کہانی کی کہانی:’’کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ طلبا کے ایک گروپ کی کہانی جو رات کی تاریکی میں گاؤں کے لیے سفر کر رہا ہوتا ہے۔ سبھی ایک بیل گاڑی میں سوار ہیں اور گروپ کا ایک ساتھی ماہیا گا رہا ہے دوسرے اسے غور سے سن رہے ہیں۔ بیچ بیچ میں کوئی ٹوک دیتا ہے اور تیسرا اس کا جواب دینے لگتا ہے۔ دیا گیا جواب فقط ایک جواب نہیں ہے بلکہ انکے احساسات بھی اس میں شامل ہیں۔‘‘
کرتار سنگھ نے اونچی آواز میں ایک اور گیت شروع کردیا۔ وہ بہت دیر سے وہی ایک ماہیا الاپ رہا تھا جس کو سنتے سنتے حمیدہ کرتار سنگھ کی پنکج جیسی تانوں سے، اس کی خوب صورت داڑھی سے، ساری کائنات سے اب اس شدت کے ساتھ بےزار ہوچکی تھی کہ اسے خوف ہوچلا تھا کہ کہیں وہ سچ مچ اس خواہ مخواہ کی نفرت و بے زاری کا اعلان نہ کر بیٹھے اور کامریڈ کرتار ایسا سویٹ ہے فوراً برا مان جائے گا۔ آج کے بیچ میں اگر وہ شامل نہ ہوتا تو باقی کے ساتھی تو اس قدر سنجیدگی کے موڈ میں تھے کہ حمیدہ کو زندگی سے اکتا کر خودکشی کرنی پڑجاتی۔ کرتار سنگھ گڈو گراموفون تک ساتھ اٹھا لایا تھا۔ ملکہ پکھراج کا ایک ریکارڈ تو کیمپ ہی میں ٹوٹ چکا تھا، لیکن خیر۔
حمیدہ اپنی سرخ کنارے والی ساڑی کے آنچل کو شانوں کے گرد بہت احتیاط سے لپیٹ کر ذرا اور اوپر کو ہو کے بیٹھ گئی جیسے کامریڈ کرتار کے ماہیا کو بے حد دل چسپی سے سن رہی ہے۔ لیکن نہ معلوم کیسی الٹی پلٹی الجھی الجھی بے تکی باتیں اس وقت اس کے دماغ میں گھسی آرہی تھیں۔ وہ ’’جاگ سوزِ عشق جاگ‘‘ والا بے چارہ ریکارڈ شکنتلا نے توڑ دیا۔
’’افوہ بھئی۔‘‘ بیل گاڑی کے ہچکولوں سے اس کے سر میں ہلکا ہلکا درد ہونے لگا اور ابھی کتنے بہت سے کام کرنے کو پڑے تھے۔ پورے گاؤں میں ہیضے کے ٹیکے لگانے کو پڑے تھے۔ ’’توبہ!‘‘ کامریڈ صبیح الدین کے گھونگھریالے بالوں کے سر کے نیچے رکھے ہوئے دواؤں کے بکس میں سے نکل کر دواؤں کی تیز بوسیدھی اس کے دماغ میں پہنچ رہی تھی اور اسے مستقل طور پر یاد دلائے جارہی تھی کہ زندگی واقعی بہت ہی تلخ اور ناگوار ہے۔۔۔ ایک گھسا ہوا، بے کار اور فالتوسا ریکارڈ جس میں سے سوئی کی ٹھیس لگتے ہی وہی مدھم اور لرزتی ہوئی تانیں بلند ہوجاتی تھیں جو نغمے کی لہروں میں قید رہتے رہتے تھک چکی تھیں۔ اگر اس ریکارڈ کو، جو مدتوں سے ریڈیو گرام کے نچلے خانے میں تازہ ترین البم کے نیچے دبا پڑا تھا، زورسے زمین پر پٹخ دیا جاتا تو حمیدہ خوشی سے ناچ اٹھتی۔
