کہانی کی کہانی:’’میاں بیوی کی نوک جھونک پر مبنی ایک مزاحیہ کہانی ہے جس میں بیوی کو ایک گمنام لڑکی کے خط سے اپنے شوہر پر شک ہوجاتا ہے اور اسی وجہ سے ان میں کافی دیر تک بحث و مباحثہ ہوتا ہے لیکن جب بیوی کو صحیح صورت حال معلوم ہوتی ہے تو ماحول رومانی اور خوشگوار ہو جاتا ہے۔‘‘
’’یہ آپ کی عقل پر کیا پتھر پڑ گئے ہیں؟‘‘
’’میری عقل پر تو اسی وقت پتھر پڑ گئے تھے جب میں نے تم سے شادی کی۔ بھلا اس کی ضرورت ہی کیا تھی اپنی ساری آزادی سلب کرالی۔‘‘
’’جی ہاں آزادی تو آپ کی یقیناً سلب ہوئی اس لیے کہ آپ اب کھلے بندوں عیاشی نہیں کرسکتے شادی سے پہلے آپ کو کون پوچھنے والا تھا، جدھر کو منہ اٹھایا چل دئیے جھک مارتے رہے۔‘‘
’’دیکھو میں تم سے کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ مجھ سے جو کچھ کہنا ہو چند لفظوں میں صاف صاف کہہ دیا کرو، مجھے یہ جھک جھک پسند نہیں۔ جس طرح میں صاف گو ہوں اسی طرح میں چاہتا ہوں کہ دوسرے بھی صاف گو ہوں۔‘‘
’’آپ کی صاف گوئی تو ضرب المثل بن چکی ہے۔‘‘
’’تمہاری یہ طنز خدا معلوم تم سے کب جدا ہوگی اتنی بھونڈی ہوتی ہے کہ طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔‘‘
’’آپ کی طبیعت تو شگفتہ گفتگو سن کر بھی خراب ہو جاتی ہے اب اس کا کیا علاج ہے۔اصل میں آپ کو میری کوئی چیز بھی پسند نہیں۔ ہر وقت مجھ میں کیڑے ڈالنا آپ کا شغل ہوگیا ہے۔ اگر میں آپ کے دل سے اتر گئی ہوں تو صاف صاف کہہ کیوں نہیں دیتے۔ بڑے صاف گوبنے پھرتے ہیں آپ، ایسا ریا کار شاید ہی دنیا کے تختے پر ہو۔‘‘
’’اب میں ریا کار بھی ہوگیا؟ کیا ریاکاری کی ہے میں نے تم سے؟ یہی کہ تمہاری نوکروں کی طرح خدمت کرتا ہوں۔‘‘
’’بڑی خدمت کی ہے آپ نے میری۔۔۔‘‘
’’سر پرقرآن اٹھاؤ اور بتاؤ کہ جب سے ہماری شادی ہوئی ہے کبھی تم نے میرا سر تک سہلایا ہے۔ میں بخار میں پھنکتا رہا ہوں، کبھی تم نے میری تیمار داری کی۔ پچھلے دنوں میرے سر میں شدت کا درد تھا، میں نے رات کو تمھیں آواز دی اور کہا مجھے بام دے دو مگر تم نے کروٹ بدل کر کہا۔ میری نیند نہ خراب کیجیے، آپ اُٹھ کر ڈھونڈ لیجیے کہاں ہے۔ اور یاد ہے جب تمھیں نمونیہ ہوگیا تھا تو میں نے سات راتیں جاگ کر کاٹی تھیں، دن اور رات مجھے پل بھر کا چین نصیب نہیں تھا۔ ‘‘
’’دن بھر سوئے رہتے تھے آپ ،میری بیماری کا ایک بہانہ مل گیا تھا، سات چھٹیاں لیں اور دفتر کے کام سے نجات پا کر آرام کرتے رہے ہیں۔ آپ کے سارے حیلے بہانے جانتی ہوں ،میرا علاج آپ نے کیا تھا یا ڈاکٹروں نے۔۔۔‘‘
’’جان ڈاکٹروں کو تم بلا کر لائی تھیں کیا؟ اور دوائیں بھی کیا تم نے خود جا کر خریدی تھیں؟ اور جو روپیہ خرچ ہوا کیا فرشتوں نے اوپر سے پھینک دیا تھا؟ کتنے سفید جھوٹ بولتی ہو کہ میں دن کو سویا رہتا تھا۔ قسم خدا کی جو ایک لمحے کے لیے بھی ان دنوں سویا ہوں،تم بیمار ہو جاؤ تو گھر کی اینٹیں بھی جاگتی رہتی ہیں تم اس وقت کس کو سونے دیتی ہو۔ آہ و پکار کاتانتا بندھا رہتا ہے جیسے کسی پر بہت بڑا ظلم ڈھایا جارہا ہے۔ ‘‘
