ اور چین مل گیا ہے۔۔۔سو ہم بھی فرض کر لیتے ہیں کہ ہماری رُوح یا آتما دل کے پاس رہتی ہے چنانچہ جب آپ یہ ڈرامہ دیکھیں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ نمبر ایک اور نمبر دو۔ آپ کو کئی مرتبہ دل سے باتیں کرتے دکھائی دیں گے نمبر تین ڈرامے کے آخر میں بولے گا کیونکہ وہ تو نمبر ایک نمبر دو کے جھگڑوں میں دخل ہی نہیں دیا کرتا۔ لیجئے اب ڈرامہ شروع ہوتا ہے۔
منظر
پردہ اُٹھتا ہے۔ اسٹیج پر ایک قد کے تین آدمی نظر آتے ہیں جذباتی وجود نے شوخ رنگ کپڑے پہن رکھے ہیں اس کے چہرے کے خدو خال ہی سے جذباتی ہونے کا پتہ چلتا ہے۔۔۔منطقی وجود کے لباس میں سنجیدگی ہے شکل وصورت سے فلاسفر معلوم ہو تا ہے۔۔۔ سرمدی وجود عقب میں سفری لباس پہنے کھڑا ہے جیسے پلیٹ فارم پر اپنی گاڑی کا انتظار کر رہا ہے اسے منطقی اور جذباتی وجود سے کوئی دلچسپی نہیں! اسٹیج کے ایک کونے میں بہت بڑا دل بنا ہے جو دھڑک رہا ہے دل کے ساتھ کئی تار لگے ہیں ان تارو ں میں سے ایک کے ساتھ ٹیلی فون لگا ہے۔۔۔ جذباتی وجود نشے میں چور اس ٹیلی فون کے پاس آتا ہے اور چونگا اُٹھا کر بات کرتا ہے۔۔۔ نمبردو‘ ہیلو۔۔۔ ہیلو۔۔۔ ارے بھئی سُنتے ہو کہ نہیں۔ اتنے اونچے سروں میں چلا رہا ہوں اور تمہیں سُنائی نہیں دیتا کیا؟ تمہارے کانوں میں گونج پیدا نہیں ہو رہی ہے ۔ ہونی چاہیئے اس لیئے کہ تمہاری رگیں بالکل ڈھیلی پڑ گئی ہیں۔۔۔ اور اب سُنو برانڈی پیؤ۔۔۔ برانڈی۔۔۔ سمجھے؟۔۔۔
نمبر ایک: پر یاد ہے کہ اس کے حلق میں یہ تیسری بوتل تم ہی انڈیل رہے ہو۔ تمہارا وقت تو طویل ہی کٹ جاتا ہے۔ پرشامت اس بیچارے دل کی آتی ہے۔دیکھو تو کس زور سے دھڑک رہا ہے۔۔۔؟
نمبردو: دھڑکنے دو۔۔۔ اس کا دل دھڑکنا ہی تو زندگی کی نشانی ہے تم تو چاہتے ہو کہ اس پر غشی کی حالت طاری رہے اور ہمارے تیسرے ساتھی (سرمدی وجود کی طرف اشارہ کرکے) کے مانند بالکل گونگا ہو جائے۔۔۔ واہ کیا کہنے ہیں اس زندگی کے۔
نمبر ایک: میں کہتا ہوں۔ اگر یہ اسی رفتار سے دھڑکتا رہا تو یوں چٹکیوں میں بند ہو جائے گا۔ پھر کبھی نہیں دھڑکے گا۔۔۔؟
نمبر دو: نہ دھڑکے۔۔۔ پھر کیا ہوا۔ آخر اسے ایک روز خاموش ہونا ہی ہے۔۔۔؟
نمبر ایک: میں بھی تو یہی کہتا ہوں۔ تم نے تو میرے ہی لفظ دہرائے ہیں۔۔۔؟
نمبر دو: کبھی کبھی تم عقل کی بات کہہ دیا کرتے ہو۔
نمبر ایک: دیکھو جو کہنا ہو‘ زبانی کہو۔۔۔ رگوں کو ہاتھ لگایا تو بہت بُرا ہو گا میں تم سے پہلے بھی کہہ چکاہوں کہ۔۔۔
(جذباتی وجود جب بھی تاروں کو ہاتھ لگاتا ہے ان میں جھنکار پیدا ہوتی ہے۔
نمبر دو: غصے میں کہہ چکے ہو کون کہہ چکا ہے۔۔۔ اور کس حق کی بنا پر ۔۔۔ کون کہتا ہے جو نوکروں کی طرح مجھ پر حکم چلائے۔۔۔ میں شاعرؔ ہوں۔۔۔ عشق ومحبت کی آواز۔۔۔ میرے بغیر یہ دنیا۔۔۔ مٹی کا ایک ڈھیر ہوتی۔۔۔ ایک مر گھٹ ۔۔۔عشق ومحبت نہ ہو۔ تو ہر شے بے جان ہے۔۔۔ مردہ ہے۔۔۔