کتنی بہت سی ایسی چیزیں تھیں جو وہ چاہتی تھی کہ دنیا میں نہ ہوتیں تو کیسا مزہ رہتا۔۔۔ اور اس وقت تو ایسا لگا جیسے سچ مچ اس نے ”I dreamt I dwell in marble halls والے گھسے ہوئے ریکارڈ کو فرش پر پٹخ کے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے اور جھک کر اس کی کرچیں چنتے ہوئے اسے بہت ہی لطف آرہا ہے۔ عنابی موزیک کے اس فرش پر، جس پہ ایک دفعہ ایک ہلکے پھلکے Foxtort میں بہتے ہوئے اس نے سوچا تھا کہ بس زندگی سمٹ سمٹا کے اس چمکیلی سطح، ان زرد پردوں کی رومان آفریں سلوٹوں اور دیواروں میں سے جھانکتی ہوئی ان مدّھم برقی روشنیوں کے خواب آلود دھندلکے میں سماگئی ہے، یہ تپش انگیز جاز یوں ہی بجتا رہے گا، اندھیرے کرنوں میں رکھے ہوئے سیاہی مائل سبز فرن کی ڈالیاں ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکوں میں اسی طرح جھکولے کھاتی رہیں گی اور ریڈیو گرام میں ہمیشہ پولکا اور رمبا کے نئے نئے ریکارڈ لگتے جائیں گے۔ یہ تھوڑا ہی ممکن ہے کہ جو باتیں اسے قطعی پسند نہیں وہ بس ہوتی ہی چلی جائیں۔۔۔ ریکارڈ گھستے جائیں اور ٹوٹتے جائیں۔
لیکن یہ ریکارڈوں کا کیا فلسفہ ہے آخر؟ حمیدہ کو ہنسی آگئی۔اس نے جلدی سے کرتار سنگھ کی طرف دیکھا۔ کہیں وہ یہ نہ سمجھ لے کہ وہ اس کے گانے پر ہنس رہی ہے۔
کامریڈ کرتار گائے جارہا تھا، ’’وس وس وے ڈھولنا۔۔۔‘‘ اُف! یہ پنجابی کے بعض الفاظ کس قدر بھونڈے ہوتے ہیں۔حمیدہ ایک ہی طریقے سے بیٹھے بیٹھے تھک کے بانس کے سہارے آگے کی طرف جھک گئی۔ بہتی ہوئی ہوا میں اس کا سرخ آنچل پھٹپھٹائے جارہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اسے چمپئی رنگ کی ساڑی بہت سوٹ کرتی ہے۔ اس کے ساتھ کے سب لڑکے کہا کرتے تھے کہ اگر اس کی آنکھیں ذرا اور سیاہ اور ہونٹ ذرا اور پتلے ہوتے تو ایشیائی حسن کا بہترین نمونہ بن جاتی۔ یہ لڑکے عورتوں کے حسن کے کتنے قدر دان ہوتے ہیں۔ یونی ورسٹی میں ہر سال کس قدر چھان بین اور تفصیلات کے مکمل جائزے کے بعد لڑکیوں کو خطابات دیئے جاتے تھے اور جب نوٹس بورڈ پر سالِ نو کے اعزازات کی فہرست لگتی تھی تو لڑکیاں کیسی بے نیازی اور خفگی کا اظہار کرتی ہوئی اس کی طرف نظر کیے بغیر کو ریڈور میں سے گزرجاتی تھیں۔ کم بخت سوچ سوچ کے کیسے مناسب نام ایجاد کرتے تھے، ’’عمر خیام کی رباعی‘‘، ’’دہرہ دون ایکسپریس‘‘، ’’بال آف فائر‘‘، It’s love I’m after، ’’نقوشِ چغتائی‘‘، ’’بلڈبنک۔‘‘
گاڑی دھچکے کھاتی چلی جارہی تھی۔ ’’کیا بجا ہوگا کامریڈ؟‘‘ گاڑی کے پچھلے حصّے میں سے منظور نے جمائی لے کر جتندرسے پوچھا، ’’ساڑھے چار۔ ابھی ہمیں چلتے ہوئے ایک گھنٹہ بھی نہیں ہوا۔‘‘ جتندر اپنا چارخانہ کوٹ گاڑی بان کے پاس پرال پر بچھائے، کہنی پر سر رکھے چپ چاپ پڑا تھا۔ شکنتلا بھی شاید سونے لگی تھی حالاں کہ وہ بہت دیر سے اس کوشش میں مصروف تھی کہ بس ستاروں کو دیکھتی رہے۔ وہ اپنے پیر ذرا اور نہ سکیڑتی لیکن پاس کی جگہ کامریڈ کرتار نے گھیر رکھی تھی۔ شکنتلا بار بار خود کو یاد دلا رہی تھی کہ اس کی آنکھوں میں اتنی سی بھی نیند نہیں گھسنی چاہیے۔ ذرا ویسی یعنی نا مناسب سی بات ہے، لیکن دھان کے کھیتوں اور گھنے باغوں کے اوپر سے آتی ہوئی ہوا میں کافی خنکی آچلی تھی اور ستارے مدھم پڑتے جارہے تھے۔ ’’بس بس وے ڈھولنا۔‘‘
