کہانی کی کہانی:’’یہ ملک کی تقسیم کے المیے میں گھرے ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو اپنے دوست کو فسا دیوں سے بچانے کے لیے اسے اپنی بیوی کے بغل میں سلا دیتا ہے۔ تب وہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کی بیوی اس سب کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ مگر سالوں بعد جب اس دوست کا ہندوستان آنے اور اس سے ملنے کا خط ملتا ہے تو وہ نہ صرف جھجکتا ہے، بلکہ اپنی بیوی سے نظریں ملاتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس کرتا ہے۔ اس پر اس کے اور بیوی کے درمیان ہونے والی گفتگو کہانی کو نیا موڑ دیتی ہے۔‘‘
دروازے کے باہر سائیکل کی گھنٹی سنتے ہی موتا سنگھ کے بچے۔ دروازہ کھولنے کے لیے دوڑ پڑے۔ تینوں بچوں نے ایک ساتھ کنڈی پر ہاتھ رکھا ۔ دروازہ کھول کر تینو ایک ساتھ چلائے،
’’دار جی آگئے، دار جی آگئے!‘‘
اور پھر تینوں ایک ساتھ ہی اچانک موتا سنگھ کی سائیکل پر سوار ہوگئے۔ ایک آگے بار پر۔ دوسرا گدی پر اور تیسرا پیچھے کیرئیر پر، موتا سنگھ ہنستا ہوا داخل ہوا، بیوی کی طرف دیکھا۔ وہ دھوپ میں سکھانے کے لیے رکھی ہوئی دال سمیٹ رہی تھی۔ دھوپ صحن میں سے ہوتی ہوئی اوپر دیوار کی طرف جا پہنچی تھی۔
دھوپ روز اسی وقت برجی پر چلی جاتی تھی۔ موتاسنگھ بھی روز اسی وقت ورکشاپ سے گھر لوٹتا تھا۔ تیل کے بڑے بڑے دھبوں والی خاکی قمیص، نیکر اور میل سے سیاہ چیکٹ بوٹ پہنے ہوئے، اس کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ کھیلتی ہوئی، سیاہ وسفید بالوں سے بھری بھری داڑھی مونچھ کے اندر سے اس کی مسکراہٹ جیسے چھن چھن کرباہر آتی اور دیکھنے اور ملنے والوں کو نہال کر دیتی۔
جس قدر وہ تندرست ، توانا اور شوخ مزاج تھا، اس کی بیوی اتنی ہی کمزور اور کم گو تھی۔ پانچ بچوں کو جنم دینے کے بعد اس کے جسم میں تن کر کھڑا ہونے اور چلنے کی طاقت نہیں رہی تھی۔ اس کے خوبصورت قد اور اعضاء کی دلکش مناسبت سے اندازہ ہوتا تھاکہ اس کی جوانی قیامت رہی ہوگی۔ ان تینوں بچوں کے علاوہ جو باپ کی سائیکل پر سوار تھے۔ دو لڑکیاں بڑی تھیں۔ سب سے بڑی کا دو سال پہلے بیاہ ہو چکا تھا۔ اس سے چھوٹی دسویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ وہ رسوئی میں بیٹھی انگیٹھی پھونک رہی تھی۔ باپ کی آواز سنتے ہی باہرنکل آئی اور بولی، ’’دار جی، آج ایک خط آیا ہے پاکستان سے۔‘‘
’’پاکستان سے؟‘‘ موتا سنگھ نے حیرانی ظاہرکی۔ ’’کس کا خط ہے من جیت؟‘‘ من جیت کمرے کے اندر دیوار پر سجا کر رکھے ہوئے گوروگرنتھ صاحب کے پیچھے سے ایک لفافہ نکال کر باہر لے آئی جس پر پاکستان گورنمنٹ کے ٹکٹ لگے ہوئے تھے۔ باپ کے ہاتھ میں دیتی ہوئی بولی۔