نمبر ایک: تم بکواس کرتے ہو۔
نمبر دو: جو کچھ میں کہتا ہوں بالکل دُرست ہے۔۔۔ ہاں تو یہ بتاؤ۔ اگر ہم شراب پیتے ہیں۔ تو اس میں قصور کس کا ہے؟
نمبرایک: (طنزیہ انداز میں) تمہارا تو ہونے سے رہا۔ جو ہر وقت شراب شراب کی رٹ لگائے رکھتا ہے۔
نمبر دو: اور اس رٹ لگانے کے باعث پر بھی جناب نے غور فرمایا کیا یہ آپ کی صحبت کا نتیجہ نہیں جس میں ہر دم گلا گھونٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔
نمبرایک: بھئی دیکھو۔ ذرا انصاف سے کام لو۔۔۔ ایمان سے کہو۔ اس بیچارے دل کی بدبختیوں کا موجب میں ہوں۔۔۔ایام۔۔۔ یقیناًتم ہو۔۔۔ تم جذباتی انسان۔۔۔ کبھی سوچا بھی ہے کہ تم کیا ہو۔۔۔ لو مجھ سے سنو۔۔۔ تم خود غرض رند ہو۔۔۔
نمبر دو: ایک تباہ شدہ انسان ہو۔۔۔ نہ تم نے کبھی مطالعہ میں دلچسپی لی۔۔۔ نہ تم نے کبھی عقل کا کام کرنے کی کوشش کی۔ خودداری اور اخلاق کے پیچھے تم لٹھ لیئے پھرتے ہو۔۔۔
نمبردو: تم دوسروں کی کھینچی ہوئی لکیر وں پر چلنے والے ناصح ہو۔۔۔ ایک منشک کتابی کیڑے۔۔۔
نمبرایک: میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔
نمبر دو: میں بھی تم کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھتا ہوں۔
(جذباتی وجود زور سے دل کی تاروں کو چھیڑتا ہے۔ زور کی جھنکار پیدا ہوتی ہے)
نمبرایک: پرے ہٹ جاؤ۔ خبردار جو میری رگوں کو پھر چھیڑا۔۔۔
نمبر دو: تم بیچ میں لڑانا کیا شروع کر دیتے ہو یہ رگیں جیسی تمہاری ہیں میری بھی ہیں ان کو چھیڑنے سے تمہیں تکلیف ہوتی ہے۔ تو کیا مجھے نہیں ہوتی۔۔۔ اور جب تمہاری مہربانی سے میری رگیں بے حس ہو جاتی ہیں تو کیا میں گدھے کی مانند بے وقوف نہیں ہو جاتا۔ اس وقت تجھ میں اور مجھ میں فرق ہی کیا رہتا ہے میں انہیں چھیڑوں گا۔۔۔ جب جی چاہے چھیڑوں گا۔ ہر وقت چھیڑوں گا۔ رگیں تنی رہیں تو مزا ہے۔۔۔ اس طرح وہ رُ وح کو کا طنبورہ بن جاتی ہیں جن پر میں آزادی اور محبت کے نغمے الاپ سکتا ہوں۔
دل کے تاروں کو چھیڑتا ہے دل زیادہ تیزی سے دھڑکنا شروع کرتا ہے۔
نمبردو: (دل سے مخاطب ہو کر پی ‘ پی ‘ اور خوب پی‘ جی بھر کے پی۔۔۔
نمبر ایک: ایسا شربت جو تیرے سینے کی آگ ٹھنڈی کرئے۔
نمبر دو: ایسی شراب جو پگھلی ہوئی اگنی ہو جو تیرے لہو کے ہر قطرے کو ایک لپکتا ہوا شعلہ بنا دے۔
نمبرایک: نہیں نہیں‘ ہرگز نہیں۔ شراب نہیں‘ شربت‘ کیا کہا۔۔۔ شربت نہیں رہا۔۔۔ ختم ہو گیا۔۔۔ تو سوچتا کیا ہے‘ جا بھاگ کے عطار کی دکان سے لے آ۔۔۔ (دونوں وجود کچھ دیر تک اسٹیج پر ادھر ادھر ٹہلتے پھرتے ہیں)
نمبر ایک: اب جوش ٹھنڈ اہوا۔
نمبر دو: تم ہو کون پوچھنے والے؟
نمبر ایک: کیا نظر نہیں آتا؟
