کہانی کی کہانی:‘‘کہانی ’روشنی کی رفتار‘ قرۃالعین حیدر کی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کی عکاسی کرتی ہے۔ کہانی میں حال سے ماضی کے سفر کی داستان ہے۔ صدیوں کے فاصلوں کو لانگھ کر کبھی ماضی کو حال میں لاکر اور کبھی حال کو ماضی کے اندر بہت اندر لے جا کر انسانی زندگی کے اسرار و رموز کو دیکھنے، سمجھنے اور اسکے حدود و امکانات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔’’
(ڈاکٹر (مس) پدما میری ابراہام کٌرین۔ عمر ۲۹ سال۔ تعلیم، ایم۔ ایس۔ سی۔ (مدراس) پی ایچ۔ ڈی (کولمبیا) قد، پانچ فٹ ۲ انچ۔ رنگت، گندمی۔ آنکھیں، سیاہ۔ بال، سیاہ۔ شناخت کا نشان، بائیں کنپٹی پر بھورا تل۔ وطن، کوچین (ریاست کیرالا)۔ مادری زبان، ملیالم۔ آبائی مذہب، سیرین چرچ آف مالا بار۔ ذاتی عقائد، کچھ نہیں۔ پیشہ، سرکاری ملازمت۔)
امریکہ سے لوٹنے کے بعد ڈاکٹر کرین پچھلے دو سال سے جنوبی ہند کے ایک اسپیس ریسرچ سنٹر (Space Research Centre) میں کام کر رہی تھی۔ اسے سرکاری کالونی میں ایک مختصر سا بنگلہ ملا ہوا تھا، جس میں وہ اپنے دو چھوٹے بھائیوں کے ساتھ مقیم تھی۔ دونوں بھائی کالج میں پڑھ رہے تھے۔ والدین (پنشن یافتہ اسکول ٹیچر) کوچین میں رہتے تھے۔
پدما میری ایک خاموش طبع محنتی لڑکی تھی جو بڑی لگن سے اپنے فرائض منصبی انجام دیتی تھی۔ مہینے میں ایک آدھ بار سنیما دیکھ آتی تھی۔ اور اوقات فرصت میں دوستوں کو چینی کھانے پکا کر کھلانا اس کا مرغوب مشغلہ تھا۔ ایک سیکنڈ ہینڈ کار خریدنے کے لیے روپیہ جمع کر رہی تھی۔ اور سائیکل پر دفتر آتی جاتی تھی۔ ایک بالکل نارمل قسم کی سیدھی سادی ساؤتھ انڈین لڑکی۔
اپریل ۱۹۶۶ء کے ایک خوشگوار دن، لیباریٹری میں کام کرتے کرتے پدما نے گھڑی پر نظر ڈالی صبح وہ جلدی میں ناشتہ کیے بغیر آگئی تھی۔ اور اب اسے سخت بھوک لگ رہی تھی ایک بجنے والا تھا۔ چند منٹ بعد وہ بیگ اٹھا کر باہر آئی۔ سائیکل پر بیٹھی اور اپنے کاٹج کی سمت روانہ ہوئی۔
راستے میں ایک جگہ ایک پتلا سا نالہ اور پُل پڑتا تھا۔ دوسری طرف سبزہ زار اور گھنا جنگل۔ خاصی سنسان سڑک تھی۔ اس وقت پل پر سے گزرتے وقت اس کی نظر گھاس کے میدان پر پڑی تو اسے بڑا اچنبھا ہوا۔ ایک چھوٹا سا بیضوی روکٹ گھاس پر کھڑا عجیب سی روشنی میں دمک رہا تھا۔ وہ سائیکل سے اتری اور نرسلوں میں سے گزرتی اس کے قریب پہنچی۔ چاروں طرف سے بغور دیکھا ایک دروازہ اندر دو سیٹیں۔ خلا باز غائب۔ دروازے پر جونہی ہاتھ رکھا وہ آپ سے آپ کھل گیا۔ ڈاکٹر کرین خود اسپیس ریسرچ میں مصروف تھی۔ بڑے شوق سے اس نے روکٹ میں قدم رکھا۔ دروازہ فوراً بند ہوگیا، کوک پٹ میں بیٹھ کر سب کل پرزے دیکھے بھالے کچھ پلّے نہ پڑا۔ متعدد پش بٹن اور سوئچ اور روشن ڈائل جن پر صدیوں کے اعداد تھے سرخ رنگ کی سوئی ۱۹۶۶ء پر ساکت کھڑی تھی۔
اب کیا ہوا کہ ڈاکٹر صاحب باہر نکلنے کے لیے سیٹ پر سے اترنے لگیں۔ ان کی داہنی کہنی ۱۳۱۵ق۔م والے پش بٹن سے ٹکرا گئی۔ سفید روشنی کا ایک کوندہ لپکا۔۔۔ زوں۔۔۔ زوں۔۔۔ پل کی پل میں روکٹ نہ معلوم کہاں سے کہاں۔۔۔ ڈاکٹر کرین کے ہوش اڑ گئے، ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑے، سر گھوم گیا، آنکھیں بند کیں۔ آنکھیں کھولیں چاروں طرف روشن آسمان نیچے نیلا سمندر دریا کا ڈیلٹا۔ دلدل۔ سرکنڈے۔ ریگستان۔ اطمینان کا سانس لیا۔ اجی کہاں کا سائنس فکشن۔ وہی اپنی جانی پہچانی پرانی دھرانی دنیا تھی۔ شکر خدا کا۔ روکٹ زمین پر اتر چکا تھا۔ سرخ سوئی ۱۴۱۵ق۔م پر ٹک گئی دروازہ خود بخود کھلا۔۔۔ پدما میری باہر نکلی۔ سامنے جھیل کے کنارے ایک ننھا گڈریا پتھر پر بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ کھجوروں کے نیچے بکریاں چر رہی تھیں۔ افق پر اہرام۔۔۔ گڈ ہیونز۔۔۔ یہ تو مصر نکلا۔۔۔ گڈ اولڈ ایجپٹ۔
دو برس قبل نیویارک سے بمبئی جاتے ہوئے وہ مصر سے گذری تھی۔ اہرام کی خوب تصویریں کھینچیں۔ یہی چرواہے۔ یہی نخلستان، یہی فلاحین۔
یہ ۱۳۱۵ق۔م کہاں سے آیا۔ صریحاً ۱۹۶۶ء ہے۔ چلو بھئی۔ نہ ٹائم مشین، نہ کچھ۔ تازہ ترین قسم کا روکٹ ہے، جسے کوئی وزٹنگ امریکن یا روسی سائنسدان ہمارے یہاں لایا ہوگا۔۔۔ یہ سوچ کر اسے بڑا اطمینان ہوا۔
اچانک ایک اور پریشانی۔ ممکن ہے یہ جگہ سوئیز کے نزدیک ہو۔ مشتبہ حالات میں پھرتی، پکڑی گئی تو اور مصیبت۔ ہندوستان مصر کا لاکھ دوست سہی مگر نہ پاسپورٹ، نہ ویزا۔ اب فوراً پہنچنا چاہئے انڈین ایمبیسی کائیرو (قاہرہ)۔
اہرام کے آس پاس کے فلاحین اور چرواہے مغربی سیاحوں کی مسلسل آمد و رفت کی وجہ سے تھوڑی بہت انگریزی سمجھ لیتے ہیں۔ لہٰذا پدما میری نے اس گرڑیے سے کہا، ’’کائیرو۔۔۔ بس۔۔۔ ٹیکسی۔۔۔ او ٹوموبیل۔۔۔‘‘ لڑکے نے سر ہلایا۔ دور ایک کسان گدھے پر سوار بگٹٹ چلا جارہا تھا۔ لڑکے نے اسے آواز دی۔ وہ دھول اڑاتا قریب آیا۔ گرڑیے نے اس سے کچھ کہا۔
تب دفعتاً پدما میری پر ایک خوف ناک انکشاف ہوا۔ گڈریا اور کسان جو زبان بول رہے تھے، وہ عربی نہیں تھی (کولمبیا یونیورسٹی کے لبنانی طلباء سے کافی عربی سنی تھی) اور یہ اجنبی بھاشا نہ صرف اس کی سمجھ میں آرہی تھی بلکہ اس نے خود کو اس ادق افریقی زبان میں فرفر باتیں کرتے پایا۔ ’’قاہرہ‘‘ اس نے دریافت کیا، ’’یہاں سے کتنی دور ہے؟‘‘ دونوں مصریوں نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ معاً اس نے کہا، ’’ممفس‘‘
کسان نے ایک سمت کو اشارہ کیا۔ وہ اچک کر گدھے پر سوار ہوگئی۔ بھوک کے مارے برا حال تھا۔ شہر پہنچ کر سب سے پہلے کچھ کھاؤں۔۔۔ مگر فارن ایکس چینج کا کیا ہوگا۔ اور یہ قدیم جاہل جٹ لوگ کہیں میرا روکٹ توڑ پھوڑ کر برابر نہ کردیں۔ پلٹ کر دیکھا۔ اس اثناء میں چار پانچ گڈریے روکٹ کے گرد جمع ہوچکے تھے اور سجدے میں پڑے تھے۔ اسے دیکھ کر باقی بھی غڑاپ سے سر بسجود ہوگئے۔ ان میں سے ایک نے زمین پر پڑے پڑے نعرہ لگایا، ’’مرحبا۔ دیبی حاثور!‘‘ باقیوں نے کورس میں کہا، ’’آسمانی رتھ پر آنے والی مادر ہورس ہم پہ کرم کر۔۔۔‘‘
پدما میری چند لمحے خاموش رہی۔ پھر وقار سے بولی، ’’میرے بچو۔۔۔ میں دیبی حاثور کی داسی ہوں، ایک خفیہ کام سے دیبی نے مجھے زمین پر بھیجا ہے۔۔۔ کسی کو میرے متعلق ہرگز نہ بتانا۔ ورنہ دیبی کا ایسا قہر نازل ہوگا، یاد کرو گے اور میرے آسمانی رتھ کی نگرانی کرتے رہو۔ خبردار جو اسے ہاتھ بھی لگایا۔۔۔‘‘
ممفس بڑا با رونق شاندار شہر تھا۔ جیسا کہ ممفس کو ہونا چاہئے تھا۔ گدھے والا کنیز حاثور کی دہشت میں تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اسے ایک چوک میں اتار کر بھیڑ میں غائب ہوگیا۔ پدما نے چاروں طرف دیکھا۔ یہاں ریستوران نہیں ہوتے ہوں گے؟ اس نے سوچا۔ وہ ایک بڑی دوکان کے سامنے کھڑی تھی۔ اندر الماریوں میں پیپائرس کے گٹھر رکھے تھے ایک جوان خوش شکل، سر و قامت۔۔۔ سنہری لنگی جس پر سیاہ دھاریاں پڑی تھیں، چنی ہوئی ململ کی قبا گلے میں، چوڑا طلائی کنٹھا، زلفوں کے چوکور پٹّے، پیشانی پر بالوں کی جھالر، دوکاندار سے باتیں کر رہا تھا۔ دو حبشی غلام اس کے پیچھے پیپائرس کے بنڈل اٹھائے کھڑے تھے۔
