موسی

0
147
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

’’موسی کاہل ہے، موسی بے وقوف ہے، موسی بھلکڑہے، موسی سنتی نہیں، موسی کے مارے جان آفت میں ہے۔۔۔‘‘

اورمیں اپنی بیوی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے موسی کے دیگر’’اوصاف‘‘ کی طرف بھی اشارہ کرتاہوں، جن پربیوی کی نظرنہیں جاتی کہ وہ سخت گرمی میں بھی اپنی کوٹھری میں سوتی ہے۔ صابن دیاجائے توبھی کپڑے نہیں دھوتی۔ لاکھ چلاؤ، جواب نہیں دیتی اور اپنی اسی سست رفتار سے رینگے جاتی ہے۔‘‘

’’تواسے نکال کرکوئی قاعدے کا ملازم کیو ں نہیں رکھتے؟‘‘ یکایک میری بات کاٹ کربیوی طعنہ دیتی ہے۔ اورمیرا تمام جوش سردپڑجاتاہے۔ میں خاموش ہوجاتاہوں۔ بات کا رخ بدلنے کی کوشش کرتاہوں یا چپ چاپ وہاں سے کھسک جاتاہوں۔

موسی اوسط قد اور دہرے بدن کی کالی کلوٹی اوربدشکل عورت ہے۔ اس کے دانت تمباکو کھاتے کھاتے گھس گئے ہیں اوراتنی سست ہے کہ پانچ منٹ کا کام آدھ گھنٹے میں سرانجام دیتی ہے۔ میں ایسی ملازمہ کبھی نہ رکھتا، لیکن تقسیم ملک کے بعدجب میں الہ آباد آیاتو جس طرح مہنگے کرایہ کامکان لینے کی سکت نہ تھی، اسی طرح مہنگاملازم رکھنے کابھی حوصلہ نہ تھا۔ تین ماہ کی دوڑدھوپ کے بعدخسروباغ کے قریب ایک عقبی حصے میں ایک چھوٹی سی کاٹج ملی۔ موسی اسی کے برابرشاگرد پیشہ میں رہتی تھی۔ بے کار تھی۔ چنانچہ سات روپے ماہوار میں کام کرنے کوتیارہوگئی۔ اس کا بھانجہ جوبنگلے کے مالک کا باورچی تھا، اسے موسی کہہ کر پکارتا تھا، اس لیے وہ ہماری بھی موسی ہوگئی۔

ان آٹھ برسوں میں اگرچہ مکان توآہستہ آہستہ بڑھ کرگیارہ کمروں کا ہوگیا مگرباورچی نہیں بدلا اورموسی بدستور موجودہے۔ اس کی تنخواہ تگنی ہوگئی ہے مگراس کے کام کرنے کی رفتار اوربھی سست ہوگئی ہے۔ کئی بار اس کی مدد کے لئے ملازمہ رکھی گئی لیکن وہ کسی دوسرے کوباورچی خانے کے قریب نہیں بھٹکنے دیتی اور خود ٹھیک سے کام نہیں کرتی۔

- Advertisement -

ہماری چیخ پکار اورجھلاہٹ کااس پرمطلق اثر نہیں ہوتا۔ اپنی رفتاروہ ذرابھی نہیں بدلتی اور اپنی اسی خاموشی اور سست روی سے کام کیے جاتی ہے۔ کبھی زبان کھولتی بھی ہے توہمارے چلانے یا شورمچانے کااس کے جواب میں کوئی اثرظاہرنہیں ہوتا۔ غلام ملازموں کی طرح آوازمیں جھلاہٹ، نہ غصہ، نہ چڑچڑاپن اورنہ گستاخی۔

’’موسی یہ آج تونے پھراچارنہیں رکھا؟‘‘ میں لنچ کے وقت چلاتاہوں، ’’تجھ سے بیس بارکہاہے کہ کھانے کے لیے اس وقت بلایاکرجب میز پرسب چیزیں رکھ دی ہوں۔ اب جتنے میں تواچارالائے گی میں آدھا کھانا کھاچکوں گا۔‘‘

’’بھلائے گئے بھیے۔‘‘ اوروہ ڈولی سے اچارکی پلیٹ نکالتی ہے لیکن عموماً پلیٹ میں اچارختم ہوتا ہے اور وہ ا سٹور سے لانے جاتی ہے۔ اورجب آدھ گھنٹے بعداچار لے کر واپس آتی ہے تو میں اٹھ چکاہوتاہوں۔

’’موسی، یہ تونے پھرپلیٹیں گیلی ہی میزپر رکھ دیں۔ تجھ سے بیس بار کہاہے۔ جھاڑن لالاکر دیے ہیں مگر تو کبھی نہیں پونچھتی۔‘‘ میری بیوی کہتی ہے۔

’’پونچھتی توہوں بہو۔‘‘

بہوکاپارہ چڑھ جاتاہے،‘‘ یہ پونچھتی ہے، دیکھ! یہ پونچھتی ہے؟‘‘ اوروہ گیلی پلیٹ اس کے سامنے کرتی ہے۔ موسی خاموشی سے پلیٹ لے لیتی ہے، ’’ای ہم کے دئی دیں تو دوسرلئی لیں۔۔۔ ’’یہ کہتے ہوئے وہ دوسری پلیٹ بہوکودے دیتی ہے۔

’’موسی، تین چاردن ہوئے ہیں، پھل لایاتھا۔ ایک دن کھائے، پھرتونے میزپرنہیں رکھے۔‘‘

’’ارے توبھیے، کاہم کھائے گئے؟‘‘

’’تونکال!‘‘

لیکن پھل سڑچکے ہوتے ہیں اور میں چلاتاہوں کہ ہمیں دنیا بھول گئی تھی تو خودہی کھالیتی، اب یہ کس کام آئیں گے؟ وہ کچھ نہیں کہتی، جاکر انہیں کوڑے کی ٹوکری میں ڈال آتی ہے۔

’’موسی۔۔۔ موسی۔۔۔!‘‘ میری بہواچانک سالن نکالتے نکالتے اٹھ کرچلاتی ہے۔

موسی کاکوئی جواب نہیں آتا۔

’’موسی۔۔۔! موسی!‘‘

کئی بارچلانے پرموسی کچن سے حسب معمول جھومتی جھامتی آہستہ آہستہ آتی ہے۔

’’کانوں میں کیا روئی ڈال کربیٹھی ہے۔ اتنی آوازیں دیں جواب کیوں نہیں دیتی؟‘‘

’’ارے آوت تورہے بہو۔‘‘

’’آوت تورہے بہو۔۔۔۔‘‘ بیوی آنکھیں نکالتی اورمنہ بناتی ہے، ’’ہونٹ کیا سی رکھے ہیں، کہانہیں جاتا کہ آرہے ہیں؟‘‘ اس سب کا وہ کچھ جواب نہیں دیتی۔ تمباکو کے لعاب کو منہ میں پپولتے ہوئے تھوڑی کوقدرے آگے بڑھاکر آہستہ سے محض اتناپوچھتی ہے، ’’کاکہت ہو؟‘‘