(دونوں وجود پھر ادھر ادھر ٹہلنے لگ جاتے ہیں۔ سرمدی وجود کے پاس جا کر دونوں ایک دم رکتے ہیں۔۔۔)
نمبر ایک: یہ کون ہے؟
نمبر دو: نمبر تین۔۔۔ تمہارا خاموش بھائی۔۔۔ ہمیشہ کی طرح چپ چاپ سو رہا ہے۔۔۔ اگر اسے تنگ کیا یا ستایا تو یاد رکھنا تمہارے حق میں اچھا ثابت نہ ہو گا۔۔۔۔ اس کو چھوڑو۔۔۔ تم یہ بتاؤ کہ اس عورت میں تم نے کیا دیکھا جو یوں بری طرح لٹو ہو گئے۔ اس کی ہوشیاری اور چالاکی کو تم نے پسند کیا۔یہی ہے نا۔۔۔ پر اتنی سی بات کے لیئے اپنی بیوی اور بچوں کو ٹھکرا دینا کہاں کی عقلمندی ہے ۔۔۔ معاف کرنا دوست تمہارا یہ فعل اچھا نہیں۔ یہ غلط بات ہے کہ ہم جنگلی اور وحشی آدمی بن جائیں اور ہر روز ایک نئی عورت اپنے گھر میں بلائے چلے جائیں جسم پر غور کریں اور ایک خوب صورت۔۔۔ اور غیر ثانی مندر کی خوب صورت عمارت پرغور ہی نہ کریں۔۔۔ میرا مطلب رُوح سے ہے سمجھے؟
ہوں‘ تمہارے عقیدوں اور تمہارے خیالات کی کسے پرواہ ہے جب کہ وہ حسین ہے۔۔۔ وہ حسین ہے اور حسن کے سامنے ایسی بیہودہ منطق نہیں چل سکتی۔۔۔
نمبرایک: تم جیسے وحشی انسان کے آگے منطق چلانا اور بھینس کے آگے بین بجانا ایک ہی بات ہے۔۔۔ لیکن آدمی۔۔۔
نمبر دو: تو یہ کہیے ا حمق اور پاگل سے واسطہ پڑ اہے۔۔۔ تم ایسے خشک مزاج ساتھی کی محبت میں مجھے کس قدر کوفت اٹھانا پڑتی ہے۔
نمبرایک: تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ پہلے تم ایسی باتیں نہیں کرتے تھے۔
نمبر دو: ٹھیک کہتے ہو۔۔۔ جب ہم دونوں ایک ساتھ مل کر کام کرتے تھے تو مجھے تم سے کوئی شکایت نہ تھی بلکہ میں تم کو اچھا سمجھتا تھا۔ میں تمہاری پرانی خدمات ہرگز نہیں بھول سکتا۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں اینٹے کی محبت میں گھلا جا رہا تھا تو تم نے میری کافی مدد کی تھی اس محتاط اور ہوشیار لڑکی کو پھانسنے اور اس کے ماں باپ کو آمادہ کرنے میں تم نے واقعی بہت کام کیا پر اب کچھ عرصے سے تم کم عقل ہو گئے ۔ زنگ لگے استرے کی مانند کند ہو گئے ہو۔
نمبرایک: اس نواز ش کا شکریہ میرا احساس اگرچہ تیز نہیں لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ یہ رائے مرتبہ کرنے میں تمہیں شراب نے کافی مدد دی ہے۔
نمبر دو: بکواس بند کرو اور اس کے حسن کا ذکر چھیڑو۔۔۔ وہ کتنی سُندر ہے کتنی خوبصورت ہے تم ہمیشہ اس کے حسن کو بھول جاتے ہو اس کی نزاکت پر ہمیشہ تمہاری آنکھیں بند رہی ہیں۔۔۔ میں خوب جانتا ہوں کہ وہ ایک معمولی ناچنے والی ہے مگر اس چھوٹی سی بات سے اس کے حسن میں تو فرق نہیں آتا۔ اس کی سُندرتا تو کم نہیں ہوتی۔۔۔ ادھر آؤ‘ میں تمہیں پری دکھاؤں۔۔۔ آہ! میری جان آ‘ اور اسی انداز سے گا‘ جیسے تو کل پرسوں اور پہلے کئی بار گا چکی ہے۔ گا اتنا گا کہ میرا ہر ذرہ ایک گونجتا ہواسُربن جائے۔