’’پتہ نہیں کس کا ہے؟اردو میں ہے، میں تو اردو جانتی نہیں‘‘۔ بچوں نے بے قابو ہو کر سائیکل کو گرا دینا چاہا۔ موتا سنگھ کے ہاتھ سے خط گر گیا۔ اس نے جلدی سے سائیکل من جیب کے حوالے کی اور خط اٹھاکر صحن میں پڑی ہوئی ایک کھاٹ کے کنارے پر بیٹھ گیا۔ ایک ہاتھ سے پگڑی اتار کر گھٹنوں پر رکھ لی، دوسرے ہاتھ سے لفافہ کے اندر جھانکا اورتہہ کیا ہوا کاغذ کھینچا۔ ایک فل اسکیپ کاغذ تھا۔ دونوں طرف لکھا ہوا۔
’’اترو اترو، نہیں توگرا دوں گی‘‘۔ من جیت نے بھائیوں کو سائیکل پر سے اتارکر سائیکل برآمدے میں کھڑی کر دی۔ بچے پھر باپ کے گرد جمع ہو گئے۔ ایک پیچھے سے گردن میں بانہیں ڈال کرجھولنے لگا اور دوسرا سٹ کر بیٹھ گیا۔تیسرے نے ہاتھ سے لفافہ لے کر حیرانی سے پوچھا، ’’یہ ٹکٹ کس قسم کا ہے دارجی؟‘‘
’’یہ پاکستان کا ہے بیٹے!‘‘
’’پاکستان کہاں ہے دارجی؟‘‘
’’ادھر ہے پاکستان جدھر تیرے نانا رہتے ہیں، ڈیرہ بابا نانک وہاں سے بس تھوڑی دور رہ جاتاہے۔ لا اب مجھے دے دے لفافہ۔ ان سب کو باہر لے جا من جیت۔ میں خط پڑھ لوں۔‘‘
’’پہلے یہ بتائیے یہ کس کا خط ہے؟‘‘
’’یہ۔ دیکھتاہوں۔ یہ‘‘ خط کے آخرمیں وہ غلام سرور کانام پڑھ کر چونک گیا۔ ’’غلام سرور‘‘ اس کے منہ سے نکلا اور اس کی نگاہ اپنی بیوی کی طرف اٹھ گئی۔ وہ بھی غلام سرور کانام سن کرچونک پڑی تھی اوردال سمیٹتے سمیٹتے سرگھما کر دیکھنے لگی تھی۔
’’کون غلام سرور؟ من جیت بھائیوں کوباپ کے پاس سے ہٹا کر وہاں خود بیٹھ گئی اور پوچھا۔ ان کا پہلے کبھی آپ کو خط نہیں آیا؟‘‘
’’ہاں پہلے کبھی نہیں آیا‘‘۔ موتا سنگھ جلدی جلدی خط پڑھنے لگا۔ وہ دودو سطریں ایک ساتھ پڑھتا جارہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ غلام سرور نے اسے ایک عرصے کے بعد کیوں یاد کیا ہے۔ بارہ سال کے بعد پہلی بار اس نے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیاتھا۔ پہلی بار اس کی خیریت دریافت کر رہا تھا ، وہ تو سمجھے تھے کہ سرور زندہ نہیں بچا ہوگا۔
اگر بچ بھی گیا تو آخر مسلمان تھا۔ اس کی خیریت کیوں دریافت کرتا۔ وہ اس کا کون تھا؟ بس دو سال ہی کی تو دوستی تھی ان کے درمیان! جب وہ ایک ساتھ ورکشاپ میں فٹر بھرتی ہوئے تھے، ایک ہی ورکشاپ میں انہیں جگہ ملی تھی۔ ایک ہی بیرک میں ایک دوسرے کے پڑوسی بنے تھے۔ صرف دو سال کے لیے ۔ اور اب اس قلیل مدت پر بارہ برس کا بہت گہرا بہت اونچا ملبہ پڑ چکا تھا۔ اس ملبے کے نیچے ان کے کتنے مشترکہ قہقہے سانجھے مذاق اور بہت ساری یادیں دفن ہو کرختم ہو چکی تھیں۔ وقت ایک گہرا تیزو تند اور بار بار راستہ بدل لینے والا دریا بھی ہے جو اپنے طوفانی بہائو کے ساتھ صدیوں کی جمی ہوئی دھرتی کے بڑے بڑے چٹان سے ٹکڑے الگ کر کے کاٹ کاٹ کربہا لے جاتا ہے اور پھر ذرہ ذرہ کر کے یہاں وہاں پھینک کر اس دھرتی کی ہستی ختم کردیتا ہے۔ نام ونشان تک مٹا ڈالتا ہے۔ اس مٹی کی اپنی خوشبو نہیں رہتی۔ اپنا سنگیت مرجاتاہے۔ کسی کو یاد نہیں رہتا یہاںایک بڑی عمارت تھی، وہاں ایک بہت بڑا میدان تھا۔ ادھر ایک پہنچے ہوئے فقیر کی قبر تھی۔اس طرف ایک بہت بڑا مرگھٹ تھا، ایک عالیشان مویشی گاہ تھی جہاں میلوں دور دور سے دیہاتی آکر یہاں ڈھور ڈنگروں کی خرید و فروخت کرتے تھے۔ میلے میں جمع ہو کر ناچتے اورگاتے تھے۔ زیر آب پڑی ہوئی دھرتی کے سینے پر منوں مٹی آآکرپڑتی جاتی ہے۔