اور اب کرتار سنگھ کا جی بے تحاشا چاہ رہا تھا کہ اپنا صافہ اتار کے ایک طرف ڈال دے اور ہوا میں ہاتھ پھیلا کے ایک ایسی زور دار انگڑائی لے کہ اس کی ساری تھکن، کوفت اور درماندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کہیں کھوجائے یا صرف چند لمحوں کے لیے دوبارہ وہی انسان بن جائے جو کبھی جھیلم کے سنہرے پانیوں میں چاند کو ہلکورے کھاتا دیکھ کر امرجیت کے ساتھ پنکج کی سی تانیں اڑایا کرتا تھا۔یہ لمحے، جب کہ تاروں کی بھیگی بھیگی چھاؤں میں بیل گاڑی کچی سڑک پر گھستی ہوئی آگے بڑھتی جارہی تھی، اور جب کہ سارے ساتھیوں کے دلوں میں ایک بیمار سا احساس منڈلا رہا تھا کہ پارٹی میں کام کرنے کا آتشیں جوش و خروش کب کا بجھ چکا ہے۔
ہوا کا ایک بھاری سا جھونکا گاڑی کے اوپر سے گزر گیا اور صبیح الدین اور جتندر کے بال ہوا میں لہرانے لگے لیکن کرتار سنگھ لیڈیز کی موجودگی میں اپنا صافہ کیسے اتارتا؟ اس نے ایک لمبا سانس لے کر دواؤں کے بکس پر سر ٹیک دیا اور ستاروں کو تکنے لگا۔ ایک دفعہ شکنتلا نے اس سے کہا تھا کہ کامریڈ تم اپنی داڑھی کے باوجود کافی ڈیشنگ لگتے ہو اور یہ کہ اگر تم ایئر فورس میں چلے جاؤ تو اور بھی killing لگنے لگو۔
اُف یہ لڑکیاں!
’’کامریڈ سگریٹ لو۔‘‘صبیح الدین نے اپنا سگرٹوں کا ڈبّہ منظور کی طرف پھینک دیا۔ جتندر اور منظور نے ماچس کے اوپر جھک کے سگریٹ سلگائے اور پھر اپنے اپنے خیالوں میں کھو گیے۔ صبیح الدین ہمیشہ عبد اللہ اور کریون سے پیار کرتا تھا۔ عبد اللہ تو بلکہ اب ملتا بھی نہیں۔ صبیح الدین ویسے بھی بہت ہی رئیسانہ خیالات کا مالک تھا۔ اس کا باپ تو ایک بہت بڑا تعلقہ دار تھا۔ اس کا نام کتنا اسمارٹ اور خوب صورت تھا: صبیح الدین احمد۔۔۔ مخدوم زادہ راجہ صبیح الدین احمد خاں! افوہ! اس کے پاس دو بڑی بڑی چمک دار موٹریں تھیں۔ ایک موریس اور ایک ڈی۔ کے۔ ڈبلیو۔ لیکن کنگ جارجز سے نکلتے ہی آئی۔ ایم۔ ایس۔ میں جانے کے بجائے وہ پارٹی کا ایک سرگرم ورکر بن گیا تھا۔ حمیدہ ایسے آدمیوں کو بہت پسند کرتی تھی۔ آئیڈیل قسم کے۔ لیکن اگر صبیح الدین اپنی موریس کے اسٹیئرنگ پر ایک بازو رکھ کے اور جھک کے اس سے کہتا کہ حمیدہ مجھے تمہاری سیاہ آنکھیں بہت اچھی لگتی ہیں، بہت ہی زیادہ۔۔۔ تو وہ یقینا اسے ایک زور دار تھپڑ رسید کرتی۔ پانی کے رنگین بلبلے!