(رقاصہ نمبر ۲ چھم چھم کرتی اسٹیج پر آتی ہے اور دل کی دھڑکنوں کی تال پر ناچنا اور گانا شروع کر دیتی ہے)
گیت
بانکے گرو‘ کون ہو تم؟۔۔۔ کون ہو تم؟۔۔۔ کون ہوتم؟ بانکے گروکون ہو تم؟
تم تھے؟ کیا یہ۔۔۔ تم تھے کل شب ‘ میرے پریم دو ارے میں
کیا جانو‘ کون آیا تھا‘ میرے دل کے اندھیارے میں
شب کی ڈراؤنی سائیں سائیں اور وہ ایک ٹیڑھی پرچھائیں کون ہو تم بانکے گرو
کون ہو تم؟۔۔۔ کون ہو تم؟۔۔۔ کون ہوتم؟ بانکے گروکون ہو تم؟
اس کے گرم لبوں پر میرے شیریں بوسوں کی بوچھاڑ
اس کے دھڑکتے دل پر میری مہکی زلفوں کے انبار
ہر جانب کلیاں ہی کلیاں‘ کالی رات اندھیری گلیاں۔ کون ہو تم ؟بانکے گرو کون
کون ہو تم؟۔۔۔ کون ہو تم؟۔۔۔ کون ہوتم؟ بانکے گروکون ہو تم؟
کون گرا تھا گود میں میری بے سرمد‘ بے پرواہ‘ بے جان‘ کس کو لگا کر
سینے سے میں نے پایا دوجگ کا گیان۔
کیا تم اوجانے والے میرے دل کے اُجیالے کون ہو تم ‘ بانکے گرو
کون ہو تم؟۔۔۔ کون ہو تم؟۔۔۔ کون ہوتم؟ بانکے گروکون ہو تم؟
نمبر دو: (مسحور ہو کر) مزا آگیا طبیعت شاد ہو گئی۔ اس سرور‘ اس گیت کے آگے دنیا ہیچ ہے۔ یہ تیری گول گول باہیں‘ یہ تیرے نازک نازک پیر‘ اس بھری دنیا میں ہے کوئی ایسا نرم قالین‘ جوان نازک پیروں کے لیئے اپنا سینہ پیش کر سکے۔۔۔ آمیری جان ‘ میرے پاس آ‘ مجھ پر ناچ‘ میرے اندر ناچ اور سدا ناچتی رہ کہ تیرے سفید سفید ٹخنوں میں بندھے ہوئے گھنگھروں کی جھنجھناہٹ میں سارے ہنگامے گم ہو جائیں ۔ جھولا جھول۔ میرے پریم کا جھولا جھول اور سدا جھولتی رہ۔ آمیرے پاس آ کہ میں تیرے ان مخملیں پیروں پر اپنا سر رکھ کر سکھ کی نیند سو جاؤں۔۔۔
نمبرایک: یہ دیوانگی ہے‘ سراسر جہالت ہے۔ اسے چھوڑدو دور دفعان ہونے دو۔ یہ تمہاری نظر کا دھوکا ہے ‘ فریب ہے وہ ایسی نہیں ہے جیسی کہ تم سمجھ رہے ہو‘ تم غازہ لگے گالوں اور مصنوعی بالوں سے پیار کرتے ہو۔۔۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو تمہاری اس پری کی عمر چالیس برس ہے ایک دن بھی کم نہیں۔ لات مار کر اسے اپنے سے الگ کر دو۔ تمہاری آنکھیں دھوکہ کھا رہی ہیں‘ آؤ اگر حقیقت دیکھنا ہو تو ادھر آؤ۔ میں تمہیں اس پری کی اصلی شکل دکھاؤں ۔
(رقاصہ نمبر ایک‘ ایک بدصورت عورت اسٹیج پر نمودار ہوتی ہے)
دیکھ لیا‘ کہاں گئے اس کے وہ نازک نازک پیر۔ کہاں گئے اس کی کالی کالی زلفوں کے وہ پیچ وخم۔ کہاں گئی اس کی وہ تیزی وطراری کہاں گئے اس کے گلے کے وہ میٹھے میٹھے بول۔۔۔ (رقاصہ سے) اسے دانتوں کی یہ تاروں ایسی مصنوعی لڑیاں نکال دے‘ اب گا۔۔۔ اب گا۔۔۔
(نمبر۱۔ رقاصہ نمبر۱ کے منہ سے دانت نکال دیتا ہے ‘ سر کے بال اُتار دیتا ہے وہ گانا شروع کر دیتی ہے۔ وہی گیت مگر اکھڑے ہوئے سُروں میں ،ناچتی ہے مگر بے تال)