’’کہتے ہیں تیراسر۔۔۔‘‘ بیوی جھلاتی ہے، ’’یہ آج پھرنمک نہیں ڈالاترکاری میں۔ کتنی بارکہا ہے کہ الگ کٹوری میں نکال کرذرا سی چکھ لیا کر۔‘‘

’’ارے بہوڈالے تورہے۔‘‘

’’ڈالے تورہے۔۔۔‘‘ توکیا ہم نے اڑادیا؟ لے کھاکردیکھ، رتی بھر بھی ہے نمک اس میں؟‘‘

موسی پراس ڈانٹ کا ذرا بھی اثرنہیں ہوتا۔ سر کوعجیب مجہول اندازسے حرکت دیتی ہوئی کہتی ہے، ’’ڈالے تو رہے۔ کمتی ہوئے گوا ہوئی۔‘‘

اب میں چیختاہوں، ’’کمتی کیا، ذرابھی نہیں، ایک دم پھیکی ہے۔‘‘

’’توبھلائے گئے ہوئی بھیے۔‘‘ اوروہ چپ چاپ سائڈبورڈ سے نمک دانی اٹھاکرہمارے سامنے رکھ دیتی ہے۔

یہ سب روزانہ کا معمول ہے۔ اچاررکھاہو، پلیٹیں صاف ہوں، پھل درست حالت میں ہوں، نمک کم نہ ہو توصراحی میں پانی نہ ہوگا۔ روٹی پپڑی سی سوکھی ہوگی، رائتہ بناکررکھا ہوگا مگر دینابھول گئی ہوگی، دودھ جمائے جانے کے باعث پھٹ گیا ہوگا یاکچھ اورگڑبڑ ہوگی۔ عموماً ایک آدھ بار چلاکریاچلانا بے کارسمجھ کر دل ہی میں کھسیاکر ہم خاموش ہوجاتے ہیں اوراپنے کام میں لگ جاتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوکرچھلک اٹھتا ہے اور دماغ توازن کھودیتاہے۔ کوئی فائدہ نہ سمجھتے ہوئے بھی ہم چلائے جاتے ہیں۔

دفترگھرمیں ہے۔ بیوی نشرواشاعت کا کام سنبھالتی ہے مگرکئی بارمجھے اس کے ساتھ جانا پڑتاہے۔ وقت کی پابندی نہیں رہتی۔ کوئی کتاب چھپ رہی ے یا چھپنے والی ہے، ہم پریس میں کام کرانے یاکاغذ کاانتظام کرنے باہر گئے ہوتے ہیں یا آتے آتے ڈیڑھ دوبج جاتے ہیں، بھوک کے مارے پیٹ میں چوہے دوڑنے لگتے ہیں۔ بیماری کے بعد میں توکچھ ایسا کمزور ہوگیا ہوں کہ وقت پرکھانا نہ کھاؤں اوربھوک لگ آئے تو نہایت کمزوری محسوس ہوتی ہے اور کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ وہ دن جب یار دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں صبح سے شام ہوجاتی اورکھانے پینے کا ہوش نہ رہتاتھا یا کوئی دلچسپ ناول ساری بھوک پیاس بھلادیتاتھا، اب خواب ہوگئے ہیں۔ رکشامیں گھر واپس ہوتے ہوئے کھانے کا کمرہ اورمیز پرلگی پلیٹوں اورسالنوں کی خوشبو کے تصور سے دل ودماغ بس جاتے ہیں اور بھوک تیز ہوجاتی ہے۔ رکشا سے اترتے ہی چلاتا ہوں، ’’موسی کھانارکھو۔‘‘

’’رکھت ہیں بھیے۔‘‘

کھانارکھاجاتاہے۔ ہم کھانے بیٹھے ہیں لیکن ابھی نصف بھی ختم نہیں کرتے کہ معلوم ہوتاہے روٹیاں ختم ہوگئی ہیں۔

’’موسی!‘‘ میں یابیوی چلاتی ہے، ’’روٹیاں نہیں پکائیں؟‘‘

’’گرم گرم لائے رہے ہیں۔‘‘ وہ کچن ہی سے چلاتی ہے۔ اوریکایک کھانے کا سارا مزہ کرکراہوجاتاہے۔ کیوں کہ موسی کے گرم گرم لانے کے معنی ہم دونوں بخوبی جانتے ہیں۔ بیوی چلاتی ہے، ’’جب دوبج گئے تھے تو اس نے پورا کھانا کیوں نہ تیار کررکھا۔‘‘ اورمیں جھنجھلاتا ہوں کہ وہ بار بار کیوں ایک ہی بات کہلواتی ہے۔ کیوں بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔ گرمی میں اندرسوتی ہے۔ اس کے بھیجے میں عقل رہ بھی کہاں سکتی ہے۔ اورپندرہ بیس منٹ تک چلاکر اورانتظار کرکے تھک ہار کر ہم کھانا درمیان ہی میں چھوڑکرکچن میں جاتے ہیں تودیکھتے ہیں کہ موسی ایک ہاتھ سے آٹا گوندھ رہی ہے اوردوسرے سے انگیٹھی دھونک رہی ہے۔

’’تونے روٹی نہیں پکائی تھی توآٹا کیوں نہیں گوندھ رکھاتھا؟‘‘ بیوی چلاتی ہے۔

’’آب آگ جلانے بیٹھی ہے۔‘‘ میں گرجتاہوں، ’’ڈھائی بج گئے ہیں۔ گرم روٹیاں کھلانی تھیں توانگیٹھی تو گرم رکھی ہوتی۔‘‘ لیکن موسی ہمارے چیخنے اور گرجنے کا کوئی جواب نہیں دیتی۔

’’ہوئی جات ہے، ہوئی جات ہے۔‘‘ منہ سے ہمیں تسلی دیتے ہوئے وہ بدستور ایک ہاتھ سے آٹا گوندھتی ہوئی دوسرے سے پنکھا ہلائے جاتی ہے۔ ہم جھلائے ہوئے واپس کھانے کی میز پر آبیٹھتے ہیں۔ موسی کے خلاف شکایتوں کے دفتر کھل جاتے ہیں اور تان آخر بیوی کی اس بات پرٹوٹتی ہے، ’’کوئی قاعدے کا نوکررکھئے۔ اس کم بخت کے مارے توجان عذاب میں ہے۔‘‘ اورمیری ساری جھلاہٹ یکایک ختم ہوجاتی ہے۔ غصہ کوپی کرمیں خاموش ہوجاتاہوں۔ بیوی طعنے دیتی ہے کہ میں موسی سے دبتاہوں۔ نیاباورچی رکھنا نہیں چاہتا۔ میں خاموش رہتاہوں اور خاموشی آپ جانتے ہیں نیم رضا کے مصداق ہوتی ہے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیڈٹی کے اوپرناشتہ بھی ہوچکا ہوتاہے اور موسی دوپہر کے کھانے کی سبیل میں لگی ہوتی ہے کہ کوئی دوست ملنے آجاتاہے اورمیں اخلاقاً پوچھ بیٹھتاہوں، ’’بھائی چائے پیوگے؟‘‘