اب یہاں سے سائنس فکشن میں رومانس شروع ہو جانا چاہئے۔ مگر نہیں ہوگا۔ پدما بھوک سے بے حال تھی۔ ریستوران کی تلاش میں ذرا آگے بڑھی تو ایک بند دوکان (جس پر لکھا تھا کرائے کے لیے خالی ہے) کے تھڑے پر ایک باریش بزرگ اکڑوں بیٹھے تسبیح پھیرتے نظر آئے۔ سر پر گول ٹوپی، لمبا چغہ۔ کوچین کے یہودیوں یا سیرین چرچ کے پادریوں یا موپلا مولویوں کی سی وضع قطع۔ ہالی ووڈ کے فلموں والی ’پیریڈ کو سٹیوم ‘ پہنے قدیم مصریوں کے اس انبوہ کثیر میں یک لخت ایک مانوس سی شخصیت۔ اسی وقت ایک لمبا تڑنگا خشمناک مصری چابک اور ایک طویل کاغذ لہراتا بازار کی بھیڑ میں سے نمودار ہوا۔ کاغذ پیر مرد کو تھمایا اور اکڑتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ بزرگ نے نوشتے پر نظر دوڑائی اور دل دوز آواز میں پکارے۔
’’میخائیل بن حنّان۔۔۔‘‘
لمبی پتلی ناک، سیاہ حساس آنکھوں، حسّاس چہرے والا ایک عبا پوش نوجوان برابر کی گلی سے برآمد ہوا، ’’خدائے واحد کی لعنت ہو اس بدبخت زمانے پر۔‘‘
’’اے عزیز! گریہ کر۔ اور سر پر خاک ڈال کہ ترا نام بھی فہرست میں آگیا۔۔۔۔ میخائیل کا رنگ زرد پڑا۔ اور اس نے آہستہ سے کہا، ’’رب ذو الجلال شاید ثوث کے دل میں نیکی ڈال دیوے۔ وہ ربّ ذو الجلال میری روشنی اور میری نجات ہے، جس نے اسرافیل شاہ شنعار اور آریوخ شاہ ایلازار کے عہد میں اہل ایمان کی حفاظت کی۔۔۔‘‘
’’امیر زادہ ثوث۔۔۔؟‘‘ بزرگ نے سرگوشی میں پوچھا۔ ’’یا ربّی! میں اسے دیکھ رہا ہوں۔ وہ کاغذ خریدنے آیا ہے۔ میں اس سے بات کرتا ہوں۔۔۔ وہ میرا کلاس فیلو رہ چکا ہے۔ وہ میری مدد کرے گا۔‘‘
میخائیل جو عہدنامہ قدیم کے اولین صحائف سے بھی پہلے کی عبرانی میں بات کر رہا تھا۔ اس نے یہ لفظ استعمال نہیں کیا تھا۔ لیکن میں قدیم ترین قبطی اور عبرانی دونوں سے ناواقف ہوں۔ (واضح ہوکہ ڈاکٹر کرین اس وقت عبرانی بھی بخوبی سمجھ رہی تھی) میخائیل لپک کر اسٹیشنری مارٹ میں گیا۔ پدما سڑک کے کنارے کھڑی یہ سارا ماجرا دیکھتی تھی۔ خوب رو سنہرے نوجوان نے زرد رو عبرانی سے پوچھا۔۔۔ ’’کہو میخائیل آج کل کہاں رہتے ہو؟‘‘
’’دریائی چنگی پر کام کرتا ہوں۔‘‘
’’بہت خوب۔ بہت خوب۔ کبھی کبھی ملتے رہو‘‘، سنہرے نوجوان نے سرپرستانہ انداز میں اس کا کندھا تھپکایا۔
’’ثوث مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے‘‘، عبرانی لڑکے نے جھجھک کر کہا اور سرگوشی میں کچھ بتایا۔ امیر زادہ ثوث باوقار انداز میں ایک ابرو اٹھا کر بغور سنتا رہا۔ پھر بولا، ’’فکر نہ کرو۔ میں آنریبل منسٹر سے بات کروں گا۔‘‘
دفعتاً ان دونوں نوجوانوں کی نظریں اس اجنبی لڑکی پر پڑیں۔ دونوں ایک ساتھ سیڑھیاں اترے۔ امیر زادہ ثوث نے اپنی کہنی کی جنبش سے میخائیل کو پیچھے ہٹایا۔ ظاہر تھا کہ ثوث اور میخائیل میں آقا و محکوم کا رشتہ ہے۔ اب امیر زادہ ثوث ڈاکٹر کرین کی طرف آرہا تھا۔
پدما نے جلدی جلدی سوچا ان لوگوں سے اگر کہوں کہ انڈین ڈانسر ہوں، فارن ٹور پر نکلی ہوں۔ کیا پتہ لے جاکر بازار میں بیچ ڈالیں۔ ’وہ دیبی حاثور کی داسی‘ والی بات بہتر ہے۔ مگر کسی مندر میں پہنچا کر ناک میں اتنی دھونی دیں گے کہ پانچ دس منٹ میں دم نکل جائے گا۔ اصل واقعہ بتاؤں تو ان کی سمجھ میں نہ آئے گا۔ ان کی کیا خود میری سمجھ میں نہیں آرہا۔
امیر زادہ ثوث اس کے سامنے کھڑا تھا۔ ’’لڑکی تم کون ہو؟‘‘ اس نے ذرا ڈپٹ کر پوچھا۔ ’’اور ہماری باتیں اتنے غور سے کیوں سن رہی ہو؟ کس ملک کی جاسوس ہو؟ ایلام۔۔۔ اسوریہ۔۔۔؟ ار اَر تو۔۔۔؟‘‘
پدما نے ہونقوں کی طرح زور زور سے سر ہلایا اور خوف سے لرز گئی۔ ثوث اس کی نائیلون ساڑی اور امریکن بیگ کو دھیان سے دیکھ رہا تھا۔ پدما نے عجز سے کہا، ’’حضور! شہزادہ سلامت! کنیز بھوک سے بے دم ہے۔ پہلے کچھ کھلا دیجئے۔ بندی سب کچھ سچ سچ عرض کردے گی۔‘‘
’’میرے ساتھ چلو۔۔۔‘‘ امیر زادے نے حکم دیا۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے ہو لی۔ نکڑ پر رتھ اسٹینڈ تھا یا رتھ پارک کہہ لیجئے۔ امیر زادے نے پدما کو اپنی برابر بٹھا کر اسپ کو چابک لگایا۔
وہ بازار سے نکلے اور ہیلیو پولس کے فیشن ایبل محلے میں پہنچے۔ کشادہ سڑک کے دونوں جانب شاندار مکان استادہ تھے۔ کوڑا کرکٹ پڑا تھا۔ بچے کھیل رہے تھے۔ ایک سہ منزل حویلی کے سامنے پہنچ کر رتھ رکا۔ وہ اتر کر بر آمدے میں گئے۔ جس کے قرمزی پیل پایوں کے سرے کنول کی وضع سے تراشے گئے تھے۔ ایک سیاہ فام بھینگے غلام نے سرخ رنگ کا صدر دروازہ کھولا وہ ہال میں داخل ہوئے۔ اس کے جھل جھلاتے سرمئی فرش کے وسط میں سنگ سیاہ کا حوض تھا۔ سنہرے فیتوں میں لپٹے پیپائرس کے رول الماریوں میں رکھے تھے۔ دیواروں پر رنگین فریسکو۔ یک رخی شکلوں کی قطاریں سنہرے کاؤچ اور کرسیاں! لگتا تھا یہ سارا فرنیچر برٹش میوزیم کے ’ایجپشین رومز‘ سے واپس لاکر یہاں سجا دیا گیا ہے۔
ثوث نے کھانا لانے کا حکم دیا اور حوض کے کنارے بچھی چرمی گدّوں والی ایک کرسی پر بیٹھ گیا سینڈل اتارے اور سوالیہ نظروں سے ڈاکٹر میری کرین کو دیکھنے لگا۔ پدما میری نے مقابل کی کرسی پر ٹک گلا صاف کیا، ’’حضور۔۔۔ میں۔۔۔ میں انڈیا سے آرہی ہوں۔۔۔‘‘
’’رقص کرتی ہوں۔۔۔‘‘ اس نے کھڑے ہو کر موہنی آتم کے چند مدرا دکھائے۔ ثوث قطعی متاثر نہ ہوا۔ وہ پھر کرسی پر بیٹھ گئی۔ ’’جس بادبانی جہاز پر۔۔۔‘‘ اس نے بہت سوچ وچار کر کہنا شروع کیا۔۔۔ ’’بادبانی جہاز پر آرہی تھی وہ سوئز کنال میں تباہ ہوگیا۔ میں ایک تختے پر۔۔۔‘‘
’’سوئیز کنال۔۔۔‘‘ ثوث نے بہ دقت یہ نام دہرایا اور مزید تشریح کا متوقع رہا۔ اب وہ بالکل ہڑبڑا گئی۔ ثوث نے جھنجھلا کر پوچھا، ’’اس عبرانی چھوکرے کو جانتی ہو؟‘‘
’’عالی جاہ! ربّہ حاثور اور اس کے بیٹے کی قسم۔۔۔ میں یہاں کسی کو نہیں جانتی حضور!‘‘ لگتا تھا مقدس ماں اور بیٹے کی قسم پر اسے دفعتاً اعتبار آگیا۔ ’’اچھا مجھے حضور، حضور مت کہو اور چلو کھانا کھاؤ‘‘، اس نے کہا اور پدما کو ایوانِ طعام میں لے گیا۔۔۔
کنیزوں نے نقرئی قابیں لا لا کر میز پر چننا شروع کیں۔ پدما نے صبح دس بجے بنگلور میں لیباریٹری کی کینٹین میں ڈاکٹر رام ناتھن اور ڈاکٹر رفیق فتح علی کے ساتھ تبادلۂ خیالات کرتے ہوئے فقط ایک پیالی کافی کی پی تھی۔ اس وقت شام کے ساڑھے چار بج رہے تھے۔ اس نے ثوث کی نظریں بچا کر رسٹ واچ اتاری اور بیگ میں رکھ دی اور کھانے کی طرف متوجہ ہوئی جو خاصا بد ذائقہ تھا۔
سورج دریائے نیل میں ڈوبنے والا تھا اور صحرائی ہوا میں فرحت بخش خنکی آچلی تھی۔ وہ اپنی خلیق میزبان کے ساتھ محل کے طویل دالان میں ٹہل رہی تھی۔ اب تک اسے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوچکی تھیں۔ ثوث کا اصل نام اسطالیس تھا۔ ثوث اس کا سرکاری لقب تھا۔ یہی لقب اس کے باپ کا بھی تھا اور رب ایوانِ کتب ثوث ہر میز کے نام پر رکھا گیا تھا (اس دیوتا کا ہیبتناک بت اندر ہال میں ایک مقدّس بلّی کی ممی کے نزدیک استادہ تھا)
مسٹر ثوث سینئر فرعون کے چیف اسکرائب اور خاندانی رئیس تھے۔ ثوث جونیئر بھی لکھتا و کھتا رہتا تھا۔ رسم الخط چونکہ تصویری تھا لا محالہ مصوری بھی آتی تھی۔ درباری سازشوں سے الگ رہتا تھا اور شہر کے ادیبوں اور مصوّروں کے حلقے میں اٹھتا بیٹھتا تھا۔ اپنے ملک کے بہت سے دقیانوسی عقائد اور رسوم سے نالاں تھا۔۔۔ لیکن یہ بڈھے نئی نسل والوں کی کچھ چلنے نہ دیتے تھے۔ چنانچہ یہ ہے مصر قدیم کے اسرار اور رومان کی اصلیت۔ پدمانے مایوسی سے سوچا۔ لائبریری میں جو کاتب بیٹھے صحیفہ متوفین کی نقلیں کرنے میں مصروف تھے، ان میں سے ایک کو زکام ہورہا تھا۔ دوسرا مسلسل اپنا سر کھجاتا تھا۔ دو نوجوان کاتب برابر ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ انوتی نامی کنیز نہ حسین تھی نہ مہ جبیں۔ چیچک رو اور بھدی سی۔ خود ثوث بالکل نارمل سا لڑکا تھا۔ سوائے اس کے کہ کوٹ پتلون کے بجائے ہالی ووڈ والی پیریڈ کو سیٹوم پہن رکھی تھی۔