نمبر۲: نہیں نہیں۔ یہ حقیقت ہرگز نہیں ہو سکتی۔ ہرگز نہیں ہو سکتی۔ بھاگ جا چڑیل‘ میری نظروں سے دُور ہو جا۔۔۔
(رقاصہ نمبر۱ کو دھکادے کر باہر نکالنا چاہتا ہے)
نمبر ایک: بس بھنا گئے ‘ تویوں کہو نا کہ تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔
نمبردو: بکواس نہیں کرو۔ تم نے ضرور کوئی چالاکی کی ہے۔
نمبر ایک: نہیں تم اچھی طرح جانتے ہو کہ یہ عورت جس کی جھولی میں تم اپنا دل پھینک رہے ہو اُس عورت کی جوتیاں صاف کرنے کے بھی قابل نہیں جسے تم دھوکا دے کر ٹھکرانا چاہتے ہو تمہیں کیا ہو گیا ہے آخر اس کی کوئی وجہ بھی تو ہو۔ دیکھو اس بیچاری کا کیا حال ہو رہا ہے۔ یہ دُکھ درد کیا۔ وہ صرف اس لیئے جھیل رہی ہے کہ وہ نیک ہے پاک ہے تم سے اس کا سلوک ہمیشہ اچھا رہا ہے۔ تمہارے بال بچے کو پال پوس کر اس نے اتنا بڑا کیا ہے شرم کرو‘ کچھ تو شرم کرو۔ مانا کہ اس کے گلے میں وہ سُر نہیں جو تمہاری اس ناچنے والی کے گلے میں اچھلتے ہیں۔ پرسُنو۔ اگر تمہارے کان پاک اور صاف آواز سُننے کے لیئے بند نہیں تو یہ میٹھی میٹھی لوری سُنو وہ تمہارے بچے کو سلانے کی خاطر دے رہی ہے۔
بیچاری نے تین لمبی راتیں یہی گیت گاتے آنکھوں میں کاٹی ہیں تمہارے انتظار میں وہ تڑپتی ‘ بلکتی اور روتی رہی ہے۔۔۔ لو سنو۔
لوری
سو جا میرے ننھے سو جا
یہ تیرے اشکوں کی لڑیاں
بیت رہی ہیں دکھ کی گھڑیاں
سو جا میرے ننھے سو جا
تیرے باپو آجائیں گے
لکڑی کا گھوڑا لائیں گے
سو جا میرے ننھے سو جا!
بیوی نمبر ایک اور رقاصہ نمبر دو آپس میں جھپٹ پڑتی ہیں دونوں وحشی بِلیوں کی طرح ایک دوسرے سے لڑتی ہیں تھوڑی دیر کے بعد جذباتی اور منطقی وجود بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ دونوں میں لڑائی شروع ہو جاتی ہے اتنا شور بلند ہوتا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ جذباتی وجود رقاصہ کی طرف داری کرتا ہے اور منطقی وجود بیوی کا ساتھ دیتا ہے۔ دل بے چارہ زور زور سے دھڑکتا رہتاہے۔ لڑائی کے دوران جب دل کے تاروں پر کسی کا ہاتھ زور سے پڑتا ہے تو وہ ایک لحظے کے لیئے خاموش ہو جاتا ہے۔۔۔)
نمبر دو: بس بس۔ اب مذاق حد سے گزر چکا ۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ بیہودہ بکواس ہے۔ (بیوی نمبر ایک کو دھوکا دے کر اسٹیج کی طرف کر دیتا ہے)
جاجا: یہاں سے دُور ہو جا۔ تو کسی ادنیٰ ‘ ناٹک کی بھونڈی ہیروئن ہے میری بیوی ایسی نہیں جیسا کہ تم ظاہر کرتے ہو۔ میں اس کو اچھی طرح جانتا ہوں میری زندگی کے پیالے میں وہ زہر کی ایک موتی بوند ہے وہ شربت سے خالی ہے۔ مسرت اور جذبات اس میں ذرہ بھر موجود نہیں وہ کھردری ہے۔ بے لُطف‘ بالکل بے لُطف ! آؤ میں تمہیں اس کا اصلی رُوپ دکھاؤں
لو سُنو‘ اس کی باتیں!