خط پڑھتے پڑھتے موتا سنگھ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ غلام سرور نے اسے کبھی بھلایا نہیں تھا۔ اسکا پتہ کئی ذرائع سے دریافت کرتا رہا تھا۔ بیسوں دوستوں سے پوچھاتھا۔ کسی نے جواب دیا تھا تو پتہ نہیں بتا سکا تھا۔ کسی نے جواب نہیں دیا تھا۔ موتا سنگھ کئی سال ہوئے امرتسر کی ورکشاپ سے تبدیل ہو کر دہلی میں آگیا تھا۔ کسی کواس کا پتہ آسانی سے تھوڑی مل سکتا تھا۔ غلام سرور نے اس کے پتے کی کھوج اپنے ملک میں مقیم ہندوستانی ہائی کمشنر کی مدد سے لگائی تھی، اور اسے وہ دن یاد دلایاتھا جب فسادات کی مارکاٹ میں غلام سرور اپنی بیرک میں تنہارہ گیا تھا۔ اسکے بچنے کی کوئی صورت نہیں رہی تھی۔ رات کو وہ دیواریں اور چھتیں پھلانگتاہوا موتا سنگھ کے گھر میں آکودا تھا۔ اسکے چہرے پر موت کی زردی چھائی ہوئی تھی کوئی دم میں اس کا خاتمہ ہو جانے والاتھا۔ اسے مارنے کے لیے اس کے کئی پڑوسی اسکی تلاش میں گھوم رہے تھے۔ موتا سنگھ کے پاس وہ کسی امید پر نہیں آیاتھا۔ امیدیں تو ختم ہو چکی تھیں۔ آنکھوں میں مروت رہی تھی نہ دلوں کی محبت۔ سرحد کے دونوں طرف ایک عجیب سی دیوانگی اوروحشت کادوردورہ تھا۔ برہنہ تلواریں، نیزے، گنڈاسے چاروں طرف مصروف رقص تھے۔ بجلی کی سی چمک کے ساتھ کوندتے اور آنکھ جھپکنے کی دیر سرتن سے جدا کردیتے تھے۔ وہ موتا سنگھ سے کچھ بھی نہیں کہناچاہتاتھا۔ موتا سنگھ بھی اسے قتل کر سکتا تھا۔ اپنے بھائیوں اور بہنوں کے قتل اور اغوا کاانتقام اسکی بوٹی بوٹی الگ کرکے لے سکتا تھا۔
جس وقت وہ دیوار پر سے لٹک کر دھم سے زمین پر گرا تو اس وقت موتا سنگھ اپنی روتی ہوئی چھوٹی بچی کوسینے سے لگائے اسے چپ کرانے کی کوشش کررہا تھا۔ یہی من جیت تھی وہ بچی۔ اسکی بیوی برآمدے میں چارپائی پرلیٹی ہوئی تھی۔ صحن میں دھپ کی آواز سن کر دونوں چونک پڑے تھے۔ وہ سمجھتے تھے شاید مسلسل بارشوں کی وجہ سے دیوار کاایک حصہ گر گیا ہے۔ موتا سنگھ نے قریب جا کردیکھا تووہ غلام سرور تھا۔ زمین پرگھٹنوں کے بل گرا، اسے گھور گھور کردیکھ رہا تھا۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے جو موت کی طرح خوفناک تھیں ناامید تھیں۔ دونوں میں سے کوئی بھی نہیں بولا۔ خاموش دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ایک دوسرے کو پہچاننے میں کوئی غلطی نہیں کررہے تھے، ایسی کوئی وجہ بھی نہیں تھی۔ بس صرف زبان بند تھی۔ دل و دماغ پر بہت سے بوجھ پڑے ہوئے تھے۔ کسی سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ دونوں سمجھتے تھے، دونوں جانتے تھے۔ کچھ دیر تک موتا سنگھ خاموش کھڑا رہا جب غلام سرور کی تلاش میں نکلا ہوا ہجوم دروازے پر پہنچ کردستک دینے لگا توغلام سرور نے ایک سسکی لے کر سرنہوڑا لیا۔ موتا سنگھ اسے بچانا بھی چاہتا تو اب یہ اس کے بس میں نہیںتھا۔ فسادی اس کا دروازہ توڑ کر اندر آجاناچاہتے تھے۔ انہیں معلوم ہوچکا تھا کہ غلام سرور اسی کوارٹر میں کودا تھا۔