فرعون اپنی افواج کے معائنے کے لیے اشوریہ کی سرحد پر گیا ہوا تھا۔ اشوریہ سے کئی سال سے لڑائی جاری تھی۔
’’ہم دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہیں‘‘، ثوث نے ٹہلتے ٹہلتے بڑے جوش سے کہنا شروع کیا، ’’یہ کلدانیہ اور اشوریہ والے بھی اپنے متعلق یہی دعویٰ کرتے ہیں اور ہم سے لڑنے آتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ ہمارا ان کا کیا مقابلہ۔ ہم ان سے ہر لحاظ سے برتر ہیں۔‘‘
پدما زیر لب مسکرائی، ’’مگر ایک بات ضرورہے‘‘ ثوث نے دالان کے کتب خانہ میں واپس آتے ہوئے کہا۔ ’’کلدانی اور اشوری بہت پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ یہ الواح دیکھو، اور ساتھ ہی اس قدر سفّاک۔‘‘ اس نے سفالی الواح کے انبارکی طرف اشارہ کیا۔ ’’جنگ سے پہلے ان کی یہ کتابیں سیکڑوں اونٹوں پر لاد کر ہمارے یہاں لائی جاتی تھیں۔‘‘ اس نے جھک کر باریک خط میخی میں کندہ ایک لوح اٹھائی۔ ’’یہ تو میں برٹش میوزیم۔۔۔‘‘ پدما نے فوراً زبان دانتوں تلے دبائی۔ پھر جلدی سے پوچھا، ’’تم یہاں تنہا رہتے ہو ثوث۔۔۔؟‘‘
’’والد، بادشاہ سلامت کے ہم راہ محاذ کے معائنے کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ امّاں اور بہنیں ملکۂ عالم کے ساتھ موسم گرما کے لیے تھیبز جا چکی ہیں۔ جانا تو مجھے بھی ہے۔ ملکہ عالم نے وہاں جل محل کی دیواریں مصور کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ لیکن میں جب تک صحیفہ متوفین (Book of The Dead دنیا کی قدیم ترین کتاب ہے جو آج سے تقریباً 6ہزار سال قبل مصر میں لکھی گئی تھی اس کا ایک نسخہ حنوط شدہ لاشوں کے ساتھ دفن کیا جاتا تھا) کا نیا اڈیشن پورا نہیں کروا لیتا کہیں نہیں جاسکتا۔‘‘
’’ایک بات بتاؤ ثوث۔ تم لوگ موت سے اس قدر مسحور کیوں ہو۔۔۔؟‘‘ پدما نے دریافت کیا۔ ’’اور کا ہے سے مسحور ہوں؟ فانی زندگی سے؟‘‘ ثوث نے سوال کیا۔ وہ اس کے ساتھ الماریوں کے آگے سے گزر رہی تھی (اب وہ تصویری رسم الخط بھی پڑھ سکتی تھی) اس نے مختلف عنوانات پر نظر ڈالی۔۔۔ مذہب، اخلاقیات، قانون، طب، علم نجوم، خطابت، ریاضی اقلیدس، سفرنامے ناول، اینطیف (اینطیف ۲۶۰۰ ق۔ م) کا لکھا ہوا رومان۔
’’موت کے علاوہ اور دلچسپیاں بھی ہیں‘‘ ثوث نے مسکرا کر کہا۔ ’’کتابیں یہاں سے نقل کروا کے تھیبز کے کالج اور لائبریری میں بھیج دی جاتی ہیں۔‘‘
’’مجھے نہیں معلوم تھا، تم لوگ اتنے پڑھے لکھے تھے۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔ ہو۔۔۔ اقوام تاہ ہو تیپ۔ (تاہ ہو تیپ ۳۵۵۰ ق۔ م میں ممفس میں پیدا ہوا) کیا فرماتا ہے تمہارا تاہ ہو تیپ۔‘‘
’’وہ فرماتا ہے‘‘ ثوث نے ایک ریشمی پارچے کا ٹکڑا الماری میں سے کھینچا اور پڑھنا شروع کیا۔۔۔ ’’انسانوں میں خوف و دہشت نہ پھیلاؤ خدا اس کی سزا دے گا۔ جو شخص کہتا ہے ساری طاقت اور سارا اقتدار میرا ہے اکثر وہی ٹھوکر کھا کر گر بھی پڑتا ہے۔ ہمیشہ بیت ترحم میں سکونت رکھو۔ دینے والا خداہے۔ بندہ یہ نہ سمجھے کہ وہ خود کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ اور خبردار۔۔۔ الفاظ کے ذریعہ کبھی فساد نہ پھیلانا۔۔۔‘‘
وہ پھر ٹہلتی ہوئی صحیفہ متوفین کے کاتبوں کی طرف آئی اور دو زانو بیٹھ کر دیکھنے لگی۔ ایک موٹے کاتب نے ناک سنکتے ہوئے ایک تصویری لفظ کے گرد قرمزی مو قلم سے بیضوی حلقہ کھینچا۔ ’’یہ ایک بادشاہ کا نام ہے۔‘‘ اس نے چھتری کی تصویر بنائی۔ ’’شمالی مصر کا تاج سرخ۔ جنوبی کا سفید۔ اور فرعون سورج دیوتا، رع کا بیٹا ہے‘‘، کاتب نے اسے بتایا۔ سورج کے لیے بطخ کی شکل بنا کر اس کے بیچ میں نقطہ لگا دیا اور پانی پینے کے لیے اٹھا۔
’’صحیفہ متوفین میں بیالیس اخلاقی احکام درج ہیں‘‘ ثوث نے کہا۔ (موسیٰ نے تو یہاں سے جاکر صرف دس احکام ہی دیئے ہیں۔ شکر ہے۔ پدما نے سوچا) ’’اور ہمارے بیس شاہی خاندانوں کے حالات درج ہیں جو پچھلے تین ہزار سال تک مصر میں حکمراں رہے۔‘‘
’’صاحب‘‘ ایک ٹرّا کاتب بولا۔ ’’اب چھٹّی کریے۔ مجھے بہت دور جانا ہے۔ بیوی بیمار ہے۔ کل کے پیسے ملیں گے۔۔۔؟‘‘
’’کتنی بار لوگے۔ پیشگی بھی لے چکے ہو‘‘، ثوث نے بگڑ کر کہا۔ ’’صاحب مجھے بھی کچھ رقم ادھار دے دیجئے۔ میرا لڑکا۔۔۔‘‘ دوسرا ملتجی ہوا۔
آہ مصر قدیم کا رومان۔۔۔ پدما وہاں سے اٹھ کر دالان میں آگئی۔ ثوث کاتبوں سے نپٹ کر باہر آیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک پارچہ تھا۔ ’’تمہاری دلچسپی کے لیے صحیفہ متوفین کی ایک حمد نکال کر لایا ہوں‘‘ اس نے پدما کو چڑانے کے لیے تبسم کے ساتھ کہا۔ اس کا عنوان ہے، ’’ایک مردہ زندہ ہو کر رع کی مناجات کرتا ہے، سنو۔‘‘
اس نے برآمدے کے جنگلے پر ٹک کر پڑھنا شروع کیا، ’’تیرے پُر جلال طلوع پر تیرے کاہن ہنستے ہوئے باہر نکلے۔ تری کشتی سحر سفینۂ شب سے آ ملی اور ان کے ایوان آوازوں سے گونج اٹھے۔ زمانے گذر جائیں گے۔ وقت تیرے نیچے اپنی خاک اڑاتا رہے گا۔ تو کہ دوش و امروز فردا ہے۔ اے رع! لاکھوں برس گزر گئے۔ لاکھوں گزر جائیں گے۔ انوتی کھانا لگاؤ۔‘‘
’’تم کھانا بہت جلد کھا لیتے ہو۔۔۔؟‘‘ پدما نے کہا۔ ’’ہاں ورنہ پھر مچھر اور پتنگے بہت ستاتے ہیں۔‘‘
’’تم آج شام کو کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’انوتی۔۔۔‘‘ ثوث نے دوبارہ پکارا ’’معلوم کر کے آؤ چشم ہورس کے بجے شروع ہوگا؟‘‘
’’شروع ہو چکا۔‘‘ انوتی نے جو کافی منہ چڑھی تھی اندر سے جواب دیا۔ ’’اچھا! ابھی کھانا رہنے دو۔ چلو‘‘، اس نے بے دلی سے پدما کو مخاطب کیا۔ ’’تمہیں باہر گھما لاؤں۔ میں نے یہ تماشا اتنی بار دیکھا ہے کہ عاجز آچکا ہوں۔ چلو۔۔۔‘‘
وہ دالان سے اتر کر نیم تاریک سڑک پر آئے۔ کچھ لوگ تھیٹر ہال کی سمت جا رہے تھے۔ ہیلیو پولس بہت وسیع علاقہ تھا۔ آدھ میل چلنے کے بعد راستے میں ایک مقبرہ پڑا اس سے ملحق معبد میں بڑی خلقت جمع تھی۔ عود و لوبان کے مرغولے باہر نکل رہے تھے۔ ’’یہاں کیا ہو رہا ہے؟‘‘ پدما نے پوچھا۔ ’’کسی آنجہانی فرعون کی روح کو نذرانہ چڑھایا جارہا ہوگا۔ دیکھوگی؟‘‘ وہ پدما کا ہاتھ پکڑ کر معبد کے تنگ صحن میں لے گیا۔ ’’آج کس کی رات ہے؟‘‘ اس نے ایک آدمی سے پوچھا۔ ’’فرعون نفر کا رع‘‘ اس شخص نے جواب دیا۔ اور زیر لب منتر دہرانے میں مصروف ہوگیا۔ ثوث اور پدما دیوار سے لگ کر کھڑے ہوگئے۔ اندر مقبرے کے سنگلاخ تہہ خانے میں نفر کا رع کا کھلا تابوت دیوار کے سہارے کھڑا تھا۔ ململ کی پٹّیوں میں ملفوف ممی بالکل جیتی جاگتی معلوم ہوتی تھی۔
’’موصوف کو مرے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ یہی کوئی ایک ہزار سال ہوئے ہوں گے‘‘ ثوث نے سرگوشی میں پدما کو بتایا۔ کاہن کی لرزہ خیز آواز گونجی۔۔۔ ’’او بادشاہ نفر کا رع! چشم ہورس قبول کر اور اسے اپنے چہرے تک لے جا۔‘‘ پھر اس نے روٹی اور جو کی شراب کا پیالہ سونے کی تھالی میں رکھ کر ممی کے سامنے پیش کیا۔ ’’او نفر کا رع جس کا جاہ و جلال ختم ہوچکا۔ جو کچھ تیری طرف سے آیا ہے اور اس پر نظر کر اور غسل کر۔ چشم ہورس کے وسیلے سے اپنا منہ کھول۔ او بادشاہ نفر کا رع۔۔۔‘‘