اسٹیج پر بیوی نمبر ۲ ایک چڑچڑے مزاج کی عورت نمودار ہوتی ہے)
بیوی نمبر۲: (چرچڑے پن کی حالت میں)۔۔۔ ایسی زندگی پر۔۔۔ اگر میرے ماں باپ کو معلوم ہوتا کہ یہ وحشی میرے ساتھ ایسا سلوک کرے گا تو کبھی اسکے پلے نہ باندھتے۔ میں کہتی ہوں کہ ایسے شرابی کو دفتروالے دھکے مار کر با ہرکیوں نہیں نکال دیتے۔۔ دارو پیئے بنا جس کی اوندھی کھوپڑی میں حرکت ہی پیدا نہیں ہوتی ایسے خصّم کو کیا کہوں جو میری جھولی بچوں سے بھر کر نگوڑی ان عورتوں کے پیچھے مارا مارا پھرتا ہے جن کو اولاد ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ یہاں گھر میں ایک پَل ٹھہرنا میاں صاحب کو محال ہوتا ہے اور اپنی ان ہونی سوتیوں کے کوٹھوں پررت جگے ہوتے ہیں مُجرے سُنے جاتے ہیں۔ نگوڑی بلائیں چڑیلیں نہ رہیں اس دنیا کے تختے پر۔۔۔ کسی دن یہ باہر سے کسی موٹی ویشیا سے لڑبھڑکر آئے گا اور مجھے زہردے دے گا۔ بچوں کا گلا گھونٹ دے گا۔۔۔ نہ خدا کا خوف‘ نہ بندوں کا ڈر۔۔۔ یوں تو اللہ کے فضل سے بھس سے بھرا ہے پر فلسفہ ضرور بگھاریں گے ۔ میاں صاحب آزادی کے بڑے پرستار ہیں ہر وقت آزادی آزادی کی رٹ لگی رہتی ہے کہ ان کے ظلم وستم کی چُھری اس سان پر اور تیز ہو جائے۔ تو ایساکیوں نہ کروں کہ انہیں آج بالکل ہی آزاد کر دون۔
نمبر۲: ٹھیک۔۔۔ بالکل ٹھیک۔۔۔ یہی ڈرامے کی اصلی ہیروئن۔ اسی کے باعث میرا اور اس رقاصہ کا رشتہ مضبوط ہوا ہے جس نے میری زندگی ترنمپھونک دیا ہے آپیاری اِدھر آ۔ ایک بار پھر فضا پرسُروں کا چھڑکاؤ کر دے ایک بار پھرمترنم تارے بکھیردے۔۔۔ ایک بار پھر۔۔۔
(جذباتی وجود رقاصہ نمبر ۲ کو بُلاتا ہے وہ پہلے کی طرح ناچنا اور۔۔۔ گانا شروع کر تی ہے۔
بیوی نمبر ایک: (زمین پر زور زور سے پاؤں مار کر) بند کرو۔ اس ناچ کو جاؤ یہاں سے چلی جاؤ۔ دیکھو میں تم سے التجا کرتی ہوں۔ یہاں سے چلی جاؤ تمہارا کوئی حق نہیں ہے۔
نمبر ایک: ٹھیک کہتی ہو۔ اس کا کوئی حق نہیں۔
بیوی نمبر ایک : جب تم محبت نہیں کرتیں جب تم چھوٹی سے چھوٹی قربانی نہیں کر سکتیں۔ جب تم اپنی زندگی میں ایسے کئی آدمیوں کی آشنا رہی ہے تو بتاؤ تم میرا حق کیسے چھین سکتی ہو۔ اگر تمہارے پہلو میں دل ابھی تک مُردہ نہیں ہوا تو اسے چھوڑ دو۔ مجھے اس کی ضرورت ہے۔ مجھے اس کی محبت اس کی مدد کی تم سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
رقاصہ نمبر۲: (قطع کلامی کرتے ہوئے) یہ تمام باتیں میں اتنی بار لوگوں سے سن چکی ہوں کہ اب ان کا دل پر اثر نہیں ہوتا۔ چلو ہٹو میرے راستے سے۔
بیوی نمبر ایک: دھکے کیوں دیتی ہے جا یہاں سے دفع ہو جا۔
رقاصہ نمبر ۲: اچھا اب خیر سے تم مجھے دھمکانے بھی لگیں میں تمہاری راکھیل تھوڑی ہوں جو ان گیدڑ بھبکیوں میں آجاؤں ۔ تم مجھ سے جلتی ہو اس لیئے کہ میں خوبصورت ہوں لوگ میری طرف للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں میرے منہ سے بول یوں اُڑتے ہیں جیسے شمپئن کی بوتلوں کے ڈاٹ۔
نمبر۲: شاباش ‘ میری جان شاباش!