’’کیا مضائقہ ہے؟‘‘ دوست جواب دیتاہے۔

اورمیں وہیں سے چلاکرکہتاہوں، ’’موسی! دوپیالے چائے لاؤ۔‘‘

اوراس وقت جب باتو ں کاسلسلہ میانہ روی سے چل رہاہوتاہے اورنہ صرف دوست کابلکہ میرادھیان بھی کچن کی طرف لگاہوتاہے کہ چائے آجائے۔ ایک ایک کپ پی لیاجائے توبات چیت یا بحث میں کچھ گرمی آئے توموسی ٹرے میں چائے لیے اپنی اسی مخصوص سست رفتار سے آتی ہے۔ میں اس کے ہاتھ سے ٹرے لے لیتاہوں۔ مسلسل باتیں کرتے ہوئے پہلے ذرا سی چائے ڈال کر پیالیاں گرم کرتا ہوں، پھرچائے کا پانی پیالی میں ڈال کر اپنی اورپھردوست کی پیالی میں اس سے پوچھ کرایک یادوچمچے شکر ڈالتاہوں لیکن جب دودھ دانی اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھاتاہوں تودیکھتا ہوں کہ ندارد ہے۔

’’ارے موسی!‘‘ چڑکرمیں چلاتاہوں۔ موسی وہی میلی دھوتی پہنے، نچلے ہونٹ میں تمباکو دبائے، نہایت اطمینان سے کسی قسم کی عجلت کے بغیر آتی ہے اورتمباکو سے نچلا ہونٹ بھراہونے کے باعث تھوڑی ذرااٹھاکر پوچھتی ہے، ’’کیا بات ہے؟‘‘

’’دودھ نہیں لائی؟‘‘ میں چلاتاہوں۔

’’اے دودھ کہاں ہے بھیے!‘‘ منہ ذرااٹھاکر دونوں ہاتھ آگے پھیلاتے ہوئے وہ کہتی ہے۔ میں ایک لمحہ اس کودیکھتاہوں۔ جی چاہتاہے کہ اس کا اوراپنا سرنوچ لوں۔ کتنی بار سمجھایا ہے مگراس بے وقوف کی سمجھ میں نہیں آتاکہ مہمان بیٹھاہوتوایسی بات نہیں کہنی چاہئے لیکن کسی طرح غصے کوپی کر، ضبط سے کام لے کر پوچھتا ہوں، ’’نہیں تھا دودھ توچائے کیوں بنائی؟ کیادودھ کے بغیر پہلے کبھی چائے پی ہے، جو اب پئیں گے۔ چائے بنانے سے پہلے کیوں نہیں آگیا دودھ؟‘‘

’’کے سے منگائت بھیے؟‘‘

اب ضبط کرنا ناممکن ہوجاتاہے۔ غصہ سے چلااٹھتاہوں، ’’کیادفتر میں سب لوگ مرگئے ہیں؟ چپراسی کہا ں ہے؟‘‘ لیکن موسی اس کا کوئی جواب نہیں دیتی۔ چپ چاپ تمباکو کارس پپولے جاتی ہے۔

’’پشی کہاں ہے؟‘‘ میں اپنے سالے کے بارے میں پوچھتا ہوں جومیری بیوی کے ساتھ پبلشنگ کاکام دیکھتاہے۔ موسی جواب نہیں دیتی، چپ چاپ دیکھے جاتی ہے۔

’’اورکوئی نہیں تھا تو تونے مجھ سے کیوں نہ کہا۔ میں خودجاکر بازار سے دودھ لادیتا۔ دودھ نہیں تھا تو کیوں بنائی چائے؟‘‘

دوست لاکھ کہتا ہے کہ یارمیں چائے پی کرچلاتھا۔ تم نے پوچھا تو میں نے یونہی ہاں کردی۔ اب ہٹاؤ اس قصے کو۔ لیکن برابرچلائے جاتاہوں۔ غصہ اس با ت کانہیں کہ چائے کیوں بنی، بلکہ اس بات کا ہے کہ جب گھرمیں دودھ نہیں تھا توکیوں بنی اور اگربن ہی گئی تھی اوردودھ کے نہ ہونے کاعلم بعدمیں ہواتھا تو ہمارے سامنے کیوں آئی اورمہمان کے سامنے اس نے کیوں کہاکہ دودھ نہیں ہے۔۔۔ اورمیں چائے کی ٹرے دھکیل دیتاہوں اور دندناتا ہواباہرجاتاہوں اوراتنی زورزور سے چلاتاہوں کہ چپراسی اورپشی اورمیری بیوی ایک ساتھ دفتر سے باہرنکل آتے ہیں اورسب باتیں سن کر میری بیوی، چپراسی کودودھ لانے کے لیے بھیج دیتی ہے اور تاکید کرتی ہے کہ سائیکل پرجائے اور پلک جھپکتے لے آئے۔ چپراسی کوتاکید کرکے بیوی پھر اپنے کام میں لگ جاتی ہے اورواپس آکر میں پھرباتوں کاسلسلہ جوڑنے کی کوشش کرتاہوں لیکن تنے ہوئے اعصاب۔۔۔ باتیں چل نہیں پاتیں۔ باربار اس احمق ملازمہ پرغصہ آجاتاہے۔ دوست اکتاکرکہتاہے، ’’اچھایار میں چلتاہوں پھرآؤں گا۔‘‘

’’نہیں نہیں، بیٹھو۔ چائے پی کرجانا، میں اصرار کرتاہوں۔‘‘ دوست مجبورہوکر پھربیٹھ جاتاہے۔ میں پھر ادھرادھر کی بات چلانے کی کوشش کرتاہوں، لیکن بات چل نہیں پاتی۔

اچانک چپراسی سیدھاوہیں کمرے میں دودھ کا لوٹا لے آتاہے۔

’’میں دودھ کیاکروں گا؟ ادھر کچن میں لے جااورموسی سے کہہ کہ پانی گرم کرکے تازہ چائے بنائے اور دودھ بھی گرم کرلے۔‘‘

دوست پھرایک بارزور دیناچاہتاہے، ’’ہٹاؤ یار اب چائے۔‘‘ لیکن میں ہاتھ بڑھاکر اسے وہیں روک دیتاہوں۔