پجاریوں کے اژدہام کی وجہ سے دم گھٹا جارہا تھا، ثوث پدما کو باہر نکال لایا۔ ’’اب ناٹک بھی دیکھوگی۔۔۔؟‘‘
’’اس میں بھی یہی چشم ہورس کا وظیفہ ہوگا۔۔۔؟‘‘ پدما نے گھبرا کر پوچھا۔ ’’اتنی دور چل کر آئے ہیں تو دیکھ ہی لیں۔‘‘
ثوث چپ چاپ پھر اس کے ساتھ سڑک پر آگیا۔ بے چارہ مجھے انٹرٹین کرنے کی خاطر کتنا بور ہو رہا ہے۔ مگر اتنی ڈپریسنگ اندھیری شام کس طرح گزاری جائے۔ تھیٹر ہال وہاں سے زیادہ دور نہ تھا۔ پلے (یہ ڈرامہ فرعون سیسووترس اول کے جشن تاج گزاری کے موقع پر پہلی بار اسٹیج کیا گیا تھا۔ فرانسیسی باستان شناسوں کو اس کا مسودہ راس شمریؔ کی کھدائی میں ملا) شروع ہوئے بہت دیر ہوچکی تھی۔
اسٹیج پر ہورس، ثوث، سیت اوسائرس دیوتا لوگ اور چند گوالین قصائی اور بچے موجود تھے۔ ہورس نے بچوں سے کہا، ’’میری دنیا کو میری آنکھ سے معمور کردو۔۔۔‘‘ اسی وقت پردہ گر گیا۔ دوسرا سین شروع ہوا۔ عقیق کی مالا اسٹیج پر لائی گئی۔ ہورس نے سیت سے کہا، ’’میں نے اپنی آنکھ اٹھا لی جو تیرے لیے مثل عقیق ہے۔ میری آنکھ لاؤ جو تیرے لیے عقیق کی طرح سرخ ہوگئی تھی۔ جو تیرے منہ میں جاکر سرخ خون کی طرح سرخ ہوگئی۔‘‘ پدما نے ثوث سے سرگوشی میں پوچھا، ’’کیا ہورہا ہے؟‘‘
’’چمکیلے آسمان کے دیوتا ہورس کو رب طوفان سیت نے اندھا کردیا تھا۔ رب طوفان وہ آنکھ ہورس کو واپس کردیتا ہے۔ یعنی طوفان کے بعد پھر خوش گوار موسم۔۔۔‘‘ پدما نے سوچا۔۔۔ مصر میں رتیلے طوفانوں سے اندھے ہونے کی بیماری اتنی قدیم ہے اور اس کی کیسی اساطیر تیار ہوئیں۔
’’یہ تماشا تو ابھی بہت دیر تک جاری رہے گا۔۔۔ چاند نکل آیا ہے۔ دریا پر چلتی ہو۔۔۔؟‘‘ ثوث نے دریافت کیا۔
’’اگر تم برا نہ مانو ثوث! تو میں اب گھر جا کر سوؤں گی۔۔۔ صبح آٹھ بجے دفتر۔۔۔‘‘ اس نے پھر اپنے آپ کو چیک کیا۔
’’بہت خوب‘‘ ثوث نے کہا۔ وہ گھر واپس پہنچے۔ غلام کھانے کی میز پر ان کے منتظر تھے۔۔۔ ڈنر کے دوران میں پدما نے اپنے میزبان سے پوچھا، ’’ثوث۔۔۔ تم نے مجھے عبرانیوں کی جاسوس کیوں سمجھا تھا؟ کیا یہ لوگ تمہارے لیے ایک مسئلہ ہیں؟‘‘
’’ہاں‘‘ ثوث نے مچھلی سے کانٹا نکالتے ہوئے جواب دیا۔ مشعلوں کی روشنی اس کے شکیل چہرے پر جھلملا رہی تھی۔ ’’مگر ہمارے فرماں روائوں نے اس مسئلے کا بڑا انسانیت کش حل تلاش کیا ہے۔ سارے عبرانی مردوں سے جان لیوا بیگار لی جاتی ہے۔ یہ اہرام جو تم دیکھتی ہو ان میں سے کئی انہوں نے بنائے ہیں۔ بے چارے لاکھوں من پتھر میلوں دور سے ڈھوکر لاتے ہیں اور خون تھوک کر مرجاتے ہیں۔۔۔ بے چارہ میخائیل۔۔۔ اسے دریائی چنگی پر منشی گیری مل گئی تھی اس کا خیال تھا بچ نکلے گا مگر اس کا نام بھی فہرست میں آگیا ہے۔۔۔‘‘
’’تم کچھ نہیں کرسکتے؟‘‘
’’اکیلا میں۔۔۔ ایک پورے نظام کے خلاف کیا کرسکتا ہوں۔۔۔؟‘‘ اس نے افسردگی سے پوچھا۔
کھانے کے بعد ثوث اسے بالائی منزل پر ایک بڑے کمرے میں لے گیا جس کا فرش زرد سوڈانی پتھر کا تھا۔ دریچے کے نزدیک منقش پایوں والی مسہری بچھی تھی۔ وسط میں آنبوس کی گول میز۔ ایک طرف چند منقش چوبی صندوق۔ سنگھار میز کے فولادی آئینے کے سامنے ہاتھی دانت کی مرصع کنگھی ماہی نما نقرئی سرمہ دانی، سرخی و غازے کی جڑاؤ شیشیاں، اور اسی طرح کا دوسرا نسوانی الّم غلّم۔
’’یہ میری چھوٹی بہن کا کمرہ ہے‘‘، ثوث نے کہا۔ ’’تم یہاں آرام سے سو جاؤ صبح جس وقت چاہو اٹھنا۔ انوتی کو آواز دے لینا وہ غلام گردش میں سوئے گی۔ شب بخیر۔‘‘
’’شب بخیر ثوث۔۔۔‘‘ وہ سر جھکائے شہ نشین میں سے گزرتا زینے کی طرف چلا گیا۔ پلنگ پر لیٹ کر وہ بہت دیر تک باہر دیکھتی رہی۔ کھڑکی کے عین نیچے سنگ سرخ کا وسیع تالاب تھا۔ جس میں کنول کھلے تھے۔۔۔ دور صحرا پہ چاندنی چھٹکی ہوئی تھی اور بڑی سہانی ہوا چل رہی تھی۔ اس نے ایک جھپکی لی تھی کہ مچھروں کی بھنبھناہٹ نے چونکا دیا۔ یہ بڑا مچھر اس کی ناک پر بیٹھا تھا۔ وہ جھنجھلا کر اٹھ بیٹھی اور پھر دریچے کے باہر جھانکنے لگی۔ تھوڑی دیر میں بانسری کے سر خاموش فضا میں بلند ہوئے۔ اس نے نیچے جھک کر دیکھا وہ ثوث تھا جو تالاب کی سیڑھیوں پر چاند کے رخ بیٹھا بانسری بجاتا تھا۔ کہیں یہ بے چارہ عشق میں تو مبتلا نہیں ہوگیا۔ یقیناً ہوگیا۔ آدھی رات کو بیٹھے بے وقوفوں کی طرح بانسری بجا رہے ہیں۔ اب بھاگو یہاں سے صبح منہ اندھیرے۔ ہیلیو پولس سے شہر پناہ تک کا راستہ یاد ہے وہاں سے خرمے کے جھنڈ تک پہنچنے میں آدھا گھنٹہ لگے گا۔ روکٹ میں سات بجے تک گھر۔ یہ حساب لگا کر وہ دوبارہ لیٹ گئی۔ کچھ دیر ثوث کی بانسری سنا کی۔ پھر اسے گہری نیند آگئی۔
ایک گمبھیر آواز نے اسے صبح پانچ بجے ہی جگا دیا۔ اس نے تکیے سے سر اٹھا کر باہر جھانکا۔ تالاب کے کنارے ایک بہت لمبا قوی ہیکل معمر آدمی جو حلیے سے ثوث کا خاندانی کاہن معلوم ہوتا تھا۔ ایک کنول نما ستون پر کھڑا بازو ہلا ہلا کر پانچ سروں میں رع کی حمد خوانی کر رہا تھا۔
’’مرحبا آتون۔۔۔ مرحبا۔۔۔ خرپر۔۔۔ لبیک چشم ہورس۔۔۔ اتوم۔۔۔ رب الشمس۔۔۔ خالق اکبر تاہ۔۔۔ سارے جانداروں کے دلوں میں موجود تاہ۔۔۔ جو سوچتا ہے سو ہوتا ہے اپنے کلمے (شروع میں کلمہ تھا اور کلمہ خدا کے ساتھ تھا اور کلمہ خدا تھا۔ یوحنا کی انجیل کا ابتدائی جملہ ہے۔ عہد نامہ جدید مسیحی قرون اولیٰ میں لکھا گیا ہے۔ تاہ کی یہ حمد ۲۴۰۰ ق م کی تصنیف ہے) سے اس نے کائنات تخلیق کی۔۔۔ تاہ تانین۔۔۔ بجرے پر سوار خپری۔۔۔ اتوم۔۔۔ خالق جن و بشر۔ ان داتا۔۔۔ جس نے اقوام عالم کی تفریق ان کی رنگت سے کی۔ جس کی محبت میں نیل رواں۔۔۔ رحیم و کریم، خدائے واحد۔۔۔ دریا کی مچھلی اور آسمان کے پرندے کو زندہ رکھنے والے۔۔۔ کیڑوں اور بھنگوں کے پالن ہار۔۔۔ آمون۔۔۔ آتون ہراختے۔ میرے اوپر جگمگا تارہ۔۔۔ تیرے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں۔‘‘
رع کی روشنی افق پر پھیلنے لگی۔ ثوث کا پروہت لمبے لمبے ڈگ بھرتا مندر کی سمت چلا گیا۔ جس کی پر شکوہ عمارت فجر کے دھندلکے میں دور سے نظر آرہی تھی۔ پدما نے تکیے کے نیچے سے بیگ نکالا۔ کل سے اس نے چائے کافی کچھ نہ پی تھی اور سر میں درد ہورہا تھا۔ صبح کو یہ لوگ جانے بریک فاسٹ کیا کرتے ہوں گے۔ تعجب کی بات ہے۔ چائے کی دریافت سے پہلے لوگ کس طرح زندہ رہتے تھے۔ اب یہی دیکھ لو ثوث کس مزے سے جی رہا ہے۔ چائے کافی سگریٹ، سنیما، ٹیلی ویژن، ٹیلیفون، ہوائی جہاز، کمپیوٹر، ایڈورٹائزنگ، پبلک ریلشنز، جرنلزم بے چارہ کچھ بھی نہیں جانتا۔۔۔ پھچ۔۔۔ اس نے پھر نیچے جھانکا۔۔۔ میاں ثوث تالاب میں غوطہ لگا رہے تھے اور نیلگوں پانی کا عکس محل کی زمردیں دیواروں پر جل پریوں کے مانند رقصاں تھا۔ پیرتے، پیرتے ثوث نے سر اٹھا کر اوپر جھروکے پر نظر ڈالی اور مسکرایا۔ پھر سیڑھیوں پر جاکر ایک سرخ کنول توڑنے میں مصروف ہوگیا۔