اچانک موتاسنگھ نے اس کے سرکوچھوا۔ اس کا کندھا ہلایا۔ پھر ہاتھ سے پکڑ کر ایک طرف لے جانے لگا۔ اس میں اندرچلنے کی اب سکت کہاں تھی؟ گھٹنا زخمی ہو چکا تھا۔ اسے لڑکھڑاتا دیکھ کر موتا سنگھ کو غصہ آگیا۔ ما ں کی ایک گالی دے کر اسے گھسیٹتا ہوا چارپائی کے پاس لے گیا اور اس پر غلام سرور کو پٹخ کر بولا، ’’مریہاں۔‘‘
جلدی سے ایک رضائی کمرے میں سے لا کر اس کے اوپر ڈال دی، اسی چارپائی پر اس کی بیوی لیٹی ہوئی تھی، وہ تڑپ کر اٹھ بیٹھی اورچلائی۔
’’کیا کررہے ہو؟‘‘
’’توبکواس بند کر، نہیں توکرپان سینے میں گھونپ دوں گا۔‘‘
موتا سنگھ سچ مچ کرپان لے کر اس کے سر پر کھڑا ہوگیا تھا۔ بچی کوفرش پرگرا دیا تھا جو زاروقطار رو رہی تھی۔
’’دونوں لیٹے رہو سیدھے ایک دوسرے کے ساتھ بالکل لگ کر، کسی کوشک نہ ہو کہ دو سوئے ہوئے ہیں۔‘‘
یہ سن کر غلام سرور اور موتا سنگھ کی بیوی کی رگوں کاخون منجمد ہوکر رہ گیا ۔ دونوں کے جسم بالکل سن ہو کر رہ گئے۔ بے حس و حرکت رضائی کے باہر صرف موتا سنگھ کی بیوی کا چہرہ تھا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی، سمجھ گئی تھی پاگل ہو گیا ہے۔
اسی وقت بہت سے لوگ دیوار پھاند کر اندر آگئے تھے، دروازہ کھول کر انہوں نے اور بھی بہت سے لوگوں کو اندر بلایا تھا۔ صحن میں تل دھرنے کی جگہ نہیں رہی تھی۔ ہر ایک کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی ہتھیار تھا۔ ہر شخص غلام سرور کی جان لینا چاہتا تھا۔ لیکن غلام سرور وہاں کہاں تھا انہوں نے گھر کا کونہ کونہ چھان مارا تھا، پھر حیران و مایوس ہو کروہاںسے چلے گئے تھے۔ غلام سرور نے لکھا تھا،
’’مجھے آج بھی ان لمحوں کی یاد آتی ہے تومیراخون اسی طرح رگوں کے اندر جمنے لگتا ہے۔ خدا کی قسم تم نے وہ کام کیا تھاجو ایسے حالات میں میں کبھی نہ کرسکتا، کبھی نہ کر سکتا۔ میرا سرتم دونوں کے آگے تا زندگی جھکارہے گا۔ میں اجمیر شریف میں چشتی والے خواجہ کے عرس میں شریک ہونے کے لیے آرہاہوں، اس مہینہ کی پندرہ تاریخ کو فرنٹیر میل سے دہلی پہنچوں گا۔ ایک دن قیام تمہارے گھر پر کروں گا۔ تم مجھے اسٹیشن پر ضرور ملنا۔ خدا جانتا ہے تم سے کہنے کے لیے میرے دل میں ان گنت باتیں ہیں۔ ملو گے تو سب کہہ سنائوں گا۔ اب تو تمہاری دونوں لڑکیاں سیانی ہوگئی ہوں گی، شاید شادی بھی کرچکے ہوگے ان کی، اور بھی بال بچے ہوں گے تمہارے۔ ان سب سے میرا الگ الگ پیار کہنا۔ بھابی صاحبہ کی خدمت میں سلام عرض ہے۔ میرے بھی چار بچے ہیں۔ خیر سے بڑے بڑے ہیں۔ ملنے پر سب کی کیفیت سنائوں گا۔ ملنا ضرور۔ ورنہ تمہارا گھر ڈھونڈنے میں مجھے بہت دقت ہوگی۔‘‘