’’موسی تووہاں نہیں ہے۔‘‘ چپراسی آکراطلاع دیتاہے۔

’’نہیں ہے تودیکھ کہاں ہے؟ تمباکو کھانے گئی ہوگی۔ اس کی بہن سے پوچھو۔‘‘

اوربرآمدے میں نکل کر میں ادھر سے ادھر ٹہلتاہوں اوردوست پچھتاتاہے کہ اس نے چائے پینے کے لیے کیوں ہامی بھری اور مفت کی بوریت مول لی۔

اسی وقت چپراسی آکربتاتاہے، ’’موسی باہرگئی ہے۔‘‘

’’باہرگئی ہے! کیوں باہرگئی ہے؟‘‘ میں چلاتاہوں، ’’اسے معلوم نہیں تھا کہ میں نے تجھے دودھ لانے کے لیے بھیجاہے۔‘‘

’’اب ہم کا بتائی۔۔۔‘‘ چپراسی بے بسی سے کہتاہے۔

میں لہو کے گھونٹ بھر رہاہوتاہوں۔ بیوی دفتر سے کام چھوڑکر خودکچن میں جاکرپانی چڑھاتی ہے کہ موسی نہایت اطمینان سے کسی قسم کی عجلت کے بغیر اسی سست رفتار سے جھومتی جھامتی باہر سے آتی دکھائی دیتی ہے۔

’’موسی توکدھر چلی گئی تھی؟ تجھے معلوم نہیں تھاکہ میرے دوست آئے ہوئے ہیں اورمیں نے چپراسی کودودھ کے لیے بھیجاہے۔‘‘

’’ارے توبھیا باہرگئے رہے۔‘‘ اورو ہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں نکالے راس کماری سی تھوڑی آگے بڑھائے تمباکو بھرے دانت دکھاتی ہوئی دونوں ہاتھ بڑھادیتی ہے۔ باہرکامطلب میں سمجھ جاتاہوں مگرمیرا غصہ کم نہیں ہوتا۔

’’باہرگئی تھی توجاتے جاتے پانی چڑھاجاتی۔‘‘ میں چلاتاہوں۔

موسی ذرابھی نہیں گھبرائی، ’’چڑھائے دیت ہیں۔۔۔ چڑھائے دیت ہیں۔‘‘ کہتی ہوئی سست چال سے وہ کچن کی طرف چل دیتی ہے۔

شام کومیں بیوی سے شکایت کرتا ہوں تو وہ الٹا مجھی پربرسنے لگتی ہے، ’’میں کتنی بار کہہ چکی ہوں کہ کوئی قاعدے کا نوکر رکھئے۔ اس کم بخت کے مارے توجان آفت میں ہے۔ دودھ ختم ہوگیاتھا یاگوالا کم دے گیاتھا تومجھ سے آکرکہتی، میں منگادیتی۔‘‘

اور بیوی موسی کوبلاکر ڈانٹتی ہے۔

’’اب سارے دن چائے بناوت بناوت جان آپھت میں آئے جات ہے۔‘‘ وہ احتجاج کرتی ہے۔

’’سارے دن چائے بنانے سے، دودھ نہ ہونے پرمہمان کے سامنے بے عزتی کرنے کا کیا تعلق ہے؟‘‘ میں چلاتاہوں۔ لیکن یہ بات موسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ وہ رونے لگتی ہے کہ اسے چھٹی دے دی جائے۔ اتنا کام کرنے پربھی اسے ڈانٹ پڑتی ہے اوربیوی کہتی ہے، ’’ہاں، آپ دوسرا نوکر تلاش کیجئے۔‘‘ لیکن یہیں میں دب جاتاہوں۔ میراغصہ ایک دم سردپڑجاتاہے اورمیں پینترا بدل کرموسی کوسمجھانے لگتاہوں کہ چھٹی دینے دلانے کی بات نہیں، اسے خود خیال ہوناچاہئے کہ مہمان کے سامنے یہ بات کہنے سے گھرکی کیسی بے عزتی ہوتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔

ایسے موقعوں پر میرے سامنے ہمیشہ اپنے ایک دوست کی صورت آجاتی ہے۔ وہ ایک پنجابی نوجوان ہیں۔ چار ایک سال قبل کشمیرمیں تعینات ہوے ہیں۔ میں دوسال سے کشمیرجارہاہوں اوران کے گھر کی ایک ایک بات سے واقف ہوں۔ ابھی وہ غیرشادی شدہ ہیں۔ گھرمیں صرف ماں اور ایک پنجابی چھوکراہے۔ ماں کشمیری زبان بالکل نہیں سمجھتیں اوروہ چھوکرا ہے کہ سنیما کافرسٹ کلاس فین ہے۔ ہفتہ میں تین بارپکچر نہ دیکھے تو اسے کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ کئی بارایسا ہوتاہے کہ انہوں نے چائے پرکچھ دوست بلارکھے ہوتے ہیں مگروہ چھوکرا مٹنی شودیکھنے چلا جاتاہے۔ اس کے آتے ہی ماں بیٹے اس پربرس پڑتے ہیں لیکن وہ معافی مانگنے یا بقیہ کام نمٹانے کے بجائے باہرجاکر پنواڑی کی دکان پربیٹھ جاتاہے۔ آدھ ایک گھنٹے تو ماں بیٹے جھلاتے رہتے ہیں۔

ماں کہتی ہے، ’’جن کے ملازم نہیں ہوتے، ان کاکیا کام نہیں چلتا۔۔۔‘‘ اوربیٹا نہایت فلسفیانہ اندازمیں گھر کے سب کام خود کرنے کے فوائد پراپنے بیش قیمت خیالات کا اظہار کرتاہے اور دونوں ماں بیٹے پروگرام بناتے ہیں کہ ملازم کوہٹاکر وہ کس طرح گھرکے تمام خودانجام د یں گے۔ بیٹا کس طرح ایک دن قبل ہی شام کووہ ساری چیزیں لاکر رکھ دیا کرے گا جن کی دوسرے دن ضرورت ہوگی اورماں کس طرح ملازم کی مدد کے بغیر کام چلائے گی۔۔۔ لیکن میں نے ہمیشہ دیکھا کہ جب رات کا کھانا پکتا تو ماں ملازم چھوکرے کے لیے بڑے پیارسے کھاناپکاتی اوربیٹے صاحب اسے مناکرلاتے۔

میری حالت اپنے اس پنجابی سے مختلف نہیں۔ یہ بات نہیں کہ میری بیوی کھانا نہیں پکاتی۔ وہ اتنے اچھے کھانے پکاتی تھی کہ ایک بارشادی کے بعد میں نے سوچا تھا کہ اسے دوسرا کوئی کام نہ کرنے دوں گا۔ لیکن جوعورت ہیڈمسٹریس کی حیثیت سے ا سکول کا، جونیئرکمانڈر کی حیثیت سے فوجی محکمہ کا اورناشرکی حیثیت سے ایک اشاعتی ادارہ کا تما م کام اپنے سرلے سکنے کی صلاحیت رکھتی ہو، اسے کچن کی چہاردیواری میں بندرکھنا میرے نزدیک ناانصافی ہے۔