بھاگو۔۔۔ بھاگو۔۔۔ سرپٹ۔۔۔ پدما ہڑبڑا کر اٹھی۔ چپل پہنے، خوابگاہ کا دروازہ کھولا اور باہر نکلی۔ حویلی ابھی خاموش پڑی تھی۔ سارے لونڈی، غلام برآمدوں میں فرش پر لمبی تانے سو رہے تھے۔ وہ دبے پاؤں زینہ اتر کر صحن میں آئی۔ مقدس بیل آئی پینر کے مہیب بت کے نیچے سے گزرتی پکی سڑک پر پہنچی۔ اور بھاگنا شروع کیا۔ مکانوں کے دروازے ابھی بند تھے۔ اکّا دکّا کنجڑا یا ماہی فروش بہنگیاں اور ٹوکریاں اٹھائے کہرے میں سے گزرتا نظر آجاتا تھا۔ ہانپتے کانپتے اس نے در شہر پناہ پر پہنچ کر ہی دم لیا۔ مگر پھاٹک مقفل پڑا تھا۔ چند پہرے دار اوپر فصیل پر ٹہل رہے تھے۔ چار پانچ سنتری پھاٹک کے سامنے کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک للکارا۔۔۔‘‘ اوچھو کری! کدھر منہ اٹھائے چلی جاتی ہے۔۔۔‘‘
’’دریا پر۔۔۔‘‘ اس نے ہکلا کر جواب دیا۔۔۔ ’’مچھلی پکڑنے۔۔۔‘‘
’’مچھلی کی بچی۔۔۔ آج جہاں پناہ واپس آرہے ہیں۔ ان کے آنے سے پہلے پھاٹک نہیں کھلے گا۔۔۔‘‘
’’کس وقت آئیں گے؟‘‘
’’کیامعلوم کس وقت آئیں گے۔ تو پوچھنے والی کون۔۔۔؟‘‘
وہ نڈھال ہو کر ایک پتھر پر بیٹھ گئی۔ کافی کی طلب میں درد سر بڑھتا جارہا تھا۔ رتھ میں آرہا ہوگا، جُوں کی چال۔ کمبخت فرعون کا بچہ۔ خدا اسے غارت کرے۔ نہ جانے کب تک پہنچے گا۔ اور اب تک اس حرّافہ اتونی نے جا کر ثوث سے جڑ دی ہوگی کہ ہندوستانی رقاصہ غائب ہوگئی۔ وہ بے چارہ کیا سوچے گا۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ کیا پتہ اب اسے یقین ہو جائے کہ میں اشوری جاسوسہ ہوں پکڑوا دے پھر بھیانک قید خانہ۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔ او مدر آف گوڈ۔۔۔ ہولی میری مدرآف گوڈ۔۔۔ برسوں بعد بے اختیار اس نے ساری دعائیں زور زور سے دہرانی شروع کردیں۔ پھر اس پر منکشف ہوا کہ وہ قبطی میں ’مادر خداوند۔۔۔ مادرِ خداوند‘ رٹے جارہی ہے۔
ایک بانکا پہرے دار ڈھال تلوار جھنجھناتا اس کے نزدیک آیا اور پوچھا۔ ’’او چھوکری! کیا تو ربہ آئی سس کے مندر کی دیو داسی ہے۔۔۔؟‘‘ پدما نے بے بسی سے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’کیا کہتے ہو بھائی خوفو۔۔۔؟‘‘ دوسرا سنتری اسے بغور دیکھ کر بولا، ’’یہ تو وہی ہے دوشیزہ فلک۔۔۔ کل رات ایک گڈریا مجھے بتا رہا تھا۔۔۔‘‘ دونوں سنتری فوراً اس کے سامنے سجدے میں گر گئے۔
عین اس وقت پھاٹک کی بھاری زنجیریں کھڑ کھڑائیں۔ نفیری، نقارے اور طبل جنگ کی فلک شکاف صدائیں بلند ہوئیں۔ مسلح پیادے اور تیر انداز مارچ کرتے، گھوڑے ہنہناتے، اراکین سلطنت کی سواری کے پیچھے داخل ہوئے۔ بے انتہا اونچا طلائی تاج اور لباس فاخرہ پہنے فرعون شمال و جنوب اپنے طلائی رتھ میں اکڑا بیٹھا تھا۔ شکل سے کافی بے وقوف معلوم ہوتا تھا۔ اس بھیڑ بھاڑ کے غل غپاڑے میں پدما نے نکل کر بھاگنا چاہا۔ ایک سپاہی نے نیزے سے اس کا راستہ روک لیا۔ ’’ربّہ حاثور کی پیغامبر۔۔۔ دو شیزۂ افلاک۔۔۔ لبّیک۔۔۔ چشم ہورس۔۔۔ بڑا زبردست شور مچا۔ ہجوم نے اسے بری طرح گھیر لیا۔ اس کا دم لوٹنے لگا۔ اور اسے غش آگیا۔
جب ڈاکٹر پدما میری ابراہام کرین کو ہوش آیا دن ڈھل رہا تھا۔ وہ قصر عین الشمس کے عبادت خانہ میں ایک جواہر نگار مسند پر نیم داز تھی۔ طرح طرح کی خوشبوئیں سلگائی جارہی تھیں۔ کاہنوں کی جماعت، آمون رع۔۔۔ تاہ (قدیم مصری تثلیث۔ تاہ کے ۸ اوتار تصور کیے جاتے تھے) کے ورد میں مصروف تھی۔ تاہ تہیب۔۔۔ آنیتر۔۔۔ کا گیمنی۔۔۔ کسی کو کیا معلوم کیا، ہونے والا ہے۔ یا خدا کس وقت اپنا فیصلہ صادر کرے گا۔۔۔ سراپس۔۔۔ سراپس۔۔۔ ایدفو۔۔۔ میں۔۔۔ تاہ۔۔۔ تاہ۔۔۔
ڈاکٹر کرین کا سر چکرا گیا۔ وہ پھر مسند پر ڈھیر ہوگئی۔ سامنے ضعیف العمر فرعون ایک طلائی کرسی پر بیٹھا دانت نکو سے بڑی دلچسپی سے اسے گھور رہا تھا۔ ایک نرم مزاج شاندار سا شخص جو ثوث کا والد معلوم ہوتا تھا۔ بستہ سنبھالے بادشاہ کے نزدیک اسٹول پر بیٹھا تھا۔ دیو قامت چیف پروہت اور زرّیں کمر دیو داسیوں نے بے چاری پدما کو گاؤ تکیے کے سہارے بٹھایا۔ اس نے نحیف آواز میں کہا۔ تھینک یو۔۔۔ بلیک کافی۔۔۔ پلیز۔۔۔ نو شوگر۔۔۔‘‘
’’دو شیزۂ فلک کیا کہہ رہی ہے؟‘‘ فرعون نے مرعوب آواز میں بڑے کاہن سے دریافت کیا۔ اس نے سر ہلایا۔ ’’جہاں پناہ! یہ الوہی زبان میری سمجھ میں بھی نہیں آتی۔‘‘
فرعون مصر ہاتھ باندھ کر ادب سے ڈاکٹر کرین کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ اور یوں گویا ہوا۔۔۔ ’’زہرہ جبیں دختر افلاک! یہ مصر کی عین خوش نصیبی ہے کہ اشوریہ سے جنگ کے دنوں میں مادرِ خدا وند (دیبی حاثور ہورس دیوتا کی ماں مورتیوں میں شیر خوار ہورس کو دودھ پلاتی دکھائی جاتی تھی۔ مسیحیت سب سے پہلے مصر، شام میں پھیلی اور قبیلیوں نے عیسائی ہونے کے بعد ’الوہی ماں اور بیٹے‘ کے تصور کو مریم عیسی کی پرستش میں منتقل کردیا۔ کیتھولک کلیسا حضرت مریم کو مادر خدا وند کہتا ہے۔) نے تم کو یہاں بھیجا اور فتح کی بشارت دی۔ ما بدولت چونکہ خود رع دیوتا کے فرزند ارجمند ہیں، ہمارا فرض ہے کہ بطور مہمان نوازی و سپاس گزاری کل شام کے پانچ بجے تم سے شادی کر لیں۔۔۔‘‘
پدما نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا۔ یہ پیر فرتوت۔۔۔ اس کی ممی میں نے برٹش میوزیم میں دیکھی ہے۔۔۔ میں اس سے شادی کروں گی۔۔۔ کل۔۔۔ اسے دوبارہ چکر آگیا۔۔۔ آنکھیں بند کر لیں۔ اب پانی سر سے اونچا ہوچکا تھا۔
’’دو شیزۂ فلک مراقبے میں چلی گئی‘‘، چیف کاہن نے آہستہ سے کہا۔ کمرے میں بڑی مؤدبانہ خاموشی طاری تھی۔ اس وقت پدما کے ذہن میں ایک خیال کوندا۔ ایک موہوم سی امید۔۔۔ چند لمحوں بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور کمزور آواز میں کہا، ’’تخلیہ۔۔۔ تخلیہ۔۔۔ میں دیبی سے رابطہ قائم کرنا چاہتی ہوں۔۔۔‘‘ فرعون، ثوث کا باپ، چیف کاہن اور دوسرے حوالی موالی سب فوراً اٹھ کھڑے ہوئے۔
پدما نے دوسری آکاش بانی سنائی، ’’فرزند رع سے شادی سے قبل مکمل تنہائی سب دروازے کھلے رکھو۔۔۔ پہرے دار ہٹادو۔۔۔‘‘
’’جو حکم بنت تاہ۔۔۔‘‘ بڑے کاہن نے سر جھکا کر عرض کی۔ ’’کوئی ارضی مخلوق، مرد، عورت، چرند پرند مجھے اپنی صورت۔۔۔ نہ دکھلائے۔‘‘ وہ سب مع فرعون مصر فی الفور غائب ہوگئے۔
پدما نے صبح سے کچھ نہ کھایا تھا۔ نذرانے میں جتنے پھل اور مٹھائیاں اسے چڑھائی گئی تھیں چن چن کر پہلے تو وہ صاف کیں۔ منتر پھونکا، شربت غٹ غٹ پی ڈالا۔ تب ذرا حواس بجا ہوئے۔ پھر دریچے سے باہر نظر ڈالی۔ شام ہوچکی تھی۔ ہر سو مشعلیں روشن تھیں۔۔۔ مغنیوں اور سازندوں کا طائفہ بارہ دری کی طرف جاتا نظر آیا جہاں ضیافت کا انتظام کیا جارہا تھا۔ بڑی گھما گھمی تھی۔ رفتہ رفتہ خاموشی چھائی۔ سارا شاہی خاندان، درباری اور خدام رنگ محل کی سمت چلے گئے۔ کچھ دیر بعد دریچے کے نیچے دو عبرانی غلام چپکے چپکے باتیں کرتے گزرے۔ ’’نئی شادی کی خوشی میں جشن منا رہا ہے۔ کل ہوگی۔ بڈھا بالکل بولا گیا ہے۔‘‘ پدما کھڑکی میں سے ہٹ گئی۔
آدھے گھنٹے بعد وہ عبادت خانہ سے پنجوں کے بل باہر نکلی۔ سنسان برآمدے کے سرے پر ایک دراز ریش عباپوش عبرانی حلقہ بگوش ہاتھ میں مشعل لیے چپ چاپ کھڑا تھا۔ مارے خوشی کے پدما کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اس نے اشارے سے عبرانی کو اپنی طرف بلایا۔ وہ پیر مرد مشعل دیوار کے بریکٹ میں اٹکا کر اس کے قریب آیا۔ پدما نے اس کے کان میں کہا۔۔۔ ’’چا میں ربہّ حاثور کی آسمانی خواص نہیں ہوں۔‘‘ بوڑھے نے اسے دھیان سے دیکھا۔ وہ بہت محتاط بزرگ تھا۔ خاموش رہا۔ پدما نے کہا، ’’میرا نام مریم بنت ابراہیم ہے۔ خدائے ابراہیم و اسحق کی قسم میرا نام۔۔۔‘‘