بیوی نمبر ایک: شریف بہنوں بیٹیوں کے منہ آتے تجھے شرم نہیں آتی۔ بازار میں بکنے والی لونڈی!
رقاصہ نمبر دو: بازار میں بکنے والی لونڈی کی بھی ایک ہی کہی۔۔۔ اور بانو صاحبہ آپ کون ہیں جب سرکار نے ان سے شادی کی تھی تو بتائیے کیا اپنے کو بیچا نہیں تھا۔۔۔ اپنے لفظ فوراً واپس لو ۔ لیتی ہو کہ نہیں ورنہ۔۔۔
بیوی نمبرایک: ورنہ کیا۔۔۔ آنکھیں تو یوں دکھا رہی ہے جیسے کھا ہی جائے گی۔۔۔
جا سیدھے تن چلی جا۔۔۔ ورنہ چٹیا پکڑ کر باہر نکال دوں گی۔۔۔
(بیوی نمبر ایک اور رقاصہ نمبر ۲ آپس میں جھپٹ پڑتی ہیں۔ بلیوں کی طرح ایک دوسرے سے لڑتی ہیں۔ اس لڑائی میں تھوڑی دیر کے بعد جذباتی اور منطقی وجود بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ دونوں میں لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ اتنا شور بلند ہوتا ہے کہ کان پڑی آوا زسُنائی نہیں دیتی۔ جذباتی وجود رقاصہ کی طرف داری کرتا ہے اور منطقی وجود بیوی کا ساتھ دیتا ہے۔ دل بیچارہ زور زور سے دھڑکتا رہتا ہے۔ لڑائی کے دوران میں جب دل کے تاروں پر کسی کا ہاتھ زور سے پڑتا ہے تو وہ ایک ۔۔۔ لحظے کے لیئے خاموش سا ہو جاتا ہے لڑائی کے دوران میں کچھ اس طرح کی گفتگو جاری رہتی ہے۔
رقاصہ نمبر دو: بیگم صاحبہ تشریف لے جائیے!
بیوی نمبر ایک: چل ہٹ موئی گرہ کٹ ‘ میرے بچوں کا صبر پڑے تجھ چڈّو پر۔۔۔ کھڑی کی کھڑی زمین میں سما جائے۔۔۔ تجھ پر کڑکتی بجلی گرے۔ نہ رہے تو اس دنیا کے تختے پر۔
رقاصہ نمبر دو: دیکھ منہ سنبھال کے بول۔ یہ تیرے سرکا ایک ایک بال نوچ ڈالوں گی۔ ذراچوں کی توگدی سے زبان کھینچ لُوں گی۔ تکلے سے دیدے نکال دُوں گی۔
نمبردو: شاباش۔ شاباش۔
بیوی نمبر ایک: ہے شرط کہ تیری ساری اکڑ ابھی نکال دوں۔ پر تجھے تو ہاتھ لگاتے مجھے گھن آتی ہے۔ چل ہٹ موئی گندی۔ کیچڑ کی مینڈکی۔
(رقاصہ غصے میں) آکر بیوی کے منہ پر زور سے چانٹا مارتی ہے۔ بیوی چیختی ہے)
نمبردو: اے عورت خبردار ۔ جو تو نے اسے ہاتھ لگایا۔
نمبر ایک: تمہیں شرم نہیں آتی اپنی نیک بیوی کی اس بازاری عورت کے سامنے توہین کر رہے ہو۔۔۔ تم یقیناًپاگل ہو گئے ہو۔
نمبر دو: تم بیچ میں دخل دینے والے کون ہو؟
(رقاصہ قہقہہ لگاتی ہے)
نمبر ایک: میں جو نیک و بد کو اچھی طرح سمجھتا ہوں تمہارا دماغ چل گیا ہے یہ ذلیل عورت تمہاری نیک بیوی پر دست درازی کر رہی ہے اور تم کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہو لعنت ہو تم پر۔۔۔
نمبر دو: بکواس مت کرو۔