مجھے خودبھی کوئی کام کرنے میں عارنہیں ہے۔ برسوں گھر میں جھاڑو دینے اورکپڑے دھونے کے علاوہ میں نے برتن صاف کئے ہیں اورکھاناپکایاہے لیکن ایسا وقت بھی آجاتاہے جب انسان چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتااورایسی حالت میں موسی جیسی ملازمہ بہت اہمیت حاصل کرلیتی ہے۔ یہ بھی نہیں کہ شہرمیں ملازموں کا قحط پڑگیاہواور میں نے ملازم بدلنے کی کوشش نہ کی ہو۔ تین بار میں ایسا کرکے دیکھ چکاہوں۔

ایک بار موسی پیٹ دردکابہانہ کرکے کسی رشتہ دار کے یہاں چلی گئی۔ میری بیوی بیمارتھی۔ مجبوراً میں ایک دوسرا ملازم ڈھونڈلایا۔ چست اورچاق وچوبند۔ دن بھر اس نے اس تیزی اورصفائی سے کام کیاکہ میں اورمیری بیوی عش عش کراٹھے اورہمیں موسی کے عیب کئی گنابڑے ہوکر نظرآنے گے اور پہلی بارمعلوم ہواکہ ہم کس جاہل کے ساتھ دن کاٹتے رہے ہیں۔ لیکن دوسری صبح اٹھے توملازم صاحب غائب۔۔۔ باورچی خانے میں جانے پرمعلوم ہواکہ ترکاری کاٹتے کاٹتے کہیں گئے ہیں۔ جب دن کے بارہ بج گئے اور وہ تشریف نہ لائے توفکر ہوئی۔ کھوج خبرلی کہ کہیں کچھ لے تونہیں گئے تومعلوم ہواکہ میری میز کی درازسے پارکرقلم، ایک گھڑی اور بٹوا غائب ہے۔

دوسری بار جب موسی بیمارہوئی تو میں ایک خانساماں کو لے آیا، جس کے پاس کئی انگریزوں کے سرٹیفکیٹ تھے۔ شام کی چائے ہم پی چکے تھے کہ یکایک چھ بجے کے قریب ایک دوست آگئے اورمیں نے خانساماں سے کہاکہ دوپیالیاں چائے ٹرے میں بھجوادے۔ جب کافی دیر تک چائے نہ آئی تو میں خودکچن میں گیا۔

’’صاب چائے کے وقت ہم چائے دے گا۔‘‘ خانساماں فرمانے لگے، ’’سارادن ہم چائے نہیں دے گا۔‘‘ اورمیں نے ان کے سرٹیفیکٹوں میں ایک مزید سرٹیفکیٹ کااضافہ کرکے انہیں دوسرے ہی دن سلام کیا۔

تیسری بارموسی نے نوٹس دیاکہ وہ دودن کے لیے ایک شادی میں جائے گی۔ چونکہ اس کے دو اور دس دنوں میں کوئی فرق نہیں، اس لیے میں نے امپلائمنٹ ایکسچینج کوفون کیاکہ مجھے فوراً ایک کک چاہئے۔ دوپہر ہی کوشکل وصورت سے سائیس نظرآنے والا ایک دبلا پتلا اوسط قد کا آدمی دفتر کی چٹ لے کرآپہنچا۔ اس کی ٹانگیں پرکار کی طرح قدرے باہر کی طرف نکلی ہوئی تھیں۔ اپنے قد وقامت سے کہیں بڑا کھلا گرم گرم کوٹ اور پچکی سی گول ٹوپی اس نے پہن رکھی تھی۔ موسی دوپہرکاکھانا تیارکرکے چلی گئی تھی۔ میں نے زیادہ پوچھ گچھ نہ کی۔ اسے لے جاکرکچن دکھایا اورسمجھایا کہ کس طرح اس گھرکا کام چلتاہے۔

’’بس بابوجی، دوایک دن ہم دیکھ لیں۔۔۔ پھرآپ کوکوئی شکایت نہ ہوگی۔‘‘

برتن پڑے تھے اس نے صاف کردیے۔ روٹی کافی بچی پڑی تھی، اس نے خوب ڈٹ کر اس پرہاتھ صاف کیا۔ میں دفترچلاگیا۔ شام کو آیاتو دیکھتا ہوں کہ کچن میں مصروف رہنے کی بجائے باورچی صاحب کچن کے سامنے کی خالی جگہ میں کیاریاں بنارہے ہیں۔

’’ارے بھائی، تم یہ سب کیاکررہے ہو؟‘‘ میں نے قدرے جھلاکرکہا، ’’چائے کاوقت آگیاہے کچھ چائے وائے بناؤ۔‘‘

’’سرکار ایک بار بہوجی بناکردکھادیں توہم سب بنادیاکریں گے۔ کوئی زیادہ پتی پیتا ہے کوئی کم۔‘‘

’’تویہ تم نے پہلے کیوں نہ کہا، یہ سب تم کیاکررہے ہو؟‘‘

’’سرکار خالی جگہ ہے۔ میں نے سوچاکیاریاں بنادوں۔ ’فلاگ‘ یہا ں بڑی بہار دے گا۔ ادھر ’ڈیلیا‘ کی قطار لگ جائے گی۔ ادھر سویٹ سلطانہ مسکرائے گی اوراس جگہ۔۔۔‘‘

’’توکیا تم مالی ہو؟‘‘

’’سرکارمیں ٹائل (ٹائلز) صاحب کے یہاں سائیس تھا۔ پرصاحب لوگ سب ولایت چلے گئے۔ جب میں مالی کا کام کرنے لگا۔ صاب آپ ایک گھوڑا گاڑی رکھئے، پھر ہمارا کام دیکھئے۔‘‘

’’توکیاتم کک نہیں ہو؟‘‘

’’بہوجی سکھادیں گی تووہ کام بھی سیکھ لوں گا۔‘‘

مختصریہ کہ پندرہ دن تک روٹیاں پکانے کے بجائے کک صاب کیاریاں بناکر ان میں پھول لگاتے رہے۔ اتنا ہی غنیمت تھا کہ کسی نہ کسی طرح برتن صاف کردیاکرتے تھے۔ ہماراتو کیاپکاتے، ان کااپنا کھانا بھی میری بیوی کوپکاناپڑا۔ آخریہ وعدہ کرکے میں نے ان سے نجات حاصل کی کہ جوں ہی میں گھوڑا گاڑی رکھوں گا، انہیں ضرور یاد کرو ں گا۔