گرفتار بلا عبرانی ایک دوسرے کو فوراً پہچان لیتے تھے۔ شکلاً یہ لڑکی بنی اسرائیل میں سے نہیں لگتی تھی مگر خدائے ابراہیم کی قسم کھا چکی تھی۔ بوڑھا متفکر ہوا۔ لڑکی نے دوبارہ کہا، ’’بابا۔۔۔ ربیّ۔۔۔ کیا آپ کا خیال ہے کہ میں دیبی حاثور کی۔۔۔‘‘
’’لاحول ولاقوۃ‘‘، مرد ضعیف نے دفعتاً جوش سے کہا۔ ’’میں مریم بنت ابراہیم ہوں۔‘‘
’’جزاک اللہ۔۔۔‘‘
’’مجھے کسی طرح عبرانیوں کے محلے تک پہنچا دیجئے۔ میخائیل بن حنان کے گھر تک۔‘‘
’’میخائیل بن حنان بہت عام نام ہے اور کچھ اتہ پتہ بتاؤ۔۔۔‘‘ وہ دریائی بندرگاہ کی چنگی میں ملازم ہے۔ اور۔۔۔ اگر امیر زادہ ثوث۔۔۔‘‘
’’امیر زادہ ثوث اس وقت ایوانِ ضیافت میں فرعون ملعون کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے۔ تم کو اس بت پرست نوجوان سے کیا غرض ہے۔ مریم بنت ابراہیم۔۔۔؟‘‘
’’کچھ نہیں۔۔۔‘‘ پدما میری ابراہام کرین نے جلدی سے کہا۔ ’’میرے ساتھ آؤ۔‘‘ اس نے اپنی عبا اتار کر پدما کو اڑھائی۔ مشعل بجھائی۔ اور اسے چور راستے سے باہر نکال لے گیا۔ تاریک گلیوں میں سے گزرتے وہ ایک خراب و خستہ محلے میں پہنچے۔ ایک شکستہ دروازے پر جاکر بوڑھا آہستہ سے پکارا، ’’شالوم علیخم یا یعقوب بن شمعون۔۔۔‘‘
’’شالوم۔ کون ہے بھائی؟‘‘
’’حزقیل بن ذکریا۔‘‘
’’آجاؤ۔۔۔‘‘ وہ دونوں اندر گئے۔ وہ جمعے کی رات تھی۔ ایک عمر رسیدہ عبرانی اس کی بیوی اور بچے زیتون کے تیل سے روشن منورہ کے سامنے بیٹھے راگ عدتون میں دھیرے دھیرے ایک مناجات گارہے تھے۔ پدما میری نے عبا اتاری اور کھجور کی چٹائی پر بیٹھ گئی۔ پچھلے کمرے سے میخائیل بن حنان نکل کر آیا۔ جزقیل بن زکریا نے اس کے کان میں کچھ کہا اور خاموشی سے باہر چلا گیا۔
۱۳۱۵ ق۔م کی اس شب جمعہ (مہینہ اور تاریخ مجھے معلوم نہیں) میری کرین نے ان دکھیاروں کی داستان سنی اور اپنی انہیں سنائی۔ یہ لوگ اس کے ماضی بعید میں موجود تھے۔ اور وہ ان لوگوں کے مستقبل بعید سے آئی تھی۔ لیکن یہ غیر معمولی طور پر ذہین وفہیم انسان جو کچھ اس نے بتایا بآسانی سمجھ گئے۔ خصوصاً نوجوان میخائیل بن حنان جو کرید کرید کر اس سے سوالات کررہا تھا۔
یعقوب بن شمعون نے آہستہ آہستہ کہنا شروع کیا، ’’ہمارا مورث اعلیٰ ایک ارمی تھا۔ ابراہیم پیغمبر۔ وہ عبرالنہر کے اس پار کلدانیہ کے شہر اُر میں رہتا تھا۔ وہ اپنے خاندان کو لے کر وادئی فرات سے نکلا اور قحط کے دنوں میں چراگاہیں تلاش کرتا پھرا۔ کنعان، مصر۔۔۔ پھر کنعان اور یعقوب بن اسحق بن ابراہیم کے بارہ لڑکے ہوئے۔ اور یوسف بن یعقوب کو اس کے سوتیلے بھائیوں نے۔۔۔‘‘
’’مجھے سارا واقعہ معلوم ہے‘‘، پدما نے بے صبری سے کہا۔ رات تیزی سے گزر رہی تھی۔ اگر میخائیل جلد از جلد کسی طرح دریائی راستے سے روکٹ تک پہنچا دے۔ ’’یوسف کو‘‘ پیر مرد کہتا رہا۔ ’’اسی ممفس کے بازار میں بیچا گیا۔ مگر خدا یوسف کے ساتھ تھا اور۔۔۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے‘‘، پدما نے کہا۔ ’’جوزف۔ میرا مطلب ہے کہ یوسف نبی کو منسٹر آف فوڈ اینڈ ایگریکلچر بنا دیا گیا تھا۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔ اور انہوں نے اپنے قبیلے کو کنعان سے بلا بھیجا۔‘‘
’’اور بنی اسرائیل مصر میں خوب پھولے پھلے۔ اور ملک ان سے بھر گیا اور ایک نئے بادشاہ نے کہا۔ بنی اسرائیل ہم سے زیادہ طاقتور ہوگئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بنی اسرائیل پر نگراں مقرر کیے جو ان سے کڑی محنت کرواتے اور انہوں نے فرعون کے لیے تھوم اور رعمسیس کے شہر تعمیر کیے‘‘، یعقوب بن شمعون نے کہا۔
’’اور بادشاہ مصر نے دو عبرانی دایاؤں سے جن کے نام شفیرہ اور پواہ تھے، کہا، ’’جب عبرانیوں کے یہاں لڑکے پیدا ہوں انہیں مار ڈالو۔۔۔‘‘ میری کرین نے بے اختیار انجیل مقدس کی اگلی عبارت دہرائی۔۔۔ اس کے میز بانوں نے چونک کر اسے دیکھا۔۔۔ ’’تم کیا کہہ رہی ہو۔۔۔ یہ کب ہوا۔۔۔؟‘‘
تب پدما میری نے سوچا۔ انہیں بتا دینا چاہئے کہ ان کی نجات کا زمانہ دور نہیں۔ اس نے دریچے میں جاکر دیکھا۔ دور قصر عین الشمس میں روشنیاں جھلملا رہی تھیں اس نے کہا۔۔۔ ’’پھر بادشاہ رعمسیس دویم نے۔۔۔ عبرانیوں کو حکم دیا، اپنے سارے نوزائیدہ لڑکوں کو دریا میں ڈبو دیں۔۔۔‘‘
’’کیا ابھی ہم پر اور بلائیں نازل ہونے والی ہیں۔۔۔؟‘‘ زوجہ یعقوب نے دہل کر پوچھا۔
’’ہاں! لیکن ایک بچہ موشے بچ جائے گا اور وہ رعمسیس دویم کے محل میں پلے گا۔ اور وہ تم کو مصر سے نکال لے جائے گا۔۔۔‘‘ عبرانیوں نے مبہوت ہو کر اسے دیکھا۔۔۔ ’’لڑکی کیا تم کاہنہ ہو۔۔۔؟ غیب کا علم جانتی ہو۔۔۔؟‘‘
’’یہی سمجھ لو اور سنتے جاؤ۔ یہاں سے نکل کر تم بنی اسرائیل کنعان میں سلطنت قائم کرو گے۔ پھر اشوریہ کے بادشاہ تم کو قید کر کے بابل لے جائیں گے۔ تم تورات کے صحائف لکھو گے۔ ایران کا شاہ سائرس تمہیں آزاد کر کے فلسطین بھیج دے گا۔ تمہارے ہاں داؤد بادشاہ کی نسل میں یسوع پیدا ہوگا۔‘‘ پدما نے غیر ارادی طور پر صلیب کا نشان بنایا۔ متحیر عبرانی اسے تکتے رہے۔ اس نے کہا، ’’رومن تمہیں جلا وطن کریں گے۔ تم ساری دنیا میں مارے مارے پھرو گے۔ پھر۔ آج کی رات سے پورے سوا تین ہزار سال اور ولادت مسیح سے انیس سو اڑتالیس برس بعد تم اسی کنعان میں نئی حکومت قائم کرو گے۔ اور جس طرح تم کو دوسری قوموں نے جلا وطن کیا تھا۔ تم عربوں کو ان کے وطن سے نکال دو گے۔‘‘
’’عرب کون۔۔۔؟‘‘ میخائیل نے دریافت کیا۔ پدما نے اکتا کر اپنے دور کی عالمی سیاست سے اسے مختصراً آگاہ کیا۔ میخائیل نے جو بڑے دھیان سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ اس سے پوچھا۔ ’’تمہارے سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ تم روشنی کی رفتار سے تیز تر پرواز کر کے ارضی وقت کی حدود سے باہر ماضی میں پہنچ گئیں۔ اس کے آگے کیا ہوگا۔۔۔؟‘‘
پدما نے گھڑی دیکھی، ’’مجھے کچھ معلوم نہیں میخائیل۔ لیکن مجھے جلدی سے شہر پناہ کے باہر پہنچا دو۔۔۔‘‘ رات گزر چکی تھی۔ اور دریائے نیل پر اجالا پھیل رہا تھا۔ ’’ہمیں بھی اپنے ساتھ اپنے وقت میں لے چلو۔‘‘ عبرانیوں نے اس سے التجا کی۔
’’نہیں‘‘ پدما نے دل کڑا کر کے جواب دیا۔ یہ ممکن نہیں۔ ہم اپنے اپنے وقت سے آگے یا پیچھے نہیں جاسکتے۔ اپنے اپنے دور کی آزمائشیں سہنا ہمارا مقدر ہے۔ ہم تاریخ کو آگے یا پیچھے نہیں سرکا سکتے۔ کاش۔۔۔ وہ سب ہوتا جو نا ہونا چاہئے تھا۔ میں اسرائیل کی نبیہ دبورہ کی طرح تم کو یہ سب بتا رہی ہوں۔ دبورہ چند صدیوں بعد تمہارے ہاں پیدا ہوگی۔ مگر جس زمانے سے میں آئی ہوں، وہ انبیاء کے بجائے سائنسدانوں کا دور ہے۔‘‘ عبرانی کنبہ آنسو بہا رہا تھا۔ صرف میخائیل چہرہ سخت کیے دیوار سے لگا کھڑا رہا۔ پدما نے تاسف سے اسے دیکھا۔
دروازے کی کنڈی کھڑکی۔ وہ سب دم بخود رہ گئے۔ یعقوب کی بیوی نے پدما کو ایک کمبل میں چھپا دیا۔ میخائیل نے کواڑ کھولا۔ دہلیز پر امیر زادہ ثوث کھڑا تھا۔