کرتار سنگھ خاموش تھا۔ سگریٹ کی گرمی نے منظور کی تھکن اور افسردگی ذرا دور کردی تھی۔ ہوا میں زیادہ ٹھنڈک آچلی تھی۔ جتندر نے اپنا چارخانہ کوٹ کندھوں پر ڈال لیا اور پرانی پرال میں ٹانگیں گھسا دیں۔ منظور کو کھانسی اٹھنے لگی، ’’کامریڈ تم کو اتنے زیادہ سگریٹ نہیں پینے چاہئیں۔‘‘شکنتلا نے ہمدردی کے ساتھ کہا۔ منظور نے اپنے مخصوص انداز سے زبان پر سے تمباکو کی پتّی ہٹائی اور سگریٹ کی راکھ نیچے جھٹک کر دور باجرے کی لہراتی ہوئی بالوں کے پرے افق کی سیاہ لکیر کو دیکھنے لگا۔۔۔ یہ لڑکیاں! طلعت کیسی فکرمندی سے کہا کرتی تھی، ’’منظور! تمہیں سردیوں بھرٹانک استعمال کرنے چاہئیں: اسکاٹس ایملشنؔ یاریڈیو ؔمالٹ یا آسٹومالٹؔ۔۔۔ طلعت، ایرانی بلی! پہلی مرتبہ جب بوٹ کلب کے Regatta میں ملی تھی تو اس نے ’’او گوش! تو آپ جرنلسٹ ہیں۔۔۔ اور اوپر سے کمیونسٹ بھی۔۔۔ افوہ!‘‘ اس انداز سے کہا تھا کہ ہیڈی لیمار بھی رشک کرتی۔ پھر، آخری بار، جب خوابوں کی بستیاں بس کے اجڑ چکی تھیں، اس نے دور سے منظور کو مرمریں ستون کے پاس، پام کے پتوں کے نیچے بیٹھا دیکھ لیا تھا اور اس کی طرف آئی تھی۔۔۔ اتنی ہمدرد تھی وہ۔۔۔ یقینا۔ اس نے پوچھا تھا،
’’ہلو چائلڈ۔ ہاؤازلاف؟‘‘
Ask me another. منظور نے کہا تھا۔
’’اللہ! لیکن یہ تم سب کو آخرکیا ہو گیا ہے۔‘‘ فکرِ جہاں کھائے جارہی ہے۔ مرے جارہے ہیں۔ سچ مچ تمہارے چہروں پر تو نحوست ٹپکنے لگی ہے۔ کہاں کا پروگرام ہے؟ مسوری چلتے ہو؟ پر لطف سیزن رہے گا اب کی دفعہ۔ بنگال؟ ارے ہاں، بنگال۔ ٹھیک تو ہے۔ ہاں میری بہترین خواہشیں اور دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ پکچرز چلو گے؟ ’’جین آئر‘‘ اس قدر غضب کی ہے ’’گوش!‘‘ پھر وہ چلی گئی۔ پیچھے کافی کی مشین کا ہلکا ہلکا شور اسی طرح جاری رہا اور دیواروں کی سبز روغنی سطح پر آنے جانے والوں کی پرچھائیاں رقص کرتی رہیں اور پھر کلکتے آنے سے ایک روز قبل منظور نے سنا کہ وہ اصغر سے کہہ رہی تھی، ’’ہونھ۔۔۔ منظور؟‘‘
صبیح الدین ہلکے ہلکے گنگنا رہا تھا! کہو تو ستاروں کی شمعیں بجھا دیں، ستاروں کی شمعیں بجھا دیں۔ یقیناً! بس کہنے کی دیر ہے۔ حمیدہ کے ہونٹوں پر ایک تلخ سی مسکراہٹ بکھر کے رہ گئی۔ دور دریا کے پل پر سے گھڑ گھڑاتی ہوئی ٹرین گزر رہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ روشنیوں کا عکس پانی میں ناچتا رہا، جیسے ایک بلوری میز پر رکھے ہوئے چاندی کے شمع دان جگمگا اٹھیں۔ چاندی کے شمع دان اور انگوروں کی بیل سے چھپی ہوئی بالکونی، آئس کریم کے پیالے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے اور برقی پنکھے تیزی سے چل رہے تھے۔ پیانو پر بیٹھی ہوئی وہ اپنے آپ کو کسی طربیہ کی ہیروئن سمجھنے پر مجبور ہوگئی تھی۔Little sir Echo how do you do? hello, hello, wont you come over and dance with me پھر رافے اسٹیئرنگ پر ایک بازو رکھ کر رابرٹ ٹیلر کے انداز سے کہتا تھا، ’’حمیدہ تمہاری یہ سیاہ آنکھیں مجھے بہت پسند ہیں۔۔۔ بہت ہی زیادہ۔‘‘