ایسے اوقات میں موسی کے سوا ہمیں کہیں پناہ نہیں ملتی۔ وہ سست اورجاہل ہے توکیاہوا۔ پرلے سرے کی ایمان دار، حلیم اور خاموش بھی توہے۔ ایسے ملازموں کا ملنا، جن میں موسی کی خوبیاں توہوں لیکن عیب نہ ہوں، میرے خیال میں اگرناممکن نہیں تومشکل ضرور ہے۔ ہم جیسے کمزوراعصاب والوں کو جتنی جلدغصہ آتا ہے، اتنی ہی جلد اتربھی جاتاہے۔ لیکن مالک کے غصہ پر اگر ملازم کوبھی غصہ آنے لگے تو پھرمالک کا اللہ ہی مالک ہے۔ استادبھی گرم اورشاگرد بھی گرم تو بات کیوں کربنے؟ موسی کایہ عیب کہ لاکھ بکے جاؤ اس کے کان پرجوں نہیں رینگتی، میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ اس کے کان پرجوں رینگنے لگتی تویہ آٹھ برس کیوں کرگزرتے، اس کا تصور بھی تکلیف دہ ہے۔ میں یہ توچاہتاہوں کہ موسی ٹھیک سے کام کرنے لگے لیکن اس کی جگہ دوسرا ملازم رکھنے کا تصور بھی نہیں کرتا۔ اسے بھی جیسے اس بات کا یقین ہے کہ یہ لوگ دس ملازم رکھ لیں، میرے بغیر ان کا کام نہیں چل سکتا۔

چونکہ دفتر گھرپرہی ہے، اس لیے ذاتی اورکاروباری ملاقاتیوں کا تانتا بندھا رہتاہے۔ باربار چائے بنتی ہے، موسی نے آج تک کبھی (جب تک کہ خود ہم نے ہی اسے ایسا کرنے سے منع کرنہ دیاہو) چائے بنانے سے انکارنہیں کیا۔ یہ اوربات ہے کہ اسے پانچ منٹ میں چائے لانے کوکہئے تو وہ آدھ گھنٹے میں لاتی ہے۔ کئی بار (خصوصاً سردیوں میں) ایسا بھی ہواہے کہ رات کے ساڑھے دس گیارہ بجے جب موسی کچن بند کرکے جانے والی ہوتی ہے، میری بیوی کافی پینے کی خواہش ظاہرکرتی ہے اورموسی میری طرف دیکھ کرذرا ہنستے ہوئے آنکھیں دکھاکرکہتی ہے، ’’دیکھیں بھیے، بہواب کا پھی مانگت ہیں۔۔۔‘‘ اورمیں کہتاہوں، ’’یہ کوئی وقت ہے کافی کا۔ اب جاؤ سورہو۔ صبح تمہیں جلدی اٹھناہوگا بچو ں کے ناشتے کے لیے۔‘‘ اورمیری بات سن کر میری بیوی کہتی ہے، ’’اچھاٹھیک ہے موسی، تم جاؤ۔ اب نہیں پیتے۔‘‘

موسی کچھ نہیں کہتی چلی جاتی ہے اورجب آدھ ایک گھنٹے بعد میں سونے کی تیاری کررہاہوتاہوں تودیکھتاہوں کہ موسی کافی لیے ہوئے چلی آرہی ہے۔ میں جھلاتا ہوں، ’’موسی، تم بہوکی عادت بگاڑتی ہو۔ تم سے کتنی بار کہا ہے کہ بہوکو باربارکافی نہ دیا کرو۔ یہ نہ مانیں تومجھے بتایا کرو۔‘‘

’’ارے بھئیے۔ اب ای کام کرت کرت تھک جات ہیں۔‘‘ وہ اپنی سی ڈھیلی ڈھالی آوازمیں کہتی اور اس کے لہجے میں کچھ ایسی شفقت اور محبت ہوتی ہے کہ دل بھرآتاہے۔

موسی چلی جاتی ہے، توبیوی موسی کی ان خوبیوں کا تذکرہ کرتی ہے جواس کی برائیوں کے نیچے دبی رہتی ہیں لیکن جوعام ملازموں میں قطعی مفقود ہوتی ہیں اور سوچتی ہے کہ موسی نہ رہے گی توہمارا کیاحال ہوگا۔ اورمیں کہتاہوں، ’’وہ توہیراہے ہیرا۔۔۔‘‘ اورہم دونوں سوچتے ہیں کہ موسی بوڑھی ہوگئی ہے۔ اس سے تیزی سے کام ہوہی کیسے سکتا ہے اور ہم طے کرتے ہیں کہ خواہ ہم دوسرے ملازم رکھ لیں لیکن موسی کوکبھی علیحدہ نہ کریں گے۔

موسی میرے چھوٹے بچے سے بہت پیارکرتی ہے۔ وہ اسے تنگ کرتاہے، پریشان کرتاہے لیکن اگرمذاق میں بھی موسی کونکالنے کی بات ہوتو (اگرچہ اب وہ کافی بڑا ہوگیاہے پھربھی) اس کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔

میں اس بات کوپسندنہیں کرتا کہ میرے بچے ملازموں سے کسی قسم کی بدتمیزی سے پیش آئیں۔ میں خودبھی علالت یاپریشانی میں ہی کبھی چلاتا یاجھڑکتاہوں مگربچے تومیری اس مجبوری کونہیں دیکھتے۔ میری تقلید میں مجھ سے ایک قدم آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایک بارمیرے چھوٹے لڑکے نے موسی کوبری طرح ڈانٹ دیا اورموسی نے ہنستے ہوئے کہا، ’’دیکھیں بھیئے، گڈے بھیا ہمیں ڈانٹت ہیں۔‘‘

جانے میں بہت مصروف تھا، تھکاہواتھا یاعلیل تھا، مجھ پرخون سوارہوگیا۔ میں نے اسے آوازدی اوربڑھ کر زور کا ایک طمانچہ اس کے منہ پر جمادیا۔ وہ روتاہوا موسی کی گود میں جاچھپا۔ میں نے لاکھ جتن کیے مگرموسی نے اسے نہیں چھوڑا۔ مارے خوف کے لڑکے کا رنگ فق ہوگیااور موسی رونے لگی۔ جانے کیسے ا س غیض کے عالم میں بھی دل بھرآیا۔ میں چپ چاپ اپنے کمرے میں چلاگیا اور دیرتک باہرنہیں نکلا۔