ثوث نے عبرانیوں سے کہا، ’’چراغ بجھا دو۔۔۔‘‘ اور میری سے مخاطب ہوا۔ ’’میں شاہی دعوت میں شریک تھا۔ جب میرے ایک خادم نے آکر میرے کان میں چپکے سے کہا کہ آسمانی دوشیزہ غائب ہوگئی۔ ایک پہرے دار نے اسے عبرانیوں کے محلے کی طرف دیکھا ہے۔ میں نے خادم کو حکم دیا کہ اپنی زبان بند رکھے اور سیدھا یہاں آرہا ہوں۔ تم نے مجھے کل صبح کو نہ بتایا چپکے سے بھاگ گئیں۔ فرعون سمیت سارا دربار اور فوجی افسر نشے میں دھت پڑے ہیں۔ مگر تمہیں ڈھونڈ نکالنے میں انہیں دیر نہ لگے گی اور اگر ان کو شبہ ہوگیا کہ تم اشوری جاسوس ہو۔ پتھر سے باندھ کر نیل میں ڈبو دیں گے۔ اپنے متعلق سچ سچ بتادو شاید میں تمہیں بچا سکوں۔‘‘
پدما اور عبرانیوں نے بے بسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ عبرانی ذہنی ارتقاء کی اونچی سطح پر پہنچ چکے تھے اور پدما کے متعلق سمجھ گئے تھے۔ لیکن بے چارہ ثوث۔۔۔ اتون اور رع اور حاثور کا پجاری۔ صحیفہ متوفین کا کاتب۔ موت کا پرستار۔۔۔ بعید ترین مستقبل کے متعلق اس کی عقل میں کیا آئے گا۔ پدما نے میخائیل کو دیکھا۔ میخائیل نے آہستہ سے کہا، ’’بتادو حد سے حد یہ تم کو ایک کاہنہ یا ساحرہ تصور کرے گا۔ ورنہ شاید یہ بھی تم کو فرعون کے حوالے کردے۔‘‘
پدما نے چند الفاظ میں ثوث کو بتایا۔ بڑی حیرت کی بات تھی۔ ثوث سمجھ گیا۔ دو تین منٹ خاموش رہا۔ پھر بولا۔ چلو۔ میں تم کو تمہاری ٹائم مشین تک پہنچائے دیتا ہوں۔‘‘
جس وقت وہ عبرانیوں کو خدا حافظ کہہ کر مکان سے نکلی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔ وہ ان بے چاروں کو جن کی نسل میں موسیٰ اور عیسیٰ اورکارل مارکس اور سگمنڈ فرائیڈ، اور آئین اسٹائین پیدا ہونے والے تھے، ۱۳۱۵ ق۔م کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بے یارو مددگار کھڑا چھوڑ کر ثوث کے اسپ تازی پر سوار ہوگئی۔ شاید اسی وجہ سے انسان کو یہ صلاحیت نہیں دی گئی ہے کہ وہ آگے یا پیچھے دیکھ سکے۔ ورنہ رو رو کر مرجائے، پدما نے سوچا۔
جس وقت وہ دونوں نخلستان میں پہنچے سورج نکل آیا تھا۔ روکٹ کھجور کے سامنے کھڑا دمک رہا تھا۔ پدما کی جان میں جان آئی۔ لیکن عین اسی وقت فصیل شہر کی طرف سے گرد و غبار کے بادل اٹھے۔ فرعون کے شہسوار نیزے چمکاتے اس کے تعاقب میں اڑے چلے آرہے تھے۔ پدما لپک کر روکٹ کی سیڑھیاں چڑھ گئی اور دروازہ کھولا۔ ثوث نیچے کھڑا رہ گیا۔ وہ گھبرا کر چلّا رہا تھا، ’’مجھے ساتھ لے چلو۔۔۔ وہ مجھے مار ڈالیں گے۔۔۔ تمہیں فرار ہونے میں میں نے مدد کی ہے۔۔۔ وہ مجھے قتل کردیں گے۔‘‘ پدما نے بوکھلا کر اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اندر کھینچ لیا۔ دروازہ بند ہوگا۔ پدما نے ۱۹۶۶ء کا بٹن دبایا۔
روکٹ ڈاکٹر کرین کے بنگلے کے لان پر اترا۔ وہ دونوں باہرنکلے، صبح کے سات بجے تھے ابھی چاروں طرف سناٹا تھا۔ پدما نے جلدی سے روکٹ کو خالی موٹر خانے میں مقفل کیا۔ گم صم ثوث سبزے پر کھڑا حیرت سے گردو پیش کو تک رہا تھا۔ دھاری دار اطلسی لنگی، چوڑا اطلائی کنٹھا، بالوں کے چوکور پٹے۔ عجب مسخرا لگ رہا تھا۔ پدما کا دل ڈوب گیا۔ یہ بے چارہ یہاں کیا کرے گا۔ وہ اسے ساتھ لے کر بنگلے میں گئی۔ خوش قسمتی سے دونوں بھائی ایسٹر کی تعطیل میں کوچین گئے ہوئے تھے۔ ملازم صبح دس بجے آتا تھا۔ وہ ثوث کو بھائیوں کے کمرے میں لے گئی۔ ان کا وارڈ روب کھول کر اس کے ناپ کے کپڑے تلاش کئے۔
’’لباس تبدیل کرو۔ میں ناشتہ تیار کرتی ہوں‘‘، اس نے کہا اور ڈائننگ روم میں جاکر فرج میں سے مکھن انڈے نکالے۔ ٹوسٹر کا پلک لگایا، پرکو لٹیر اٹھایا۔ صبح کا ٹائمز آف انڈیا دہلیز میں پڑا تھا اس کی سرخیوں پر نظر ڈالی اور برقی اسٹوو جلا کر انڈے ابالنے میں مشغول ہوگئی۔
’’ہائے گڈ مارننگ‘‘ اس نے چونک کر سر اٹھایا۔ دروازے میں ثوث کھڑا تھا۔ ڈریسنگ گاؤن میں ملبوس، انگلیوں میں سلگتا سگریٹ۔ امریکن لہجے میں ’’بریک فاسٹ ریڈی؟‘‘ پوچھتا کرسی پر بیٹھا اور ٹائمز آف انڈیا کے مطالعے میں منہمک ہوگیا۔
واضح ہو کہ جس طرح ۱۳۱۵ق۔م میں پہنچتے ہی ڈاکٹر پدما کرین قدیم ترین قبطی اور عبرانی سمجھنے پڑھنے اور بولنے لگی تھی، امیر زادہ ثوث ۱۹۶۶ء میں داخل ہو کر انگریزی، ملیالم اور ہندوستانی سے فی الفور واقف ہوچکا تھا۔
آگے کا قصہ کوتاہ کرتی ہوں۔ پدما نے اپنے حلقے میں ثوث کو ایک ’مصری قبطی دوست‘ کی حیثیت سے متعارف کیا۔ ’’مصور ہیں، کلاسیکل مصری آرٹ کے استاد۔ میں ان سے امریکہ میں ملی تھی۔‘‘ پھر السید دکتور ثوث الہرمیز نے ٹریڈیشنل مصری تصویریں بنانا شروع کیں۔ جو دھڑا دھڑ بکیں۔ بمبئی میں آپ نے کمبا لاہل پر ایک فلیٹ کرائے پر لیا اور بہت جلد شہر کے متمول و مقبول شخصیت بن گئے۔ کسی ترکیب سے ایک گلف اسٹیٹ کا پاسپورٹ حاصل کر لیا۔ مغربی یورپ اور امریکہ کے کئی چکر لگائے۔ عمر شریف کی طرح ہینڈسم، کامیاب، دولت مند رومینٹک، بھائی ثوث ٹھاٹھ کر رہے تھے۔
پدما بدستور جنوبی ہند کی اس لیباریٹری میں ملازم تھی۔ سال پہ سال گزرتے گئے ایک روز اس کی ماں نے کہا، ’’تمہارا ایجپشین کو پٹک دوست شادی نہیں کرے گا کیا؟ سنا ہے بمبئی میں ہر وقت چھوکریوں میں گھرا رہتا ہے۔‘‘ پدما خاموش رہی۔ ثوث کو اس سے ملاقات کرنے کی فرصت ہی نہیں تھی۔ کبھی سال دو سال میں اتفاقاً مل جاتا۔ کرسمس اور سال نو کے کارڈ البتہ پابندی سے بھیجتا۔ بات دراصل یہ تھی کہ پدما معمولی شکل صورت کی سیدھی سی لڑکی تھی۔ اور موسیو ثوث ہرمیز ایک گلیمرس celebrity تھے، جو حسیناؤں کے نرغے میں شاداں و فرحاں تھے۔ دوسری بات یہ کہ مرد چاہے وہ ۱۳۱۵ ق۔م کا ہو، چاہے ۱۹۷۳ء کا، ذہنیت اس کی وہی رہے گی۔۔۔ بے ہودہ۔۔۔
یہ جون ۱۹۷۵ء کا ذکر ہے۔ پدما دو ہفتے کی چھٹی لے کراپنی خالہ کے ہاں بمبئی آئی ہوئی تھی اور باندرہ میں ٹھہری تھی۔ ایک شام اس نے ثوث کی خیر خبر لینے کے لیے اسے فون کیا، ’’اگر تم زیادہ مصروف نہ ہو تو کھانا ہم لوگوں کے ساتھ آکر کھاؤ۔۔۔‘‘
’’تم ہی آجاؤ۔۔۔‘‘ ثوث کی بے زار سی آواز آئی۔۔۔‘‘میں اتنی دور باندرہ کہاں آتا پھروں گا۔۔۔‘‘ بد دماغی کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے۔ پدما نے سوچا۔ مگر وہ ثوث کو بہرحال اپنی ذمے داری سمجھی تھی۔ ٹیکسی لے کر کمبا لاہل اولمپیا بلڈنگ پہنچی۔ وہ اپنے لکژری اپارٹمنٹ کے ڈرائنگ روم میں ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھا Brood کر رہا تھا۔ اسکرین پر مصر و اسرائیل کے متعلق ایک مباحثہ ہو رہا تھا۔ پدما جاکر ایک صوفے پر ٹک گئی۔ ثوث اس کی طرف متوجہ نہ ہوا۔ پھر دفعتاً ٹیلی ویژن بند کردیا۔ اور بولا، ’’میں مصر جا کر لڑنا چاہتا ہوں۔۔۔‘‘
’’یوم کپروار تو کافی پرانی بات ہوچکی۔۔۔‘‘ پدما نے آہستہ سے کہا۔ ’’رمضان وار۔۔۔‘‘ ثوث نے گرج کر تصحیح کی۔ ’’او۔ کے۔ رمضان دار۔۔۔‘‘
’’میں فوج میں بھرتی ہوجاؤں گا۔۔۔‘‘
’’اس کے لیے غالباً اب تمہاری عمر نہیں ہے۔۔۔‘‘
’’شٹ اپ؟‘‘ اس نے اسکاچ وہسکی کا دوسرا گلاس بھرا۔ ’’ثوث تم شراب بہت پینے لگے ہو‘‘، پدما نے نرمی سے کہا۔ ثوث نے جھنجھلا کر جواب دیا۔۔۔ ’’مجھ سے بیویوں کی طرف بات مت کرو۔‘‘
’’آئی بگ یورپارڈن‘‘، اب پدما کو واقعی غصہ آگیا۔ ’’سوری۔۔۔! پدما۔۔۔ آئی ایم سوری‘‘، ثوث نے دھیرے سے کہا۔ وہ بہت آزردہ نظر آرہا تھا۔ ’’ثوث۔۔۔ ہنی۔۔۔ آخر بات کیا ہے۔۔۔؟‘‘ پدما نے دریافت کیا۔ ’’بتاؤں۔۔۔؟‘‘ اس نے رک کر کہا۔ ’’بات یہ ہے کہ پدما! کہ مجھے اپنا وقت یاد آرہا ہے۔ میں اپنے وقت میں واپس جانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’اپنے وقت میں۔۔۔؟‘‘ پدما نے حیرت سے دہرایا۔ ’’یہ زمانہ چھوڑ کر۔۔۔؟‘‘