یہ ’’بہت ہی زیادہ‘‘ حمیدہ کے لیے کیا نہ تھا؟ اور جب وہ سیدھی سڑک پر پینتالیس کی رفتار سے کار چھوڑ کر وہی I dreamt I dwell in marbel halls گانا شروع کردیتا تو حمیدہ کو یہ سوچ کر کتنی خوشی ہوتی اور کچھ فخر سا محسوس ہوتا کہ رافے کی ماں موزارٹ کی ہم وطن ہے۔۔۔ آسٹرین۔ اس کی نیلی چھلکتی ہوئی آنکھیں، اس کے نارنجی بال۔۔۔ اُف اللہ! اور کسی گھنے ناشپاتی کے درخت کے سائے میں کار ٹھہر جاتی اور حمیدہ جام کا ڈبہ کھولتے ہوئے سوچتی کہ بس میں بسکٹوں پر جام لگاتی رہوں گی۔ رافی انہیں کترتا رہے گا۔ اس کی بیوک پینتالیس کی رفتار پر چلتی جائے گی اوریہ چناروں سے گھری ہوئی سڑک کبھی ختم نہ ہوگی۔
لیکن ستاروں کی شمعیں آپ سے آپ ہی بجھ گئیں۔ اندھیرا چھا گیا اور اندھیرے میں بیل گاڑی کی لالٹین کی بیمار روشنی ٹمٹما رہی تھی۔
ہو لا لا لا۔۔۔ دور کسی کھیت کے کنارے ایک کمزور سے کسان نے اپنی پوری طاقت سے چڑیوں کو ڈرانے کے لیے ہانک لگائی۔ گاڑی بان اپنے مریل بیلوں کی دُمیں مڑوڑ مڑوڑ کر انہیں گالیاں دے رہا تھا اور منظور کی کھانسی اب تک نہ رکی تھی۔ حمیدہ نے اوپر دیکھا۔ شبنم آلود دھندلکے میں چھپے ہوئے افق پر ہلکی ہلکی سفیدی پھیلنی شروع ہوگئی تھی۔ کہیں دور کی مسجد میں سے اذان کی تھرائی ہوئی صدا بلند ہورہی تھی۔ حمیدہ سنبھل کر بیٹھ گئی اور غیر ارادی طور پر آنچل سے سرڈھک لیا۔
جتندر اپنے چارخانہ کوٹ کا تکیہ بنائے شاید لیٹنؔ کوارٹر اور سو ہو کے خواب دیکھ رہا تھا۔ مائیرا، ڈونا مائیرا۔ حمیدہ کی ساڑی کے آنچل کی سرخ دھاریاں اس کی نیم وا آنکھوں کے سامنے لہرا رہی تھیں۔ مائیرا ، اس کے نقرئی قہقہے، اس کا گتار، اکھڑی ہوئی ریل کی پٹریاں اور ٹوٹے ہوئے کھمبے۔ پیرس کا وہ مضافاتی ریلوے اسٹیشن جس کے خوب صورت پلیٹ فارم پر ایک اتوار کو اس نے سرخ اور زرد گلاب کے پھول خریدے تھے۔ وہ لطیف سا، رنگین سا سکون جو اسے مائیرا کے تاریخی بالوں کے ڈھیر میں ان سرخ شگوفوں کو دیکھ کے حاصل ہوتا تھا۔وہ تھک کے گتار سبزے پر ایک طرف پھینک دیتی تھی اور اسے محسوس ہوتا تھا کہ ساری کائنات سرخ گلاب اور ستارہ سحری کی کلیوں کا ایک بڑا سا ڈھیر ہے۔
لیکن تاکستانوں میں گھرے ہوئے اس ریلوے اسٹیشن کے پرخچے اڑ گیے اور طیّاروں کی گڑگڑاہٹ اور طیّارہ شکن توپوں کی گرج میں شوبرٹ کے Rose monde کی لہریں اور گتار کی رسیلی گونج کہیں بہت دور فیڈ آؤٹ ہوگئی۔ اور حمیدہ کا آنچل صبح کی ٹھنڈی ہوا میں پھٹپھٹاتا رہا، اس سرخ پرچم کی طرح جسے بلند رکھنے کے لیے جدو جہد اور کشمکش کرتے کرتے وہ تھک چکا تھا، اکتا چکا تھا۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں۔
’’سگریٹ لو بھئی۔‘‘صبیح الدین نے منظور کو آواز دی۔
’’اب کیا بج گیا ہوگا؟ ‘ شکنتلا بہت دیر سے زیرِ لب بھیروکا ’’گو موہن پیارے‘‘ گنگنا رہی تھی۔
حمیدہ سڑک کی ریکھائیں گن رہی تھی اور کرتار سنگھ سوچ رہا تھا کہ ’’وس وس وے ڈھولنا‘‘ پھر سے شروع کردے۔
گاؤں ابھی بہت دور تھا۔
مأخذ : Sitaron Se Aage
مصنف:قرۃ العین حیدر