ہم دونوں میا ں بیوی نہ جانے کیسے کاروبارچلاتے ہیں۔ لوگ ہمیں بہت کامیاب سمجھتے ہیں۔ بیسیوں طعنے ملتے ہیں اورجھوٹ سچ بیسیوں باتیں ہماری تیزی اورہوشیاری کے بارے میں مشہور ہوگئی ہیں لیکن حساب کتاب سے ہم دونوں کی جان جاتی ہے۔ تالے چابیاں اس جنم میں تو ہم سنبھال نہیں سکتے، اگلے جنم کا حال خدا کومعلوم ہے۔ یہ بات نہیں کہ ہم تالے نہیں لاتے۔ کئی بار دس دس تالے لاتے ہیں اور سب جگہ لگاتے ہیں۔ پھر کیسے ایک جگہ کا تالا دوسری جگہ چلاجاتاہے اورکیسے چابیاں گم ہوجاتی ہیں، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ چابیاں ٹانگنے کے لیے دفتر اور گھر دونوں میں دیوار پربورڈ لگوائے ہیں۔ ان پر ہک اورچابیوں پرکارڈبورڈ کی چھوٹی چھوٹی تختیاں لگاکرگودام، دفتر، ٹرنک وغیرہ لکھواتے ہیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ گھرمیں سب کچھ عموماً کھلا رہتاہے۔ ہم باہر جاتے وقت کواڑبند کیے بغیرنکل آتے ہیں اورموسی کو آواز دے کر کہتے ہیں، ’’موسی، ہم باہرجارہے ہیں۔ گھرکھلا ہے۔‘‘ موسی سب دروازے، کھڑکیاں بندکرتی ہے۔ باہرکاتالا نہ ملے توکچن کا تالا لگاتی ہے اورہم بے فکرگھومتے ہیں۔

ایک بارہمیں شام کوکسی سے ملنے جاناتھا اوروقت سے پہنچناتھا۔ بیو ی نے کپڑے بدل کردراز سے کانوں کے آویزے اورلاکٹ نکالا، مگرمیرے جلدی مچانے کی وجہ سے انہیں پہنتے ہی وہ باہرنکل آئی اوردروازہ بند کرنابھول گئی۔ موسی کوآواز دی کہ گھرسنبھالو اور ہم چلے گئے۔ جب ہم کافی دورنکل آئے توبیوی نے کہا، ’’میں درازبند کرنابھول گئی۔ چابی شاید اسی میں لگی رہ گئی۔‘‘ میں نے غصہ سے کہا، ’’اب چلو، جوہوناہے اب تک ہوچکا ہوگا۔‘‘ درازمیں نہ صرف بیوی کے زیورات تھے بلکہ دفتر کے ہزارڈیڑھ ہزارروپے بھی تھے۔

جب ہم رات کوواپس آئے تو دیکھا، موسی سب دروازے بندکیے باہربرآمدے میں بیٹھی ہے۔

’’موسی، دروازے ہمارے جاتے ہی بند کرلیے تھے؟‘‘ بیوی نے پوچھا۔

’’ہاں بہو۔‘‘

’’کوئی آیا تونہیں تھا؟‘‘

’’نہیں بہو!‘‘

بیوی نے چابی لی اورکمرہ کھول کراندرجاکر دیکھا۔ درازویسی ہی نصف بندنصف کھلی تھی۔ چابی اس میں لگی تھی اور ساری چیزیں جوں کی توں رکھی تھیں۔

ایک بارہم باہرسے آئے۔ شاپنگ کرنے گئے تھے۔ بیوی نے دس دکانیں دیکھیں، چیزیں پسند کیں مگر خریدی ایک نہیں۔ میری بیوی کی عادت ہے کہ ایک ہی بار میں کوئی چیزنہیں خریدتی۔ پسندکرکے رکھ آتی ہے اوردوسرے تیسرے دن خریدتی ہے۔ ہم بے حد تھک گئے تھے۔ آکربرآمدے ہی میں بیٹھ گئے۔ شاید کچھ دوست آگئے تھے یا جانے کیا بات ہوئی رات کودیر سے سوئے۔ صبح موسی چائے لائی تو اس کے ہاتھ میں میری بیوی کا ہینڈبیگ بھی تھا، جووہ رات کوباہرہی بھول گئی تھی۔ چارپانچ سوروپے جووہ ساتھ لے گئی تھی جوں کے توں رکھے تھے۔

’’اب تواِیہرادہر بٹوارکھ دیت ہیں۔ کھوے جائی تو آپھت ہم گریبن پر آئی۔‘‘ موسی نے تقریباً ڈانٹتے ہوئے بیوی سے کہا۔

’’اتنی بارچیزیں گم ہوئی ہیں اماں۔ کبھی تمہاری آفت آئی ہے؟‘‘ بیوی نے کچھ ایسے لہجہ میں کہا جس میں مسرت کے ساتھ ساتھ ہلکے لاڈ کی آمیزش بھی تھی۔ وہ جب موسی سے بہت خوش ہوتی ہے توہمیشہ اسے اماں کہہ کر پکارتی ہے۔ اوربیوی کی یہ بات درست بھی ہے۔ موسی سے اوربیسیوں شکایتیں ہوں، یہ شکایت کبھی نہیں ہوئی۔ ترکاری پڑی پڑی سڑجائے گی، پھل مرجھائیں گے، دہی خراب ہوجائے گا، دودھ پھٹ جائے گالیکن موسی ہاتھ نہیں لگائے گی۔ جب ہم چلائیں گے کہ جب کوئی دوسرا کھانے والا نہیں تھاتوتم نے خودکیوں نہیں کھالیا تواس کا صرف ایک ہی جوا ب ہوتاہے، ’’تو ہم کاکہے نہ رہے، کیسن لیئی لیتے۔‘‘

میری بیوی اورمیں چونکہ کئی بار صبح آٹھ بجے سے لے کررات کے آٹھ بجے تک دفتر میں کام کرتے رہے ہیں، اس لئے گھردیکھنے والا کوئی نہیں اور کبھی کبھی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ایسی عورت گھرمیں رہے جوکپڑے لتے، گہنے پاتے کی دیکھ بھال کرسکے اور وقت سے سبزی ترکاری منگاکر کھاناکھلواسکے۔ بمبئی میں رہتے تھے تووہاں ایسی ٹرینڈآیامل جاتی تھی جویہ سب کام خوش اسلوبی سے انجام دے لیتی تھی لیکن الہ آباد میں ایسی سہولت نہیں۔

پچھلے دنوں میری بیوی نے ایک دور پار کی رشتہ دارخاتون کوگھرمیں رکھ لیا۔ انہوں نے آہستہ آہستہ گھرپرقبضہ جمالیا۔ بدقسمتی سے ان دنوں گھرمیں کچھ مہمان آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے کچھ اس طرح وقت سے کھانے کا انتظام کیا، خودرکشا لے کربازار سے سبزی ترکاری لاکرنئی سے نئی سبزیاں اورپھل کھلائے کہ جی بے حدخوش ہوا۔ آہستہ آہستہ انہوں نے گودام کوتالا لگادیا، ڈولی کومقفل کردیا۔ بہت دنوں تک یہ بات مجھ سے چھپی رہی لیکن ایک دن جب میں بے وقت کھانے بیٹھا اورمیں نے اچارمانگا اورموسی ان سے چابی مانگنے گئی تو مجھے بہت الجھن ہوئی۔

’’یہ تالاکیوں لگایاجاتاہے؟ کون ہے جو یہ کھانے کی چیزیں اٹھالے جائے گا؟‘‘ میں بڑبرایا۔