’’یہ زمانہ۔۔۔؟ اس میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں۔۔۔؟‘‘ اس نے تلخی سے کہا اور پھر ٹیلی ویژن کھولا۔۔۔ نیوز ریل میں دنیا بھر میں بپا جنگوں اور نسلی اور مذہبی فسادوں کے مناظر دکھائے جارہے تھے۔‘‘
’’بتاؤ مجھ سے سوا تین ہزار سال بعد تم کتنی متمدن ہو۔۔۔؟ ہم بنی اسرائیل پر ظلم ڈھاتے تھے اور اشوریہ سے لڑتے تھے۔ تم سب ایک دوسرے کے ساتھ بے انتہا پیار محبت سے رہتے ہو۔ ہمارے فراعنہ ستم پیشہ تھے۔ تمہارے حکمراں فرشتے ہیں۔ ہم موت سے ڈرتے تھے۔ تم موت کے خوف سے آزاد ہوچکے ہو۔ تم عالی شان مقبرے نہیں بناتے، مردہ پرستی نہیں کرتے، نوحے نہیں لکھتے، شعر و شاعری بھی ترک کرچکے ہو۔
’’تمہارے مذاہب، فلسفے، اخلاقیات، نفسیات۔۔۔‘‘ وہسکی کا گلاس میز پر پٹخ کر زور سے ہنسا۔ ’’تمہاری دیو مالائیں، نظریہ تثلیث، روحانیت، یہ، وہ، سب عین سائینٹفک ہیں۔ تمہاری جنگیں ہیومنزم پر مبنی ہیں۔ تمہارا نیوکلیر بم بھی خالص انسان دوستی ہے۔۔۔ ہے نا۔۔۔؟ تمہاری روشنی کی رفتار واقعی تیز ہے۔۔۔؟‘‘
’’تم تھوڑی دیر کے لیے خود کو Out of Time محسوس کر رہے ہو اورکوئی بات نہیں۔ چلو پکچرز ہو آئیں۔‘‘
’’اوہ ڈو شٹ اپ۔ اینڈ لیومی الون۔‘‘
’’او۔ کے۔‘‘ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’گڈ نائٹ ثوث۔۔۔‘‘ وہ دروازے کی طرف بڑھی۔
’’پدما۔۔۔‘‘ ثوث نے آواز دی۔۔۔ ’’پدما آئی ایم سوری۔۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے ثوث۔۔۔‘‘
’’پدما یہاں آؤ۔ بیٹھ جاؤ۔ سنو۔ بات یہ ہے کہ مجھے اپنے ماں باپ اور بہنیں یاد آرہی ہیں میں اپنے گھر جانا چاہتا ہوں۔ تمہارا وہ روکٹ وہ ابھی تمہارے موٹر خانے میں مقفل پڑا ہے نا۔۔۔؟ ’’ہے تو سہی۔ میں اس کے متعلق سوچنا بھی نہیں چاہتی۔ ڈر لگتا ہے۔‘‘
’’مجھے اس میں واپس پہنچا آؤ۔ میں نے کافی مستقبل دیکھ لیا۔‘‘
’’تم زیادتی کر رہے ہو۔ ہم اتنے برے تو نہیں۔ یہ تمہارا وقتی موڈ ہے۔۔۔‘‘
’’ممکن ہے۔ مگر اصلیت یہ ہے کہ میں ہوم سک ہوں۔۔۔‘‘
’’ٹایم سک۔۔۔‘‘ پدما نے تصحیح کی۔ ’’اچھا جو تمہاری مرضی۔ لیکن یاد رکھو۔ یہ روکٹ روشنی کی رفتار سے آگے صرف چار مرتبہ سفر کرسکتا ہے۔ تم کو ممفس میں چھوڑ کر جب میں اس دفعہ واپس آؤں گی اس کے بعد تم دوبارہ یہاں نہ آسکو گے۔‘‘
’’منظور!‘‘ ثوث نے کہا۔
سنہ ۱۳۰۶ ق۔م میں جھیل کے کنارے چرواہا اسی طرح بکریاں چرا رہا تھا۔ نو برس میں وہ جوان ہوچکا تھا۔ پدما اور ثوث کو روکٹ کی سیڑھیاں اترتے دیکھ کر فوراً سجدے میں گر گیا۔ ثوث نے ۱۹۷۵ء سے روانہ ہوتے وقت اپنے پرانے کپڑے اور زیورات پہن لیے تھے۔ اور وہی پرانا ثوث لگ رہا تھا۔ ’’میں شہر نہیں جاؤں گی۔ تمہارا بادشاہ پھر پکڑے گا۔‘‘
’’جہاں پناہ قصر الشمس میں تشریف رکھتے ہیں یا تھیبز گئے ہوئے ہیں۔۔۔؟‘‘ ثوث نے چرواہے سے دریافت کیا۔ ’’پچھلے فرزند رع رحلت فرما چکے۔۔۔‘‘ اس نے اہرام کی سمت اشارہ کیا، جہاں ایک نیا مقبرہ تعمیر کیا جارہا تھا۔ رعمسیس دوم آج کل تھیبز میں رونق افروز ہیں۔‘‘
’’پدما! چلو تمہیں تھیبز دکھلا لاؤں۔ نیا بادشاہ طبعاً بے رحم ہے، لیکن میرے ساتھ کا کھیلا ہوا ہے تم کو کوئی گزند نہ پہنچائے گا۔ اور اپنی ملکہ پر عاشق ہے۔ دوسری شادی کی بھی نہیں سوجھے گی۔ چلو کل پرسوں واپس آجانا۔‘‘
وہ بجرے پر سوار ہو کر تھیبز روانہ ہوئے ثوث اپنے وقت میں واپس آکر واقعی بے حد خوش اور مطمئن نظر آرہا تھا۔ دریا پر دور سے فلک بوس محلات نظر آئے۔ ’’یہ اسوان ڈیم میں ڈوب چکے ہیں‘‘، ثوث نے پدما کو یاد دلایا۔
’’بہت سے بچا بھی لیے گئے ہیں‘‘، پدما نے فوراً جواب دیا۔ ملکہ ہا تیشپست، طوطمس سویم، سیتی اول، ہوردتااور مین تاہ کے عظیم الجثہ مجسموں کے نیچے سے گزرتا ہوا بط نما بجرہ سمر پیلیس کی سیڑھیوں سے جا لگا۔ ثوث کے والدین بہنیں، اورشاہی خاندان کے چند افراد سامنے وسیع دالان میں کرسیوں پر نیم دراز خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ وہ موسم گرما کی ایک سست خرام، کاہل سہ پہر تھی اور دھوپ دریائے نیل پر سے اترتی جارہی تھی۔ ثوث نے ان سب سے کہا کہ دیبی حاثور کا حکم نہیں کسی کو بتائے کہ دو شیزہ فلک کے ساتھ اتنے عرصے کہاں غائب رہا۔
چوتھے دن وہ تھیبز سے روانہ ہوئی۔۔۔ ثوث اسے نخلستان تک پہنچانے آیا۔ جھیل کے کنارے انہوں نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں، پدما سکتے میں رہ گئی۔ کھجوروں کے سامنے روکٹ موجود نہ تھا۔ پدما کی ٹانگیں لرزنے لگیں۔ زمین پاؤں تلے سے نکل گئی اور وہ وہیں ریت پر بیٹھ گئی۔ ثوث سراسیمگی سے نخلستان کے گرداگرد دیکھ آیا، چرواہوں کو آواز دی۔ سپاٹ رتیلے میدان میں روکٹ کا کہیں دور دور پتہ نہ تھا۔ ثوث پدما کے پاس آیا وہ ریت پر سرنگوں بیٹھی تھی۔ ثوث کی نظر قریب کے ایک پتھر پر پڑی۔ اس کے نیچے پیپائرس کا ایک زرد ٹکڑا دبا ہوا تھا۔ ثوث نے اسے کھینچ لیا۔ پڑھا اور پدما کو کودے دیا۔ عبرانی میں لکھا تھا،
مریم بنت ابراہیم۔ شالوم علیخم۔ کل دوپہر پچھلے فرعون علیہ اللعنۃ کے مقبرے کے لیے پتھر ڈھوتے ہوئے مجھے اتنے کوڑے لگائے گئے کہ میں جاں بلب ہو کر پانی پینے کے لیے گھسٹتا اس جھیل پر آیا اور یہاں تمہارا روکٹ فرشتہ رحمت کے مانند جگمگاتا دیکھا۔ نو برس قبل اس رات تم نے مجھے جو کچھ بتایا تھا سب رتی رتی مجھے یاد ہے۔ زیر تعمیر مقبرے کے مصری انجینئر تین چار دن سے آپس میں تذکرہ کر رہے ہیں کہ دو شیزہ فلک امیر زادہ ثوث ہرمیز کو واپس لے آئی ہے اور تھیبز گئی ہوئی ہے۔ اس سے مجھے خیال ہوتا ہے کہ ابھی تم شاید چند روز یہاں قیام کروگی۔ تم نے یہ بھی کہا تھا کہ رعمسیس دویم کے عہد میں موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوں گے اور کیا معلوم اس وقت جب کہ میں تم کو یہ سطور لکھ رہا ہوں وہ ہمارے محلے کے کسی گھرانے میں پیدا ہوچکے ہوں لیکن ان کے بڑے ہونے اور ہمارے ایکزوڈس میں ابھی بہت دیر ہے، کیا جانیے کب ہوگا اور کیا ہوگا۔ میں اب اگر شہر واپس جاتا ہوں۔ عبرانی غلاموں کانگران اعلیٰ جو میرے خون کا پیاسا ہو رہا ہے، مجھے ریت میں زندہ دفن کردے گا۔ لہٰذا جان عزیز بچانے کے لیے تمہارے روکٹ پر بیٹھ کر تمہارے وقت میں جارہا ہوں۔ سب سے پہلے نیو یارک جاؤں گا جس کے بارے میں تم نے مجھے اس رات بتایا تھا، اس کے بعد اسرائیل، وہاں سٹیل ہوتے ہی فوراً جلد از جلد، خدائے ابراہیم ؑ و اسحاقؑ کی قسم میں یہاں آکر تم کو تمہارے وقت میں لے جاؤں گا۔ جو آج سے میرا وقت بھی ہے۔
تمہارا بھائی میخائیل بن حنّان بن یعقوب (آج سے مائیکل۔ ایچ۔ جیکب عرف مائیک)
پرچہ پدما کے ہاتھ سے ریت پر گر گیا اس کی آنکھوں تلے اندھیرا چھایا اور چکرا کر گرنے لگی۔ ثوث نے اسے فوراً سنبھالا۔
’’پدما! اس نے لکھا ہے تم کو لینے واپس آئے گا۔ گھبراؤ نہیں میں اسے بچپن سے جانتا ہوں۔ ایماندار، راست باز لڑکا ہے۔ یاد کرو۔ میں بھی اپنی جان بچانے کی خاطر تمہارے ساتھ بھاگ نکلا تھا۔ وہ ضرور واپس آئے گا۔‘‘
’’ثوث۔۔۔‘‘ پدما میری نے آہستہ سے کہا۔ ’’۱۹۷۵ء سے روانہ ہوتے وقت میں نے تم کو بتایا تھا یہ روکٹ روشنی کی رفتار سے آگے صرف چار مرتبہ پرواز کرسکتا ہے۔‘‘
مأخذ : قرۃ العین حیدر کی منتخب کہانیاں
مصنف:قرۃ العین حیدر