شب بھر تصورات کا میلہ لگا رہا
سب سو گئے تو گھر میں مرے رتجگا رہا
کل ان لبوں پہ یوں مرا ذکر وفا رہا
وجدان جھومتا رہا وہ بولتا رہا
برسوں یہی مزاج سیاست بنا رہا
مجرم کی طرح شہر میں ہر بے خطا رہا
گھر سے نکل کے بند گلی میں پہنچ گئے
منزل ملی نہ گھر کا کوئی راستا رہا
میں چپ نہ رہ سکا لب تصویر کی طرح
میں آئنہ تھا آئنہ سچ بولتا رہا
عیاریٔ خرد کا فسوں کام کر گیا
اہل جنوں کی عقل پہ پردہ پڑا رہا
اللہ رے بے شعوریٔ دانش کہ عمر بھر
وہ میرے ساتھ تھا میں اسے ڈھونڈھتا رہا
کوشش کے باوجود چھپائے نہ چھپ سکا
میں ضبطؔ سنگ میل سمجھتا رہا جسے
ہر قہقہے کے لہجہ میں غم بولتا رہا
وہ شخص میری راہ کا پتھر بنا رہا
مأخذ : گل زر بکف
شاعر:ضبط انصاری