چارچھ ماہ کام ٹھیک چلا، پھرآہستہ آہستہ دوایک بارکچن میں موسی سے ان کی تکرارہوگئی۔ پھر گھرسے چیزیں غائب ہونے لگیں۔ یوں ہی ادھرادھر رکھے ہوئے پیسے روپے غائب ہوئے، ادھرادھر پڑے کپڑے غائب ہوئے کچھ برتن غائب ہوگئے۔ دبی زبان سے ان خاتون نے کہا کہ آپ نے موسی، اس کی بہن اورگھرمیں صفائی کرنے والی جمعدارنی کوبہت چھوٹ دے رکھی ہے۔ میں ان کااشارہ سمجھ گیا اورمیں نے کہا، ’’ماتاجی، آٹھ برس سے یہ لوگ کام کرتی ہیں۔ یہاں سے کبھی کوئی چیز نہیں گئی۔‘‘

ایک دن شام کودفتر سے ڈرائنگ روم میں آیاتو موسی شکایت آمیز لہجے میں بڑبڑانے لگی، ’’بوڑھا بوڑھا کھات ہیں اوربچن لوگ منہ تاکت ہیں۔‘‘

پوچھنے پرمعلوم ہوا کہ لڑکا اسکول سے آیاتھا۔ ڈولی مقفل تھی۔ ماتا جی کہیں گئی ہوئی تھیں اوربچے کو ناشتہ نہیں ملا۔ موسی نے بتایاکہ وہ خاتون خود خوب کھاتی ہیں اوربچوں کو نپا تلادیتی ہیں۔ لڑکوں نے بھی شکایت کی کہ جب دیکھو توڈولی میں تالا لگارہتاہے۔

اسی رات میں نے ان سے چابی لے لی اورکہا کہ کہیں تالا والا لگانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کچھ دن بعد وہ چلی گئیں۔ جاتے جاتے کچھ اورچیزیں اٹھالے گئیں لیکن ہم نے چین کی سانس لی۔

انہیں گئے ایک سال ہوگیاہے۔ گھر کھلارہتاہے، کپڑے لتے، روپے پیسے اسی طرح کھلتے رہتے ہیں۔ لیکن کسی چیز کے گم ہونے کی شکایت نہیں سنائی دیتی۔ موسی بدستور گھرسنبھالے ہوئے ہے۔

میری پہلی بیوی سے ایک لڑکا ہے جواب بڑا ہوگیاہے اورکالج میں پڑھتاہے۔ وہ میرے ساتھ کم ہی رہاہے۔ پہلے اپنی دادی کے پاس رہا، پھر چچاؤں، تایوں کے پاس رہا، پھر آیاتوکئی بارگھر سے بھاگ بھاگ گیاہے۔

پچھلی بار وہ بمبئی بھاگ گیااور دوسال وہاں اس نے بڑی تکلیفیں برداشت کیں، کافی تجربے حاصل کیے اور واپس آیاتو میں نے اسے کافی سلجھاہواپایا۔ سیرت میں وہ اپنی ماں پرہے۔ بے حدحساس، فراخ دل اورکم گو۔ عام نوجوانوں کی طرح وہ اپنے والدین کوکئی باتوں میں اپنی نسبت قدرے کم سمجھدار پاتاہے۔ اسے اس بات کی شکایت ہے کہ ہم کیوں اتناچلاتے ہیں۔ کیوں نہیں ایسا انتظام کیاجاتاکہ موسی کو ڈائننگ روم میں بیٹھے بیٹھے وقتا فوقتا آواز دینے کی ضرورت نہ پڑے۔

پچھلے سال کی بات ہے کہ ایک دن میں نے دیکھا، وہ کچن میں بجلی کی گھنٹی فٹ کروارہاہے۔ کھانے کاکمرہ کچن سے دورہے۔ کافی لمباتار لگاناپڑا۔ بٹن ڈائننگ روم میں فٹ کرواکے اس نے میری طرف کچھ ایسے فخریہ اندازسے دیکھا، گویا کہہ رہاہو، ہوں گے آپ بڑے توپ ادیپ۔ لیکن ابھی میں آپ کوبہت کچھ سکھاسکتاہوں۔ اب دیکھئے بھلاکوئی ضرورت ہے موسی کوچیخ کربلانے کی۔ چپکے سے گھنٹی بجادی، وہ خودبخود گھنٹی کی آوازکے ساتھ کھنچی چلی آئے گی۔ آپ لوگ ہیں کہ چلاچلاکراحاطہ سرپراٹھالیتے ہیں۔

لیکن موسی کبھی گھنٹی کی آواز کے ساتھ نہیں آئی۔

کھاناکھاتے کھاتے کسی چیزکی ضرورت پڑتی ہے یاموسی روٹیاں لانے میں دیر کرتی ہے تومیرالڑکا گھنٹی دباتاہے۔ موسی جواب دیتی ہے نہ آتی ہے۔ لڑکاکچھ دیرانتظار کرتا ہے اور اب کے دوباربٹن دباتاہے۔ موسی پھربھی کوئی جواب نہیں دیتی۔ کچھ جھلاہٹ کے ساتھ وہ پھربٹن دباتاہے، دباتے رہتا ہے اورگھنٹی دیر تک بجتی رہتی ہے۔ موسی کی طرف سے پھرکسی قسم کی سن گن کا پتہ نہیں ملتا۔ پھروہ اپنی فطری سنجیدگی کوبالائے طاق رکھ کربظاہر خاموش لیکن بہ باطن جھلایاہواکچن میں پہنچتاہے۔ موسی روٹی بیل رہی ہوتی ہے یا انگیٹھی کودھونک رہی ہوتی ہے یاآٹا سان رہی ہوتی ہے۔

’’موسی تمہیں گھنٹی نہیں سنائی دی؟‘‘

’’سنت تورہے۔‘‘

’’توپھرجواب کیوں نہیں دیاہے؟‘‘

’’دیکھت توہو۔ ہم کاکھالی رہے۔‘‘

’’تمہارے ہاتھ آٹا سان رہے ہیں یا زبان بھی آٹا سان رہی ہے؟‘‘

موسی اس کاکچھ جواب نہیں دیتی۔ سراٹھاکر پوچھتی ہے، ’’کاکہت ہو؟‘‘ کہتے ہیں تمہارا سر، لڑکاکہناچاہتاہے مگرکہتا نہیں۔ بھنبھناتاہواآکربیٹھ جاتاہے اورمنہ پھلالیتاہے۔ میں مسکراتاہوں تو اس کامنہ اوربھی پھول جاتاہے۔

اوراب سال بھربعد عالم یہ ہے کہ گھنٹی اورموسی اپنی جگہ برقرارہیں اورہمارے گھرکاکام پہلے کی ہی طرح چلتاہے۔

مأخذ : کہانیاں

مصنف:اوپندر ناتھ اشک

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here