’’جناب بیماریاں ظلم نہیں ہوتیں تو کیا ہوتی ہیں،جو میں نے برداشت کیا ہے وہ آپ کبھی نہ کرسکتےاور نہ کبھی کر سکتے ہیں۔ میں نے کتنی بیماریاں خندہ پیشانی سےسہی ہیں۔ آپ کو تو خیر اس وقت کچھ یاد نہیں آئے گا،اس لیے کہ آپ میرے دشمن بنے بیٹھے ہیں۔‘‘
’’دن ہی کو میں تمہارا دشمن بن جاتا ہوں، رات کو تو تم نے ہمیشہ بہترین دوست سمجھا ہے۔‘‘
’’شرم نہیں آتی آپ کو ایسی باتیں کرتے، رات اور دن میں فرق ہی کیا ہے۔‘‘
’’اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔‘‘
’’یہ کہہ کر آپ نے میرا گلا گھونٹ دیا کہ میں آپ سے کچھ اور نہ کہہ سکوں۔‘‘
’’لو بھئی اب میں اطمینان سے یہاں بیٹھ جاتا ہوں۔ آرام جائے جہنم میں،تم جو کچھ کہنا چاہتی ہو ایک ہی سانس میں کہتی چلی جاؤ۔۔۔‘‘
’’میری سانس اتنی لمبی نہیں۔۔۔‘‘
’’عورتوں کی سانس کے متعلق تو یہی سنا تھا کہ بہت لمبی ہوتی ہے اور زبان بھی ماشاء اللہ کافی دراز۔۔۔‘‘
’’آپ یہ مہین مہین چٹکیاں نہ لیجیے، میں نے اگر کچھ کہہ دیا تو آپ کے تن بدن میں آگ لگ جائے گی۔‘‘
’’اس تن بدن میں کئی بار آگ لگ چکی ہے چلو ایک فائر کرو اور قصہ تمام کر دو۔‘‘
’’قصہ تو آپ میرا تمام کر کے رہیں گے۔‘‘
’’کس لیے؟ مجھے تم سے کیا بغض ہے؟ اللہ کے واسطے کا بیر تو نہیں مجھ سے؟‘‘
’’محبت اور اطاعت کو آپ بیر سمجھتے ہیں اس لیے تو میں نے کہا تھا کہ آپ کی عقل پر پتھر پڑ گئے ہیں۔‘‘
’’میری عقل پر پتھر پڑیں یا کوہ ہمالیہ کا پہاڑ لیکن تمہاری محبت اور اطاعت میری سمجھ میں نہیں آئی۔ اطاعت کو فی الحال چھوڑو۔۔۔ لیکن میں یہ پوچھتا ہوں کہ اب تک تم محبت بھری گفتگو کر رہی تھیں؟‘‘
’’تو میں نے آپ کو کون سی گالی دی ہے؟‘‘
’’گالی دینے میں تم نے کوئی کسر تو اٹھا نہیں رکھی، ریا کار تک تو بتا دیا مجھ کو، اس سے بد تر گالی اور کیا ہو سکتی ہے؟‘‘
’’یہ لو کھلا گریبان ہے۔ میں نے اپنا سارا سر اس میں ڈال دیا۔ اب تم بتاؤ۔ صرف تمہاری شکل نظر آتی ہے۔ خوفناک، بڑی ہیبت ناک۔‘‘
’’تو کوئی دوسری کر لیجیے جو خوش شکل ہو۔‘‘
’’ایک ہی کر کے میں نے بھرپایا ہے۔ خدا نہ کرے زندگی میں دوسری آئے۔‘‘
’’آپ مجھ سے اس قدر تنگ کیوں آ گئے ہیں۔‘‘
’’میں قطعاً تنگ نہیں آیا۔۔۔ بس تم دل جلاتی رہتی ہو۔‘‘
’’میرا دل تو جل کر کوئلہ ہو چکا ہے، سچ پوچھیے تو میں چاہتی ہوں کہ کچھ کھا کے مر جاؤں۔۔۔ میں جا رہی ہوں۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’میں نے ایک من برف منگوائی ہے،اسے چار بالٹیوں میں پانی کے اندر ڈال رکھا ہے، اس ٹھنڈے پانی سے نہاؤں گی اور پنکھے کے نیچے بیٹھ جاؤں گی۔ایک مرتبہ مجھے پہلے نمونیہ تو ہو ہی چکا ہے اب ہوگا تو پھیپھڑے یقیناً جواب دے جائیں گے۔‘‘
’’خدا حافظ۔۔۔‘‘