تمہارا غلام سرور
مستری (فٹر) گریڈ اول ، مشین شاپ، لوکومغلپورہ
این۔ ڈبیلو۔آر۔ مغربی پاکستان۔
خط ختم ہوچکا تھا۔ خط کو تہہ کر کے وہ لفافے میں رکھ رہا تھا اس کے چہرے پرگہری فکرپیداہو چلی تھی اور ایک قسم کی سختی بھی، جیسے اس کے چہرے کی ڈھیلی ڈھالی جلد اچانک تن گئی ہو۔
اس کی بیوی دونوں ہاتھوں میں ایک چھاج میں دال بٹورکر لاتی ہوئی اسکے پاس کھڑی ہوگئی۔ شلوار قمیض اور دوپٹہ میں دبلا پتلاجسم، ہلکے ہلکے سیاہ بال جو اپنی چمک کھوکراب مرجھائے ہوئے نظرآرہے تھے، چہرے پرزردی سی کھنڈی ہوئی تھی، اس سے بولی، ’’یہ وہی غلام سرور ہے جو امرتسر میں ہماری بارک میں رہتا تھا؟‘‘موتاسنگھ نے بیوی کو گھورااس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا خوف ابھر آیا۔ پھر اس خوف پر درشتی اور نفرت چھاگئی۔ اس نے جواب دیا، ’’ہاں‘‘
’’کیا لکھا ہے اس نے؟‘‘ اس کی بیوی نے پھر پوچھا۔
’’وہ اجمیر کے عرس میں آرہا ہے۔ کہتا ہے تمہارے گھر بھیآؤں گا ملنے کے لیے۔ لیکن میں اسے یہاں نہیں لائوں گا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ یکایک اس کی بیوی نے چھاج پھینک دی۔ دوپٹے کو مروڑ کر دونوں ہاتھوں کے گرد اس طرح سختی سے لپیٹنے لگی جیسے کسی کی گردن مروڑ رہی ہو۔ کڑک کر پوچھا۔
’’بولو، اسے یہاں کیوں نہیں لائو گے؟‘‘
’’ماماں تمہیں کیاہوگیا ہے؟‘‘ من جیت گھبرا کر پرے ہٹ گئی۔ موتا سنگھ بھی گھبرا کر چارپائی سے کھڑا ہوگیا، جیسے وہ کہیں پاگل تو نہیں ہوگئی تھی۔ بولا، ’’من جیت کی ماں! میں اس سے ملوں گا بھی نہیں۔ اس کے سامنے جاتے ہوئے شرم سی محسوس ہوتی ہے۔‘‘
بپھر کر اس نے خاوند کاگریبان بھی پکڑ لیا۔
’’تمہیں شرم محسوس ہوتی ہے ؟ آج شرم محسوس ہوتی ہے جب میں بوڑھی ہو گئی ہوں! بارہ برس پہلے شرم نہیں محسوس ہوئی تھی جب میں جوان تھی۔ تب تو تم نے میری چھاتی پر کرپان رکھ کر مجھے خاموش کرادیا تھا۔ میں اپنی چھاتی کے اندر پڑے ہوئے اتنے بڑے پھٹ کو آج تک نہیں بھول سکی۔ تمہیں بھی وہ پھٹ نظرنہیں آیا کبھی، کیسے نظرآسکتا تھا۔ یہ نصیب جلی میں ہی ہوں جو آج تک چپکے چپکے رورو کر سسک سسک کراس گھائو کی پرورش کرتی رہی ہوں۔ میں اسی دن مرجاتی، اسی وقت جان دے دیتی۔ لیکن تم نے مرنے نہیں دیا۔ تم نے مجھے دلاسا دیا تھا، تم نے مجھے یقین دلایا تھا، اس بات کو کبھی یاد نہیں کروگے۔ کبھی نفرت نہیں کرو گے۔ کبھی طعنہ نہیں دو گے۔ آج تمہیں اس سے ملتے ہوئے شرم کیوں آرہی ہے؟ تمہیں یہ سوچ اس وقت کیوں نہیں آئی؟ میری بھی کوئی شرم ہے! میری بھی کوئی عزت ہے!! میرا زخم آج پھر پھٹ گیا ہے۔ میری عزت مٹی میں آج پھر ملی ہے‘‘۔ یہ کہتے کہتے وہ زار زار روتی ہوئی سینہ کوبی کرنے لگی اوردھم سے بیٹھ کر اپنا سر فرش کے ساتھ ٹکرانے لگی۔
مصنف:رام لعل