یہ کہہ کر جذباتی وجود زور سے منطقی وجود کے منہ پر تھپڑمارتا ہے عقبی موسیقی تیز تو ہو جاتی ہے رقاصہ اور بیوی ایک دوسری کے بال نوچتی اور چھینتی رہتی ہیں۔ جذباتی اور منطقی وجود اب ایک دوسرے سے بہت بُری طر ح گتھ جاتے ہیں۔ آخر میں جذباتی وجود منطقی وجود کا گلا پکڑ لیتا ہے اور اسے مار ڈالتا ہے۔ منطقی وجود کے گلے سے خرخراہٹ کی بھیانک آواز نکلتی ہے)
نمبر دو: مر گیا۔ ناک میں دم کر رکھا تھا‘ نابکارنے‘ چلو اچھا ہوا قصہ پاک ہوا۔ روز روز کا جھگڑا ختم ہوا۔۔۔ اب میں آزاد ہوں اپنی محبوبہ سے محبت کرنے کے لیئے آزاد ہوں۔ آمیری ملکہ آ‘ میرے مندر کی دیوی آ‘ پیاری اب تو ساری کی ساری میری ہے‘ ہمیشہ کے لیئے میری ہے۔ آمیری زندگی ،میری مسرت‘ میری محبت آ۔۔۔ میرے پاس آ۔
رقاصہ نمبر ۲: نہیں میرے بیوقوف عاشق نہیں۔ میں تیرے پاس نہیں آسکتی یہ تو سب مذاق تھا۔ پہلے دام پھر کلام۔۔۔ تم میرے بازار میں عشق کا کھوٹاسکّہ چلانا چاہتے ہو مجھے محبت کی ترازو میں تولنا چاہتے ہو تم بیوقوف ہو تمہارے پاس دولت نہیں رہی۔ میرے پاس ادائیں نہیں رہیں۔ نہیں۔۔۔ نہیں‘ میں تمہاری نہیں ہو سکتی۔ میرے بھولے بھالے عاشق یہ سب مذاق تھا۔
(رقاصہ چلی جاتی ہے اس کے پیروں میں بندھے ہوئے گھنگرؤں کی جھنجھناہٹ چند لمحات تک سُنائی دیتی ہے)
نمبر دو: میرے اللہ میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں۔
(دُور سے ایسی موسیقی کے سُرسنائی دیتے ہیں جو بڑے اضطراب افزا ہیں بیوی نمبر ایک نمودار ہوتی ہے وہی لوری گاتی ہوئی۔
نمبردو: سب راگ ورنگ غم کی داستان بن گئے تیرے عشق کا افسانہ بن گیا۔ باقی کیا رہا‘ راکھ کا ایک ڈھیر‘ تو اب تباہی کے کنارے پہنچ چکا ہے جلدی کر جلدی کر۔ اس دکھ سے نجات حاصل کرنے کے لیئیصرف ایک ہی راستہ باقی ہے۔۔۔ خود کشی۔۔۔ خود۔۔۔ اُٹھ پستول داہنے ہاتھ کی جیب میں ہے مان لے کوئی تکلیف نہ ہوگی۔ پس چوتھی اور پانچویں پسلی کے درمیان رکھ کر ببلی دبا دے۔۔۔
(جذباتی وجود پستول نکالتا ہے اور پسلیوں کے پاس رکھ کر اس کی ببلی دبا دیتا ہے۔ زور کا دھماکا ہوتا ہے۔ دل ایک لحظے کے لیئے اچھلتا ہے اور خاموش ہو جاتا ہے اس کے تاروں پر لہو بہنے لگتا ہے۔ جذباتی وجود ٹھنڈا ہو جاتا ہے چند لمحات کے لیئیقبر کی سی خاموشی طاری رہتی ہے۔ عقب میں سرمدی وجود جو کہ بیگ پر سر رکھے سو رہا ہے۔ جمائی لے کر اُٹھتا ہے اور ایک پورٹر ہاتھ میں لالٹین لیئے آتا ہے۔
نمبر تین: (جمائی لیتا ہے) کون ہے بھئی؟ کیوں بے آرام کر رہے ہو؟
پورٹر: میں پورٹر ہوں حضور۔۔۔ آتم نگر آگیا۔ آپ کو گاڑی اس اسٹیشن سے بدلنا ہے۔
نمبرتین: ارے ‘ آتم نگر‘ آگیا۔ چلوجلدی کرو۔ میرا اسباب اٹھاؤ۔ مجھے گاڑی اس اسٹیشن سے بد لنی تھی۔۔۔
(پردہ گرتا ہے)
مأخذ : کتاب : کروٹ اشاعت : 1946
مصنف:سعادت حسن منٹو