’’خدا حافظ۔۔۔ خودکشی کا یہ طریقہ تم نے بہت اچھا ڈھونڈا ہے جو آج تک کسی کو سوجھا نہیں ہوگا۔۔۔‘‘
’’ آپ کے پہلو میں تو دل ہی نہیں۔‘‘
’’جوکچھ بھی ہے بہر حال موجود ہے اور دھڑکتا بھی ہے۔ جاؤ یخ آلود پانی سے نہا کر پنکھے کے نیچے بیٹھ جاؤ۔۔۔‘‘
’’جا رہی ہوں،آپ سے چند باتیں کرنی ہیں۔‘‘
’’ضرور کرو۔۔۔‘‘
’’ میرے بچوں کا آپ ضرور خیال رکھیئے گا۔۔۔‘‘
’’ کیا وہ میرے بچے نہیں ہیں۔‘‘
’’ہیں۔۔۔ لیکن شاید میری وجہ سے اچھا سلوک نہ کریں۔‘‘
’’نہیں نہیں۔۔۔ تم کوئی فکر نہ کرو۔۔۔میں انھیں بورڈنگ میں داخل کرانے لے جاتا ہوں۔۔۔ خدا حافظ۔‘‘
’’خدا تمہارا حافظ ہو، مجھے تو فی الحال خودکشی نہیں کرنی لیکن سنو نمونیہ ہو تو ڈاکٹر کو بُلا لاؤں؟‘‘
’’ہرگز نہیں۔۔۔ میں مرنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’تو میں نہیں بلاؤں گا لیکن نمونیہ کے مریض فوراً نہیں، مرتے پانچ چھ روز تو لگاتے ہیں۔‘‘
’’آپ اس عرصہ تک انتظار کیجیے گا۔‘‘
’’بہت بہتر۔۔۔‘‘
’’میری کہی سنی معاف کر دیجیے گا۔۔۔‘‘
’’وہ تو میں نے اسی روز کر دی تھی جب تم سے نکاح ہوا تھا۔‘‘
’’میں آپ سے صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ آپ کی عقل پر جو پتھر پڑ گئے ہیں انھیں دورکردیجیے گا۔‘‘
’’میں وعدہ کرتا ہوں۔ اگر تم کہو تو قسم اٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ اچھا تو میں چلا ۔بچے باہر کھیل رہے ہیں انھیں ہوسٹل لے جاتا ہوں واپس دو تین گھنٹے میں آ جاؤں گا۔ اگر اس دوران میں تم مر گئیں تو بہت اچھا، تجہیز و تکفین کا سامان کر دوں گا،مجھے ابھی کل ہی تنخواہ ملی ہے۔‘‘
’’جائیے میں بھی چلی۔‘‘
’’الوداع۔۔۔‘‘
’’الوداع۔۔۔‘‘
’’کبھی کبھی مجھ نابکار کو یاد کر لیا کیجیے۔‘‘
’’ضرور ضرور تم نابکار کیوں کہتی ہو خود کو۔‘‘
’’میں کس کام کی ہوں؟‘‘
’’خیر چھوڑو۔ بحث اس پر الگ شروع ہو جائے گی اور تمہاری خریدی ہوئی ایک من برف پگھل کر گرم پانی میں تبدیل ہو جائے گی۔‘‘
’’یہ تو آپ نے درست کہا۔ اچھا۔۔۔ میں چلی۔‘‘
’’میں آ گیا ہوں بچوں کو بورڈنگ ہاؤس میں داخل کرا کے، تم غسل خانے میں ابھی تک کیا کر رہی ہو؟‘‘
’’کچھ نہیں۔۔۔ سوچ رہی تھی۔‘‘
’’کیا سوچ رہی تھیں؟‘‘
’’میں نے وہ خط دوبارہ پڑھا۔‘‘
’’کونسا خط؟‘‘
’’جو آپ کی میز کی دراز میں پڑا تھا کسی لڑکی کی طرف سے تھا۔ اب میں نے جو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ آپ کے نام نہیں بلکہ اس اخبار کے ایڈیٹر کے نام ہے جہاں آپ کام کرتے ہیں۔ مجھے افسوس ہے میں نے آپ پر شک کیا۔‘‘
’’تم ہمیشہ شک کیا کرتی ہو۔۔۔ اب تو میری عقل کے پتھر ہٹ گئے۔ وہ لڑکی نہیں کوئی مرد ہے اسی لیے میں تفتیش کی غرض سے اسے اپنے ساتھ لے آیا تھا۔ خیر چھوڑو ٹھنڈا پانی تو پلاؤ ایک من برف تم نے منگوائی تھی۔‘‘
’’اس کا سب پانی میں نے غسل خانے میں ڈال دیا۔ بڑا ٹھنڈا ہوگیا ہے آپ بھی یہاں آ جائیے۔‘‘
مأخذ : کتاب : رتی،ماشہ،تولہ
مصنف:سعادت حسن منٹو